30 C
Lahore
Saturday, July 27, 2024

Book Store

رہِ نوردی

 

ایک باپ کا خط ‘ بیٹی کے نام ( ۱)
میری پیاری سونا!
کہتے ہیں کہ جو لوگ اللہ میاں کے پاس چلے جاتے ہیں وہ پھر اِس جہان والوں کو مخاطب کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ میری بیٹی میں بھی اب صدا نہیں دے سکتا ۔ لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جو میں فقط اس آس پہ کہنا چاہتا ہوں کہ شاید تم سن سکو ۔ تم تک میری آواز پہنچ جائے ۔
میری بیٹی !
تم وہ اولاد تھی جو میری زندگی میں بہار بن کے آئی ۔ تمھارے آتے ہی ہم نے خوش حالی کی دستکیں سنیں ۔ میں نے محسوس کیا تم سونا ہو وہ سونا جو پیتل نہیں ہو سکتا کبھی ۔ ہمیشہ خالص رہنے والا سونا ۔
تم میری لاڈلی بیٹی ہو ۔ جو اصول میں نے کسی کے لیے نہیں توڑے وہ تمھارے لیے توڑ ڈالے تھے ۔ میں نے تمھاری بلند پروازی پہ ہمیشہ فخر کیا ۔ تمھاری ذہانت پہ میرا سر فخر سے تن جاتا ۔ تم میری وہ ٹرافی تھی جسے میں نے بہت سنبھال کے رکھا اور ہر ایک سے تذکرہ کیا کہ میرا میڈل میری سونا ہے ۔
میری پیاری !
بابا تمھارے آنسو کبھی بھی نہیں دیکھ سکتے ۔ انھیں تکلیف ہوتی ہے ۔ تم کبھی مت رونا میں نے ہمیشہ تمھیں دعائیں دی ہیں ۔ تم ہمیشہ میرے دل کی ٹھنڈک رہی ہو ۔ میری دستِ راست مجھے مشورے دینے والی میری شہزادی ۔
تمھیں یاد ہے بابا نے تم سے کہا تھا تمھاری قدر صرف بابا جانتے ہیں ۔ میری شہزادی بابا کو تمھاری قدر ہے پہلے بھی تھی آج بھی ہے ہمیشہ رہے گی ۔
کبھی خود کو اکیلا مت سمجھنا ۔ تمھارے بابا کی دعائیں ہمیشہ تمھارے ساتھ ہیں ۔ بہن بھائیوں سے درگزر کا رشتہ رکھنا ۔ وہ سب چھوٹے ہیں ۔ میں جانتا ہوں تم خود کو کمزور محسوس کرنے لگی ہو ۔ لیکن میری پیاری میں نے تمھیں چٹان بن کے رہنا سکھایا تھا ۔
اگر تمھارے عزم حوصلے اور ہمت میں کمی آئے گی تو مجھے بے حد تکلیف ہوگی ۔ کیا تم اپنے بابا کو تکلیف میں دیکھنا چاہو گی ؟؟
یاد رکھنا !
زندگی میں ہر شخص اپنی ذات کے گنبد میں تنہائی کا شکار ہے ۔ ایک جنگ انسان حق و باطل کی لڑتا ہے اور ایک جنگ اپنے اندر کی ہوتی ہے ۔ جو جنگ خود سے لڑی جاتی ہے اسکا سپہ سالار بن کے جنگ جیتنی پڑتی ہے ورنہ پچھاڑے جانے کی اذیت تمام عمر جان نہیں چھوڑتی ۔
میری پیاری بیٹی ! دنیا میں اتار چڑھاؤ زندگی کا حصہ ہیں ۔ خود کو جذباتی طور پہ کمزور کرنے سے انسان کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں جو دل کو اداس کر دیں ان سے صرفِ نظر کر کے آگے بڑھنا سیکھو ۔ سفر اہم ہے ۔ چلتے رہنا ضروری ہے ۔ یاد ہے علامہ فرماتے ہیں
تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
تو بس یہ رہ نوردی اہم ہے ۔ جس راستے پہ چلو اپنے نشان چھوڑ جاؤ ۔ میری بچی ! راہنما بننے کے لیے دل کو مضبوط اور ظرف کو وسیع اور حوصلوں کو بلند رکھنا ضروری ہے ۔
اپنے آس پاس اگر بے حسی کی چادر میں لپٹے وجود دیکھو تو اداسی کی بجائے یہ سوچنا کہ اللہ نے تمھیں حساس دل کا مالک بنایا یہ اسکا احسان ہے ۔ سبھی انسانوں پر اسکا یہ فضل نہیں ہوتا ۔ لہذا اس بات کو دکھ کا مقام سمجھنے کی بجائے شکر کا ذریعہ سمجھو ۔
تم جہاں بھی رہو گی جہاں بھی جاؤ گی تمھارے بابا کی دعائیں ہمیشہ تمھارے ساتھ ہیں ۔
ہمیشہ خوش رہو ۔
والسلام
تمہارے بابا

پیاری دوستو !
کچھ وقت ادھر ہم نے خطوط لکھنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا ۔
یہ خطوط ہمارے والدِ محترم کی ہم سے کی گئی انکی تمام عمر کی نصیحتیں تھیں ۔ زندگی کے ہر مرحلے پہ جب ہم ہمت ہارنے لگتے ہیں ہمارے کانوں میں مرحوم والد کی آوازیں گونجتی ہیں انکے ہمت بھرے جملے ہمارے کاندھے تھپتھپاتے ہیں ۔ اور ہم اپنے عزم اور حوصلے کو بلند کر کے دوبارہ اسی جوش اور جذبے سے جُت جاتے ہیں ۔
ہمارے والد کا شمار ان والدین میں سے تھا جو شاہین کی طرح اپنے بچے کو پہاڑ کی چٹان پر سے گرا کر انکو اپنے پر کھولنے کا حوصلہ دینے والوں میں سے ہوتے ہیں ۔
انکا لاڈ اور پیار فقط یہ تھا کہ خود اڑو ۔ وہ اڑنے کے لیے ہمیں حوصلہ دے سکتے تھے ۔ ہمت بندھا سکتے تھے لیکن اڑانے میں کوئی مدد نہ کرتے اس وقت وہ آنکھیں ماتھے پہ رکھ لیتے ۔
اور ہم غصے سے ایسی اڑان بھرتے کہ خود ہمیں بھی یقین نہ آتا ۔ کہ ہم اس قدر بلند پرواز بھر چکے ہیں ۔
بے جگری ، بے خوفی ، نڈر اور بے باکی سے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا انھوں نے سکھایا ۔
انکی زندگی میں ہم چیتے کا جگر رکھتے ۔ انکی موت سے لگا ہم کمزور ہو گئے ۔ لیکن انکی آواز کانوں میں گونجتی ۔
جھکنا مت ۔
ڈرنا نہیں ۔
اصولوں پہ ڈٹ جاؤ تو سر کٹوا لینا ۔
اپنا وعدہ نبھانا ۔
اپنی زبان سے کبھی مت پھرنا ۔
اور ہم اسی جوش اور جذبے سے آگے بڑھتے ۔
ان خطوط میں اگر کچھ اچھی باتیں ہیں تو وہ بابا کی کہی گئی ہیں ۔ اگر کچھ کمزوریاں ہیں تو وہ میری ذات کی ہیں ۔
اگر آپکو ان سے کوئی فائدہ ہوتا ہے تو میرے والد کی مغفرت کے لیے دعا کر دیجیے گا ۔
ان خطوط کو بہت سی بہنوں نے سراہا ۔ کئی بہنوں نے اپنی پیاری بچیوں کو جہیز کے تحفے کے طور پہ یہ خطوط دئیے ۔ کئی بہنوں نے ان کو پڑھ کر مجھ سے رابطہ کر کے اپنے دلوں کے حال سنائے ۔
ان خطوط نے بہت عزت دی حالانکہ یہ فقط اپنی یاد دہانی کے لیے لکھے گئے تھے ۔ مجھے لگتا میری اولاد کو کون بتائے گا کہ زندگی کیسے گزارنے کی ضرورت ہے ؟؟
انکے نانا دنیا سے جا چکے ۔ وہ نانا جو تب تک تحمل سے سمجھایا کرتے جب تک کسی بات کو عادت ثانیہ نہ بنا لیتے ۔
جزاک اللہ خیرا
سمیرا امام

 

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles