خوش و خرم لوگوں کا ملک
ڈنمارک
اکیسواں حصہ
شاہوں کی خواب گاہوں میں
طارق محمود مرزا، سڈنی
لیجئے! ہم ڈنمارک کے سب سے معروف مقام، شاہی خاندان کے محلات Amalien borg پہنچ گئے۔ خوش قسمتی سے محل کے قرب میں واقع ایک گلی میں پارکنگ مل گئی۔ وہاں سے دس منٹ میں ہم دُنیا کی قدیم بادشاہت کے مرکز، ان کے محلات کے درمیان واقع انتہائی کشادہ صحن میں کھڑے تھے۔
محلات کے راستے میں کوئی رُکاوٹ یا جانچ پڑتال نہیں تھی۔ کہیں پولیس یا سیکورٹی نظر نہیں آئی۔ تاہم محل کے سامنے ہمارے ہاں کے بینڈ باجے والوں کی طرح عجیب و غریب وردیوں والے گارڈز کا دستہ حفاظت کی غرض سے کم اور نمائش کی غرض سے زیادہ عوام کی دلچسپی اور فوٹو گرافی کا مرکز و محور تھا۔
ہم ناہموار سنگی فرش پر مبنی جس کشادہ صحن میں کھڑے تھے۔ اس کے ارد گرد ایک جیسے چار محلات تھے۔ صحن میں سیکڑوں سیاح چمکیلی دھوپ میں گھوم رہے تھے۔ محلات کے درمیان سے اس کے عقب میں موجود سمندری پٹی کا نیلگوں پانی دھوپ میں چمکتا تھا۔
پٹی کی دوسری جانب کوپن ہیگن کے مشہور اوپیرا ہاؤس کی شاندار عمارت کے شیشوں کا عکس آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا۔ یہ وہی اوپیرا ہاؤس تھا جو میں نے ڈنمارک آمد کے پہلے دن دیکھا تھا۔ یہ او پیرا ہاؤس ان محدوے چند جدید عمارتوں میں سے ایک تھا، جو اب تک کوپن ہیگن میں مجھے نظر آئیں۔
اس جدید اور شاندار اوپیرا ہاؤس کے مقابل یہ شاہی محلات قدیم طرز تعمیر، دلکش دریچوں، پرشکوہ محرابی دروازوں اور فن سنگ تراشی کے عمدہ نمونوں کے باوجود عام سی عمارتیں ہیں۔
ان محلات اور شہر میں دکھائی دینے والی دیگر قدیم عمارتوں کے درمیان بظاہر بڑا فرق نہیں ہے۔ نہ ان میں کوئی غیر معمولی بناوٹ و سجاوٹ ہے۔
تاہم صحن میں ایستادہ بادشاہ فریڈرک اور اس کے سفید گھوڑے کا انتہائی بلند قامت مجسمہ، کھڑکیوں کے شیشوں کے جاذب نظر رنگ، محلات کی پیشانی پرچسپاں مجسمے، شاندار محرابی دروازے، سرخ دیواریں، ڈھلوان چھتیں، سیاہ ٹائلیں، ان کے درمیاں خشتی چمنیاں جو محلات میں مستعمل صدیوں پرانے لکڑیوں سے جلنے والے آتش دانوں سے منسلک ہیں۔
صحن میں نصب قدیم ساخت کے کھمبے اور ان پر لٹکی از منہ رفتہ کی لالٹینیں سیاحوں کی توجہ اور دلچسپی کا مرکز تھیں۔ شاہی باغات ان محلات کے عقب میں ہیں۔ ان سادہ سی عمارتوں میں وقار ہے، تاریخی کشش ہے، پائیداری ہے، وُسعت ہے۔
سب سے بڑھ کر اپنے شاہی خاندان کے لیے عوام کی عقیدت و محبت کا رنگ نمایاں ہے۔ شاہی خاندان کے اس مسکن، ان کے زیر استعمال اشیاء، ان کے لباس، ان کے مشاغل سے دلچسپی، دراصل شاہی خاندان سے محبت و عقیدت کی وجہ سے ہے۔
اس خاندان کی اپنے ملک اور عوام کی خدمات کا اعتراف ہے۔ اگر اس عقیدت کو منہا کر دیا جائے تو اس در و دیوار میں کچھ نہیں رکھا۔ یہ محض سنگ وخشت کی دیواریں ہیں۔ جذبوں کی حدّت نے اس میں وہ رنگ بھر دیے ہیں جو عوام کے لیے باعثِ کشش اور وجہِ افتخار ہیں۔ اسی وجہ سے دور و نزدیک سے لوگ کھنچے یہاں چلے آتے ہیں۔
یہاں ہم ڈنمارک کے شاہی خاندان کی تاریخ اور خدمات پرطائرانہ نظر ڈال لیتے ہیں۔ ڈینش شاہی خاندان سے ان کی عوام بہت محبت کرتی ہے۔ ڈینش عوام فخر کرتے ہیں کہ یہ دنیا کی قدیم ترین بادشاہت میں سے ایک ہے۔
موجودہ ملکہ معظمہ مار گریٹ دوئم کے خاندان کو بادشاہت کرتے ہوئے ہزار برس سے اُوپر ہو گئے ہیں۔ اس بادشاہت کا سِرا سمندری قزاقی کے دور (Viking) والے دور سے جا ملتا ہے۔ اس خاندان کی بادشاہت کے اثرات نہ صرف ڈنمارک بلکہ پورے خطہ پر قائم ہوئے۔
ڈنمارک میں جگہ جگہ شاہی خاندان سے متعلق عمارات، محلات، گرجا گھر، قلعے، فصیلیں، شاہی نوادرات اور دیگر تاریخی وگراں قدر اشیاء اور مقام موجود ہیں جو عوام کی توجہ، دلچسپی اور عقیدت کا محور ہیں۔
عصرِ حاضر میں جب ڈنمارک اور دیگر یورپ میں جمہوریت کا دور دورہ ہے اور بادشاہوں کی حکومت باقی نہیں رہی۔ اس کے باوجود عوام نے شاہی خاندان، ان کی رسمی بادشاہت، ان کی نشانیاں سینے سے لگا رکھی ہیں تو یہ محض ان کی ر وایت پسندی اور شاہی خاندان سے عقیدت کی وجہ سے ہے۔
شاہی خاندان نے بھی خود کو وقت اور حالات کے تحت بدل لیا ہے۔ وہ حکومت میں براہ راست مداخلت نہیں کر سکتے لیکن شاہی خاندان کے افراد سفارت کاری، فلاحی، تعلیمی اور سماجی کاموں کے ذریعے ملک و قوم کی خدمات بجا لاتے ہیں۔ یوں ان کا وجود عوام پر بوجھ نہیں بلکہ کار آمد ہے۔
موجودہ ملکہ کی عمر ستر برس سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس کا ولی عہد اس کا فرزند شہزادہ فریڈرک ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہزادہ فریڈرک کی شادی آسٹریلیا کی ریاست تسمانیہ کی ایک خاتون سے ہوئی ہے جو اب شہزادی میری کہلاتی ہے۔
یوں آسٹریلین بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ان کی قوم کی بیٹی شہزادی اور مستقبل کی ملکہ ہے ۔ورنہ آسٹریلیا میں شاہی خاندان کے عدم وجود کی بنا پر یہ ناممکن تھا۔
گزشتہ برس شہزادہ فریڈرک کی پچاسویں سالگرہ پر پورے ڈنمارک میں جشن منایا گیا۔
ستر ہزار سے زائد ڈینش عوام نے اپنے ولی عہد شہزادے کے ساتھ اس کی سالگرہ منائی۔ ہر برس سولہ اپریل ملکہ معظمہ اپنی سالگرہ والے دن محل کی بالکونی میں کھڑے ہو کر عوام کی عقیدت و محبت کا جواب ہاتھ لہرا کر دیتی ہے۔
عوام کی عقیدت سے یوں لگتا ہے کہ مستقبل میں بھی شاہی خاندان کے وجود کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
بادشاہوں کی نجی زندگی میں جھانکنے اور ان کی بود و باش کا جائزہ لینے کے لیے راجہ غفور اور میں ٹکٹ لے کر محل میں داخل ہو گئے۔ محل کے اندر کیا گئے‘ صدیوں قبل کے شاہی دور میں پہنچ گئے۔ باہر سے سادہ نظر آنے والے یہ محلات اندر سے خوب آراستہ و پیراستہ اور دلچسپیوں سے معمور تھے۔
دروازے، دریچے، چھت، فانوس سبھی منفرد و یکتا تھے۔ در و دیوار پر کندہ نقش و نگار، دست کاری کے بہترین نمونے، شہرہ آفاق مصوروں، سنگ تراشوں اور مجسمہ سازوںکے فنی شاہکار اور نادر و نایاب لکڑی سے بنے انتہائی دیدہ زیب پلنگ، کرسیاں، میز اور دیگر آرائش و زیبائش ایسی تھی کہ میں انتہائی محویت سے ایک ایک شے دیکھ رہا تھا۔
دیوار پر بنے قدرتی مناظر دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں کسی ڈینش وادی میں موجود ہوں۔ در، دریچے، روشندان، آتش دان سبھی اپنی مثال آپ تھے۔ راہداری میں دونوں جانب شاہی خاندان کے مختلف ادوار کے بادشاہوں اور ملکائوں کی زندہ جاوید تصاویر آویزاں تھیں۔
میں انہیں غور سے دیکھتا تو یوں لگتا کہ یہ زندہ و سلامت بیٹھے ہیں اور ابھی بول پڑیں گے۔ ایک دو سے میں نے بات کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن انہیں شاید اُردو سمجھ نہیں آتی تھی اس لیے بس مسکرا کر دیکھتے رہے اور کچھ بولنے سے گریز کیا۔
ہم بھی اپنے دور کے بادشاہ ہیں اس لیے انہیں معاف کر کے آگے بڑھ گئے۔
؎ کہہ دو میر و غالب سے ہم بھی شعر کہتے ہیں
وہ صدی تمہاری تھی ، یہ صدی ہماری ہے
فرش انتہائی خوبصورت نقشینچکنی ٹائلوں سے بنے تھے اور چھت پر بیل بوٹے ایسے کندہ تھے جیسے قدرتی برگ و گل لا کر چپکا دیئے گئے ہوں۔ ان میں پھول، کٹوریاں، پھول پتیاں اور زرریشہ یوں نمایاں تھے جیسے ہاتھ لگانے پر ان کا لمس محسوس ہو۔محل کے مختلف کمروں کی سجاوٹ اور آرائش و زیبائش اور فرنیچر اس میںرہائش پزیر بادشاہ کے دور سے متعلق تھا۔
کئی سو برس پرانے مگر اس دور کے بہترین میز، کرسیاں، مسہریاں، پردے، دستی پنکھے، مختلف النوع ہتھیار، چھریاں، کانٹے، طشتریاں، قلم، کاغذ، ملبوسات، تاج اور دیگر شاہی استعمال کی اشیا اس طرح رکھی تھیں، جیسے بادشاہ تشریف لانے والا ہو اور آتے ہی انہیں استعمال کرے گا۔
ان کمروں کی سجاوٹ سے یہ بھی اندازہ ہوتا تھا کہ اس کمرے میں رہائش پزیر بادشاہ کا مزاج کس حد تک شاہانہ تھا۔ مہمان خانے میں سب سے زیادہ سجاوٹ نظر آئی۔ یہاں مخمل و زریشت کے دبیز و طویل پردے تھے۔
اس کے فانوس انتہائی دیدہ زیب، غالیچے روئی کی طرح نرم اور تصویر کی طرح حسین اور زرنگا ر کرسیاں دیکھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔ مختلف کمروں کی مسہریاں اتنی بڑی ہیں کہ بذاتِ خود کمرا لگتی ہیں۔ ہر کمرے اور ہال میں لکڑی کے آتش دان ہیں۔
ایک کمرے میں موجودہ ملکہ کی بنی دستی مصنوعات جس میں کڑھائی اور کشیدہ کاری والے میز پوش، رومال، ہاتھ سے بنے شیر، بھالو اور دیگر کئی مصنوعات تھیں۔ سیاحوں کی رہنمائی کرنے والی خاتون نے بتایا ۔
’’ ہماری ملکہ انتہائی سادہ مزاج اور گھریلو قسم کی خاتون ہیں۔ وہ گھر کے زیادہ تر کام خود کرتی ہیں حتیٰ کہ اکثر کھانا بھی خود بناتی ہیں۔ فالتو اوقات میں اس طرح کی دست کاری، کشیدہ کاری اور سجاوٹ کی اشیاء بناتی ہیں۔
ان کا رہن سہن، کھانا پینا اور اوڑھنا بچھونا اتنا سادہ ہے کہ عام گھریلو خاتون اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تا ہم سرکاری اور رسمی تقاریب میں شاہی لباس زیب تن کرتی ہیں۔ عوام اپنی سادہ مزاج ملکہ کو بہت پسند کرتے ہیں۔‘‘
دیواروں پر ٹنگی زمانہ قدیم کی شمشیریں، زرہ بکتر، بندوقیں اور تیر کمان بھی سیاحوںکی توجہ کا مرکز تھے۔ کھانے کی ایک میز کے نیچے غالیچے کی جگہ سفید شیر کی کھال بچھی تھی۔ شیر کی کھال اس مہارت سے اُتاری گئی تھی کہ سالم شیر فرش پر لیٹا محسوس ہوتا تھا۔
اس کا ثابت و سالم منہ، کھلی آنکھیں، جبڑا، نوکیلے دانت دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ ابھی حملہ آور ہو جائے گا۔
شاہی عجائب گھر میں مختلف زمانوں کے بادشاہوں اور ان کے خاندانوں کی تصاویر دیکھ کر مجھے یوں لگ رہا تھا کہ فلم دیکھ رہا ہوں۔
مختلف بادشاہوں کے مشاغل دیکھ کر ان کے ذوق و شوق، ان کا ذوقِ مطالعہ اور فنونِ لطیفہ سے ان کی رغبت کا اندازہ ہوتا تھا۔
جیسے فریڈرک ششم کی تصاویر، اس کی پسندیدہ کتب اور اس کے آلاتِ موسیقی دیکھ کر یہ پتا چلتا تھا کہ اسے موسیقی اور بحری علوم سے گہری دلچسپی تھی۔
یہ تصاویری تاریخ دیکھ کر یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈنمارک کا یہ شاہی خاندان جسے یورپ میں شاہی خاندانوں کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے۔
شہزادوں کی شادیاں مختلف ملکوں کے شاہی خاندانوں میں کرنے کے شائق تھا۔ لہٰذا اس خاندان میں دنیا کے مختلف ملکوں سے چھ شہزادیاں بیاہ کر آئیں۔
اسی عجائب گھر میں شاہی محل کا انتہائی خوبصورتی، مہارت اور نفاست سے بنا نمونہ بھی رکھا تھا۔ یہ نمونہ اتنا مکمل تھا کہ تمام در و دیوار، روشندان اور ایک ایک اینٹ بمطابق اصل لگ رہی تھی۔
غرضیکہ ڈینش بادشاہت کی ہزار سالہ تاریخ سمٹ کر اس عجائب گھر میں محفوظ تھی۔ جسے دیکھ کر انسان ماضی کی بھول بھلیوں میں کھو جاتا ہے۔
میں بھی سیکڑوں برس قبل کے دور میں بادشاہت،
ان کی طرز حکمرانی،
طرز حیات،
ان کے بود و باش اور ان کے شوق و شغل میں اتنا منہمک تھا کہ ارد گرد کا ہوش نہیں تھا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ میں بھی اسی دور کا حصہ ہوں۔ اس محل کا حصہ ہوں۔
ابھی کوئی بادشاہ یا ملکہ میرے سامنے آ جائے گی۔یہ الگ دنیا تھی۔ تحیرکن، ماضی سے منسلک، فسوںانگیز اور خواب آور دنیا۔ یہاں آ کر انسان ان خوابوں میں کھوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اچانک کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا تو میں چونک گیا۔
’’آپ کہاں گم ہیں اتنی آوازیں دے چکا ہوں۔‘‘
راجہ غفور نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
میں نے سر جھٹکا ۔
’’میں صدیوں قبل کی دُنیا میں پہنچا تھا۔‘‘
’’آئیے، آپ کو آج کی دنیا میں لے چلتے ہیں۔‘‘ راجہ صاحب بولے
ہم باہر نکلے تو اکیسویں صدی کا روشن اور چمکتا آفتاب ہمیں ماضی سے حال میں لے آیا۔ حال جو بہرحال ماضی سے بہتر ہے۔ صحن میں سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا تھا کیونکہ چند منٹ بعد گارڈز کی تبدیلی متوقع تھی۔
راجہ غفور کو اس کا علم تھا اس لیے وہ مجھے باہر لائے تھے۔ گارڈز کی تبدیلی کا منظر دلچسپ تھا۔ میں نے کافی عرصہ قبل لندن کے بکنگھم پیلس میں شاہی گارڈز کی تبدیلی کا منظر دیکھا تھا۔ دونوں میں خاصی مماثلت تھی۔
حاضرین نے تالیاں بجا کر چاق و چوبند دستے کی پریڈ،
دستے کی تبدیلی،
ان کی رنگین یونیفارم،
ان کے مشینی انداز پر اظہارِ پسندیدگی کیا۔ ہم بادشاہوں کے اس مسکن سے چل دیے۔
(جاری ہے)
read this article in english
https://shanurdu.com/in-the-dormitories-of-kings/