25 C
Lahore
Saturday, October 12, 2024

Book Store

ٹشو نہیں رومال

 

ٹشو پیپر نہیں رومال

شکیل احمد چوہان

 

کاشان ‘‘مون لائٹ ہوٹل کے کمرے کا دروازہ کھول کر جیسے ہی اندر داخل ہوا، ’’لیلیٰ‘‘ اُس کے استقبال کے لیے کھڑی ہو گئی، کاشان نے جوہری کی آنکھ سے لیلیٰ کے خدوخال کا جائزہ لیا، پھر اپنے ہونٹ سکیڑتے ہوئے کہنے لگا
بس ٹھیک ہی ہے۔
کاشان نے لیلیٰ کو نمبر دینے میں کنجوسی سے کام لیا، لیلیٰ کی رنگت لیلیٰ سے اُلٹ تھی، گہری نیلی آنکھیں، ایک تو سیاہ اوپر سے گھنگریالے گیسو، تیکھے نقوش، گلاب کی پتیوں جیسے باریک دھاری دار ہونٹ، انہی ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے ہوئے لیلیٰ نے بھی کاشان کو سرتا پیر غور سے دیکھا۔
لیلیٰ نے لائٹ بلو جینز کی تنگ سی پینٹ پہنی ہوئی تھی ، اُس کے اوپر کالا کرتہ جس پر سرخ گلابوں کی پتیاں پرنٹ تھیں۔ کاشان نے اپنا چھوٹا سا سفری بیگ بیڈ پر رکھا اور اُس میں سے اپنا نائٹ ڈریس نکالا، واش روم میں جانے سے پہلے اُس نے للچائی ہوئی نظروں سے لیلیٰ کو دیکھا۔ لیلیٰ کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ ابھری، کاشان واش روم میں داخل ہو گیا۔
لیلیٰ نے پہلے تو کاشان کے بیگ کو غور سے دیکھا پھر اُسے اُٹھا کر صوفے پر رکھ دیا اپنے سینڈل اُس نے پیروں کے جھٹکے ہی سے دور پھینکے، لیلیٰ بیڈ پر پاؤں لٹکائے بیٹھ گئی، اُس کی ایک ران دوسری ران کے اوپر تھی۔ اُس کی نظریں واش روم کے دروازے پر لگی ہوئی تھیں، چند منٹ گزر جانے کے بعد وہ دبے پاؤں اپنی جگہ سے اُٹھی اور واش روم کے دروازے کے ساتھ اپنا کان لگایا، پھر وہ گردن کو بڑی نزاکت کے ساتھ ہلاتی ہوئی دبے پاؤں ہی واپس بیڈ کی طرف آ گئی۔
’’کمینہ اتنے سالوں میں بھی نہیں بدلا۔‘‘ بیڈ پر بیٹھنے سے پہلے اُس نے دھیمے سروں میں خود کلامی کی۔
لیلیٰ نے بڑی ادا کے ساتھ لب کشائی کی۔
میں انتظار میں ہوں۔
تھوڑی دیر بعد کاشان گیلے بالوں کے ساتھ اُس کے سامنے تھا۔
’’میں نے سوچا پہلے فریش ہوجاؤں۔‘‘ کاشان نے دیر کرنے کی وجہ بیان کی ۔
اگر آپ نے باتھ روم میں ہی فریش ہونا تھا تو پھر مجھے کیوں بلایا۔‘‘ لیلیٰ نے بغیر کسی جھجھک کے ہی بول دیا۔ کاشان نے تھوڑی شرمندگی سے نظریں چرائیں، خیر اُس کے بعد وہ ہوا جس کے لیے کاشان نے لیلیٰ کو ایک رات کے لیے بک کیا تھا۔
مجھے لگتا ہے۔۔۔ ہم پہلے بھی مل چکے ہیں۔‘‘ کاشان نے سگریٹ سلگاتے ہوئے اندازہ لگایا۔
چار سال چارہ ماہ اور پندرہ دن پہلے!‘‘ لیلیٰ نے اپنا کرتہ پہنتے ہوئے تفصیل بتائی۔ کاشان نے ناک اور منہ سے دھوئیں کے غبارے نکالتے ہوئے حیرت کے عالم میں لیلیٰ کو غور سے دیکھا ۔
یہاں پاس ہی ایک ٹیولپ نامی گیسٹ ہاؤس ہوا کرتا تھا۔ وہاں ملے تھے ہم۔‘‘ لیلیٰ نے اپنی بکھری زلفوں کو جوڑے میں جکڑتے ہوئے بتایا ۔
کاشان کو یاد آ گیا۔
ہاں مجھے یاد ہے
لیلیٰ نے کاشان کے ہاتھ سے سگریٹ لی اور آنکھیں سکیڑتے ہوئے ایک لمبا کش لگایا۔ کاشان  نے
تجزیاتی آنکھوں کے ساتھ لیلیٰ کے سراپے کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا
’’تھوڑی موٹی ہو گئی ہو۔‘‘
پر آپ ویسے کے ویسے ہی ہیں‘‘ لیلیٰ نے کاشان کی جسامت پر تبصرہ کرنے کے بعد سگریٹ کو ایش ٹرے کے مقبرے میں گاڑ تے ہوئے فرمائش کی
پینے کے لئے کچھ منگوائیں۔‘‘ کاشان نے وہسکی منگوالی اور پیگ بنا کر لیلیٰ کو پیش کیا، لیلیٰ ایک ہی سانس میں سارا پیگ چڑھا گئی اور خالی گلاس کاشان کی طرف کر دیا۔
کاشان نے وہ گلاس پھر سے بھر دیا ، اب کی بار لیلیٰ کچھ سوچتے ہوئے ہولے ہولے پی رہی تھی۔ اِس کے باوجود کاشان کے ایک پیگ ختم کرنے سے پہلے ہی لیلیٰ نے دو پیگ چڑھا ڈالے تھے۔ گلاس واپس کرتے ہوئے لیلیٰ کہنے لگی
اپنا تو نشہ پورا ہوگیا صاحب اب آپ جانو اور آپ کی وہسکی۔‘‘ کاشان نے بھی اپنا پیگ ختم کیا اور خالی گلاس ٹرے میں رکھ دیا، اُس کے بعد وسکی والی ٹرے اُٹھا کر سینٹرل میز پر رکھ دی اور خود تکیے کی ٹیک لگاتے ہوئے نیم دراز انداز میں لیلیٰ کے سامنے بیٹھ گیا۔ ایک آنکھ کو میچتے ہوئے جیسے ماضی کی باتیں یاد کر رہا ہو
’’اُس وقت تمہاری شادی ہو نے والی تھی نا…؟ ‘‘
’’پانچ دن بعد…‘‘ لیلیٰ نے کرب سے بتایا۔
تم نے اپنے ہونے والے  شوہر کے لیے بائیک خریدنی تھی اِس لیے تم نے مجھ سے ایکسٹرا پیسے بھی مانگے تھے۔
کاشان نے جلدی سے یاد دہانی کراوئی۔وہ یاد کرتے ہی لیلیٰ کی آنکھیں بھر آئیں، وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی
پیسے نہیں اُدھار مانگا تھا…جو آپ نے نہیں دیا…تب میں نے آپ سے ایک درخواست بھی کی تھی… درخواست کے باوجود آپ نے میرے جسم سے میری چادر کھینچتے ہوئے کہا تھا
جو مجبور ہو وہ اپنی مجبوری بیان نہیں کرتا۔‘‘بات تو صاحب آپ نے ٹھیک کہی تھی، اُس کے بعد میں نے تین دن اوور ٹائم لگا کر اپنے ہونے والے شوہر کے لئے موٹر سائیکل خریدی تھی۔
’’اوور ٹائم…‘‘ کاشان چونکا، لیلیٰ نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا
’’اوور ٹائم مطلب اوور ٹائم۔‘‘ لیلیٰ بات کرتے ہوئے رک گئی۔ تھوڑی دیر بعد نم آواز میں بولی
’’میری امّی نے ساری زندگی لوگوں کے گندے برتنوں کی دھلائی اور میں نے کپڑوں کی سلائی، تب جا کے میرا جہیز تیار ہوا تھا، شادی سے ہفتہ پہلے ایاز کے گھر والوں نے موٹرسائیکل کی شرط رکھ دی۔ امی نے اپنی مجبوری بتائی، انہوں نے رشتہ ختم کرنے کی دھمکی دے دی۔ امّی نے جن لوگوں کے گھروں میں ساری زندگی صفائی کی تھی اُن میں سے کوئی بھی امّی کو موٹر سائیکل کے پیسے دینے کے لیے تیار نہ تھا، امّی کو دل کا دورہ پڑ گیا۔ میں ڈرگئی مجھے ڈر تھا اگر میری شادی نہ ہوئی تو امّی کو ضرور کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ الفت آنٹی مجھ سے کپڑے سلوانے آتی تھی میں نے اُس سے اپنا مسئلہ بیان کیا، وہ کہنے لگی
دیکھ بیٹی صرف دو گھنٹے کی بات ہے ، سیٹھ سلیم کو تیرے جیسا ہی مال چاہیے، ٹانگیں اُس کی پہلے سے قبر میں ہیں صرف منہ باہر ہے…جسے وہ مارنے سے باز نہیں آتا…سیٹھ سلیم سے ہونا کچھ نہیں…تیری موٹر سائیکل آجائے گی اور میری سونے کی چوڑیاں۔
آنٹی آپ ابھی کے ابھی ہمارے گھر سے چلی جائیں۔‘‘ میں نے غصے سے الفت آنٹی کو کہہ دیا۔ الفت آنٹی نے جانے سے پہلے مجھ سے کہا
اگر موڈ بن جائے تو مجھے فون کر لینا۔‘‘ میں رات بھر سوچتی رہی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا میں نے ایاز کو فون کیا
’’دیکھو ایاز میں سال کے اندر اندر سلائی کے پیسوں سے تمہیں موٹر سائیکل لے دوں گی۔‘‘
سال کس نے دیکھا ہے…مجھے تو آج ہی موٹر سائیکل مل رہی ہے… تم لوگ دے سکتے ہو تو ٹھیک ورنہ میں دوسری جگہ شادی کر لیتا ہوں۔‘‘ ایاز نے یہ بول کر کال کاٹ دی۔ صبح اُٹھتے ہی میں نے سب سے پہلے الفت آنٹی کو فون کیا۔ انہوں نے شام کو مجھے اپنے گھر بلایا میں اپنی چھوٹی بہن کو امّی کے پاس چھوڑ کر الفت آنٹی کے گھر پہنچ گئی۔ مغرب کے بعد الفت آنٹی نے سیٹھ سلیم کو فون کیا تو خبر ملی کہ سیٹھ سلیم کا کوئی گھنٹہ پہلے دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا ہے۔ مرا سیٹھ سلیم اور جان میری نکل گئی، میں وہاں سے اُٹھ کر گھر جانے ہی لگی تھی کہ آپ نے الفت آنٹی کو فون کر دیا تھا۔
ایک لونڈا ہے کاشان۔۔۔پیسے تو اُس کے پاس ہیں اب نکلوانا تمہارا کام ہے۔۔۔ہاں کہہ دوں۔۔۔؟‘‘
میں سوچ میں پڑ گئی، الفت آنٹی نے میرے ارادے بدلتے دیکھے تو اندر سے ایک البم اُٹھا لائی
یہ دیکھ یہ ہے گاہک۔ میں آپ کی تصویر کو دیکھنے لگی۔
کروں اوکے! الفت آنٹی نے میری طرف دیکھ کر پوچھا۔ میں نے ہاں کر دی، آنٹی مجھے ٹیولپ گیسٹ ہاؤس میں آپ کے پاس لے آئی۔ آگے کی کہانی تو آپ جانتے ہی ہیں۔‘‘ کاشان نے بڑی توجہ سے لیلیٰ کی ساری باتیں سُنی تھیں۔ چند منٹ اُن دونوں کے درمیان خاموشی رہی پھر لیلیٰ  نے سنجیدگی سے کہا
مجھے بھوک لگی ہے۔‘‘ کاشان نے کوئی سوال کرنے کی بجائے روم سروس والوں کو کھانا آرڈر کر دیا۔ کھانے کے بعد جب ویٹر برتن لے جا چُکا تو لیلیٰ نے خود ہی سگریٹ لگایا اور چہل قدمی کرتے ہوئے اُسے پینے لگی۔ کاشان صوفے پر بیٹھا ہوا لیلیٰ کی چال ڈھال پر غور کر رہا تھا، کاشان نے آخر کار تجسس سے پوچھ ہی لیا
’’آگے کیا ہوا…؟‘‘
کیا…؟‘‘ لیلیٰ نے رُکتے ہوئے حیرت سے کاشان کی طرف دیکھا، جیسے اُسے یاد ہی نہ ہو کہ آدھا گھنٹہ پہلے وہ کیا بات کر رہی تھی۔
پھر تمہاری شادی ہوئی یا نہیں…؟‘‘ جیسے ہی کاشان کے منہ سے یہ الفاظ نکلے، لیلیٰ کھل کھلا کر ہنس پڑی اور ہنستے ہوئے کہنے لگی
’’کاشان صاحب تم اپنی سہاگ رات مناؤ میری شادی کو دفع کرو۔‘‘
تم میرا نام کیسے جانتی ہو…؟‘‘ کاشان کو حیرت کا جھٹکا لگا۔ لیلیٰ مسکراتے ہوئے کاشان کے پہلو میں بیٹھ کر کہنے لگی:
الفت آنٹی گندہ دھندہ بھی بڑی ایمانداری سے کرتی تھیں…مولا اُن کی مغفرت فرمائے…جب وہ مجھے آپ کے پاس پہلی بار لے کر آئی تھیں تو آپ کی تصویر کے ساتھ ساتھ آپ کا نام بھی بتایا تھا، کاشان صاحب
میرا نام کاشان نہیں ہے‘‘ کاشان نے سختی سے تردید کی، کچھ دیر تو لیلیٰ زیر لب مسکراتے ہوئے کاشان کو دیکھتی رہی پھر اُس کی ہنسی نکل گئی۔
آپ بھی کمال کرتے ہیں کاشان صاحب! ہم کنجر بھی اِسی سوسائٹی میں رہتے ہیں…دوسری کمپنیوں کی طرح ہم بھی اپنے کسٹمرز کا مکمل بائیو ڈیٹا رکھتے ہیں۔
تم نے خود کو کنجر کیوں کہا…؟ کاشان کو لیلیٰ کے منہ سے اپنے لیے یہ لفظ استعمال کرنے پر شدید حیرت ہوئی۔
’’عورت بھٹک جائے تو وہ کنجری، رنڈی اور طوائف کہلاتی ہے، جبکہ مرد …مرد ہی رہتا ہے…ایسا کیوں ہے …؟ کاشان صاحب۔‘‘ کاشان نے لیلیٰ کے سوال کا جواب دینے کی بجائے کھڑکی کی طرف جانا زیادہ بہتر سمجھا۔ اُس نے کھڑکی کے پردے پیچھے ہٹائے، چودھویں رات کا چاند سمندر کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہا تھا۔ کاشان نے کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔ لیلیٰ بھی اُس کے برابر میں جا کھڑی ہوئی۔ چند منٹوں تک وہ دونوں چپ چاپ یہ نظارہ دیکھتے رہے۔ اُس کے بعد کاشان نے پردے آگے کر دیئے اور لیلیٰ کو دونوں شانوں سے تھام کر اپنے رو برو لاتے ہوئے پیاسی نگاہوں سے دیکھنے لگا، اِس کے برعکس لیلیٰ کی آنکھیں ہر طرح کے تاثرات سے ماورا تھیں۔
’’تم بہت حسین ہو لیلیٰ!‘‘کاشان نے پوری شدت کے ساتھ بتایا۔
آپ کی بیوی خوبصورت نہیں ہے کیا…؟‘‘ لیلیٰ نے اشتیاق سے پوچھا۔ کاشان نے گردن کو نفی میں ہلایا اور پھر سے صوفے پر آ کر بیٹھ گیا۔ کاشان کا مزاج بگڑ گیا تھا۔ لیلیٰ چلتی ہوئی اُس کے پاس آئی اور کاشان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی۔
بتائیں نا…‘‘ لیلیٰ نے بڑی ادا کے ساتھ پوچھا ۔
پہلے تم بتاؤ…؟‘‘ کاشان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’کیا…؟‘‘ لیلیٰ نے حیرت سے کہا۔
’’اپنی شادی کے بارے میں…؟‘‘
دفع کرو میری شادی کو…روپے خرچے ہیں تو مزے لوٹو۔‘‘ لیلیٰ نے نیلی آنکھوں کے ساتھ کاشان کی سیاہ آنکھوں پر اپنا جادو چلانا چاہا تھا، مگر کاشان کی سوئی وہیں کی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔
’’نہیں تم بتاؤ مجھے‘‘
تم شوہر بھی عجیب مخلوق ہوتے ہو…اپنی بیویوں کی باتیں تم لوگوں کے کانوں میں زہر گھولتی ہیں اور ہم جیسوں کی امرت۔‘‘ لیلیٰ نے اپنا سر کاشان کی گود سے اُٹھا لیا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھی ایک سگریٹ سلگایا اور کاشان سے تھوڑے فاصلے پر سنگل صوفے پر جا بیٹھی اور ایک لمبا سا کش لگانے کے بعد بتانے لگی
آپ کو یاد تو ہوگا اُس دن میری حالت کیا تھی۔۔۔آپ میری زندگی میں آنے والے پہلے مرد تھے۔ ایاز کو موٹر سائیکل پر بٹھانے کے لیے مجھے آپ کے بعد چھے اور مردوں کے سامنے لیٹنا پڑا۔
اُن میں سے ایک پرویز بھی تھا۔ شادی سے پہلے میں نے ایاز کے لیے موٹر سائیکل خرید ہی لی، ایاز سے میری شادی ہو گئی، میں نے مولا کے حضور اپنے سب گناہوں کی معافی مانگی اور اپنی نئی زندگی کا آغاز کر دیا۔
میری شادی کو مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ میں نے اپنے گھر کی چھت پر ایاز کو پڑوسن کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ ہماری پڑوسن چار بچوں کی ماں تھی اور اُس کا میاں روز گار کے سلسلے میں قطر میں کام کرتا تھا۔
ایاز نے مجھ سے معافی مانگی میں نے اُسے دل سے معاف کر دیا۔ اُس کے بعد میں نے کبھی بھی ایاز کو اُس کا گناہ یاد نہیں کرایا۔ ہماری شادی کو سات ماہ کا عرصہ گزر گیا۔ میری نند کا ایک رشتہ آیا، میرے سسرالیوں کو لڑکے والے پسند آ گئے۔
جب ہم لڑکا دیکھنے گئے تو میرے پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی، پرویز  نے مجھے اور میں  نے اُسے پہچان لیا تھا۔ راحیلہ اور پرویز کی شادی ہو گئی، پرویز کا ہمارے گھر آنا جانا شروع ہو گیا۔ پرویز کی مجھ پر آنکھ تھی۔ وہ مجھ سے ناجائز تعلقات رکھنا چاہتا تھا، جو مجھے منظور نہ تھے۔ جب میں نے انکار کیا تو اُس نے میرے سسرالیوں اور میرے شوہر کو ساری بات بتادی۔
لیلیٰ نے ایک چیخ مار کر اپنی انگلیوں سے سگریٹ کو آزاد کیا۔ سگریٹ سلگ سلگ کر خود ہی راکھ بن گئی اور آخر میں اُس چنگاری کی تپش لیلیٰ کی دو انگلیوں تک جا پہنچی تھی۔ کاشان آناً فاناً اُٹھ کر لیلیٰ کے پاس آیا اور فٹ سے اُس کا ہاتھ تھام کر دیکھنے لگا۔ لیلیٰ کی نظریں فرش پر پڑے ہوئے فلٹر کی طرف تھیں۔
’’تھینک گاڈ تمھاری انگلیاں جلنے سے بچ گئیں…تمہاری چیخ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔‘‘
’’چیخ اس ننھی سی چنگاری کی وجہ سے نہیں نکلی تھی۔‘‘
’’تو…؟‘‘ کاشان نے سوالیہ نظروں سے لیلیٰ کی طرف دیکھ کر پوچھا ۔
مجھے تو وہ شعلے دکھائی دیئے تھے… جنہوں نے میرا گھر جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ میں اور ایاز ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے گناہ گار تھے، میں نے تو اُسے معاف کر دیا تھا پر اُس نے مجھے معافی نہ دی…عورت تو پھر بھی مرد کو معاف کر دیتی ہے مگر یہ مرد ذات عورت کو معافی کیوں نہیں دیتے…؟
لیلیٰ نے سوالیہ نظروں سے کاشان کی طرف دیکھا، کاشان خاموش رہا، کاشان کے پاس لیلیٰ کے اِس سوال کا بھی جواب نہیں تھا۔ کاشان کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے لیلیٰ ہی کرب سے بتانے لگی
ایاز نے وہیں کھڑے کھڑے سب کے سامنے مجھے طلاق دے دی۔ میں اپنے سارے محلے میں بدنام ہوگئی۔ امّی اِس صدمے سے چل بسیں۔ میں نے اپنی بہن کو لیا اور الفت آنٹی کے گھر چلی گئی، پھر دھندے پر بیٹھ گئی…چند دنوں بعد الفت آنٹی نے میرے رہنے کا بندوبست کروا دیا۔‘‘ لیلیٰ کی آواز میں اب درد آ چکا تھا۔
’’تمہاری بہن بھی یہی کام…؟‘‘ کاشان کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی لیلیٰ نے وضاحت پیش کر دی۔
’’اُسے اپنا ایک کلاس فیلو ’’اسد ‘‘پسند تھا میں نے اُسی سے اُس کی شادی کروا دی۔‘‘
’’تمہاری بہن کے سسرال والے تمہاری اصلیت سے واقف ہیں۔‘‘
صرف اسد جانتا ہے۔ اُسے میں  نے شادی سے پہلے خود بتایا تھا۔‘‘لیلیٰ یہ بتا کر خاموش ہوگئی پر کاشان اُسے مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور لیلیٰ کا ہاتھ پکڑ کر اُسے بیڈ پر  لے گیا۔ کاشان پکا بزنس مین تھا۔ اُس نے روپے خرچے تھے، وہ کتنی دیر لیلیٰ کی دکھ بھری داستان سُنتا۔ اُس نے قیمت سے زیادہ لیلیٰ سے وصول کیا۔ جب خون کی گرمی ٹھنڈی ہو گئی، کاشان اور لیلیٰ بستر پر ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے لیٹے ہوئے تھے، تب کاشان لیلیٰ سے کہنے لگا
’’تمھاری بات ہی کچھ اور ہے…تم میرے ساتھ مہینہ طے کر لو۔‘‘
رکھیل بنا کر رکھنا چاہتے ہیں…؟‘‘ لیلیٰ نے اپنے ہاتھ کو کاشان کے مکھڑے پر نرمی سے لگاتے ہوئے پوچھا۔
ایسے ہی سمجھ لو۔‘‘ کاشان اپنی آنکھوں سے لیلیٰ کے چہرے کو پی رہا تھا۔
دیر کر دی صاحب میں یہ دھندہ چھوڑ رہی ہوں۔‘‘ کاشان کو حیرت ہوئی۔ لیلیٰ اپنی دھن میں کہنے لگی
میرے پہلے کسٹمر بھی تم تھے اور آخری بھی تم ہی ہو۔‘‘ کاشان نے لیلیٰ کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا
ایک دم سے ستی ساوتری بن گئی ہو…آپ سے تم پر آتے ہوئے تمھیں دیر نہیں لگی۔‘‘ لیلیٰ ہلکا سا مسکرائی اور اُس مسکراہٹ کے ساتھ ہی بولتی گئی
مرد کو بیوی سے بھی آپ سننے کی عادت ہوتی ہے اور رنڈی سے بھی…جہاں تک ستی ساوتری کی بات ہے وہ تو میں نہیں ہوں پھر بھی یہ کام چھوڑ رہی ہوں‘‘ لیلیٰ نے زخمی لہجے میں اقرار کیا ۔
’’یہ کام چھوڑ کے کیا کرو گی…؟‘‘
ایک بوتیک شروع کرنے جا رہی ہوں…چند دنوں میں اُس کی اوپننگ ہے۔‘‘ کاشان کے ہونٹوں پر ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ اُبھری وہ اُسی طنز کے ساتھ کہنے لگا
’’کپڑے اُتارنے والی اب کپڑے پہنائے گی؟‘‘
کپڑے تو آپ کے بھی اُترے ہوئے ہیں صاحب!‘‘ لیلیٰ نے بڑی نزاکت کے ساتھ کاشان کی چھاتی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ کاشان بستر سے اُٹھا اور واش روم چلا گیا۔ اُس کے واپس آنے تک لیلیٰ نے کپڑے پہن لیے تھے۔ کاشان نے واش روم سے نکلتے ہی پوچھا
اگر بوتیک نہ چلی تو…؟‘‘ کاشان لیلیٰ کی طرف آیا جو شیشے کے سامنے کھڑی ہوئی اپنی گردن پر کاشان کے دانتوں کے نشان دیکھ رہی تھی۔
میں ہر کام ایمانداری سے کرتی ہوں … چاہے جسم کا ہو یا کپڑوں کا … الفت آنٹی کہا کرتی تھی…کپڑے کی کمائی میں جتنی برکت ہے جسم کی کمائی میں اُتنی ہی بے برکتی…پھر بھی جسم کا کام کرنا ایمانداری سے… وہ وہاں سے پلٹا اور جا کر صوفے پر بیٹھ گیا۔ اب لیلیٰ ہلکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے ہوئے اُس کی طرف آئی اور اُس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔
’’چلو مان لیا تمھارا بزنس چل پڑا…پر جسم کی بھوک کیسے مٹاؤ گی…؟‘‘ کاشان نے شرارتی لہجے میں پوچھ لیا۔ اِس کے برعکس لیلیٰ نے سنجیدگی سے جواب دیا
’’شادی کرنے کا ارادہ ہے۔‘‘
’’کس سے…؟‘‘ کاشان نے یک لخت پوچھا ۔
’’جو میری حقیقت جاننے کے بعد بھی مجھے اپنانا چاہے۔‘‘ لیلیٰ نے صاف گوئی سے بول دیا۔
کیوں کوئی تمھیں اپنانا چاہے گا…؟‘‘ کاشان کی بات کا جواب دینے کی بجائے لیلیٰ نے وال کلاک کی طرف دیکھا اور کہنے لگی
’’ابھی ڈیڑھ گھنٹہ ہے۔‘‘
میں سمجھا نہیں…؟‘‘ کاشان ششدر تھا لیلیٰ کی بات سننے کے بعد۔
رات آٹھ بجے سے صبح کے 4 بجے تک کھیلنے کے لیے آپ نے میرا جسم خریدا ہے…4 بجنے میں ابھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہے اِس دوران میں کوئی ایسی بات نہیں کر سکتی جو آپ کو ناگوار گزرے۔‘‘ لیلیٰ نے تھوڑی سی رنجش کے ساتھ جواب دیا۔ جس کا اندازہ کاشان کو ہو گیا تھا۔
سمجھو ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ہی کھیل ختم ہو گیا…کہو جو تمھارے دل میں ہے۔‘‘ کاشان نے شاہانہ انداز میں لیلیٰ کو اجازت دے دی۔ لیلیٰ ہلکا سا مسکرائی اُس کے بعد کہنے لگی
’’چھوڑیں صاحب دل کی بات کہوں گی تو آپ بُرا مان جائیں گے۔‘‘
’’تم کہو…میں کہہ رہا ہوں بُرا نہیں مانوں گا۔‘‘ کاشان تھوڑا جذباتی ہو گیا۔
’’میں نے اپنے گناہوں کا حساب رکھا ہے آج میں 999 سے 1000 کا اسکور کرنے جا رہی تھی۔‘‘
’’999…کاشان فٹ سے بولا۔
آج اگر آپ کی جگہ کوئی نیا مرد ہوتا تو میں  1000 کا اسکور پورا کر لیتی… اِن 999  مردوں میں سے کئی ایسے بھی تھے جنہوں نے درجنوں بار میرے ساتھ رات گزاری، بتاؤں اِن سب مردوں میں مشترکہ بات کیا تھی…؟‘‘ لیلیٰ نے سوالیہ نظروں سے کاشان کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ کاشان نے زبان کی بجائے آنکھوں سے بتانے کا اشارہ کیا۔
اُن سب کی نظروں میں…میں ایک گندی عورت تھی اِس کے باوجود اُن سب نے اِس گندی عورت کو حسبِ ضرورت چوما چاٹا…میرے ساتھ منہ کالا کرنے کے باوجود اُن کے چہرے نورانی ہی رہے، جبکہ میرے چہرے کی سیاہی بڑھتی گئی۔
مولا کی نظر میں تو ہم دونوں گناہ گار ہیں… تقریباًپانچ سال پہلے آپ نے عیاشی میں گناہ کیا تھا اور میں نے مجبوری میں…آپ آج بھی وائٹ کالر ٹھہرے اور میں ایک چادر میلی سی…ایسا کیوں ہے کاشان صاحب…؟‘‘ لیلیٰ نے انتہائی کرب میں پوچھا مگر کاشان خاموش رہا۔
میں نے تو ایاز کو معاف کر دیا تھا…ایاز نے مجھے معاف کیوں نہیں کیا …؟ اگر وہ اُس دن مجھے معاف کر دیتا تو مزید 992 بھیڑیے مجھے نہ نوچتے…میں ہر گناہ کی کالی رات کے بعد اُس کے سامنے سجدے میں گر جاتی ہوں اور وہ مجھے معاف بھی کر دیتا ہے۔
لیلیٰ نے سکون سے لمبی سانس لی اور اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنا سر صوفے کی پشت سے لگا دیا۔ لیلیٰ آنکھیں بند کر کے صوفے پر نیم دراز لیٹی ہوئی تھی، کاشان تھوڑی دیر اُسے دیکھتا رہا پھر پوچھنے لگا
’’تمھیں کیسے پتہ چلتا ہے کہ اُس نے تمھیں معاف کر دیا؟‘‘
معافی ملنے پر سکون مل جاتا ہے صاحب…اِس سے بھی زیادہ سکون کسی کو معاف کر کے ملتا ہے…میرا مولا تو اپنے گناہ گار بندوں کو معاف کر دیتا…ہم گناہ گار ہو کے بھی دوسروں کو معاف کیوں نہیں کرتے…؟‘‘لیلیٰ نے بند آنکھوں کے ساتھ بڑے سکون سے یہ سب باتیں کہی تھیں۔
کہاں بنائی ہے تم نے بوتیک…؟‘‘ کاشان نے اشتیاق سے پوچھا۔
ڈیفنس لاہور میں۔۔۔‘‘ لیلیٰ نے صوفے سے سر اُٹھاتے ہوئے آنکھیں کھول کر بتایا۔
کراچی چھوڑ کر لاہور کیوں جا رہی ہو…؟‘‘ کاشان نے حیرانی سے پوچھا۔
’’کراچی میں مجھے ایک ہزار مرد جانتے ہیں…وہ مجھے جسم کی جگہ کپڑے کا کاروبار نہیں کرنے دیں گے۔‘‘
’’یہ ہزارواں کون ہے…؟‘‘ کاشان نے جلدی سے پوچھا۔
میرا سابقہ شوہر ایاز…وہ بھی آپ کے ہی گروپ کا ہے۔‘‘ لیلیٰ کی بات پر کاشان غور کرنے لگا۔ لیلیٰ نے اِرد گرد دیکھا ڈریسنگ میز پر اُسے اپنا شولڈر بیگ نظر آیا۔
’’کاشان صاحب موڈ نہیں ہے تو میں جائوں…؟‘‘ لیلیٰ نے کاشان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ کاشان نے وال کلاک پر نگاہ ڈالی جس پر تین بجنے والے تھے۔
ایک گھنٹہ قرض ہے تمھاری طرف۔‘‘ لیلیٰ نے بھی وال کلاک کی طرف دیکھا، وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور کاشان سے لپٹتے ہوئے کہنے لگی
نئی زندگی شروع کرنے سے پہلے میں اپنے تمام قرضے اتار دینا چاہتی ہوں…چلیں بیڈ پر چلتے ہیں۔‘‘ لیلیٰ نے کاشان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ، کاشان نے لیلیٰ کو جی بھر کے دیکھا پھر کہنے لگا
نہیں تم جاؤ…‘‘ لیلیٰ نے بھی کاشان سے الگ ہوتے ہوئے اُسے غور سے دیکھا تھا۔ لیلیٰ نے اپنے سینڈل پہننے کے بعد اپنا شولڈر بیگ اُٹھایا اور دروازے تک پہنچ گئی، دروازے کی چوکھٹ سے پہلے لیلیٰ نے پلٹ کر دیکھا۔ کاشان پہلے ہی سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ دونوں کے ہونٹوں پر ایک الگ طرح کی مسکراہٹ تھی۔ لیلیٰ نے ہوٹل کے کمرے کا دروازہ کھولا اور وہاں سے چلی گئی۔
…٭…
کاشان کی بیوی رباب نے تقریباً ساڑھے تین ماہ پہلے خود کشی کر لی تھی۔ یہ اُسی دن کی بات ہے جس دن کاشان اور لیلیٰ ہوٹل میں ملے تھے۔ اپنی بیوی کی موت کے بعد کاشان کا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا ،جس کی وجہ سے اُس کا بزنس متاثر ہو رہا تھا۔ اُس کے رشتے داروں کا خیال تھا کہ یہ رباب کی موت کا صدمہ ہے۔ جس سے کاشان نکل نہیں پا رہا۔
بہت سارے سائیکاٹرسٹ بھی اُسے اِس بے چینی اور اضطراب کی کیفیت سے نہیں نکال پائے تھے۔ اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے کاشان کے سسر فرزند نے اُسے دوسری شادی کا مشورہ دیا۔ اُن کے بار بار زور دینے پر ایک دن کاشان نے فلائیٹ پکڑی اور وہ لاہور پہنچ گیا۔ ائیر پورٹ سے وہ سیدھا لیلیٰ کی بوتیک پر پہنچا۔ وہ سفید شرٹ کے ساتھ نیلے رنگ کا ٹو پیس پہنے ہوئے تھا۔
مجھے لیلیٰ سے ملنا ہے۔‘‘ کاشان نے جاتے ہی ریسپشنسٹ سے ہائے ہیلو کے بغیر ہی بول دیا۔
سر! یہاں پر میرے علاوہ دوسری لیلیٰ تو کوئی نہیں ہے۔‘‘ریسپشنسٹ نے اپنی سیٹ سے اُٹھتے ہوئے بتایا۔کاشان نے اُس عام سی شکل و صورت والی لڑکی کو عجیب حیرت سے دیکھا جو لیلیٰ ہونے کا دعوہ کر رہی تھی۔ اُس کے دعوے کو کا شان نے نفی میں سر ہلا کر رد کر دیا ۔
لیلیٰ کی نیلی آنکھیں ہیں،  گھنریالے بال ہیں، گلابی ہونٹ ہیں…نظر اُس کے چہرے سے ہٹتی ہی نہیں اِس انرجی سیور کی روشنی جیسی اُس کی رنگت ہے…میں اُس لیلیٰ کی بات کر رہا ہوں۔‘‘ کاشان نے تفصیل سےریسپشنسٹ کو سمجھایا۔
سوری سر یہاں پر اِس حلیے والی کوئی لیلیٰ، سسی، سوہنی نہیں ہے۔‘‘ ریسپشنسٹ نے کاشان کا مذاق اُڑاتے ہوئے اُسے جواب دیا۔
کیسے نہیں ہے…میں نے ساری انکوائری کروائی ہے میرے مینجر نے مجھے یہاں کا ہی ایڈریس دیا ہے۔‘‘ کاشان نے تڑپ کر جواب دیا۔ریسپشنسٹ کے ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ اُبھری اور وہ کہنے لگی
’’سر کہیں آپ کو میری تلاش تو نہیں…میرا نام بھی۔‘‘
لیلیٰ! کاشان صاحب کو میرے کیبن میں بھیج دو۔‘‘ حجاب اوڑھے ہوئے خاتون نے لیلیٰ کی بات پوری ہی نہ ہونے دی تھی۔ کاشان نے پلٹ کر آواز کی سمت میں دیکھا، اِس سے پہلے کے کاشان کی نظریں اُس خاتون پر پڑتیں وہ اندر جا چُکی تھی۔
سر! وہ سامنے میڈم کا کیبن ہے آپ وہاں چلے جائیں۔‘‘ لیلیٰ نے سامنے شیشے کے بنے ہوئے کیبن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ کاشان کچھ اُلجھا ہوا اُس کیبن کی طرف چل پڑا اُس نے کیبن کو ناک کیا۔
جی
باپردہ خاتون نے اجازت دی۔ کاشان اندر داخل ہو گیا۔ وہ خاتون دوسری طرف منہ کرکے کھڑی تھی۔ کاشان حیرت سے اُس کی پشت کو دیکھ رہا تھا۔
تشریف رکھیں۔‘‘ کاشان تھوڑی جھجھک کے ساتھ بیٹھ گیا۔
تم لیلیٰ ہی ہو نا۔۔۔؟‘‘ کاشان نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا ۔
’تم نہیں آپ۔‘‘ اُس خاتون نے پلٹتے ہوئے کاشان کے سامنے میز کی دوسری طرف بیٹھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ کاشان نے غور سے اُس خاتون کی آنکھوں کی طرف دیکھا، جو کہ کالی سیاہ تھیں۔ کاشان نے جلدی سے اُس خاتون کے ہاتھوں کی طرف دیکھا جن پر کالے گلوز تھے۔ آنکھوں کے علاوہ جسم کا ہر حصہ حجاب کے اندر تھا۔ کاشان نے غور سے اُس خاتون کے خدوخال کا جائزہ لینے کے بعد کہا
’’لیلیٰ آواز کو کیسے چھپاؤ گی۔‘‘
آپ سے بھی چھپنا ہوتا تو آپ کو بتاتی ہی کیوں…میرا نام لیلیٰ نہیں لائبہ ہے… الفت آنٹی نے مجھے مارکیٹ میں لیلیٰ کے نام سے متعارف کروایا تھا۔‘‘ لائبہ عرف لیلیٰ نے کہا، اُس کی بات سُن کر کاشان کو حیرت ہوئی۔
’’مجھے کیوں بتایا تھا۔‘‘
’’چھوڑیں کاشان صاحب آپ بتائیں کیسے آنا ہوا…؟‘‘
’’میں وہ…؟‘‘ کاشان کو کوئی جواب نہیں سوج رہا تھا۔
ایک بار اپنا چہرہ دکھا دو…‘‘ کاشان نے بے تابی سے عرض کیا۔ لائبہ نے معزز نظروں سے کاشان کی طرف دیکھا پھر ٹیلی فون کا رسیور اُٹھایا اور لیلیٰ کو ہدایات دینے لگی
لیلیٰ! چائے اور اُس کے ساتھ کچھ کھانے کو بجھوا دو۔‘‘ یہ بول کر لائبہ نے رسیور رکھنے کے بعد اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے کاشان سے کہا
’’کاشان صاحب آپ اِدھر ایزی ہو کر بیٹھیں میں 10 منٹ میں آتی ہوں تب تک چائے بھی آجائے گی۔‘‘
’’میں کراچی سے چائے پینے نہیں آیا۔‘‘ کاشان نے روکھے لہجے میں جواب دیا۔
’’چائے پینے کے دوران پوچھوں گی آپ کراچی سے کیا لینے آئے ہیں۔
بیٹھیں پلیز۔ ‘‘لائبہ نے لیدر کے کالے صوفوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اپنے کیبن سے چلی گئی۔ کاشان صوفے پر بیٹھ کراُس کیبن کا جائزہ لینے لگا، کیبن کی دو دیواریں شیشے کی تھیں اور باقی دو سیمنٹ کی ، سیمنٹ والی دیوار پر جہاں لائبہ کی آفس چیئر پڑی تھی اُس کی پچھلی طرف کرسی کے دائیں اور بائیں قدرے اُوپر کی جانب خانہ کعبہ اور گنبدِ خضریٰ کی تصویریں خوبصورت فریموں میں سجی ہوئی دیوار پر نصب تھیں۔ دوسری سیمنٹ والی دیوار کے ساتھ بہت سارے ہینگر اسٹینڈ کھڑے تھے، جن پر نئے ڈیزائن کے کپڑے لٹکے  ہوئے تھے۔ تیسری شیشے والی دیوار سے تھوڑا آگے سائیڈ میزوں کے ساتھ لیدر کا صوفہ سیٹ اور اُس کے سامنے شیشے کی میز پڑی تھی۔ اُس صوفے پر بیٹھ کر کاشان ریسپشنسٹ پر بیٹھی ہوئی نقلی لیلیٰ کو دیکھ سکتا تھا۔
جب کہ نقلی لیلیٰ اِس سہولت سے معذور تھی، وہ شیشے میں خود کو اور ساری بوتیک کو ہی دیکھ سکتی تھی۔ کاشان اپنی جگہ سے اُٹھا وہ نقلی لیلیٰ کی بجائے اصلی لیلیٰ کو دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ چلتا ہوا لائبہ کی سیٹ والی دیوار کی طرف گیا اور لائبہ کی کرسی کے برابر میں کھڑا ہو گیا جہاں سے اُسے ساری بوتیک دکھائی دے رہی تھی۔ دو سیلز گرل خواتین کسٹمرز کو کپڑے دکھا رہی تھیں ۔
نقلی لیلیٰ ایک لڑکی سے بل وصول کر رہی تھی۔ جہاں کاشان بیٹھا ہوا تھا اُس کے پیچھے ایک کونے میں واش روم تھا۔ اُس کے ساتھ چھوٹا سا کچن اور کچن کے اگلی طرف صوفوں کے بالکل پیچھے تھوڑی سی جگہ خالی تھی جہاں پر کپڑوں کے سٹینڈ نہیں تھے۔ کاشان کی نگاہیں وہاں تھیں اُس نے مشتاق نگاہوں کو دوسری طرف گھمایا ہی تھا کہ اُسے کچھ دکھائی دیا نگاہیں واپس لوٹی تو لائبہ سجدے سے قیام میں کھڑی ہوئی تھی۔ کاشان ششدر اُسے دیکھے جا رہا تھا، لائبہ رکوع میں گئی تو کاشان بھی اپنی جگہ سے چل پڑا وہ رکوع کے بعد سجدے میں چلی گئی ایک کے بعد دوسرا سجدہ۔ جب وہ عصر کی نماز کی آخری رکعت کے دوسرے سجدے میں تھی تو کاشان بالکل اُس کے پاس کھڑا تھا کالے صوفے کے پیچھے اور سفید شیشے کے آگے لائبہ سجدے سے اُٹھی اور التحیات میں بیٹھ گئی۔ کاشان بھی اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گیا، لائبہ اپنے مولا سے باتیں کر رہی تھی اور کاشان لائبہ کو دیکھ رہا تھا۔
لائبہ نے سلام پھیرا پہلے دائیں طرف اور پھر بائیں طرف۔ کاشان اور لائبہ کے چہرے کے درمیان صرف شیشے کی دیوار تھی۔ لائبہ نے دعا مانگی جیسے ہی اُس نے اپنے ہاتھ اپنے منہ پر پھیرے کاشان نے لائبہ کے مکھڑے کو چھونا چاہا، کاشان کے ہاتھ کو شیشے کی سفید دیوار نے روک لیا۔
لائبہ کے ساتھ ساتھ کاشان بھی کھڑا ہوا تھا ۔ لائبہ شیشے کی دیوار کی دوسری طرف اُسی شیشے میں خود کو دیکھ کر اپنے چہرے کو پھر سے نقاب سے ڈھانپ رہی تھی اِس کے مقابل شیشے کی اِس طرف کاشان یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ نقاب درست کرنے کے بعد لائبہ نے جائے نماز سمیٹا اور ایک چھوٹے کیبن میں رکھ دیا اور خود کچن کی طرف چل دی۔ کاشان شیشے کے ساتھ لگا ہوا اُسے ٹک ٹکی لگائے دیکھے جا رہا تھا۔ لائبہ نے کچن میں جا کے آفس بوائے کو چند ہدایات دیں اِس کے بعد اپنے کیبن کے دروازے کی طرف چل پڑی، کاشان نے یہ دیکھا تو وہ جلدی سے اپنی جگہ پر آبیٹھا۔
لائبہ اپنے کیبن میں داخل ہوئی اور کاشان کے سامنے آ بیٹھی اُن دونوں کے درمیان شیشے کی میز تھی۔ کاشان بے تاب نظروں سے لائبہ کو دیکھ رہا تھا وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ دروازے پر دستک ہوگئی۔
لائبہ نے اجازت دی۔ آفس بوائے ٹرالی پر چائے اور کچھ لوازمات رکھے آفس میں داخل ہوا ۔ آفس بوائے نے تمام اشیاء کو میز پر رکھتے ہوئے ترچھی نظر سے کاشان کو دیکھا، پھر وہ سارا سامان ٹرالی سے میز پر منتقل کرنے کے بعد چائے بنا کر پیش کرنے ہی لگا تھا کہ۔
تم جاؤ میں بنا لوں گی۔‘‘ لائبہ نے آفس بوائے کو حکم دیا۔ آفس بوائے وہاں سے چلا گیا۔
’’شکر کتنی لیں گے…؟‘لائبہ نے کپ میں قہوہ ڈالتے ہوئے پوچھا ۔
’’دو چمچ…‘‘کاشان نے لائبہ کو دیکھتے ہوئے بتایا۔ لائبہ نے کپ میں دودھ ڈالنے کے بعد دو چمچ چینی ڈال کر چائے کاشان کو پیش کر دی۔ چائے کا کپ تھامتے ہوئے چند لمحوں کے لیے دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں، لائبہ نے جلدی سے نگاہیں جھکا لیں۔ کاشان نے یک لخت چائے کا کپ میز پر رکھ کر لائبہ کا ہاتھ تھام لیا۔ لائبہ نے ہڑ بڑاہٹ میں اپنا ہاتھ چھڑایا وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی اور تلخی سے بولی
’’آپ نے ہمت کیسے کی مجھے چھونے کی۔‘‘
کاشان بھی ایک تھکاوٹ سے چور انسان کی طرح کھڑا ہو گیا۔
میں بے قرار ہوں…مجھے قرار چاہیے۔‘‘ کاشان نے التجائیہ لہجے میں کہا۔ لائبہ نے اُسے خونخوار نظروں سے دیکھا اور روکھے لہجے میں کہنے لگی
’’میں اب کسی کے قرار کا سامان نہیں ہوں۔‘‘
’’مجھے غلط مت سمجھو لیلیٰ۔‘‘
لیلیٰ نہیں لائبہ‘‘ لائبہ نے جلدی سے کاشان کی بات کاٹتے ہوئے یاد دہانی کرائی۔ کاشان بے بسی کی تصویر بنا سامنے کھڑا تھا۔
آپ چائے ختم کریں اور یہاں سے چلتے بنیں۔‘‘ لائبہ نے دو ٹوک انداز میں اپنا فیصلہ سنادیا۔ کاشان ایک بے جان جسم کی طرح صوفے پر بیٹھ گیا اُس نے گرم چائے کو دیوانوں کی طرح پینا شروع کر دیا۔ تین سے چار گھونٹ میں اُس نے چائے پی کر کپ میز پر رکھ دیا۔
آپ نے کہا تھا معافی ملنے سے زیادہ کسی کو معاف کر کے سکون ملتا ہے۔ میں تو رباب کو معاف کرکے بھی بے سکون ہی ہوں۔‘‘کاشان نے دکھی لہجے میں بتایا۔ اُس کی آواز میں درد اور آنکھوں میں نمی آ چکی تھی۔ لائبہ نے یہ دیکھا تو وہ بھی ہولے سے کاشان کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی۔
میں قسم کھا کر کہتا ہوں میں نے اپنی بیوی رباب کو دل سے معاف کر دیا تھا … شاید وہ خود کو معاف نہیں کر پائی اِسی لیے اُس نے خود کشی کی ہو گی…اب تو پولیس نے بھی مجھے بے قصور کا سر ٹیفکیٹ دے دیا ہے…پھر بھی میں بے چین ہوں مجھے سکون کیوں نہیں مل رہا…؟‘‘ کاشان نے سوالیہ نظروں سے لائبہ کی طرف دیکھتے ہوئے اُسی سے اِس سوال کا جواب مانگا۔
کس بات پر آپ نے اپنی بیوی کو معافی دی تھی مگر وہ خود کو معاف نہ کر پائیں …؟‘‘ لائبہ نے تجسس سے پوچھا۔
اُس رات آپ کے جانے کے بعد میں بھی اپنے اپارٹمنٹ چلا گیا۔ میرے پاس اپارٹمنٹ کی ڈوپلیکیٹ  چابی تھی، جس سے رباب بے خبر تھی۔ میں رباب کو سرپرائز دینے کے لیے دبے پاؤں اپنے بیڈ روم میں داخل ہوا تو وہ کسی اور کے ساتھ…‘‘ کاشان بات کرتے کرتے رُک گیا۔ لائبہ نے بھی اُسے بولنے کے لیے نہیں کہا، چند منٹ کی خاموشی کے بعد لائبہ نے بات شروع کی
رباب کسی اور کو پسند کرتی تھی کیا…؟‘‘ کاشان نے حیرانی سے نظریں اُٹھا کر لائبہ کی طرف دیکھا، کاشان نے جواب دینے کی بجائے نظریں چرا لیں۔
شاید میں نے کچھ زیادہ پرسنل بات پوچھ لی۔‘‘ لائبہ کے چپ ہوتے ہی کاشان بول اُٹھا
معذرت
’’ہم دونوں ہی ایک دوسرے کو پسند نہیں تھے۔‘‘
’’کیوں…؟‘‘ لائبہ نے فٹ سے پوچھا۔ کاشان سوچ میں پڑ گیا چند لمحوں بعد خود ہی بتانے لگا
میرے ابّا رباب کے ڈیڈی فرزند صاحب کے ڈرائیور تھے…ڈیوٹی کے دوران ایک ایکسیڈنٹ میں اُن کی ڈیتھ ہوگئی، فرزند صاحب نے میری تعلیم کا خرچہ اُٹھانے کے ساتھ ساتھ اماں کو بھی اپنے گھر میں کام پر رکھ لیا۔ میں فرزند صاحب کی مہربانی سے پڑھتا گیا ۔ ایم بی اے کرنے کے بعد میں خود کا بزنس کرنا چاہتا تھا، فرزند صاحب نے مجھے بزنس شروع کرنے کے لیے قرض بھی دیا، میں نے اپنا بزنس اسٹارٹ کر لیا وہ چل پڑا میں نے اماں کو فرزند صاحب کے گھر کام کرنے سے منع کر دیا۔ ایک دن اماں مجھ سے کہنے لگیں
’’کاشان آج فرزند صاحب نے مجھ سے کچھ مانگا ہے۔‘‘
’’وہ کیا اماں…؟‘‘
’’تم رباب سے شادی کر لو…‘‘
رباب سے…وہ تو مجھ سے چار پانچ سال بڑی ہونے کے ساتھ ساتھ طلاق یافتہ بھی ہے۔ وہ کبھی ماں بھی نہیں بن سکتی۔
میں سب جانتی ہوں اِس کے باوجود تم اُسے اپنا لو…فرزند صاحب نے کہا ہے رباب کو اپنانے کے بعد تم دوسری شادی بھی کر سکتے ہو۔
’’میں رباب کو کیوں اپناؤں…؟‘‘
’’اِس طرح ہم اُن کا احسان اُتار سکتے ہیں۔‘‘
میں نہیں کروں گا رباب سے کسی بھی قیمت پر شادی۔‘‘ میں نے اماںکو صاف بول دیا تھا۔ اماں نے میرا اپارٹمنٹ چھوڑ دیا ۔ وہ واپس فرزند صاحب کے گھر شفٹ ہو گئیں، اماں پہلے سے بیمار تھیں، میرے انکار سے اُنہیں اور تکلیف پہنچی تھی نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے رباب سے شادی کرنی پڑی شادی سے اگلے روز ہی اماں نے مجھ سے قسم لے لی تھی کہ میں رباب کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔
میری شادی کے چند دن بعد ہی اماں کا انتقال ہو گیا۔ اماں کے مرتے ہی ہمارا رشتہ بھی مر گیا، اماں کے انتقال کے بعد میں نے رباب سے جسمانی تعلق ختم کر دیا تھا۔ میں اپنے جسم کی بھوک مٹانے کے لیے راتیں باہر گزارنے لگا۔ مہینے میں ایک دو بار مجھے بزنس ٹور کے سلسلے میں اسلام آباد اور لاہور جانا پڑتا۔ اُس دن میری لاہور کی فلائیٹ مس ہو گئی تھی۔ میں نے اپنے اپارٹمنٹ جانے کی بجائے عیاشی کا پروگرام بنا لیا … تمھاری … معذرت، آپ کی باتوں سے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو میں نے سوچا گھر جا کر نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کروں گا۔‘
کاشان نے ایک ہی بار میں ساری کہانی سنا کے ہی دم لیا۔ کاشان کے دل پر بوجھ تھا جسے وہ جلدی سے جلدی اُتارنا چاہتا تھا۔
آپ نے رباب کے ساتھ جسمانی تعلق کیوں ختم کیا تھا۔‘‘ لائبہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’وہ عام سی شکل و صورت کی عورت تھی اِس کے باوجود …‘‘ کاشان کے منہ سے بے خیالی میں نکل گیا۔ لائبہ نے اُسے حیرانی سے دیکھا اِس سے پہلے کہ وہ اُسے کچھ کہتی مغرب کی آذان کی آواز اُس کے کان میں پڑی۔ لائبہ جواب دیئے بغیر وہاں سے چلی گئی۔ کاشان اپنی جگہ سے ذرا بھی نہیں سرکا، وہ اُسی جگہ گم سم بیٹھا رہا۔ تقریباً 20 منٹ بعد لائبہ کیبن میں واپس آئی اور آتے ہی بڑے آرام سے کہنے لگی
اب آپ یہاں سے چلے جائیں۔‘‘ کاشان ہکا بکا رہ گیا لائبہ کی بات سُن کے۔ وہ حیرانی کے عالم میں کھڑا ہوا اور چلتا ہوا لائبہ کے پاس آیا۔
’’بھیک دیئے بغیر ہی یہاں سے جانے کا بول دیا۔‘‘ کاشان نے کرب سے کہا۔
’’کیسی بھیک…؟‘‘ لائبہ نے حیرانی سے پوچھا۔
’’یہاں سے جاکے کہاں ملنے آؤں…؟‘‘
’’مطلب…؟‘‘ لائبہ نے حیرت سے کہا۔
’’میں کراچی سے صرف آپ کے لیے آیا ہوں۔‘‘
’’ٹھہرے کہاں ہیں…؟‘‘ لائبہ نے پوچھا۔
’’ایئر پورٹ سے سیدھا آپ کی بوتیک کا رُخ کیا۔‘‘ کاشان نے سنجیدگی سے بتایا۔
’’آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں…؟‘‘ لائبہ نے بیزاری سے پوچھا۔
’’بھیک…؟‘‘ کاشان نے کسی گداگر کی طرح ہی عرض کی۔ لائبہ نے اُسے اُکتائی ہوئی نظروں سے دیکھا۔
پلیز میں آپ سے بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں۔۔۔ مجھے آپ کی ضرورت ہے۔‘‘ کاشان نے نرمی سے عرض کی، اُتنی ہی تلخی سے لائبہ نے جواب دیا
’’میں اَب ضرورتیں پوری نہیں کرتی۔‘‘
’’لائبہ …خدا کے لیے مجھے غلط مت سمجھیں…میں تو صرف اپنے دل کی بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’دل ہے آپ کے پاس…؟‘‘ لائبہ نے روکھے لہجے میں پوچھا۔
پلیز لائبہ مجھے تھوڑا سا ٹائم دے دیں۔ میں اپنی بات کر کے کراچی واپس چلا جاؤں گا۔‘‘ کاشان نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ لائبہ نے اُس کے جوڑے ہوئے ہاتھوں کی طرف دیکھا، چند لمحے سوچنے کے بعد وہ اپنے آفس میز کی طرف گئی اور اُس کے دراز سے ایک وزٹنگ کارڈ نکال لائی۔
یہ ماڈل ٹاؤن میں ایک اسلامک سینٹر کا ایڈریس ہے… 8 سے 9 وہاں ڈاکٹر ابرار کا درس ہوتا ہے…درس سے پہلے ہم وہاں بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں…آپ وہاں پہنچیں میں آتی ہوں۔‘‘ لائبہ نے وہ کارڈ کاشان کے سامنے کر دیا، کاشان نے اُسے لیا اور وہاں سے چلا گیا۔
…٭…
کاشان ٹیکسی سے اُتر کر اسلامک سینٹر کے اندر جانے کا سوچ ہی رہا تھا، کہ لائبہ نے اپنی کار پارکنگ میں لگائی، اُس نے کاشان کو دیکھ لیا تھا۔ وہ جلدی سے اُس کے پاس آئی۔
آجائیں…‘‘ لائبہ نے مین گیٹ سے اندر جاتے ہوئے کہا، کاشان اُس کے پیچھے چل دیا۔ لائبہ نے اسلامک سینٹر کا مرکزی دروازہ کھولا تو سامنے ایک لمبا سا کوریڈور تھا جس کے دائیں بائیں بہت سارے دفاتر تھے۔ چند قدم چلنے کے بعد لائبہ نے وزٹر روم کا دروازہ کھولا تو وہاں پر چند وزٹر بیٹھے ہوئے تھے۔ لائبہ کچھ سوچ ہی رہی تھی۔
’’لائبہ کیسی ہو بیٹا۔‘‘ سامنے آتے ہوئے ڈاکٹر ابرار نے شفقت سے پوچھا۔
السلام علیکم سر…‘‘لائبہ نے عقیدت سے اُن کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ کاشان اُسی جگہ کھڑا رہا۔ لائبہ اور ڈاکٹر ابرار اُس سے چند قدم دور کھڑے تھے۔
’’وعلیکم السلام …آج جلدی آگئی ہو۔‘‘
سر یہ کاشان صاحب ہیں۔‘‘ لائبہ نے دائیں طرف ہلکی سی گردن موڑتے ہوئے کہا۔ کاشان جلدی سے ڈاکٹر ابرار کے سامنے آکھڑا ہوا۔
السلام علیکم سر۔۔۔!‘‘ کاشان اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔ کاشان نے سر تاپاؤں ڈاکٹر ابرار کو دیکھا جنہوں نے فل بازو والا سفاری سوٹ پہنا ہوا تھا، مکھڑے پر درمیانی سفید داڑھی تھی…سانولی رنگت اور دراز قد کے مالک تھے ڈاکٹر ابرار۔
’’وعلیکم السلام۔‘‘ ڈاکٹر ابرار نے گرم جوشی سے جواب دیا۔
سر ! کاشان صاحب مجھ سے کوئی ضروری بات کرنے کے لیے کراچی سے آئے ہیں…وزٹر روم میں گیسٹ بیٹھے ہیں ہم کہاں اکیلے میں بات کر سکتے ہیں۔‘‘ لائبہ نے ڈاکٹر ابرار سے نظریں ملاتے ہوئے بڑے اعتماد سے اپنا مدعا بیان کیا۔ڈاکٹر ابرار نے کاشان کا جائزہ لینے کے بعد اپنے سفاری سوٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالا اور چابی نکال کر لائبہ کو دیتے ہوئے اطلاع دی
’’میں کام سے باہر جا رہا ہوں آپ لوگ میرے آفس میں بیٹھ کر بات کرسکتے ہو۔‘‘
’’Thank you Sir‘‘ لائبہ نے چابی پکڑتے ہوئے کہا۔
’’گھنٹے بعد درس پر ملاقات ہوتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر ابرار نے وہاں سے جاتے ہوئے کہا ۔
’’ان شاء اللہ‘‘ جب تک ڈاکٹر ابرار کوریڈور سے باہر نہیں نکل گئے لائبہ انہیں دیکھتی رہی۔
٭
تشریف رکھیں۔‘‘ لائبہ نے آفس میں داخل ہونے کے بعد صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ کاشان نے کھُلے دروازے کی طرف دیکھا جسے لائبہ نے خود ہی کھُلا چھوڑا تھا۔ لائبہ کی آنکھوں نے کاشان کی نظروں کا تعاقب کیا۔
یہاں کوئی کان لگا کے کسی کی باتیں نہیں سُنتا…ڈونٹ وری…‘‘ لائبہ نے کاشان کی فکر مندی بھانپتے ہوئے اُسے تسلی دی۔ کاشان پھر بھی اُلجھن کا شکار تھا۔ وہ بات کرنے میں جھجھک محسوس کر رہا تھا۔ لائبہ نے اُٹھ کردروازہ بند کر دیا اور خود  سی سی ٹی وی  کیمرے کے بالکل سامنے بیٹھتے ہوئے کہنے لگی
’’آپ کے پاس صرف چالیس منٹ ہیں۔‘‘
میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ کاشان نے ایسے بولا جیسے سر سے کوئی بوجھ اُتار رہا ہو۔
میں نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ لائبہ نے بغیر کسی تاخیر کے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ کاشان اپنی جگہ سے اُٹھنے لگا۔
وہیں بیٹھے رہیں۔ آفس میں دو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں۔ ایک آپ کے اوپر اور دوسرا میرے سامنے۔
کاشان چہرہ اُٹھا کر کیمرے کو دیکھنے ہی لگا تھا کہ لائبہ نے رُعب دار آواز میں ڈانٹ دیا
کیمرے کی طرف مت دیکھئے گا۔‘‘ کاشان نظریں جھکا کر وہیں صوفے پر سنبھل کر بیٹھ گیا۔
کیوں کرنا چاہتے ہیں مجھ سے شادی … ؟‘‘ لائبہ نے کرخت لہجے میںپوچھا۔ کاشان نے کوئی جواب نہیں دیا۔
بتائیں نا…؟‘‘ لائبہ کی آواز میں وہی سختی تھی کاشان نے نظریں اُٹھا کر لائبہ کی آنکھوں میں دیکھ کر جواب دیا
’’پتہ نہیں…
میں بتاتی ہوں۔۔۔رباب کے چہرے پر ماتا کے داغ تھے میرا چہرہ صاف ہے…اُس کا جسم کمزور تھا میں مضبوط جسم کی مالک ہوں…اُس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں تھیں میری بڑی بڑی نیلی آنکھیں ہیں …اُس کی رنگت سانولی تھی اور میں…مرد یہ چیزیں ہی کیوں دیکھتا ہے ایک عورت میں…
آپ کیسے جانتی ہیں رباب کو…؟‘‘ کاشان کو حیرت کا شدید دھچکا لگا۔
وہ چھوڑیں…اور میرے سوال کا جواب دیں کیوں کرنا چاہتے ہیں مجھ جیسی عورت سے شادی…؟‘‘
’’بتانے کے بعد پھر سے کیوں پوچھ رہی ہیں…؟‘‘ کاشان نے اِس بار قدرے اعتماد سے جواب دیا۔
آپ تو بھیک مانگنے آئے تھے … اب مجھ سے مجھے ہی مانگ رہے ہیں۔‘‘ لائبہ نے طنزیہ انداز میں یاد دہانی کروائی۔
غلطی ہوگئی…بھیک میں معافی مانگنے آیا تھا…سوچا تھا معافی ملنے کے بعد آپ کا ساتھ مانگوں گا… معافی مانگی نہیں اور ساتھ مانگ لیا…مجھے معاف کر دیں۔
’’کس بات کے لیے…؟‘‘ لائبہ نے انجان بننے کی کوشش کی۔
اُس رات اگر میں آپ سے نکاح کر لیتا تو یہ سب تو نہ ہوتا…پلیز لائبہ مجھے معاف کردو…‘‘ کاشان نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
ہاتھ مت جوڑیں…میں نے بتایا بھی ہے اوپر کیمرے لگے ہوئے ہیں۔‘‘ لائبہ نے الفاظ چباتے ہوئے پھر سے خبردار کیا۔
پہلے آپ مجھے معاف کریں‘‘ کاشان نے جوڑے ہاتھوں کے ساتھ ہی اپنی شرط رکھ دی۔ لائبہ نے غصے سے گرم سانس بھری اور آتشی لہجے میں کہنے لگی
میں نے معاف کیا…چھوڑیں ہاتھ…‘‘ کاشان نے جوڑئے ہوئے ہاتھ کھول دیئے۔ اُس نے ایک لمبی سانس لی جیسے اُسے سکون مل گیا ہو۔
اب آپ جائیں یہاں سے…‘‘ لائبہ نے لا تعلقی سے بول دیا۔ کاشان ٹس سے مس نہیں ہوا۔ اُس نے بڑے اطمینان سے اپنی گھڑی دیکھی اور کہنے لگا
ابھی چوبیس منٹ ہیں میرے پاس…میں آپ سے ہاں کروا کے ہی جاؤں گا۔‘‘ معافی ملنے کے بعد کاشان کی باڈی لینگوئج ہی بدل گئی تھی۔ وہ جو چند گھنٹے پہلے ایک بے بس اور بکھرا ہوا شخص لگ رہا تھا۔ اب اُس میں نہ جانے کہاں سے اتنا اعتماد آگیا تھا۔
میں آپ کے قابل نہیں ہوں۔‘‘ لائبہ اونچی آواز میں بلک اُٹھی۔وہ بلبلاتے ہوئے کہنے لگی
مرد عورت کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتا ہے اور پھینک دیتا ہے…عورت ہی ہے جو مرد کو رومال کی طرح رکھتی ہے…اُس رومال پر اگر گناہوں کی کالک بھی لگ جائے تو وہ اپنی محبت کے پانی سے اُسے دھو کر پھر سے صاف کر دیتی ہے…مرد کیوں ایسا نہیں کرتا…مجھے صرف ایک مرد نے برباد کیا ہے اور وہ ہیں آپ…ذرا یاد کریں اُس رات کو؟‘‘ لائبہ نے کاشان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کاشان نے صوفے سے ٹیک لگائی اور کھلی آنکھوں سے ماضی کے دریچے کھول کر دیکھنے لگا
میں آپ کو جانتی ہوں صاحب…جس بلڈنگ میں آپ رہتے ہیں مجھے اُس کا بھی پتہ ہے…میں ایسی لڑکی نہیں ہوں … امّی جی کو کچھ ہو نہ جائے اِس ڈر سے میں یہاں آگئی…میں یہ گناہ نہیں کر سکتی…مجھے جانے دیں۔
لائبہ عرف لیلیٰ سالوں پہلے کاشان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر التجا کر رہی تھی۔ کاشان کے ہونٹوں پر کمینی مسکراہٹ ابھری وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور چلتا ہوا لیلیٰ کے سامنے آکھڑا ہوا اور الفاظ پر زور دے کر کہنے لگا
میں نے نیچے بیٹھی عورت کو تمھاری قیمت ادا کر دی ہے۔‘‘ لیلیٰ نے کاشان کی طرف دیکھ کر انتہائی انکساری سے کہا
’’مجھے پچاس ہزار روپیہ اور چاہیے۔‘‘
ریٹ تو تیس ہزار طے ہوا تھا جو میں ادا کر چُکا ہوں …پچاس ہزار اور کیوں دوں…؟‘‘ کاشان نے ڈانٹتے ہوئے پوچھا۔
’’صاحب۔۔۔! مجھے اپنے شوہر کے لیے موٹر سائیکل خریدنی ہے۔‘‘ لیلیٰ نے نظریں جھکاتے ہوئے بتایا۔
’’شادی شدہ ہو۔۔۔؟‘‘ کاشان بھڑک اُٹھا۔
نہیں نہیں صاحب…!! میری شادی تو پانچ دن بعد ہے…میرے شوہر نے جہیز میں موٹر سائیکل مانگی ہے۔‘‘ لیلیٰ نے گھبراتے ہوئے اپنی صفائی دی تھی۔ لیلیٰ کی بات پر کاشان قہقہے لگانے لگا۔ لیلیٰ سہم گئی۔
لعنت ہے ایسے جہیز پر جو تم نے دھندہ کر کے بنایا ہے۔‘‘ کاشان نے حقارت سے کہا۔ لیلیٰ کی رنگت اُڑ گئی وہ مزید سہم گئی۔ وہ زخمی آواز میں کہنے لگی
’’صاحب میرے جہیز کا سارا سامان حلال کے پیسوں کا ہے۔‘‘
’’ہر دھندے والی ستی ساوتری نہ جانے کیوں بن جاتی ہے۔‘‘
صاحب میں دھندے والی نہیں ہوں …مجبور ہوں، میں قسم کھا کر کہتی ہوں مجھے آج تک کبھی کسی مرد نے ہاتھ نہیں لگایا۔‘‘ لیلیٰ نے چیختے ہوئے احتجاج کیا۔جیسے ہی کاشان کے کانوں میں یہ بات پڑی اُس کی رال ٹپکنے لگی
’’اچھا اچھا…ویری گڈ…‘‘وہ لیلیٰ کے قریب ہوا۔
’’صاحب۔۔۔! مجھے پچاس ہزار روپیہ اُدھار ہی دے دیں۔‘‘
میں ایڈوانس دیتا ہوں اُدھار نہیں…اور تمھارا ایڈوانس میں دے چُکا ہوں۔‘‘ کاشان نے لیلیٰ کے گال کو چھوتے ہوئے بتایا۔ لیلیٰ کو کرنٹ سا لگا، وہ دو قدم پیچھے ہٹ گئی تھی۔ کاشان نے اپنے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیری اور لیلیٰ کی طرف بڑھا اِس سے پہلے کہ وہ لیلیٰ کو اپنے شکنجے میں کستا لیلیٰ آنکھیں بند کرتے ہوئے کہنے لگی
’’صاحب۔۔۔! یہ گناہ کرنے سے پہلے میری ایک درخواست سن لیں۔‘‘
کاشان نے اپنے بازوئوں کو روک لیا جو لیلیٰ کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے بڑھ چُکے تھے۔
’’بولو…!!’’ کاشان نے مزے سے پوچھا۔
صاحب۔۔۔!! مجھے پتہ ہے آپ شادی شدہ ہیں…پھر بھی آپ مجھ سے نکاح کر لیں۔۔۔ میں آپ دونوں کی بہت خدمت کروں گی…اِس طرح ہم دونوں گناہ سے بھی بچ جائیں گے…مولا کی قسم میں دھندے والی نہیں…مجبور ہوں۔‘‘ لیلیٰ نے بڑے کرب کے ساتھ بتایا تھا۔
’’جو مجبور ہو وہ اپنی مجبوری بیان نہیں کرتا۔‘‘ کاشان نے چادر میں لپٹی ہوئی لیلیٰ کی چادر کو کھینچتے ہوئے کہا۔ چادر اُس نے پیچھے کی طرف پھینک دی تھی اور خود اپنے بازوؤں سے لیلیٰ کو دبوچ لیا ۔ کاشان نے لیلیٰ کی عزت کی چادر کو تار تار کر کے رکھ دیا۔
لائبہ نے اپنے بیگ سے ٹشو نکال کر اُس سے اپنی آنکھیں صاف کیں…کاشان نے اپنی کھلی ہوئی آنکھوں کو بند کر لیا۔آفس میں سناٹا چھا گیا۔ باقی کا سارا وقت خاموشی میں ہی گزر گیا۔ آفس کے دروازے پر دستک ہوئی دونوں کو خبر نہ ہوئی دستک دوبارہ ہوئی۔ لیلیٰ نے اپنی آنکھیں صاف کرنے کے بعد کہا
آجائیں…!!‘‘ ڈاکٹر ابرار اندر داخل ہوئے وہ دونوں کھڑے ہو گئے۔ ڈاکٹر ابرار نے دونوں کی طرف نگاہ ڈالی پھر لائبہ سے مخاطب ہوئے
لائبہ بیٹا درس شروع ہونے والا ہے…اگر کاشان کی بات ختم ہوگئی ہے تو درس میں شامل ہوجاؤ۔‘‘ ڈاکٹر ابرار یہ بول کر پلٹے تھے۔
سر وہ بات میں پھر سے آپ کے سامنے کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ کاشان نے جلدی سے کہا۔ ڈاکٹر ابرار انہی پیروں پر گھوم گئے۔ کاشان کی بجائے انہوں نے لائبہ کو دیکھا، جو نظریں جھکائے خاموش کھڑی تھی۔ اِس کے برعکس کاشان بڑے اعتماد کے ساتھ ڈاکٹر ابرار کی طرف دیکھ رہا تھا…ڈاکٹر ابرار نے کاشان کو بولنے کاااشارہ کیا۔
’’سر! میں آپ کے سامنے لائبہ سے اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔‘‘
’’میں معافی دے چُکی ہوں۔‘‘ لائبہ بات کاٹتے ہوئے تلخی سے بولی۔
’’سر! میں ابھی اِسی وقت لائبہ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ کاشان نے سنجیدگی سے اپنا ارادہ بتایا۔
’’جو مجھے قبول نہیں۔‘‘ لائبہ نے ترش لہجے میں فٹ سے جواب دیا۔
لائبہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں آپ کو ٹشو پیپر کی بجائے رومال کی طرح رکھوں گا۔‘‘ لائبہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کاشان نے ڈاکٹر ابرار کو مخاطب کر لیا
سر پلیز لائبہ کو سمجھائیں…یہ آپ کی بات کبھی نہیں ٹالے گی۔‘‘ڈاکٹر ابرار نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا۔
ابھی تو نکاح ہو بھی نہیں سکتا درس شروع ہونے میں صرف7منٹ رہتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر ابرار نے کاشان کی طرف دیکھ کر بتایا۔ اُس کے بعد وہ لائبہ کی طرف متوجہ ہوئے اور شفقت سے کہنے لگے
’’لائبہ بیٹا تم درس توجہ سے نہیں سُنتی۔‘‘ لائبہ نے حیرانی کے عالم میں ڈاکٹر ابرار کی طرف دیکھا۔
کل درس کے دُوران میں نے بتایا تھا۔ خوشی میں وعدہ اور غصے میں فیصلہ کبھی نہیں کرنا چاہیے…اگر ہم غصے کو ختم کرنا چاہیں تو وہ 12 سے 15 منٹ میں ختم ہو جاتا ہے…درس کے بعد اپنا فیصلہ سُنا دینا…چلیں…‘‘ لائبہ نے ڈاکٹر ابرار کا آفس لاک کر کے چابی اُن کے حوالے کر دی اور وہ تینوں کوریڈور کے آخر میں واقع ہال کی طرف چل دیے۔
…٭…
ہال میں تقریباً پونے تین سو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی، جو کھچا کھچ بھرا ہوا تھا…جن میں اکثریت خواتین کی تھی…خواتین اور مرد حضرات الگ الگ بیٹھے تھے۔ ڈاکٹر ابرار کے درس کے بعد سوال جواب کا سلسلہ شروع ہوا، ایک سوال کا جواب ڈاکٹر ابرار دینے لگے
نکاح آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت بندھن بھی ہے۔۔۔ افسوس ہم  نے نکاح کو مشکل بنا دیا ہے۔۔۔ جہیز، بارات کا کھانا لڑکی کے والدین پر ہم نے خود مسلط کر دیئے ہیں،جس کی وجہ سے بے شمار لڑکیاں اپنے گھروں میں بیٹھی ہیں۔‘‘ ڈاکٹر ابرار خاموش ہوئے تو ساتھ ہی ایک نوجوان لڑکی نے ہاتھ کھڑا کر دیا۔
’’جی بیٹا!‘‘ ڈاکٹر ابرار نے سوال پوچھنے کی اجازت دی۔
سر جہیز تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھی دیا تھا۔۔۔ پھر آپ کیوں اکثر جہیز کی مخالفت کرتے ہیں۔
وہ ضرورت کی چند اشیاء تھیں جن کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زرہ بھیچ کر خریدا گیا تھا…اُسے جہیز کہنا میرے خیال میں غلط ہے۔
میاں بیوی لڑائی سے کیسے بچ سکتے ہیں…؟‘‘ ملک صاحب نے ساتھ والی رو میں بیٹھی ہوئی اپنی بیوی کی طرف دیکھ کر شکایتی انداز میں پوچھا۔ ملک صاحب ڈاکٹر ابرابر کے دیرینہ دوست ہیں ڈاکٹر ابرار نے اپنے سامنے الگ الگ بیٹھے ہوئے ملک صاحب اور اپنی بھابھی کی طرف باری باری دیکھا پھر شرارتی انداز میں کہنے لگے
’’میاں بیوی کے درمیان لڑائی نہ ہو…اِس کے لیے ضروری ہے دونوں میں سے ایک گونگا اور دوسرا بہرہ ہو جائے۔‘‘ ہال میں بیٹھے ہوئے سب افراد کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
اِس کے ساتھ ہی آج کا سیشن ختم ہوتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر ابرار نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اعلان کیا۔ اُن کے اعلان کرتے ہی کاشان اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور کہنے لگا
سر ! میں نے بھی آپ سے ایک ریکوسٹ کی تھی۔‘‘ کاشان کو دیکھ کر لائبہ اپنی نشست سے اُٹھ کر اسٹیج کی طرف چل پڑی ڈاکٹر ابرار نے اُسے اپنی طرف آتے دیکھ کر کہا
’’جن کے پاس ٹائم ہے وہ تشریف رکھیں۔‘‘ ڈاکٹر ابرار نے ہال میں سے نکلتے ہوئے افراد کو مخاطب کیا۔ ساٹھ ستر افراد کے علاوہ باقی سب اپنی اپنی نشستوں پر واپس بیٹھ گئے۔ لائبہ اسٹیج پر پہنچ گئی۔ اُس نے جاتے ہی ڈاکٹر ابرار کے کان میں سرگوشی کے انداز میں کہا
’’سر۔۔۔! اتنا بڑا فیصلہ میں اتنی جلدی میں کیسے کر سکتی ہوں۔‘‘
فیصلہ تو تم کر چُکی ہو بیٹا…صرف قبول کرنا باقی ہے …اُس لڑکے کو یہاں لانا… تنہائی میں اُس سے گھنٹہ بھر بات کرنا یہ فیصلہ ہی تو ہے! اپنے دل کا فیصلہ قبول کرتی ہو تو میں بلاؤں اُسے…؟‘‘ ڈاکٹر ابرار نے ہولے سے پوچھا، مگر لائبہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کاشان اپنی سانسیں روکے ٹک ٹکی لگائے اُن دونوں کو دیکھے جا رہا تھا…ڈاکٹر ابرار نے اُسے اسٹیج پر آنے کا اشارہ کیا۔ کاشان برق رفتاری سے اسٹیج پر پہنچا … اُسے دیکھتے ہی لائبہ نے ڈاکٹر ابرار سے روہانسی لہجے میں کہا
’’حق مہر میں انہیں اپنی ساری جائیداد میرے نام لکھنا ہو گی۔‘‘
قبول ہے…‘‘ کاشان نے لمحہ بھر کی تاخیر کیے بغیر لائبہ کی شرط مان لی۔ ڈاکٹر ابرار نے وہیں اسٹیج پر ہی اُن دونوں کا نکاح پڑھا دیا…دُعا کے بعد مبارک بادوں کا سلسلہ شروع ہو گیا …وہ سلسلہ ختم ہوا تو کاشان نے ڈاکٹر ابرار سے پوچھا
’’سر اجازت ہے…؟‘‘
’’نکاح فارم میرے آفس میں ہے اُس پر سائن ابھی رہتے ہیں۔‘‘
’’جی جی کیوں نہیں۔‘‘ کاشان نے خوشی سے کہا۔ وہ تینوں ہال سے ڈاکٹر ابرار کے آفس چلے گئے۔
٭
جب ڈاکٹر ابرار نکاح فارم پُر کرنے لگے تو لائبہ نے کہا
سر ! حق مہر 50 لاکھ معجل لکھیے گا۔‘‘ ڈاکٹر ابرار نے چشمے کے اوپر سے لائبہ کی طرف دیکھا جو خفگی سے کاشان کی طرف دیکھ رہی تھی…ڈاکٹر ابرار نے نکاح فارم پُر کرنے کے بعد اُن دونوں کے دستخط کروائے ساتھ ہی حسین مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگے
دُعا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ تم دونوں کو حقیقی محبت عطا فرمائے۔‘‘ ڈاکٹر ابرار نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھا۔
اب تم دونوں کو گھر جانا چاہیے۔‘‘ کاشان اور لائبہ کھڑے ہوگئے، ڈاکٹر ابرار نے نکاح فارم کو اپنے آفس ٹیبل کے دراز میں رکھتے ہوئے کہا
نکاح فارم پر میں دوسرے گواہوں کے سائن لینے کے بعد اِسے یونین کونسل میں بھیج کر وہاں سے کمپیوٹرائز بنوا دوں گا۔
کاشان نے بڑی عقیدت کے ساتھ اپنا ہاتھ ڈاکٹر ابرار کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
بہت شکریہ سر۔
ڈاکٹر ابرار نے بھی کاشان کے ساتھ گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ کاشان اور لائبہ ڈاکٹر ابرار کے آفس سے چلے گئے۔
٭
اب اور کیا چاہتے ہیں آپ…؟‘‘ لائبہ کے لب و لہجے میں اب بھی خفگی تھی مگر کاشان نے اِس بات سے بے نیاز ہو کر لائبہ کے چہرے سے نقاب کو ہٹا دیا۔
’’یہ کیا کر رہے ہیں آپ…؟‘‘ لائبہ نے خائف ہو کر پوچھا، کاشان کے ہونٹوں پر تبسم تھا، وہ کہنے لگا
نہ لیلیٰ نہ لائبہ میں تو اپنی بیوی کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘ لائبہ کی کار میں کاشان اُس کے برابر میں بیٹھا ہوا تھا اور کار اسلامک سینٹر کی پارکنگ میں کھڑی تھی۔ لائبہ نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا
’’اب کیا پروگرام ہے…؟‘‘
مجھے تو بہت سخت بھوک لگی ہے کہیں سے اچھا سا کھانا کھلا دو۔‘‘ کاشان ڈرائیو کرتی ہوئی لائبہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے رومانوی انداز میں بولا ۔ لائبہ نے اُسی لمحے ایک بینک کے سامنے کار کو روکتے ہوئے بتایا
’’آپ نے ابھی تک میرا حق مہر ادا نہیں کیا۔‘‘
کاشان نے تعجب سے لائبہ کی طرف دیکھا تو لائبہ سنجیدگی سے بولی
’’پورے پچاس لاکھ وہ بھی معجل۔‘‘
’’اپنا اکاؤنٹ نمبر دیں۔‘‘ کاشان نے سنجیدگی سے کہا۔
لائبہ اپنے موبائل میں محفوظ  اکاؤنٹ نمبر کاشان کو دکھا دیا۔ کاشان نے کار میں بیٹھے بیٹھے ہی اپنے موبائل سے آن لائن رقم لائبہ کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی۔ لائبہ کے موبائل پر تصدیقی مسیج آیا تو وہ سنجیدگی سے کہنے لگی
اب اگر میں طلاق کا مطالبہ کردوں تو…؟‘‘ لائبہ نے سنجیدگی سے پوچھا، ایک لمحے کے لیے کاشان کے چہرے کی رنگت بدل گئی تھی۔ وہ تھوڑی دیر سوچتا رہا پھر سنجیدگی سے کہنے لگا
ہسبینڈ سمجھ کر نہ سہی مہمان سمجھ کر ہی کھانا کھلا دو۔‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی لائبہ کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔
٭
کھانا بہت ٹیسٹی تھا۔‘‘ ڈیفنس کے ایک ریسٹورینٹ سے باہر نکلتے ہوئے کاشان نے بتایا۔ لائبہ نے اپنی کار کی طرف جاتے ہوئے کاشان کو دیکھے بغیر پوچھا
ایئر پورٹ ڈراپ کر دوں…؟‘‘ کاشان چلتے چلتے رُک گیا۔ جب لائبہ کو کاشان کے رُک جانے کا پتہ چلا تو اُس نے پلٹ کر دیکھا۔ چند لمحے وہ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے پھر کاشان نے کڑوے کسیلے لہجے میں کہا
آپ نے پک کیا تھا جو ڈراپ کریں گی۔ شکریہ میں ٹیکسی پر چلا جاؤں گا۔‘‘ یہ بول کر کاشان اپنے موبائل پر مصروف ہوگیا۔
میرا گھر نہیں دیکھیں گے۔‘‘ جیسے ہی لائبہ کے منہ سے یہ جملہ نکلا۔ کاشان نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا، ابھی کاشان کی نظر لائبہ پر ٹھہری ہی تھی کہ لائبہ چل دی۔ لائبہ نے اپنی کار پارکنگ سے نکالی اور کاشان کے سامنے لا کھڑی کی، کاشان بغیر کسی حیل حجت کے اُس میں بیٹھ گیا۔
لائبہ کار ڈرائیو کرنے لگی اور کاشان اُس کی بغل میں چپ چاپ بیٹھا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک چھوٹے سے بنگلے کے گیٹ کے سامنے لائبہ نے ہارن بجایا۔ ایک بزرگ آدمی نے جلدی سے گیٹ کھول دیا۔ کار گیراج میں داخل ہوئی۔ لائبہ اور کاشان کے اُترنے سے پہلے ہی ایک بوڑھی عورت بھی وہاں آن ٹپکی۔ جیسے ہی اُس عورت نے لائبہ کے ساتھ کاشان کو دیکھا تو وہ فٹ سے بول پڑی
’’میں نے کہا تھا نا بیٹی ایک دن تمھارا گھر والا تمھارے پیچھے ضرور آئے گا۔‘‘ کاشان نے تعجب سے لائبہ کی طرف دیکھا۔
’’کاشان یہ نظام بابا اور سکینہ بی بی ہیں میرے ساتھ ہی رہتے ہیں …بی بی یہ میرے شوہر کاشان ہیں۔‘‘ لائبہ نے اُن تینوں کا تعارف آپس میں کروایا۔
’’میں نے تو دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔‘‘ نظام بابا نے بتایا۔ کاشان کی حیرت بڑھتی جا رہی تھی۔
’’آپ دونوں اپنے کوارٹر میں جا کر آرام کریں ہم کھانا کھا کر آئے ہیں۔‘‘ لائبہ نے اُن دونوں کو وہاں سے بھیج دیا وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ دونوں مزید کوئی راز بیان کریں۔ نظام بابا اور سکینہ بی بی بنگلے کی پچھلی طرف واقع اپنے کوارٹر کی طرف چلے گئے۔ کاشان دم بخود حیرت میں مبتلا تھا۔
’’آئیں اندر آئیں…‘‘ لائبہ لائونج کا دروازہ کھولتے ہوئے بولی۔ لائبہ کے پیچھے پیچھے کاشان بھی چل دیا۔
’’تشریف رکھیں۔‘‘ لائبہ نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ کاشان نے بیٹھنے کی بجائے گھوم کر بنگلے کا جائزہ لیا۔
’’گھر تو بڑا شاندار بنایا ہے۔‘‘
کرائے پر ہے۔ اسد نے لے کر دیا تھا۔‘‘ لائبہ نے جلدی سے بتایا۔
’’تمھاری بہن اور اسد بھی پاس ہی رہتے ہوں گے۔‘‘کاشان نے اندازہ لگایا۔ لائبہ نے نفی میں گردن کو ہلایا۔
’’وہ پیرس چلے گئے ہیں۔‘‘
’’تم نے اپنی بہن کا نام نہیں بتایا…؟‘‘ کاشان نے پوچھا۔
’’اگر آپ مجھے تم کی بجائے آپ کہیں تو مجھے خوشی ہوگی…ساری زندگی مردوں نے مجھے تم کہہ کر ہی بلایا ہے۔‘ ‘ لائبہ کی آواز سے درد چھلک رہا تھا۔ کاشان چلتا ہوا اُس کے قریب آیا اور لائبہ کو گلے سے لگا لیا۔
’’میں وعدہ کرتا ہوں ہمیشہ تمھیں آپ ہی کہوں گا۔ ‘‘ کاشان نے اپنے دونوں ہاتھوں میں لائبہ کے چہرے کو لیتے ہوئے وعدہ کیا۔ اِس کے بعد کاشان نے اپنے ہونٹوں سے لائبہ کے ہونٹوں کو چوما ہی تھا کہ لائبہ نے ہولے سے کاشان کو پیچھے ہٹا دیا۔
’’میری بہن کا نام حریم ہے۔‘‘ لائبہ نے بتایا۔
’’یہ بے رخی کیوں…؟‘‘
’’اِس لیے کہ اب میں بیوی ہوں۔‘‘ لائبہ نے بڑے فخر سے بتایا، کچھ سوچنے کے بعد کاشان کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی۔ لائبہ نے کاشان کا ہاتھ تھاما اور اُسے لائونج کے سامنے والے بیڈ روم میں لے گئی۔
’’تھک گئے ہوں گے آپ یہاں آرام کریں۔‘‘ لائبہ نے بیڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کاشان کا ہاتھ چھوڑ دیا اور وہ خود وہاں سے جانے لگی۔ کاشان نے بڑھ کر اُس کی کلائی تھام لی اور بے تابی سے پوچھا۔
’’تم کہاں جا رہی ہو۔‘‘ لائبہ نے شکایتی نگاہوں سے کاشان کی طرف دیکھ کر سب سے پہلے تو اپنی کلائی چھڑوائی پھر مزید کچھ دیر شکوے سے اُسے دیکھتی رہی۔ کاشان نگاہوں کا شکوہ سمجھ نہیں پایا، اِس لیے لائبہ کو زبان سے کام لینا پڑا:
’’میں اب بیوی ہوں آپکی…بہت کم عورتیں ہیں جو اپنے شوہروں کو تم کہتی ہیں۔ اُن سے بھی کم مرد ہیں جو اپنی بیویوں کو آپ کہتے ہیں۔‘‘
’’سوری اب نہیں بھولوں گا…پر آپ جا کہاں رہی ہیں۔‘‘
’’اوپر اپنے بیڈ روم میں سونے کے لیے۔‘‘ لائبہ کا جواب سُن کر کاشان اُداس ہوگیا۔ اُسی اُداسی کے ساتھ وہ کہنے لگا:
’’میں آپ کو وہ سب بتانا چاہتا ہوں جو آج تک کسی سے نہ بول سکا۔ مجھے آپ کی توجہ محبت اور ساتھ سب کچھ چاہیے…‘‘ لائبہ نے پہلی بار کاشان کو نظر بھر کے دیکھا۔
’’آئیں…‘‘ لائبہ نے سنجیدگی سے اپنا ہاتھ کاشان کی طرف بڑھا دیا، کاشان نے جلدی سے لائبہ کا ہاتھ تھام لیا۔
٭
’’میری زندگی میں بھی لا تعداد عورتیں آئیں…اُن کے نام شکلیں مجھے کچھ بھی یاد نہیں رہتا تھا…اُن میں سے ایک ایسی بھی تھی جسے میں کبھی بھول نہیں پایا۔‘‘ کاشان صوفے پر بیٹھا ہوا بول رہا تھا، لائبہ اُس کے سامنے اپنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی اُسے دیکھ رہی تھی لائبہ کی توجہ بڑھ گئی۔
’’20ستمبر میری ڈیٹ آف برتھ ہے، یہ20ستمبر2013کی بات ہے میں نے اُ سے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا، اُسے دیکھنے کے بعد مجھے کوئی نظر ہی نہیں آئی، چند دن بعد میں نے اُلفت سے اُسی لڑکی کی ڈیمانڈ کی تو اُس نے مجھے بتایا اُس کی شادی ہو گئی ہے، میں نے الفت کو ڈبل روپوں کی آفر دی۔ الفت مسکرانے لگی۔ مجھے الفت کی باتوں پر یقین نہیں آیا میں نے آفر بڑھا دی تو الفت نے مجھے اُس کے سسرال کا اڈریس دے دیا۔ میں نے پتہ کروایا تو الفت کی بات سچ نکلی۔‘‘ لائبہ یہ سن کر ہنسنے لگی …پھر ہنستے ہنستے ہی اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ گھائل لہجے میں کہنے لگی:
’’آپ کی عیاشی اُدھوری رہ گئی ہوگی نا۔‘‘
’’آپ کو کیا لگتا ہے…تمام مرد عیاش ہوتے ہیں اور تمام عورتیں وفادار…؟‘‘ کاشان کی آواز سے بھی درد ٹپک پڑا تھا۔ لائبہ کے مکھڑے پر گھائل مسکراہٹ نے قدم رکھے۔ اُس نے اُسی انداز میں کاشان کو دیکھتے ہوئے کہا:
’’عیاش تو آپ ہیں ہی…اب جہاں تک وفا کی بات ہے جو شخص اپنے مسیحا کی بیٹی سے وفا نہیں کر سکا وہ کسی اور سے کیا کرے گا۔‘‘ لائبہ کے منہ سے الفاظ ایسے نکل رہے تھے جیسے تیر کمان سے۔ اُن تیروں سے اب کی بار کاشان بلک اُٹھا تھا۔ کاشان کی آنکھیں بھر آئی تھیں، اُس نے ضبط کے ساتھ اشکوں کو آنکھوں سے رہائی نہیں دی تھی۔
’’مسیحا کے احسانوں کے ساتھ ساتھ میری اماںکی قسم نے میرے ہاتھ باندھ رکھے تھے، ورنہ میں کب کا رباب کو طلاق دے دیتا۔‘‘
’’ایک مرد اور کر بھی کیا سکتا ہے۔‘‘ لائبہ نے طنز سے بھرا ایک تیر اور مارا اِس بار کاشان آنسووئوں کو روک نہیں پایا۔ کاشان جیسے مرد کی آنکھوں سے آنسووئوں کا بہنا لائبہ کے لیے اچنبے کی بات تھی کاشان نے اپنی آستین سے کسی بچے کی طرح اپنے آنسو صاف کیے۔
’’ایاز کے ساتھ شادی کرنے سے پہلے آپ کو پتہ تھا کہ وہ بد کردار ہے؟‘‘ کاشان نے لائبہ کی طرف دیکھ کر بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا، لائبہ نے صرف نفی میں گردن ہلانے پر اکتفا کیا۔
’’میں رباب کو بچپن سے جانتا تھا وہ ایک کریکٹر لیس لڑکی تھی…اِس کے باوجود میں نے اُس سے شادی کی۔‘‘ کاشان کی بات سن کر لائبہ کو حیرت کا جھٹکا لگا۔
’’عیاش مرد ہی نہیں عیاش عورتیں بھی ہوتی ہیں …رباب بھی ایک عیاش عورت تھی۔ وہ عام سی شکل و صورت کے باوجود حسین چہروں پر مر مٹتی تھی۔ اُس کی پہلی شادی بھی اِسی وجہ سے ٹوٹی تھی۔‘‘
’’رباب مر چکی ہے کچھ تو اُس کا لحاظ کریں۔‘‘ لائبہ نے ترش لہجے میں کاشان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ کاشان خاموش ہوگیا اور نظریں جھکا کر کچھ سوچنے لگا جب خاموشی کا سلسلہ طویل ہوا تو لائبہ نے بات شروع کی:
’’آپ نے رباب سے شادی کیوں کی تھی؟‘‘
’’اماںاُس کی اصلیت سے ناواقف تھیں…رباب کو ایک ایسا ہسبینڈ چاہیے تھا جو روک ٹوک نہ کرے اِس حساب سے اُس کی نظر میں، میں آئیڈیل تھا۔ رباب نے خود اپنے ڈیڈی سے اِس رشتے کے متعلق بات کی تھی۔ فرزند صاحب نے اپنے احسانوں کے بدلے میں اپنی آدھی بدنامی میرے سر تھونپ دی۔‘‘
’’رباب عیاش کیوں بنی…؟‘‘ لائبہ نے پوچھا۔
’’فرزند صاحب کی وجہ سے…رباب کی ماں نے فرزند صاحب کی رنگین طبیعت سے تنگ آکر خود کشی کی تھی جس بات سے رباب واقف تھی۔ وہ اپنے ڈیڈی کو اذیت پہچانے کے لیے یہ سب کرتی تھی…اُس رات جب میں اپنے اپارٹمنٹ پر پہنچا تو وہ کسی نئے لڑکے کے ساتھ تھی ۔ میں نے اُس لڑکے کو جانے دیا اور رباب کے پاس بیٹھ کر اُسے کہنے لگا
’’تم اپنے ڈیڈی کے گناہوں کی سزا مجھے کیوں دے رہی ہو…؟‘‘
’’اِس لیے کہ تم بھی میرے ڈیڈی جیسے ہی ہو۔‘‘ رباب نے بغیر کسی ندامت کے اُلٹا مجھ پر ہی طنز کر دیا تھا۔
’’میں تمھارے ڈیڈی جیسا نہیں تھا تم نے مجھے مجبور کیا۔‘‘
کاشان گناہ کو گناہ سے ختم کرنے چلے تھے۔ گناہ کو نیکی سے بدلا جاتا ہے، تم تو میرے ہی رستے پر چل پڑے۔‘ ‘ رباب نے تڑپ کر جواب دیا۔
’’میں تمھیں معاف کرتا ہوں۔‘‘
’ہمارے ہی ٹکڑوں پر پلنے والا اب مجھے معافی دے گا۔‘‘ رباب نے تضحیک آمیز لہجے میں کہا، میں وہ بھی برداشت کر گیا۔
’’مجھے معاف کردو … میں نے توبہ کر لی ہے تم بھی کر لو۔‘‘میں نے خلوص دل کے ساتھ اُس سے معافی مانگی تھی۔
’’ارے جائو اپنا کام کرو۔‘‘ رباب نے بیزاری سے جواب دیا۔ میں وہاں سے جانے لگا۔
’’کہاں جا رہے ہو…؟‘‘ رباب نے رُعب سے پوچھا۔
’’اماںکی قبر پر…آج اُن سے پوچھوں گا یہ ہے آپ کی پسند جو اپنے گناہوں پر توبہ بھی نہیں مانگتی اور کسی کو معاف بھی نہیں کرتی۔‘‘ میں وہاں سے سالوں بعد سیدھا مسجد گیا۔ فجر کی نماز پڑھی اُس کے بعد قبرستان چلا گیا۔جب قبرستان سے لوٹا تو صوفے پر رباب مردہ حالت میں پڑی تھی اُس نے اپنی کلائی کی نسیں کاٹ لی تھیں۔ سائیڈ میز پر اُس کی ہینڈ رائٹنگ میں لکھا ہوا ایک خط پڑا تھا جس میں لکھا تھا :
’’اب مجھے ڈیڈی اور کاشان جیسے مردوں سے معافی مانگنی پڑے گی…اِس سے تو بہتر ہے میں اپنی ممّی کے پاس ہی چلی جائوں ممی کے پاس جانے سے پہلے میں نے اُس سے معافی مانگ لی جو اصل میں معاف کرنے کے قابل ہے … میں اپنی موت کی خود ذمہ دار ہوں، اسے قتل نہ سمجھا جائے۔ ‘‘ کاشان اپنی اور رباب کی کہانی سنانے کے بعد گم سم صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔ لائبہ نے کاشان کی اُداسی دیکھی تو وہ اُس کے پہلو میں جا بیٹھی۔ جیسے ہی کاشان کی اُس پر نظر پڑی وہ اُس سے لپٹ گیا۔
’’اماں کے بعد مجھے کبھی کسی نے پیار نہیں کیا۔‘‘لائبہ کے کندھے پر بند آنکھوں کے ساتھ سر رکھے ہوئے کاشان بول رہا تھا۔ لائبہ بھی تھوڑی نرم پڑگئی، وہ نرمی سے کہنے لگی:
’’چلیں اُٹھیں بیڈ پر چلتے ہیں۔‘ ‘بیڈ پر بیٹھنے کے بعد کاشان نے اپنا کوٹ اُتارکر سائیڈ پر رکھ دیا اور کوٹ کی پاکٹ سے ایک نیلا رومال نکال کر لائبہ کو دیتے ہوئے کہنے لگا:
’’میں وعدہ کرتا ہوں ساری زندگی آپ کو ٹشو پیپر کی بجائے رومال کی طرح رکھوں گا ، غلطی کروگی تو محبت کے پانی سے دھو دوں گا۔‘‘ لائبہ رومال پکڑتے ہوئے کاشان کے سینے سے لگ گئی۔
رات کے دوسرے پہر کاشان لائبہ سے کہنے لگا:
’’زندگی میں ایسا سکون پہلی بار ملا ہے۔‘‘ کاشان اور لائبہ بیڈ پر ایک دوسرے کی طرف منہ کرکے لیٹے ہوئے تھے۔
’’مجھ سے شادی کر کے…؟‘‘ لائبہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘ کاشان نے اطمینان سے اقرار کیا۔
’’وہ کیوں…؟‘‘
’’پتہ نہیں…‘‘ کاشان نے ہلکی سی مسکراہٹ کا سہارا لیتے ہوئے لا علمی کا اظہار کیا۔
’’آپ میرے پیچھے لاہور کیوں آئے۔‘‘ لائبہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’آپ سے شادی کرنے کے لیے۔‘‘
’’اگر میں نہ کرتی تو…؟‘‘ لائبہ نے کاشان کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔ کاشان نے اپنا ہاتھ لائبہ کے گال پر رکھتے ہوئے بتایا:
’’تو میں مر جاتا…‘‘
’’آپ نے اُس وقت مجھ سے نکاح کیوں نہیں کیا تھا۔‘‘ لائبہ نے ہلکی سی خفگی سے کاشان کا ہاتھ پیچھے ہٹا دیا تھا۔ لائبہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ کاشان بھی فکر مندی سے بیٹھ گیا۔اُس نے لائبہ کی آنکھوں میں دیکھ کر بتایا:
’’اُس وقت محبت نہیں تھی۔‘‘
’’اب مجھ سے شادی کیوں کی…؟‘‘ لائبہ نے روکھے لہجے میں پوچھا۔
’’اِس لیے کہ اب محبت ہوگئی ہے آپ سے…‘‘ لائبہ کے چہرے پر حیرت ہی حیرت اُمڈ آئی تھی۔
’’محبت وہ بھی مجھ جیسی لڑکی سے…‘‘ لائبہ نے ایسے پوچھا جیسے کاشان کی بات پر یقین نہ ہو۔ کاشان نے لائبہ کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں سے تھاما پھر ہونٹوں سے چوما اور چوم کر اپنی آنکھوں سے لگا لیا۔ لائبہ کی آنکھوں میں چمک کے ساتھ ساتھ کئی سوال بھی تھے۔
’’آپ نے بڑی غلطیاں کی ہیں…اپنے شوہر کے گھر بائیک لے جانے کے لیے آپ خود کو بازار میں لے آئیں …طلاق کے بعد آپ گھر بیٹھ کر سلائی شروع کر سکتی تھیں، مگر آپ نے پھر سے بازار کا رُخ کیا…اِس سب کے باوجود آپ ایاز، رباب، فرزند انکل اور مجھ سے ہزار گنا بہتر ہیں…آئندہ کبھی بھی اپنے ماضی کو یاد مت کیجئے گا۔‘‘
’’میں بہت گناہ گار ہوں۔‘‘ لائبہ نے عاجزی سے اعتراف کیا۔
’’نہیں گناہ گار تو میں ہوں…جسے پانے سے سکون مل جائے وہ گناہ گار کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘ کاشان نے لائبہ کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہا ۔ لائبہ نے پیار سے کاشان کا سر اپنے کندھے سے اُٹھا کر اُسے لٹا دیا اور خود بھی اُس کی طرف منہ کر کے لیٹ گئی۔
’’آپ کی آنکھیں نیند سے بھری پڑی ہیں…آپ سو جائیں۔‘‘ لائبہ کے دیکھتے ہی دیکھتے کاشان گہری نیند سو گیا۔ لائبہ کی نظریں کاشان کے مکھڑے پر جمی ہوئی تھیں وہ اُسے ٹک ٹکی لگائے مسلسل دیکھے جا رہی تھی۔ لائبہ سوئے ہوئے کاشان کے سر میں بڑی محبت سے اپنی نرم انگلیاں پھیرنے لگی۔ اُس کے بعد لائبہ نے بڑی محبت سے کاشان کی پیشانی کا بوسہ لیا۔ لائبہ کی آنکھیں بھر آئیں اُس کے ہونٹوں پر بڑی پیاری سی مسکراہٹ نے قدم رکھے وہ کاشان کے رخسار کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے دل میں کہنے لگی
’’ آپ میری پہلی محبت اور آخری نفرت تھے…آج میری نفرت مر گئی، اب صرف محبت ہی محبت ہے…سوگئے ہیں نہیں تو آپ کو بتاتی۔جب میں نے پہلی بار اپنے خوابوں کے شہزادے کو دیکھا تھا…میں سلائی کا میٹریل لینے کے لیے اپنے گھر کے پاس پلازے میں گئی، میں نے دوسری طرف والی بلڈنگ کے سامنے ایک ٹرک میں سے مزدوروں سے سامان اُترواتے ہوئے ایک لڑکے کو دیکھا۔ دراز قد، سانولی رنگت، موٹی موٹی سیاہ آنکھیں…مجھے ایسا لگا یہ تو وہی ہے جس کی مجھے تلاش تھی، میں نے اُس کے بارے میں پتہ کیا۔ وہ اور اُس کی ماں اپارٹمنٹ میں شفٹ ہوئے تھے۔ جب وہ اپنے آفس سے لوٹتا تو میں اُس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پہلے سے اُس کی بلڈنگ کے سامنے میٹریل والی شاپ پر اور کبھی سلائی کڑھائی والے کے پاس نہیں تو چاٹ کھانے کے بہانے وہاں ہوتی۔ کئی مہینوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا، پھر ایک دن مجھے پتا چلا اُس نے شادی کر لی ہے ۔جب میں نے اُس کی بیوی کو دیکھا تو مجھے بڑا دُکھ ہوا وہ تو عام سی شکل و صورت والی عورت تھی۔ میرادل ٹوٹ گیا میں نے اُسے دیکھنا بند کر دیا۔ امّی کو میری شادی کی فکر ستانے لگی، مجھے پھر سے اپنے خوابوں کا شہزادہ یاد آگیا۔ میں من ہی من میں اپنے محبوب کی دوسری بیوی بننے پر راضی ہوگئی۔ خالی میرے راضی ہونے سے کیا ہوتا تھا۔ امّی نے ایاز سے میرا رشتہ طے کر دیا میں نے ایاز کو ہی اپنا شہزادہ مان لیا تھا۔
سیٹھ سلیم کی موت کی خبر کے بعد جب میں گھر آنے لگی تو الفت آنٹی نے مجھے ایک تصویر دکھائی وہ میرے خوابوں کے شہزادے کی تصویر تھی یعنی آپ کی نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے ہاں کردی۔ جب آپ سے میں گیسٹ ہاؤس میں ملی تو میں نے آپ سے اپنے دل کی بات کہی تھی کہ آپ مجھ سے بھی نکاح کرلیں، مگر آپ نہیں مانے…آج آپ مجھے مل تو گئے لیکن یہ سفر بڑا کٹھن تھا…‘ ‘لائبہ نے پیار سے کاشان کے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ لائٹ بند کی اور کاشان کے ساتھ لپٹ کر سو گئی۔
٭
لائبہ نے اپنے گیلے گیسوئوں سے کاشان کے مکھڑے پر پانی کے قطرے گراتے ہوئے بڑی محبت سے کہا
’’کتنا سوتے ہیں آپ…اب اُٹھ بھی جائیں…دوپہر ہو گئی ہے‘‘ کاشان ہڑبڑاہٹ میں اُٹھتے ہوئے بیٹھ گیا۔ جیسے ہی کاشان کی آنکھیں کھُلی، لائبہ کے گلابی ہونٹوں سے الفاظ نکلے
آئی لو یو
کاشان کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اُس نے اپنی آنکھیں بند کرنے کے بعد دوبارہ کھولیں تو اُسے لائبہ کی نیلی آنکھیں دکھائی دیں۔
’’کالے لینز اُتار دیئے…‘‘ لائبہ  نے معصوم بچے کی طرح گردن کو ہاں میں خم دیا۔
’’پھر سے کہنا…‘‘ کاشان نے فرمائش کی۔
’’کیا…‘‘
آئی لو یو ۔ کاشان نے بتایا۔
’’میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔‘‘ لائبہ نے محبت ہی سے کہا۔
’’مجھے یقین نہیں آ رہا۔‘‘ کاشان نے خوشی سے جھومتے ہوئے بتایا۔
’’ابھی تو میں نے آپ کو اور بھی بہت کچھ بتانا ہے۔‘‘
’’بتاؤ نا…‘‘ کاشان نے فٹ سے کہا۔
’’ایسے کیسے بتا دوں…؟‘‘ لائبہ کندھے اُچکاتے ہوئے بڑے انداز سے بولی۔
’’پلیز بتاؤ نا…؟‘‘ کاشان نے بچے کی طرح کہا۔ کاشان کی اِس معصومیت پر لائبہ کو پیار آ گیا۔ اُس نے سائیڈ میز سے اپنا موبائل پکڑا اور کاشان کی تصویر بنانے لگی۔
’’میرے ساتھ سیلفی نہیں بناؤ گی…‘‘ کاشان نے منہ بناتے ہوئے پوچھا۔
’’پہلے آپ فریش ہو جائیں…آپ کے ساتھ سیلفیاں بھی بناؤں گی اور فوٹو شوٹ بھی کرواؤں گی۔‘‘ لائبہ نے کاشان کو کلائی سے تھام کر بیڈ سے اُٹھایا۔کاشان واش روم میں چلا گیا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔
’’آجائیں بابا۔‘‘ لائبہ نے اجازت دی…نظام بابا ہاتھ میں ایک پارسل پکڑے کمرے میں داخل ہوا۔
’’بیٹی یہ ایک لڑکا دے کر گیا ہے۔‘‘ لائبہ نے اُس پارسل کو کھولتے ہوئے پوچھا
’’ناشتہ تیار ہو گیا۔‘‘
’’سکینہ بنا رہی ہے۔‘‘ نظام بابا نے بتایا۔
’’ٹھیک ہے آپ جائیں…ناشتہ ڈائننگ ٹیبل پر لگا کے بتائیے گا‘‘
’’ٹھیک ہے بیٹی…‘‘ نظام بابا نے وہاں سے جاتے ہوئے کہا۔ کاشان واش روم سے نکلا ، اُس نے اپنے نیلے ٹوپیس والی پینٹ پھر سے پہن لی تھی۔
’’یہ آپ کے کپڑے…‘‘ لائبہ واش روم کے دروازے کے پاس کاشان کے کپڑے پکڑے کھڑی تھی۔ اُس نے لائبہ کے ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
’’یہ کہاں سے آئے…‘‘
’’بوتیک والی ہوں۔‘‘ لائبہ نے بڑے فخر سے کہا۔کاشان کپڑے لے کر واش روم میں چلا گیا اِس بار اُس نے دروازہ بند نہیں کیا تھا جب وہ باہر نکلا تو لائبہ نے اُسے غور سے دیکھا پھر کہنے لگی
’’کل سے ایک ہی سوٹ میں گھومے جا رہے تھے…ایئرپورٹ سے بوتیک پھر اسلامک سینٹر…سوئے بھی اُسی سوٹ میں تھے۔‘‘ لائبہ نے کاشان کی قمیض کا بٹن بند کیا۔
’’سویا کہاں تھا اُس سوٹ میں…؟‘‘ کاشان نے لائبہ کو بازوؤں سے تھامتے ہوئے شرارتی لہجے میں بتایا۔ لائبہ نے یہ سن کر نظریں جھکاتے ہوئے تبصرہ کیا
’’بے شرم…‘‘ کاشان نے لائبہ کا چہرہ اوپر اُٹھایا اور پوچھنے لگا
’’ہنی مون پر کہاں جانا ہے۔‘‘ لائبہ کے گمان میں دُور دُور تک نہ تھا کہ کاشان اُس سے یہ بھی پوچھ سکتا ہے وہ چند لمحے تو اُسے دیکھتی ہی رہی پھر چنچل لہجے میں بول اُٹھی
‘’پیرس…حریم اور اسد کے پاس…حریم اور اسد کو میری شادی کی بڑی فکر تھی۔‘‘ کاشان کا چہرہ بھی کھِل اُٹھا مگر وہ کچھ سوچ رہا تھا۔
’’کیا سوچ رہے ہیں۔‘‘ لائبہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
’’اسد کے بارے میں…وہ پڑھتا کراچی میں تھا اُس کے دوست لاہور میں ہیں…اب وہ پیرس چلا گیا۔‘‘ کاشان نے ایک ساتھ تین سوال پوچھ لیے۔
’’اسد کے والد ایک صنعت کار ہیں … لاہور میں انہوں نے ایک طوائف سے دوسری شادی کی تھی…جب خاندان والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے طلاق کر وا دی…اسد کو اُس کے والد اپنے ساتھ لے گئے…اسد بڑا ہوا تو اُس کے خاندان والوں نے اُسے طعنے مارنے شروع کر دیئے…تب اُس نے اپنی ماں کے بارے میں جانا…وہ اپنی ماں سے ملنے لاہور آنے جانے لگا…یہاں بھی اُس کے دوست بن گئے…ماں تو اُس کی لاہور چھوڑ کر اگلے جہاں کوچ کرگئی مگر اسد نے لاہور نہ چھوڑا جب میں نے اُسے اپنے متعلق بتایا تو اُس نے ہی مجھے لاہور شفٹ ہونے کا مشورہ دیا تھا۔‘‘ دروازے پر دستک ہوئی۔ لائبہ کاشان سے دو قدم پیچھے ہٹ گئی۔
’’آجائیں بابا۔‘‘
’’بیٹی ناشتہ لگادیا ہے۔‘‘نظام بابا نے دروازے سے باہر کھڑے کھڑے ہی اطلاع دی۔
’’ٹھیک ہے ہم آتے ہیں۔‘‘ نظام بابا نے دروازہ بند کیا اور وہاں سے چلا گیا۔
’’نظام بابا اور سکینہ بی بی بھی اسد ہی کی وجہ سے ملے ہیں۔‘‘ لائبہ نے کاشان کو بتایا۔
’’اب تو اسد سے ملنا ہی پڑے گا۔‘‘ کاشان یہ بولتے ہوئے لائبہ کی طرف بڑھا، اُس نے لائبہ کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اُسے اپنے قریب کیا ۔
’’اُس کے لیے ہمیں پیرس جانا پڑے گا۔‘‘ لائبہ نے کاشان سے اپنی نیلی آنکھیں ملاتے ہوئے بتایا۔
’’آپ کیا بتانا چاہتی تھیں مجھے۔‘‘ کاشان نے لائبہ کی نیلی آنکھوں میں کھوتے ہوئے پوچھا۔
’’وہ تو میں ہنی مون پر ہی بتاؤں گی…ابھی ناشتے پر ہی گزارہ کریں۔‘‘ لائبہ نے کاشان کی گرفت سے آزاد ہوتے ہوئے کہا۔ کاشان نے وال کلاک کی طرف دیکھا۔
’’دوپہر ڈیڑھ بجے ناشتہ…؟‘‘
’’جی ہاں چلیں…‘‘ کاشان کو بازو سے پکڑ کر لائبہ بیڈ روم سے باہر لے گئی ۔
٭
لائبہ اور کاشان ڈائننگ میز پر ناشتہ کرنے میں مصروف تھے ۔ ناشتے کے بعد کاشان اپنی کرسی سے اُٹھنے لگا تو وہ اُٹھ نہیں پایا اگر لائبہ اُسے نہ تھامتی تو وہ گر جاتا۔ کاشان کے ماتھے پر پسینہ تھا اور اُس کے چہرے پر لالی اُمڈ آئی۔ اُس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھے ہوئے تھے۔
نظام بابا…سکینہ بی بی …‘‘ کاشان کی حالت دیکھ کر لائبہ پُکار اُٹھی۔ نظام بابا اور سکینہ بی بی فوراً آگئے۔ اُن تینوں نے مل کر کاشان کو کار میں ڈالا، لائبہ اور نظام بابا اُسے ہاسپیٹل لے گئے۔
لائبہ کوریڈور میں ہاتھ جوڑے اور آنکھیں بند کیے ہوئے کاشان کے لیے دُعا مانگ رہی تھی۔ روم کا دروازہ کھُلا لائبہ اُس کی طرف لپکی، ڈاکٹر باہر نکلا ۔
ہارٹ اٹیک تھا…جو جان لیوا ثابت ہوا۔‘‘ ڈاکٹر نے یہ بتایا اور اپنی راہ پکڑی۔ لائبہ دیوانوں کی طرح کمرے میں گھس گئی دو نرسیں اور ایک لیڈی ڈاکٹر اب بھی کاشان کی ڈیڈ باڈی کے گرد کھڑے تھے۔
کیسے مر سکتے ہو تم…‘‘ لائبہ نے جاتے ہی کاشان کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے پوچھا۔ ایک نرس آگے بڑھی، لیڈی ڈاکٹر نے اُسے پیچھے رہنے کا اشارہ کر دیا۔
میں کس کے ساتھ ہنی مون پر جاؤں گی…تم کراچی سے مجھے بیوہ بنانے کے لیے آئے تھے کیا…؟‘‘ لائبہ چلائی…لائبہ کے آنسو بہتے جا رہے تھے۔ لائبہ کے نالے سُن کر ایک نرس کے آنسو نکل آئے۔ دوسری کی آنکھیں چمک اُٹھی تھیں، اس سے پہلے کے لیڈی ڈاکٹر کے بھی آنسو نکلتے وہ وہاں سے چلی ہی گئی۔
کاشان مولا کے لیے اُٹھو مجھے تمہیں بتانا ہے کہ میں تمھیں کب سے محبت کرتی ہوں…پلیز کاشان اُٹھ جاؤ…نا…پلیز کاشان…میں نے تو ابھی اپنے دل کی ساری باتیں بتانی تھیں تمھیں…وہ سنے بغیر تم کیسے مر سکتے ہو۔‘‘ لائبہ دیوانوں کی طرح بولے جا رہی تھی۔ نظام بابا کمرے میں داخل ہوا اُس نے لائبہ کے سر پر شفت سے ہاتھ رکھا لائبہ اُس سے لپٹ کر رونے لگی۔
٭
چند دن بعد حریم اور اسد پیرس سے آئے۔
جس دن لائبہ بیٹی کا شوہر کراچی سے آیا تو وہ بہت خوش تھی۔‘‘ سکینہ بی بی حریم اور اسد کو بتا رہی تھی۔
’’باتیں ہی سناتی رہو گی بھاگ وان کوئی چائے پانی کا بندو بست بھی تو کرو۔‘ نظام بابا نے کہا۔ سکینہ کچن کی طرف چلی گئی۔ حریم نے نظام بابا سے پوچھا
’’آپی ہیں کدھر…؟‘‘
’’ٹیرس پر بیٹھی ہے۔‘‘ نظام بابا نے بتایا۔
حریم آپی کے پاس جاؤ…انہیں اِس وقت سب سے زیادہ تمھاری ضرورت ہے۔‘‘ اسد نے حریم سے کہا ۔ حریم وہاں سے چلی گئی۔
’’صاحب اُس کرسی پر بیٹھ کر ناشتہ کر رہے تھے۔‘‘ نظام بابا نے اسد کو بتایا۔
لائبہ ٹیرس پر گم سم بیٹھی ہوئی تھی ،وہ ایک سفید شال اوڑھے ہوئے تھی اور اُس کے ہاتھ اُس شال کے اندر تھے، اُس کی آنکھیں نیلی خشک جھیل کی طرح تھیں جن میں پانی کا نام و نشان نہیں تھا۔ اُس کے سامنے ایک لوہے کی میز پڑی تھی میز کے اوپر ایک ٹشو کا ڈبہ اور ڈبے کے ساتھ لائبہ کا موبائل پڑا ہوا تھا۔
آپی…‘‘ جیسے ہی حریم کی آواز لائبہ کے کانوں میں پڑی وہ بلبلا اُٹھی۔ حریم لوہے کی کرسی پر بیٹھی ہوئی لائبہ سے لپٹ گئی۔ نیلی خشک جھیل میں لمحوں کے اندر ہی سیلاب آگیا۔ لائبہ بلک بلک کر رونے لگی۔ تقریباً دس منٹ تک لائبہ روتی رہی اور حریم اُسے چپ کرواتی رہی۔
’’میں کس کے سہارے زندگی گزاروں گی…؟‘‘ لائبہ نے روتے ہوئے حریم سے پوچھا۔
آپ کا ایک بھائی بھی ہے…‘‘ اسد کا ہاتھ لائبہ کے سر پر تھا۔ لائبہ نے گردن اُٹھا کر دیکھا، اُس کی نیلی آنکھوں سے نمکین پانی مسلسل بہے جا رہا تھا۔ اسد نے ٹشو کے ڈبے کو اُٹھایا جس کے نیچے ایک چیک تھا۔ اُس میں سے کافی سارے ٹشو نکال کر وہ لائبہ کی آنکھیں صاف کرنے لگا۔ ٹشوکا ڈبہ اُس نے واپس میز پر رکھ دیا۔ حریم کو اسد نے سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔
سکینہ بی بی اور نظام بابا چائے اور بیکری کی اشیا ٹرے میں رکھے وہاں پر آئے، اِس سے پہلے کہ وہ سارا سامان میز پر رکھتے۔ لائبہ نے دائیں ہاتھ سے وہ چیک پکڑ کر بائیں ہاتھ کی مٹھی میں دبا لیا جس میں پہلے سے ایک نیلا رومال بھی تھا۔ اُن دونوں نے چائے اور بیکری کا سامان میز پر رکھ دیا۔
اسد بیٹھو۔‘‘ لائبہ نے بھیگی آواز میں کہا۔ نظام بابا اور سکینہ بی بی وہاں سے چلے گئے، حریم چائے کپوں میں ڈالنے لگی۔
یہ لو تمھاری امانت۔‘‘ لائبہ نے اپنی بائیں ہاتھ کی مٹھی سے ایک چیک نکال کر اسد کی طرف کر دیا تھا۔ اسد  نے اُسے پکڑ کر کھولا۔
’’پچاس لاکھ کا چیک…؟‘‘اسد نے سوالیہ انداز میں پوچھا ۔
اِس میں حیرانی کی کیا بات ہے…بوتیک شروع کرنے کے لیے تم نے مجھے پچاس لاکھ دیا تھا۔ وہ واپس کیا ہے۔‘‘
’’مگر آپی اتنی جلدی آپ کے پاس اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی۔‘‘ حریم نے جلدی سے سوال کیا۔
حق مہر کے ہیں…‘‘لائبہ نے مختصر سا جواب دیا۔ یہ بولتے ہوئے اُس کے بے ساختہ آنسو نکل آئے۔ حریم  نے جلدی سے ٹشو پیپر کا ڈبہ اُٹھا کر لائبہ کی طرف کیا، لائبہ نے بائیں ہاتھ کی مٹھی سے کاشان کا دیا ہوا نیلا رومال نکالا اور اپنی بھیگی پلکیں صاف کرنے کے بعد بھرائی ہوئی آواز میں کہنے لگی
آنسو دینے والا رومال بھی دے گیا ہے ۔‘‘لائبہ نے ٹشو پیپر کے ڈبے کی طرف دیکھا جو فضا میں بلند حریم کے ہاتھ میں تھا۔ اُس نے اپنی گردن کو دائیں بائیں ہلایا پھر حریم کو اپنے محبوب کا نیلا رومال دکھاتے ہوئے کہنے لگی
’’ٹشو پیپر نہیں …رومال‘‘
…ختم شد…

Previous article
Next article

Related Articles

1 COMMENT

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles