30 C
Lahore
Saturday, July 27, 2024

Book Store

طوفان کے بعد

 

طوفان کے بعد

محمد جمیل اختر

 

ساری رات بارش ہوتی رہی تھی۔ صبح جب لوگوں نے گھروں کے دروازے کھولے تو گلیوں میں پانی ابھی بھی بہ رہا تھا۔ درختوں کی ٹہنیاں جو کل تک پتوں میں چُھپی ہوئی تھیں، آج یوں دکھائی دے رہی تھیں جیسے اِن پر کبھی کوئی پتا اُگا ہی نہ ہو۔
درختوں کی جھکی اُداس ٹہنیاں کسی ہجر کا استعارہ معلوم ہوتی تھیں۔ بچے کاغذ کی کشتیاں بنا کر پانی سے کھیل رہے تھے۔ اُن بچوں کے قہقہے طوفان کے بعد پھر زندگی کے ہونے کا ثبوت تھے، لیکن وہ نوجوان جس کی عمر بیس اکیس سال ہو گی، اپنے کمرے میں کمبل کے اندرحالتِ خوف میں کانپ رہا تھا۔ اُس نے ایسا منظر دیکھ لیا تھا جو باوجود کوشش کے اُس کی آنکھوں سے ہٹ نہیں رہا تھا۔
کل رات جب بارش ہو رہی تھی، بیت الخلاء جانے کے لیے اُٹھا۔ پہلے اُس نے بکریوں کے کچے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ گاؤں میں اُن دنوں بکریوں پر عجیب و غریب ’’پاگل پن کی وبا ‘‘نے حملہ کر رکھا تھا۔ روز کسی نہ کسی کی بکری رات کو تڑپنے لگتی اور صبح تک زمین پر سر مار مار کر خود کو اتنا زخمی کر لیتی کہ اُسے بچانا ناممکن ہو جاتا۔
اس نوجوان کے پاس بھی تین بکریاں تھیں اور اُسے ڈر تھا کہ کہیں وہ پاگل نہ ہو جائیں۔ اُس وقت طوفان تو تھم چُکا تھا لیکن ہلکی ہلکی بوندا باندی ابھی بھی ہو رہی تھی۔ اِسی دوران اُسے چند آوازیں سنائی دیں۔ شاید کوئی لڑ رہا تھا۔ آوازیں یقیناً سامنے والے مکان سے آ رہی تھیں جو ابھی چند ہی روز پہلے آباد ہوا تھا۔ اُس نے آوازوں کو نظر انداز کیا اورجلدی سے بیت الخلاء میں گھس گیا۔ وہیں اُس نے گولی چلنے کی آواز سنی۔ باہر نکلا تو اُسے محسوس ہوا، دیوار کے اُس پار گلی میں کوئی دوڑ کر گزر رہا ہے۔ وہ فورا ًدیوار پر چڑھ کر گلی میں جھانکنے لگا۔ دُور ایک سایہ دوڑتا ہوا غائب ہو گیا تھا۔
سامنے کے مکان میں ہلکی روشنی والا بلب جل رہا تھا اور ایک آدمی خون میں لت پت پڑا تھا۔ نوجوان کو سمجھ نہ آئی کہ ایسی صورت ِحال میں اُسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ واپس آیا اور کمبل میں گھس گیا لیکن اُس منظر  نے اُسے بے حد خوفزدہ کر دیا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ابھی ایک ہفتہ پہلے ہی تو یہ آدمی اُن کے محلے میں رہنے آیا تھا اور آج اُسے کسی نے قتل کر دیا۔
گزشتہ اتوار گلی میں سامان سے بھرا ٹرک آ کر رُکا۔ چند مزدور سامان اُتارنے لگے۔ وہی آدمی جو اَب قتل ہو چکا تھا، مزدوروں کو سامان اندر  لے جانے کے لیے مختلف احکامات دے رہا تھا۔ اُس کی عمر کوئی چالیس سال کے لگ بھگ ہو گی۔ سر کے بال اور مونچھیں مکمل سیاہ تھیں۔ وہ یقیناً اِنھیں رنگتا ہو گا۔ آدمی کے اِس مکان میں منتقل ہونے کے تین روز بعد ایک عورت اُس کے دروازے پر دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔
لوگو میرے ساتھ ظلم ہو گیا۔ میرا شوہر مجھے اور بیٹی کو چھوڑ کر یہاں آ گیا ہے۔ اب وہ ضرور دوسری شادی کر لے گا۔ ہائے میرا کیا ہو گا؟‘‘
محلے کے لوگوں کے لیے یہ عجیب وغریب صورت ِحال تھی۔ وہ اُس آدمی سے ابھی پوری طرح واقف بھی نہیں تھے تو اِس عورت کوبھلا کیا جانتے، لیکن انھوں نے اُس گھنی مونچھوں والے صاحب سے پوچھا تھا کہ وہ کیوں اپنی بیوی کے ساتھ یہ ظلم کر رہا ہے؟ اُس نے محلے والوں کو بتایا کہ وہ تو خود اِس عورت سے تنگ ہے، بس بیٹی کی وجہ سے اِسے طلاق نہیں دے سکتا۔
یہ میری بیوی نہیں بلکہ جادوگرنی ہے۔ اِس نے مجھ پر جادو کروا رکھا ہے جس کی وجہ سے ہر وقت میرے سر میں درد رہتا اور خوابوں میں اژدھے منہ کھولے مجھے کھانے کے لیے دوڑے چلے آتے ہیں۔ ساری رات مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی میری چارپائی ہلارہا ہو۔
اُٹھ کر دیکھتا ہوں تو کوئی نہیں ہوتا۔ یہ خود دوسری شادی کرنا چاہتی ہے۔ جوان بیٹی کی وجہ سے اِسے طلاق بھی نہیں دے سکتا۔ ہائے میرے بیٹی جو مجھے بہت یاد آتی ہے لیکن وہ اپنی ماں کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔
محلے کے لوگوں نے اِس حمید نامی اس آدمی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور وہ عورت روتی پیٹتی واپس چلی گئی۔
وہ نوجوان کمبل میں لیٹا اب خوف سے کانپ رہا تھا۔ باہر صبح کی روشنی پھیل چکی تھی۔
’’قتل ہو گیا، نیا رہائشی قتل ہو گیا۔‘‘
اُس نے بستر ہی میں یہ آوازیں سُنیں۔ وہ بھاگ کر گلی میں گیا، جہاں ایک ہجوم جمع تھا۔ بارش کا پانی ابھی بھی گلی سے گزر رہا تھا، ساری رات بادل برسیں تو گلیاں اتنی جلدی پانی سے خالی نہیں ہوتیں۔
کچھ ہی دیر میں پولیس آ گئی اور محلے میں لوگوں سے تفتیش کرنے لگی۔
’’سچ پوچھیں تو ہم حمید صاحب کو ابھی مکمل طور پر جان ہی نہ پائے تھے سوائے یہ کہ وہ ایک ہفتہ قبل یہاں آئے اور رات کوئی اُنھیں قتل کر کے چلا گیا۔‘‘ ایک محلے دار نے ہمت کر کے پولیس کو بیان دیا۔
جناب! اُن کا اپنی بیوی کے ساتھ بھی جھگڑا چل رہا تھا۔ تین روز پہلے وہ عورت یہاں آئی اور لڑ جھگڑ کر چلی گئی۔ وہ جاتے ہوئے اسے بہت بددعائیں دے رہی تھی…اور وہ…انسپکٹر صاحب! وہ عورت جادو بھی کراتی ہے، ہو سکتا ہے اسی نے یہ سب…‘‘ ایک اور محلے دارنے ڈرتے ڈرتے اپنا جملہ مکمل کیا۔
کسی نے رات کو گولی چلنے کی آواز سنی تھی؟‘’ انسپکٹر نے پوچھا۔
کسی نے ہاتھ نہ اُٹھایا۔ وہ نوجوان عجیب تذبذب کا شکار تھا…ہاتھ اُٹھائے کہ نہیں لیکن پھر وہ بول اُٹھا۔
جی میں نے رات کو آواز سنی تھی۔ اُس وقت میں غسل خانے میں تھا۔
انسپکٹر اُس کے قریب آ گیا اور گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے سوالات کرنے لگا۔’’ رات کس وقت کی بات ہے؟
دو …ہاں یہ دو بجے کی بات ہے۔ بارش کی رفتار میں کمی آ گئی تھی۔ میں باہر آیا تو کسی کی اونچی آواز میں باتیں کرنے کی آواز آ رہی تھی۔ میں اُس وقت بکریوں کو دیکھ رہا تھا۔ جب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ بکریوں پر پاگل پن کی بیماری حملہ کر رہی ہے اور وہ زمین پر سر پٹخ پٹخ کر مر جاتی ہیں تو مجھے اِن کی فکر ستائے رکھتی ہے۔ میں نے غسل خانے ہی میں گولی چلنے کی آواز سُن لی تھی۔ باہر نکل کر میں جلدی سے بیرونی دیوار پر چڑھ گیا، لیکن کوئی بہت دُور بھاگے جارہا تھا۔ میں اُسے پہچان نہیں پایا۔
نوجوان! تمہیں ہمارے ساتھ پولیس اسٹیشن چلنا ہو گا۔‘‘ انسپکٹر نے کہا اور اسے پولیس وین میں بٹھا دیا گیا۔
لیکن جناب، میں نے توکسی کو دیکھا ہی نہیں۔ مجھے پولیس اسٹیشن کیوں لے جایا جا رہا ہے؟
ڈرو مت۔ تمہیں بس یہی بیان وہاں ریکارڈ کروانا ہے۔
اُس کا باپ پاس کھڑا سوچ رہا تھا آخر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اُس  نے گولی چلنے کی آوازسُنی۔ آواز کا کیا ہے وہ تو اُس  نے بھی سُنی تھی لیکن اِس کا یہ مطلب یہ نہیں کہ وہ قاتل کو جانتا ہے۔
اُس رات نوجوان بیان ریکارڈ کروانے گیا اور اب اُسے گئے گیارہواں مہینہ تھا۔ پولیس والے اُس سے قاتل کے متعلق بے تکے سوالات کیا کرتے۔
’’اُس کی شکل کیسی تھی؟
وہ دونوں کس بات پر جھگڑرہے تھے ؟ کیا اِس جھگڑے میں روپے پیسے یا زمین کی کوئی بات بھی تھی؟ کسی عورت کا نام جو تم  نے سنا ہو؟
گولی لگتے ہی وہ قاتل بھاگ گیا تھا یا اُس نے کچھ سامان بھی اُٹھایا تھا؟
کیا وہ اکیلاتھا؟
ایسے بہت سے سوالات جن کے جوابات اُسے معلوم نہیں تھے۔ وہ اِسے سزا کے طور پر اُلٹا لٹکا دیتے۔ اُس کا جی چاہتا کہ دیواروں سے سر پٹخ پٹخ کر مر جائے لیکن وہ بکری نہیں انسان تھا۔ اُسے اپنے ماں باپ یاد آ جاتے جو اُس کے انتظار میں روتے رہتے تھے۔
اُس کا باپ ہر ملاقات پر اُسے بتاتا کہ بہت جلد حمید کی بیوی کا پتا چل جائے گا۔ وہ اُسے تلاش کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ یقیناً اِس قتل کا دوسرا سِرا اُسے تلاش کرنے پر ہی ملے گا۔ وہ دیکھتا کہ چند ماہ ہی میں اُس کا باپ بے حد بوڑھا ہو چکا اور کمر میں خم آ گیا ہے۔ دُکھ انسان کو کتنی جلدی بوڑھا کر دیتا ہے۔ گویا خوشی جوانی اور دکھ بڑھاپا ہے۔
وہ ساری رات جیل کی کوٹھڑی میں لیٹا چھت کو گھورتا رہتا۔ جب کبھی نیند آتی تو وہ بس ایک ہی خواب دیکھتا۔ ایک ہی منظر اُس کے خوابوں سے چپک کر رہ گیا تھا۔ خواب میں سنہرے بالوں والی ایک لڑکی اُسے مسکرا کر دیکھتی اور پھر دُور ہوتی جاتی حتیٰ کہ ایک نکتے میں بدل جاتی۔ نوجوان خود کو صحرا میں دوڑتے دیکھتا جہاں ریت  نے اُسے ہر جانب سے گھیر لیا تھا۔ اچانک اس کی آنکھ کھل جاتی اور وہ سوچتا کہ یہ لڑکی کون ہے جسے وہ روز خواب میں دیکھتا ہے؟
ایک رات پولیس اہلکاروں کی غفلت کی وجہ سے وہ جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ بھاگتا رہا… بغیر اِدھر اُدھر دیکھے۔ اُسے کسی راستے کا علم نہیں تھا۔ جب آدمی کو کسی بھی راستے کا علم نہ ہو تو ہر راستہ اُس کا اپنا ہوتا ہے اور وہ کسی بھی طرف جا سکتا ہے۔
ابھی دن کی روشنی نہیں پھیلی تھی۔ وہ ایک بستی میں جا نکلا جو مکمل اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اب وہ تھک چکا تھا۔ اُس کا جوڑ جوڑ درد کی شدت سے ٹوٹ رہا تھا۔
وہ شاید اپنی زندگی میں پہلی بار سب سے زیادہ اُسی رات بھاگا تھا۔ آخر پیاس کی شدت سے چکرا کر گِر پڑا۔ کافی دیر اُوپر آسمان کی جانب ستاروں کو دیکھتا رہا۔ وہ زندہ رہنا چاہتا تھا کہ اُسے زندگی سے محبت تھی۔ یہ محبت ہی تھی کہ وہ پھر ہمت کر کے اُٹھا اور قریبی گھر کے دروازے پر دستک دے ڈالی۔

٭٭٭

شفیق اور اُس کی بیوی گہری نیند میں تھے جب انھوں نے اپنے گھر کے دروازے پر دستک کی آواز سُنی۔
اِس وقت بھلا کون ہو سکتا ہے؟ کوئی چور، ڈاکو یا پھر…دروازہ مت کھولنا۔ شفیق کی بیوی نے بہت آہستگی سے کہا۔ شفیق عجب تذبذب کا شکار تھا کہ دستک دوبارہ ہوئی۔
پانی۔ایک نحیف سی آواز تھی۔
یہ تو کوئی پانی پینا چاہ رہا ہے۔  شفیق نے بیوی سے کہا۔
پانی مانگنے کا یہ کون سا وقت ہے؟ مت کھولنا دروازہ۔ گھر میں جوان بیٹی ہے۔
پانی…کوئی پانی دے دے۔ میں مر جاؤں گا۔ ایک درد بھری آواز آئی۔
دوسرے کمرے سے ان کی بیٹی گُل رخ اُٹھ کر آ گئی۔
اماں۔ باہر کوئی ہے۔
ہاں معلوم ہے، لیکن یوں آدھی رات کو کون کسی کے دروازے پر دستک دیتا ہے؟ ماں کی آواز میں شش و پنج کی کیفیت تھی۔
پانی…مسافر ہوں۔ مر رہا ہوں۔  آواز پھر آئی۔
یہ تو کوئی بیمار ہے۔ دروازہ کھول دیں امّاں۔ کچھ نہیں ہو گا۔ گل رخ نے کہا۔
اچھا تم دونوں دوسرے کمرے میں جاؤ۔ میں دیکھتا ہوں۔ شفیق نے بستر سے اُٹھتے ہوئے کہا۔
اُس کی بیوی فوراً اُٹھی اور باورچی خانے سے چھری لا کر اُسے پکڑا دی۔
یہ پاس رکھو۔ شاید ضرورت پڑ جائے۔
شفیق نے چھری پکڑی اور باہر دروازے کی جانب بڑھا۔
کون ہے؟
مسافر ہوں…بیمار ہوں۔ پانی چاہیے ورنہ میں مر جاؤں گا۔
شفیق نے بڑی آہستگی سے دروازہ کھولا۔ باہر ایک آدمی گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے سر دروازے کے ساتھ لگا رکھا تھا۔ شفیق کے دروازہ کھولتے ہی وہ اُس کے قدموں میں آن گرا۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹا لیکن اُس آدمی نے گرنے کے بعد بھی کوئی حرکت نہ کی۔ وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔ شفیق اُسے گھسیٹ کر اندر  لے گیا۔
بعد میں اُسے شفیق  نے بتایا کہ وہ دس گھنٹے تک بے ہوش رہا تھا۔ معلوم نہیں کیسے وہ پھر بھی زندہ تھا؟ ہوش میں آنے کے بعد شدید نقاہت کے مارے وہ نظر تک نہیں گھما پا رہا تھا۔
تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ رات کو تمہاری ایسی حالت کیسے ہو گئی؟
نوجوان کی حالت کچھ سنبھلی تو شفیق نے پوچھا۔
میں مسافر ہوں۔ پہاڑوں کے اُس پار سے آیا ہوں۔ دراصل… کام کی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہوں۔
اُس نے ذرا ٹھہر کر اپنا جملہ مکمل کیا تھا۔
اوہ اچھا۔ شفیق  نے اطمینان کا سانس لیا۔ اُسے نوجوان بے ضرر لگا۔
اُس نے اگلے دو روز وہاں قیام کیا اور اب وہ کافی بہتر تھا۔ اِس دوران شفیق مستقل اُس کے ساتھ رہا۔ اُس کی بیوی بار بار پوچھتی کہ یہ انجان مسافر کب جائے گا؟ بلکہ ایک بار تو نوجوان نے اپنے کانوں سے بھی سُن لیا جب وہ کہہ رہی تھی
مسافر ہے تو ہم کیا کریں؟ اب بس اُسے جانا چاہیے۔
شفیق کمرے میں آیا تو نوجوان کھڑا ہو گیا۔
شفیق صاحب، آپ کا بہت شکریہ، اب میں چلتا ہوں۔
اوہ معذرت! اگر آپ  نے میری بیوی کی کوئی بات سُن لی ہے تو۔ وہ غصے کی بہت تیز ہے۔ مجھے بھی ابھی اِسے سمجھنے میں کافی وقت لگے گا۔
آخری جملہ شاید خودکلامی تھی۔
’’ارے نہیں، کوئی بات نہیں شفیق صاحب! عورت کو سمجھنا کون سا آسان کام ہے۔
اُس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔
زرینہ اور اُس کی بیٹی گل رُخ اُسے خدا حافظ کہہ کر رخصت کرنے پہلی بار اُس کے سامنے آئی تھیں۔
زندگی اور محبت بعض اوقات انسان کے ساتھ عجیب کھیل کھیلتی ہے۔ نوجوان زرینہ اور اُس کی بیٹی گل رخ دونوں کو جانتا تھا۔ ایک کو اُس  نے اپنی گلی میں دیکھا تھا اور دوسری کو اپنے خوابوں میں۔ وہ یہ بات کسی کو بتا بھی نہیں سکتا تھا۔ سنہرے بالوں والی لڑکی مسکراتے ہوئے ایک نکتے میں بدل رہی تھی اور اُس  نے محسوس کیا جیسے کسی ریت کے طوفان نے اُسے چاروں جانب سے گھیر لیا ہے۔

٭٭٭

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles