افسانہ
کمپلیمینٹ
(رات والی بات)
نیلم احمد بشیر
پلیٹ فارم پہ بھاگم بھاگ، ایک ریزرویشن کھڑکی سے دوسری پر کھڑی ہو کر، بالآخر بیلا نے ٹکٹ حاصل کر ہی لیا۔ ریل کا وقت نو بجے تھا اور اَبھی شام کے صرف سات بجے تھے۔
اُسے ہر صورت یہ ٹرین پکڑنا تھی، اِس لیے وہ وَقت سے بہت پہلے اسٹیشن پر آ گئی تھی۔ اطمینان سے ٹکٹ کو پرس میں ڈالنے کے بعد اُس نے بڑے سے پرانے طرز کے پلیٹ فارم کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔
انگریزوں کے زمانے کا بنایا ہوا پلیٹ فارم کافی بوسیدہ حالت میں تھا۔ چاروں طرف چھائے ہوئے اندھیرے کی وجہ غالباً ناقص وائرنگ یا انتظامیہ کی غفلت ہو سکتی تھی۔
کہیں کہیں اِکا دُکا کمزور پاور کے بلب اُداسی سے ٹمٹما رہے تھے۔
مسافر بہت کم تھے، شاید اِس لیے کہ ایک تو اُن دنوں ریکارڈ سے زیادہ ٹھنڈ پڑ رہی تھی، پھر یہ کہ چھٹیاں بھی تقریباً ختم ہو چکی تھیں۔
کچھ دن پہلے ہونے والی ریل میں دہشت گردی کی وجہ سے بھی شاید کچھ گھروں میں دبک گئے تھے
عام حالات میں تو وہ بھی شاید اِن دنوں سفر اختیار نہ کرتی، مگر اِس وقت ذہنی طور پر اُسے اپنے منظرنامے سے ہٹ کر ایک نئے منظرنامے میں داخل ہونے کی ضرورت تھی۔
تعلیمی کانفرنس میں شرکت تو محض ایک بہانہ تھی۔ دراصل وہ اپنے ٹوٹے ہوئے دل کو بہلانا چاہتی تھی جو لہولہان ہو کر قطرہ قطرہ اُس کے اندر ٹپک رہا تھا۔
دراصل چند ہفتے قبل اُس کے عزیز دوست اُس کے جینے کے سہارے، باسط نے اچانک اُس سے قطع تعلق کر لیا تھا۔
وہ وجہ نہیں جانتی تھی، اِس لیے حیران پریشان رہ گئی کہ ایسا کیوں ہوا؟
باسط اور وُہ دونوں تنہا تھے، اِسی لیے ایک دوسرے کے ساتھ ہو لیے تھے۔ اُس کی بیوی چند سال قبل ایک حادثے میں جاں بحق ہو چکی تھی اور اَب وہ تنہا ہی اپنے تین بچوں کو پال رہا تھا۔
جہاں تک بیلا کا سوال تھا، تو اُس نے کبھی کسی سے ناتا جوڑا ہی نہ تھا، لہٰذا اُس کا نہ کوئی بال تھا نہ بچہ۔ جوانی چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھا لکھا کر قابل کرنے میں بِتا دی ۔
جب ذمےداریوں سے فارغ ہوئی، تو سر میں چاندی کے تار جھلملانے لگے تھے۔
زندگی کی تیز دھوپ میں چلتے چلتے اُس کے پاؤں جلنے لگے تھے کہ ایک روز اچانک باسط اُس کی زندگی میں آ گیا۔
سائبان کی طرح اُس پہ چھا گیا۔ بیلا نے اُس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو عزیز از جان سمجھ کر تھام لیا اور اُسے ہی اپنی دنیا بنا لیا۔ اُس کی بےرنگ زندگی میں کہیں کہیں رنگ کے چھینٹے پڑنے لگے۔
پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ تین برسوں کی رفاقت کے بعد یک دم باسط نے راستہ بدل لیا اور شہر چھوڑ کر ہر ناطہ توڑ کر رابطہ کیے بغیر کہیں غائب ہو گیا۔
بیلا کو کچھ سمجھ نہ آئی۔ اب وہ اَپنے اُسی دکھ کو گود میں لیے بیٹھی تھی کہ اُس کے کالج والوں نے اپنی نمائندگی کے لیے اُسے کسی دوسرے شہر کی تعلیمی کانفرنس میں بھیجنا چاہا۔
بیلا نے موقع غنیمت جانا اور سامان باندھ لیا۔ دل نے کہیں لگنا نہ تھا مگر اُس نے پھر بھی اپنے آپ کو سمجھایا اور چند روز کے لیے چل دی۔
اب وہ کانفرنس ختم کر کے واپس گھر کو لَوٹ رہی تھی۔ دوسرے شہر میں دن مصروف اور اَچھے گزرے تھے، مگر دل میں اب بھی سناٹا تھا۔
لب پہ سوال اور طبیعت میں انتشار۔ باسط کے رویّے کی وجہ سے وہ اُلجھ کر رہ گئی تھی۔ اُس نے پلیٹ فارم پہ نظر دوڑائی، کافی سنسان دکھائی دیتا تھا۔
’’یا اللہ! کہیں مجھے پورے ڈبے میں اکیلے ہی سفر نہ کرنا پڑ جائے۔‘‘
اُس کے دل میں ایک خدشے نے جنم لیا۔ چند مشکوک سی شکلوں اور حلیے والے لوگ، کھیس، ٹوکریاں، ٹرنک اور اَلم غلم سامان لیے بیٹھے نظر آئے، نہ جانے کون لوگ تھے؟
یہ کوئی دہشت گرد تو نہیں؟ بیلا اپنے وہم پہ خود ہی ہنس دی۔ دُور اَندھیرے کونے میں پلیٹ فارم کے کنارے ایک شخص دکھائی دیا۔
حلیے سے شہری اور پڑھا لکھا لگتا تھا، بیلا نے شکر کیا کہ کوئی ڈھنگ کا مسافر اُسے نظر آیا اور اَپنا سامان گھسیٹتی ہوئی آرام سے اُس کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔
’’معاف کیجیے گا، کیا آپ لاہور جا رہے ہیں؟‘‘ بیلا نے سوال کیا۔
’’جی ہاں! آپ بھی؟ آئیے آپ بھی میرے ساتھ یہاں انتظار کر لیجیے۔‘‘ وہ شائستگی سے بولا۔
اُسے احساس ہو گیا تھا کہ خاتون تنہا ہونے کی وجہ سے کچھ گھبرا رَہی ہے۔ بیلا نے اُس پہ اچپٹتی ہوئی نظر ڈالی۔
سلونے رنگ کا، درمیانے قدوقامت کا عام سے نقوش والا نوجوان تھا۔
سر پہ اونی ٹوپی چڑھائے، آنکھوں پہ چشمہ پہنے، خاصا معقول آدمی دکھائی دیتا تھا۔ اُس سے بات چیت کر کے کچھ وقت کاٹا جا سکتا تھا۔ بیلا کو تسلی ہو گئی۔
’’میرا نام حسیب ہے۔ وکیل ہوں اور اَپنی این جی او چلاتا ہوں۔‘‘
اجنبی نے اپنا تعارف کرایا، بیلا نے بھی اخلاقاً اُسے اپنے بارے میں مختصراً بتا دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ دونوں ایک محتاط حد تک دوستانہ انداز میں ایک دوسرے سے گفتگو کرنے لگے۔
’’چلیں اچھا ہوا، آپ مل گئیں، ورنہ مَیں تو خاصا بور ہو رہا تھا۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’شکریہ!‘‘ بیلا نے بھی خوش دلی سے جواب دیا اور ٹرین کے انتظار میں اپنی گھڑی پہ وقت دیکھنے لگی۔
ریل آئی، تو دونوں اپنے سامنے آ جانے والے ڈبے میں سوار ہو گئے۔ بیلا نے غیرشعوری طور پر اپنے پاس کھڑی ایک دیہاتن کو اِشارہ کر کے کہا:
’’تم بھی ہمارے ساتھ اِس ڈبے میں آ جاؤ۔‘‘
وہ خوشی خوشی اُس کی دعوت قبول کر کے اپنا سامان لےکر آگے بڑھنے لگی۔
وہ تینوں ایک ہی ڈبے میں برابر کی نشستوں پر پوری پوری برتھ لے کر بیٹھ گئے۔ ریل میں جگہ ہی جگہ تھی۔ کوئی مسئلہ نہ تھا۔ پورا ڈبہ اپنا تھا۔
بیلا نے بیٹھ کر محسوس کیا، لکڑی کے پھٹوں والی سیٹیں کافی تکلیف دہ اور چبھنے والی تھیں۔
وہ اَپنے ساتھ صرف ایک ہی کمبل لائی تھی جسے اگر وہ نیچے بچھا لیتی، تو اُوپر کیا لیتی۔ اُس نے بادلِ نخواستہ کمبل کو ہی نیچے بچھا لیا اور خود شال لے کر لیٹ گئی۔
حسیب بھی اپنا کمبل اوڑھ کر سیٹ پر بیٹھ گیا اور اَچٹتی ہوئی نظروں سے ڈبے کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔
سردی ہڈیوں تک اترتی محسوس ہو رہی تھی، مگر مجبوری تھی رات تو کاٹنا ہی تھی۔
‘‘بھیا! ذرا اِدھر آؤ۔ آ کر میرا بستر بند تو کھلوا دو۔‘‘ دیہاتن نے ڈبے میں موجود وَاحد مرد کو مدد کے لیے پکارا۔ حسیب لپک کر اُٹھا اور جا کر اُس کے بستر بند کی پٹیاں کھولنے لگا۔
’’اتنا بڑا بستر!‘‘ بیلا کہے بغیر نہ رہ سکی۔
’’دراصل مَیں اپنی بہنوں کے لیے گاؤں سے رضائیاں بنوا کر لے جا رہی ہوں۔‘‘
’’عقلمند ہے، رضائیاں لائی ہے۔‘‘ بیلا نے انگریزی میں حسیب سے کہا، وہ بھی مسکرا دِیا۔
دونوں نے رضائیوں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا، تو وہ دیہاتن تاڑ گئی کہ ماجرا کیا ہے، اور وُہ کیا چاہتے ہیں۔
’’ایسا کریں آپ لوگ ایک ایک رضائی اوڑھ لیں۔‘‘ وہ پیار سے بولی۔
’’ارے نہیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ آپ کی بہنوں کے تحفے ہیں۔ بھلا ہم کیسے لے سکتے ہیں۔‘‘ بیلا ہچکچائی۔
’’لے لیں نہ۔ کوئی بات نہیں۔‘‘ دیہاتن نے اصرار کیا۔
اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ اُنھوں نے اُس کی فراخ دلانہ پیشکش کا فائدہ اُٹھانے کے لیے فوراً ہی رضامندی ظاہر کر دی ۔
نئی نکور تازہ بھروائی ہوئی رضائیوں میں سے ایک ایک اپنے لیے چُن لی۔ اب رات اتنی گراں نہ گزرے گی۔ اُنھیں اطمینان ہو چلا تھا۔
’’اللہ جی! اگر یہ قبولیت کی گھڑی تھی، تو کاش مَیں آپ سے کچھ اور ہی مانگ لیتی۔‘‘ بیلا نے حسرت سے سوچا۔
اُسے باسط شدت سے یاد آنے لگا۔ اُس نے دکھ سے ہونٹ بھینچ لیے۔ آنکھوں سے کجرا بہ کر گالوں پہ لڑھکنے لگا، تو بیلا نے حالات و ماحول کا اندازہ لگا کر خود کو سنبھالا۔
ذہن کو ماضی کی بھول بھلیوں میں بھٹک جانے سے بچانے کے لیے کچھ اور سوچنا شروع کر دیا۔
اُسے خیال آیا اُس نے تو رات کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ یہ سوچ کر اُس نے شاپنگ بیگ سے اپنے لیے سینڈوچ نکالا، پانی کی بوتل کھولی اور کھانے کا اہتمام کرنے لگی۔
حسیب کو بچوں کی طرح اپنا منہ تکتے دیکھ کر اُس سے رہا نہ گیا اور اُسے بھی اپنے آدھے سینڈوچ کی پیشکش کر دی۔
’’نہیں، نہیں! آپ کھائیں، مَیں کھا کر آیا ہوں۔‘‘ وہ تکلف سے بولا۔
’’ارے ارے لے لیں، کوئی بات نہیں۔‘‘ بیلا کے تھوڑے سے اصرار کے بعد اُس نے سینڈوچ لے لیا اور کھانے لگا۔ دیہاتن بھی اپنے پراٹھے کھا کر لیٹنے کا بندوبست کرنے لگی۔
کھانے کے بعد بیلا نے اٹھ کر ہاتھ دھوئے اور آ کر اپنے سرہانے والی کھڑکی کو مکمل طور پر بند کرنے کے لیے اُسے زور سے گرایا، مگر کھڑکی نہ جانے کب کی پھنسی ہوئی تھی، ٹس سے مس نہ ہوئی۔
اُس میں سے آتی ٹھنڈی برفیلی ہوا نیزے کی طرح آ کر اُنھیں چبھ رَہی تھی۔ حسیب اپنی نشست سے اُٹھا اور بیلا کی مدد کرنے کے لیے کھڑکی سے زورآزمائی کرنے لگا۔
تھک ہار کر اُس نے نہ جانے کیا سوچ کر اپنے گلے کا مفلر اتارا اَور اُس کھلی درز میں پھنسا دیا جس سے ہوا کافی حد تک اندر آنا بند ہو گئی۔
اِس ملی جلی کاوش پر اُس نے مسکرا کر حسیب کا شکریہ ادا کیا، تو اُس نے جواب نہیں دیا ۔
خاموشی سے اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ وہ اَپنے اردگرد رضائی کو اچھی طرح لپیٹ کر منہ ڈھانپ کر لیٹ گئی۔
ابھی اُسے لیٹے چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ایک آواز نے اُسے چونکا دیا۔
’’اگر آپ برا نہ منائیں، تو کیا مَیں آپ کے پاس آ سکتا ہوں؟‘‘
حسیب کے منہ سے فقرہ کیا نکلا کہ گویا کوئی راکٹ میزائل بیلا کے جسم میں آ کر پیوست ہو گیا۔ وہ تڑپ کے اُٹھ بیٹھی۔
’’ہیں! یہ آپ نے کیسی بات کی ہے؟ کچھ اللہ کا خوف کریں۔ مَیں آپ کی ماں کے برابر ہوں۔ اگر مَیں نے آپ سے بات چیت کر لی، تو اِس کا آپ نے یہ مطب نکالا؟
پلیز کچھ غلط سوچنے کی ضرورت نہیں آپ کو۔‘‘
اُس نے غصّے سے اجنبی ہم سفر کو جھاڑ دیا اور کروٹ بدل کر لیٹ گئی۔ حسیب خیر اتنا چھوٹا بھی نہیں تھا کہ وہ اُسے بیٹا کہہ سکتی، مگر اُس وقت اُس کے منہ سے بس یہی نکل سکا۔
وہ خاموش رہا، ایک لفظ بھی نہ بولا، مگر پھر بھی بیلا اندر سے کچھ ڈر سی گئی۔ اُسے ایسی کسی بات کی ہرگز توقع نہ تھی، وہ بڑی پُراعتماد عورت تھی۔
کسی بھی منزل پہ ڈگمگا جانے کا اُسے کبھی خطرہ محسوس نہیں ہوا تھا لیکن یہ؟ اِس اجنبی ہم سفر نے آخر اُسے ایسا کیوں کہا تھا؟ وہ سمجھ نہ پائی۔ سوال اُس کے ذہن میں تیرے جا رہا تھا اور جواب سمجھ میں نہ آتا تھا۔
رات کا سناٹا، ریل کا تقریباً خالی ڈبہ، شدید سردی ایک اَن جانے شخص کی موجودگی، وہ پوری طرح چوکنی ہو گئی ۔ نہیں خیر، ایسی جرأت تو وہ نہیں کر سکتا۔ پڑھا لکھا، مہذب اور تمیزدار آدمی لگتا ہے۔ ایسی نیچ بات؟ وہ سوچتی چلی گئی ۔
ایک دوسرے خیال نے اُس کا دل دکھایا۔
اے کاش! آج رات اِس ڈبے میں باسط ہی ہوتا، تو کتنا اچھا لگتا۔ کتنی رومانوی اور یادگار رَات ثابت ہوتی۔
ایسا فلمی سٹائل کا موقع بھلا حقیقی زندگی میں کہاں ملتا ہے، کیوں نہ مَیں باسط سے یوں انتقام لے لوں؟ اُسے اُس کی بےوفائی کا مزا ہی چکھا دوں۔
ایک دم اُس کے اندر کی کمینی عورت بولی۔ مگر نہیں مجھ میں اِس طرح کا انتقام لینے کی بھلا کہاں قابلیت ہے؟ بھاڑ میں گئی پارسائی کی عادت۔
اُس نے اپنے آپ کو کوسا، مگر بات یہ نہیں تھی۔ بات تو بس صرف محبت کی تھی، صرف محبت ہی ایک ایسا جذبہ تھا جس کے لیے وہ ہر حد پار کر سکتی تھی، ورنہ جسم سے اُسے کوئی لاگ نہ تھا اور باسط اپنی ساری محبتیں اُس سے چھین کر کہیں دور چلا گیا تھا۔
پتا نہیں وہ کون سی عورتیں ہوتی ہیں جو مردوں کو جھوٹ موٹ اپنے دام میں پھنسا کر وقت گزاری کر لیتی ہیں؟ وہ تو اِس معاملے میں بالکل کوری تھی۔
وہ تو تمام عمر زندگی کے سمندر میں بس یونہی اِدھر اُدھر بہتی چلی گئی تھی۔ موجوں کے تھپیڑوں نے اُسے اٹھا کر اِدھر سے اُدھر پٹخ دیا، مگر کبھی ساحل تک نہ پہنچنے دیا۔
وہ جینا چاہتی تھی سو ہاتھ پاؤں مار کر زندہ رہنے کی کوشش کرتی رہی۔ اردگرد سے بہت سے تنکے پانی میں سے بہ کر گزرتے گئے اور وُہ اُنھیں گزرتا دیکھتی گئی۔
باسط عام مردوں سے مختلف تھا۔ بیلا نے اُسے ایک مضبوط شہتیر سمجھ کر اپنا وجود اُس کے حوالے کر دیا تھا، مگر وہ بھی محض ایک کمزور تنکا نکلا۔
وقت کے دھارے میں بہ کر کہیں دور نکل گیا اور بیلا بےبسی سے ہاتھ پاؤں مارتی رہ گئی۔
اور اَب یہ واقعہ، ایک اجنبی شخص کی یہ بات۔ اُس کا مطلب تو اُسے سمجھ آ گیا تھا، مگر وجہ سمجھ میں نہ آئی تھی۔
اُس کے بعد پوری رات حسیب نے اُس سے کوئی بات نہ کی۔ سفر دھیرے دھیرے کٹتا گیا۔
صبح پانچ بجے یکایک ٹرین ایک سُونے سے پلیٹ فارم پر جا کھڑی ہوئی۔
بیلا رات بھر جاگتی رہی تھی، مگر اُس نے یوں ظاہر کیا جیسے بےفکری سے سوتی رہی ہو اور اَب کہیں جا کر آنکھ کھلی ہو۔
’’کیا ہوا؟‘‘ دیہاتن ہڑبڑا کر اُٹھی۔
’’مَیں دیکھتا ہوں۔‘‘ حسیب ذمےدارانہ انداز میں اُٹھا اور باہر جا کر معلومات حاصل کرنے لگا۔
’’ریل میں کچھ خرابی ہو گئی ہے، ہمیں یہیں اُترنا ہو گا۔ بعد میں دوسری ٹرین آ کر ہمیں یہاں سے لے کر جائے گی۔‘‘ اُس نے اندر آ کر دونوں خواتین کو خبر دی۔
’’اوہ نہیں! مجھے تو آج صبح بڑی ضروری اسائنمنٹ کالج پہنچانا تھی۔‘‘ بیلا کے منہ سے بےاختیار نکلا۔
’’مجھے تو آج بھانجے کے عقیقے میں پہنچنا تھا۔ ہائے ربا اے کی ہو گیا؟‘‘ دیہاتن بےزاری سے بولی۔
حسیب اور بیلا نے ادھار مانگی ہوئی رضائیاں جلدی جلدی اتاریں اور لپیٹ کر اُسے واپس کر دیں۔
حسیب نے اٹھ کر رضائیاں دوبارہ پہلے کی طرح بستربند میں باندھ دیں اور دونوں خواتین کا سامان اٹھا کر پلیٹ فارم پہ اتارنے لگا۔
ایسے وقت میں قلی کا دور دُور تک کوئی نام و نشان نہ تھا، لہٰذا دونوں عورتیں حسیب کو متشکرانہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اُس کی مدد کروانے لگیں۔
سامان اتارنے کے بعد وہ تینوں کسی طےشدہ منصوبے کے بغیر پلیٹ فارم پہ ایک طرف کو چل دیے اور ایک بینچ کے قریب پہنچ کر اپنا سامان رکھنے لگے۔
کھلے آسمان تلے، ٹھنڈی یخ تاروں بھری رات میں یوں انجان جگہ، اجنبی لوگوں کے ساتھ بیٹھے بیلا کو لگا جیسے وہ تینوں کسی آرٹ فلم کے کردار ہوں اور حقیقی زندگی سے اُن کا دور دُور تک کوئی واسطہ نہ ہو۔
وہ سب یونہی کئی گھنٹے چپ چاپ بیٹھے رہے، تب کہیں جا کر سوئے ہوئے سورج نے آنکھ کھولی اور اَپنے تمازت بھرے قدم پلیٹ فارم پر رکھ دیے۔
کچی کچی دھوپ بہت اچھی لگ رہی تھی۔ اُنھوں نے ماحول کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ا سٹیشن ماسٹر کے اِس اعلان نے کہ ریل ابھی کئی گھنٹے تک نہیں آنے والی، اُن کے حوصلے پست کر دیے اور وُہ بےبسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر رہ گئے۔
چائے کا اسٹال کھلتے ہی حسیب اُن دونوں کے لیے پتلی سی نیم گرم چائے لے آیا جسے عام حالات میں بیلا بالکل نہ پیتی، مگر اِس وقت مجبوری تھی، لہٰذا چپکے سے کپ تھام کر چسکیاں لینے لگی۔
دیہاتن کے غسل خانے جاتے ہی حسیب بیلا کے پاس چلا آیا اور نظریں جھکا کر بولا:
’’دیکھیے مَیں رات والی بات پہ بہت نادم ہوں۔ آئی ایم سوری۔‘‘
بیلا نے نظریں نیچی ہی رکھیں، مگر کہے بغیر نہ رہ سکی۔
’’آپ مرد لوگ آخر اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں؟ کیا عورت اگر آپ سے خود بات کر لے، تو اِس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ دستیاب ہو گئی ہے۔ مَیں تو ایسے موقعوں پر خود کو عورت بھی نہیں سمجھتی، تو پھر آپ نے کیسے سوچ لیا کہ؟‘‘
بیلا جھوٹ بول رہی تھی حالانکہ وہ تو اپنے آپ کو بہت زیادہ عورت سمجھتی تھی۔ اُس کا مسئلہ یہ بھی تھا کہ وہ ایک بھرپور، حساس، زندگی سے بھرپور زندگی کی طالب عورت تھی۔
اب جو کسی نے اُسے اندھی کھائی میں دھکا دے دیا تھا، تو وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ وہ اپنا عورت پن لے کر کہاں چلی جائے۔ جیتی جاگتی عورت سے لکڑی کی بےجان گڑیا کیسے بن جائے۔
وہ دِن بھر بےچینی سے ریل کا انتظار کرتے رہے۔ ٹرین کہیں جا کر شام چھ بجے آئی۔ حسیب اُن دونوں ہم سفر خواتین کے لیے کچھ نہ کچھ کھانے پینے کے لیے لے کر آتا رہا۔ کبھی اُن سے ریل اور موسم کے بارے میں بات کر کے اُنھیں حوصلہ بھی دیتا، پھر کبھی یونہی چپکے سے پاس بیٹھا رہتا۔
بیلا دل ہی دل میں کچھ الجھی جا رہی تھی۔ یہ اُس کے ساتھ کیا ہو رہا تھا؟
بےچینی میں اٹھ کر کبھی چہل قدمی کرنے لگتی، تو بہت دیر تک چکر لگاتی رہتی اور پھر تھک ہار کر اُن دونوں کے پاس واپس چلی آتی۔
کئی گھنٹے ساتھ گزارنے کی وجہ سے اُن میں ایک عجیب سی دوستی اور بےگانگی، توجہ اور لاتعلقی، اجنبیت اور شناسائی کا رشتہ قائم ہو چکا تھا۔
کبھی وہ لوگ ایک دوسرے سے روٹھے روٹھے منہ موڑے رہتے اور کبھی بالکل آرام سے بات کرنے لگتے۔
بیلا اُس کے ہاتھ سے بسکٹ کا ٹکڑا پکڑ لیتی اور کبھی آنکھ تک نہ ملاتی۔
وہ یوں ایک دوسرے کے ساتھ وقت کاٹ رہے تھے جیسے ایک دوسرے کے کچھ لگتے بھی تھے اور نہیں بھی۔ حسیب اگر ذرا دیر کو اِدھر اُدھر ہو جاتا، تو دیہاتن کہتی
’’مجھے تو پریشانی ہو رہی ہے۔ بھائی کہاں چلا گیا ہے۔‘‘
ایک بار بیلا کافی دیر کے لیے دوسرے پلیٹ فارم پہ ٹہلنے چلی گئی۔ واپس آئی، تو دیہاتن فکرمندی سے بولی
’’شکر ہے ہماری باجی آ گئیں۔ہم دونوں تو فکرمند ہو رہے تھے کہ آپ کہاں چلی گئیں۔ آئیں بیٹھیں بہت تھک گئی ہوں گی آپ۔‘‘
بیلا نے بھی اِس وقتی رشتےداری کو کسی نہ کسی طور پر قبول کر لیا تھا۔ شام چھے بجے تک سب مسافر تھکن سے چُور، سردی اور بھوک سے بےصبرے ہو چکے تھے۔
ریل آئی، تو پھر حسیب نے اُن دونوں کا سامان اندر اُٹھا کر رکھا۔
’’آپ کو سٹیشن پہ لینے کوئی آئے گا؟‘‘ حسیب معذرت خواہانہ انداز میں اُس سے مخاطب ہوا۔
’’گھر والے، اِس وقت باہر ہوں گے۔ کسی کو میرے آنے کی خبر نہیں۔ مَیں رکشہ لے کر چلی جاؤں گی۔‘‘
وہ خواہ مخواہ جھوٹ بول گئی جبکہ حقیقت تو یہ تھی کہ اُس کے گھر میں کوئی تھا ہی نہیں۔ وہ صرف ایک ملازمہ کے ساتھ رہتی تھی۔
’’مجھے گاڑی لینے آئے گی، مَیں آپ کو چھوڑ دوں گا۔‘‘ وہ تمیز سے بولا۔
’’شکریہ! آپ نے پہلے ہی کافی مدد کر دی ہے۔‘‘
’’میں کسی طرح رات والی بات کا ازالہ چاہتا ہوں۔ پتا نہیں وہ کون سا ایک پل تھا کہ مَیں نے آپ سے ایسا کچھ کہہ دیا۔‘‘
’’بس مہربانی کر کے ذکر نہ کریں اُس بات کا، مَیں تو صرف یہ جاننا چاہتی ہوں کہ آپ نے ایسا کہا کیوں؟‘‘
بیلا نے سوال کیا، مگر حسیب نے اِس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ خاموش رہا، وہی مردوں کی مصلحت آمیز خاموشی۔
’’یہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔‘‘ اُسے غصّہ آنے لگا۔
لاہور اسٹیشن آیا، تو حسیب نے سب سے پہلے خود اُتر کر دونوں ہم سفر خواتین کے لیے قلی ڈھونڈنے شروع کر دیے۔ الگ الگ سامان لوڈ کروانے کے بعد پہلےدیہاتن کو روانہ کیا۔
بیلا کے منع کرنے کے باوجود ایک قلی کو اپنے پاس سے پیسے دیتے ہوئے تاکید کی کہ بی بی کو احتیاط سے رکشے میں سوار کروائے اور تنگ نہ کرے۔
’’اللہ حافظ!‘‘ وہ بولا۔
بیلا پل بھر کو رُکی۔ ’’آپ نے اتنی زیادہ مدد کی، اُس کابہت بہت شکریہ۔ اتنا خیال رکھا آپ نے۔‘‘ جواب میں حسیب نے اُسے اپنا کارڈ تھما دیا۔
’’ہم شاید اب زندگی میں کبھی نہیں ملیں گے۔‘‘ بیلا نے قلی کو اشارہ کیا۔
وہ ابھی تک مخمصے میں پڑی ہوئی تھی کہیں اِس نے مجھے کوئی ایسی ویسی عورت تو نہیں سمجھ لیا تھا؟
مگر میرے تو کسی ایسے انداز یا بات سے اُسے ایسا خیال نہیں مل سکتا تھا شاید ….. شاید اُس کے دل میں میرے لیے کوئی کشش پیدا ہو گئی ہو، وقتی کشش!‘‘ وہ سوچنے لگی۔
’’مگر میرا تو حلیہ بھی کسی صورت ایسا نہیں تھا کہ کوئی ڈھنگ کا آدمی میری طرف ملتفت ہو سکتا .
تن پہ سادہ سا موٹا کھدر کا سوٹ۔ سر پہ کَس کے لی ہوئی گرم شال، پاؤں میں جوگرز، چہرہ مکمل طور پر میک اپ سے عاری جس پہ بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات نمایاں ہونے شروع ہو چکے تھے۔
اگر ایسی حالت میں بھی مَیں ایک جوان آدمی کو اچھی لگ رہی تھی، تو اِس کا مطلب ہے مَیں ابھی اتنی گئی گزری نہیں ہوئی۔‘‘
اِس خیال کے آتے ہی بیلا کے دل میں دھنک سی اترنے لگی۔ ٹھیک ہے باسط نے مجھے چھوڑ دیا ہے، مگر اِس کا مطلب یہ نہیں کہ مَیں بےوقعت ہو گئی ہوں۔
مجھے خود پر اعتماد نہیں کھونا چاہیے، جہنم میں جائے وہ بےقدرا ….. اِس کا مطلب ہے رات والی بات ….. ایک کمپلی منٹ (تعریف) تھی۔
بیلا کے ذہن کے بادل چھٹ گئے تھے۔ جگسا پزل کا آخری ٹکڑا جڑ گیا تھا اور تصویر مکمل ہو گئی تھی، معمہ حل ہو گیا۔ بیلا کے چہرے پہ مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
’’کمپلی منٹ‘‘ کتنا خوبصورت لفظ ہے۔ قلی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اُس کے قدم ہوا میں تیرنے لگے۔