پاکستان پائندہ باد
سبیغ ضو
منڈیروں پر سرمئی شام کا عکس گہرا ہونے لگا تھا….صحن میں لگے آم کے پیڑ پر بیٹھی کوئل دھیمے سروں میں اب تک کوک رہی تھی….منی جو ہر روز کوئل کی کوک کو اپنی آواز سے نقل کرنے کی کوشش کرتی تھی…, جانے آج یہ مشغلہ چھوڑے چپ چاپ کیوں لیٹی تھی…
وہ تھکے قدموں سے جوں ہی گھر میں داخل ہوا اماں بڑی امید کے ساتھ اس کی طرف لپکیں…..لیکن اس کے چہرے پر لکھی مایوسی کو پڑھ کر آنکھوں میں چمکتے نمکین ذائقے کو اپنے اندر جذب کر لیا اور بیٹے کے سر پر بوسہ دے کر گویا خاموش حوصلہ دیا…….
آپا جو کہ جوانی میں بیوہ ہو کر دو ننھے بچوں کے ساتھ اب اسی گھر میں رہتی تھیں… ,کچن کی کھڑکی سے بھائی کا افسردہ چہرہ دیکھ کر ہی سمجھ گئیں کہ آج بھی نوکری کی تلاش میں مارا مارا پھرتا بھائی یوں ہی ناکام لوٹا ہے….
آپا نے ایک سرد آہ کھینچی اور چولہے پر چائے کے لیے پانی چڑھا دیا..
وہ اپنے کمرے میں پلنگ پر ڈھے سا گیا..جوتوں کو اتارنے کی بھی زحمت نہیں کی…. آج مایوسی نے اس کے وجود کو اپنے منحوس سائے میں جکڑ لیا تھا….
آپا چائے لے کر آئیں,اسے یوں اوندھا لیٹا دیکھا تو پیار سے سر پر ہاتھ پھیر کر دھیمی آواز میں بس یہ کہہ سکیں… “ﷲ سب بہتر کرے گا….اٹھو چائے پی لو…”
آپا بھائی کی گہری خاموشی دیکھ کر چائے تپائی پر رکھ کر مڑ گئیں…وہ یونہی لیٹا ماضی کریدتا رہا…..
شروع سے غربت خون آشام بھیڑیے کی طرح ان کے رگوں کا خون چوس رہی تھی…مزدور ابا نے کتنی محنت سے کس قدر جتن کر کے اسے پڑھایا لکھایا تھا…
وہ بھی ایسے ماحول میں جہاں محرومی کی گود میں پلتے لڑکے ہتھیار اٹھا لیتے ہیں….
اچھے دنوں کے آس میں ابا نے تعلیم دلوائی تھی اور آج…..آج بھی اسے یہ ہی محسوس ہو رہا تھا کہ شرافت کی زندگی خراج میں بس محرومیاں دیتی ہے۔
دو تین گھنٹے بیت گئے تھے….وہ یونہی بے حس و حرکت باغیانہ خیالات کے الجھاؤ میں گھرا تھا…..آپا کی ننھی بیٹی کمرے میں داخل ہوئی ….چائے ٹھنڈی پڑی تھی۔ اسے لگا ماموں یونہی سو گئے…بڑے پیار سے اس کے پیروں سے جوتے اتارے ….
منی ہزار سوالات کرے گی…… یہ سوچ کر وہ یونہی آنکھوں پر ہاتھ رکھے پڑا رہا..
منی نے جوتے سائڈ پر رکھے…ماموں کے سوئے ہونے کی اچھی طرح تسلی کی…پھر چپکے سے ایک کونے میں جاء نماز بچھا لیا…دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے کچھ یوں دعاگو ہوئی..”ﷲ جی…. چودہ اگست آنے والا ہے ۔ مجھے ڈھیر ساری جھنڈیاں چاہیں…پاکستانی پرچم والی فراک بھی چاہیے…مجھے چھوٹی چھوٹی جگنو جیسی لائٹس بھی چاہیں…مگر مجھے کون دے گا…”
اس نے بے قراری کے عالم میں آنکھوں پر رکھے ہاتھ کی جھری سے جھانکا…..آنسوؤں کی لڑی منی کا چہرہ بھگو رہی تھی…وہ اپنی جگہ ساکت رہ گیا……
“ﷲ جی ! یا تو میرے بابا کو ہمارے پاس دوبارہ بھیج دے یا پھر ماموں کو اچھی جاب دلا دے۔
افففف میرے خدا…..زمین اسے گھومتی ہوئی لگ رہی تھی۔ منی اپنی حاجت رب کو بتا کر چپکے سے جاء نماز سمیٹے جا چکی تھی۔ وہ چارپائی سے اٹھ بیٹھا ۔سامنے ٹیبل پر پڑی چائے کی پیالی دیوار سے دے ماری….اسناد بہتی چائے کی طرف اچھال ڈالا….
لیکن دل کی وحشت کو کم ہونا تھا نہ ہوئی۔ وہ بغیر بتائے گھر سے باہر نکل آیا۔
محلے کے ایک کونے میں اسے اپنے ہی جیسے دربدر جوان سگریٹ نوشی کرتے نظر آئے…. .ان کے پاس جا بیٹھا۔ سب حالات سے تنگ اور باغی خیالات لیے بیٹھے تھے…..سب اپنا اپنا غبار نکالنے لگے……
ایک نے سرکش لہجے میں کہا….”ہمیں علیحدگی پسند تحریک میں شامل ہو جانا چاہیے…”
“کیا مل رہا ہمیں….ہنہہہ کچھ نہیں….” دوسرے نے نفرت سے کہا۔ ہم لوگوں کو ملک کے باقی حصوں کی طرح حق نہیں دیا جاتا….
تیسرے جذبات سے مغلوب لہجہ…..ٌ
“ہاں تو پھر ہم کیوں سوچیں…..مال کمانے کی سوچو بسسس….”اگلے نے مکاری سے راہ دکھائی..
سرکش ہواؤں نے کب دل کو بدل ڈالا……یہ تو ان جوانوں کے گھر والوں کو بھی خبر نہ ہوئی تھی….
کہا جاتا ہے نیکی کا رستہ بڑا پرخار ہوتا ہے اور بدی خود چل کر آتی ہے….
اب دھن برسنے لگا تھا….گھر میں خوش حالی آنے لگی تھی….کرنا کیا تھا… جوانوں کو لیکچر دینا ہوتا تھا….برین واش……..اپنے ملک کے خلاف زہر بھر کر پیسہ کمانے والے کچھ بے ضمیر کچھ معاشی مجبور لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ خود کٹھ پتلی ہیں…..کسی کے ہاتھوں کا کھلونا….وہ نہیں جانتے تھے کہ جب گھر نہیں رہتا تو اپنا وجود بھی مٹ جایا کرتا ہے…..
اور وطن تو گھر ہی ہوتا ہے نہ….
ہاں وہ سوچا کرتا تھا کبھی کبھی…..ضمیر اس پر ایسے کوڑے برساتا کہ وہ کرلانے لگتا……پھر بہت سے دولت کی ٹھنڈک پھر سے خودغرض بنا دیتی۔
کل چودہ اگست تھا۔ منی نے ماموں کے پیسوں سے جھنڈیاں خریدی تھیں….ہری فراک سفید دوپٹہ بنوایا تھا….اسے اور باقی لڑکوں کو ایک نیا ٹاسک دیا گیا تھا…..ملک کے بڑے شہروں میں انہیں ڈیوٹی دی گئی تھی۔ وطن پاک میں جشن آذادی کی تقریب میں بم رکھنا تھا….
بم…..ممممم….میں….اب لوگوں کو قتل بھی کرنا ہو گا۔ جوانوں میں جو زہر پھیلاتے ہو وہ بھی قتل سے کم ہے کیا؟؟ ضمیر نے چوٹ کی….لیکن یہ سوچ کر اس کا دل دہلنے لگا….اس کی منی بھی جشن آذادی کی کسی تقریب میں شریک ہو گی….
افففف میری طرح کتنوں کی گڑیائیں میرے ہاتھوں ماری جائیں گی…..
دل وحشتوں کی ذد میں تھا….وہ بری طرح پھنس چکا تھا….انکار اس کے گروپ میں اسے غدار ٹھہراتا…اور غدار کی سزا…….
“تو کیا اپنے وطن سے تم غداری نہیں کر رہے؟” ضمیر نے کراہ کر سوال کیا۔
اسے منتخب جگہ پر بم نصب کرنا تھا اور تقریب کے دوران ریموٹ کنٹرول سے کھلکھلاتے چہروں کو وہ مسخ کردیتا….رنگ نسل کی قید کے بغیر ہر محب وطن کو خون میں نہلانے کا آرڈر اسے دیا گیا تھا….
وہ اب تک ہاں اور نہیں کی جنگ میں گھرا سڑک ناپ رہا تھا….
گلیاں ہری جھنڈیوں سے سجی ہوئی تھیں…
اس نے دیکھا…..ملی نغمے کی دھن پر کچھ بچے جوش میں پاکستان پاکستان کے نعرے لگا رہے تھے…ایک چھوٹی سی بچی ہری چوڑیاں پہنے توتلی زبان میں ان کا ساتھ دے رہی تھی….اسے اس بچی میں منی کی شبیہ نظر آئی..
اچانک اس نے دیکھا ایک بڑے میاں سڑک پر گاڑیوں کی پروا کیے بغیر کسی چیز کے پیچھے دیوانہ وار بھاگ رہے ہیں…..
دور سے ایک کار بڑی تیزی سے آ رہی تھی…بڑے میاں سڑک پر ہی چکرا رہے تھے ۔ اسے لگا یہ تیزی سے آتی کار بدحواس بڑے میاں کو کچل ڈالے گی۔ وہ گاڑی کو رکنے کا اشارہ دیتے ہوئے دیوانہ وار اس کی طرف بھاگا…تیز رفتار گاڑی کو بریک لگتے لگتے بھی بڑے میاں کو ٹکر لگ چکی تھی۔ وہ سڑک کنارے اوندھے ہو کر کراہنے لگے…
جلدی سے پہنچ کر اس نے بڑے میاں کو سیدھا کیا…
“چچا جی ایسی کیا افتاد آپڑی کہ آپ کو اپنی جان کی پروا…..الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے تھے….بڑے میاں کے ہاتھوں میں چھوٹا سا پرچم تھا….پاکستان کا پرچم….جسے وہ اپنے ہاتھ میں دبوچے ہوئے تھے…
وہ گنگ رہ گیا تھا….
“کک…کیا…. اس کے لیے آ…آپ اپنی جان ہتھیلی میں لیے دوڑ رہے تھے؟”
“بیٹا اس پرچم کی تذلیل کیسے برداشت کر سکتا ہوں جس کے لیے اپنوں کو قربان کیا ہے….جان سے پیارے رشتوں کو کھویا ہے اس وطن کی خاطر….یہ دھرتی ہی تو سب کچھ ہے….” بڑے میاں اپنے جسمانی درد کو بھولے اپنے وطن کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے تھے…
اور اس کے جسم میں دوڑتے لہو کا سفید ہوتا رنگ ضمیر کے کچوکے سے نیلا ہونے لگا تھا…..
کسی نے ایمبولینس بلوائی تھی…بڑے میاں کو ایمبولینس میں ڈالا جانے لگا تو انہوں نے پرچم اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بڑے مان سے کہا…”بیٹا زرا سنبھال کے…..سڑکوں پر کبھی نہ رلنے پائیں یہ جھنڈیاں….”
اور غداروں کی دنیا میں جوانوں کو جھوٹے انقلاب کی پٹیاں پڑھانے والا وہ……
آج اپنے اندر حقیقی انقلاب کو محسوس کرنے لگا….
کچھ ہی دیر میں پرچم کو سینے سے لگائے وہ دیوانہ وار یریبی پولیس تھانے کی طرف دوڑ رہا تھا۔
قریب آتی سرنئی شام کو لہو رنگ ہونے سے بچانا جو تھا۔
سبیغ ضو