19 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

shoqia qaatil|شوقیہ قاتل|Maqbool Jahangir

شوقیہ قاتل

مقبول جہانگیر

سر آرتھر کانن ڈائل نے شرلک ہومز کی زبانی ایک مرتبہ کہا تھا کہ
اگر ایک ڈاکٹر جرائم کرنے لگے، تو وہ زبردست مجرم بن سکتا ہے،
کیونکہ اُسے ایک ڈاکٹر کی حیثیت میں اچھی طرح معلوم ہے کہ
کسی کو ہلاک کرنے کے لیے کون سا زہر کب اور کس وقت استعمال کیا جا سکتا ہے?
ایک عام قاتل کی نسبت اُسے واردات سرانجام دینے کی بہت سے سہولتیں حاصل ہوتی ہیں.
اُسے پکڑنا بھی نہایت دشوار ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ نہ صرف موت کے سرٹیفکیٹ پر دستخط کرتا
بلکہ وہ وَاردات کو ایک فطری مرض میں تبدیل کرنے پر بھی قادر ہے۔
مریض کے کمرے میں اُس کا ہر لفظ ایک مقدس حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔
اُس کے تمام مشورے بلاچون و چرا تسلیم کر لیے جاتے ہیں۔
کوئی اُس سے جرح کرنے کی کوشش نہیں کرتا، لہٰذا ایک قاتل ڈاکٹر شاذونادر ہی اپنے مقصد میں ناکام ہوتا ہے۔

فرض کیجیے اگر ڈاکٹر کو مشتبہ سمجھ کر عدالت میں بلا لیا جائے، تب بھی وہ صاف بچ نکلتا ہے۔
وہ بڑی آسانی سے ثابت کر سکتا ہے کہ مقتول فطری موت مرا ہے یا وہ یہ کہہ دے گا کہ ’’مجھ‘‘ سے دوا دَینے میں ’’غلطی‘‘ ہو گئی۔
مَیں نے جان بوجھ کر اُسے ہلاک نہیں کیا، چنانچہ استغاثہ کے لیے جیوری کے ارکان کو مطمئن کرنا نہایت دشوار ہو جاتا ہے۔
قاتل ڈاکٹر نہ صرف واقعات و حقائق کو تبدیل کر سکتا ہے بلکہ استغاثہ کی جرح کا معقول جواب بھی دے سکتا ہے۔
قتل کی ابتدائی وارداتوں میں ڈاکٹر کی جانب کسی کا خیال تک نہیں جاتا،
کیونکہ پولیس ہر جرم کا محرک، موقع اور ثبوت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے،
لیکن ڈاکٹر کی طبعی و ذہنی حالت ایک دو وَارداتیں کرنے کے بعد پھر مستعد ہو جاتی ہے۔
وُہ پے در پے قتل کی وارداتیں کرنے لگتا ہے اور پھر خود ہی کسی ذریعے سے پولیس اور عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتا ہے ۔
اُس وقت سزا پاتا ہے جب وہ پندرہ بیس جانوں کو ہمیشہ کی نیند سلا چکا ہوتا ہے۔

انیسویں صدی میں انگلستان، فرانس اور اَمریکا میں قتل کی جتنی وارداتیں وقوع پذیر ہوئیں، اُن میں اکثر وارداتیں قاتل ڈاکٹروں نے سرانجام دی تھیں۔
اُن میں سے ہر ڈاکٹر نے بیس بیس پچیس پچیس جانوں کو ملکِ عدم پہنچایا تھا۔
اُن میں ڈاکٹر تھامس نیل کریم کا نام سرِفہرست ہے۔
ڈاکٹر نیل عورتوں کو قتل کرنے کی ایک نہایت زبردست فطری خواہش رکھتا تھا۔
اُس کے نفسیاتی جائزے سے پتہ چلا تھا کہ اگر وہ ڈاکٹر نہ بھی ہوتا، تب بھی ایک عادی مجرم ضرور ہوتا۔

ڈاکٹر نیل اپنی میڈیکل ٹریننگ مکمل کرنے کے لیے لندن آ گیا،
لیکن رائل کالج آف سرجن کا ممبر بننے میں ناکام رہا۔ مگر اڈنبرگ کے رائل کالج آف فزیشن اینڈ سرجن نے اُسے اپنا رکن بنا لیا ۔
وُہ سندیافتہ ڈاکٹر کی حیثیت میں پریکٹس کرنے کے لیے کینیڈا وَاپس چلا گیا، لیکن بہت تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد اُس کے مکان کے پچھواڑے میں ایک نوجوان لڑکی کی لاش پائی گئی جو کلوروفارم کی زیادتی سے ہلاک ہوئی تھی۔
اِس واقعے نے ڈاکٹر کو کینیڈا چھوڑ کر اَمریکا چلے جانے پر مجبور کر دیا۔
تحقیقاتِ موت کی عدالت میں یہ ظاہر ہوا کہ اُس لڑکی کو ناجائز حمل تھا اور وُہ اِسقاطِ حمل کے لیے کسی ڈاکٹر کی تلاش میں تھی۔
چونکہ ڈاکٹر نیل کے خلاف اِس بات کا ثبوت نہیں مل سکا کہ اُس نے لڑکی کو قتل کیا تھا، لیکن اُس پر شک کرنے کی وجوہ اِتنی قوی تھیں کہ ڈاکٹر کی پریکٹس تباہ ہو گئی اور وُہ شکاگو چلا گیا۔

شکاگو میں جب اُس نے اپنا مطب کھولا، تو اُس کے بارے میں عام طور پر یہ مشہور تھا کہ وہ اِسقاطِ حمل کا ڈاکٹر ہے۔ جب ایک ناجائز آپریشن کے دوران ایک لڑکی مر گئی،
تو ڈاکٹر کے خلاف یہ شبہ اور تقویت پکڑ گیا، لیکن اِس مرتبہ بھی پولیس اُس کے خلاف کوئی واضح ثبوت پیش نہ کر سکی۔
چند ماہ بعد ایک اور لڑکی اِنھی حالات میں مر گئی، لیکن ڈاکٹر نیل کے خلاف فردِ جرم عائد نہ ہو سکی۔ ۱۸۸۱ء میں ایک اور خطرناک کیس وقوع پذیر ہوا۔

ڈاکٹر نیل نے اخبارات میں اشتہار دِیا کہ وہ مرگی کا علاج کر سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ڈاکٹر کی حیثیت میں اُس کے لیے عورتوں کو ہلاک کرنا بہت آسان کام بن گیا۔
اِس کے ساتھ ساتھ اُس کی ایک عجیب فطرت یہ تھی کہ وہ قتل کے بعد لوگوںکی توجہ اپنی طرف مبذول کراتا تھا۔
اِسی خواہش کے نتیجے میں اُسے دو مرتبہ قتل کے ارتکاب میں سزا ہوئی۔
شکاگو میں ایک لمبی سزائے قید بھگتنے کے بعد وہ ۱۸۹۱ء میں لندن آیا تاکہ یہاں اپنے خطرناک ارادوں کی تکمیل کے لیے زمین ہموار کرے ۔
اِس سے پیشتر کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ اُس کی شخصیت سے آشنا ہو سکے، اُس نے چار طوائفوں کو موت کے گھاٹ اتار دِیا۔

ڈاکٹر تھامس نیل اُن چند قاتلوں میں سے تھا جو سزا پانے کے بعد بھی متعدد بار وَارداتیں کیا کرتے ہیں اور آخرکار اُنھیں پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر نیل بلاوجہ ہی قتل کی وارداتیں کرنے کا شائق تھا۔ اُسے عورتوں کو ہلاک کر کے دیوانگی کی حد تک مسرّت ہوتی تھی۔
نہ صرف اُس میں جنسی جنون کی علامات موجود تھیں بلکہ وہ اَذیت پسند  (Sadist) بھی تھا اور اُس خطرناک بیماری کا شکار تھا۔ جس میں انسان جنسِ مقابل سے اپنی خواہش پوری کرنے کے بعد اُسے ہلاک کر ڈالتا ہے۔
اپنی عمر کے ابتدائی دور ہی سے وہ نشہ آور دَوائیں استعمال کرنے لگا تھا ۔
وَارداتوں کے بعد بےگناہ لوگوں کو بلیک میل کرنے کی حرکتیں کیا کرتا تھا۔

۱۸۷۶ء میں ڈاکٹر تھامس نیل نے کینیڈا کی میکگل یونیورسٹی سے ڈاکٹری کا امتحان پاس کیا۔
اُسی زمانے میں اُس نے ایک لڑکی کو اپنی داشتہ بنا رکھا تھا اور ڈاکٹر کو بعد میں اُس لڑکی سے شادی کرنے پر مجبور کیا گیا۔
لیکن شادی کے ایک سال بعد ہی وہ لڑکی دق کے مرض میں مبتلا ہو کر چل بسی۔
اُس کے بعد ایجنٹ ڈینیل سٹاٹ کی بیوی تھی۔ اُس شخص کو مرگی کے دورے پڑتے تھے۔
چند ہی روز میں ڈاکٹر نیل نے اُس کی نوجوان بیوی سے ناجائز تعلقات استوار کر لیے ۔
اُسے اپنی داشتہ بنا لیا اور یہ عورت ہر وقت اپنے خاوند کی دوا لینے کے بہانے ڈاکٹر کے مطب میں آتی جاتی رہتی۔

۱۱ جون ۱۸۸۱ء کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر نیل نے اُس عورت کو ایک نسخہ لکھ کر دیا اور کہا کہ
یہ دوائیں کسی ڈرگ سٹور سے خرید لاؤ۔
چنانچہ وہ یہ دوائیں خرید لائی۔ بعد میں اُس عورت نے عدالت میں بتایا کہ ڈاکٹر نیل نے دوا کی شیشی میں کوئی سفید رنگ کا سفوف ملا دیا تھا۔
بعدازاں وہ ’’دوا‘‘ وہ اَپنے گھر لے گئی اور خاوند کو کھلا دی جو پندرہ منٹ بعد ہی اِس جہانِ فانی سے رخصت ہو گیا۔
ہر چند کہ ڈینیل سٹاٹ کی دفعتاً موت سے ڈاکٹر نیل کے خلاف کسی شک و شبے نے سر نہ اٹھایا
لیکن ڈاکٹر نے بلاضرورت خود ہی کارونر اور ڈسٹرکٹ اٹارنی کو خطوط تحریر کیے ۔
جس میں اُس نے دوافروش پر الزام عائد کیا کہ اُس نے اسٹاٹ کے نسخے میں غلطی سے کچلے کی ایک بڑی مقدار شامل کر دی تھی ۔
اُسی زہر کے سبب مریض ہلاک ہوا ہے۔ چنانچہ ڈینیل کی لاش قبر کھود کر نکالی گئی ۔
جب اُس کا پوسٹ مارٹم ہوا، تو پتا چلا کہ
جسم میں Strychnine کی مقدار چار گرین تھی اور پولیس دوا فروش کے بجائے ڈاکٹر نیل کو شبے کی نظر سے دیکھنے لگی۔

اِدھر ڈاکٹر نیل بھی پولیس کی نگاہوں کا مطلب بھانپ چکا تھا۔
اُس نے چپکے سے بحری جہاز میں نشست بُک کرائی اور کینیڈا بھاگ گیا۔
اُس کے جانے کے بعد ڈینیل کی بیوی نے پولیس کو سارا قصّہ سنایا۔
چنانچہ ڈاکٹر کو کینیڈا کی پولیس نے گرفتار کر کے شکاگو بھیج دیا۔
پھر اُس پر ڈینیل سٹاٹ کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا، لیکن آئندہ ہلاک ہونے والوں کی بدقسمتی سے جیوری کے ارکان نے ڈاکٹر کو دُوسرے درجے کے قتل کا مجرم قرار دِیا اور اُسے عمرقید کی سزا دِی گئی۔

جولیٹ کے قیدخانے میں دس سال قید بھگتنے کے بعد ڈاکٹر کو جون ۱۸۹۱ء میں رہا کر دیا گیا۔
اُنھی دنوں اُس کا باپ وفات پا گیا اور ڈاکٹر کے لیے سولہ ہزار ڈالر کی خطیر رقم ورثے میں چھوڑ گیا
جس کی مدد سے ڈاکٹر نے قتل کی مزید وارداتیں کیں۔
قیدخانے سے نکلتے ہی ڈاکٹر انگلستان روانہ ہو گیا اور ۵؍اکتوبر ۱۸۹۱ء کو لندن پہنچ گیا۔
۶؍اکتوبر کی شام کو ڈاکٹر نیل کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی۔
جسے ڈاکٹر نے بتایا کہ نوجوانی کے عالم میں وہ سینٹ تھامس اسپتال میں ایک طالبِ علم کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔
اُنھی دنوں وہ ایک طوائف ایلزبتھ ماسٹرز سے ملا جو لوگیٹ سرکس میں رہتی تھی۔
اُس کے ساتھ اُس کے گھر گیا۔
بعدازاں وہ اُسے ایک پبلک ہاؤس میں لے گیا۔
وہاں اُنھوں نے شراب پی۔ پھر ایلزبتھ نے اُسے ایک اور طوائف ایلزبتھ مِنی سے متعارف کرایا۔
یہ طوائف بھی اُسی مکان کے ایک کمرے میں رہتی تھی۔

تین روز بعد ایلزبتھ ماسٹرز کو ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ ڈاکٹر نیل تین اور پانچ بجے کے درمیان اُس سے ملنے کے لیے آئے گا۔
یہ کہ خط کو نہایت حفاظت سے رکھا جائے اور لکھنے والے کو واپس کر دیا جائے۔
اپنے کمرے کی کھڑکی سے ماسٹرز اور مِنی دونوں طوائفوں نے دیکھا کہ ڈاکٹر نیل مقررہ وَقت پر چلا آ رہا ہے۔
مگر اِس سے پیشتر کہ وہ پبلک ہاؤس کے دروازے تک پہنچے، اُسے ایک اور طوائف اپنے ہمراہ لے گئی،
جس کا نام مٹیلڈا کلوور تھا اور جسے یہ دونوں طوائفیں اچھی طرح پہچانتی تھیں۔
ڈاکٹر نیل کو اُس کے ساتھ جاتے دیکھ کر یہ دونوں طوائفیں رقابت اور غصّے سے پاگل ہو گئیں۔
غالباً اِسی لیے اُن کی جان بچ گئی۔

اِس دوران میں ڈاکٹر نیل نے لیمبتھ پیلس روڈ پر ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا تھا۔
۱۲؍اکتوبر کو اُس نے جب ایک کیمسٹ کی دکان سے Nusevomica خریدا جو Brucine اور Strychnine کا مرکب اور نہایت سریع الاثر زہر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نے کیمسٹ کے رجسٹر میں اپنا صحیح نام اور پتا درج کرایا۔
۱۳؍اکتوبر کو ایک طوائف جس کا نام ایلن ڈان ورتھ تھا، زہر سے ہلاک ہو گئی۔
مرتے وقت وہ صرف یہ بیان دے سکی کہ وہ ایک طویل القامت شخص تھا۔
جس کی آنکھیں ترچھی اور مونچھیں لمبی تھیں۔
اُس نے مجھے ایک بوتل سے شراب پلائی جس میں اُس نے سفید رنگ کا سفوف ملایا تھا۔
یہ حلیہ بعینہ ڈاکٹر تھامس نیل کا تھا جو فی الواقع بھینگا تھا۔
جب اُس طوائف کا پوسٹ مارٹم کیا گیا، تو پتا چلا کہ اُس کے معدے میں Strychnine کی بڑی مقدار موجود تھی۔

دو روز بعد کارونر کو ایک خط موصول ہوا جس پر ’’اے او بریان سراغ رساں‘‘ کے دستخط تھے۔
جس میں کہا گیا تھا کہ
’’مَیں ایلن ڈان ورتھ کے قاتل کے بارے میں تمام معلومات پولیس کو دے سکتا ہوں
بشرطیکہ میری خدمات کے معاوضے میں آپ کی حکومت مجھے تین لاکھ پونڈ ادا کرے۔‘‘

اُسی روز مسٹر ایف ڈبلیو ڈی سمتھ کو ایک خط ملا۔ یہ شخص کیمسٹ کی دکان کرتا تھا۔
خط میں لکھا تھا کہ ’’راقمِ خط کے پاس اِس حقیقت کا ثبوت موجود ہے کہ
تم نے ایلن ڈان ورتھ طوائف کو ہلاک کیا ہے۔‘‘

۲۰؍اکتوبر کو مٹیلڈا کلوور طوائف بھی قتل کر دی گئی۔
واردات سے ایک روز پیشتر اُسے ایک خط موصول ہوا تھا جس میں گزشتہ رات کے لیے اُس سے معاملہ طے کیا گیا تھا۔
اُس رات وہ ایک آدمی کو اَپنے کمرے میں لائی اور جب وہ وَاپس چلا گیا،
تو طوائف کی حالت اچانک بگڑنے لگی اور اُس کا تمام بدن اینٹھنے لگا اور وُہ اُسی جاںکنی کے عالم میں مر گئی۔
اُس کے منہ سے صرف یہ جملہ ادا ہو سکا ’’اُس آدمی نے مجھے زہر کی گولیاں کھلائی تھیں۔‘‘

اِس واردات کے ایک یا دو روز بعد ڈاکٹر نیل نے مکان کی مالکہ کو بتایا کہ لیمبتھ پیلس روڈ پر رہنے والی ایک لڑکی کو زہر دے کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔
سیوائے ہوٹل میں اُن دنوں ایک امیرزادی کاؤنٹس رُسل میں قیام پذیر تھی۔
اُسے ایک خط ملا جس میں اُس کے خاوند پر الزام لگایا گیا تھا کہ کاؤنٹس کے خاوند نے مٹیلڈا طوائف کو زہر دے کر مارا ہے۔
اِس کے ساتھ ساتھ ہارڈلے سٹریٹ میں رہنے والے ایک ڈاکٹر بروڈ بینٹ کو بھی خط ملا۔
اس میں الزام لگایا گیا کہ اُس نے مٹیلڈا طوائف کو Strychine زہر سے ہلاک کیا ہے۔
گمنام خط لکھنے والے نے لکھا تھا کہ وہ ڈھائی ہزار پونڈ کے عوض اپنی شہادت فروخت کرنے کے لیے تیار ہے۔

یہ گمنام خط فوراً پولیس کے پاس پہنچا دیے گئے۔ پولیس نے اُسے کسی خبطی کی حرکت قرار دَے کر قابلِ التفات نہ سمجھا ۔ اِس طرح مٹیلڈا طوائف کی موت پر پُراسرار پردے پڑے رہ گئے۔
اِس دوران میں ڈاکٹر نیل نے اپنی شادی کا بہانہ کیا اور کینیڈا رَوانہ ہو گیا۔
کیوبا کے ایک ہوٹل میں اُس کی ملاقات ایک شخص سے ہوئی۔
ڈاکٹر نے گفتگو کے دوران اُسے بتایا کہ وہ اَیسی عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار دِیا کرتا ہے جو بدکردار ہوں۔
جب وہ اُن کا علاج کرتا ہے،
تو اپنے چہرے پر نقلی مونچھیں چپکا لیا کرتا ہے تاکہ کوئی اُسے شناخت نہ کر سکے۔
ڈاکٹر نیل نے اُس شخص کو ننگی عورتوں کی کئی تصویریں بھی دکھائیں۔
واپسی پر وہ اَمریکا گیا جہاں اُس نے Strychnine کی ایک بڑی مقدار خریدی اور یکم اپریل کو انگلستان روانہ ہو گیا۔

۲۱؍اپریل کو لیمبتھ میں رہنے والی دو لڑکیاں الائش مارش اور اَیما شرول زہر سے ہلاک کر دی گئیں۔
پولیس کے ایک سپاہی نے اُس مکان سے ایک شخص کو باہر نکلتے دیکھا تھا جس نے ایماشرول کو فوراً پہچان لیا۔
چونکہ اُسی نے اُس شخص کو دروازے سے باہر نکالا تھا۔
مرنے سے پیشتر اُن لڑکیوں نے بیان دیا کہ اُنھیں ایک شخص نے جو ڈاکٹر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا،
چند گولیاں کھلائی تھیں۔
تحقیقاتی عدالت میں جب پوسٹ مارٹم کی رپورٹ پیش کی گئی۔
پتا چلا کہ اُن دونوں کو Strychnine سے ہلاک کیا گیا ہے۔

اخبارات میں اُن لڑکیوں کے ہلاک ہونے کی خبر پڑھ کر ڈاکٹر نیل نے مصنوعی طور پر غم و غصّے کا اظہار کیا ۔
اَپنی مالکہ مکان کو بتایا کہ ایک ڈاکٹر ہارپر جو اِسی مکان میں رہائش پزیر ہے، اُن لڑکیوں کا قاتل ہے۔
چند روز بعد ڈاکٹر ہارپر کے والد کو جو ڈیون شائر میں رہتا تھا، ایک خط موصول ہوا۔
اس پر ’’ڈبلیو ایچ مورے‘‘ کے دستخط ثبت تھے اور جس میں تحریر تھا کہ
’’راقم خط کے پاس ایسی واضح شہادت موجود ہے جس کی بنا پر ثابت کیا جا سکتا ہے کہ تمہارے بیٹے نے اُن دونوں لڑکیوں کو زہر دیا ہے ۔
اَگر تم اُسے بچانا چاہتے ہو، تو مجھے ایک ہزار پانچ سو پونڈ ادا کرو۔‘‘
اُس خط کے ساتھ اخبارات کے تراشے بھی منسلک تھے جن میں ایلن ڈان ورتھ کی موت کی تفصیلات درج تھیں۔

بلیک میل کے اُن پُراسرار خطوط کا نتیجہ کچھ بھی ظاہر نہ ہوتا تھا،
کیونکہ خط لکھنے والے نے کبھی اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کی زحمت گوارا نہ کی تھی۔
یہ خطوط قطعی فضول تھے۔ اُنھوں نے پولیس کو یہ یقین دلایا تھا کہ کوئی دیوانہ یہ حرکتیں کر رہا ہے۔
ڈاکٹر نیل اِن حرکتوں کے باوجود بھی مطمئن نہ تھا۔
اُس نے ایک سراغ رساں سے جو اُن تمام اموات کی تفتیش کر رہا تھا، اپنے آپ کو متعارف کرایا ۔
اُسے ایک خط دکھایا جو مارش اور شرول دونوں لڑکیوں کو خطاب کر کے تحریر کیا گیا تھا۔
جس میں لکھا تھا کہ وہ ڈاکٹر ہارپر سے خبردار رَہیں جو اُنھیں زہر دے دے گا۔
جس طرح اُس نے مٹیلڈا کلوور اَور لارڈ ہاروے کو زہر دیا ہے،
لیکن پولیس نے پتا چلایا کہ لارڈ ہاروے تو ابھی تک زندہ تھی۔
اب پولیس کو ڈاکٹر نیل پر شبہ ہوا اَور اُس نے اُس کی کڑی نگرانی شروع کر دی۔
چند روز بعد اسکاٹ لینڈ یارڈ کا ایک خاص جاسوس ڈاکٹر نیل کے مطب میں آیا۔
اس نے ڈاکٹر سے بہت سے سوالات کیے۔

ڈاکٹر نیل نے اُسے امریکی گولیوں کا ایک ڈبا دکھایا
جس کے اوپر ۱۶؍۱ حصّہ گرین Strychnine کا لیبل لگا ہوا تھا ۔
جس کے بارے میں ڈاکٹر نے جاسوس کو بتایا کہ وہ لندن میں یہ دوا فروخت کرنے کا ایجنٹ ہے۔
پولیس کو ڈاکٹر نیل پر جو شبہ ہوا تھا، اُسے حقیقت تک پہنچانے کے لیے ضروری تھا کہ
یہ ثابت کیا جائے کہ وہ تمام مقتول لڑکیوں کے ہمراہ دَیکھا گیا تھا ۔
یہ کہ گمنام خطوط اُسی نے تحریر کیے تھے اور پھر سب سے بڑا سراغ اُس وقت روشنی میں آیا،
جب ڈاکٹر ہارپر کے والد نے پولیس کو وہ خط پیش کیا ،
جو ڈاکٹر نیل نے اُسے فرضی نام سے لکھا تھا۔
پولیس کو معلوم ہو گیا کہ یہ خط ڈاکٹر نیل نے لکھا تھا۔
پس پولیس نے ڈاکٹر کو دھمکی آمیز خطوط لکھنے کے جرم میں گرفتار کر لیا۔
اب پولیس کو موقع مل گیا کہ
وہ ڈاکٹر کی نقل و حرکت کے بارے میں گزشتہ تمام حالات کی چھان بین کرے کہ
وہ مقتولہ لڑکیوں سے کب ملا تھا اور کس کس نے اُسے دیکھا تھا۔
بعدازاں اُس پر مٹیلڈا کلوور کے قتل کا الزام بھی عائد کر دیا گیا۔

عدالت میں ڈاکٹر نیل نے تمام جرائم کا اعتراف کیا اور آخر اُسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔
صفائی کی طرف سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ پاگل ہے۔
اُس پر جنسی دیوانگی کا مرض حاوی تھا،
کیونکہ اُن وارداتوں سے اُسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا تھا،
سوائے اِس کے کہ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر مسرّت محسوس کرتا تھا،
لیکن جج اور اَرکانِ جیوری نے اُن دلائل کو مسترد کر دیا ۔ ڈاکٹر نیل کی سزائے موت برقرار رَکھی۔

اور اِس طرح دس عورتوں کا قاتل ڈاکٹر اپنے کیفرِ کردار کو پہنچ گیا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles