21 C
Lahore
Saturday, April 27, 2024

Book Store

تمانچہ

تمانچہ

شکیل احمد چوہان 

ہم ماں بیٹا سارا دن کھجل خوار ہو کر چار پیسے کماتے ہیں، اور تم ….وہ بھی دھوئیں میں اُڑا د یتے ہو۔
چھوڑ دو وزیر ! اس جوئے اور نشے کی لت کو … نہیں تو میں تمھیں چھو ڑ دوں گی۔
’’محبت کی شادی تھی ہماری ! ‘‘وزیر نے چرس کو خالی سگریٹ میں بھر تے ہو ئے بتایا۔
محبت کا جنازہ ہی تو دس سال سے اُ ٹھا رکھا ہے میں نے۔۔۔ اب اور نہیں اُٹھایا جاتا۔‘‘ نجمہ  نے کندھے پر سوئی ہوئی، اپنی دو سالہ بیٹی کو چارپائی پر لٹاتے ہو ئے کہا ۔
نجمہ نے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف وزیر سے شادی کی تھی۔ اُن دنوں وزیر کا اپنا رکشہ تھا۔ وزیر جب کبھی جنوبی پنجاب اپنے گاؤں جاتا تو سارے گاؤں والوں کو لاہور کے قصے سناتا ۔ نجمہ اور وزیر گاؤں میں پڑوسی تھے۔
نجمہ کی منگنی اپنی دور کی ما سی کے بیٹے کے سا تھ ہو چکی تھی ۔ وہ لو گ بھی نجمہ کے گھر والوں کی طرح ہی غربت میں غوطے کھا رہے تھے۔ جبکہ نجمہ دولت کے صاف شفاف پانیوں پر تیرنا چاہتی تھی۔
نجمہ نے بغاوت کا علم بلند کر تے ہوئے وزیر سے شادی کا فیصلہ ا پنے والدین کو سنا دیا۔ نجمہ کے والدین نے بغاوت کا سر کچلنے کی بجا ئے، فوراً ہی اپنی شرطیں منواتے ہوئے ہار قبول کر لی۔
نجمہ اور وزیر کی شادی ہو گئی ۔وزیر نجمہ کو اپنے سا تھ لاہور  لے آیا۔ باری اسٹوڈیو کے پاس اُس نے ایک گھر کرائے پر  لے لیا۔
شادی کے چار چھے مہینے تو پیار پیار میں گزر گئے، اُسی دوران نجمہ اُمید سے ہو گئی، پھر وزیر کو جوئے کی لت لگ گئی، چرس تو وہ پہلے بھی پیتا تھا۔ مگر نجمہ سے چھپ کر اب اُس نے نجمہ کے سامنے بھی پینی شروع کر دی۔ ایک دن وزیر جوئے میں اپنا رکشہ ہی ہار گیا ۔
جب نجمہ کا بڑا بیٹا قمر پیدا ہوا۔ اُس و قت وزیر کرا ئے پر کسی کا رکشہ چلاتا تھا۔ قمر کے بعد نجمہ کے دو بچے خورا ک کی کمی کی وجہ سے مر گئے۔ دوسرے بچے کے مرنے بعد نجمہ نے غربت سے تنگ آ کر اقبال ٹاؤن کے چند گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ امیر گھروں سے اُسے تنخواہ کے سا تھ پرانے کپڑے اور بچا کھچا کھانا بھی ملنے لگا۔ گھر گھر کا کھانا کھانے کے بعد وزیر مزید ہڈ حرام ہو گیا، اب اُس نے کرائے کا رکشہ چلانا بھی چھوڑ دیا۔
وہ سارا دن گھر میں چر س پیتا، اور نجمہ کے آنے کا انتظار کرتا۔ جیسے ہی وہ گھر آتی اُس کے لائے ہوئے کھانے سے پیٹ پوجا کرتا، اور تیار ہو کر باہر نکل جاتا۔ ساری رات باہر گزارتا، اور سویرے سویرے گھر لوٹ آتا ۔
جوا کھیلنے کے لیے وہ نجمہ کی تنخواہ کے انتظار میں رہتا۔ ا گر نجمہ اُسے تنخواہ سے پیسے نہ دیتی تو وہ اُس سے چھین لیتا۔ چھینا جھپٹی کے دوران بھی اُس نے کبھی نجمہ پر ہا تھ نہیں اُٹھایا۔ شا ید یہی وجہ تھی کہ نجمہ کے دل میں وزیر کی محبت کا دیا ٹمٹماتا رہا۔
اسی دوران نجمہ کے ہاں چوتھے بچے کی پیدائش ہو گئی۔ قمر سات سال کا ہو  کے بھی اسکول نا جا سکا۔ وزیر  نے اُسے بھی باری اسٹوڈیو کے پاس ایک ہوٹل میں کا م پر لگوا دیا ۔جس دن قمر کو تنخواہ ملنی ہوتی وزیر شام ہوتے ہی ہوٹل پہنچ جاتا، تنخواہ کھیسے میں ڈالتا اور جوئے کے اڈے کی راہ پکڑتا۔
جوئے میں اکثر ہار وزیر کا مقدر بنتی، اگر کبھی وہ جیت جاتا، تو دو چار دن مسلسل گھر میں بکرے کا گوشت ہی پکتا۔ وزیر کی ان حرکتوں پر نجمہ نے بڑا واویلا کیا مگر وزیر ٹس سے مس نہیں ہوا۔ وہ اڑیل ٹٹوکی طرح اپنی ہی مرضی کرتا۔ اسی طر ح دس سال گزر گئے۔
’’آج تنخواہ ملنی تھی نا تجھے …. لا پیسے دے۔‘‘
وزیر نے سگریٹ کو ا پنے پیر کے نیچے مسلتے ہو ئے کہا ۔
’’نشہ کر کر کے نا ….تمہاری مت ماری گئی ہے … آج مجھے نہیں قمر کو تنخواہ ملنی ہے۔‘‘
نجمہ کڑھتے ہو ئے چلائی۔ لمحہ بھر میں ہی نجمہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، وہ من ہی من میں خود کو لعن طعن کر نے لگی۔ اب وہ اس غلطی کا تدارک کر نا چاہ رہی تھی۔ نجمہ کی با ت سُن کر جیسے ہی وزیر وہاں سے اُڑن چھو ہو نے لگا ،نجمہ نے اُسے روکتے ہو ئے کہا
وزیر، دو سال سے تم قمر کی تنخواہ جو ئے میں اُڑا ر ہے ہو … آج کوئی نیا جوتا، نئے کپڑے ہی اُسے لے دو۔ کب تک میرے بچے لوگوں کی اُترن پہنیں گے؟
جب اپنے حصے کی دو کنال زمین اپنے گھر والوں کو لکھ کر دی تھی، تب نہیں آیا میرا اور اپنے ہونے والے بچوں کا خیال ۔۔۔ تب تو بڑی جلدی اُن کی شرطیں مانی تھیں ۔‘‘وزیر نے ملامتی لہجے میں نجمہ کو دس سال پرانی بات یاد کرا ئی۔
’’تمہارے لیے اپنا حصہ اپنے رشتے سب کچھ چھوڑا تھا میں  نے!‘‘ نجمہ نے وزیر کو جھنجھوڑتے ہو ئے بتایا۔
’’میرے لیے …؟‘‘وزیر نے بڑی درشتی سے پو چھا ۔
’’کوئی شک ہے تمھیں…‘‘ نجمہ نے دِل باختگی سے وزیر کو ہلاتے ہو ئے پوچھا۔ وزیر نے جواب نہیں دیا۔
’’وزیر عشق کرتی ہوں تم سے !‘‘نجمہ نے سرزنش کے انداز میں جتلایا۔
عشق …؟ عشق نہیں عیش کہو۔ تم میرے پیسو ں پر عیش کرنا چاہتی تھی، اسی لیے تم نے اپنے اُس فاقہ زدہ منگیتر کے بجائے مجھ سے شادی کی تھی۔
تم عیش کرواؤ گے …؟ تم تو خود میرے ٹکڑوں پر پل رہے ہو۔ ‘‘ جیسے ہی نجمہ  نے حقارت آمیز لہجے میں یہ کہا، وزیر  نے ایک زوردار تھپڑ اُس کے گال پر جڑ دیا ۔ نجمہ نے سرد آہ بھری اور لرزتی آواز میں گویا ہوئی
جہاں جہاں میں کام کرتی ہوں ، میں نے اپنی ہر مالکن کو بڑے مان سے بتا رکھا تھا کہ میرے وزیر کی ایک خوبی اُس کی سب خامیوں کو کھا جاتی ہے۔ اُس نے مجھ پر ہا تھ کبھی نہیں اُٹھایا …
وزیر آج تم نے میرا یہ مان بھی توڑ دیا۔
نجمہ ایک تھپڑ کھا نے سے ہی ڈر سی گئی تھی۔ وہ سہمی سمٹی کمرے کے ایک کو نے میں زمین پر بیٹھ گئی۔ وزیر گھر سے چلا گیا۔ نجمہ جسے صاف شفاف جھیل کا ناخدا سمجھ بیٹھی تھی، وہ راوی میں بہتے گٹر کے پانیوں کا کشتی بان نکلا۔
’’اُستاد جی ! وزیر تنخواہ لینے آ گیا ہے۔ ‘‘
کراچی سے تعلق رکھنے وا لے ایک ویٹر نے ہوٹل کے اندر داخل ہوتے ہوئے وزیر کو دیکھ کر ہوٹل کے مالک امتیاز پیا کو بتایا ۔
آج اس کی مرمت کرتا ہوں … رات بھی نہیں ہونے دیتا ۔ امتیاز غصے کے عالم میں اپنی جگہ سے بولتے ہوئے اُٹھا۔
قمر چائے والی ٹرے اُٹھائے جا رہا تھا، امتیاز  نے اُسے دیکھا نہیں۔ وہ اُس سے ٹکرا گیا۔ چا ئے سے بھرے شیشے کے پانچ کپ زمین پر گر گئے۔ امتیاز  نے ایک زوردار تھپڑ قمر کے گال پر دے مارا۔ جس سے قمر زمین پر منہ کے بل جا گرا۔ وزیر برق کی رفتار سے اپنے بیٹے کی طرف لپکا۔
اُس نے قمر کو اُٹھایا تو قمر کے چاند سے چہرے پر باریک کانچ کے چند ٹکڑے چبھ گئے تھے۔ قمر کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ مگر حلق سے آواز نہیں نکلی۔ ہوٹل میں بیٹھے افراد  نے بے حسی سے سب دیکھا۔ مگر مجال ہے کسی ایک کی زبان سے بھی امتیاز پیا کے خلاف ایک لفظ بھی نکلا ہو۔
امتیاز پیا کا اُس علاقے میں رعب اور دبدبہ تھا۔
قمر گم سم کھڑا تھا۔ وزیر گھٹنوں کے بل اُس کے سامنے بیٹھا ہوا، اُس کے چہرے سے باریک کانچ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نکال رہا تھا۔ قمر اگر چائے گرنے والے مقام پر گر جاتا تو اس کی آنکھیں بھی ضائع ہو سکتی تھیں۔ سارے کانچ نکلنے کے بعد قمر کے چہرے پر خون ایسے پھیلا جیسے شیشے پر پین سے لال سیاہی پھینکی ہو۔ وزیر نے کندھے سے اپنا صافہ اُتارا ،اُس سے قمر کا منہ صاف کیا ،اُسے ایک کرسی پر بٹھایا اور آنکھو ں میں انگارے لیے امتیاز کی طرف بڑھا۔ اُس  نے جاتے ہی امتیاز کو بھی اُتنی ہی شدت سے تھپڑ مارا پھر کہنے لگا
تیرا تھپڑ میر ے بیٹے کے گال پر نہیں میرے دل پر لگا ہے۔ جا امتیاز پیا ! میں نے آ ج سے جوا اور نشہ چھوڑ دیا … کل سے میرا بیٹا تیرے پاس کام نہیں کرے گا۔ ہمارے پیسے نکال ! مجھے اپنے بیٹے کو ہسپتال لے کر جانا ہے۔
امتیاز نے جلدی سے اپنی جیب سے پیسے نکال کر وزیر کو دیئے۔ قمر کو کرسی سے اُٹھا کر وزیر نے فرطِ محبت سے اپنے سینے سے لگایا اور وہاں سے چلا گیا۔
اُستاد جی ! آپ کے گال پر وزیر کی انگلیوں کے نشان ہیں۔ بڑے زور سے تمانچہ مارا ہے اُس  نے۔
اُسی ویٹر  نے سرگوشی کے انداز میں امتیاز کو بتایا۔ امتیاز  نے ویٹر کو کھا جا نے والی نظروں سے دیکھا۔
ویٹر  نے امتیاز کے گال کی طرف اپنے ابرو سے اشارہ کر تے ہو ئے ہو لے سے ایک بار پھر کہا
’’تمانچہ‘‘

…٭…

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles