Home الطاف حسن قریشی 2013 سلامتی کا راستہ

سلامتی کا راستہ

تقسیمِ ہند سے پہلے جماعت اسلامی عملی سیاست سے الگ تھلگ رہی ٗ مگر مولانا مودودی نے ’’مسلمان اور سیاسی کشمکش‘‘ کے حصہ دوئم میں جداگانہ قومیت کا نظریہ حقائق اور دلائل کی قوت سے پیش کیاتھا

0
118

صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
سلامتی کا راستہ
15/11/2013


ہمارے قومی احوال اس قدر دگرگوں ہیں کہ غالب کا یہ شعر بے اختیار یاد آتا ہے ؎

حیراں ہوں دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں

ہم پر افتاد کچھ ایسی آن پڑی ہے کہ کوئی باشعور نوحہ گر بھی آج میسر نہیں ٗ لیکن کسی قدر
اطمینان کی بات یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں میں اپنے وطن کا مقدر سنوارنے کا جذبہ انگڑائیاں لے رہا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ جناب سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لٹریچر سے بہت متاثر تھا
جسے پڑھ کر اُس میں یہ احساس پیدا ہوتا تھا کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو عصرِ حاضر میں پوری نوعِ
انسانی کو
سلامتی کا راستہ دکھا سکتا ہے۔
اُنہوں نے اقامتِ دین کے لیے1941ء میں جماعت اسلامی کی داغ بیل رکھی جس میں چوٹی کے علماء اور
بیدار مغز نوجوان شامل تھے۔
پاکستان بنا ٗ تو لاکھوں کی تعداد میں لٹے پٹے مہاجرین آئے۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں نے کمال بے نفسی
اور جاں فروشی سے مہاجرین کیمپوں میں کام کیا
جس کے عوام کے ذہنوں پر نہایت اچھے اثرات مرتب ہوئے۔
جب  1948ء میں سیلاب آئے ٗ تو جماعت کے رضاکار متاثرین کی مدد کو پہنچے اور دینی جذبے سے
اپنے بھائیوں کی مدد میں جتے رہے۔ انہی دنوں جہادِ کشمیر کا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا مودودی ٹیمپل روڈ ٗ لاہور میں ایک مسجد میں ہر اتوار کو درس دیتے تھے۔
میں اِس میں باقاعدگی سے شریک ہوتا رہا۔
ایک نشست میں ایک صاحب نے مولانا سے جہادِ کشمیر کے بارے میں سوال کیا جس پر اُنہوںنے قدرے
توقف کیا
اور پھر فرمایا کہ اِس موضوع پر کسی وقت سیر حاصل گفتگو کروں گا
لیکن سوال کرنے والے کا اصرار بڑھتا گیا ٗ تب اُنہوں نے جواب میں کہا کہ قرآنی تعلیمات کی رُو سے
صرف ریاست جہاد کا اعلان کرنے کی مجاز ہے اور چونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدے موجود ہیں
اِس لیے عام شہری جہاد شروع نہیں کر سکتے۔مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ کشمیری مسلمان بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف جہاد کر سکتے ہیں اور قبائلی جو ابھی تک پاکستان کے باقاعدہ شہری نہیں
وہ کشمیریوں کو ہر طرح کی کمک پہنچا سکتے ہیں۔
اُن کے اِس اعلان کے خلاف پورے ملک میں ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا اور اُنہیں گرفتار کر لیا گیا
مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ اُن کا اعلان سٹریٹیجک اہمیت کا تھا اور غیر معمولی دوراندیشی اور
قرآنی حکمت پر مبنی تھا۔
تقسیمِ ہند سے پہلے جماعت اسلامی عملی سیاست سے الگ تھلگ رہی ٗ مگر مولانا مودودی نے
’’مسلمان اور سیاسی کشمکش‘‘ کے حصہ دوئم میں جداگانہ قومیت کا نظریہ حقائق اور دلائل کی
قوت سے پیش کیاتھا۔
پاکستان بننے کے بعد جماعت اسلامی نے پنجاب میں ہونے والے 1951ء کے انتخابات میں حصہ لے کر یہ
غیر مبہم اعلان کر دیا کہ وہ جمہوریت کے ذریعے پُرامن تبدیلی پر یقین رکھتی ہے۔
مولانا کا سب سے بڑا کنٹری بیوشن یہ ہے کہ اُنہوں نے ایک ایسی جماعت منظم کی جو قانون کی سخت پابند ٗ تشدد کی سخت مخالف اور جذباتیت سے ماورا تھی۔
جب 1953ء میں امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کو مارشل لا عدالت نے سزائے موت سنائی اور پاکستان کے اندر اور اسلامی دنیا میں تہلکہ مچ گیا
مگر جماعت اسلامی نے تشدد کی طرف مائل ہونے کے بجائے زبردست حوصلے اور نظم کا ثبوت دیا۔
اِسی طرح 1962ء میں جب مارشل لاء رخصت ہوا ٗ تو سب سے پہلے مولانا مودودی نے اجتماعِ عام کے انعقاد کا اعلان کیا۔ حکومت نے موچی دروازے کی جلسہ گاہ دینے کے بجائے بھاٹی گیٹ
اور لوہاری گیٹ کی پٹی میں لاؤڈ اسپیکر کے بغیر جلسہ کرنے کی اجازت دی۔ جماعت اسلامی نے اِن پابندیوں کے باوجود ایک شہر بسا دیا جس میں پورے ملک سے لاکھوں کارکن اور ہمدرد شریک ہوئے۔
خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ مولانا نے جونہی خطاب شروع کیا ٗ تو حکومت کے غنڈوں نے اُن پر فائر کھول دیا اور خیمے گرانے شروع کر دیے۔ مولانا پورے قد کے ساتھ اپنی جگہ کھڑے رہے۔
اِسی فائرنگ میں کارکن اﷲ بخش گولی کا نشانہ بنے۔ اِس وقت پورا لاہور شہر سراپا احتجاج بنا ہوا تھا
اور مولانا کے ایک اشارے پر حکومت کا نظم و نسق تلپٹ ہو سکتا تھا
لیکن اُنہوں نے دوسرے روز تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم نے اپنا مقدمہ اﷲ تعالیٰ کی عدالت میں درج کرا دیا ہے۔
مولانا مودودی نے قوم کو ایک نیا اسلوبِ سیاست عطا کیا جس میں کمال درجے کی سنجیدگی ٗ متانت اور دلائل کی فراوانی تھی۔ اُن کی تقریر میں روایتی جوش ہوتا نہ فقرہ بازی ٗ نہ مخالفین پر تبرہ اندازی۔
وہ دھیمے لہجے میں فکری راہنمائی اور سیاسی تربیت کا فریضہ ادا کرتے۔ اُنہوں نے شہری آزادیوں کے لیے
طویل جنگ لڑی اور اپنی قوم کو آئین کی اہمیت اور قانون کی پاسداری کا گہرا شعور عطا کیا۔
اپنی جماعت میں جمہوریت کو فروغ دیا اور ایک قابلِ اعتماد شورائی نظام قائم کیا جس میں عہدے داروں
کا کڑا احتساب کیا جاتا تھا۔ جماعت میں موروثی قیادت کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں تھی۔
اُسے قائم ہوئے اب تہتر سال ہونے کو آئے ہیں اور اِس میں تازہ خون کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔
امارت کے منصب پر جناب سید منور حسن فائز ہیں۔ اُن کے تقوے ٗ دیانت داری اور جرأت مندی کے سبھی
معترف ہیں
مگر بعض اوقات وہ غصے میں قابو سے باہر اور جذبات سے مغلوب ہو جاتے ہیں۔ سلیم صافی کے پروگرام
جرگے میں امریکی مخالفت میں وہ یہ کہہ گئے کہ حکیم اﷲ محسود شہید ہے کیونکہ وہ ڈرون حملے
میں مارا گیا ہے
اور ہماری پولیس ٗ رینجرز اور فوج کے جوان اور افسر جو امریکی مفادات کی جنگ لڑ رہے ہیں
اُن کے خیال میںوہ شہید نہیں۔
اُن کے اِس غیر محتاط اور تکلیف دہ بیان سے ماحول میں ایک ہیجان سا برپا ہو گیا ہے۔
دو روز بعد آئی ایس پی آر نے اِس بیان کی مذمت کرتے ہوئے اُسے واپس لینے اور قوم سے معافی مانگنے کا
مطالبہ کیا جو بالکل درست معلوم ہوتا ہے۔ یہ بیان جو جماعت کی پوری تاریخ کی نفی کرتا ہے
اُسے واپس لے لینے میں سید منور حسن کو ذرا بھی تامل نہیں کرنا چاہیے جس کے فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مورال پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ہماری فوج جس کا ماٹو ایمان ٗ تقویٰ اور
جہاد فی سبیل اﷲ ہے اور جس کے بہادر نوجوان ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کر رہے ہیں ٗ
وہ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں سے حوصلہ افزائی اور پوری پشت پناہی کی توقع رکھتی ہے۔
اِس کی اصل قوت اُس کی ایمانی قوت اور شوقِ شہادت ہے اور یہی اوصاف اُسے دنیا کی
دوسری افواج سے ممتاز کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی کی قیادت کو اِس نازک مرحلے میں تدبر اور بلند حوصلگی کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ
اِس امر پر گہرائی کے ساتھ غوروخوض کرنا ہو گا کہ اِس کے زوال کے اسباب کیا کیا ہیں۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ سیاسی اور فکری راہنمائی کے لیے تمام سنجیدہ حلقے مولانا مودودی کی طرف دیکھتے تھے اور اب حال یہ ہے کہ امیرِ جماعت کے ’’ارشادات‘‘ فوج ٗعوام اور خود جماعت کے اندر
اضطراب پیدا کرنے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ جماعت کو اپنی بقا کے لیے انقلابی اصلاحات کی طرف جانا
اور اپنے اہلِ وطن کو سلامتی کا راستہ دکھانا ہو گا۔
جناب سراج الحق اور جناب لیاقت بلوچ نے معاملے کو سنبھالنے کی جو کوشش کی ہے ٗ وہ ناکافی ہے۔
صورتِ حال کی نزاکت کا تقاضا یہ ہے کہ سید منور حسن قیل و قال میں اُلجھے بغیر
اپنے بیان سے رجوع کریں اور امارت سے سبکدوش ہونے کے بارے میں بھی
سنجیدگی سے غور فرمائیں کہ اِسی میں حیاتِ نو کا راز مضمر ہے۔

https://shanurdu.com/category/breaking-news/column/altaf-hassan-qureshi/altaf-hasan-qureshi-2013/

 

NO COMMENTS