31 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

روزی|afsana|shanurdu|rozi

افسانہ

روزی
نیلم احمد بشیر

لفٹ میں سے اُترنے چڑھنے والے کا چہرہ اُسے دیکھ کر کِھل اُٹھتا۔ ہر کوئی اُسے ہائے روزی، ہیلو روزی، ہاؤ آر یو روزی؟ کہہ کر بلاتا اور اِس طرح کا ایک آدھ فقرہ کہتا ’’سویٹ گرل، آج تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔
ارے کہاں تھیں اتنے دن؟ نظر نہیں آتیں، تو عمارت سُونی سونی لگنے لگتی ہے۔‘‘
روزی ہنستی، مسکراتی، سب سےہاتھ ملاتی۔ جواب میں ایک پیار بھرا جملہ کہہ کر آگے بڑھ جاتی۔
لفٹ کے اُس کی منزل کے پہنچانے تک وہ نہ جانے کتنوں سے ڈھیروں ہی باتیں کر چکی ہوتی۔
رحمٰن پورہ، اچھرہ کی رضیہ بیگم، روز ڈیل برانکس نیویارک کی روزی کیسے بنی؟ کسی کو اِس کی خبر تھی نہ پروا۔
اُنھیں تو بس یہ پتا تھا کہ روزی کتنی میٹھی طبیعت والی تھی ۔ کتنے اخلاق سے پیش آتی تھی۔
روزڈیل میں بوڑھے لوگوں کی رہائش کے لیے کئی خوبصورت، منظم، پُرآسائش عمارتیں کھڑی تھیں، مگر سٹی فلاور رِفاہی عمارت ہی وہ خوش قسمت رہائش گاہ تھی، جہاں پر روزی ملازمت کرتی تھی۔
رہائشی بوڑے اور بوڑھیوں سے، خوبصورت صحت مند، شوخ رنگ کے اسکرٹ اور ٹائٹس پہنے چالیس پینتالیس برس کی روزی جب ہنس کے ملتی، اُن سے چھیڑچھاڑ کرتی، تو وہ خوشی سے جی اُٹھتے۔
’’تم مجھے روز نظر آیا کرو، ورنہ مَیں اُداس ہو جاتا ہوں۔‘‘ چارلس اپنا کئی بار دُہرایا ہوا فقرہ دُہراتا۔ روزی ہنس کے اُس کا بازو تھپتھپاتی ۔
’’ڈرٹی اولڈ مین ۔(شرارتی بوڑھا) مَیں سب سمجھتی ہوں۔‘‘
’’ارے ڈک! تم نے آج بڑی سیکسی قمیص پہنی ہوئی ہے۔‘‘
وہ ڈک کو چھیڑ دیتی۔ وہ اَپنی نقلی بتیسی نکال کر کھی کھی کرنے لگ جاتا۔
یہی تھی روزی کی روزمرہ زندگی اور اُس کے لوگ۔ نیویارک میں رہنے والے اُس کے خاندان کے لوگ اُسے چھیڑتے کہ تُو بڈھوں کی ہو کر رہ گئی ہے/
وہ اُن کی بات کا برا نہ مناتی۔ بلکہ کہتی:
’’اُن میں رہنے سے مَیں خود کو جوان اور توانا سمجھتی ہوں کیونکہ وہ مجھے ایک لڑکی کی طرح محسوس کرواتے ہیں۔ مَیں خوش ہو جاتی ہوں۔‘‘
روزی اکیلی نہیں تھی۔ اُس کے ساتھ اُس کا شوہر شیخ طفیل اور دو بیٹے بھی برانکس کے ایک سستے سے اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔
تہ خانے میں واقع یہ تنگ و تاریک، سلین زدہ اپارٹمنٹ روزی کو بالکل نہ بھاتا تھا، مگر کیا کرتی مجبوراً رہے جا رہی تھی۔ غریب ہسپانوی، میکسیکن کالے اور کچھ بھارتی پاکستانی لوگوں سے آباد، پرانی سی میلی سی اپارٹمنٹ بلڈنگ روزی کو جیل خانہ محسوس ہوتی۔
اِسی لیے وہ خوشی خوشی روز ڈیل میں ملازمت کرنے چلی جاتی، جہاں بڈھوں کے لیے بنے ہوئے کانڈومینیم روشن، کشادہ اَور خوبصورت تھے۔ اُن میں اچھے کیئرٹیکرز (نگرانوں) کی ہمیشہ سے آسامی خالی رہتی تھی۔
رضیہ کا شوہر شیخ طفیل ایک نکما، شہدا، بڑبولا، ڈینگیں مارنے والا سیالکوٹیا تھا، جسے بیوی کے ملازمت کرنے سے بہت آرام ہو گیا تھا۔
روزی کماتی اور سارا گھر کھاتا۔ کبھی کبھار شیخ صاحب کوئی چھوٹی موٹی نوکری برائے نام بھی کر لیتے تاکہ خاندان والے محض بیوی کی کمائی پہ پلنے والا سمجھ کر اُنھیں کم اہم نہ سمجھنے لگ جائیں۔
ویسے بھی اُن کا کہنا یہی تھا کہ وہ رَضیہ کو اُس کی خوشی کی خاطر ہی کام کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔
’’جانی! مَیں تو تجھے گھر بٹھا کر، رانی بنا کر کھلانا چاہتا ہوں، مگر جب تُو صبح سویرے بن ٹھن کر، سنور کر ملازمت پہ جاتی ہے، تو مجھے بڑی پیاری لگتی ہے۔
بس تجھے یونہی ہنستا مسکراتا دیکھتا رہوں، مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ میرا کہاں جی چاہتا ہے، تجھے بوڑھوں کا گو مُوت صاف کرتے دیکھوں۔
تُو اُنھیں کھلائے پلائے، اپنا اور ہمارا قیمتی وقت اُنھیں دے، مگر بس تیری خوشی کا خیال آتا ہے، تو خود کو سمجھا لیتا ہوں۔‘‘
’’آپ کے لیے روٹی بنا کر چنگیر میں رکھ دی ہے۔ سالن فریج میں پڑا ہے۔ گرم کر کے کھا لینا اور مجھے وقت پہ لینے آ جانا۔ “روزی مسکرا کر جواب دیتی۔
اُسے اچھی طرح پتا تھا کہ شیخ صاحب کی باتوں میں کتنی صداقت ہے۔
’’میری سرکار! آپ کا تابعدار،خادم، ڈرائیور، پورے وقت سے ایک بھی منٹ لیٹ کیے بغیر آپ کی عمارت کے آگے کھڑا ہو گا۔ آپ فکر ہی نہ کریں۔‘‘
وہ تابعداری سے جواب دیتے۔ اُنھوں نے بیوی کو ملازمت کرنے کی آزادی تو دی، مگر اُسے ڈرائیونگ نہیں سکھائی تھی۔
وہ چاہتے تھے کہ سونے کی چڑیا اُن کے کھینچے ہوئے دائرے میں ہی اُڑے۔ پھڑپھڑا کر کہیں دُور نہ نکل سکے۔
ڈرائیونگ سکھانے کا مطلب تھا گاڑی کانڈومینیم بلڈنگ کے پارکنگ لاٹ کی حدود سے باہر، مقررہ وَقت سے آگے پیچھے بھی کہیں ہو سکتی تھی۔یہ اُنھیں کسی صورت منظور نہیں تھا۔
اب کے گرمیوں کے موسم میں انتظامیہ نے اُس کی اچھی کارکردگی دیکھ کر اُسے ایک مستقل ملازمت کی پیشکش کر دی۔
اسّی برس کے بوڑھے یہودی جیسی (Jesse) سپیل برگ کو روزی جیسی نگران کی ہی ضرورت تھی۔
اُس اولڈ پیپلز ہاؤسنگ کمپلیکس میں پاکستانی، بھارتی اور دِیگر کئی قومیتوں کی بہت سی نگران ملازم تھیں، مگر مستقل ملازمت کسی اچھے ریکارڈ والی کیئرٹیکر کو ہی دی جاتی تھی۔
چند پاکستانی کیئرٹیکرز نے رضیہ کو ایسی مستقل ملازمت مل جانے پر اُوپرسے مبارک باد تو دے دی، مگر دل ہی دل میں اُن کا حسد سے برا حال ہو گیا۔ ایسی اچھی ملازمت نہ جانے اُن کے نصیبوں میں کیوں نہیں آئی تھی۔
بوڑھے جیسی کی بیوی بہت سال پہلے گزر چکی تھی۔ بچے اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف تھے۔
بیٹا اپنے بال بچوں کے ساتھ فلاڈلفیا میں خوش و خرم زندگی گزار رَہا تھا۔
بیٹی شیرل اپنے ’’لونلی ڈاگ‘‘ کیئر سنٹر کو پوری جانفشانی سے چلانے کے لیے دن رات ایک کر رہی تھی۔
بےگھر کتوں کی آبادکاری اور دیکھ بھال ہی اُس کی زندگی کا مشن تھا۔ دونوں بچوں کو پتا تھا کہ اُن کے لاچار باپ کو روزی نے ایک نئی زندگی بخش دی ہے۔
وہ مکمل خلوص اور محنت سے اُس کی دیکھ بھال کرتی۔ اُس کی نگہداشت میں کسی قسم کی بھی لاپروائی شامل نہ ہوتی تھی۔
وہ مطمئن تھے اور اِسی لیے اپنی نارمل زندگیاں گزارے جا رہے تھے کہ باپ کی طرف سے اب اُنھیں کسی قسم کی کوئی فکر نہ تھی۔
روزی اکثر لانڈری روم میں جیسی کے کپڑے دھوتے ہوئے اپنی ساتھی ورکرز سے کہتی:
’’دیکھو یہ لوگ ہمارے اپنے بزرگوں کی طرح ہیں۔ بےبس اور لاچار۔ اِن کی جتنی بھی خدمت کریں، کم ہے۔
اِس کا اجر ہمیں اللہ تعالیٰ کے گھر سے ملے گا۔ یہ سمجھ لو کہ اِس پردیس میں یہی ہمارے ماں باپ اور بڑے ہیں۔‘‘
جمیلہ اور عظمیٰ، ’’آپ ٹھیک کہتی ہیں باجی!‘‘ کہہ کر ہاں میں ہاں ملا دیتیں، مگر پانچ بچوں کی ماں، ٹیکسی ڈرائیور طیب حسین کی مطلقہ عابدہ کو اُس کا یہ فلسفہ ایک آنکھ نہ بھاتا۔
وُہ جھنجلا کر زور زور سے واشنگ مشین کے بٹن دبانے لگتی۔ اُسے اُن کمبخت بوڑھوں کی خدمت کرنا زہر لگتا تھا، مگر وہ اَپنے حالات سے مجبور تھی۔
’’روزی ڈیئر! کہاں رہ جاتی ہو؟جلدی سے کھانا کھلاؤ، مجھے بھوک لگی ہے۔‘‘ جیسی نے روزی کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر ہی شور مچانا شروع کر دیا۔
’’ابھی آئی۔ بس ایک منٹ، ذرا کوٹ اور سنو شوز اُتار لوں۔‘‘
روزی نے اُسے جواب دے کر شانت کیا اور خود جلدی جلدی جوتے اُتار کر گھر کی چپل پہننے لگی۔
بوڑھا جیسی انتظار کرتے کرتے کھڑکی میں سے نظر آتے آسمان کو دیکھنے لگا۔
سرمئی آسمان سے لگاتار برف گر رہی تھی اور سورج کا کہیں دور دُور تک پتا نہ تھا۔ سب دن ایک سے تھے۔ ٹھنڈے اور منجمد، مگر اب روزی کے آ جانے سے ماحول میں زندگی کی تپش محسوس ہونے لگی تھی۔
روزی نے گھر میں داخل ہوتے وقت دروازے پر پیک شدہ کھانے کا لٹکتا لفافہ اُتار لیا تھا، جسے وہ کھول کر اب ٹرے میں سیٹ کرنے لگی تھی۔
“Meals on wheel” (کھانا پہیوں پر) نامی ادارے کا نمائندہ صبح گیارہ بجے ہی بوڑھوں کی غذائی ضروریات مدِنظر رکھتے ہوئے متوازن، تازہ اَور لذیذ کھانا دروازے پر چھوڑ جایا کرتا تاکہ کسی کو اُن کے لیے خاص کھانے نہ تیار کرنے پڑیں۔
روزی نے گندم کی ڈبل روٹی، گوشت، سبزی، پھل، دُودھ اَور میٹھا، سب کچھ اچھی طرح سے ٹرے میں جما دیا ۔
کمرے کی طرف چل پڑی۔ اُس نے بستر کا لیور دَبا کر سرہانہ اونچا کیا اور بوڑھے کے کمزور جسم کو اپنی پوری طاقت سے کھینچنے کے بعد پشت سے ٹکا کر بٹھا دیا اور کھانا کھلانے لگی۔
وہ کھانا کھلانے سے پہلے بسم اللہ پڑھتی اور جیسی کو بتاتی تھی کہ مَیں ’’اللہ کے نام سے تمہیں کھلانے کا آغاز کر رہی ہوں۔ تم بھی اللہ کا نام دہراؤ۔‘‘
وہ ہوں ہاں کرتا اور سر ہلا دیتا، تو وہ پیار سے اُس کا بڑا سا گنجا، سرخ و سفید سر ہلا کر کہتی ’،
’وے جیسی تیری ایسی کی تیسی!‘‘ وہ کچھ نہ سمجھنے کے باوجود ایک بچے کی طرح مسکرانے لگتا اور تابعداری سے منہ کھول دیتا۔
اِس سے پہلے جیسی کو اَور بھی کئی نگرانوں نے سنبھالا ہوا تھا، اُسے کھلایا پلایا، اُس کی نجاستیں صاف کیں، مگر جس انہماک اور پیار سے روزی اُس کی کیئر کرتی تھی۔
وہ بےمثال تھا۔ ایک مدت بعد جیسی کو لگا جیسے اُس کی خالی زندگی پھر سے بھرنے لگی ہو۔ کوئی اپنا اُس کی زندگی میں چلا آیا ہو۔
کسی اجنبی، انجان ملک کی غیرمذہب کی عورت نے اُس کی زندگی میں اُجالا بھر دیا تھا، جس کی وجہ سے وہ بہت خوش رہنے لگ گیا تھا۔
وہ اب اپنے بچوں کے آنے کی راہ نہیں دیکھتا تھا۔ اُس کے ویران گھر میں آنے جانے والوں کے قدموں کی چاپ گونجنے لگی تھی اور مکان اب گھر لگنے لگ گیا تھا۔
روزی اُسے کھلانے پلانے کے بعد گرم پانی میں اسفنج بھگو کر اُسے آرام سے صاف کرتی۔ اُس کے ہاتھوں کی حرکت سے، بوڑھے کے جسم میں زندگی کی تمازت آنے لگتی۔
وہ شوخی سے اُس کا ہاتھ پکڑ لیتا اور آنکھ مار کر مسکرانے لگتا۔ ایسے میں روزی اُسے پیار سے چپت لگاتی اور پنجابی میں ایک دو گالیاں دے کر ہنسا دیتی۔
بوڑھا ہنسنے لگتا، تو اُس کا بڑا سا، لمبا تڑنگا وجود، بستر کی آہنی اطراف سے ٹکرا ٹکرا کر شور کرنے لگتا۔ دونوں کے درمیان اِسی قسم کا ہنسی مذاق چلتا رہتا تھا۔
شیخ صاحب دیکھ رہے تھے کہ وہ اُس کی رضیہ پہ بہت انحصار کرنے لگ گیا ہے۔ اب اُسے رضیہ کی ایک بھی چھٹی گوارا نہ ہوتی۔
رات کو وہ گھر آ جاتی، تو بوڑھا بےچَین اور بےقرار رَہتا۔ رات والی کیئرٹیکر گو کہ بہت اچھی تھی، مگر اُس میں روزی جیسا اپنا پن نہ تھا۔
اِس لیے جیسی کو سنٹرل ہیٹنگ والے اپارٹمنٹ میں ہونے کے باوجود لگتا جیسے وہ کسی ٹھنڈی قبر میں پڑا ہوا ہو۔ ایک رات اُس نے روزی سے گڑگڑا کر کہا:
’’روزی تم رات کو بھی گھر نہ جایا کرو۔ یہیں رُک جایا کرو۔ مَیں تمہیں ڈبل پیسے دوں گا۔ پلیز، تم مجھ پر یہ احسان کر دو۔ میری ریٹائرمنٹ کا پیسہ اور کس کام آئے گا ۔ پلیز!‘‘
’’جیسی! ہنی، تم جانتے ہو کہ میرا اَیک شوہر اور دوبیٹے ہیں۔ اُنھیں بھی میری ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بیٹا تو اتنا بڑا بھی نہیں۔ مَیں اُنھیں چھوڑ کر رات کیسے یہاں رہ سکتی ہوں؟‘‘ روزی نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’تم چھوٹے بیٹے کو بھی اپنے ساتھ یہاں لے آیا کرو۔ دوسرا کمرا تو خالی ہی پڑا رہتا ہے نا۔‘‘ اُس نے التجایہ انداز میں روزی سے درخواست کی۔
رضیہ نے گھر آ کر ڈرتے ڈرتے شیخ طفیل سے ذکر کیا کہ بابا جیسی مجھے رات بھی وہیں رُکنے کو کہہ رہا ہے۔
اُسے یقین تھا کہ اُس کا ملکیت پسند شوہر اِس بات سے بھڑک اٹھے گا اور کہے گا :
’’جانی! اپنے گھر کے علاوہ تم کہیں اور رَات گزارو، یہ مَیں کیسے برداشت کر سکتا ہوں؟ جب تم مجھ سے دُور ہوتی ہو، مَیں تمہاری کمی محسوس کرتا ہوں۔ . وغیرہ وغیرہ۔‘‘
حیرت انگیز طور پر شیخ صاحب نے بڑے غور اور تحمل سے پوری بات سنی اور پھر کہا:
’’ڈبل پیسے دے گا بڈھا؟ بڑا دِل نکال رہا ہے یہودی۔ جانی ایک بات مَیں بار بار سوچ رہا ہوں۔ تمہیں اُس کا اپارٹمنٹ بہت پسند ہے، ہے نا؟‘‘
’’ہاں کیوں نہیں۔ ہماری اِس تنگ و تاریک، سیلن زدہ کھڈ سے تو لاکھ درجے بہتر ہے۔‘‘
روزی نے اپنے کاکروچوں بھرے پرانے تہ خانے والے اپارٹمنٹ پہ نظر ڈالی۔
’’نہ جانے کب ہم یہاں سے کہیں اور منتقل ہوں گے؟‘‘ اُس نے ٹھنڈی سانس بھری۔
’’جانی! تمہاری خوشی کو سامنے رکھتے ہوئے مَیں نے سوچ لیا ہے کہ مَیں تمہیں بابے کے گھر منتقل ہو جانے ہی دوں۔ صاف ستھرا علاقہ ہے۔ جدید سہولیات والا روشن اپارٹمنٹ ہے۔ پھر سارے رہائشی بوڑھے، بوڑھیاں تمہارے واقف ہیں۔ تم زیادہ خوش تو وہیں رہتی ہو نا؟‘‘
اگلے ہی روز رضیہ اپنے چھوٹے بیٹے سہیل کو لے کر جیسی کے گھر منتقل ہو گئی۔
کبھی کبھار اُس کا شوہر اُسے وہاں ملنے آ جاتا۔ کبھی کبھار جیسی کی اجازت سے وہ گھر آ جاتی۔
سب کو اَپنے من کی مراد ملتی رہتی۔ جیسی اب اُس سے بہت مانوس ہو گیا تھا۔
اِس لیے ایک پل بھی اُس کے بغیر نہ رہتا۔ وہ فون سننے بھی جاتی، تو بستر پر لیٹے لیٹے زور سے اُسے پکارنے لگتا۔
’’روزی ،روزی!‘‘ وہ دوڑی چلی آتی، تو خوش ہو جاتا۔ اُس کا ہاتھ پکڑ کر سہلانے لگتا۔
ایک شام اُس نے جیسی سے خصوصی طور پر گھر جانے کی اجازت مانگی کیونکہ شہر میں رہنے والے اُس کے بڑے بھائی، اقبال حج سے لَوٹے تھے۔
اُس نے اُنھیں کھانے پر بلایا ہوا تھا۔ روزی نے کرسٹینا کو اپنی جگہ اسٹینڈبائےکیا اور خود گھر چلی گئی۔
حسبِ ہدایات کرسٹینا نے جیسی کو ہر دو گھنٹے بعد کروٹ بدلانا چاہی، مگر اتنے بڑے ڈیل ڈول والے مرد کو وُہ سنبھال نہ سکی۔
اُس کا سر بیڈ کی سائیڈ سے ٹکرا دِیا۔ خود وُہ بےخبر ہو کر رات بھر گہری نیند سوتی رہی۔
صبح روزی آئی، تو اُسے یہ دیکھ کر بہت صدمہ ہوا کہ کرسٹینا نے اُسے اچھی طرح صاف کیا تھا ،نہ ہی رات کی دوائیاں وقت پر دی تھیں۔ جیسی غصّے اور تکلیف سے بڑبڑا رَہا تھا۔
چند دنوں بعد جیسی کے بچے اُس کی خیریت معلوم کرنے آئے، تو اُنھیں انتظامیہ نے اِس واقعے کی رپورٹ دی جس پر وہ بہت پریشان ہوئے۔
اُنھوں نے اپنے باپ کو ایک لمحے کے بھی اکیلا یا نامناسب کیئر میں نہ چھوڑنے کی تنبیہ کی۔
’’ہم اپنے باپ کی بہترین نگرانی کے لیے ہر قیمت دینے کو تیار ہیں۔‘‘ اُنھوں نے انتظامیہ کو اطلاع دی۔
’’رضیہ جانی! مَیں اپنے، تمہارے اور بچوں کے مستقبل کے لیے کچھ منصوبہ بندی کرنا چاہ رَہا ہوں۔‘‘
ایک روز رضیہ کے دُوراندیش شوہر نے بیوی کی ملازمت کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک تجویز پیش کی، جسے رضیہ نے اپنے شوہر کی عقل مندی سمجھ کر دھیان سے سنا اور پھر جیسی کے آگے دہرایا۔
’’جیسی ڈیئر! مَیں تو چاہتی ہوں، ہر دم تمہارے پاس رہوں، مگر میرا ظالم شوہر مجھے روکتا ہے۔ تم سے حسد کرتا رہتا ہے۔ بتاؤ مَیں کیا کروں؟‘‘ اُس نے جیسی سے کہا۔
’’یہودی کے پاس پیسہ بہت ہے۔ اُس پیسے سے اگر ایک غریب ملک کا مستحق خاندان بھی فیض یاب ہو جائے، تو کیا برا ہے۔‘‘
روزی کے کانوں میں اُس کے شوہر کے الفاظ گونجنے لگے۔
’’میرا شوہر کہتا ہے اگر مَیں نے رات تمہارے ہاں گزاری، تو وہ مجھے گھر سے نکال دے گا۔پھر مَیں کہاں جاؤں گی؟
اگر ہم شادی کر لیں، تو ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکے گا۔ ہم ہر قت اکٹھے رہ سکیں گے۔‘‘
روزی نے اُس کا ہاتھ تھام کر دھیرے سے دبا دیا۔
دانتوں سے خالی، پوپلے منہ والے شخص نے اسٹرابری منہ میں اِدھر اُدھر گھماتے ہوئے اُس پیاری عورت کی بات سنی۔
جسے اُس کے شوہر نے اُس کی وجہ سے چھوڑنے کی دھمکی دی تھی۔
جس کے آ جانے سے اُس کی زندگی انتہائی منظم، خوشگوار اور پُرتحفظ محسوس ہونے لگی تھی۔
اگر اِس بےچاری کے ظالم شوہر نے اِسے میرے پاس رہنے نہ دیا، تو میری کیئر کون کرے گا۔
وہ فکرمند ہو گیا اور پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا:
’’مائی ڈیئر! فکر مت کرو، مَیں تمہارا سہارا بنوں گا۔
میرے ہوتے ہوئے تمہیں فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
جیسی کے ہاں کہہ دینے کے بعد شیخ صاحب اور رَضیہ نے کچھ عرصے بعد باہم رضامندی سے الگ ہونا منظور کر لیا۔
جیسی کے بچے مزید مطمئن ہو گئے کہ اب اُن کے ڈیڈی کو ہر وقت کا ساتھ میسر آ گیا ہے۔
وُہ کبھی تنہا نہ ہوں گے۔ ویسے بھی یہ اُن کے باپ کا ذاتی معاملہ تھا، اُنھیں بھلا دخل دینے کا کیا حق تھا؟
روزی ایک خوبصورت سے اپارٹمنٹ کی مالکہ ہونے پر اب بہت توانا محسوس کرنے لگی تھی۔
برسوں پرانے فرنیچر کو اِدھر سے اُدھر سیٹ کر کے دیکھتی رہتی، تو سوچتی، پچھلی خاتونِ خانہ اِس گھر میں نہ جانے کس طرح رہتی ہو گی، کیا کرتی ہو گی؟
کیسے رہتے ہوں گے جیسی اور وُہ؟
گھنٹوں دیوار پہ لگی جیسی کے دادا کی رومانیہ سے امریکا ہجرت کے بعد کی ڈیڑھ سو برس پرانی تصویر دیکھتی، تو سوچتی۔
مسٹر گولڈسٹین نہ جانے میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔
قدیم ترکی رومی طرز کا چوغہ اور ٹوپی پہنے باوقار دِکھتے، سنجیدہ سے خوبصورت شخص کو دیکھ کر روزی کو اَپنے نانا جی یاد آ جاتے، جن کے گھٹنے سے لگ کر اُس نے بچپن میں درود شریف اور اَلتحیات یاد کی تھی۔
اُس کا جی چاہتا اِس تصویر سے سوال کرے:
’’دادا جی! آپ ڈیڑھ سو برس پہلے اپنا ملک چھوڑ کر اِس ملک کیسے اور کیوں آئے تھے؟
آپ کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ آپ کی یہ تصویر اتنے برسوں بعد برانکس نیویارک کے ایک اپارٹمنٹ میں ٹنگی ہوئی، ایک دُور دَراز کے ملک کی اجنبی عورت کی تحویل میں ہو گی۔ کیا آپ جانتے تھے کہ آپ کی تصویر ایک دن اکیلی رہ جائے گی۔‘‘
ایک روز جیسی کو باہمی گفت و شنید کے بعد سمجھا بجھا کر روزی ایمبولینس میں ڈال کر عدالت لے گئی، جہاں اُسے قانونی طور پر اپنا اَپارٹمنٹ اپنی موجودہ بیوی روزی گولڈسٹین کے نام منتقل کرنا تھا۔
کمرأ عدالت میں وہیل چیئر پہ بیٹھے بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرتے، جیسی بار بار نیند کی آغوش میں چلا جاتا، تو روزی اُسے ٹہوکا دے کر اُٹھاتی۔
جج کو کتنی ہی بار اُس سے پوچھنا پڑا آیا۔ وہ یہ کام ہوش و حواس میں کر رہا ہے؟
وہ کسی کے دباؤ میں تو نہیں؟ جیسی نے ہاں، ہاں کا مختصر جواب دے کر قانونی تقاضے پورے کر دیے۔ اب رَوزی ایک عدد ملین ڈالر مالیت کے اپارٹمنٹ کی مالک بن گئی۔
رضیہ کے بچوں نے ماں کی زندگی میں آنے والی نئی خوشیوں پہ اُسے بھرپور مبارک باد اَور تحفے دیے۔
رضیہ نے بھی اپنی پوری فیملی کو عالی شان عشائیہ دیا جس میں اُس کے دونوں بھائی، بھابھیاں اور اُن کے بچے شامل ہوئے۔
ایک عرصے بعد خاندان اکٹھا ہوا، تو بچوں کو باپ کی یاد آئی، مگر پھر یہ سوچ کر چپ ہو رہے کہ باپ نے کبھی ماں کو اتنی آسانیاں مہیا نہ کی تھیں۔
ماں نے ہی ہمیشہ اُنھیں کما کر کھلایا اور اُن کی ضرورتیں پوری کی تھیں۔ رضیہ کے بھائی کچھ چپ سے تھے۔
’’اِن کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ روزی نے بھابھی سے پوچھا۔
’’کہاں ٹھیک ہے؟ بس کھوئے کھوئے، بجھے بجھے سے رہتے ہیں۔‘‘ بھابی نے پکوڑا پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’اللہ خیر کرے، بھابھی! اِنھیں ڈاکٹر کو دکھانا تھا۔‘‘ رضیہ نے بھائی کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’دکھایا تھا۔‘‘ بھابھی نے مختصر جواب دیا۔
’’اُس نے کہا دل کچھ ٹھیک نہیں۔ کسی بات کا ذہنی دباؤ ہے اِن پر۔‘‘
’’ذہنی دباؤ! کیوں بھائی جان، خیریت تو ہے، کیا کہہ رہی ہیں بھابھی؟‘‘
بھائی جان کا توجیسے کسی نے فلیتہ اُڑا کے رکھ دیا۔ بھیں بھیں کر کے رونے لگے۔ سب پریشان ہو گئے۔
نہ جانے کیا بات تھی۔ کچھ بولتے ہی نہ تھے۔ رضیہ اُنھیں کھینچ کر اپنے کمرے میں لے گئی اور دَروازہ بند کر کے پوچھنے لگی۔
’’بھائی جان! آپ کو اللہ کی قسم، بتائیں کیا بات ہے؟ کیا بھابی سے کوئی اختلاف ہوا ہے؟‘‘
بھائی جان نے انکار میں سر ہلا دیا۔
’’تو پھر؟‘‘
’’رضیہ! تُو نے ہماری اور ہمارے خاندان کی ناک کٹوا دِی۔
شیخ طفیل سے طلاق لینا کیا کم برا تھا کہ تُو نے دوسری شادی بھی کر لی۔ وُہ بھی ایک یہودی سے۔‘‘
بھائی جان ہچکیوں کے درمیان دل کی بات کہہ گئے اور ٹشوپیپر سے اپنی بہتی ہوئی ناک پونچھنے لگے۔
’’حد ہو گئی بھائی جان۔ آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔ مَیں سمجھی، پتا نہیں کون سی قیامت آ گئی آپ کی زندگی میں۔‘‘
’’قیامت ہی تو ہے۔ سارے مسجد کے ساتھی اور پاکستانی کمیونٹی والے مجھ پر ہنستے ہیں۔ آخر ہماری بھی کوئی عزت ہے اِس شہر میں۔ تجھے تو کسی کا خیال ہی نہیں۔ بس اپنے بارے میں ہی سوچتی رہتی ہے تُو۔‘‘
’’واہ بھائی جان۔ جب شیخ طفیل جیسے نکمے، نکھٹو کے ساتھ تنگ دستی کے دن گزار رَہی تھی، تب تو آپ کو مجھ سے، میری زندگی سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
اَب جیسے ہی میرے حالات بہتر ہوئے، جو مَیں نے خود بہتر کیے، تو آپ لوگ آ گئے اپنی غیرتیں اور عزتیں لے کر۔
اتنا ہی میرا خیال تھا، تو ماہوار خرچ باندھ دیتے۔ میرے بچوں کے مستقبل کے لیے کچھ سوچتے۔
آپ بھی لاکھوں ڈالر کماتے ہیں بھائی جان۔ کیا سوائے نصیحتوں اور تلقین کے، مجھے آپ نے کبھی کچھ دیا؟‘‘
بھائی جان لاجواب ہو کر اُٹھے اور بیوی بچوں کو چلنے کا اشارہ کر دیا۔
’’ماموں جان نے اچھی خاصی خاندانی تقریب خراب کر کے رکھ دی۔‘‘
رضیہ کے بچوں نے ماں کے گلے میں پیار سے بانہیں ڈال کر اُس کا موڈ بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
روزی کی اَن تھک محنت، محبت اور نگہداشت کے باوجود جیسی شادی کے صرف چھے ماہ تک ہی زندہ رہا۔ شاید اُس سے کسی کا ساتھ پانے کی، ایک عرصے بعد بھرے بھرے گھر میں رہنے کی خوشی برداشت نہیں ہوئی۔
موت کے آخری لمحوں میں اُس کے سرہانے بیٹھی روزی سورۃ یٰسین پڑھ پڑھ کر پھونکتی اور کہتی:
’’جیسی! گاڈ کا نام لے۔ گاڈ کو یاد کر کہ تُو نے اُس کے ہی پاس جانا ہے۔‘‘
جیسی خالی خالی آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھ کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیتا تھا۔
روزی نے اپنے شوہر کی یاد میں بڑی سی باوقار میموریل سروس کروائی جس میں جیسی کے اہلِ خانہ کو بطور خاص دعوت دی گئی اور اَہم نشستوں پر بٹھایا گیا۔
جیسی کے بچے اُن کے باپ کے آخری لمحات کو اِتنا خوشگوار بنانے اور حاضرین اُس کے لیے اتنی میٹھی میٹھی باتیں کرنے پر بار بار روزی کا شکریہ ادا کرتے نظر آ رہے تھے۔
سٹی فلاور بلڈنگ کے دوسرے مکین بوڑھے اور بوڑھیاں جب بھی روزی سے ملتے، اُس سے اُس کے یوں جلدی بیوہ ہو جانے پر اظہارِ اَفسوس کرتے، بہادری سے زندگی گزارنے کا مشورہ دَے کر اپنے اپنے اپارٹمنٹوں میں چلے جاتے۔
کبھی کبھار اُس کا دروازہ کھٹکتا، تو وہ دَیکھتی جان کبھی ہاتھ میں کیک تھامے، کبھی رابرٹ پھول لیے، تو کبھی مینڈی ہوم میڈ سلاد کا ڈبہ سجائے اُس سے کافی پہ گپ شپ کرنے آ رہے ہیں۔
ایک روز لفٹ میں سے اُترتے ہوئے روزی کی ملاقات بلڈنگ کے نئے رہائشی جارج گرین سپیس سے ہو گئی۔
پچھتر برس کا جارج نیویارک کا پرانا وکیل تھا۔ اَب ریٹائر ہونے کے بعد بھی کبھی کبھار ایک لاء فرم میں پرائیویٹ پریکٹس کر لیا کرتا تھا۔
لفٹ سے اُتر کر سیاہ مہنگی گاڑی لیکس (Lexus) میں داخل ہونے تک گورے چٹے خوبصورت جارج اور رَوزی نے آپس میں اتنا ہنسی مذاق کر لیا تھا کہ اُن کے دلوں میں فوراً ہی ڈنر پر چلنے کی خواہش پیدا ہو چکی تھی۔
عمارت والے خوش تھے کہ تنہا روزی کو جارج کی خوشگوار رَفاقت نصیب ہو گئی ہے۔ نئے رہائشی جارج کو ایک اچھی دوست مل گئی جس کی وجہ سے وہ سٹی فلاور کے ماحول، طور طریقوں اور ساتھی رہائشیوں سے جلد ہی مانوس ہو گیا تھا۔
جارج جیسی کی طرح بستر پر پڑا ہوا بوڑھا بےبس یہودی نہیں تھا۔ وہ زندہ طبیعت، بہتر جسمانی صحت کا مالک شخص تھا۔ شام ڈھلے جب وہ اَپنی خوبصورت سی سیر کرنے والی چھڑی (واکنگ سٹک) تھامے ہولے ہولے قدم اُٹھاتا اپنی شاہانہ گاڑی میں سے اُتر کر عمارت میں داخل ہوتا، تو کئی بوڑھیاں اُس کی باوقار شخصیت کو دیکھ کر اُسے تعریفی کلمات سے نوازتیں۔
جارج بھی تنہا تھا۔ اُس نے اپنی بستر پہ پڑی بیوی کی خود دَس سال تک تیمارداری کی تھی۔ بچے پال کر بڑے کر دیے تھے۔
اب وہ فارغ ہو کر ملک سے باہر تعطیلات گزار کر اَپنا دل بہلاتا تھا۔ رضیہ نے تو نیویارک سے باہر کبھی قدم ہی نہیں رکھا تھا۔
پاکستان بھی سالہاسال بعد ہی جانا ہوتا۔ اِس لیے اُس کا جارج کے بیرون ملک دوروں کو دیکھ کر جی للچانے لگا۔
’’مجھے بھی اپنے ساتھ بہاماز لے جاؤ نا ڈیئر!‘‘
روزی نے جارج کے اگلے تفریحی دورے کے بارے میں سن کر اُس سے لاڈ سے فرمائش کر دی۔
’’مائی سویٹ روزی ہنی! اِس سے اچھی کیا بات ہو گی۔ تمہارا خوبصورت ساتھ مل گیا، تو میری تعطیلات کا تو لطف ہی دوبالا ہو جائے گا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ تنہا ملکوں، ملکوں کی سیر کرنے میں وہ مزا نہیں، جو کسی ہمدرد، پُرخلوص دوست کی سنگت میں ہو سکتا ہے۔‘‘
اُس کے بعد سے جارج اور رَوزی نے میکسیکو، ہوآئی، کیلیفورنیا، ایری زونا کی بھی سیریں کی۔
جارج کو خوشی تھی کہ ایک قدرے جوان، صحت مند، خوش مزاج عورت اُس کے ساتھ سفر کرتی ہے۔
وہ اُس کا سامان پیک کرتی، اُس کے کھانے پینے، کپڑے لتے کا خیال رکھتی اور اُسے اپنا خوشگوار ساتھ دیتی تھی۔
جارج اُس کے ٹکٹ، ہوٹل، خورونوش، خریداری کا خرچ اُٹھاتا۔
یوں ضرورتوں کے تبادلے سے دونوں کی زندگیوں کے چند دن پہلے سے بہتر گزر جاتے۔ روزی بہت خوش تھی۔ جارج بہت سیدھا سادا اِیمان دار آدمی تھا۔
اُسے کبھی کبھار لگتا، وہ کوئی خوب دیکھ رہی ہے۔ کہاں اُس کی اپنے نکھٹو سیالکوٹی، ڈینگیں مارنے والے شوہر کے ساتھ بِتائی ہوئی ساکن اور بدبودار پانی جیسی زندگی اور کہاں یہ میلے اور سیرسپاٹے۔
روزی کے بڑے بیٹے کی شادی ہو گئی، تو بہو کے آنے سے گھر کچھ تنگ تنگ سا لگنے لگا۔
’’کیوں نہ یہ اپارٹمنٹ اِن دونوں بچوں کو ہی دے دوں اور خود؟‘‘
وہ گہری سوچ میں پڑ گئی۔ اب اُسے اپنے اور چھوٹے بیٹے کے بارے میں کچھ سوچنا تھا۔
شیخ طفیل روتا پیٹتا پاکستان واپس چلا گیا تھا۔ وَہاں جا کر رشتےداروں کے آگے بیوی کی بےوفائیوں کا رونا رو کر ہمدردیاں سمیٹ رہا تھا، مگر رضیہ کو اب اُس کی کوئی پروا نہ تھی۔
اُس کی نظر ایک روشن پُرتحفظ، معاشی طور پر مستحکم، مستقبل کی طرف تھی۔ گئے دنوں کی یادوں سے اُس نے آسانی سے پیچھا چھڑا لیا تھا۔ بےوجہ کی غیرت اور اَنا کا اِس وقت اُس کے لیے کوئی مصرف نہ تھا۔
جارج کے لیے روزی اتنی اہم ہو چکی تھی کہ اب وہ اُس کے بغیر اپنی زندگی کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا۔
روزی آتی، اُس کا اپارٹمنٹ صاف کرتی، کھانے پینے کی نگرانی کرتی، وقت پہ دوائیاں دیتی، تو جارج خوشی سے نہال ہو جاتا۔
’’کیوں نہ اِس پیاری سی پُرخلوص عورت کو مستقلاً اپنے ساتھ رکھ لوں۔ اِسے شریکِ حیات بنا کر باقی ماندہ زندگی کے لمحات آرام سے گزار دُوں؟‘‘
اُس نے ایک روز سوچ کر روزی سے بات کی اور گھٹنوں پہ بیٹھ کر اُس سے اُس کا ہاتھ مانگنے لگا۔
روزی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
اُس نے جارج کو اپنی حقیقی محبت کا یقین دلا کر اُس کی شریکِ حیات بننے کی حامی بھر لی۔
روزی کے بچوں نے ماں کو ایک بار پھر سفید لباس میں پھولوں کا گلدستہ پکڑے دیکھا، تو خوشی سے باغ باغ ہو گئے۔
’’امی نے ساری عمر محنت کی اور ہمارے لیے قربانیاں دی ہیں۔ اُنھیں خوش ہونے کا پورا پورا حق ہے۔‘‘
بچوں نے ماں کو نیک خواہشات اور تمناؤں سے نواز کر اُس کا جی بڑا کر دیا۔
جارج کے اپارٹمنٹ میں گو کہ کافی اچھی اچھی چیزیں، فرنیچر، ڈیکوریشن پیس تھے، مگر اب کی بار رَوزی کا جی چاہتا تھا کہ وہ اِس گھر کو اَپنے ہی انداز سے ترتیب دے اور سجائے بنائے۔
اللہ نے اُسے اتنا پیارا مکان دے دیا تھا جو اُس کے پرانے تہ خانے والے اپارٹمنٹ کے سامنے کسی محل سے کم نہ تھا۔
ایک روز اُس کی پرانی ہم پیشہ ساتھی جمیلہ اُسے ملنے آئی،
رضیہ نے اُس کے سامنے اپنے شوہر سے اٹھلا کر فرمائش کی:
’’جارج ہنی! تمہاری نئی بیوی پرانے باورچی خانے میں خوش نہیں۔ مجھے سارا باورچی خانہ نئے سرے سے تیار کروا کے دو۔‘‘
’’کیوں ہنی! اِس باورچی خانے میں کیا خرابی ہے؟‘‘
جارج نے بھولپن سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔ بس مجھے نئے انداز کے کوکنگ رینج، مائیکرووئیو اووَن، ڈش واشر اور گاربیج ڈسپوزل چاہیے۔‘‘ روزی نے پیار سے جارج کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔
’’او کے جیسی تمہاری خوشی سویٹ ہارٹ!‘‘
جارج نے اپنی چھڑی سے سہارا لے کر کھانے والی میز سے اُٹھتے ہوئے جواب دیا۔ رضیہ لپک کر آگے بڑھی اور اُسے سہارا دَیتے ہوئے مصنوعی غصّے سے بڑبڑائی:
’’ہنی! خود کیوں اُٹھنے کی کوشش کرتے ہو؟ مجھے کہہ دیتے۔ آخر مَیں کس لیے ہوں؟‘‘
جارج کی آنکھوں میں تشکر اور پیار سے آنسو آ گئے۔ کتنا پیار کرتی تھی روزی اُس سے۔
’’سنو جیمی!‘‘ اُس نے جمیلہ کو مخاطب کیا :
’’کیا تمہارے ملک کی سبھی لڑکیاں اتنی اچھی ہوتی ہیں؟
نہیں نہیں میرا خیال ہے ،بہترین لڑکی میرے ہی حصّے میں آ گئی ہے، ہے نا۔‘‘ جارج قہقہہ مار کر ہنسا۔
’’یقیناً، یقیناً جارج! روزی جیسی لڑکی تو واقعی پورے پاکستان میں نہیں۔‘‘ جمیلہ نے دانت پیستے ہوئے مسکرا کر جواب دیا۔
’’حرام زادی!‘‘ اُس کے دل سے ایک آواز نکلی جسے اُس نے بڑی مشکل سے دبا کر خاموش کیا۔
’’دیکھو ! اب یہ باورچی خانے پہ پیسہ لگانا چاہتی ہے۔ ٹھیک ہے یہ میری محبوبہ ہے۔ مَیں کماؤں اور یہ خرچ کرے، یہی میری خوشی ہے۔‘‘ جارج ہنسنے لگا۔
’’چلو جارج! گاڈ کو یاد کرنے کا وقت ہو گیا۔‘‘
روزی نے جارج کو کرسی پہ بٹھا دیا اور اُسے﷽ اور کلمہ شریف سکھانے لگی۔
جمیلہ حیرت زدہ ہو کر بوڑھے یہودی کو خوشی خوشی کلمہ پڑھتے دیکھنے لگی۔
تھوڑی دیر میں اجازت لے کر رخصت ہو گئی کہ اُسے جا کر اپارٹمنٹ نمبر ۹ کی گریس کو نہلانا اور سیر پہ لے جانا تھا۔ راستے بھر وہ سوچتی رہی، دس سال سے مَیں بھی اِس بوڑھوں کی بستی میں کام کر رہی ہوں، مجھے تو کبھی اتنی عقل نہ آئی۔
مَیں بھی اپنا مستقبل بہتر بنا سکتی تھی۔ ویسے مَیں اتنی بڑی بڑی چھلانگیں لگا بھی کیسے سکتی ہوں؟ ایک شریف سا شوہر اور پانچ بچے میرے قدموں کی زنجیر جو ہیں۔
روزی کی عقل مندی کی وہ پورے دل سے قائل ہو چکی تھی۔
جارج سے شادی کے بعد سے اقبال بھائی کا کوئی فون آیا اور نہ ہی اُن کی طرف سے کوئی خیر خبر ملی۔
ایک روز رضیہ جارج کو کھلا پلا، سُلا کر چند گھنٹوں کے لیے بھائی اور اُس کے کنبے سے ملنے کوئنز چلی گئی۔ پیلی پھول دار سکرٹ اور میچنگ میرون ٹائٹس پہنے جب رضیہ بھائی جان کے گھر پہنچی، تو وہ اَور اَہلِ خانہ مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے۔
بھائی کا اکلوتا بیٹا فیاض مین ہٹن میں اپنے ذاتی اپارٹمنٹ میں تنہا ہی رہتا تھا۔ گھر پہ صرف بھائی، بھابھی اور اُن کی دونوں بیٹیاں موجود تھیں۔
’’آج کیسے ہماری یاد آ گئی؟‘‘ بھابھی نے چائے کی پیالی پیش کرتے ہوئے رضیہ سے گلہ کیا۔
’’اچھا! آپ لوگوں نے کون سی کبھی میری خبر لی ہے کہ مَیں زندہ ہوں یا مر گئی؟‘‘
’’پھوپھو! شادی کی مبارک ہو۔‘‘ بھتیجیوں نے اُسے گلے لگا کر مبارک باد دِی اور پھر اُوپر اپنے کمروں کی طرف چلی گئیں۔
’’رضیہ! تم نے پھر ہماری ناک کٹوا دِی ۔‘‘
منہ پھلاتے ہوئے بھائی جان پھٹ پڑے۔ پھر سارے برانکس کی پاکستانی کمیونٹی باتیں بنا رہی ہے۔ اگر تمہیں شادی ہی کرنا تھی، تو کسی اہلِ ایمان مسلمان سے کر لیتیں۔
اسلام میں نکاح کو پسند کیا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں یہ حلال کام ہے ۔ہم سمجھتے ہیں، مگر۔‘‘
’’بھائی جان! آپ جانتے تو ہیں شیخ صاحب نے مجھے کبھی ایک دھیلا بھی کما کر نہیں دیا تھا۔
کتنے برسوں سے مَیں بوڑھوں کی نگرانی کر کے اپنے خاندان کو پال رہی ہوں، تو کیا اب مجھے کوئی حق نہیں کہ مَیں اپنے لیے کوئی آسانی تلاش کروں۔‘‘ روزی پھر بولنے لگی۔
’’لیکن جیسی سے شادی بھی تو تم نے اِسی مقصد کے لیے کی تھی۔‘‘ بھائی جان گرجے۔
’’تو بھائی جان ایک اپارٹمنٹ ہی تو ملا تھا۔ وہ مَیں نے بڑے بیٹے اور اُس کی بیوی کو دے دیا ۔آپ کو تو پتا ہے ۔اب کیا چھوٹے سہیل کے لیے کچھ نہ کروں۔
آخر کو مَیں اُس کی بھی ماں ہوں ۔ابھی سہیل کے کالج کے لیے جارج نے ایک لاکھ ڈالر فیس جمع کروائی ہے ۔پھر یہ والا گھر بھی تو سہیل کے لیے ہی ہو گا اور۔‘‘
’’لیکن رضیہ! تم جانتی ہو یہودی ہمارے دشمن ہیں۔ کچھ بھی ہو ۔ہمیں بھولنا نہیں چاہیے۔‘‘ بھابھی نے لقمہ دیا۔
’’آخر فرق کیا ہے یہودیوں اور مسلمانوں میں؟ دونوں اہلِ کتاب ہیں۔ اللہ کو مانتے ہیں۔ جارج اتنا اچھا، اتنا ایمان دار مخلص آدمی ہے۔
پاکستانیوں کی طرح بےایمان اور جھوٹا نہیں۔ مجھے ایک اچھا آدمی مل گیا ہے۔ کیا آپ لوگوں کو اِس بات کی کوئی خوشی نہیں؟‘‘
’’ہاں مگر یہودی!‘‘ اب کے بھائی جان کے آنسو نکل پڑے۔
’’بھائی جان! کبھی سینا گاگ جا کر یہودیوں کے ربی (Rabbi) کا خطبہ سنیں۔ مَیں گئی تھی جارج کے ساتھ ایک روز۔
وہ کہہ رہا تھا ہیرو کون ہوتا ہے؟ہیرو وُہ ہوتا ہے جو دُشمن کو اَپنا دوست بنا لے ۔ اُن کی تعلیمات اسلام سے قطعاً مختلف نہیںبھائی جان!‘‘
رضیہ اپنی بات پہ ڈٹی رہی۔
’’آپ تالمود پڑھ کر تو دیکھیں۔ویسے بھی جارج کو تو مَیں نے مسلمان کر لیا ہے۔‘‘
’’ہائے اللہ! یہ تو یہودن ہو گئی ہے۔‘‘ بھابھی نے دانتوں تلے انگلی داب لی۔
’’وہ یہودی ہے۔ یاد رَکھو اپنا فائدہ ہی سوچا ہو گا اُس نے۔‘‘ بھائی جان بحث کرنے لگے۔
’’تو اگر کسی کا بڑھاپا سنور جائے اور میری آئندہ زندگی کے لیے میرے پاس پیسہ آ جائے، تو سودا برا کیسے ہوا؟ اِس دنیا میں سودےبازی تو چلتی ہی ہے بھائی جان!‘‘
رضیہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’آپ اتنے ڈالر کماتے ہیں بھائی جان۔ کبھی آپ نے میرے تنگ و تاریک گھر کے بارے میں سوچا تھا؟ جہاں مَیں ایک نکمے شوہر کے ساتھ زندگی گزار رَہی تھی۔‘‘ رضیہ نے وہی پرانی بات دہرائی۔
’’جھلیے! مَیں تو یہ بھی سوچ رہا تھا کہ جارج کے بعد شیخ صاحب کہیں واپس تیرے پاس نہ آ جائیں اور آ کر تیری جائیداد پہ قبضہ نہ کرلیں۔‘‘ بھائی جان نرم پڑتے ہوئے بولے۔
’’شیخ طفیل؟ توبہ کریں بھائی جان ۔وہ میرے پیسے پہ ہرگز کوئی حق نہیں رکھتا ۔آپ میری فکر نہ کریں۔ جارج کے جانے کے بعد مَیں یہ والا اپارٹمنٹ سہیل بیٹے کو دے دوں گی۔‘‘
’’اور خود کیا کرو گی؟‘‘ بھابھی نے سوال کیا۔
’’میری فکر نہ کریں۔ عمارت مال دار بوڑھوں سے بھری ہوئی ہے۔ آپ کو پتا ہی ہے میرے اخلاق کے تو سب دیوانے ہیں۔ آپ کو میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ روزی ہنسنے لگی۔
’’اچھا مَیں چلوں۔ جارج کے کھانے کا وقت ہو رہا ہے۔‘‘
روزی نے مطمئن مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور اَپنی خوبصورت پیلی سکرٹ کی کریزیں درست کرتی ہوئی جانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

لفٹ میں سے اُترنے چڑھنے والے کا چہرہ اُسے دیکھ کر کِھل اُٹھتا۔ ہر کوئی اُسے ہائے روزی، ہیلو روزی، ہاؤ آر یو روزی؟ کہہ کر بلاتا اور اِس طرح کا ایک آدھ فقرہ کہتا ’’سویٹ گرل، آج تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔
ارے کہاں تھیں اتنے دن؟ نظر نہیں آتیں، تو عمارت سُونی سونی لگنے لگتی ہے۔‘‘
روزی ہنستی، مسکراتی، سب سےہاتھ ملاتی۔ جواب میں ایک پیار بھرا جملہ کہہ کر آگے بڑھ جاتی۔
لفٹ کے اُس کی منزل کے پہنچانے تک وہ نہ جانے کتنوں سے ڈھیروں ہی باتیں کر چکی ہوتی۔
رحمٰن پورہ، اچھرہ کی رضیہ بیگم، روز ڈیل برانکس نیویارک کی روزی کیسے بنی، کسی کو اِس کی خبر تھی نہ پروا۔
اُنھیں تو بس یہ پتا تھا کہ روزی کتنی میٹھی طبیعت والی تھی ۔ کتنے اخلاق سے پیش آتی تھی۔
روزڈیل میں بوڑھے لوگوں کی رہائش کے لیے کئی خوبصورت، منظم، پُرآسائش عمارتیں کھڑی تھیں، مگر سٹی فلاور رِفاہی عمارت ہی وہ خوش قسمت رہائش گاہ تھی، جہاں پر روزی ملازمت کرتی تھی۔
رہائشی بوڑے اور بوڑھیوں سے، خوبصورت صحت مند، شوخ رنگ کے اسکرٹ اور ٹائٹس پہنے چالیس پینتالیس برس کی روزی جب ہنس کے ملتی، اُن سے چھیڑچھاڑ کرتی، تو وہ خوشی سے جی اُٹھتے۔
’’تم مجھے روز نظر آیا کرو، ورنہ مَیں اُداس ہو جاتا ہوں۔‘‘ چارلس اپنا کئی بار دُہرایا ہوا فقرہ دُہراتا۔ روزی ہنس کے اُس کا بازو تھپتھپاتی ۔
’’ڈرٹی اولڈ مین ۔(شرارتی بوڑھا) مَیں سب سمجھتی ہوں۔‘‘
’’ارے ڈک! تم نے آج بڑی سیکسی قمیص پہنی ہوئی ہے۔‘‘
وہ ڈک کو چھیڑ دیتی۔ وہ اَپنی نقلی بتیسی نکال کر کھی کھی کرنے لگ جاتا۔
یہی تھی روزی کی روزمرہ زندگی اور اُس کے لوگ۔ نیویارک میں رہنے والے اُس کے خاندان کے لوگ اُسے چھیڑتے کہ تُو بڈھوں کی ہو کر رہ گئی ہے/
وہ اُن کی بات کا برا نہ مناتی۔ بلکہ کہتی:
’’اُن میں رہنے سے مَیں خود کو جوان اور توانا سمجھتی ہوں کیونکہ وہ مجھے ایک لڑکی کی طرح محسوس کرواتے ہیں۔ مَیں خوش ہو جاتی ہوں۔‘‘
روزی اکیلی نہیں تھی۔ اُس کے ساتھ اُس کا شوہر شیخ طفیل اور دو بیٹے بھی برانکس کے ایک سستے سے اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔
تہ خانے میں واقع یہ تنگ و تاریک، سلین زدہ اپارٹمنٹ روزی کو بالکل نہ بھاتا تھا، مگر کیا کرتی مجبوراً رہے جا رہی تھی۔ غریب ہسپانوی، میکسیکن کالے اور کچھ بھارتی پاکستانی لوگوں سے آباد، پرانی سی میلی سی اپارٹمنٹ بلڈنگ روزی کو جیل خانہ محسوس ہوتی۔
اِسی لیے وہ خوشی خوشی روز ڈیل میں ملازمت کرنے چلی جاتی، جہاں بڈھوں کے لیے بنے ہوئے کانڈومینیم روشن، کشادہ اَور خوبصورت تھے۔ اُن میں اچھے کیئرٹیکرز (نگرانوں) کی ہمیشہ سے آسامی خالی رہتی تھی۔
رضیہ کا شوہر شیخ طفیل ایک نکما، شہدا، بڑبولا، ڈینگیں مارنے والا سیالکوٹیا تھا، جسے بیوی کے ملازمت کرنے سے بہت آرام ہو گیا تھا۔
روزی کماتی اور سارا گھر کھاتا۔ کبھی کبھار شیخ صاحب کوئی چھوٹی موٹی نوکری برائے نام بھی کر لیتے تاکہ خاندان والے محض بیوی کی کمائی پہ پلنے والا سمجھ کر اُنھیں کم اہم نہ سمجھنے لگ جائیں۔
ویسے بھی اُن کا کہنا یہی تھا کہ وہ رَضیہ کو اُس کی خوشی کی خاطر ہی کام کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔
’’جانی! مَیں تو تجھے گھر بٹھا کر، رانی بنا کر کھلانا چاہتا ہوں، مگر جب تُو صبح سویرے بن ٹھن کر، سنور کر ملازمت پہ جاتی ہے، تو مجھے بڑی پیاری لگتی ہے۔
بس تجھے یونہی ہنستا مسکراتا دیکھتا رہوں، مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ میرا کہاں جی چاہتا ہے، تجھے بوڑھوں کا گو مُوت صاف کرتے دیکھوں۔
تُو اُنھیں کھلائے پلائے، اپنا اور ہمارا قیمتی وقت اُنھیں دے، مگر بس تیری خوشی کا خیال آتا ہے، تو خود کو سمجھا لیتا ہوں۔‘‘
’’آپ کے لیے روٹی بنا کر چنگیر میں رکھ دی ہے۔ سالن فریج میں پڑا ہے۔ گرم کر کے کھا لینا اور مجھے وقت پہ لینے آ جانا۔ “روزی مسکرا کر جواب دیتی۔
اُسے اچھی طرح پتا تھا کہ شیخ صاحب کی باتوں میں کتنی صداقت ہے۔
’’میری سرکار! آپ کا تابعدار،خادم، ڈرائیور، پورے وقت سے ایک بھی منٹ لیٹ کیے بغیر آپ کی عمارت کے آگے کھڑا ہو گا۔ آپ فکر ہی نہ کریں۔‘‘
وہ تابعداری سے جواب دیتے۔ اُنھوں نے بیوی کو ملازمت کرنے کی آزادی تو دی، مگر اُسے ڈرائیونگ نہیں سکھائی تھی۔
وہ چاہتے تھے کہ سونے کی چڑیا اُن کے کھینچے ہوئے دائرے میں ہی اُڑے۔ پھڑپھڑا کر کہیں دُور نہ نکل سکے۔
ڈرائیونگ سکھانے کا مطلب تھا گاڑی کانڈومینیم بلڈنگ کے پارکنگ لاٹ کی حدود سے باہر، مقررہ وَقت سے آگے پیچھے بھی کہیں ہو سکتی تھی۔یہ اُنھیں کسی صورت منظور نہیں تھا۔
اب کے گرمیوں کے موسم میں انتظامیہ نے اُس کی اچھی کارکردگی دیکھ کر اُسے ایک مستقل ملازمت کی پیشکش کر دی۔
اسّی برس کے بوڑھے یہودی جیسی (Jesse) سپیل برگ کو روزی جیسی نگران کی ہی ضرورت تھی۔
اُس اولڈ پیپلز ہاؤسنگ کمپلیکس میں پاکستانی، بھارتی اور دِیگر کئی قومیتوں کی بہت سی نگران ملازم تھیں، مگر مستقل ملازمت کسی اچھے ریکارڈ والی کیئرٹیکر کو ہی دی جاتی تھی۔
چند پاکستانی کیئرٹیکرز نے رضیہ کو ایسی مستقل ملازمت مل جانے پر اُوپرسے مبارک باد تو دے دی، مگر دل ہی دل میں اُن کا حسد سے برا حال ہو گیا۔ ایسی اچھی ملازمت نہ جانے اُن کے نصیبوں میں کیوں نہیں آئی تھی۔
بوڑھے جیسی کی بیوی بہت سال پہلے گزر چکی تھی۔ بچے اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف تھے۔
بیٹا اپنے بال بچوں کے ساتھ فلاڈلفیا میں خوش و خرم زندگی گزار رَہا تھا۔
بیٹی شیرل اپنے ’’لونلی ڈاگ‘‘ کیئر سنٹر کو پوری جانفشانی سے چلانے کے لیے دن رات ایک کر رہی تھی۔
بےگھر کتوں کی آبادکاری اور دیکھ بھال ہی اُس کی زندگی کا مشن تھا۔ دونوں بچوں کو پتا تھا کہ اُن کے لاچار باپ کو روزی نے ایک نئی زندگی بخش دی ہے۔
وہ مکمل خلوص اور محنت سے اُس کی دیکھ بھال کرتی۔ اُس کی نگہداشت میں کسی قسم کی بھی لاپروائی شامل نہ ہوتی تھی۔
وہ مطمئن تھے اور اِسی لیے اپنی نارمل زندگیاں گزارے جا رہے تھے کہ باپ کی طرف سے اب اُنھیں کسی قسم کی کوئی فکر نہ تھی۔
روزی اکثر لانڈری روم میں جیسی کے کپڑے دھوتے ہوئے اپنی ساتھی ورکرز سے کہتی:
’’دیکھو یہ لوگ ہمارے اپنے بزرگوں کی طرح ہیں۔ بےبس اور لاچار۔ اِن کی جتنی بھی خدمت کریں، کم ہے۔
اِس کا اجر ہمیں اللہ تعالیٰ کے گھر سے ملے گا۔ یہ سمجھ لو کہ اِس پردیس میں یہی ہمارے ماں باپ اور بڑے ہیں۔‘‘
جمیلہ اور عظمیٰ، ’’آپ ٹھیک کہتی ہیں باجی!‘‘ کہہ کر ہاں میں ہاں ملا دیتیں، مگر پانچ بچوں کی ماں، ٹیکسی ڈرائیور طیب حسین کی مطلقہ عابدہ کو اُس کا یہ فلسفہ ایک آنکھ نہ بھاتا۔
وُہ جھنجلا کر زور زور سے واشنگ مشین کے بٹن دبانے لگتی۔ اُسے اُن کمبخت بوڑھوں کی خدمت کرنا زہر لگتا تھا، مگر وہ اَپنے حالات سے مجبور تھی۔
’’روزی ڈیئر! کہاں رہ جاتی ہو؟جلدی سے کھانا کھلاؤ، مجھے بھوک لگی ہے۔‘‘ جیسی نے روزی کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ کر ہی شور مچانا شروع کر دیا۔
’’ابھی آئی۔ بس ایک منٹ، ذرا کوٹ اور سنو شوز اُتار لوں۔‘‘
روزی نے اُسے جواب دے کر شانت کیا اور خود جلدی جلدی جوتے اُتار کر گھر کی چپل پہننے لگی۔
بوڑھا جیسی انتظار کرتے کرتے کھڑکی میں سے نظر آتے آسمان کو دیکھنے لگا۔
سرمئی آسمان سے لگاتار برف گر رہی تھی اور سورج کا کہیں دور دُور تک پتا نہ تھا۔ سب دن ایک سے تھے۔ ٹھنڈے اور منجمد، مگر اب روزی کے آ جانے سے ماحول میں زندگی کی تپش محسوس ہونے لگی تھی۔
روزی نے گھر میں داخل ہوتے وقت دروازے پر پیک شدہ کھانے کا لٹکتا لفافہ اُتار لیا تھا، جسے وہ کھول کر اب ٹرے میں سیٹ کرنے لگی تھی۔
“Meals on wheel” (کھانا پہیوں پر) نامی ادارے کا نمائندہ صبح گیارہ بجے ہی بوڑھوں کی غذائی ضروریات مدِنظر رکھتے ہوئے متوازن، تازہ اَور لذیذ کھانا دروازے پر چھوڑ جایا کرتا تاکہ کسی کو اُن کے لیے خاص کھانے نہ تیار کرنے پڑیں۔
روزی نے گندم کی ڈبل روٹی، گوشت، سبزی، پھل، دُودھ اَور میٹھا، سب کچھ اچھی طرح سے ٹرے میں جما دیا ۔
کمرے کی طرف چل پڑی۔ اُس نے بستر کا لیور دَبا کر سرہانہ اونچا کیا اور بوڑھے کے کمزور جسم کو اپنی پوری طاقت سے کھینچنے کے بعد پشت سے ٹکا کر بٹھا دیا اور کھانا کھلانے لگی۔
وہ کھانا کھلانے سے پہلے بسم اللہ پڑھتی اور جیسی کو بتاتی تھی کہ مَیں ’’اللہ کے نام سے تمہیں کھلانے کا آغاز کر رہی ہوں۔ تم بھی اللہ کا نام دہراؤ۔‘‘
وہ ہوں ہاں کرتا اور سر ہلا دیتا، تو وہ پیار سے اُس کا بڑا سا گنجا، سرخ و سفید سر ہلا کر کہتی ’،
’وے جیسی تیری ایسی کی تیسی!‘‘ وہ کچھ نہ سمجھنے کے باوجود ایک بچے کی طرح مسکرانے لگتا اور تابعداری سے منہ کھول دیتا۔
اِس سے پہلے جیسی کو اَور بھی کئی نگرانوں نے سنبھالا ہوا تھا، اُسے کھلایا پلایا، اُس کی نجاستیں صاف کیں، مگر جس انہماک اور پیار سے روزی اُس کی کیئر کرتی تھی۔
وہ بےمثال تھا۔ ایک مدت بعد جیسی کو لگا جیسے اُس کی خالی زندگی پھر سے بھرنے لگی ہو۔ کوئی اپنا اُس کی زندگی میں چلا آیا ہو۔
کسی اجنبی، انجان ملک کی غیرمذہب کی عورت نے اُس کی زندگی میں اُجالا بھر دیا تھا، جس کی وجہ سے وہ بہت خوش رہنے لگ گیا تھا۔
وہ اب اپنے بچوں کے آنے کی راہ نہیں دیکھتا تھا۔ اُس کے ویران گھر میں آنے جانے والوں کے قدموں کی چاپ گونجنے لگی تھی اور مکان اب گھر لگنے لگ گیا تھا۔
روزی اُسے کھلانے پلانے کے بعد گرم پانی میں اسفنج بھگو کر اُسے آرام سے صاف کرتی۔ اُس کے ہاتھوں کی حرکت سے، بوڑھے کے جسم میں زندگی کی تمازت آنے لگتی۔
وہ شوخی سے اُس کا ہاتھ پکڑ لیتا اور آنکھ مار کر مسکرانے لگتا۔ ایسے میں روزی اُسے پیار سے چپت لگاتی اور پنجابی میں ایک دو گالیاں دے کر ہنسا دیتی۔
بوڑھا ہنسنے لگتا، تو اُس کا بڑا سا، لمبا تڑنگا وجود، بستر کی آہنی اطراف سے ٹکرا ٹکرا کر شور کرنے لگتا۔ دونوں کے درمیان اِسی قسم کا ہنسی مذاق چلتا رہتا تھا۔
شیخ صاحب دیکھ رہے تھے کہ وہ اُس کی رضیہ پہ بہت انحصار کرنے لگ گیا ہے۔ اب اُسے رضیہ کی ایک بھی چھٹی گوارا نہ ہوتی۔
رات کو وہ گھر آ جاتی، تو بوڑھا بےچَین اور بےقرار رَہتا۔ رات والی کیئرٹیکر گو کہ بہت اچھی تھی، مگر اُس میں روزی جیسا اپنا پن نہ تھا۔
اِس لیے جیسی کو سنٹرل ہیٹنگ والے اپارٹمنٹ میں ہونے کے باوجود لگتا جیسے وہ کسی ٹھنڈی قبر میں پڑا ہوا ہو۔ ایک رات اُس نے روزی سے گڑگڑا کر کہا:
’’روزی تم رات کو بھی گھر نہ جایا کرو۔ یہیں رُک جایا کرو۔ مَیں تمہیں ڈبل پیسے دوں گا۔ پلیز، تم مجھ پر یہ احسان کر دو۔ میری ریٹائرمنٹ کا پیسہ اور کس کام آئے گا ۔ پلیز!‘‘
’’جیسی! ہنی، تم جانتے ہو کہ میرا اَیک شوہر اور دوبیٹے ہیں۔ اُنھیں بھی میری ضرورت ہوتی ہے۔ ایک بیٹا تو اتنا بڑا بھی نہیں۔ مَیں اُنھیں چھوڑ کر رات کیسے یہاں رہ سکتی ہوں؟‘‘ روزی نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’تم چھوٹے بیٹے کو بھی اپنے ساتھ یہاں لے آیا کرو۔ دوسرا کمرا تو خالی ہی پڑا رہتا ہے نا۔‘‘ اُس نے التجایہ انداز میں روزی سے درخواست کی۔
رضیہ نے گھر آ کر ڈرتے ڈرتے شیخ طفیل سے ذکر کیا کہ بابا جیسی مجھے رات بھی وہیں رُکنے کو کہہ رہا ہے۔
اُسے یقین تھا کہ اُس کا ملکیت پسند شوہر اِس بات سے بھڑک اٹھے گا اور کہے گا :
’’جانی! اپنے گھر کے علاوہ تم کہیں اور رَات گزارو، یہ مَیں کیسے برداشت کر سکتا ہوں؟ جب تم مجھ سے دُور ہوتی ہو، مَیں تمہاری کمی محسوس کرتا ہوں۔ . وغیرہ وغیرہ۔‘‘
حیرت انگیز طور پر شیخ صاحب نے بڑے غور اور تحمل سے پوری بات سنی اور پھر کہا:
’’ڈبل پیسے دے گا بڈھا؟ بڑا دِل نکال رہا ہے یہودی۔ جانی ایک بات مَیں بار بار سوچ رہا ہوں۔ تمہیں اُس کا اپارٹمنٹ بہت پسند ہے، ہے نا؟‘‘
’’ہاں کیوں نہیں۔ ہماری اِس تنگ و تاریک، سیلن زدہ کھڈ سے تو لاکھ درجے بہتر ہے۔‘‘
روزی نے اپنے کاکروچوں بھرے پرانے تہ خانے والے اپارٹمنٹ پہ نظر ڈالی۔
’’نہ جانے کب ہم یہاں سے کہیں اور منتقل ہوں گے؟‘‘ اُس نے ٹھنڈی سانس بھری۔
’’جانی! تمہاری خوشی کو سامنے رکھتے ہوئے مَیں نے سوچ لیا ہے کہ مَیں تمہیں بابے کے گھر منتقل ہو جانے ہی دوں۔ صاف ستھرا علاقہ ہے۔ جدید سہولیات والا روشن اپارٹمنٹ ہے۔ پھر سارے رہائشی بوڑھے، بوڑھیاں تمہارے واقف ہیں۔ تم زیادہ خوش تو وہیں رہتی ہو نا؟‘‘
اگلے ہی روز رضیہ اپنے چھوٹے بیٹے سہیل کو لے کر جیسی کے گھر منتقل ہو گئی۔
کبھی کبھار اُس کا شوہر اُسے وہاں ملنے آ جاتا۔ کبھی کبھار جیسی کی اجازت سے وہ گھر آ جاتی۔
سب کو اَپنے من کی مراد ملتی رہتی۔ جیسی اب اُس سے بہت مانوس ہو گیا تھا۔
اِس لیے ایک پل بھی اُس کے بغیر نہ رہتا۔ وہ فون سننے بھی جاتی، تو بستر پر لیٹے لیٹے زور سے اُسے پکارنے لگتا۔
’’روزی ،روزی!‘‘ وہ دوڑی چلی آتی، تو خوش ہو جاتا۔ اُس کا ہاتھ پکڑ کر سہلانے لگتا۔
ایک شام اُس نے جیسی سے خصوصی طور پر گھر جانے کی اجازت مانگی کیونکہ شہر میں رہنے والے اُس کے بڑے بھائی، اقبال حج سے لَوٹے تھے۔
اُس نے اُنھیں کھانے پر بلایا ہوا تھا۔ روزی نے کرسٹینا کو اپنی جگہ اسٹینڈبائےکیا اور خود گھر چلی گئی۔
حسبِ ہدایات کرسٹینا نے جیسی کو ہر دو گھنٹے بعد کروٹ بدلانا چاہی، مگر اتنے بڑے ڈیل ڈول والے مرد کو وُہ سنبھال نہ سکی۔
اُس کا سر بیڈ کی سائیڈ سے ٹکرا دِیا۔ خود وُہ بےخبر ہو کر رات بھر گہری نیند سوتی رہی۔
صبح روزی آئی، تو اُسے یہ دیکھ کر بہت صدمہ ہوا کہ کرسٹینا نے اُسے اچھی طرح صاف کیا تھا ،نہ ہی رات کی دوائیاں وقت پر دی تھیں۔ جیسی غصّے اور تکلیف سے بڑبڑا رَہا تھا۔
چند دنوں بعد جیسی کے بچے اُس کی خیریت معلوم کرنے آئے، تو اُنھیں انتظامیہ نے اِس واقعے کی رپورٹ دی جس پر وہ بہت پریشان ہوئے۔
اُنھوں نے اپنے باپ کو ایک لمحے کے بھی اکیلا یا نامناسب کیئر میں نہ چھوڑنے کی تنبیہ کی۔
’’ہم اپنے باپ کی بہترین نگرانی کے لیے ہر قیمت دینے کو تیار ہیں۔‘‘ اُنھوں نے انتظامیہ کو اطلاع دی۔
’’رضیہ جانی! مَیں اپنے، تمہارے اور بچوں کے مستقبل کے لیے کچھ منصوبہ بندی کرنا چاہ رَہا ہوں۔‘‘
ایک روز رضیہ کے دُوراندیش شوہر نے بیوی کی ملازمت کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک تجویز پیش کی، جسے رضیہ نے اپنے شوہر کی عقل مندی سمجھ کر دھیان سے سنا اور پھر جیسی کے آگے دہرایا۔
’’جیسی ڈیئر! مَیں تو چاہتی ہوں، ہر دم تمہارے پاس رہوں، مگر میرا ظالم شوہر مجھے روکتا ہے۔ تم سے حسد کرتا رہتا ہے۔ بتاؤ مَیں کیا کروں؟‘‘ اُس نے جیسی سے کہا۔
’’یہودی کے پاس پیسہ بہت ہے۔ اُس پیسے سے اگر ایک غریب ملک کا مستحق خاندان بھی فیض یاب ہو جائے، تو کیا برا ہے۔‘‘
روزی کے کانوں میں اُس کے شوہر کے الفاظ گونجنے لگے۔
’’میرا شوہر کہتا ہے اگر مَیں نے رات تمہارے ہاں گزاری، تو وہ مجھے گھر سے نکال دے گا۔پھر مَیں کہاں جاؤں گی؟
اگر ہم شادی کر لیں، تو ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکے گا۔ ہم ہر قت اکٹھے رہ سکیں گے۔‘‘
روزی نے اُس کا ہاتھ تھام کر دھیرے سے دبا دیا۔
دانتوں سے خالی، پوپلے منہ والے شخص نے اسٹرابری منہ میں اِدھر اُدھر گھماتے ہوئے اُس پیاری عورت کی بات سنی۔
جسے اُس کے شوہر نے اُس کی وجہ سے چھوڑنے کی دھمکی دی تھی۔
جس کے آ جانے سے اُس کی زندگی انتہائی منظم، خوشگوار اور پُرتحفظ محسوس ہونے لگی تھی۔
اگر اِس بےچاری کے ظالم شوہر نے اِسے میرے پاس رہنے نہ دیا، تو میری کیئر کون کرے گا۔
وہ فکرمند ہو گیا اور پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا:
’’مائی ڈیئر! فکر مت کرو، مَیں تمہارا سہارا بنوں گا۔
میرے ہوتے ہوئے تمہیں فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘
جیسی کے ہاں کہہ دینے کے بعد شیخ صاحب اور رَضیہ نے کچھ عرصے بعد باہم رضامندی سے الگ ہونا منظور کر لیا۔
جیسی کے بچے مزید مطمئن ہو گئے کہ اب اُن کے ڈیڈی کو ہر وقت کا ساتھ میسر آ گیا ہے۔
وُہ کبھی تنہا نہ ہوں گے۔ ویسے بھی یہ اُن کے باپ کا ذاتی معاملہ تھا، اُنھیں بھلا دخل دینے کا کیا حق تھا؟
روزی ایک خوبصورت سے اپارٹمنٹ کی مالکہ ہونے پر اب بہت توانا محسوس کرنے لگی تھی۔
برسوں پرانے فرنیچر کو اِدھر سے اُدھر سیٹ کر کے دیکھتی رہتی، تو سوچتی، پچھلی خاتونِ خانہ اِس گھر میں نہ جانے کس طرح رہتی ہو گی، کیا کرتی ہو گی؟
کیسے رہتے ہوں گے جیسی اور وُہ؟
گھنٹوں دیوار پہ لگی جیسی کے دادا کی رومانیہ سے امریکا ہجرت کے بعد کی ڈیڑھ سو برس پرانی تصویر دیکھتی، تو سوچتی۔
مسٹر گولڈسٹین نہ جانے میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔
قدیم ترکی رومی طرز کا چوغہ اور ٹوپی پہنے باوقار دِکھتے، سنجیدہ سے خوبصورت شخص کو دیکھ کر روزی کو اَپنے نانا جی یاد آ جاتے، جن کے گھٹنے سے لگ کر اُس نے بچپن میں درود شریف اور اَلتحیات یاد کی تھی۔
اُس کا جی چاہتا اِس تصویر سے سوال کرے:
’’دادا جی! آپ ڈیڑھ سو برس پہلے اپنا ملک چھوڑ کر اِس ملک کیسے اور کیوں آئے تھے؟
آپ کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ آپ کی یہ تصویر اتنے برسوں بعد برانکس نیویارک کے ایک اپارٹمنٹ میں ٹنگی ہوئی، ایک دُور دَراز کے ملک کی اجنبی عورت کی تحویل میں ہو گی۔ کیا آپ جانتے تھے کہ آپ کی تصویر ایک دن اکیلی رہ جائے گی۔‘‘
ایک روز جیسی کو باہمی گفت و شنید کے بعد سمجھا بجھا کر روزی ایمبولینس میں ڈال کر عدالت لے گئی، جہاں اُسے قانونی طور پر اپنا اَپارٹمنٹ اپنی موجودہ بیوی روزی گولڈسٹین کے نام منتقل کرنا تھا۔
کمرأ عدالت میں وہیل چیئر پہ بیٹھے بیٹھے اپنی باری کا انتظار کرتے، جیسی بار بار نیند کی آغوش میں چلا جاتا، تو روزی اُسے ٹہوکا دے کر اُٹھاتی۔
جج کو کتنی ہی بار اُس سے پوچھنا پڑا آیا۔ وہ یہ کام ہوش و حواس میں کر رہا ہے؟
وہ کسی کے دباؤ میں تو نہیں؟ جیسی نے ہاں، ہاں کا مختصر جواب دے کر قانونی تقاضے پورے کر دیے۔ اب رَوزی ایک عدد ملین ڈالر مالیت کے اپارٹمنٹ کی مالک بن گئی۔
رضیہ کے بچوں نے ماں کی زندگی میں آنے والی نئی خوشیوں پہ اُسے بھرپور مبارک باد اَور تحفے دیے۔
رضیہ نے بھی اپنی پوری فیملی کو عالی شان عشائیہ دیا جس میں اُس کے دونوں بھائی، بھابھیاں اور اُن کے بچے شامل ہوئے۔
ایک عرصے بعد خاندان اکٹھا ہوا، تو بچوں کو باپ کی یاد آئی، مگر پھر یہ سوچ کر چپ ہو رہے کہ باپ نے کبھی ماں کو اتنی آسانیاں مہیا نہ کی تھیں۔
ماں نے ہی ہمیشہ اُنھیں کما کر کھلایا اور اُن کی ضرورتیں پوری کی تھیں۔ رضیہ کے بھائی کچھ چپ سے تھے۔
’’اِن کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ روزی نے بھابھی سے پوچھا۔
’’کہاں ٹھیک ہے؟ بس کھوئے کھوئے، بجھے بجھے سے رہتے ہیں۔‘‘ بھابی نے پکوڑا پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’اللہ خیر کرے، بھابھی! اِنھیں ڈاکٹر کو دکھانا تھا۔‘‘ رضیہ نے بھائی کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
’’دکھایا تھا۔‘‘ بھابھی نے مختصر جواب دیا۔
’’اُس نے کہا دل کچھ ٹھیک نہیں۔ کسی بات کا ذہنی دباؤ ہے اِن پر۔‘‘
’’ذہنی دباؤ! کیوں بھائی جان، خیریت تو ہے، کیا کہہ رہی ہیں بھابھی؟‘‘
بھائی جان کا توجیسے کسی نے فلیتہ اُڑا کے رکھ دیا۔ بھیں بھیں کر کے رونے لگے۔ سب پریشان ہو گئے۔
نہ جانے کیا بات تھی۔ کچھ بولتے ہی نہ تھے۔ رضیہ اُنھیں کھینچ کر اپنے کمرے میں لے گئی اور دَروازہ بند کر کے پوچھنے لگی۔
’’بھائی جان! آپ کو اللہ کی قسم، بتائیں کیا بات ہے؟ کیا بھابی سے کوئی اختلاف ہوا ہے؟‘‘
بھائی جان نے انکار میں سر ہلا دیا۔
’’تو پھر؟‘‘
’’رضیہ! تُو نے ہماری اور ہمارے خاندان کی ناک کٹوا دِی۔
شیخ طفیل سے طلاق لینا کیا کم برا تھا کہ تُو نے دوسری شادی بھی کر لی۔ وُہ بھی ایک یہودی سے۔‘‘
بھائی جان ہچکیوں کے درمیان دل کی بات کہہ گئے اور ٹشوپیپر سے اپنی بہتی ہوئی ناک پونچھنے لگے۔
’’حد ہو گئی بھائی جان۔ آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔ مَیں سمجھی، پتا نہیں کون سی قیامت آ گئی آپ کی زندگی میں۔‘‘
’’قیامت ہی تو ہے۔ سارے مسجد کے ساتھی اور پاکستانی کمیونٹی والے مجھ پر ہنستے ہیں۔ آخر ہماری بھی کوئی عزت ہے اِس شہر میں۔ تجھے تو کسی کا خیال ہی نہیں۔ بس اپنے بارے میں ہی سوچتی رہتی ہے تُو۔‘‘
’’واہ بھائی جان۔ جب شیخ طفیل جیسے نکمے، نکھٹو کے ساتھ تنگ دستی کے دن گزار رَہی تھی، تب تو آپ کو مجھ سے، میری زندگی سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
اَب جیسے ہی میرے حالات بہتر ہوئے، جو مَیں نے خود بہتر کیے، تو آپ لوگ آ گئے اپنی غیرتیں اور عزتیں لے کر۔
اتنا ہی میرا خیال تھا، تو ماہوار خرچ باندھ دیتے۔ میرے بچوں کے مستقبل کے لیے کچھ سوچتے۔
آپ بھی لاکھوں ڈالر کماتے ہیں بھائی جان۔ کیا سوائے نصیحتوں اور تلقین کے، مجھے آپ نے کبھی کچھ دیا؟‘‘
بھائی جان لاجواب ہو کر اُٹھے اور بیوی بچوں کو چلنے کا اشارہ کر دیا۔
’’ماموں جان نے اچھی خاصی خاندانی تقریب خراب کر کے رکھ دی۔‘‘
رضیہ کے بچوں نے ماں کے گلے میں پیار سے بانہیں ڈال کر اُس کا موڈ بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
روزی کی اَن تھک محنت، محبت اور نگہداشت کے باوجود جیسی شادی کے صرف چھے ماہ تک ہی زندہ رہا۔ شاید اُس سے کسی کا ساتھ پانے کی، ایک عرصے بعد بھرے بھرے گھر میں رہنے کی خوشی برداشت نہیں ہوئی۔
موت کے آخری لمحوں میں اُس کے سرہانے بیٹھی روزی سورۃ یٰسین پڑھ پڑھ کر پھونکتی اور کہتی:
’’جیسی! گاڈ کا نام لے۔ گاڈ کو یاد کر کہ تُو نے اُس کے ہی پاس جانا ہے۔‘‘
جیسی خالی خالی آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھ کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیتا تھا۔
روزی نے اپنے شوہر کی یاد میں بڑی سی باوقار میموریل سروس کروائی جس میں جیسی کے اہلِ خانہ کو بطور خاص دعوت دی گئی اور اَہم نشستوں پر بٹھایا گیا۔
جیسی کے بچے اُن کے باپ کے آخری لمحات کو اِتنا خوشگوار بنانے اور حاضرین اُس کے لیے اتنی میٹھی میٹھی باتیں کرنے پر بار بار روزی کا شکریہ ادا کرتے نظر آ رہے تھے۔
سٹی فلاور بلڈنگ کے دوسرے مکین بوڑھے اور بوڑھیاں جب بھی روزی سے ملتے، اُس سے اُس کے یوں جلدی بیوہ ہو جانے پر اظہارِ اَفسوس کرتے، بہادری سے زندگی گزارنے کا مشورہ دَے کر اپنے اپنے اپارٹمنٹوں میں چلے جاتے۔
کبھی کبھار اُس کا دروازہ کھٹکتا، تو وہ دَیکھتی جان کبھی ہاتھ میں کیک تھامے، کبھی رابرٹ پھول لیے، تو کبھی مینڈی ہوم میڈ سلاد کا ڈبہ سجائے اُس سے کافی پہ گپ شپ کرنے آ رہے ہیں۔
ایک روز لفٹ میں سے اُترتے ہوئے روزی کی ملاقات بلڈنگ کے نئے رہائشی جارج گرین سپیس سے ہو گئی۔
پچھتر برس کا جارج نیویارک کا پرانا وکیل تھا۔ اَب ریٹائر ہونے کے بعد بھی کبھی کبھار ایک لاء فرم میں پرائیویٹ پریکٹس کر لیا کرتا تھا۔
لفٹ سے اُتر کر سیاہ مہنگی گاڑی لیکس (Lexus) میں داخل ہونے تک گورے چٹے خوبصورت جارج اور رَوزی نے آپس میں اتنا ہنسی مذاق کر لیا تھا کہ اُن کے دلوں میں فوراً ہی ڈنر پر چلنے کی خواہش پیدا ہو چکی تھی۔
عمارت والے خوش تھے کہ تنہا روزی کو جارج کی خوشگوار رَفاقت نصیب ہو گئی ہے۔ نئے رہائشی جارج کو ایک اچھی دوست مل گئی جس کی وجہ سے وہ سٹی فلاور کے ماحول، طور طریقوں اور ساتھی رہائشیوں سے جلد ہی مانوس ہو گیا تھا۔
جارج جیسی کی طرح بستر پر پڑا ہوا بوڑھا بےبس یہودی نہیں تھا۔ وہ زندہ طبیعت، بہتر جسمانی صحت کا مالک شخص تھا۔ شام ڈھلے جب وہ اَپنی خوبصورت سی سیر کرنے والی چھڑی (واکنگ سٹک) تھامے ہولے ہولے قدم اُٹھاتا اپنی شاہانہ گاڑی میں سے اُتر کر عمارت میں داخل ہوتا، تو کئی بوڑھیاں اُس کی باوقار شخصیت کو دیکھ کر اُسے تعریفی کلمات سے نوازتیں۔
جارج بھی تنہا تھا۔ اُس نے اپنی بستر پہ پڑی بیوی کی خود دَس سال تک تیمارداری کی تھی۔ بچے پال کر بڑے کر دیے تھے۔
اب وہ فارغ ہو کر ملک سے باہر تعطیلات گزار کر اَپنا دل بہلاتا تھا۔ رضیہ نے تو نیویارک سے باہر کبھی قدم ہی نہیں رکھا تھا۔
پاکستان بھی سالہاسال بعد ہی جانا ہوتا۔ اِس لیے اُس کا جارج کے بیرون ملک دوروں کو دیکھ کر جی للچانے لگا۔
’’مجھے بھی اپنے ساتھ بہاماز لے جاؤ نا ڈیئر!‘‘
روزی نے جارج کے اگلے تفریحی دورے کے بارے میں سن کر اُس سے لاڈ سے فرمائش کر دی۔
’’مائی سویٹ روزی ہنی! اِس سے اچھی کیا بات ہو گی۔ تمہارا خوبصورت ساتھ مل گیا، تو میری تعطیلات کا تو لطف ہی دوبالا ہو جائے گا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ تنہا ملکوں، ملکوں کی سیر کرنے میں وہ مزا نہیں، جو کسی ہمدرد، پُرخلوص دوست کی سنگت میں ہو سکتا ہے۔‘‘
اُس کے بعد سے جارج اور رَوزی نے میکسیکو، ہوآئی، کیلیفورنیا، ایری زونا کی بھی سیریں کی۔
جارج کو خوشی تھی کہ ایک قدرے جوان، صحت مند، خوش مزاج عورت اُس کے ساتھ سفر کرتی ہے۔
وہ اُس کا سامان پیک کرتی، اُس کے کھانے پینے، کپڑے لتے کا خیال رکھتی اور اُسے اپنا خوشگوار ساتھ دیتی تھی۔
جارج اُس کے ٹکٹ، ہوٹل، خورونوش، خریداری کا خرچ اُٹھاتا۔
یوں ضرورتوں کے تبادلے سے دونوں کی زندگیوں کے چند دن پہلے سے بہتر گزر جاتے۔ روزی بہت خوش تھی۔ جارج بہت سیدھا سادا اِیمان دار آدمی تھا۔
اُسے کبھی کبھار لگتا، وہ کوئی خوب دیکھ رہی ہے۔ کہاں اُس کی اپنے نکھٹو سیالکوٹی، ڈینگیں مارنے والے شوہر کے ساتھ بِتائی ہوئی ساکن اور بدبودار پانی جیسی زندگی اور کہاں یہ میلے اور سیرسپاٹے۔
روزی کے بڑے بیٹے کی شادی ہو گئی، تو بہو کے آنے سے گھر کچھ تنگ تنگ سا لگنے لگا۔
’’کیوں نہ یہ اپارٹمنٹ اِن دونوں بچوں کو ہی دے دوں اور خود؟‘‘
وہ گہری سوچ میں پڑ گئی۔ اب اُسے اپنے اور چھوٹے بیٹے کے بارے میں کچھ سوچنا تھا۔
شیخ طفیل روتا پیٹتا پاکستان واپس چلا گیا تھا۔ وَہاں جا کر رشتےداروں کے آگے بیوی کی بےوفائیوں کا رونا رو کر ہمدردیاں سمیٹ رہا تھا، مگر رضیہ کو اب اُس کی کوئی پروا نہ تھی۔
اُس کی نظر ایک روشن پُرتحفظ، معاشی طور پر مستحکم، مستقبل کی طرف تھی۔ گئے دنوں کی یادوں سے اُس نے آسانی سے پیچھا چھڑا لیا تھا۔ بےوجہ کی غیرت اور اَنا کا اِس وقت اُس کے لیے کوئی مصرف نہ تھا۔
جارج کے لیے روزی اتنی اہم ہو چکی تھی کہ اب وہ اُس کے بغیر اپنی زندگی کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا تھا۔
روزی آتی، اُس کا اپارٹمنٹ صاف کرتی، کھانے پینے کی نگرانی کرتی، وقت پہ دوائیاں دیتی، تو جارج خوشی سے نہال ہو جاتا۔
’’کیوں نہ اِس پیاری سی پُرخلوص عورت کو مستقلاً اپنے ساتھ رکھ لوں۔ اِسے شریکِ حیات بنا کر باقی ماندہ زندگی کے لمحات آرام سے گزار دُوں؟‘‘
اُس نے ایک روز سوچ کر روزی سے بات کی اور گھٹنوں پہ بیٹھ کر اُس سے اُس کا ہاتھ مانگنے لگا۔
روزی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
اُس نے جارج کو اپنی حقیقی محبت کا یقین دلا کر اُس کی شریکِ حیات بننے کی حامی بھر لی۔
روزی کے بچوں نے ماں کو ایک بار پھر سفید لباس میں پھولوں کا گلدستہ پکڑے دیکھا، تو خوشی سے باغ باغ ہو گئے۔
’’امی نے ساری عمر محنت کی اور ہمارے لیے قربانیاں دی ہیں۔ اُنھیں خوش ہونے کا پورا پورا حق ہے۔‘‘
بچوں نے ماں کو نیک خواہشات اور تمناؤں سے نواز کر اُس کا جی بڑا کر دیا۔
جارج کے اپارٹمنٹ میں گو کہ کافی اچھی اچھی چیزیں، فرنیچر، ڈیکوریشن پیس تھے، مگر اب کی بار رَوزی کا جی چاہتا تھا کہ وہ اِس گھر کو اَپنے ہی انداز سے ترتیب دے اور سجائے بنائے۔
اللہ نے اُسے اتنا پیارا مکان دے دیا تھا جو اُس کے پرانے تہ خانے والے اپارٹمنٹ کے سامنے کسی محل سے کم نہ تھا۔
ایک روز اُس کی پرانی ہم پیشہ ساتھی جمیلہ اُسے ملنے آئی،
رضیہ نے اُس کے سامنے اپنے شوہر سے اٹھلا کر فرمائش کی:
’’جارج ہنی! تمہاری نئی بیوی پرانے باورچی خانے میں خوش نہیں۔ مجھے سارا باورچی خانہ نئے سرے سے تیار کروا کے دو۔‘‘
’’کیوں ہنی! اِس باورچی خانے میں کیا خرابی ہے؟‘‘
جارج نے بھولپن سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔ بس مجھے نئے انداز کے کوکنگ رینج، مائیکرووئیو اووَن، ڈش واشر اور گاربیج ڈسپوزل چاہیے۔‘‘ روزی نے پیار سے جارج کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔
’’او کے جیسی تمہاری خوشی سویٹ ہارٹ!‘‘
جارج نے اپنی چھڑی سے سہارا لے کر کھانے والی میز سے اُٹھتے ہوئے جواب دیا۔ رضیہ لپک کر آگے بڑھی اور اُسے سہارا دَیتے ہوئے مصنوعی غصّے سے بڑبڑائی:
’’ہنی! خود کیوں اُٹھنے کی کوشش کرتے ہو؟ مجھے کہہ دیتے۔ آخر مَیں کس لیے ہوں؟‘‘
جارج کی آنکھوں میں تشکر اور پیار سے آنسو آ گئے۔ کتنا پیار کرتی تھی روزی اُس سے۔
’’سنو جیمی!‘‘ اُس نے جمیلہ کو مخاطب کیا :
’’کیا تمہارے ملک کی سبھی لڑکیاں اتنی اچھی ہوتی ہیں؟
نہیں نہیں میرا خیال ہے ،بہترین لڑکی میرے ہی حصّے میں آ گئی ہے، ہے نا۔‘‘ جارج قہقہہ مار کر ہنسا۔
’’یقیناً، یقیناً جارج! روزی جیسی لڑکی تو واقعی پورے پاکستان میں نہیں۔‘‘ جمیلہ نے دانت پیستے ہوئے مسکرا کر جواب دیا۔
’’حرام زادی!‘‘ اُس کے دل سے ایک آواز نکلی جسے اُس نے بڑی مشکل سے دبا کر خاموش کیا۔
’’دیکھو ! اب یہ باورچی خانے پہ پیسہ لگانا چاہتی ہے۔ ٹھیک ہے یہ میری محبوبہ ہے۔ مَیں کماؤں اور یہ خرچ کرے، یہی میری خوشی ہے۔‘‘ جارج ہنسنے لگا۔
’’چلو جارج! گاڈ کو یاد کرنے کا وقت ہو گیا۔‘‘
روزی نے جارج کو کرسی پہ بٹھا دیا اور اُسے﷽ اور کلمہ شریف سکھانے لگی۔
جمیلہ حیرت زدہ ہو کر بوڑھے یہودی کو خوشی خوشی کلمہ پڑھتے دیکھنے لگی۔
تھوڑی دیر میں اجازت لے کر رخصت ہو گئی کہ اُسے جا کر اپارٹمنٹ نمبر ۹ کی گریس کو نہلانا اور سیر پہ لے جانا تھا۔ راستے بھر وہ سوچتی رہی، دس سال سے مَیں بھی اِس بوڑھوں کی بستی میں کام کر رہی ہوں، مجھے تو کبھی اتنی عقل نہ آئی۔
مَیں بھی اپنا مستقبل بہتر بنا سکتی تھی۔ ویسے مَیں اتنی بڑی بڑی چھلانگیں لگا بھی کیسے سکتی ہوں؟ ایک شریف سا شوہر اور پانچ بچے میرے قدموں کی زنجیر جو ہیں۔
روزی کی عقل مندی کی وہ پورے دل سے قائل ہو چکی تھی۔
جارج سے شادی کے بعد سے اقبال بھائی کا کوئی فون آیا اور نہ ہی اُن کی طرف سے کوئی خیر خبر ملی۔
ایک روز رضیہ جارج کو کھلا پلا، سُلا کر چند گھنٹوں کے لیے بھائی اور اُس کے کنبے سے ملنے کوئنز چلی گئی۔ پیلی پھول دار سکرٹ اور میچنگ میرون ٹائٹس پہنے جب رضیہ بھائی جان کے گھر پہنچی، تو وہ اَور اَہلِ خانہ مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے۔
بھائی کا اکلوتا بیٹا فیاض مین ہٹن میں اپنے ذاتی اپارٹمنٹ میں تنہا ہی رہتا تھا۔ گھر پہ صرف بھائی، بھابھی اور اُن کی دونوں بیٹیاں موجود تھیں۔
’’آج کیسے ہماری یاد آ گئی؟‘‘ بھابھی نے چائے کی پیالی پیش کرتے ہوئے رضیہ سے گلہ کیا۔
’’اچھا! آپ لوگوں نے کون سی کبھی میری خبر لی ہے کہ مَیں زندہ ہوں یا مر گئی؟‘‘
’’پھوپھو! شادی کی مبارک ہو۔‘‘ بھتیجیوں نے اُسے گلے لگا کر مبارک باد دِی اور پھر اُوپر اپنے کمروں کی طرف چلی گئیں۔
’’رضیہ! تم نے پھر ہماری ناک کٹوا دِی ۔‘‘
منہ پھلاتے ہوئے بھائی جان پھٹ پڑے۔ پھر سارے برانکس کی پاکستانی کمیونٹی باتیں بنا رہی ہے۔ اگر تمہیں شادی ہی کرنا تھی، تو کسی اہلِ ایمان مسلمان سے کر لیتیں۔
اسلام میں نکاح کو پسند کیا جاتا ہے۔ ہم جانتے ہیں یہ حلال کام ہے ۔ہم سمجھتے ہیں، مگر۔‘‘
’’بھائی جان! آپ جانتے تو ہیں شیخ صاحب نے مجھے کبھی ایک دھیلا بھی کما کر نہیں دیا تھا۔
کتنے برسوں سے مَیں بوڑھوں کی نگرانی کر کے اپنے خاندان کو پال رہی ہوں، تو کیا اب مجھے کوئی حق نہیں کہ مَیں اپنے لیے کوئی آسانی تلاش کروں۔‘‘ روزی پھر بولنے لگی۔
’’لیکن جیسی سے شادی بھی تو تم نے اِسی مقصد کے لیے کی تھی۔‘‘ بھائی جان گرجے۔
’’تو بھائی جان ایک اپارٹمنٹ ہی تو ملا تھا۔ وہ مَیں نے بڑے بیٹے اور اُس کی بیوی کو دے دیا ۔آپ کو تو پتا ہے ۔اب کیا چھوٹے سہیل کے لیے کچھ نہ کروں۔
آخر کو مَیں اُس کی بھی ماں ہوں ۔ابھی سہیل کے کالج کے لیے جارج نے ایک لاکھ ڈالر فیس جمع کروائی ہے ۔پھر یہ والا گھر بھی تو سہیل کے لیے ہی ہو گا اور۔‘‘
’’لیکن رضیہ! تم جانتی ہو یہودی ہمارے دشمن ہیں۔ کچھ بھی ہو ۔ہمیں بھولنا نہیں چاہیے۔‘‘ بھابھی نے لقمہ دیا۔
’’آخر فرق کیا ہے یہودیوں اور مسلمانوں میں؟ دونوں اہلِ کتاب ہیں۔ اللہ کو مانتے ہیں۔ جارج اتنا اچھا، اتنا ایمان دار مخلص آدمی ہے۔
پاکستانیوں کی طرح بےایمان اور جھوٹا نہیں۔ مجھے ایک اچھا آدمی مل گیا ہے۔ کیا آپ لوگوں کو اِس بات کی کوئی خوشی نہیں؟‘‘
’’ہاں مگر یہودی!‘‘ اب کے بھائی جان کے آنسو نکل پڑے۔
’’بھائی جان! کبھی سینا گاگ جا کر یہودیوں کے ربی (Rabbi) کا خطبہ سنیں۔ مَیں گئی تھی جارج کے ساتھ ایک روز۔
وہ کہہ رہا تھا ہیرو کون ہوتا ہے؟ہیرو وُہ ہوتا ہے جو دُشمن کو اَپنا دوست بنا لے ۔ اُن کی تعلیمات اسلام سے قطعاً مختلف نہیںبھائی جان!‘‘
رضیہ اپنی بات پہ ڈٹی رہی۔
’’آپ تالمود پڑھ کر تو دیکھیں۔ویسے بھی جارج کو تو مَیں نے مسلمان کر لیا ہے۔‘‘
’’ہائے اللہ! یہ تو یہودن ہو گئی ہے۔‘‘ بھابھی نے دانتوں تلے انگلی داب لی۔
’’وہ یہودی ہے۔ یاد رَکھو اپنا فائدہ ہی سوچا ہو گا اُس نے۔‘‘ بھائی جان بحث کرنے لگے۔
’’تو اگر کسی کا بڑھاپا سنور جائے اور میری آئندہ زندگی کے لیے میرے پاس پیسہ آ جائے، تو سودا برا کیسے ہوا؟ اِس دنیا میں سودےبازی تو چلتی ہی ہے بھائی جان!‘‘
رضیہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’آپ اتنے ڈالر کماتے ہیں بھائی جان۔ کبھی آپ نے میرے تنگ و تاریک گھر کے بارے میں سوچا تھا؟ جہاں مَیں ایک نکمے شوہر کے ساتھ زندگی گزار رَہی تھی۔‘‘ رضیہ نے وہی پرانی بات دہرائی۔
’’جھلیے! مَیں تو یہ بھی سوچ رہا تھا کہ جارج کے بعد شیخ صاحب کہیں واپس تیرے پاس نہ آ جائیں اور آ کر تیری جائیداد پہ قبضہ نہ کرلیں۔‘‘ بھائی جان نرم پڑتے ہوئے بولے۔
’’شیخ طفیل؟ توبہ کریں بھائی جان ۔وہ میرے پیسے پہ ہرگز کوئی حق نہیں رکھتا ۔آپ میری فکر نہ کریں۔ جارج کے جانے کے بعد مَیں یہ والا اپارٹمنٹ سہیل بیٹے کو دے دوں گی۔‘‘
’’اور خود کیا کرو گی؟‘‘ بھابھی نے سوال کیا۔
’’میری فکر نہ کریں۔ عمارت مال دار بوڑھوں سے بھری ہوئی ہے۔ آپ کو پتا ہی ہے میرے اخلاق کے تو سب دیوانے ہیں۔ آپ کو میری فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ روزی ہنسنے لگی۔
’’اچھا مَیں چلوں۔ جارج کے کھانے کا وقت ہو رہا ہے۔‘‘
روزی نے مطمئن مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور اَپنی خوبصورت پیلی سکرٹ کی کریزیں درست کرتی ہوئی جانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles