31 C
Lahore
Saturday, November 2, 2024

Book Store

شب برات کی اہمیت

علامہ ابن تیمیہ سے نصف شعبان کی رات نماز کے بارے میں سوال کیا گيا: تو ابن تیمیہ نے جواب دیا اگر

” اس رات میں کوئی تنہا یا مخصوص جماعت کے ساتھ نماز پڑھے جیسا کہ اسلاف کے بہت سے لوگوں کا یہ معمول تھا، تو یہ اچھا عمل ہے۔ “
نامور اہل حدیث عالم اور شارح حدیث علامہ عبد الرحمان مبارک پوری ترمذی کی شرح میں لکھتے ہیں،

” معلوم ہونا چائیے کہ نصف شعبان کے بارے میں متعدد حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان سب کے مجموعہ سے پتا چلتا ہے کہ ان احادیث کی کوئی نہ کوئی اصل ہے۔ “
اس کے بعد نصف شعبان پر متعدد حدیثیں نقل کیں ہیں اور کہا ہے :
یہ تمام حدیثیں ان لوگوں پر حجت ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نصف شعبان کی فضیلت کے سلسلے میں کوئی حدیث نہیں۔

اہل تشیع
اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ 15 شعبان 255ھ کو امام مہدی کی پیدائش ہوئی۔ وہ اس رات امام مہدی کے جلد آنے کی دعائیں کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔

تقسیمِ امور کی رات
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کا وقت اس رات میں لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ انسانشادی کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔

مغفرت کی رات
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں،

” ایک رات میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع (قبرستان) میں تشریف فرما ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔
میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔
آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ “
یہ روایت حدیث کی اکثر کتب میں مذکور ہے، کثرت ِ روایت کے سبب یہ حديث درجہ صحت کو پہنچ گئی ہے۔ اس کو ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد بن حنبل، مشکوٰۃ، مصنف ابنِ ابی شعبہ، شعب الایمان للبیہقی وغیرہ میں اس کو روایت کیا گیا ہے۔
قبیلہ بنو کلب کثرت سے بکریاں پالتے تھے جن کی مثال اس حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں اپنے رحم و کرم سے تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے ۔ ایک رویت میں مسلمانوں کا لفظ ہے اور دو شخصوں میں سے ایک قتل کرنے والا اور دوسرا کینہ رکھنے والا مذکور ہے۔

رحمت کی رات
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔

” جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہ بخش دوں، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے وہ ملتا ہے۔ وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے۔ “
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

” جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تورات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں۔ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔ “

شبِ بیداری
شبِ برأت میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی شب بیداری کی اور دوسروں کو بھی شب بیداری کی تلقین فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے “جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شب بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو۔
اس حدیث پر مسلمانوں کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ رات میں شب بیداری کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں،

” تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلاً حضرت خالد بن معدان، حضرت مکحول، حضرت لقمان بن عامر اور حضرت اسحٰق بن راہویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہو کر شعبان کی پندرہویں شب میں شبِ بیداری کرتے تھے اور رات بھر مساجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے۔ “
اب بھی پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، ترکی وغیرہ میں مسلمان شب بیداری کا اجتماعی طریقہ اپنائے ہوئے ہیں۔

قبرستان کی زیارت
کیونکہ حدیث میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اس رات کو قبرستان جانا ثابت ہے اس لیے مسلمان بھی اس رات کو قبرستان جاتے ہیں۔

شعبان کے روزے
متعدد احادیث میں اس ماہ کے روزوں کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ماہ میں کثرت سے روزے رکھتے۔

حوالہ جات
“پندرہ شعبان و شب برأت کی فضیلت اور مروجہ رسومات کی حقیقت اہم انکشافات”. Aj ki Duniya Urdu.
فتاوی شیخ الاسلام، جلد 23، ص 131
شرح ترمذی، تحفۃالاحوذی جلد 2 ص52
شرح ترمذی، تحفۃالاحوذی جلد 2 ص53
وفیات الاعیان،
روضة الاحباب،
تاریخ ابن الوردی،
ے نابع المودة،
تاریخ کامل طبری،
کشف الغمہ،
جلاٴالعے ون،
اصول کافی،
نور الا بصار،
ارشاد،
جامع عباسی،
اعلام الوری اور انوار الحسینہ وغیرہ
امام مہدی کی ولادت کا دن[مردہ ربط]
الجامع الاحکام القرآن ج 16 ص 126، شعب الایمان للبیہقی ج 3 ص 386
ترمذی جلد 1ص 156،
ابن ماجہ ص 100،
مسند احمد جلد 6 ص 238،
مشکوٰۃ جلد 1ص 277،
مصنف ابنِ ابی شعبہ ج 1ص 337،
شعب الایمان للبیہقی جلد 3ص 379
ابنِ ماجہ ص 101،
شعب الایمان ج 3ص 382،
مشکوٰۃ جلد 1ص 277،
مجمع الزوائد ج 8 ص65،
مسند احمد ج 2ص 176،
مشکوٰۃ جلد 1ص 278
شعب الایمان للبیہقی ج3ص 383
ابنِ ماجہ ص 100،
شعب الایمان للبیہقی ج 3ص 378،
مشکوٰۃ ج 1ص 278
ما ثبت من السنہ 202،
لطائف المعارف ص 144

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles