30 C
Lahore
Saturday, July 27, 2024

Book Store

qatil kon tha| قاتل کون تھا؟|Maqbool Jahangir| jack the ripper


قاتل کون تھا؟

مقبول جہانگیر

یہ ۳۱؍اگست ۱۸۸۸ء کی ایک سرد اَور تاریک رات کا ذکر ہے۔ لندن گہری کُہر کے کفن میں لپٹا ہوا موت کی نیند سو رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے گھڑیال نے اپنی بھیانک آواز میں تین بجائے تھے۔
وائٹ چیپل کے علاقے میں یہ کُہر کچھ زیادہ ہی شدید تھی۔ سنسان تنگ گلیوں میں جابجا گیس سے جلنے والے ہنڈوں کی روشنی ہر لمحہ دم توڑ رہی تھی۔
ایک ہیبت ناک سنّاٹا ہر طرف مسلّط تھا۔ مکانوں کے دروازے سختی سے بند تھے۔ کھڑکیوں میں سے روشنی کی کوئی کرن باہر جھانکتی نظر نہ آتی تھی،
البتہ کئی اونچے مکانوں کی سال خوردہ چمنیوں سے ہلکا ہلکا دھواں ضرور خارج ہو رہا تھا
جو اِس بات کی خبر دیتا تھا کہ اِن مکانوں کے اندر آتش دانوں اور
باورچی خانوں میں ابھی تک آگ بھڑک رہی ہے۔

jack the ripperقاتل کون تھا
jack the ripper
www.shanurdu.com
Maqbool Jahangir
قاتل کون تھا

یہ لندن کا بدنام ترین حصّہ ایسٹ اینڈ تھا۔ نچلے طبقے کے لوگوں کی گھنی اور گندی آبادی جس میں اسّی ہزار طوائفیں بھی اپنا گھناؤنا کاروبار کرتی تھیں۔
ایسٹ اینڈ ….. جہاں سے شریف آدمی کا صحیح سلامت گزر جانا محال تھا۔ گھٹیا شراب خانوں، جوئےبازی کے ادنیٰ اور پُراسرار اَڈوّں اور غنڈوں کی آماجگاہ۔
یہ اِسی ایسٹ اینڈ کی ایک تاریک اور سرد رَات تھی جو
آج بھی تقریباً ۱۳۵ برس گزر جانے کے بعد لندن والوں کو یاد ہے۔

شراب خانے رات کا بیشتر حصّہ بِیت جانے کے باعث بند ہو چکے تھے۔
نشے میں بدمست اور بےحال گاہگ گرتے پڑتے اور
ایک دوسرے کو فحش گالیاں بکتے اپنے اپنے ٹھکانوں کو جا چکے تھے،
لیکن ریڈگوز کے شراب خانے میں سے ابھی تک قہقہوں اور باتوں کا شور اُبل رہا تھا۔
آوازیں عورتوں کی تھیں۔ جسم فروخت کرنے والی عورتیں …..
بےحیا اور شراب کی رسیا طوائفیں جن کے جسموں سے گندے پیپ بھرے پھوڑوں کی بُو اٹھتی،

ریڈگوز کے تاریک اور سیلے ہوئے لکڑی کے فرش اور جا بجا پڑی ہوئی بوسیدہ کرسیوں اور بینچوں پر لیٹی، بیٹھی آپس میں چُہلیں کر رہی تھیں۔
یہ روز کا معمول تھا اور اِس میں کبھی فرق نہ آتا۔

ریڈگوز کے بڑے دروازے کے ساتھ ہی تاریک اور کسی قدر محفوظ گوشے میں
ایک شخص اپنے گھٹنے پیٹ سے لگائے اور سڑا ہوا کمبل اوڑھے اطمینان کی نیند سو رہا تھا۔
بےچارہ مداری تھا۔ دن بھر مختلف گلیوں اور بازاروں میں بندر کا تماشا دکھا کر لوگوں سے پیسے بٹورتا اور
شام کو آ کر یہ ساری رقم شراب اور جُوئے کی نذر کر دیتا۔
اُس کا پالتو بندر قریب ہی بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم تھا۔
بندر نے دائیں ہاتھ میں ٹین کا ایک چھوٹا سا ڈبا تھام رکھا تھا۔ مداری نے اپنے بندر کو بھیک مانگنے کی عادت خوب سکھائی۔
جب مداری شراب کے نشے میں مست ہو کر فرّاٹے بھرنے لگتا، تو بندر اَپنی ڈیوٹی سنبھال لیتا۔
ریڈگوز کے دروازے سے نکلنے والی طوائفیں اور بدمعاش جونہی بندر کو نظر آتے،
وہ نہایت عاجزی سے ٹین کا ڈبا آگے بڑھا دیتا اور
کوئی  اُس کے ڈبے میں چھوٹا سا سکّہ ڈال دیتا۔
اُس رات بھی بندر اُمید بھری نظروں سے ریڈگوز کے دروازے کو گھور رَہا تھا۔
اُسے خوب معلوم تھا کہ شراب کا ایک پوّا خریدنے کے لیے اُس کے ٹین میں کتنے سکّے ہونے چاہئیں۔
مداری نے اپنی طرح اُسے بھی شراب کا عادی کر دیا، لیکن مصیبت یہ تھی کہ
بندر کو اَپنی شراب کے لیے پیسے بھی خود ہی جمع کرنے پڑتے۔
جونہی اُس کا ڈبا سکّوں سے خاصا وزنی ہو جاتا، وہ خوشی سے اچھلتا کودتا شراب خانے میں گھس جاتا۔
شراب خانے کا مالک، کاؤنٹر پر کام کرنے والا بارمین اور سارے شرابی بندر کو جانتے پہچانتے تھے۔
بندر عادت کے مطابق کاؤنٹر پر ڈبا الٹ دیتا، سکّے چھن چھن کر باہر گرتے،
بارمین اُنھیں گِن کر صندوقچی میں ڈالتا۔
الماری میں سے ایک چھوٹی بوتل نکال کر بندر کو تھما دیتا،
بندر وَہیں بیٹھے بیٹھے اُسے منہ سے لگاتا اور خالی کر کے چل دیتا۔

یکایک ریڈگوز کا دروازہ دَھماکے سے کھلا، روشنی کی چند کرنیں دروازہ کھلتے ہی آزاد ہوئیں اور
کُہر کا سینہ چیر کر دور تک پھیل جانے کی ناکام کوشش کرنے لگیں۔
پھر کسی شخص نے گالی دے کر دروازہ بند کیا۔ بندر مستعد ہو کر بیٹھ گیا۔
شراب خانے سے نکلنے والی ایک دبلی پتلی ادھیڑ عمر کی طوائف تھی۔
اُس کے قدم لڑکھڑا رَہے تھے۔ وہ عالمِ سرمستی میں اپنے آپ سے اٹھکیلیاں کرتی اور
اَپنی بھّدی آواز میں کوئی بےہودہ گانا گاتی سیدھی اِس طرف آئی جدھر مداری پڑا سوتا تھا۔
بندر دَوڑ کر اُس کے نزدیک گیا اور خوشامدانہ انداز میں ٹین کا ڈبا آگے بڑھا کر خوخیانے لگا۔

’’چل حرام زادے ….. بدمعاش …..‘‘
طوائف نے خوش دلی سے بندر کو گالیاں دے کر اپنا پرس بغل سے نکال کر ہاتھ میں لیا۔
’’اُلو کا پٹھا ….. روز پیسے مانگتا ہے جیسے اِس کے باپ کا مال ہے۔‘‘
اُس نے ایک سکّہ ڈبے میں ڈال دیا اور آگے بڑھی۔ یک لخت اُس کا پیر سوئے ہوئے مداری سے ٹکرا گیا۔
عورت گرتے گرتے بچی اور پھر اُس کے منہ سے شرمناک گالیوں کا بےپناہ سیلاب امڈ پڑا۔
اُس نے مداری کے ایک ٹھوکر رسید کی، مگر وہ نشے میں دھت بےخبر پڑا تھا۔ اُس نے اِس ٹھوکر کا کوئی اثر نہ لیا۔

’’حرامی کے پلّے ….. سؤر ….. راستے میں سو جاتے ہیں پڑ کر ….. جیسے اِن کی ماں …..‘‘
گالیوں کی رفتار بڑھتی ہی گئی۔ عورت پر ٹھنڈی ہوا اَپنا اثر دکھا رہی تھی۔
اُس نے اپنے جسم کے گرد جھولتا ہوا پرانا کوٹ اچھی طرح لپیٹنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہی۔
چند لمحے تک ایک اندھی گلی میں ٹھوکریں کھانے کے بعد وہ کسی قدر اُجالے میں پہنچی۔
اب وہ آپ ہی آپ ہنس رہی تھی۔ بےمعنی ہنسی …..
اُس نے محسوس کر لیا تھا کہ قدم لڑکھڑا رہے ہیں، چنانچہ وہ سنبھل سنبھل کر پیر رکھنے لگی۔
مکان نزدیک آ گیا تھا۔ بس سامنے گلی کا موڑ مڑتے ہی وہ اَپنے گھر میں پہنچ جائے گی۔

یکایک وہ ایک کھمبے سے ٹکرا گئی۔ کھلا ہوا پرس اُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گیا۔ سکّے بکھرنے کی آواز اُس کے کانوں میں پہنچی۔

’’یہ کیا ہوا؟‘‘ اُس نے اپنے آپ سے پوچھا۔ ’’یہ کم بخت کھمبا اُن بدمعاشوں کو یہیں لگانا تھا۔‘‘
محکمے والوں کی شان میں قصیدہ پڑھنے کا ارادہ ملتوی کر کے وہ زمین پر بیٹھ گئی اور
اَندھوں کی طرح سکّے ٹٹول ٹٹول کر اَپنے پرس میں ڈالنے لگی۔
سکّے اٹھانے کے بعد جب وہ اُٹھ کر کھڑی ہونے لگی،
تو اُس کی ٹانگوں نے حرکت کرنے سے انکار کر دیا۔
سہارا لینے کے لیے اُس نے کھمبے کو پکڑ لیا اور
ہمت کر کے اٹھنے ہی والی تھی کہ اُس کے کانوں میں ایک گہری سرد آواز آئی:

’’میری کلارک!‘‘

بدنصیب عورت نے نظریں اٹھا کر پکارنے والے کی طرف دیکھا۔
فرطِ خوف سے اُس کا کلیجا تھرا گیا اور نبضیں ڈوبنے لگیں۔ تین قدم کے فاصلے پر سیاہ لبادے میں لپٹا ہوا ایک طویل قامت شخص کھڑا تھا۔
چمک دار، سرخ آنکھوں کے سوا جس کا کوئی حصّہ کھلا نہ تھا۔
اُس کے ہاتھوں پر بھی سیاہ دستانے چڑھے ہوئے تھے
جن میں چاندی کی مانند کوئی شے عورت کو چمکتی نظر آتی تھی۔
وہ پتھر کے بےجان بُت کی مانند آدھی بیٹھی اور آدھی کھڑی اُس شخص کی طرف گھورنے لگی۔

’’کیا تم میری کلارک ہو؟‘‘

اِس مرتبہ اجنبی کی آواز میں کچھ ایسا تحکم اور دَبدبہ تھا کہ
شراب کے نشے میں مدہوش عورت کانپنے لگی۔
اُس نے جسم کی پوری قوت جمع کر کے کھمبے کا سہارا لیا اور اُٹھنے کی کوشش کی۔ مگر اُس کی ٹانگیں بری طرح کانپ رہی تھیں اور گردن جھٹکے کھا رہی تھی۔
اُس نے خوف دور کرنے کی بھی سعی کی،
لیکن اجنبی کی سرخ چمک دار بھیڑیے جیسی آنکھوں سے آنکھیں ملاتے ہی اُس کی ریڑھ کی ہڈی میں سردی کی ایک لہر دوڑ گئی۔
اب وہ دِیوار کے ساتھ پشت لگائے لرز رہی تھی۔ اجنبی اپنی جگہ بےحس و حرکت کھڑا تھا۔
اُس کے ہونٹ پھر کھلے اور اِس مرتبہ اُس نے ایک قدم آگے بڑھ کر سرگوشی کے انداز میں کہا:

’’بولو، کیا تم ہی میری کلارک ہو؟‘‘

طوائف مسکرائی۔ وہ سمجھ گئی کوئی گاہک ہے، لیکن بےوقت آیا ہے۔ اب وہ کاروباری لہجے میں اُس سے بولی:

’’میرا نام میری کلارک نہیں ہے، مگر آؤ مَیں تمہیں ساتھ لیے چلتی ہوں …..
کتنے پیسے ہیں تمہاری جیب میں؟‘‘ اُس کی مسکراہٹ ہنسی میں بدلنے ہی والی تھی کہ
اجنبی کے ہاتھوں میں ایک لمبا چمک دار خنجر دیکھ کر سہم گئی۔
وہ ایک قدم اور آگے بڑھا اور اِس سے پہلے کہ طوائف کے حلق سے چیخ نکلے،
اُس کا بایاں فولادی پنجہ عورت کے گلے میں گڑ چکا تھا اور
دَائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا خنجر آہستہ آہستہ اُس کی شہ رگ کے نزدیک آتا جا رہا تھا۔
عورت کے دانت سختی سے بھنچ گئے۔
منہ سے گرم گرم خون کی ایک پتلی سی دھار بہہ نکلی۔ انتہائی تیزدھار وَالا خنجر اُس کی گردن کاٹ چکا تھا۔
خون میں نہائی ہوئی طوائف نے آخری بار اَپنے قاتل کی طرف دیکھا۔
اُس کی آنکھوں کی چمک میں بےپناہ اضافہ ہو گیا تھا اور
پتلے پتلے بھنچے ہوئے ہونٹوں پر سفّاکانہ مسکراہٹ پھیل رہی تھی۔ دوسرے ہی لمحے طوائف کی روح جسم کے پنجرے سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہو گئی۔

jack the ripperwww.shanurdu.com
Maqbool Jahangir
jack the ripper
www.shanurdu.com
Maqbool Jahangir

واردات کے کچھ دیر بعد گشتی سپاہیوں کی ایک ٹولی اُدھر سے گزری،
تو اُنھوں نے طوائف کی لاش پڑی پائی۔ وہ اَپنے ہی خون میں نہائی ہوئی تھی۔
گردن دھڑ سے تقریباً علیحدہ ہو چکی تھی، پیٹ چاک تھا اور اَنتڑیاں اِدھر اُدھر بکھری ہوئی تھیں۔
ایسا معلوم ہوتا تھا قتل کرنے کے بعد قاتل نے ایک قصّاب کی طرح اپنا خنجر لاش سے آزمایا اور
اُس کی بوٹی بوٹی الگ کرنے کی کوشش کی ہے۔
اُس نے دونوں گردے ایک ماہر سرجن کی طرح گویا آپریشن کر کے باہر نکال دیے تھے اور
دِل چیر کر ایک جانب پھینک دیا تھا۔

قتل کی یہ پہلی واردات تھی جو جیک دی رپّر نے ایسٹ اینڈ کے علاقے میں کی اور
پھر دو ماہ کے اندر اَندر یکے بعد دیگرے مزید چار طوائفیں اِس بھیانک اور وَحشیانہ انداز میں
موت کے گھاٹ اتار دِی گئیں۔
اِس دوران میں قاتل کو کسی شخص نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔
پولیس کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود وُہ گرفتار نہیں کیا جا سکا اور
آج تک یہ معمّہ لاینحل ہے کہ
ایسٹ اینڈ کے علاقے میں ادھیڑ عمر کی پانچ طوائفوں کو قتل کر کے
اُن کی لاشوں کے بخیے ادھیڑنے والا کون شخص تھا؟

اُس کے بارے میں بےشمار کہانیاں مشہور ہوئیں اور لوگوں نے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کیں،
مگر جیک دی رپّر کا کوئی سراغ نہ مل سکا کہ آخر وہ شخص کہاں سے آیا؟ اُس کا حلیہ کیا تھا؟
وہ طوائفوں کو کیوں قتل کرتا تھا؟ ایسی وارداتوں کے پیچھے اصل مقصد کیا تھا اور آخرکار غائب کہاں ہو گیا؟
پُراسرار قاتل نے جو بین الاقوامی شہرت حاصل کی اور جرائم کی دنیا میں ایک ریکارڈ قائم کیااُس کی داستان پولیس کی رپورٹوں اور
اُس زمانے کے بعض مستند لوگوں کے بیانات اور تحقیق کی روشنی میں پیش کی جا رہی ہے۔

جیک دی رپّر کا نام لندن کے لوگ کبھی نہ بھول سکیں گے۔
خصوصاً ایسٹ اینڈ میں رہنے والوں کے سامنے آج بھی اُس کا ذکر کیا جائے،

تو کئی عورتیں دہشت سے کانپنے لگتی ہیں اور

بعض توہّم پرست لوگ اپنے سینوں پر صلیب کا نشان بار بار بناتے ہیں۔
اُن کا خیال ہے کہ جیک دی رپّر کسی اور ہی دنیا کی مخلوق تھی جو

ایسٹ اینڈ کی طوائفوں کو رَاہِ راست پر لانے کے لیے خدا نے بھیجی تھی۔

jack the ripperقاتل کون تھا
jack the ripper
www.shanurdu.com
Maqbool Jahangir
قاتل کون تھا

واقعہ یہ ہے کہ جس زمانے میں یہ وارداتیں ہوئیں، ایسٹ اینڈ کے علاقے میں جتنی بےحیائی اور بدکاری ہوتی تھی، اتنی غالباً پوری دنیا میں مجموعی طور پر کہیں بھی نہ ہوتی ہو گی۔
لوگ کہا کرتے تھے کہ عنقریب کوئی آفت آنے والی ہے اور پھر اِس علاقے کی طوائفوں پر جیک دی رپّر کی صورت میں قہرِ خداوندی ٹوٹ پڑا۔
۳۱؍اگست ۱۸۸۸ء سے ۹ نومبر ۱۸۸۸ء تک کے درمیانی عرصے میں پانچ طوائفیں اُس کے خون آشام خنجر کا شکار ہوئیں اور پورے لندن میں دہشت، سراسیمگی، افراتفری اور اَبتری پھیل گئی۔
طوائفیں یہ علاقہ خالی کر کر کے جانے لگیں۔ بازار اَور دُکانیں سرِشام ہی بند ہو جاتے۔
کوئی شخص اور خصوصاً طوائفیں سورج غروب ہونے کے بعد گھر سے باہر نکلنے کی جرأت نہ کرتیں۔ جیک دی رپّر بھیانک بھوت بن کر اُن کے ہوش و حواس پر چھا چکا تھا۔
ایسا بھوت جسے پکڑنے کے لیے پولیس والوں کی راتوں کی نیندیں اور دِن کا چَین حرام ہو گیا تھا۔

اخباروں نے مقالے، مضامین اور خبریں چھاپ چھاپ کر عوام کو مزید دہلا دیا تھا۔ ہر فرد و بشر اپنے سائے سے بھی بدکنے لگا۔
جیک دی رپّر ….. جیک دی رپّر ….. جدھر جاؤ، جدھر سنو، اُسی کی باتیں، اُسی کا تذکرہ …..
لیکن تعجب یہ کہ کسی ایک شخص نے بھی اِس طویل مدت میں جیک دی رپّر کو نہیں دیکھا۔
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ آدمی تھا یا مجسم شیطان۔
پانچ طوائفوں کی لاشیں جس حالت میں پائی گئیں، اُنھیں دیکھ کر نڈر سے نڈر آدمی کا پِتّہ پانی ہوتا تھا۔
شہ رگ کاٹنے کے بعد وہ دُوسرا وَار لاش کے پیٹ پر کرتا اور پیٹ اُدھیڑ کر نہ صرف آنتیں باہر نکال دیتا بلکہ گردے اور کلیجہ بھی ایک ماہر سرجن کی طرح آپریشن کر کے الگ الگ کر ڈالتا۔
ماہرینِ سرجری کا خیال تھا کہ یہ کام کسی جنونی سرجن کا ہے جو پاگل خانے سے کسی نہ کسی طرح بھاگ آیا ہے اور اَب عورتوں پر اپنے خنجر کی دھار آزما رہا ہے۔

ماہرینِ نفسیات کہتے تھے کہ یہ شخص کسی وجہ سے طوائفوں کا جانی دشمن ہے۔ ضرور اُسے اُن عورتوں کی کسی حرکت کے باعث تکلیف پہنچی ہے۔
ممکن ہے اُس کی دیوانگی میں کسی طوائف کا ہاتھ ہو اَور اَب وہ اُن سے انتقام لے رہا ہو۔
غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں۔
یہ معمّہ روزِ اوّل کی طرح آج بھی حل طلب ہے کہ جیک دی رپّر کون تھا، کہاں سے آیا اور کہاں غائب ہو گیا۔

اُس کا نام جیک دی رپّر کیسے پڑا؟ یہ کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ اُنہی دنوں معلوم ہوا کہ لندن کی سنٹرل نیوز ایجنسی کو ایک پوسٹ کارڈ ملا جس پر ۲۵ ستمبر ۱۸۸۸ء کی مہر لگی تھی۔
اُس خط کے آخر میں جیک دی رپّر کے دستخط تھے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ خط قاتل نے اپنے قلم سے تحریر کیا۔

jack the ripperقاتل کون تھا
jack the ripper
www.shanurdu.com
Maqbool Jahangir

جیک اُس کا اصل نام تھا یا نہیں، اَس کا بھی کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ چونکہ پورے لندن میں یہ قاتل جیک کے فرضی نام سے پکارا جاتا تھا،
اِس لیے ممکن ہے قاتل نے یہی نام کارڈ پر بھی لکھ دیا ہو اور دِی رپّر (The Ripper) اُسے یوں کہا گیا کہ وہ لاشوں کا تیاپانچا کر ڈالتا تھا، چنانچہ اُس کا پورا نام جیک دی رپّر مشہور ہو گیا۔
بہرحال پوسٹ کارڈ لندن کے سبھی اخباروں میں شائع ہوا اَور پولیس نے بھی پوسٹروں کی صورت میں اُس کا مضمون چھاپا اور عوام سے اپیل کی کہ جو شخص اِس خط کے لکھنے والا کا پتا نشان بتائے گا، اُسے بھاری انعام دیا جائے گا، لیکن بےسود۔

خط لکھنے کی وجہ یہ تھی کہ تفتیش و تحقیق کے دوران میں پولیس نے بےشمار لوگوں کو جیک دی رپّر کے شبے میں گرفتار کیا تھا۔
اُن میں اکثر ڈاکٹر تھے اور بعض پیشہ ور قاتل اور لُٹیرے،
بلکہ ایک مرتبہ تو ایک ایسے شخص پر پولیس کو جیک دی رپّر ہونے کا پورا پورا یقین ہو گیا جو واقعی اپنی چال ڈھال اور حرکتوں سے نہایت پُراسرار اَور قاتل نظر آتا تھا اور یہ شخص اتفاق سے سرجن بھی رہ چکا تھا،
چنانچہ جیک دی رپّر کی ’’گرفتاری‘‘ عمل میں لائی گئی، لیکن اگلے ہی روز یہ پوسٹ کارڈ خبر رساں ایجنسی کے ’’باس‘‘ کو مل گیا جس میں جیک دی رپّر نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس نے اب تک جتنے لوگوں کو اِس شبے میں گرفتار کیا ہے، وہ سب بےگناہ ہیں۔
وُہ اَصل جیک دی رپّر پر کبھی ہاتھ نہیں ڈال سکتی وغیرہ وغیرہ۔ اُس خط سے مزید سنسنی اور دَہشت پھیلی۔

جیسا کہ بتایا گیا کہ قاتل نے اپنا پہلا شکار ۳۱؍اگست ۱۸۸۸ء کو رَات کے تین بجے کیا۔ عورت کا پورا نام میری این نکولس تھا اور عمر ۴۲ سال تھی۔
اُس عورت میں کوئی خاص بات نہ تھی اور وُہ بھی لندن کی اسّی ہزار طوائفوں میں سے ایک تھی جو ایسٹ اینڈ کے علاقے میں رہ کر اپنا گھناؤنا کاروبار کر رہی تھیں۔
طوائفوں کے پاس ہر قسم کے لوگ آتے رہتے تھے اور پولیس کو تحقیقات کے دوران میں پتا نہیں چل سکا اور نہ چل سکتا تھا کہ جیک دی رپّر سے میری نکولس کی کیا دشمنی تھی۔
اُس نے اُس عورت کو خاص طور پر اپنے خنجر کا سزاوار کیوں سمجھا اور پھر مزید چار طوائفوں کو کس لیے قتل کیا۔

اِس بھید پر آج تک پردہ پڑا ہوا ہے۔ لے دے کر یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اَپنی خون آشام اور بہیمانہ فطرت کو تسکین پہنچانے کے لیے یہ حرکت کرتا تھا ۔
یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ جو شکار اُس کے سامنے آتا رہا، وہ سب کی سب طوائفیں تھیں۔
اِس کی ایک معقول وجہ یہ بھی ہے کہ ایسٹ اینڈ کا علاقہ نہایت گنجان اور تنگ تھا۔ سورج غروب ہونے کے بعد شراب خانوں اور جوئے بازی کے اڈّوں پر خوب رونق ہوتی۔
گلیاں اکثر تاریک رہتیں جن کے مختلف گوشوں اور ناکوں پر طوائفیں بنی سنوری گاہکوں کی تلاش میں پھرتی رہتی تھیں۔
یہ سلسلہ سورج نکلنے تک جاری رہتا تھا اور اِسی لیے جیک دی رپّر کو اَپنا شکار ڈھونڈنے میں کوئی خاص دشواری پیش نہ آتی تھی۔

واردات کے تھوڑی دیر بعد میری نکولس کی لاش دیکھ لی گئی تھی۔ اُس وقت اُس کا جسم گرم تھا۔ حیرت تھی کہ اُس نے اپنے بچاؤ کی کوئی کوشش نہ کی۔
اگر وہ ایک مرتبہ بلند آواز سے مدد کے لیے پکار ہی دیتی، تو قریب ہی سوئے ہوئے لوگ یقیناً جاگ پڑتے اور ریڈگوز کا شراب خانہ تو نزدیک ہی تھا۔
اُن دنوں وائٹ چیپل کی گلیوں اور محلّوں میں آوارہ اَور بےکار قسم کے لوگ کثرت سے سویا کرتے تھے۔
وہ لازماً میری نکولس کو بچانے کی کوشش کرتے، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قاتل کی پُراسرار اَور غیرمعمولی شخصیت نے شراب کے نشے میں مدہوش طوائف کے اوسان خطا کر دیے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اُسے کوئی گاہک ہی سمجھی ہو۔
بہرحال جیک نے اُسے چیخنے چلّانے کی مہلت نہ دی اور پہلا وار اُس کی گردن پر کیا اور شہ رگ کاٹ دی۔
پھر اُس نے ایک کان سے دوسرے کان تک گردن اچھی طرح کاٹ ڈالی۔ اُس کے بعد اطمینان سے عورت کا پیٹ چاک کیا اور ایک تجربےکار ماہر سرجن کی طرح پوسٹ مارٹم مکمل کیا۔
لاش کا معائنہ کرنے سے اندازہ ہوا کہ اُس نے جس اوزار سے چیرپھاڑ کی، وہ انتہائی تیز اور لمبے پھل کا چاقو یا خنجر تھا۔

ابھی پولیس کی تحقیق و تفتیش ابتدائی مراحل میں تھی اور اَخباروں میں پُراسرار اَور نامعلوم وحشی قاتل کا چرچا ہو ہی رہا تھا کہ ایک دوسری واردات منظرِ عام پر آ گئی۔
اِس مرتبہ جیک دی رپّر کے تیز خنجر کی دھار کا مزا ۴۷ برس کی اینی چاپ مین نامی طوائف نے چکھا۔ وہ بھی ایسٹ اینڈ کی رہنے والی اور پرلے درجے کی شرابی اور بدکار عورت تھی۔
اُس کی ادھڑی اور نُچی ہوئی خون میں لت پت لاش ۸ ستمبر کی صبح ۶ بجے کے قریب ہان بری سٹریٹ میں پڑی پائی گئی۔
لاش کو ایک نظر دیکھتے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ وحشیانہ حرکت بھی اُسی قاتل کی ہے جس نے مَیری نکولس کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
فرق صرف اتنا تھا کہ جیک دی رپّر نے مَیری نکولس کی گردن دھڑ کے ساتھ لگی رہنے دی تھی، لیکن چاپ مین کی گردن بالکل الگ کر کے ایک بڑے سے رومال میں لپیٹ کر ایک گوشے میں پھینک دی تھی۔

ہان بری سٹریٹ رات کے وقت مکمل تاریکی میں ڈوبی رہتی تھی اور یہاں جیک دی رپّر کو بڑے اطمینان سے لاش پر سرجری کے جوہر دکھانے کا موقع مل گیا۔
اُس نے نہایت صفائی سے پیٹ چاک کیا، آنتیں نکالیں، دونوں گردے الگ کیے، پھر سینہ چیر کر دل بھی نکال لیا اور اِن اعضا کو لاش کے چاروں طرف سجا کر غائب ہو گیا۔
اُس نے اپنے پیچھے ایسا کوئی نشان نہیں چھوڑا جس سے یہ سراغ لگ سکتا ہو کہ واردات کے بعد وہ کس طرف گیا۔ اندھیرے میں لاش کا پوسٹ مارٹم کرنا کچھ آسان نہ تھا۔
اِس لیے قیاس ہے کہ اُس کے پاس روشنی کا کوئی نہ کوئی انتظام تھا، مگر سوال یہ ہے کہ کون ایسا نڈر اَور جیالا قاتل ہو گا جو لالٹین جلا کر ایک گھنی آبادی والے علاقے میں لاش کو چیرنے پھاڑنے کی جرأت کرے گا۔
مزید یہ کہ جس جگہ وہ قتل کرتا، پوسٹ مارٹم بھی وہیں ہوتا تھا۔ وہ لاش کو گھسیٹ کر کسی محفوظ مقام پر لے جانے کی زحمت بھی گوارا نہ کرتا تھا۔

لاش کے پاس بعدازاں جو چیزیں پڑی پائی گئیں، وہ تھیں: چند سکّے، پیتل کی دو اَنگوٹھیاں، ایک خون آلود لفافہ اور چمڑے کا ایپرن۔ کچھ پتا نہیں چل سکا کہ یہ چیزیں قاتل کی تھیں یا مقتولہ کی۔
ڈاکٹروں نے طوائف کی لاش کا جب معائنہ کیا، تو سبھی کا متفقہ فیصلہ تھا کہ قاتل اعلیٰ درجے کا سرجن ہے، کیونکہ اُس نے جس صفائی سے گردے الگ کیے تھے،
انتڑیاں نکالی تھیں اور دِل چیرا تھا وہ ظاہر کرتی تھی کہ اُسے اِس کام میں مہارت حاصل ہے۔

تحقیقاتِ مرگ کی عدالت میں جب شہادتیں پیش ہوئیں اور پُراسرار قاتل کی شخصیت کے بارے میں بحث شروع ہوئی، تو کارونر نے کھلے الفاظ میں جیک دی رپّر کو ’’خراجِ تحسین‘‘ پیش کیا اور کہا:

’’قاتل اگرچہ ہماری نظروں سے غائب ہے اور دونوں وارداتوں کا بلاشبہ وہی ذمےدار ہے، لیکن اُس کی ہوشیاری، ذہانت اور پُرسکون طبیعت کی داد دَینی پڑتی ہے کہ
اُس نےیہ بھیانک جرائم جس انداز میں کیے ہیں، وہ نہ صرف پولیس بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔
ماہرینِ طب کی رائے یہ ہے کہ قاتل واردات کرنے کے بعد لاش کو جس طرح چیرتا پھاڑتا ہے،
یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ فنِ سرجری سے گہری واقفیت رکھتا ہے۔

دوسری واردات نے لندن میں جیسے آگ لگا دی۔ لوگ اپنے اپنے کام دھندے بھول گئے اور اَب ہر طرف جیک دی رپّر ہی کا ذکر تھا۔
طرح طرح کی قیاس آرائیاں جاری تھیں، اخباروں نے اِس قصّے کو جس انداز میں پیش کیا،
وہ نہایت سنسنی خیز اور گڑبڑ پھیلنے کا سبب بنا۔
بعض نڈر اَور منچلے قسم کے نوجوان اور دُوسرے لوگ جیک دی رپّر کو پکڑنے کے لیے نازی کتوں کی مانند گلی گلی اور کوچے کوچے سونگھتے پھر رہے تھے۔
پولیس کا ناطقہ بند تھا۔ سکاٹ لینڈ کی پوری مشینری دن رات اُس نامعلوم قاتل کا سراغ لگانے کے لیے سرگرمِ عمل تھی، مگر بےسود …..
روزانہ بےشمار غنڈے اور بدمعاش شہر کے مختلف کونوں کھدروں سے پکڑ پکڑ کر تھانوں میں لائے جاتے اور گھنٹوں پوچھ گچھ کرنے کے بعد چھوڑ دیے جاتے۔ اُن میں سے کوئی بھی جیک دی رپّر نہ تھا۔

اب انتظار یہ تھا کہ قاتل تیسری واردات کب اور کہاں کرے گا۔

ستمبر کا مہینہ آہستہ آہستہ گزر رَہا تھا۔
جیک دی رپّر اپنی کمین گاہ میں اطمینان سے بیٹھا رہا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ وہ اِیسٹ اینڈ کے علاقے سے نکل کر کسی اور جانب چلا گیا ہے اور یہ خیال درست ثابت ہوا۔
اُنہی دنوں یعنی ۲۸ ستمبر کو سنٹرل نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر کے نام گلاسگو سے ایک پوسٹ کارڈ موصول ہوا جس پر جیک دی رپّر کے دستخط تھے اور اُس میں اُس نے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا تھا:

’’مَیں عارضی طور پر ذرا سستانے کے لیے یہاں آ گیا ہوں۔ عنقریب پھر ’کھیل کے میدان‘ میں حاضر ہوں گا۔‘‘

کھیل کے میدان سے اُس کی مراد غالباً لندن سے تھی۔ اِس خط کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔ لکھائی اتنی عجیب اور مہمل سی تھی کہ آج بھی اُس کا پورا مطلب کوئی نہیں بوجھ سکا۔
اِس کے علاوہ عبارت پر جا بجا سیاہ دَھبّے بھی پڑے ہوئے تھے۔
اِس خط کا شائع ہونا تھا کہ لندن ایک نئی سراسیمگی سے دوچار ہو گیا۔
لوگ اب بےچینی سے جیک دی رپّر کی واپسی کے منتظر تھے اور طوائفوں میں تو جیسی کھلبلی مچی، وہ بیان سے باہر ہے۔

لوگوں کو تیسری واردات کا کچھ زیادہ اِنتظار نہیں کرنا پڑا، کیونکہ اگلے ہی روز یعنی ۲۹ ستمبر کی درمیانی رات کو جیک دی رپّر نے ایسٹ اینڈ ہی علاقے میں دو طوائفوں کو اَپنے خنجرِ بُراّں سے ذبح کیا یعنی ایک ہی رات میں قتل کی دو وَارداتیں۔
پہلی کا نام الزبتھ تھا اور عمر ۴۵ سال۔ اپنے غیرمعمولی لمبے قد کی وجہ سے وہ عورت ’’لمبی الزبتھ‘‘ کے نام سے ایسٹ اینڈ میں بدنام تھی۔
شراب کے نشے میں چوبیس گھنٹے غرق رہتی اور جب ہوش آتا، تو دوسری طوائفوں کو مارتی، پیٹتی اور اُنھیں گالیاں دیتی۔ اُس کا خاوند ایک سُوکھا سا دُبلا پتلا بڑھئی تھا۔
کبھی کبھار یہ عورت اُس کی بھی مرمت کر دیتی۔ ایسٹ اینڈ کے لوگ اُس کے ہاتھوں پریشان اور نالاں تھے۔
لاش برنرز سٹریٹ میں پڑی پائی گئی اور دَریافت کرنے والا ایک ہاکر تھا جو منہ اندھیرے اپنی گھوڑا گاڑی پر آتا اور اَخبار تقسیم کرتا تھا۔
اُس رات چونکہ جیک دی رپّر کا خط اخباروں میں چھپا تھا، خاص ایڈیشن شائع ہوئے تھے، اِس لیے وہ صبح کاذب سے بھی کچھ دیر پہلے اخبارات کے بنڈل گاڑی پر لاد کر نکل آیا۔ اُس کا بیان ہے:

’’جب مَیں برنرز سٹریٹ میں داخل ہوا، تو مَیں نے ایک عورت کی لاش سڑک کے درمیان پڑی پائی۔
اُس کی گردن کٹی ہوئی تھی اور خون اُبل اُبل کر اُس کے کپڑوں اور فرش پر جمع ہو رہا تھا۔
مَیں نے شور مچا کر لوگوں کو جمع کر لیا۔ معلوم ہوا کہ وہ ’’لمبی الزبتھ‘‘ ہے جو جیک دی رپّر کے ہتھّے چڑھ گئی۔ اُس کی جان نکل چکی تھی، مگر جسم ابھی تک سرد نہیں پڑا تھا۔‘‘

’’تمہیں کیسے پتا چلا کہ اُس کا جسم سرد نہیں پڑا تھا؟‘‘ سکاٹ لینڈ یارڈ کے انسپکٹر اونیل نے پوچھا۔

’’جناب! مَیں نے اُسے چھو کر دیکھا تھا۔‘‘ ہاکر نے گھبرا کر جواب دیا۔
’’مگر خدا کے لیے مجھ پر شک نہ کیجیے۔ مَیں جیک دی رپّر نہیں ہوں …..
مَیں قسم کھاتا ہوں ….. آپ جس سے جی چاہے میرے بارے میں پوچھ سکتے ہیں ….. مَیں جیک دی رپّر نہیں ہوں۔‘‘

’’اچھا، اچھا!‘‘ انسپکٹر نے اِس بکواس سے تنگ آ کر کہا۔ ’’
مَیں نے کب کہا ہے کہ تم ہی جیک دی رپّر ہو ….. مَیں تو تم سے صرف ضابطے کی پوچھ گچھ کر رہا ہوں۔
اب غور کر کے بتاؤ کہ تم نے واردات سے پہلے یا بعد میں کسی مشتبہ آدمی کو تو اُس علاقے میں گھومتے پھرتے نہیں دیکھا؟‘‘

ہاکر چند لمحے سوچتا رہا، پھر کہنے لگا:

’’مَیں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا انسپکٹر۔ برنرز سٹریٹ میں جب میری گھوڑا گاڑی داخل ہوئی، تو سنگین فرش پر گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز اِس قدر گونج رہی تھی کہ مَیں نے کوئی آواز اُس کے علاوہ نہیں سنی ۔
وَہاں ایسا گھپ اندھیرا تھا کہ مَیں نے کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘

’’پھر تم نے لمبی الزبتھ کی لاش کیسے دیکھ لی؟‘‘ انسپکٹر نے جرح کی۔

’’وہ یوں کہ جس جگہ لاش پڑی تھی، اُس کے قریب ہی ایک مکان کی ڈیوڑھی تھی۔
مجھے اُس شخص سے اُس روز بل کا تقاضا بھی کرنا تھا، چنانچہ مَیں نے گاڑی روک کر دروازے پر دستک دی۔
چند منٹ بعد اُس شخص نے اپنے مکان میں بتی جلائی اور اُس کی روشنی شیشوں سے چھن کر باہر گلی میں آنے لگی اور پھر مَیں نے اُسے دیکھ لیا …..‘‘

’’کسے‘‘ انسپکٹر نے مضطرب ہو کر پوچھا۔ ’’جیک دی رپّر کو؟‘‘

’’نہیں، نہیں انسپکٹر لاش کو۔‘‘ ہاکر نے ہنس کر جواب دیا۔ اِنسپکٹر اونیل منہ بنا کر رہ گیا۔

لاش کی حالت اور مختلف لوگوں کے بیانات کی روشنی میں یہ اندازہ کرنا مشکل نہ تھا کہ یہ کام بھی جیک دی رپّر کا ہے، لیکن تعجب اِس بات پر ہوا کہ اِس مرتبہ اُس نے لاش کا پوسٹ مارٹم نہیں کیا تھا۔
غالباً اُسے وقت ہی نہیں مل سکا اور عین اُس لمحے جبکہ اُس کا خنجر لمبی الزبتھ کا پیٹ چاک کرنے والا تھا، ہاکر اپنی گھوڑا گاڑی لیے برنرز سٹریٹ میں داخل ہوا۔
اب قاتل کے لیے وہاں ٹھہرنا ممکن نہ رہا، چنانچہ وہ رفوچکر ہو گیا، لیکن اُس کی پیاس ابھی تک نہ بجھی تھی ۔
اِنسانی گوشت کو چیرنے پھاڑنے کا جو بھوت اُس کے سر پر سوار تھا، اُسے اتارنے کے لیے ضروری تھا کہ ایک اور شکار مارا جائے، چنانچہ برنرز سٹریٹ سے بھاگنے کے بعد وہ سیدھا مائٹر سکوائر کی طرف گیا۔

اُسے معلوم تھا کہ وہاں دو تین شراب خانے بھی رات بھر کھلے رہتے ہیں اور کوئی نہ کوئی بھولی بھٹکی طوائف نظر آ جائے گی۔ ایسٹ اینڈ میں جب سے قتل کی یہ بھیانک وارداتیں شروع ہوئی تھیں، طوائفوں نے رات کو زیادہ دَیر تک گھر سے باہر رہنے کی عادتیں ترک کر دی تھیں۔
اُن کا کاروبار خاصا مندا پڑ گیا تھا، لیکن پھر بھی بہت سی سرپھری عورتیں ایسی تھیں جنہیں جیک دی رپّر اور اُس کے کارناموں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
اب بھی اندھیری راتوں میں گاہکوں کو تلاش کرتی پھرتیں یا شراب خانوں میں پناہ لیتی تھیں۔
۴۳ برس کی کیتھرائن ایڈوز بھی اُنہی میں سے ایک تھی مگر وہ جیک دی رپّر کے جس طرح قابو میں آئی، اُسے محض اتفاق یا کیتھرائن کی بدنصیبی ہی کہا جا سکتا ہے۔

قصّہ یہ ہوا کہ اُس عورت کو پولیس نے ۲۷ ستمبر کے دن ایسٹ اینڈ کے علاقے میں غل غپاڑہ مچانے اور چند ’’معزز اور شریف‘‘ آدمیوں کو گالیاں دینے کے الزام میں گرفتار کیا۔
چونکہ اُس عورت نے مجسٹریٹ کو بھی عدالت میں برا بھلا کہا، اِس لیے اُسے دو دِن اور دو رَاتیں حوالات میں قید رکھنے کی سزا دی گئی۔
۲۹؍اور ۳۰ ستمبر کی درمیانی رات کو تقریباً پونے چار بجے کے لگ بھگ اُسے بشپ گیٹ کے پولیس اسٹیشن کی حوالات سے رہا کیا گیا۔
پولیس والے جانتے تھے کہ یہ عورت ایسٹ اینڈ کی طوائف ہے، اگر اِسے رات کی تاریکی میں رہا کیا گیا، تو فوراً وہیں جائے گی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ جیک دی رپّر کے ہتھے چڑھ جائے، لیکن اُنھوں نے محض ضابطہ پورا کرنے کے لیے کیتھرائن کو آزاد کر دیا اور کہا کہ فوراً اپنے گھر چلی جائے، حالانکہ وہ اُسے صبح کے وقت بھی چھوڑ سکتے تھے۔

رہا ہونے کے ٹھیک پانچ منٹ بعد گشت کرنے والے ایک سپاہی نے کیتھرائن کی خون میں لت پت لاش مائٹر سکوائر میں پڑی پائی۔
قاتل نے نہ صرف اُس کی گردن اڑا دِی، بلکہ پیٹ اور سینہ چاک کر کے انتڑیاں، گردے، کلیجی اور دِل تک باہر نکال لیا تھا۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اُسے پوسٹ مارٹم کرنے کی پوری پوری آزادی مل گئی تھی اور اِس سنسان علاقے میں اُسے روکنے والا کوئی نہ تھا۔ بعد میں ایک پولیس افسر نے بیان دیتے ہوئے کہا:

’’ہمیں کیتھرائن کو پونے چار بجے اِس لیے چھوڑنا پڑا کہ
اُس کی قید کا وقت پورا ہو چکا تھا، اگر ہم اُسے اُس کے بعد بھی روکتے،
تو حبسِ بےجا کا مقدمہ دائر کیا جا سکتا تھا۔‘‘

عوام میں پولیس کے اِس رویّے سے سخت اشتعال پھیل گیا اور
اَخباروں نے انسانی ہمدردی کے نام پر ایسی دہائی دی کہ
پارلیمنٹ میں یہ بھی موضوع زیرِبحث آیا اور اُس پر خاصی لے دے ہوئی۔
دو طوائفوں کا ایک ہی رات میں اِس بےدردی سے موت کے گھاٹ اتار دِیا جانا
لندن کے لوگوں کی نیندیں حرام کر دینے کے لیے کافی تھا۔
ہر طرف شور مچ گیا کہ حکومت عوام کی جان بچانے کے فرائض سے غافل ہو گئی ہے اور
قاتل دندناتا پھرتا ہے۔ آج وہ اِیسٹ اینڈ کو اَپنی خوںآشام سرگرمیوں کا مرکز بنائے ہوئے ہے،
کل لندن کے دوسرے محلّوں کی باری بھی آ جائے گی۔
اُدھر پولیس کا یہ حال تھا کہ جیک دی رپّر کی تلاش میں دن رات ایک کیے ہوئے تھی،
مگر نہ معلوم وہ شخص چھلاوہ تھا یا کیا؟
کچھ پتا نہ چلتا تھا کہ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ طوائفوں سے اُسے کیا عداوت ہے اور وَاردات کرنے کے بعد غائب کہاں ہو جاتا ہے۔

مجرموں اور بدمعاشوں کی جان پر بنی ہوئی تھی،
کیونکہ اُن میں سے ہر شخص اِس بات سے ڈرتا تھا کہ اُسے جیک دی رپّر نہ سمجھ لیا جائے،
لیکن بعض جی دار بدمعاش ایسے بھی تھے جو
اِس پُراسرار اور اِنتہائی سفّاک قاتل کے کارناموں کا کریڈٹ خود لینے کے لیے تیار تھے۔ غالباً سستی شہرت پانے کے لیے …..
چنانچہ کئی بدمعاشوں اور پیشہ ور قاتلوں نے تفتیش کے دوران میں پولیس کے سامنے اقرار کیا کہ
وہی جیک دی رپّر ہیں اور
پھر تو ایسا ’’فیشن‘‘ ہوا کہ پولیس کو پریشان کرنے کے لیے
معمولی سے معمولی بدمعاش بھی فون کر دیتا اور کہتا:

’’مَیں جیک دی رپّر بول رہا ہوں، فلاں جگہ بیٹھا ہوں، آؤ اور مجھے پکڑ لو۔‘‘

پولیس فوراً اُس پتے پر پہنچتی اور فون کرنے والے کو گرفتار کر لیتی۔
اُس زمانے میں ٹیلی فون اتنے عام نہیں تھے اور
چند برس پہلے ہی لندن کے سرکاری دفتروں، ڈاک خانوں، ریلوے اسٹیشنوں اور
بعض اہم پبلک مقامات پر ٹیلی فون لگائے گئے تھے۔
اِس لیے یہ معلوم کرنا کچھ مشکل نہ تھا کہ
فون کہاں سے کیا گیا ہے اور کرنے والا کون ہے۔
گرفتار ہونے کے بعد اُس شخص کی داستانیں اخباروں میں چھپتیں اور
لوگ انتہائی دلچسپی سے اُن کے مقدموں اور تفتیش کے واقعات پڑھتے،
لیکن بعد میں معلوم ہوتا کہ پکڑا جانے والا شخص جیک دی رپّر نہیں تھا اور
اُس نے محض اپنی ’’مشہوری‘‘ کے لیے یہ چکر چلایا تھا۔
اِس طرح پولیس اتنی بدنام ہوئی کہ بالآخر میٹروپولیٹن پولیس کے کمشنر کو اِستعفا دینا پڑا۔

چار طوائفیں قتل ہو چکی تھیں اور اَب پانچویں کی باری تھی۔
ایسٹ اینڈ کے علاقے میں چپّے چپّے پر پولیس کے خفیہ جوان بکھرے ہوئے تھے۔ دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں ایک ایک گلی اور ایک ایک بازار کی نگرانی کی جا رہی تھی۔
اُن محلّوں اور کوچوں میں جہاں گیس لائٹ کا انتظام نہیں تھا،
روشنی کا فوری بندوبست کیا گیا کیونکہ
تاریکی جیک دی رپّر کو اپنے گھناؤنے افعال پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں بڑی مدد دَیتی تھی۔

پانچ ہفتے گزر گئے، کوئی واردات نہ ہوئی۔
اِس دوران میں جیک دی رپّر لندن اور
خصوصاً ایسٹ اینڈ میں رہنے والے لوگوں کے حواس پر بری طرح چھایا رہا ۔
چونکہ اُس کا وار ہمیشہ کسی نہ کسی طوائف پر ہوتا تھا،
اِس لیے سب سے زیادہ دَہشت اور سراسیمگی اُسی طبقے میں پھیلی ہوئی تھی۔
بےشمار طوائفیں اپنے اپنے اڈے چھوڑ کر برطانیہ کے دور دَراز علاقوں میں جا رہی تھیں۔

نومبر کی ۱۹ تاریخ تھی اور صبح کے آٹھ بجے تھے۔ ملرز کورٹ کے محلّے میں ایک شخص کرایہ لینے کے لیے ایک طوائف کے مکان پر پہنچا۔ یہاں ۲۵ برس کی مَیری تنہا رہتی تھی۔
نہایت شوخ اور چالاک اور اِیسٹ اینڈ کی تمام طوائفوں میں اپنی زیادہ آمدنی کے باعث
حسد و رَشک کی نظروں سے دیکھی جاتی تھی۔
مالک مکان دیر تک دروازہ کھٹکھٹاتا رہا، لیکن مَیری نے دروازہ نہ کھولا۔
تب اُس کی نگاہ دَائیں کھڑکی پر پڑی جس کا ایک پٹ کھلا ہوا تھا۔ یہ کھڑکی خواب گاہ کی تھی۔
مالک مکان نے کھڑکی میں سے جھانکا اور پھر وہ اَپنی چیخ نہ روک سکا۔

مَیری کیلے اپنے بستر پر اِس حال میں مری پڑی تھی کہ اُس کا جسم مادرزاد برہنہ تھا۔
گردن ایک کان سے دوسرے کان تک کٹی ہوئی تھی اور
چاک شدہ پیٹ پر خون کے بڑے بڑے لوتھڑے جمے ہوئے تھے۔
قریب ہی ایک چھوٹی میز پر بدنصیب عورت کے کٹے ہوئے پستان، دونوں گردے اور دِل دھرے تھے۔
قاتل نے انتڑیاں پائنتی کی جانب پھیلا دی تھیں۔
پولیس کو اُس کا لباس نہایت احتیاط سے لپٹا ہوا مسہری کے نیچے ہی پڑا مل گیا۔
قاتل نے مَیری کی گردن کاٹ کر ہلاک کرنے کے بعد اُس کا خون آلود لباس احتیاط سے اتارا اَور
بنڈل بنا کر مسہری کے نیچے رکھ دیا۔ اُس نے مَیری کی ناک بھی اڑا دِی تھی۔

اور یہ اُس کا آخری شکار تھا۔ وہ دِن اور آج کا دن جیک دی رپّر نے پھر کوئی قتل نہیں کیا
نہ اُس کا کوئی سراغ پولیس کو ملا
(اگرچہ اُس کے بعد بھی لندن میں قتل کی کئی وارداتیں ہوئیں،
لیکن لاشوں کو ایک نظر دیکھتے ہی اندازہ ہو گیا کہ یہ کام جیک دی رپّر کا نہیں ہو سکتا)
البتہ اُس کے بارے میں قیاسات کا ایک انبار ہے جو اِتنے برسوں سے مسلسل لگایا جا رہا ہے۔

چند قرینِ قیاس باتیں جو جیک دی رپّر کے بارے میں مشہور تھیں۔ وہ یہ تھیں:

   کسی حادثے میں اچانک مارا گیا۔

 خودکشی کر لی۔

ملک سے باہر نکل جانے میں کامیاب ہو گیا۔

 یا کسی اور جرم میں ماخوذ ہو کر پھانسی کی سزا کو پہنچا۔

یہ بھی ممکن ہے کہ اُسے پکڑ کر پاگل خانے میں داخل کرا دِیا گیا ہو ۔
کسی کو اُس کی شخصیت پر جیک دی رپّر ہونے کا شبہ نہ ہوا ہو۔

بہرحال جرائم کی دنیا میں اُس سفّاک قاتل کا نام سرِ فہرست ہے
جس نے پانچ عورتوں کو بےدردی سے قتل کیا اور روپوش ہو گیا۔ وہ کون تھا؟ کہاں سے آیا؟ یہ راز سربستہ ہے اور شاید ہمیشہ رہے گا۔

https://store.steampowered.com/app/11190/Sherlock_Holmes_versus_Jack_the_Ripper/

https://shanurdu.com/author/maqbooljahangir/

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles