Home اردو ادب شاہین بچہ

شاہین بچہ

زندگی کو با مقصد اور با معنی بنانے کے لیے ہمیں کسان کے فلسفہ حیات پہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسان زمین کو پانی لگا کر نرم کرتا ہے ۔ پھر زمین کی گوڈی کر کے اس میں بیج بوتا ہے ۔ " بیج " جو زمین کے اندر چھپ جاتا ہے ۔ کسان آس اور امید کو قائم رکھتا ہے کہ اس زمین کے اندر سے ضرور بالضرور کونپل پھوٹے گی ۔ ہم انسان ذرا دیر اندھیرے میں آ جائیں یا ذرا سی دیر کو بھی کسی شے کی حقیقت ہم سے چھپی رہے تو ہم ہزار گمان کر ڈالتے ہیں ۔ اور اپنے کئے گئے گمانوں سے ہی مایوس ہونے لگتے ہیں ۔ لیکن کسان ہمیشہ بیج بونے کے بعد اللہ کی رحمت سے پر امید رہتا ہے ۔

0
639
(چھٹا خط بہ ترتیب ویب سائٹ شان اردو)
امامیات ( مکاتیب ) خط نمبر ۴
بیٹی کے نام ( ۳ )
پیاری بیٹی
السلام علیکم !
اللہ ہمیشہ تم پہ اپنا فضل کرے ۔ امید ہے خیریت سے ہو گی ۔
میری بچی ! زندگی میں وہ مقام آ ہی گیا جس کے لیے میں سوچا کرتی تھی کہ آخر کیسا ہو گا وہ مقام جب اپنی اولاد آپ کو کٹہرے میں کھڑا کر کے آپ سے آپ کی تربیت کے اصول و ضوابط پہ سوال کرے گی ۔ آپ کو اور آپ کے نظریات کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ جانے گی ۔
ایسا ہی ایک وقت تھا میری جان، جب میں نے اپنے والدین سے سوالات کیے تھے ۔ کہ کیوں وہ اپنےزمانے کی گھسی پٹی منطق کو میری زندگی پہ لاگو کرنا چاہتے ہیں ۔
اس دن میرے والد نے فقط ایک بات پہ افسوس کا اظہار کیا تھا ۔ کہ شاہین بچے کو صحبتِ زاغ خراب کر گئی ۔ ان کی بات آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے ۔ کہتے تھے
” میری بچی اپنے آسمان کی تلاش میں سرگرداں عمر گزارو ۔ شاہین اگر زاغوں میں پل جائے تو خود کو زاغ سمجھنے لگتا ہے ۔
زاغ شاہین کا اثر کبھی قبول نہیں کرتے کیونکہ ان کے پروں میں بلند پروازی کی طاقت ہی نہیں ہوتی ۔ ان کی زندگی سخت کوشی سے تعبیر نہیں ہوتی ۔ وہ دوسروں کے پھینکے گئے ٹکڑوں پہ گزارا کر لیتے ہیں ۔ وہ شاہین سے کوئی اثر اسی لیے قبول نہیں کرتے کہ بلند پروازی میں محنت ہے سخت کوشی ہے خودداری ہے غیرت ہے ۔ لیکن شاہین ان کا اثرضرور قبول کر لیتا ہے ۔
وہ سمجھتا ہے کہ جب شکار زمین پہ پڑا مل ہی رہا ہے تو بلند پرواز کر کے خود کو کیوں مصیبت میں ڈالا جائے ۔ لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ آرام کا لقمہ اس کی صحت کے لیے زہر ثابت ہوتا ہے اور بہت جلد اس کی موت کا باعث بن جاتا ہے۔
علامہ نے کہا تھا نا
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صُحبتِ زاغ
اب سنو میری جان ! ہمارے لیے کیوں ضروری ہے کہ ہم پرواز بلند کر کے آسمان کی بیکراں وسعت میں اکیلے ہو جائیں ؟؟
یہ تنہائی اولاً مشکل لگتی ہے اور یہ مشکل ضرور ہے ۔ لیکن یہ لازم بھی ہے ۔ میں نے سوچا تھا اب کے خط لکھوں گی تو تمھیں بتاؤں گی کہ فلاح پانے والے کون ہیں ۔ لیکن تمھاری بے چینی اور بے قراری نے مجھے سمجھایا کہ پہلے یہ سمجھایا جائے کہ فلاح پانا ضروری کیوں ہے ؟؟
اوسط درجے کی کامیابی پہ قناعت کیوں نہ کر لی جائے ؟؟ باقی سب انسان بھی تو ہیں جو اس فلاح پانے کی دھن کے بغیر بھی زندگی گزارے جا رہے ہیں ۔
میری بچی وہ انسان جن کی سوچ کا محور و مقصد فقط ان کی اپنی ذات ہے اور ان کی ذات سے کسی دوسرے کو کوئی فیض نہیں ملتا۔ بھلا ایسی بے فیض زندگی میری بیٹی کا خواب ہو سکتی ہے ؟؟
کیا میری وہی بیٹی جو ہر رات مجھ سے جگنو کی کہانی سنا کرتی تھی اور لہک لہک کے شعر پڑھا کرتی تھی
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
وہ مجھ سے ایک دن یہ بھی پوچھ سکتی ہے کہ ماں ! سب اپنے لیے جیتے ہیں کیوں نہ ہم بھی ان کے رنگ میں رنگ جائیں ۔ ہم ان سے دور ہو کر اکیلے ہوئے جاتے ہیں ۔
میری بچی بھلا شاہین بھی زاغوں کے غول سے دوری اور تنہائی پہ دکھی اور پریشان ہوا کرتا ہے ؟؟
وہ تو ہے ہی خلوت پسند ۔ کہ اسے اپنی جہانوں کے دریافت سے فرصت نہیں اسے اپنے لیے طیب رزق بھی ڈھونڈنا ہے ۔ جو اس کی پرواز میں کوتاہی نہ آنے دے ۔ وہ جانتا ہے کہ جس روز اس کے رزق کے دانے میں فرق آئے گا اس روز سے اس کی پرواز کی بلندی میں فرق ضرور آئے گا ۔
میری بچی ! جانتی ہو ” طیب ” کیا ہے ؟؟
اللہ  نے اپنے نبیوں ‘ عوام الناس اور مومنین سے الگ الگ خطاب کر کے کہا کہ وہ طیب کھائیں ۔ ہم کہتے ہیں طیب پاک ہے ۔ پاک کیسے ہے ؟؟
میری بچی طیب رزق وہ ہے جو خوش ذائقہ ہو ‘ خوشبودار ہو ‘ خوش رنگ ہو اور حلال طریقے سے کمایا گیا ہو ۔
کیا یہ ممکن ہے کہ تمھارا نوالہ نجاست میں پڑا ملے اور تم اسے اٹھا کے اس لیے منہ میں ڈال لو کہ اکثریت ایسا کر رہی ہے ؟؟
میری بچی اسی اکثریت نے ایک دن دجال کا پیروکار بن جانا ہے۔  کیا تب بھی تم اسی اکثریت کے گروہ میں شامل ہونا چاہو گی یا وہ تنہا شخص بننے کی آرزو کرو گی کہ دجال جس کا سر اس لیے کاٹ دے گا کہ وہ اقرار کرے گا کہ میرا رب فقط اللہ ہے ؟؟
فلاح کا حصول کیوں ضروری ہے میری جان ؟
کیوں کہ فلاح پانے والے سخت کوشی و سخت جانی کو زندگی کا حصول جان کے طیب کو بدن کا جزو بناتے ہیں ۔
میری بچی !
ہے شباب اپنے لہُو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخِ زندگانی انگبیں
میری پیاری ! یہ جو دنیا کے مالز ‘ شاپنگ گھر گاڑی بنگلے ہیں یہ نہایت معمولی قیمت کے ہیں ۔ یہ شاہینوں  کے شایان شان نہیں ۔ شاہین کے لیے اس سے بڑھ کر کا وعدہ ہے ۔ اور اس نے اسی اعلیٰ اور بہترین محلات کے لیے جد و جہد کرنی ہے ۔ دنیا کی ساٹھ سال کی زندگی کو ایک انسان اینٹ گارے کا گھر بنانے کی خاطر کولہو  کے بیل کی طرح جتا رہتا ہے ۔ اور جو زندگی ابداً ابدا ہے اس کے گھر کا کیا ؟؟
کیا میری بچی ان محلات کی آرزو نہیں رکھتی ؟؟
میری سہیلیوں کی تعداد ہمیشہ کم رہی کیونکہ وہ بھی مجھے پسند نہیں کیا کرتی تھیں ۔ لیکن جس دن میں نے زاغوں کی صحبت کو حسرت سے دیکھنا چھوڑ دیا اور پرواز پہ توجہ مرکوز کی تو آسمان کی بلندی میں اڑتے شاہینوں سے ملاقات  نے مجھے خوشی اور اطمینان سے سرشار کر دیا ۔
ارتکاز کیا ہے ؟ فوکس کی ضرورت کیوں در پیش ہوتی ہے زندگی رہی میری بیٹی تو ضرور تمھیں بتانا ہے ۔
میں جانتی ہوں یہ سب باتیں ابھی تمھیں مشکل اور عجیب لگیں گی لیکن جب بھی تاریکی بڑھے گی یہ سب لفظ بڑھ کر تمھارا ہاتھ تھام لیں گے ۔
آج میرے والد زندہ نہیں لیکن ان کے الفاظ زندہ ہیں میری جان ۔
اپنے نانا ابو کو دعاؤں میں یادرکھنا۔ تعلیم پہ توجہ دو اور اپنے والدین کی مغفرت کی دعا کیا کرو
اللہ تمھارے دل کو مقصد پہ فوکس کرنا سکھا دے آمین ۔
فقط
تمھاری اماں ۔
سمیرا امام

پیاری دوستو !
کچھ وقت ادھر ہم نے خطوط لکھنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا ۔
یہ خطوط ہمارے والدِ محترم کی ہم سے کی گئی ان کی تمام عمر کی نصیحتیں تھیں ۔ زندگی کے ہر مرحلے پہ جب ہم ہمت ہارنے لگتے ہیں ہمارے کانوں میں مرحوم والد کی آوازیں گونجتی ہیں ان کے ہمت بھرے جملے ہمارے کاندھے تھپتھپاتے ہیں ۔ اور ہم اپنے عزم اور حوصلے کو بلند کر کے دوبارہ اسی جوش اور جذبے سے جُت جاتے ہیں ۔
ہمارے والد کا شمار ان والدین میں سے تھا جو شاہین کی طرح اپنے بچے کو پہاڑ کی چٹان پر سے گرا کر انکو اپنے پر کھولنے کا حوصلہ دینے والوں میں سے ہوتے ہیں ۔
انکا لاڈ اور پیار فقط یہ تھا کہ خود اڑو ۔ وہ اڑنے کے لیے ہمیں حوصلہ دے سکتے تھے ۔ ہمت بندھا سکتے تھے لیکن اڑانے میں کوئی مدد نہ کرتے اس وقت وہ آنکھیں ماتھے پہ رکھ لیتے ۔
اور ہم غصے سے ایسی اڑان بھرتے کہ خود ہمیں بھی یقین نہ آتا ۔ کہ ہم اس قدر بلند پرواز بھر چکے ہیں ۔
بے جگری ، بے خوفی ، نڈر اور بے باکی سے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا انھوں  نے سکھایا ۔
انکی زندگی میں ہم چیتے کا جگر رکھتے ۔ انکی موت سے لگا ہم کمزور ہو گئے ۔ لیکن انکی آواز کانوں میں گونجتی ۔
جھکنا مت ۔
ڈرنا نہیں ۔
اصولوں پہ ڈٹ جاؤ تو سر کٹوا لینا ۔
اپنا وعدہ نبھانا ۔
اپنی زبان سے کبھی مت پھرنا ۔
اور ہم اسی جوش اور جذبے سے آگے بڑھتے ۔
ان خطوط میں اگر کچھ اچھی باتیں ہیں تو وہ بابا کی کہی گئی ہیں ۔ اگر کچھ کمزوریاں ہیں تو وہ میری ذات کی ہیں ۔
اگر آپکو ان سے کوئی فائدہ ہوتا ہے تو میرے والد کی مغفرت کے لیے دعا کر دیجیے گا ۔
ان خطوط کو بہت سی بہنوں نے سراہا ۔ کئی بہنوں نے اپنی پیاری بچیوں کو جہیز کے تحفے کے طور پہ یہ خطوط دئیے ۔ کئی بہنوں نے ان کو پڑھ کر مجھ سے رابطہ کر کے اپنے دلوں کے حال سنائے ۔
ان خطوط نے بہت عزت دی حالانکہ یہ فقط اپنی یاد دہانی کے لیے لکھے گئے تھے ۔ مجھے لگتا میری اولاد کو کون بتائے گا کہ زندگی کیسے گزارنے کی ضرورت ہے ؟؟
انکے نانا دنیا سے جا چکے ۔ وہ نانا جو تب تک تحمل سے سمجھایا کرتے جب تک کسی بات کو عادت ثانیہ نہ بنا لیتے ۔
جزاک اللہ خیرا
سمیرا امام

 

NO COMMENTS