28 C
Lahore
Thursday, March 28, 2024

Book Store

Ruhani Jasoos|روحانی جاسوس|Maqbool Jahangir

روحانی جاسوس

مقبول جہانگیر

۱۹۶۰ء شمسی کے موسمِ گرما کی ایک شام تھی۔ چونتیس برس کا جان ٹارمن اپنے مالک کے ساتھ مچھلی کے شکار سے لَوٹا، تو تھک کر چُور تھا۔ بدن ٹوٹ رہا تھا اور سر میں سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔
اُس نے اپنے حصّے میں آئی ہوئی ایک بڑی سی مچھلی بیوی کے سامنے پھینکی اور اَپنے بستر پر دھڑام سے گر پڑا۔ کچھ دیر بعد وہ گہری نیند کی آغوش میں تھا۔
اُس کی بیوی کورا کام کاج سے فارغ ہو کر خواب گاہ میں آئی،
لیکن اُس نے شوہر کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ کھانا کھا کر وہ بھی اپنے پلنگ پر سو گئی۔

آدھی رات ہوئی تھی کہ زور زور سے دروازہ پیٹنے کی آواز سن کر میاں بیوی کی آنکھ کھل گئی۔
وہ حیران تھے کہ اِس وقت کون اِنھیں تنگ کرنے آ گیا۔ کورا دَروازہ کھولنے گئی۔
دروازہ کھلا ہی تھا کہ چار لمبے تڑنگے، چاق چوبند آدمی اُسے دھکیلتے ہوئے کمرے میں گھس آئے۔
اُن میں ایک مقامی خفیہ پولیس کا آدمی تھا اور تین ریاست ورجینیا کی خفیہ پولیس کے افسر تھے۔
تینوں میں سے ایک آگے بڑھا اور اُس نے تحکمانہ لہجے میں کہا:

’’ہیرے کی انگوٹھی، سونے کی گھڑی اور جوتوں کا جوڑا فوراً ہمارے حوالے کر دو۔‘‘

جان اور کورا اِس غیرمتوقع حملے سے سنبھلنے نہ پائے تھے کہ دو آدمی آگے بڑھے اور اُنھوں نے جان کو بستر سے گھسیٹ لیا۔
اُسے شب خوابی کا لباس تبدیل کرنے کی مہلت بھی نہ دی اور دَھکے دیتے ہوئے باہر لے گئے۔
باقی دو آدمیوں نے مکان کی تلاشی لینا شروع کی اور دَیکھتے ہی دیکھتے سجے سجائے گھر کو تلپٹ کر دیا۔
کورا چپ چاپ کھڑی تھی۔
اُسے صرف باہر کار چلنے کی آواز آئی۔ کچھ دیر بعد خفیہ پولیس کے آدمی اُسے بھی دھکے دیتے ہوئے باہر لے گئے اور دُوسری کار میں دھکیل دیا۔

اُس رات جو کچھ ہوا، وہ اَمریکا کے محکمۂ سراغ رسانی کے ماتھے پر کبھی نہ مٹنے والا داغ ہے۔
فیرفیکس کے پولیس ہیڈ کوارٹرز میں جسمانی اذیت اور بہیمیت کا جو اِنسانیت سوز ڈراما کھیلا گیا،
اُس کی صدائے بازگشت آج بھی امریکا میں گونج رہی ہے۔
تعجب تو اِس بات پر ہے کہ دنیا کو درسِ انسانیت دینے والے اور بنیادی حقوق کی آزادی کے سب سے بڑے دعوےدار ملک میں سترھویں صدی کے پیورٹین دورِ اقتدار کی اِس بربریت کو کیوں کر رَوا رَکھا گیا۔

اِس بہیمانہ ڈرامے کی ابتدا جس میں پولیس کے علاوہ ماہرینِ نفسیات اور عدالت نے بھی حصّہ لیا، ۱۱ جون ۱۹۵۹ء کو ہو چکی تھی۔
اگر جان کے مالک ٹی جے ہنری اور دماغی امراض کے ماہر ڈاکٹر جوزف ڈیونیجر کی کوشش سے نوجوان وکیل وائن ای کومر اور اَمریکا کی شہری آزادی کی تنظیم نے مداخلت نہ کی ہوتی،
تو بےگناہ جان کو ذہنی عذاب اور جسمانی اذیت دے کر مار ڈالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی تھی۔
اُس پر ایک ٹرک ڈرائیور کیرل وی جیکسن،
اُس کی بیوی ملڈریڈ، دو بیٹیوں چار برس کی سوسن اور سترہ ماہ کی جینیٹ کے قتل کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

یہ الزام ثابت کرنے کے لیے سراغ رسانی اور تفتیش کے جدید اور مروجہ طریقے استعمال کرنے کے بجائے صدیوں پرانے جادوگری کے طریقۂ کار کا سہارا لیا گیا۔ اِس پر ساری مہذب دنیا تڑپ اٹھی۔
وکلا نے ہنگامہ برپا کر دیا۔ اخبارات نے اداریے لکھے اور اِس طرح اکیس دن تک جہنم میں رہنے کے بعد جان کو آزادی کی کھلی فضا میں سانس لینے کا موقع ملا۔

۱۱ جنوری ۱۹۵۹ء شمسی کی رات ٹرک ڈرائیور جیکسن، بیوی بچوں سمیت اپنی ساس سے مل کر ورجینیا کے جنوب مشرق میں ایپل گرو کے مقام پر اپنے گھر لَوٹ رہا تھا۔
اُن میں سے کوئی بھی گھر نہ پہنچا۔ اگلے دن خالی ٹرک رچمنڈ سے تقریباً تیس میل دور ایک شاہراہ پر ملا۔ ٹرک چلانے کے لیے چابی کو جلا دیا گیا تھا۔
اگلی نشست پر ملڈریڈ کا خالی پرس ملا اور پچھلی نشست پر بچی کے دودھ کی بوتل، گڑیا اور دُوسری چیزیں۔ مقامی حاکمِ ضلع ولیس آر پروفٹ نے کئی سو آدمیوں پر مشتمل ایک کھوجی پارٹی کے ساتھ میلوں علاقہ چھان مارا، لیکن گم شدہ خاندان کا کوئی سراغ نہ ملا۔
ایک راہ گیر نے بتایا کہ اُس  نے رات کی تاریکی میں ٹرک یا کار کی بتیوں کی روشنی دیکھی تھی.
اُس کا دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی متعدد بار آواز سنی تھی۔ معلوم نہیں کیا ہو رہا تھا۔

پولیس نے تفتیش شروع کر دی، لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ آخر یکم مارچ کو فریڈر کسبرگ کی لکڑی چیرنے کی ایک بند مِل کے قریب بھوسے کے ڈھیر تلے جیکسن اور چھوٹی لڑکی کی لاشیں مل گئیں۔
جیکسن کے سر میں ۳۸ء بور کے پستول کی گولی کا گہرا زخم تھا اور ڈیڑھ سال کی جینیٹ کا گلا گھونٹا گیا تھا۔ اُس کے سترہ دِن بعد ہی واشنگٹن اور بالٹی مور کے وسط میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے میری لینڈ سے کچھ دور ایک سنسان مقام پر ملڈریڈ اور سوسن کی لاشیں بھی مل گئیں۔ اُنھیں بری طرح زد و کوب کیا گیا تھا۔

مرکزی محکمہ سراغ رسانی نے مقامی خفیہ پولیس کے تعاون سے ۱۴۷۵ مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی کہ وہ وَاردات کی رات کو کہاں تھے۔
جیکسن کے والدین میری لینڈ کے قریب گیمبرس میں رہتے تھے۔
وہ اُن سے ملنے اکثر جاتا تھا۔ چونکہ اُس علاقے میں ملڈریڈ اور سوسن کی لاشیں ملی تھیں،
لہٰذا اُسے بھی شاملِ تفتیش کر لیا گیا، لیکن معمولی پوچھ گچھ کے بعد اُسے ۱۳۴۰؍افراد سمیت چھوڑ دیا گیا۔
اب خفیہ پولیس کی توجہ کے مرکز ۱۳۵؍افراد رَہ گئے تھے جن کی نقل و حرکت کی کڑی نگرانی کی جانے لگی۔

جان اِس واقعے کو بھول گیا اور اَپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہو گیا،
لیکن اُسے علم نہ تھا کہ تقدیر کھڑی مسکرا رَہی ہے.
اُس نے ایک گم نام، بےمایہ ٹرک ڈرائیور کا مستقبل عالمی شہرت کے مالک دو اشخاص کے ہاتھوں میں دے دیا ہے۔
اُن میں ایک مشہور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ایف رمیجس ریسمین تھا۔
وہ سینٹ الزبتھ میں دماغی امراض کے اسپتال سے منسلک اور اَمریکی ماہرینِ نفسیات کی انجمن کا سرگرم رُکن تھا۔

دوسرا ۴۹ برس کا ولندیزی پیٹر ہرکوس تھا۔ یہ شخص علمِ روحانیت اور اِنسانی ذہن پڑھنے کا ماہر سمجھا جاتا تھا اور اِس میں شک نہیں کہ اُس نے غیب کے متعلق جتنی باتیں بتائی تھیں، وہ حیرت انگیز طور پر صحیح تھیں۔
اُن دنوں وہ اَمریکا کا دورہ کر رہا تھا.
چند ماہ پیشتر واشنگٹن میں ٹیلی ویژن پر بھی پروگرام پیش کیا تھا۔

ریسمین نے محکمہ سراغ رسانی کو تجویز پیش کی کہ ’’جیکسن قتل‘‘ کے معمے کو حل کرنے کے لیے ہرکوس کی خدمات حاصل کی جائیں۔ پولیس والے اُس سے سرکاری طور پر رابطہ قائم کرتے ہوئے ہچکچا رہے تھے،
لیکن ریسمین نے اپنے طور پر سو ڈالر یومیہ مع اخراجات پر ہرکوس کی خدمات حاصل کر لیں۔
وہ اُس سے واشنگٹن کے ہوائی اڈے پر ملا۔ وہ اَپنے ساتھ دو درجن افراد کی تصویریں لے گیا تھا۔
ہرکوس نے ایک تصویر چھانٹ لی اور کہا یہ اُس شخص کی تصویر ہے,
جو ذہنی خلفشار کا شکار ہے۔ دو سال سے بیمار ہے اور اُس کی عمر ۸۳ برس ہے۔

تصویر ریسمین کے باپ کی تھی اور اُس کے متعلق ہرکوس نے جو کچھ بتایا تھا،
سو فی صد صحیح تھا۔ ہرکوس نے دوسرے لوگوں کو بھی سچی باتیں بتائیں۔
اُس نے مقامی پولیس کے سربراہ ایڈورڈ سمپسن کو بتایا کہ اُس کی شادی تیرہ سال قبل ہوئی تھی۔
ایک افسر کو ٹھیک ٹھیک بتایا کہ اُس کی بیوی عین اُس وقت کیا کر رہی تھی۔
چار دُوسرے افسروں کو اُن کی زندگی بھر کے حالات سچ سچ بتائے۔
اِسی طرح ایک اخبارنویس کو گزشتہ دس برسوں کے واقعات بتا دیے۔
سب اُس کی غیرمعمولی غیبی طاقت کے معترف تھے۔
امورِ دَولتِ مشترکہ کے قانونی مشیر فز جیرالڈ نے اُسے ’’حیرت انگیز‘‘ شخص قرار دِیا۔
آرلنگٹن کے جج پال ڈی براؤن نے اُسے ’’چونکا دینے والا‘‘ شخص کہا۔

ہرکوس دوسروں کے ذہن میں چلنے والی ’’فلم‘‘ دیکھنے کا دعویٰ کرتا تھا۔
اُس کا طریقۂ کار اَنوکھا تھا۔ ملزم کو سامنے بٹھا کر اُس کے ماتھے پر اپنا ہاتھ رکھتا اور بتاتا کہ اُس نے جرم کیا ہے یا نہیں۔
اُس کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق پولیس جائے واردات پر پہنچتی اور جرم کا سراغ مل جاتا۔
اُس نے ٹیلی ویژن انٹرویو میں اور اَخباری رپورٹروں کو بتایا کہ اُس کا طریقۂ کار بالکل سیدھا سادہ ہے۔
پولیس اُسے جائے واردات پر لے جاتی۔ وہاں پہنچ کر وہ قطعی خالی الذہن ہو جاتا,
اُسے ریڈیو کی لہروں کی طرح برقی پیغامات ملتے۔ بقول اُس کے یہ پیغامات اُس کے تحت الشعور سے آتے۔

ہرکوس کی مقبولیت کے باوجود بہت سے سائنس دان، ڈاکٹر اور ماہرینِ نفسیات اُس کے علم غیبی اور رُوحانیت کے دعوے کو صحیح نہیں سمجھتے تھے۔
وہ کہتے کہ خفیہ پولیس نے جرائم کی تفتیش میں ناکامی کو چھپانے کے لیے اُسے ساتھ ملا لیا ہے۔
جب کوئی عقدہ حل نہیں ہوتا، تو اُس کی روحانی طاقت کی آڑ میں بےگناہ لوگوں کو پھانس لیا جاتا۔
اُنھیں مجرم ثابت کر دیا جاتا۔
خفیہ پولیس والے اُسے کسی شخص کے متعلق پہلے ہی بتا دیتے,
وُہ اُس کے ماضی اور حال کے واقعات بلاکم و کاست بتا دیتا۔

کئی مشہور سائنس دانوں، ڈاکٹروں، ماہرینِ نفسیات اور وُکلا نے ہرکوس کا امتحان لینا چاہا، لیکن وہ مقررہ وَقت پر کبھی نہ پہنچتا۔
اُس کے مداح جو زیادہ تر خفیہ پولیس کے آدمی تھے، اُسے آزاد منش، لااُبالی اور بےپروا کہتے تھے،
تاہم یہ ہتھ کنڈے بڑے شہروں میں کامیاب نہیں تھے۔
قصباتی حکام اور پولیس والے ہی اُن سے کام لیتے تھے، لیکن کب تک؟
جیکسن خاندان کے قتل میں بےگناہ جان کو ملوث کرتے ہی واشنگٹن میں وہ ہنگامہ مچا کہ ہرکوس کو ملک چھوڑتے ہی بنی۔
اُس وقت تک اُس نے نہ جانے کتنے بےگناہوں کو سزا دلا دی تھی.
کتنے ہی خاندانوں کو تباہ کر دیا تھا اور نہ معلوم کتنے مجرم قانون کے شکنجے سے بچ نکلے تھے۔

۷ جون ۱۹۶۰ء شمسی کو فالس چرچ پہنچتے ہی ہرکوس نے اخباری رپورٹروں کو بتایا کہ جیکسن خاندان کے قتل کا معما حل ہو جائے گا۔
اُسی دن اُس نے اپنا یومیہ مشاہرہ سو ڈالر مع اخراجات وصول کر لیے۔
وہ وِرجینیا پولیس کے ساتھ سیدھا فریڈر کسبرگ گیا جہاں سے جیکسن اور جینیٹ کی لاشیں ملی تھیں۔
وہاں وہ دَیر تک بیٹھا خلا میں گھورتا اور فلم دیکھتا رہا۔
اُس کے بعد اُس نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’مجرم‘ نے چار سے زیادہ اَفراد قتل کیے ہیں۔
غالباً نو۔ تاہم اُس نے مجرم کی نشان دہی نہیں کی۔

اگلے دن وہ میری لینڈ آ گیا جہاں جیکسن کی بیوی اور بڑی لڑکی کی لاشیں پائی گئی تھیں۔
وہاں بھی وہ اُسی طرح بیٹھا ’فلم‘ دیکھتا رہا۔ مجرم کے متعلق اُس نے پہلی مرتبہ بتایا کہ وہ لکی اسٹرائیک سگریٹ پیتا ہے۔
یہ کہہ کر وہ اُٹھا اور اَپنی قیام گاہ پر جانے لگا۔
وہ ہمیشہ نو سے بارہ گھنٹے سویا کرتا تھا۔ پولیس والوں اور اَخباری رپورٹروں کے اصرار پر اُس نے صرف اتنا کہا کہ اُسے مجرم کا علم ہو گیا ہے۔

اگلے دن اُس نے خفیہ پولیس اور سراغ رسانوں کی سترہ ماہ کی اُلجھن دور کر دی۔ مجرم کا جو حلیہ اُس نے بتایا، وہ ہو بہو جان سے ملتا جلتا تھا۔

فیرفیکس کے پولیس ہیڈ کوارٹرز میں لے جانے کے بعد جان کو اُس کے دو بھائیوں اور وَکیل سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ پولیس والے اُس سے صرف ’’ہاں‘‘ کہلوانا چاہتے تھے۔
دوسرے کمرے میں کورا تھی، لیکن دونوں کو اِس جگہ ایک دوسرے کی موجودگی کا علم نہ تھا۔
پانچ گھنٹوں کے تھکا دینے والے، پریشان کُن سوالات کے بعد کورا کو گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔
کچھ دیر بعد اُس نے گھر کے قریب کار رکنے کی آواز سنی اور اُس میں سے جان کو اُترتے دیکھ کر اُس کے زرد، مضمحل چہرے پر سرخی دوڑ گئی۔ کچھ دیر سو لینے کے بعد جان کام پر چلا گیا۔

سارا دِن کسی سے بات کیے بغیر وہ اَپنا کام کرتا رہا۔ مال لانے لے جانے کے لیے کئی پھیرے کیے۔
اُسے علم نہ تھا کہ خفیہ پولیس کے آدمی سائے کی طرح اُس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔
اُس کا خیال تھا کہ وہ اُس عذاب سے نجات پا چکا ہے۔
وہ اُس اذیت ناک رات کو ہمیشہ کے لیے بھول جانا چاہتا تھا۔
شام کو گھر لَوٹ رہا تھا کہ ایک پولیس ویگن نے اُس کا راستہ روک لیا۔

’’ہمارے ساتھ چلو۔‘‘ حکم ملا۔

’’اور یہ ٹرک؟‘‘ اُس نے پوچھا۔

’’اِسے یہیں چھوڑ دو۔‘‘ دوسرا حکم ملا۔

وہ پھر فیرفیکس پولیس ہیڈکوارٹرز میں تھا۔ گزشتہ رات بھر کا جاگا ہوا اَور آج پھر جاگنا تھا۔
وہی عذاب اور اَذیت تھی، لیکن وہ قاتل ہوتا، تو اقرار کرتا۔
اُس نے تو جیکسن کو کبھی دیکھا تک نہ تھا، لیکن ہرکوس کی ’فلم‘ اُسے مجرم ثابت کر چکی تھی۔

دوسرے کمرے میں کورا پھر اُن پریشان کن سوالات سے دوچار تھی۔

’’تمہارا شوہر نیم پاگل ہے؟‘‘ پوچھا گیا۔

’’قطعی نہیں!‘‘ اُس نے اعتماد سے کہا۔

’’تم جانتی ہو اُس نے تقریباً نو اَفراد کو قتل کر دیا ہے۔‘‘

’’مجھے یقین نہیں آتا۔‘‘

’’اُسے سزائے موت ہو گی، تب یقین آئے گا۔‘‘

’’اچھا اگر اُسے سزائے موت دلانے کے بجائے چند دنوں کے لیے میرین بھیج دیا جائے، تو کیسا رہے گا۔؟‘‘ اُس کی رائے طلب کی گئی۔ کورا کو کیا معلوم تھا کہ میرین کیا بلا ہے۔

’’اُس کا جرم ثابت ہو چکا ہے، لیکن تم اُسے موت سے بچا سکتی ہو۔‘‘ ہمدردی جتائی گئی۔

’’وہ کیسے؟‘‘ اُس نے پوچھا۔

’’اِس فارم پر دستخط کر دو۔‘‘ ایک فارم اُس کے سامنے رکھ دیا گیا۔

’’مَیں کسی سے مشورہ کیے بغیر کسی فارم پر دستخط نہیں کروں گی۔‘‘ اُس نے سخت لہجے میں کہا۔

’’اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اُس کی موت کے وارنٹ پر دستخط کر دیے ہیں۔‘‘ کرخت جواب ملا۔

’’نہیں، نہیں! مَیں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ اُسے میرین بھیج دو۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

’’پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔ چند دنوں میں واپس آ جائے گا۔‘‘ کسی نے اُس کے شانوں پر شفقت سے ہاتھ رکھا۔

اگلی شب جان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ جج جے میسن گرو مسندِ انصاف پر بیٹھا تھا۔
یہ عدالت دراصل تحقیقاتی کمیشن کا کام کر رہی تھی۔
ریسمین، جیل کا ڈاکٹر جیس آر کور اَور دَولتِ مشترکہ کا قانونی مشیر رابرٹ سی فزجیرالڈ اراکین تھے۔
ہال تفتیشی افسر تھا۔ جوزف بینیٹ نامی ایک وکیل کو جان کا قانونی مشیر مقرر کیا گیا۔
جان نے اُسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جوزف نے تمام کارروائی کے دوران میں ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالا۔

ریسمین نے باقی دو اَراکین کو بتایا کہ جان کا باپ اور ماں دونوں شرابی تھے۔
باپ نے اُسے مار کر گھر سے نکال دیا تھا۔ ہال نے بتایا کہ جیکسن اور اُس کے بیوی بچوں کو جان نے ہیرے کی انگوٹھی اور سونے کی گھڑی (نقدی نہ جانے کتنی تھی) کے لیے قتل کر دیا ہے۔
فز جیرالڈ نے کوئی بات نہیں کی۔ صرف اثبات میں سر ہلاتا رہا۔ کورا اَور جوزف خاموش بیٹھے رہے۔
اُس کے بعد ریسمین نے کورا کا دستخط کردہ فارم جج کے سامنے پیش کیا۔
ساری کارروائی میں صرف پندرہ منٹ لگے اور جج کے فیصلے کے مطابق جان کو میرین (ورجینیا) کے مجرموں کے پاگل خانے میں بھیج دیا گیا۔

پاگل خانے میں اُسے پاگلوں کا مخصوص لباس دیا گیا اور ایک تنگ و تاریک کوٹھڑی سے نکالا جاتا۔
ایک بڑے ہال میں لے جایا جاتا۔ یہاں پتھر کی بینچوں کے سوا کچھ نہ تھا۔
ساتھی اُسے عجیب و غریب حرکتوں سے ڈراتے اور مار ڈالنے کی دھمکی دیتے۔
وہ ہر وقت سہما سہما رہتا۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحات وہ تھے،
جب اُس کے دماغ کو بجلی کے جھٹکے دیے جاتے۔
تکلیف کی شدت سے وہ بےہوش ہو جاتا۔ چودہ دِن اِسی طرح گزر گئے۔
پاگلوں اور خطرناک مجرموں میں رہ کر اُس کا ذہن ماؤف ہو چلا تھا۔
اُسے یقین ہو گیا کہ ایک دن وہ سچ مچ پاگل ہو جائے گا۔
وزن گھٹ کر آدھا رہ گیا تھا اور چہرہ ہلدی کی طرح زرد …..
دراصل اُسے سسک سسک کر مرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔

جان کا مالک ہنری نہیں چاہتا تھا کہ اچھا بھلا اور بےگناہ آدمی پاگل بن کر مجرم ہونے کا داغ لیے مر جائے۔
اُس نے کورا اَور جان کے بھائیوں سے مشورہ کیا ۔
ایک نوجوان اور ہوشیار وَکیل وائن ای کومر کی خدمات حاصل کیں۔
اُس نے یہ معاملہ امریکا کی شہری آزادی کی تنظیم کے سامنے پیش کیا۔
ساتھ ہی عدالت سے مطالبہ کیا کہ مقدمے کی دوبارہ سماعت کی جائے،
کیونکہ عدالت کی کارروائی آدھی رات کو بلاوجہ ہوئی تھی.
اُس میں کوئی وکیل یا عام آدمی شریک نہیں ہوا تھا۔

شہری آزادی کی تنظیم نے وزارتِ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
تنظیم کے اراکین کے مشورے سے کومر نے میرین کے ایک وکیل جی آر سی اسٹوراٹ کو اَپنے ساتھ شریک کر لیا۔
اسٹوراٹ نے عدالتِ عالیہ میں جان کے حق میں ہیلبس کارپس کی درخواست داغ دی۔
اب تک واشنگٹن کے لوگ اِس اندھیرنگری سے واقف نہیں تھے۔
شہری آزادی کی تنظیم نے رائےعامہ کو اِس طرف متوجہ کیا۔ اخبارات نے شور مچا دیا۔
ڈیلی نیوز نے اِس سزا کو سترھویں صدی کی یادگار قرار دِیا۔
ریڈیو پر ایک اخبار کا اداریہ پڑھ کر سنایا گیا جس میں عدالت کی کارروائی
اور فیصلے کو اِنصاف کے ماتھے پر بدنما داغ کہا گیا تھا۔
عدالتِ عالیہ نے ہیلبس کارپس کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی۔

یہاں سے بہت دور ویسٹ میمفس آرکنسس میں پیانو کمپنی کا ایک سیلزمین ۳۱ برس کی میلون ڈیوس رلیس،
تین سال قبل میری لینڈ کی ایک عورت کو قتل کر کے فرار ہو جانے کے الزام میں پکڑا گیا۔
اُس کے والدین ورجینیا میں ہیائس ولے میں رہتے تھے۔
تفتیش کے دوران میں اُن کے گھر کی تلاشی بھی لی گئی۔
وہاں میلون کی ڈائری ہاتھ لگی جس میں چھے افراد کے قتل کی مکمل تفصیل درج تھی۔
اُن میں چار جیکسن خاندان کے لوگ تھے۔ ۳۸ بور کا ایک پستول بھی ملا جس سے جیکسن کے سر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

ہیلبس کارپس کی درخواست کی سماعت سے ایک ہفتہ پہلے ہی جان کو چھوڑ دیا گیا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles