9 C
Lahore
Saturday, December 14, 2024

Book Store

شک ،غلط فہمی سے نفرت تک| shak, galatfehmi se nafrat tak

احساس کے انداز

شک ،غلط فہمی سے نفرت تک

تحریر
جاویدایازخان

شک کیا ہے اور بدگمانی کیوں ہوتی ہے؟بہت پہلے میں نے ایک دانشور کی کتاب میں شک کے بارے پڑھا تھا جو  ذہن پر آج بھی ویسے ہی نقش ہے کہ

شک ایک ایسی بیماری ہے جس سے بہت سی زندگیاں بلاوجہ برباد ہو جاتی ہیں جبکہ شک حقیقت میں کچھ بھی  نہیں ہوتا صرف ایک ہمارا اپنا خیال ہوتا ہے۔
ہماری پوری زندگی خیال کے گرد گھومتی ہے۔ کائنات اور ہمارے درمیان جو مخفی رشتہ ہے وہ بھی خیال پر قائم ہوتا ہے۔
خیالات شبہ میں بدلتے ہیں پھر اس خیال اور شبہ کو  ہم جس طرف چاہیں لے جا سکتے ہیں۔
منفی یا مثبت سوچنا ہم پرمنحصر ہوتا ہے۔
دراصل ہمارے یقین اور ارادوں کی کمزوری ہمارے اسی منفی شک اور پھر بدگمانی کی وجہ بنتی ہے ۔
قرآن شریف کا فرمان ہے:
” اے ایمان والو ،کثرت گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں (الحجرات ۱۲:۴۹ )
یہا ں بدگمانی ہی نہیں بلکہ کثرت گمان سے بھی روکا گیا ہے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورؐ  نے فرمایا :
” بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔” ایسے گمان کی ممانعت کی گئی ہے جو کسی دلیل پر قائم نہ ہو ۔

یا عام طور پر یہ بھی ہوتا ہے کہ جب ہم اپنے خیال، سوچ اور زبان سے کوئی بات کرتے ہیں اور وہی بات کوئی اور کرتا ہے تو شک کی بنا پر اس کو کم یا زیادہ کر دیتا ہے کہ اس کی سوچ اس طرح تھی!
مطلب وہ اپنے شک کو اپنی سوچ میں بدل دیتا ہے جس سے ہماری کی ہوئی بات میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔
اس طرح سے شک کرنے اور بات بڑھانے سے ہمارے بہت اچھے اچھے رشتے خراب ہو جاتے ہیں۔
بدگمانی میں اتنی طاقت ہے کہ یہ انسان کا ذہنی سکون برباد کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے جڑے تعلق کو کچھ منٹوں میں ہڑپ کر جاتی ہے، یہاں تک کہ  شک کی بنا پر قتل تک ہو جاتے ہیں۔
کہتے ہیں، خیال ،وسوسہ و شبہ پہلے شک ،پھر غلط فہمی اور پھر بدگمانی میں بدل کر نفرت اور دشمنی کا روپ دھار لیتا ہے۔
” بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا یقین کر لینا۔”
حضرت امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ ” اس لیے بدگمانی حرام قرار دی گئی ہے کیونکہ دلوں کے بھید صرف اللہ جانتا ہے۔”
لہذا تمہارے لیے کسی کے بارے میں برا گمان رکھنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک دلیل کے ساتھ خود دیکھ کر یقین نہ کر لو۔ بدگمانی ہمیشہ منفی سوچ سے پیدا ہوتی ہے، پھر یہ بدگمانی دشمنی اور انتقام میں بدل جاتی ہے۔ ہمارا خیال، وسوسہ یا شبہ جب شک اور بدگمانی میں بدلتا ہے تو زیادہ تر ہم منفی ہو جاتے  ہیں یا ہماری سوچ منفی زیادہ ہو جاتی ہے۔

آے روز ہم سنتے ہیں کہ فلاں انسان شک کی بنا قتل ہو گیا یا فلاں انسان کی شک کی وجہ لڑائی ہو گئی۔ یہ بیماری خواتین میں قدرے زیادہ ہوتی ہے کہ وہ صرف شک کے طور پر ایک ذرا سی بات کو بڑا بنا دیتی ہیں، جس کا انجام ہمیشہ نفرت اور  لڑائی ہوتا ہے۔
اس سے ہمارے رشتوں میں بڑی دراڑیں پڑ جاتی ہیں ۔ خاص کر میاں بیوی کے اہم رشتے میں شک پڑ جانے سے اس  رشتے کے ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے.
ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ شبہ، شک یا وسوسے اور بدگمانی شیطانی عمل ہیں اور شیطان تو ازل سے انسان   کا دشمن ہے۔
یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے اور اس وسوسے ،شبہ، شک اور بدگمانی سے واسطہ کسی بھی وقت ہر انسان کا پڑ سکتا ہے، اور یہ پتہ بھی ہوتا ہے کہ یہ ہماری صرف اپنی سوچ ہے۔
اصل میں کوئی چیز نہیں ہوتی  لیکن پھر بھی شک؟ صرف اپنے آپ کا نقصان کر دیتا ہے۔
اپنی خوشی اپنے ہاتھوں تباہ کرتا ہے  ۔.. میری زندگی کا اپنا  یہ تجربہ ہے کہ شکی انسان کی زندگی میں کوئی خوشی نہیں ہوتی۔

اعتبار زندگی ہے۔

زندگی میں اعتبار ہی سے ہم ایک دوسرے کو خوشی دے سکتے ہیں۔
شک سراسر ہماری زندگیوں میں رکاوٹیں اور غم پیدا کرتا ہے۔
دکھ اور غم چاہے جس طرح  کا بھی ہو، ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اس سے ہر انسان کا واسطہ پڑ چکا ہوتا ہے۔
اس کے نقصانات کا بھی پتہ ہوتا ہے مگر کہتے ہیں کہ شبہ ،شک اور بدگمانی کا یہ خوفناک عفریت چراغ عقل بجھا دیتا ہے۔ ہماری دانش اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بے بس کر کے رکھ دیتا ہے ۔

اس لیے ہمیں مکمل اعتماد والی بات کہنی چاہئیے کیونکہ شک کے تو نام سے بھی ظاہر ہے کہ یہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔
ہم کیوں شک کی بنا پر رشتے خراب کر دیتے ہیں؟ جس سے شیطان خوش ہو جاتا ہے۔ شک کے بارے میں ایک استاد کی ویڈیو دیکھی جو اپنے طلباء کو بتا رہا تھا کہ سخت گرمی میں چلتے ہوئے مجھے ایک گھر کے ساتھ پیڑ نظر آیا. سوچا اس کے نیچے کچھ ٹھنڈک لے لوں، پسینہ خشک کروں۔
میں وہاں کھڑا ہی تھا کہ اُوپری منزل کی کھڑکی کھلی۔
ایک شخص نے باہر مجھے دیکھا تو ہاتھ سے اشارہ کر کے پوچھا:
“کیا پانی پیو گے؟”
میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
وہ شخص کھڑکی بند کرکے چلا گیا۔ میں نے سوچا کتنا  اچھا انسان ہے.
اس گرمی میں اسے دوسروں کا احساس ہے۔ میں انتظار کرنے لگا۔ دو، چار، سات منٹ گزر گئے۔
میں نے دل میں سوچا، کتنا گھٹیا انسان ہے. مجھے آسرا دے کر خود سو گیا.
اچانک گھر کا دروازہ کھلا اور وہ شخص شرمندہ مسکراہٹ کے ساتھ ایک جگ گلاس اُٹھائے باہر نکلا.
کہنے لگا میں نے سوچا، اب کیا سادہ پانی پلاؤں؟ شکنجبین ہی پلا دیتا ہوں۔  اس لیے کچھ وقت لگا۔
میں نے دل میں سوچا، واہ،  کتنا اچھا بندہ ہے۔ اس دور میں بھی اجنبیوں کا اتنا اکرام کر رہا ہے۔
اس نے مجھے گلاس دیا۔ میں نےگھونٹ بھرا۔ وہ شربت پھیکا تھا۔ میں نے پھر سوچا، کتنا بےوقوف انسان ہے شکنجبین بھی کوئی پھیکی بناتا ہے ۔
ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے جیب سے پڑیا نکالی اور کہا:
“مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپ میٹھا پیتے ہیں یا نہیں اور کتنا میٹھا؟ اس لیے یہ چینی الگ سے لایا ہوں۔”
مجھے ایک بار پھر اپنی سوچ بدلنی پڑی.
دوستو ہم وہی ہوتے ہیں جو ہم سوچ رہے ہوتے ہیں. یہ دنیا اور ہمارے آس پاس اس کے لوگوں اور واقعات کی اچھائی برائی ہمارا دماغ طے کر رہا ہوتا ہے.
دماغ کا ایک مسئلہ ہے یہ بہت جلد باز واقع ہوا اور فوری راےُ قائم کر لیتا ہے ۔ اس لیے جلد بازی کے ہمارےیہ فیصلے ہمیں ہی شرمندہ کرواتے ہیں.

سچ اطمینان ہے

آج ہم  ہمارے گھر ،خاندان ،پورا معاشرہ اس مرض میں مبتلا  ہے۔ اس بیماری  نے  پورے معاشرے میں بےچینی اور  بے سکونی کی فضا پیدا کر دی ہے ۔
حضرت حسن بن علی  رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا:
” شک میں ڈالنے والی چیز کو چھوڑ کر ایسی چیز اختیار کر جو تجھے شک میں نہ ڈالے۔
کیونکہ سچ اطمینان ہے اور جھوٹ شک ہے۔ ”
شک کا علاج صرف یقین اور مضبوط ارادے سے ممکن ہے،
کیونکہ یقین آپ کو مثبت خیال اور سوچ عطا کرتا ہے۔
مضبوط  ارادہ اس پر عمل کرنے کی توفیق دیتا ہے ۔اس صورت سے نکلنے کے لیے یقین و ارادے کے ساتھ ساتھ صبر سے کام لیں۔
کسی صورت راہ اعتدال اور عدل وانصاف کا دامن نہ چھوڑیں۔
تعصب ،تنگ نظری اور جذبات کو کچھ وقت کے لیے جھٹک دیں تو بہت کم عرصہ میں ہم شک و بےیقینی کی اس تکلیف دہ کیفیت سے نکل سکتے ہیں ۔
اللہ کا فرمان ہے، ” اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں اس کے درپے نہ ہو کیونکہ کان ،آنکھ اور دل ان میں سے ہر چیز سے پرشش ہونی ہے” ( بنی اسرائیل ۳۶:۱۷)

ثبوت یا دلیل

لہذا اگر ہم لوگوں کے بارے میں کسی قسم کی ایسی آرا نہ بنائیں جن کی ہمارے پاس ٹھوس بنیاد اور ثبوت یا دلیل  موجود نہیں۔
اس سے ہم اور ہمارا معاشرہ بےشمار الجھنوں اور پریشانیوں سے نجات پا سکتا ہے ۔
اس کے علاوہ زندگی اور کیا ہے؟ ایک لمحے کی خبر نہیں۔ دلوں سے شبہات، شک اور بدگمانیاں نکال پھینکیں۔ مسکرا کر سب سے ملیں۔
زندگی خوشگوار بنائیں تاکہ ماحول خوبصورت ہو سکے ۔
نا جانے کب کہاں اس مختصر زندگی کا سفر رک جائے۔ ہم جو “آج” ہیں! کل “تھے” ہو جائیں گے

مصنف کے مزید دوسرے خوبصورت مضامین اس لنک میں پڑھیں۔
https://shanurdu.com/author/javedayazkhan/۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles