20 C
Lahore
Friday, November 1, 2024

Book Store

challawa|چھلاوا|Maqbool Jahangir

چھلاوا

مقبول جہانگیر

مئی ۱۹۵۸ء کی وہ منحوس صبح شاید مَیں کبھی نہ بھول سکوں گی۔

ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ….. مَیں نے ریسیور اُٹھایا ….. چند ثانیے تک میرے کان میں کوئی آواز نہ آئی ….. اور پھر مردانہ آواز ….. جس کے لہجے میں درشتی اور نفرت کا گہرا تاثر تھا۔

’’کیا تم ابھی تک استری کر رہی ہو؟‘‘

اِس کے ساتھ ہی اُس نے فون بند کر دیا۔

مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے پگھلا ہوا سیسہ میرے کان میں اتر رَہا ہے۔ میرے سارے جسم میں کپکپاہٹ سی پیدا ہوئی اور رِیسیور میرے ہاتھ سے چھوٹ کر میز پر گر پڑا۔ مجھے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا۔ کمرے کا فرش جیسے میرے پیروں تلے لرز رہا تھا اور پھر مَیں کرسی پر بیٹھ کر بےاختیار رَونے لگی۔

’’اُف خدایا! اُس نے مجھے دوبارہ ڈھونڈ لیا تھا۔‘‘

خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ موذی، پُراسرار شخص کون تھا اور کیوں میری جان کے در پے تھا۔ مَیں نے اُس سے بچنے کی کتنی ہی تدبیریں کیں۔
ٹیلی فون ڈائریکٹری میں سے نام کٹوایا۔ مکان تبدیل کیا ….. اپنے ملنے جلنے والوں کو سختی سے منع کر دیا کہ وہ کسی اجنبی کو ہمارا پتا نہ بتائیں۔
لیکن آہ ….. سب تدبیریں بےسُود رَہیں اور اَب تین سال بعد پھر اُس نے میرا سراغ لگا لیا ہے۔ وہ ضرور اَپنا قول پورا کرے گا ….. جس طرح مَیں نے اُس کا چہرہ جلا دیا تھا۔ کیا وہ بھی …..؟
اُس کا جلا ہوا بھیانک چہرہ میری نگاہوں کے سامنے آ گیا ….. جلے ہوئے گوشت کی مکروہ بدبُو مجھے اپنے نتھنوں میں گھستی ہوئی محسوس ہوئی۔
مَیں نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں اور سسکیاں لے لے کر رونے لگی۔ اِس مصیبت سے نجات پانے کا کوئی طریقہ سمجھ میں نہ آتا تھا۔
وہ پُراسرار آدمی میرے لیے تین سال سے ایک ایسا روحانی عذاب تھا جو ایک لمحے کے لیے بھی دور نہ ہو سکا تھا۔

۱۴ جولائی ۱۹۵۵ء کی رات کا ذکر ہے۔ اُن دنوں ہم لاؤس اینجلز کے ایک نواحی دیہات میں رہتے تھے۔ میرا شوہر جم شہر کے ایک شبینہ تھیٹر میں ملازم تھا۔ ہمارے دو بچے تھے۔
جمی چار برس کا اور بریان دو برس کا تھا۔ بچے اپنے کمرے میں سو گئے تھے۔
مَیں نے معمول کے مطابق سب کمرے صاف کیے، بچوں کے بکھرے ہوئے کھلونے جمع کر کے الماری میں رکھے اور پھر کپڑوں پر استری پھیرنے کی تیاری کرنے لگی۔
۹ بجے ٹیلی ویژن پر ایک خاص پروگرام دیکھنے کا ارادہ تھا۔ مَیں نے بجلی کی استری گرم ہونے کے لیے رکھ دی اور ٹیلی ویژن سیٹ کھول دیا۔

بجلی کی استری جب خوب گرم ہو گئی، تو مَیں نے میز پر کپڑے بچھائے اور اِستری اٹھا کر پھیرنا ہی چاہتی تھی کہ دفعتاً دو فولادی ہاتھوں نے پیچھے سے مجھے گرفت میں لے لیا۔
ایک ہاتھ میری کمر کے گرد تھا اور دُوسرے نے سختی سے میرا منہ بند کر دیا اور اِس سے پیشتر کہ مَیں چیخوں چلّاؤں، اُس نے جھٹکے کے ساتھ مجھے اپنی طرف موڑ لیا۔
یہی وہ مختصر ترین ثانیہ تھا جب میرے دل میں بچاؤ کی ایک فوری تدبیر آئی اور مَیں نے اُس پر عمل کیا۔

بجلی کی دہکتی ہوئی استری میرے دائیں ہاتھ میں تھی۔ اُسے فوراً مَیں نے اُس کے چہرے پر جما دیا۔ پُراسرار اَجنبی کے منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی۔ درد کی شدت سے اُس کا بدن دہرا ہو گیا۔
اُس کا تمام چہرہ جل گیا تھا اور جلے ہوئے گوشت کی چراند میری ناک میں پہنچی۔ خدا میری حالت پر رحم کرے ….. اُس کا جلا ہوا بھیانک چہرہ ….. اور دِل دوز چیخیں ….. شاید مَیں موت کے آخری لمحے تک فراموش نہ کر سکوں۔
اب مَیں نے اُسے غور سے دیکھا ….. اُس کی عمر بیس سال سے زائد نہ تھی ….. سیاہ بالوں، چوڑی چھاتی اور مضبوط ہاتھ پاؤں کا ایک لمبا تڑنگا جوان تھا۔ اُس کی گہری سیاہ آنکھوں میں دہشت کی جھلک تھی ….. ایک ثانیہ پیشتر اُسے خوبصورت آدمی کہا جا سکتا تھا، لیکن اب …..
وہ دُنیا کا سب سے بدصورت شخص تھا۔ اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ملتے ہوئے وہ لڑکھڑا کر پیچھے ہٹا۔ پھر جلدی سے مڑا اَور بھاگتا ہوا کھلے دروازے میں نکل کر باہر غائب ہو گیا۔

جب پولیس آئی، تو بجلی کی استری میز کے پاس الٹی پڑی تھی اور کپڑے چاروں طرف بکھر گئے تھے۔ میرے دونوں بچے جمی اور بریان سہمے ہوئے ایک کونے میں کھڑے تھے۔
استری ابھی تک گرم تھی۔ ایک پولیس افسر نے خیال ظاہر کیا کہ وہ ضرور کوئی نقب زن تھا جو اِس علاقے میں وارداتیں کرتا پھر رہا تھا،
لیکن اب وہ اِدھر آنے کی جرأت نہ کرے گا ….. اِس طرح گویا معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

کوئی دو ہفتے بعد ….. ایک روز جب مَیں لیٹر بکس سے خطوط نکال رہی تھی،
تو مجھے زرد رَنگ کا ایک کاغذ خطوں کے درمیان دکھائی دیا۔ اُس کاغذ پر سیاہ پنسل سے صرف ایک سطر تحریر تھی:

’’مَیں انتقام لیے بغیر تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔‘‘

یہ گمنام دھمکی آمیز خط پڑھتے ہی میری نظروں کے سامنے وہی جلا ہوا بھیانک چہرہ پھرنے لگا۔ مجھے اُس کی چیخیں کانوں میں گونجتی ہوئی محسوس ہوئیں۔
میرے جسم کا رُواں رُواں خوف سے کھڑا ہو گیا۔ میرے لب خشک ہو گئے اور ٹانگیں کانپنے لگیں۔ جمی اور بریان نے اپنی معصومیت کے باوجود میری اِس نازک حالت کو فوراً بھانپ لیا۔
وہ دونوں ’’ممی ممی‘‘ کہتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئے۔ مَیں نے دونوں کو بازوؤں میں چھپا لیا اور بےساختہ میری آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں بہہ نکلیں۔

ایک مرتبہ پھر پولیس والے ہمارے گھر میں آئے اور اُنھوں نے گمنام خط پڑھ کر کہا ’’یہ اُسی بدمعاش کی حرکت ہے۔‘‘ اُنھوں نے ایک ضخیم فائل میرے آگے رکھ دی جس میں تمام بدمعاشوں اور نقب زنوں کی تصویریں چسپاں تھیں۔
مَیں نے ہر تصویر کو بغور دَیکھا، مگر افسوس! جسے مَیں تلاش کرتی تھی، وہ اُن تصویروں میں نہ تھا۔
مجبور ہو کر پولیس افسروں نے تمام مقامی اسپتالوں، کلینکوں اور ڈاکٹروں سے پوچھا کہ کیا کوئی جلے ہوئے چہرے والا شخص علاج کرانے کے لیے اُن کے پاس آیا ہے، مگر کسی نے اثبات میں جواب نہیں دیا۔

سخت تعجب تھا کہ پُراسرار اَجنبی جس کا چہرہ بجلی کی استری نے جلا کر رکھ دیا تھا، کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں گیا۔ پولیس افسر نے مجھے اطمینان دلاتے ہوئے کہا:
’’آپ قطعی بےفکر رہیے ….. یہ محض اُس کی دھمکی ہے۔‘‘
لیکن میرے شوہر کو ایک طرف لے جا کر اُس نے یہ کہا کہ کسی حالت میں بھی مجھے اور بچوں کو تنہا نہ چھوڑا جائے۔
پولیس کی گشتی کاریں مکان کی مسلسل نگرانی کریں گی۔ اگر وہ بدمعاش آیا، تو اُسے یقیناً گرفتار کر لیا جائے گا۔

ایک مہینہ خیریت سے گزر گیا۔ مجھے اُس کی صورت دکھائی نہیں دی۔ میرے اور میرے شوہر کے دل میں جو خدشہ تھا، وہ آہستہ آہستہ دور ہوتا جا رہا تھا۔
۱۹؍اگست کو ہماری شادی کی پانچویں سالگرہ تھی اور اُنھی دنوں ہمارے تیسرے بچے کی آمد کی توقع بھی تھی۔ اُس روز مَیں اور میرے شوہر نے باہر ڈنر اَور ڈانس کا پروگرام بنایا۔
گھر پر بچوں کی نگرانی کے لیے مَیں نے اپنی والدہ کو بلا لیا۔ رات گئے جب ہم دونوں گھر واپس آئے، تو میری والدہ مجھے دروازے پر ملیں۔
مَیں نے فوراً بھانپ لیا کہ اُن کی حالت غیر ہے۔ وہ کانپ رہی تھیں اور اُن کی آنکھوں میں خوف کی جھلک نمایاں تھیں۔
ہر چند اُنھوں نے اپنا اضطراب چھپانے کی کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہوئیں اور بےحد اصرار پر اُنھوں نے بتایا:

’’لڑکے جس کمرے میں سو رہے تھے، اُس کمرے کی بیرونی کھڑکی پر کسی آدمی کے ہاتھ مجھے دکھائی دیے۔ وہ کھڑکی کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔
پہلے تو مَیں اُسے دیکھتی رہی۔ پھر جلدی سے باورچی خانے سے گوشت کاٹنے والی لمبی چھری لا کر مَیں نے اُس کے ہاتھوں میں کچوکے لگائے۔
اُس نے فوراً ہاتھ چھوڑ دیے اور زمین پر کود کر غائب ہو گیا۔ اندھیرے کے باعث مَیں اُس کی شکل نہیں دیکھ سکی۔‘‘

مَیں نہیں بتا سکتی کہ یہ واقعہ سن کر ہمارا کیا حال ہوا۔ ہمارے دلوں پر دہشت کا ایک نا مٹنے والا نقش قائم ہو چکا تھا۔ اب ہم اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگے۔
ہر فرد کے چہرے پر ہوائیاں سی اڑنے لگیں۔ ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی، تو خون میری رگوں میں جم جاتا۔ دروازہ ہوا سے کھل جاتا، تو حلق سے چیخ نکلتے نکلتے رہ جاتی۔
اُس پُراسرار حملہ آور کا خوف ہمارے چاروں طرف مکڑی کے جالے کی طرح تنا ہوا تھا جو شعوری بھی تھا اور غیرشعوری بھی۔ یہاں تک کہ ہماری راتوں کی نیندیں اُڑ گئیں۔
رات کیا آتی، گویا قیامت آ جاتی۔ ہر کمرے کا دروازہ اور ہر کھڑکی کو مقفل کیا جاتا۔

رات کو کوئی ملنے کے لیے آتا، تو جب تک اپنی شناخت نہ کراتا، ہم دروازہ نہ کھولتے۔ ہمارے بچے راتوں کو سوتے سوتے چونک پڑتے اور چیخیں مارنے لگتے۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے اُنھیں خوف آتا تھا۔
دوسرے بچے جب گرما کی راتوں میں باہر آنکھ مچولی یا چور بادشاہ کا کھیل کھیلتے، تو جمی اپنے کمرے میں گھس کر اندر سے تالا لگا لیتا اور اَندھیرے میں اکیلا کبھی نہ جاتا۔

میرے شوہر جم کی یہ کیفیت تھی کہ وہ ہر اَجنبی چہرے کو غور سے دیکھے بغیر آگے نہ بڑھتا تھا۔ اُسے ایک ایسے آدمی کی تلاش تھی جس کی عمر بیس سال، بال سیاہ، قد لمبا، جسم مضبوط اور چہرہ جلا ہوا ہو …..
وہ اُس پُراسرار حملہ آور سے قطعی خوف زدہ نہ تھا، کیونکہ وہ خود چھ فٹ کا لمبا تڑنگا اور قوی انسان تھا۔
وُہ بار بار طیش میں آ کر کہتا کہ اگر وہ بدبخت کہیں مل گیا،
تو اُس کی ہڈیاں پسلیاں توڑے بغیر نہ چھوڑوں گا۔ بےچارے جم کو اگر کچھ فکر تھا، تو میرا اَور بچوں کا۔ جم کی محدود آمدنی اِس بات کی اجازت نہ دیتی تھی کہ ہم گھر کی حفاظت کے لیے کسی ملازم کو رکھ لیتے۔
آخر سوچ سوچ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ شام ہوتے ہی مَیں بچوں سمیت جم کے تھیٹر چلی جاؤں اور جب وہ کام ختم کر کے واپس آئے، تو اُس کے ساتھ آؤں۔

’’جب تک یہ خطرہ ٹل نہیں جاتا، یہی کرنا بہتر ہے۔‘‘ جم نے کہا۔ ’’تم وہاں ہر طرح سے محفوظ رہو گی اور وُہ بدمعاش تمہیں کبھی تلاش نہ کر سکے گا اور پھر ٹکٹ آفس میں ہر وقت مَیں موجود رَہوں گا۔‘‘

چنانچہ یہی ہونے لگا۔ سورج غروب ہوتے ہی دونوں بچوں سمیت اپنی چار برس پرانی کار میں بیٹھتی اور تھیٹر پہنچ جاتی۔ ہفتے کے پانچ دن مَیں نے مسلسل ایک ہی فلم دیکھی،
بلکہ یوں کہیے کہ اگلی نشست پر بیٹھی اونگھتی رہتی اور دونوں بچے کمبلوں میں لپٹے ہوئے پچھلی نشست پر سوتے رہتے۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ کار اَپنے مقام پر کھڑی کر کے مَیں نے سوچا آج اِسی میں ٹھہرنا چاہیے۔ کوئی ایک گھنٹے بعد مجھ پر غنودگی سی طاری ہو گئی۔
دفعتاً میری آنکھ کھلی ….. اور مَیں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ کار کی کھلی ہوئی کھڑکی میں سے کسی نے اپنا سر اندر ڈالا اور کہا:

’’کیا تم مجھے دھوکا دے سکتی ہو؟ مَیں تمہیں ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
اِس کے ساتھ ہی وہ اَندھیرے میں غائب ہو گیا۔

میرے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور پھر مَیں کار کا دروازہ کھول کر چلّانے لگی کہ پکڑو اُس آدمی کو۔ جم فوراً بھاگتا ہوا میرے پاس آیا اور مَیں نے ہسٹریائی انداز میں چیخ کر کہا:

’’وہ اَبھی ابھی آیا تھا ….. وہی تھا۔‘‘

سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ تھیٹر میں باہر کھڑی ہوئی پانچ سو کاروں میں سے اُس نے کس طرح ہماری کار کو پہچانا۔
پولیس کا خیال تھا کہ وہ گھر سے لے کر تھیٹر تک روزانہ کار کا تعاقب کرتا رہا، لیکن اُسے حملہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔

اِس حادثے کے باعث میری طبیعت بےحد پریشان تھی۔ وضع حمل کے دن قریب تھے۔
دو دِن بعد مجھے زندگی کے شدید ترین صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ بچہ پیدا ہوا ….. لیکن مرا ہوا۔ غم و اَندوہ سے میری حالت ابتر ہو گئی۔
چیخ چیخ کر رونے کو دل چاہتا۔ خدا رَحم کرے۔ ہم سے ایسی کون سی خطا ہو گئی تھی جس کی پاداش میں یہ عذاب ہم پر نازل ہو گیا تھا۔

مَیں سوچ سوچ کر تھک گئی۔ ہماری شادی ہوئے ابھی پانچ برس ہی ہوئے تھے۔ زندگی کی تمام مسرّتیں اور خوشگواریاں ہمارے حصّے میں آئی تھیں۔
ہمارے چھوٹے سے خاندان میں ہر طرف خوشی کے نغمے گونجتے تھے، مگر اب وہی گھر تھا جس میں موت کی سی بھیانک خاموشی اور قبرستان جیسی ویرانی طاری رہتی۔
بچوں کے پھول سے چہرے کملا کر رہ گئے تھے اور ہمارے جسموں کا خون خشک ہو گیا تھا۔

دو مہینے اِسی جاںکنی کے عالم میں گزرے۔ نومبر کا آدھا مہینہ بھی خیریت رہی۔ ایک روز شام کے چھ بجے کے بعد دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔
اُس روز مکان کی مالکہ کرایہ لینے کے لیے آنے والی تھی۔ مَیں جلدی سے دروازہ کھولنے گئی۔ جم اپنے کام پر چلا گیا تھا۔ اور میرے دونوں لڑکے اپنے کمرے میں تصویروں کا البم دیکھ رہے تھے۔

دروازہ کھولتے ہی دہشت سے میری چیخ نکل گئی ….. بدن سُن ہو گیا ….. ڈیوڑھی کی مدہم روشنی میں وہی پُراسرار مرد کھڑا مجھے گھور رَہا تھا۔
اُس کے دائیں گال پر گہرہ سیاہ دَاغ چمکتا ہوا دِکھائی دیا۔

’’آہ ….. ‘‘اُس کے حلق سے فاتحانہ نعرہ بلند ہوا۔
دو قدم آگے بڑھ کر اُس نے مجھے اپنے مضبوط ہاتھوں میں جکڑ لیا اور پھر زور سے دھکا دے کر زمین پر گرا دِیا۔

’’ٹھہرو ….. ٹھہرو …..‘‘ مَیں چیخی۔ اُس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ وہ جلدی سے اپنے کوٹ کی جیبوں میں کوئی شے ٹٹول رہا تھا ….. شاید چاقو ….. یا بلیڈ؟

دفعتاً گھر میں سے دونوں بچے حلق پھاڑ کر چلّاتے ہوئے آئے اور اَجنبی سے لپٹ گئے اور اُس پر ننھے ننھے ہاتھوں سے گھونسوں کی بارش برسانے لگے۔
حملہ آور نے جھنجلا کر دونوں کو ایک ہی دوہتڑ میں پرے پھینک دیا۔
میرے لیے یہی مختصر سا لمحہ کافی تھا۔ مَیں نے لپک کر بچوں کو پکڑا اَور گھسیٹتی ہوئی دروازے سے باہر نکل گئی۔

پانچ منٹ سے بھی کم عرصے میں پولیس ہمارے مکان پر پہنچ گئی، لیکن اُس بدمعاش کا کہیں پتہ نہ تھا۔ روتے اور سسکیاں لیتے ہوئے مَیں نے پولیس حکام کو اُس کا مکمل حلیہ بتایا۔
پولیس لیفٹیننٹ خاصا متاثر ہوا۔ اُس کے چہرے پر غیظ و غضب کے آثار نمودار ہوئے اور اُس نے کہا کہ اب ہمیں اُس بدمعاش کی خاص نشانی معلوم ہو چکی ہے۔
وہ بچ کر نہیں جا سکتا، لیکن تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ چپ چاپ مکان بدل لو اور کسی ایسے علاقے میں مکان لو جہاں آبادی گنجان ہو۔ وہاں اُسے آنے کی جرأت نہ ہو گی۔

دس روز بعد ہم نے اُس مکان کو نہایت حسرت سے الوداع کہا جس میں ہم پانچ سال سے تھے اور جو ہمارے دو بچوں کی یادگار تھا۔
مکان چھوڑنے کی اطلاع ہمارے صرف دو پڑوسیوں، ڈاک خانے اور پولیس والوں کو تھی۔ ہمارا اَپنا گھر نارتھ ہالی وڈ میں آٹھ کمروں پر مشتمل ایک خوبصورت اور آرام دہ مکان تھا۔
اُس مکان میں ہم نے ایک نئے نام سے ٹیلی فون لگوایا۔ ’’سمتھ‘‘ نام کے کوئی دو ہزار اَفراد اَیسے تھے جن کے گھروں میں فون موجود تھے۔
ہمارا فون نمبر ڈھونڈ نکالنا آسان نہ تھا۔ یوں سمجھیے کہ اب ہم ایک اجنبی شہر کے اجنبی محلے میں اجنبی لوگوں کے درمیان بس گئے تھے۔

مَیں نے یہاں آ کر بھی رات کو گھر سے نکلنا تو درکنار، دن کو بھی باہر جانا چھوڑ دیا۔
کوئی ضروری کام درپیش ہوتا، تو بس کے ذریعے سفر کرتی اور وُہ بھی کسی پڑوس کی عورت کے ساتھ۔ پولیس والے نہایت سرگرمی سے جلے ہوئے چہرے والے بدمعاش کی تلاش میں تھے،
لیکن عجیب بات تھی کہ اُس کا سراغ نہ ملتا تھا۔ ایک ایسا شخص جس کا چہرہ خوفناک حد تک جل چکا ہو،
بھلا کس طرح لوگوں اور پولیس کی نظروں سے اپنے آپ کو پوشیدہ رکھ سکتا تھا؟ آخر ایک پولیس افسر نے رائے ظاہر کرتے ہوئے کہا:

’’میرا خیال ہے کہ وہ ضرور میک اپ کرتا ہے، لیکن جلد یا بدیر وہ پکڑا ضرور جائے گا۔ بہرحال اگر مَیں تمہاری جگہ ہوتا، تو اب تک اُس کا ڈر دِل سے نکال چکا ہوتا۔‘‘

کامل سات ماہ نہایت اطمینان اور خیر و عافیت سے گزر گئے۔ اُس پُراسرار حملہ آور کا ڈر آہستہ آہستہ ہمارے دلوں سے دور ہو گیا۔
جم نے اب رات کی ڈیوٹی چھوڑ دی تھی، کیونکہ اُسے ایک اچھا اور زیادہ آمدنی والا کام مل گیا تھا۔
ہم نے نئی کار خرید لی تھی۔
رَفتہ رفتہ پارٹیوں اور دَعوتوں میں جانے لگے۔ رقص و تفریح اور پکنک کے پروگرام بننے لگے۔

ایک روز جب کہ جولائی کا سورج پوری دلآویزی کے ساتھ آسمان پر چمک رہا تھا، مَیں اپنے مکان کے صحن میں گئی۔ خدا جانے کس کام سے ….. اب مجھے یاد نہیں آتا ….. اور پھر مَیں نے اُسے دیکھا۔
وہ گلی میں سے گزر کر بس سٹاپ کی طرف جا رہا تھا۔ اُس کی پشت اگرچہ میری طرف تھی اور مجھے اُس کا چہرہ نہیں دکھائی دیا، لیکن مجھے یقین تھا کہ سوائے اُس کے اور کوئی نہیں۔
دفعتاً اُس نے گھوم کر مکان کی طرف دیکھا اور پھر ….. میرے بدن میں جیسے سردی کی لہر دوڑ گئی ….. وہ بھاگتا ہوا نظروں کے سامنے سے غائب ہو گیا۔

ہانپتی کانپتی مَیں گھر کے اندر گئی اور اَپنے شوہر کو فون کیا۔ اُسے میری بات کا یقین ہی نہ آیا۔

’’تمہیں ضرور دَھوکا ہوا ہے۔ وہ ہمیں کسی طرح نہیں ڈھونڈ سکتا۔‘‘

’’مَیں نے خود اُس کا چہرہ دَیکھا ہے ….. وہی تھا۔‘‘ مَیں نے اصرار کیا۔

وہ رَات ہم نے آنکھوں میں کاٹی۔ طے پایا کہ ہمیں یہ مکان بھی چھوڑ دینا چاہیے۔ مگر حالات اِس قدر پیچیدہ تھے کہ ہم بمشکل اِس فیصلے پر عمل کر سکتے تھے۔ ڈاکٹر نے مجھے سخت ہدایت کی تھی کہ مَیں چار ماہ تک بستر میں آرام کروں، کیونکہ ہمارے ہاں پھر ایک بچے کی آمد تھی۔ خدا کا شکر رہا کہ اِس تمام عرصے میں وہ منحوس شخص نظر نہیں آیا۔ سٹیون کی پیدائش کے کچھ ہفتے بعد ہم نے یہ مکان بھی چھوڑا اَور چند میل کے فاصلے پر پرانا سا بنگلہ لے لیا۔ ایک مرتبہ پھر فون کا نیا نمبر لگوانا پڑا۔

مگر افسوس کہ ہماری تمام تدبیریں ناکام رہیں۔ وہ کم بخت سائے کی مانند ہمارے تعاقب میں تھا اور مئی ۱۹۵۸ء کی ایک صبح جس کا ذکر مَیں شروع میں کر چکی ہوں، اُس نے مجھے فون کیا۔

’’کیا تم ابھی تک استری کر رہی ہو؟‘‘

جی چاہتا تھا کہ سر دِیوار سے ٹکرا دُوں یا کچھ کھا کر سو رہوں۔ پولیس کو خبردار کیا گیا۔ گھر کے دروازے بند کیے گئے اور بچوں کا باہر جانا موقوف کر دیا گیا۔ ایک ہفتے بعد پھر ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ جم نے ٹیلی فون ایکس چینج سے کہا کہ جس نمبر سے وہ بدمعاش ٹیلی فون کرتا ہے، اُس کا پتہ لگائے۔ لیکن ایکس چینج والے مجبور تھے۔ وہ کہتے تھے:

’’اُسے پکڑنے کی یہی صورت ہے کہ جب وہ فون کرے، آپ دیر تک اُسے باتوں میں لگائے رکھیں۔‘‘

مگر وہ بھی ایک ہی کائیاں تھا۔ ایک یا دو فقرے کہنے کے بعد فوراً فون بند کر دیتا۔ اب تو اکثر دو ہفتے میں دو دو بار فون کرنے لگا۔ ایک مرتبہ جم کی موجودگی میں فون آیا۔ اُس نے ریسیور اُٹھا کر جواب دیا، تو وہ کم بخت قہقہہ لگا کر ہنسا ’’آہا ….. تم ہو۔‘‘ یہ کہا اور فون بند کر دیا۔ جولائی کے تیسرے ہفتے میں اُس نے فون کیا اور مجھے دھمکی دی۔

’’جمعرات کی رات کو تم گھر میں تنہا ہو گی۔ مَیں اُس روز تم سے سمجھوں گا۔ تیار رَہنا۔‘‘

یہ دھمکی سن کر مَیں لرز گئی۔ جمعرات کو جولائی کی ۳۰ تاریخ تھی۔ پولیس نے دن ہی سے ہمارے گھر کی نگرانی شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا، مگر اُس بدمعاش نے بدھ ہی کو اَپنا وار کیا۔ مَیں میلے کپڑے چھانٹنے کے لیے گیراج میں گئی جو مکان سے ملحق تھا۔ میری پشت دروازے کی طرف تھی اور مَیں کپڑوں کی گٹھڑی پر جھکی کپڑے علیحدہ کر رہی تھی کہ اچانک مَیں نے اپنی پسلیوں پر چاقو کی نوک سی چبھتی ہوئی محسوس کی۔

’’خبردار ….. آواز نہ نکلے ….. ورنہ یہیں مار دُوں گا۔‘‘ پیچھے سے اُس نے غرا کر کہا۔ مَیں برف کی مانند سرد پڑ گئی۔

’’گھر میں چلو۔‘‘ اُس نے تحکمانہ لہجے میں کہا اور چاقو کی نوک بالکل میری ریڑھ کی ہڈی کے ساتھ لگا دی۔

’’م ….. م ….. مگر ….. وہاں ….. ب ….. بچے …..‘‘ مَیں نے ہکلا کر کہنا چاہا۔ وہ ہنسا۔

’’جھوٹ بولنے کی کوشش نہ کرو۔ بچے باہر کھیل رہے ہیں۔‘‘

اِس وسیع مکان میں اب دو فرد تھے، وہ اَور مَیں۔ ایک دوسرے کے جانی دشمن ….. خون کے پیاسے ….. خاموشی سے اُس کے اشارے پر چلتی ہوئی مَیں باورچی خانے سے گزر کر ہال کمرے میں پہنچی۔

’’غسل خانے کی طرف …..‘‘ حکم ملا۔

بےجان لاش کی مانند مَیں غسل خانے میں داخل ہو گئی۔ وہاں جو کچھ مجھ پر بِیتی، وہ ایک بھیانک خواب کی مانند یاد ہے۔ اُس نے چھ انچ پھل کا نوک دار چمکتا ہوا چاقو میری آنکھوں کے سامنے گھمایا اور دَانت کچکچا کر کہنے لگا:

’’او کمینی عورت! تُو نے مجھے ہمیشہ کے لیے بدصورت کر دیا ….. دیکھ اب مَیں تیرا حلیہ بگاڑتا ہوں۔ تُو اب مجھ سے بھی بدتر ہو جائے گی ….. دفعتاً اُس نے چاقو سے میرے ٹخنے پر وار کیا۔
میرے منہ سے دبی سی چیخ نکلی۔ گاڑھا گاڑھا سرخ خون میرے ٹخنے سے رِس رِس کر غسل خانے کے فرش پر پھیلنے لگا۔ مَیں نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا:

’’آخر تم کیا چاہتے ہو؟‘‘

’’تمہیں بدصورت دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ اُس نے جواب دیا اور نہایت بےدردی سے میری پنڈلی میں چاقو گھونپ دیا۔

دفعتاً دروازے کی گھنٹی کا بٹن کسی نے دبایا۔ حملہ آور اُچھل کر پرے ہٹا۔

’’خاموش!‘‘ اُس نے مجھے حکم دیا۔ اب پہلی مرتبہ اُس کے چہرے پر خوف و ہراس کی لکیریں نمایاں ہوئیں۔ اُس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ وہ پھر چاقو لیے آگے بڑھا۔

’’مَیں تمہیں اپنی طرح بدصورت بنائے بغیر ہرگز نہ چھوڑوں گا۔‘‘ اُس نے پاگلوں کی طرح قہقہہ لگایا۔

’’ممی ….. ممی ….. تم کہاں ہو؟‘‘ جمی کی آواز مکان میں گونجی۔

’’کہو کہ مَیں غسل خانے میں ہوں ….. یہاں مت آنا۔‘‘ حملہ آور نے آہستہ سے کہا۔

مَیں نے اُس کے حکم کی تعمیل کی۔ ہرچند کہ میری آواز بری طرح کانپ رہی تھی۔ وہ چاقو لیے میری طرف بڑھا۔ مَیں نے اُس کا ارادہ بھانپ کر اَپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ اُس کے ہاتھ تھرتھرا رَہے تھے۔
مجھے اب اپنی موت کا یقین ہو چکا تھا، مگر ….. نہیں اچانک وہ کچھ سوچ کر پیچھے ہٹ گیا۔
اُس کے بھورے رنگ کی پتلون میرے خون سے داغدار ہو گئی تھی۔ اُس کی بغلوں سے پسینہ پانی کی مانند بہہ نکلا تھا اور قمیص کی آستینیں تربتر تھیں۔

’’مَیں پھر کبھی تم سے ملنے آؤں گا۔‘‘

اُس نے کہا اور ہال کمرے میں سے ہوتا ہوا باہر گلی میں نکل گیا۔

پولیس والوں کا خیال ہے کہ وہ اِس مرتبہ اُسے پکڑ لیں گے اور عین ممکن ہے کہ آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں اور وُہ شاید گرفتار …..
مگر میرا یہ حال ہے کہ مُردوں سے بدتر ہوں۔ جسم سُوکھ کر کانٹا ہو گیا ہے۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے ہیں۔ رات کو نیند نہیں آتی۔ آتی بھی ہے، تو خواب میں ایک چاقو گھومتا ہوا دِکھائی دیتا ہے۔
مَیں چیخ مار کر اُٹھ بیٹھتی ہوں۔ ذرا پتا بھی کھڑکتا ہے، تو میرا دِل دھڑکنے لگتا ہے۔
میری عمر پچیس سال سے زیادہ نہیں، لیکن چار سال میں عمر کی اتنی ہی منزلیں طے کر آئی ہوں۔ جم بےچارہ ہر وقت گھر کے دروازے اور کھڑکیاں بند رکھنے میں مصروف رہتا ہے۔
بچے سہمے ہوئے میرے بستر کے گرد بیٹھے رہتے ہیں۔
وہ ایک لمحے کے لیے بھی مجھے تنہا نہیں چھوڑتے۔
-کیا وہ دِن آئے گا جب میرے ذہن سے اُس پُراسرار شخص کا خوف نکل جائے گا اور مَیں ایک مرتبہ پھر مسرّت بھری زندگی میں واپس لَوٹ سکوں گی؟ شاید …..

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles