Home مقبول جہانگیر کارنر پاگل خانہ|pagal khana| part 5| biron

پاگل خانہ|pagal khana| part 5| biron

دُوسرے ہی لمحے فاسٹر کے بدن میں تھرتھری سی چھوٹ گئی۔ دل کی حرکت جیسے تھم رہی ہو ..... وہ پلکیں جھپکائے بغیر اِن مجسموں کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ پھر اُس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے پھوٹنے لگے۔ کوشش کے باوجود وُہ اَپنی نگاہ اُن مجسموں کی آنکھوں پر سے نہ ہٹا سکا۔ اُسے صاف نظر آ رہا تھا کہ مجسموں کی آنکھوں میں زندگی کی چمک اور حرارت موجود ہے

0
398
pagal khaana|پاگل خانہ|maqbool jahangir|www.shanurdu.com
pagal khaana|پاگل خانہ|maqbool jahangir|www.shanurdu.com

پاگل خانہ

مقبول جہانگیر

(حصہ پنجم)

(بائرن)

’’اِس کمرے میں جو شخص بند ہے، وہ خود کو ڈاکٹر بائرن کہتا ہے۔‘‘ رینالڈس نے بتایا۔ اُس کا لہجہ بےحد سنجیدہ تھا۔

’’ڈاکٹر بائرن؟‘‘ فاسٹر کے ذہن میں جیسے کوئی کیڑا رِینگا۔ ’’گویا اِس شخص کا نام بھی حرف ’بی‘ سے شروع ہوتا ہے۔‘‘

’’جی ہاں! عجب اتفاق ہے۔‘‘ رینالڈس کا لہجہ بدستور سنجیدہ تھا۔ فاسٹر چند لمحے اُس کی صورت دیکھتا رہا۔ اُسے اب یقین ہوتا جا رہا تھا کہ یہ سب کچھ سوچی سمجھی شرارت کا ایک حصّہ ہے۔
ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاگل خانے میں جتنے مریض موجود ہیں، اُن سب کے نام حرف ’بی‘ سے شروع ہوتے ہوں۔
غالباً اِس شرارت کے پیچھے ڈاکٹر رُتھ فورڈ کا ہاتھ تھا، تاہم فاسٹر کی سمجھ میں نہ آیا کہ اِس حرکت کا مقصد آخر کیا ہو سکتا ہے۔
رینالڈس نے ابھی تک قفل نہیں کھولا تھا اور وُہ بےپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فاسٹر کے حکم کا انتظار کر رہا تھا۔

’’تو گویا اب مَیں جس مریض سے ملاقات کرنے والا ہوں، وہ ڈاکٹر بائرن ہے …..۔
کیا واقعی ڈاکٹر ہی ہے؟‘‘

’’مَیں اِس سلسلے میں یقین سے کچھ عرض کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں جنابِ والا۔‘‘ رینالڈس نے کہا۔ ’’وہ اَپنے آپ کو ڈاکٹر ہی کہتا ہے۔‘‘

’’ٹھیک ….. پھر وہ ڈاکٹر ہی ہو گا۔‘‘ فاسٹر مسکرایا۔ ’’دروازہ کھولو، مَیں اُسے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

رینالڈس نے دروازہ کھولا اور ایک طرف ہٹ کر فاسٹر کو اَندر جانے کا موقع دیا۔ فاسٹر کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
اب تک جتنے کمرے وہ دَیکھ چکا تھا، اُن سب میں یہ کمرا زیادہ وَسیع، روشن، سجا ہوا اَور خوبصورت تھا۔ فرش پر بیش قیمت قالین بچھا ہوا تھا اور جا بجا صوفے اور تپائیاں پڑی تھیں۔
ایک گوشے میں لمبی سی میز دھری تھی جس پر نفیس چینی کے برتن سلیقے سے رکھے تھے۔ ایک جانب بجلی کا چولہا بھی لگا ہوا تھا جس پر چائے کی کیتلی میں پانی کھول رہا تھا۔
کمرے کی دیواروں پر سفید روغن حال ہی میں کیا گیا تھا۔ دروازے کے سامنے والی دیوار کے ساتھ شیشے کی دو اَلماریاں نظر آ رہی تھیں۔
اُن الماریوں میں مختلف قسم کے سائنسی آلات، شیشے کی نلکیاں اور اَوزار وَغیرہ بھرے ہوئے تھے۔ چند آلات ایک چھوٹی سی میز پر بھی قرینے سے رکھے دکھائی دیے۔
کمرے سے زیادہ یہ ایک لیبارٹری تھی، جدید ترین لیبارٹری۔ کمرے کی واحد کھڑکی میں اگرچہ لوہے کی سلاخیں لگی تھی، تاہم اُن سلاخوں کو خوب صورت ریشمی پردے کے ذریعے ڈھانپنے کی کوشش کی گئی تھی۔

فاسٹر نے یہ بھی دیکھا کہ شمالی جانب کمرے کی دیوار کے ساتھ تین چار بُک شیلف بھی لگے تھے اور اُن میں طب سے تعلق رکھنے والی کتابیں اوپر تلے بھری تھیں۔
اُن کے قریب ہی ایک گوشے میں انسانی ڈھانچا رکھا ہوا تھا۔ ڈھانچے کے اوپر دیوار پر تین چار چارٹ لٹک رہے تھے جن پر انسانی اعضا اور دماغ کی اندرونی تصویریں بنی تھیں۔

دروازے کے عین سامنے لمبی میز کے سرے پر سفید کوٹ پہنے اور آنکھوں پر سنہری فریم کا چشمہ چڑھائے ادھیڑ عمر کا ایک باوقار شخص کرسی پر بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم تھا۔
برقی کیتلی میں پانی کھول رہا تھا، مگر اُس شخص کو کچھ خبر نہ تھی۔ ان دونوں کے اندر آ جانے سے وہ یک لخت چونکا اور مضطرب ہو کر کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
فاسٹر نے دیکھا کہ اُس کے ہاتھ میں کھلونا نما کوئی چیز ہے جسے اُس نے اپنی مٹھی میں دبا رکھا تھا۔
انھیں دیکھ کر وہ آہستہ آہستہ اُن کے استقبال کو آگے بڑھا اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔

’’کیا آپ ہی کا نام بائرن ہے؟‘‘ فاسٹر نے مصافحہ کرتے ہوئے مسکرا کر پوچھا۔

’’ڈاکٹر بائرن …..‘‘ بائرن نے جواب دیا۔
’’مَیں بائرن نہیں، ڈاکٹر بائرن ہوں۔‘‘ پھر اُس نے رینالڈس کی طرف دیکھتے ہوئے فاسٹر کے بارے میں پوچھا۔ ’’آپ کی تعریف؟‘‘

’’یہ ڈاکٹر فاسٹر ہیں۔‘‘ رینالڈس نے تعارف کرایا۔ ’’اور آپ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے ہیں۔‘‘

’’بہت خوب ….. بہت …..‘‘ ڈاکٹر بائرن نے خوش ہو کر کہا۔
’’مجھے آپ سے مل کر واقعی مسرّت ہوئی۔ کہیے مزاج تو اَچھے ہیں آپ کے۔‘‘ اُس نے دوبارہ گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔

’’تشریف رکھیے ڈاکٹر …..‘‘ اُس نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
’’مجھے ہم پیشہ افراد سے مل کر واقعی خوشی ہوتی ہے۔ آپ یہاں کب سے کام کر رہے ہیں؟‘‘

’’مَیں ابھی نیا ہوں ….. یہاں آئے ہوئے زیادہ دَیر نہیں ہوئی۔‘‘ فاسٹر نے جواب دیا۔
’’ڈاکٹر رتھ فورڈ کی مہربانی ہے کہ اُنھوں نے آپ سے ملاقات کا موقع فراہم کیا۔‘‘

ڈاکٹر بائرن اِس دوران میں برابر مسکراتا رہا۔

’’آپ کس شعبے کے ماہر ہیں؟‘‘ فاسٹر نے پوچھا۔

اِس سوال پر ڈاکٹر بائرن کے لبوں پر پھیلی ہوئی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
اُس نے اپنے بھورے بالوں پر ہاتھ پھیرا، عینک کا زاویہ درست کیا اور سنجیدہ آواز میں کہا:

’’مَیں فزیشن بھی ہوں اور سرجن بھی۔ اِس کے علاوہ نیورو سرجن کی حیثیت سے مَیں ایک خاص مقام و مرتبے کا مالک رہا ہوں۔ مَیں نے دماغ کے بےشمار آپریشن کیے ہیں۔
دماغ کی پیچیدگیوں کے سلسلے میں مَیں نے زندگی بھر کے تجربات اور مشاہدات کے ذریعے چند ایک نئی تھیوریاں قائم کی ہیں اور آج کل اُنہی تھیوریوں کو حقیقت کی شکل دینے میں مصروف ہوں۔
آپ یہ سن کر خوش ہوں گے کہ مَیں اپنے تجربات میں بڑی حد تک کامیاب رہا ہوں۔
حال ہی میں مَیں نے ایک ایسی چیز ایجاد کی ہے جس کے نتائج دیکھ کر دنیا میں عظیم انقلاب برپا ہو جائے گا۔‘‘

’’مَیں آپ کو اِس کامیابی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔‘‘ فاسٹر نے رسمی طور پر کہا۔
اب وہ سمجھ چکا تھا کہ ڈاکٹر بائرن کے اِس پاگل خانے میں داخلے کا سبب کیا ہے۔
دماغی آپریشن کرتے کرتے وہ دماغی بھول بھلیوں میں گم ہو چکا تھا، لیکن اُس کی اب تک کی بات چیت اور رَویّے سے یہ اندازہ کرنا محال تھا کہ وہ دماغی توازن سے محروم ہو چکا ہے۔

’’جناب چائے کا پانی تیار ہے۔‘‘ رینالڈس نے کہا۔ ’’اگر آپ اجازت دیں، تو چائے بنا دوں۔‘‘

’’ارے نہیں ….. شکریہ ….. یہ کام مَیں خود کروں گا۔‘‘ بائرن نے چونک کر برقی چولہے کی طرف دیکھا۔
اُس پر رکھی ہوئی کیتلی کا ڈھکنا مسلسل حرکت کر رہا تھا اور اُس میں سے بھاپ سسکارتی ہوئی خارج ہو رہی تھی۔ پھر وہ اُٹھ کر اُدھر گیا اور چائے بنانے لگا۔
فاسٹر اُسے بغور دَیکھتا رہا۔ اُسے تعجب ہو رہا تھا کہ بائرن کو یہاں کس نے قید کر دیا۔
رینالڈس نے چائے پینے سے معذرت کر دی جبکہ فاسٹر بخوبی رضامند ہو گیا۔ چائے عمدہ اَور خوشبودار تھی۔ فاسٹر نے ہنس کر کہا:

’’معلوم ہوتا ہے آپ نے چائے بنانے کے فن پر بھی خاصی ریاضت کی ہے۔‘‘ بائرن نے قہقہہ لگایا اور کہا:

’’ہر فن ریاضت کا تقاضا کرتا ہے، ڈاکٹر ….. چائے بنانا خود بہت بڑا آرٹ ہے۔
آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ مَیں اپنا کھانا بھی خود تیار کرتا ہوں۔‘‘

چائے ختم کرنے کے بعد ڈاکٹر بائرن نے کہا ’’کیا آپ میری تازہ ترین ایجاد ملاحظہ کریں گے؟‘‘

’’ضرور ….. ضرور!‘‘ فاسٹر نے کہا۔ ’’یہ میرے لیے عین فخر کا مقام ہو گا۔ کیا چیز ایجاد کی ہے آپ نے؟‘‘

’’جب آپ اُسے دیکھیں گے تبھی سمجھ پائیں گے۔‘‘ بائرن نے جواب دیا۔
اُس نے بائیں جانب رکھی ہوئی الماری کا دروازہ کھولا، پھر فاسٹر سے کہا ’’زحمت فرما کر ذرا یہاں آئیے۔‘‘ فاسٹر اُٹھ کر الماری کے نزدیک گیا۔ ہر لحظہ اُس کی حیرت بڑھتی جا رہی تھی۔
بائرن نے الماری کے نچلے خانے کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’میرا خیال ہے آپ نے ابھی تک ایسی عجیب و غریب چیز نہیں دیکھی ہو گی۔
یوں سمجھیں کہ یہ میری ساری زندگی کے تجربات و مشاہدات کا نچوڑ ہے۔ مجھے خود بھی توقع نہ تھی کہ اتنی جلدی کامیابی نصیب ہو گی۔‘‘

فاسٹر نے دیکھا کہ الماری کے نچلے خانے میں چھوٹے چھوٹے انسانی مجسمے قطار میں کھڑے ہیں۔ مٹی سے بنے ہوئے یہ چھ سات مجسمے، بنانے والے کی انتہائی مہارت کا نمونہ تھے۔
ہاتھ پاؤں، آنکھیں، ناک، منہ، گردن، ہر عضو متناسب اور خوب صورت تھا۔
ایسے انسانی مجسمے فاسٹر نے اکثر دکانوں پر بھی دیکھے تھے، مگر اُن میں وہ نفاست اور حقیقت نہ تھی جو اِن مجسموں میں دکھائی دے رہی تھی۔

’’بہت عمدہ مجسمے ہیں۔ کسی ماہرِ فن نے بنائے ہیں۔ کیسے متناسب اور صحیح اعضا ہیں اِن کے۔ جیسے ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوں۔‘‘ فاسٹر نے تعریف کرتے ہوئے کہا۔

ڈاکٹر بائرن کا چہرہ بےپناہ خوشی سے روشن ہو گیا۔ اُس نے زور سے گردن ہلائی اور فاسٹر کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا:

’’مجھے یقین تھا آپ اِنھیں پسند کریں گے۔ ایک ڈاکٹر ہی دوسرے ڈاکٹر کے فن کی صحیح تعریف کر سکتا ہے۔‘‘

’’کیا یہ تمام مجسمے آپ نے بنائے ہیں؟‘‘ فاسٹر نے متعجب ہو کر پوچھا۔ ’’خدا کی پناہ، ڈاکٹر بائرن! آپ باکمال آدمی ہیں۔‘‘

’’آپ کی عنایت ہے ڈاکٹر، ورنہ مَیں کیا اور میرا کمال کیا؟ وہ دَیکھیے سامنے میز پر آپ کو گندھی ہوئی مٹی نظر آ رہی ہے نا! مَیں نے یہ مجسمے اُسی سے بنائے ہیں۔‘‘

فاسٹر کی سمجھ میں نہ آیا کہ مزید کیا کہے سوائے اِس کے کہ مسلسل اِن مجسموں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتا چلا جائے، چنانچہ اُس نے کہا:

’’ڈاکٹر بائرن! مَیں حیران ہوں کہ آخر آپ کو یہ مجسمے بنانے کی کیا ضرورت پیش آ گئی۔ بلاشبہ اِس فن میں آپ کو مہارت حاصل ہے، لیکن …..‘‘

ڈاکٹر بائرن نے پھر قہقہہ لگایا اور فاسٹر کی بات کاٹتے ہوئے بولا:

’’آپ کا مطلب مَیں سمجھ گیا۔ آپ یہی کہنا چاہتے ہیں نا کہاں ایک فزیشن اور سرجن اور کہاں مٹی کے مجسمے بنانے کا شوق۔ بےشک اِن دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے، لیکن اگر ذرا غور فرمائیں گے، تو محسوس ہو گا کہ مَیں نے یہ مجسمے ایک خاص مقصد کے تحت بنائے ہیں۔ آپ ہر مجسمے کا چہرہ اَور خدوخال غور سے دیکھیے اور پھر مجھے بتائیے آپ کیا محسوس کرتے ہیں۔‘‘

اب فاسٹر نے ذرا اَور قریب ہو کر باری باری ہر مجسمے کا جائزہ لیا۔ اُسے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ اُن کے اعضا ایک جیسے تھے کسی میں ذرا برابر فرق نہ تھا، البتہ ہر مجسمے کا چہرہ دُوسرے سے مختلف تھا۔
سب سے بڑی بات یہ تھی کہ فاسٹر کو یہ چہرے شناسا سے لگ رہے تھے جیسے اِن چہروں کو اُس نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہو ….. اُس نے ذہن پر زور ڈال کر یاد کرنے کی بہتیری کوشش کی، مگر کچھ یاد نہ آتا تھا۔
اِن مجسموں میں سے کم از کم ایک چہرہ تو ایسا تھا جسے فاسٹر نے حال ہی میں بہت نزدیک سے دیکھا تھا۔ آخر اُس نے رک رک کر کہنا شروع کیا:

’’ڈاکٹر بائرن! مجھے اعتراف کرنا پڑ رہا ہے کہ اِن چہروں میں کوئی خاص بات ضرور ہے۔ یہ چہرے عام انسانوں کے ہرگز نہیں ہیں …..
اِن میں سے ایک چہرہ تو یقیناً ایسا ہے جسے مَیں نے حال ہی میں کہیں دیکھا ہے، مگر اب یاد نہیں آتا کہ کہاں دیکھا ہے۔
مَیں بڑے ادب سے یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ اِن مجسموں کے چہرے فرضی ہیں یا آپ نے بعض افراد کے چہرے دیکھ کر بنائے ہیں؟‘‘

ڈاکٹر بائرن اچانک سنجیدہ اَور فکرمند نظر آنے لگا۔ چند لمحے تک وہ خاموش رہا اور اُن مجسموں کو ٹکٹکی باندھے تکتا رہا۔ آخر اُس نے کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے کہا:

’’آپ کا خیال صحیح ہے ڈاکٹر ….. مَیں نے اِن مجسموں کے چہرے اپنے شناساؤں کے چہروں پر بنائے ہیں۔
یہ سب کے سب ابتدا سے میرے ہم پیشہ ہی ہیں۔ مَیں نے محض اپنی یادداشت برقرار رَکھنے کے لیے اپنے ہم پیشہ ڈاکٹروں کے چہرے اِن مجسموں کو عطا کر دیے تاکہ مَیں اِنھیں فراموش نہ کر پاؤں۔
اب آپ پوچھیں گے کہ مجھے ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی، سو اِس کے پیچھے ایک عجیب داستان ہے۔‘‘

’’جی ہاں! مَیں بھی ایسا ہی سمجھ رہا ہوں۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔
’’کیا آپ مہربانی کر کے یہ داستان مجھے سنائیں گے؟ لیکن داستان سننے سے پہلے مَیں یہ بھی معلوم کرنا چاہوں گا کہ مٹی کے مجسمے بنانے کا ’مشغلہ‘ آپ نے کیوں منتخب کیا؟
اگر کچھ ہرج نہ ہو، تو اِس سے بھی آگاہ کیجیے۔‘‘

’’آپ اِسے میرا ’مشغلہ‘ سمجھتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر بائرن کے ہونٹوں پر نہایت حزنیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
’’حالانکہ یہ مشغلہ ہر گز نہیں ہے۔ غالباً یہ بات آپ نے اِس لیے کہہ دی کہ اِن مجسموں کا اچھی طرح جائزہ نہیں لیا آپ نے۔
براہِ کرم اِنھیں غور سے دیکھیں۔ میرا خیال ہے آپ ذہین آدمی ہیں، معلوم ہو جائے گا کہ یہ ’مشغلے‘ کے علاوہ کچھ اور بھی ہے۔‘‘

’’معافی چاہتا ہوں۔‘‘ فاسٹر نے فوراً کہا۔
’’واقعی مَیں نے یہ مجسمے غور سے نہیں دیکھے۔ اب آپ کے حکم کی تعمیل میں دوبارہ دَیکھے لیتا ہوں۔‘‘

فاسٹر نے جھک کر ایک مجسمے کو گہری نظر سے جانچنا شروع کیا۔ بلاشبہ اِن مجسموں میں کوئی خاص بات ضرور تھی ….. عجیب سی پُراسراریت …..
لیکن کوشش کے باوجود فاسٹر معلوم نہ کر پایا کہ مختلف شناسا چہروں کے علاوہ اِن میں اور کیا راز چھپا ہوا ہے۔ اِس مشاہدے میں اُس نے جان بوجھ کر دیر لگا دی تاکہ ڈاکٹر کے ذہن سے یہ وہم خارج ہو سکے کہ اُس نے مجسمے اچھی طرح نہیں دیکھے۔

’’کہیے جناب! آپ نے کیا رائے قائم فرمائی۔‘‘ ڈاکٹر بائرن نے بےصبری سے پوچھا۔ اُس کی نگاہیں فاسٹر کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔

’’کیا عرض کروں جناب؟‘‘ فاسٹر نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
’’جس حقیقت کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں، وہ مجھے اِن مجسموں میں محسوس ضرور ہوتی ہے، مگر مَیں اُس حقیقت کی تہہ تک پہنچنے میں ناکام رہا ہوں۔
صاف بات ہے مَیں کہیں نہ کہیں کچھ دیکھنے سے قاصر ہوں ….. کوئی ایسی خصوصیت جو بےحد اہم ہے۔‘‘

’’آہ ….. سمجھا ….. مَیں سمجھا۔‘‘ ڈاکٹر بائرن نے مضطرب ہو کر دونوں ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
’’دراصل ایسی چیزیں چونکہ آپ پہلی بار دَیکھ رہے ہیں، اِس لیے اِس کی تمام جزئیات پر نگاہ نہیں کی جا سکتی …..
ایک بار پھر اِنھیں غور سے ملاحظہ فرمائیے ….. خاص طور پر اِن مجسموں کی آنکھیں دیکھیں ….. مجھے یقین ہے آپ اصل حقیقت تک پہنچ جائیں گے۔‘‘

اور دُوسرے ہی لمحے فاسٹر کے بدن میں تھرتھری سی چھوٹ گئی۔ دل کی حرکت جیسے تھم رہی ہو …..
وہ پلکیں جھپکائے بغیر اِن مجسموں کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ پھر اُس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے پھوٹنے لگے۔
کوشش کے باوجود وُہ اَپنی نگاہ اُن مجسموں کی آنکھوں پر سے نہ ہٹا سکا۔ اُسے صاف نظر آ رہا تھا کہ مجسموں کی آنکھوں میں زندگی کی چمک اور حرارت موجود ہے …..
ویسی ہی چمک اور حرارت جیسے جیتے جاگتے انسانوں کی آنکھوں میں موجود ہوتی ہے۔ ایک ثانیے کے لیے فاسٹر کو اَپنی بصارت پر شبہ ہوا، مگر دوسرے ہی لمحے یہ شبہ دور ہو چکا تھا۔
اُس نے صریحاً دیکھا کہ ایک مجسمے کے ہونٹوں پر پُراسرار تبسم کی لکیر ابھری اور اُس نے پلکیں جھپکائیں جیسے وہ ڈاکٹر فاسٹر کو پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔

فاسٹر کا سانس رکنے لگا۔ اُس نے دیکھا کہ سبھی مجسمے زندہ ہیں۔ اُن کی آنکھوں کی پتلیاں متحرک تھیں اور ہونٹ مسکرا رَہے تھے۔
یوں لگتا تھا جیسے ابھی یہ مجسمے بول پڑیں گے۔ فاسٹر غیرشعوری طور پر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور ٹانگیں بھی لرز رہی تھیں۔
اُس نے پلٹ کر دیکھا، ڈاکٹر بائرن کے سوا اَور کوئی نہ تھا۔ رینالڈس اِس اثنا میں وہاں سے رخصت ہو چکا تھا۔

’’خدا کی پناہ ….. یہ مجسمے تو زندہ ہیں۔‘‘ فاسٹر نے گُھٹی گھٹی آواز میں کہا۔

’’آہا ….. اب آپ اِنھیں دیکھنے میں کامیاب ہوئے۔‘‘ ڈاکٹر بائرن نے قہقہہ لگایا۔
’’شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ مَیں نے مجسموں کے اندر کسی قسم کا میکانکی نظام چھپا رکھا ہے، بالکل ویسا ہی نظام جیسے چابی یا بیٹری سے چلنے والے کھلونوں میں ہوتا ہے۔
جی نہیں ….. ایسی کوئی بات نہیں ….. اگر ایسا ہوتا، تو اِسے اِس صدی کی سب سے بڑی سائنسی ایجاد نہیں کہا جا سکتا تھا۔
یہ مجسمے ’روبوٹ‘ بھی نہیں ہیں جو بجلی کی لہروں کے ذریعے حرکت کرتے ہوں ….. روبوٹ، تو آج کے دور میں اسکول کا بچہ بھی آسانی سے بنا سکتا ہے۔‘‘

فاسٹر چپ چاپ ڈاکٹر بائرن کی تقریر سنتا رہا۔ اُسے احساس تھا کہ ایسے موقع پر جرح کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بائرن اپنی تقریر روک دے گا۔ وہ کہہ رہا تھا:

’’مَیں نے یہ مجسمے چکنی مٹی سے بنائے ہیں، لیکن اِن کا دماغ اور دماغی نظام ویسا ہی ہے جیسا انسانوں کا ہوتا ہے۔‘‘

اُس نے فخریہ انداز میں فاسٹر کی طرف دیکھا۔ فاسٹر سمجھ گیا کہ ڈاکٹر بائرن داد طلب کر رہا ہے، چنانچہ اُس نے کہا :
’’آپ نے بلاشبہ اِس صدی کا سب سے عظیم کارنامہ انجام دیا ہے ڈاکٹر ….. لیکن مَیں ابھی تک سمجھ نہیں پایا کہ آپ کے بنائے ہوئے مجسمے یا اِن کا دماغ کام کیسے کرتا ہے۔‘‘

’’آہاہا …..‘‘ ڈاکٹر نے قہقہہ لگایا۔ ’’تم نہیں سمجھے نا …..! یہ ذرا تفصیل طلب معاملہ ہے۔ مختصر طور پر یوں سمجھو کہ مَیں اِن پتلوں کا دماغ اپنے دماغ کی لہروں کے ذریعے کنٹرول کرتا ہوں۔
قوتِ متخیّلہ کے زبردست کمالات سے تو تم آگاہ ہو گے۔
ایک زمانے میں مَیں ہپناٹزم کی مشقیں بھی کرتا رہا ہوں۔ دماغی مریضوں کے علاج معالجے میں ہپناٹزم بہت کام دیتا ہے۔‘‘

’’بہت خوب ….. بہت خوب ….. آپ حیرت انگیز انسان ہیں، ڈاکٹر بائرن!‘‘
فاسٹر نے کہا۔ ’’اب لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیجیے کہ آپ اِن مجسموں سے کیا کام لینے کا ارادہ رَکھتے ہیں؟‘‘

’’ابھی تو مَیں نے نصف درجن مجسمے بنائے ہیں۔‘‘ بائرن نے کہا۔
’’رفتہ رفتہ اِن کی تعداد بڑھاتا جاؤں گا۔ فی الحال مَیں نے نر جنس کے مجسمے بنائے ہیں، عنقریب اِن کے لیے مادہ مجسمے بھی بنانے پڑیں گے ۔
پھر مَیں اِنہی کے ذریعے ایک نئی انسانی نسل وجود میں لانے کا اہتمام کروں گا۔ یہ نئی نسل موجودہ نسل سے کہیں بہتر ہو گی۔‘‘

فاسٹر انتہائی سنجیدگی سے ڈاکٹر بائرن کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عام حالات میں وہ اِن باتوں کو کوئی اہمیت نہ دیتا اور بائرن کے بارے میں بھی فیصلہ دے دیتا کہ اِس کی دماغی چولیں ڈھیلی پڑ چکی ہیں، اِس لیے ایسے منصوبے سوچتا ہے، لیکن وہ اَپنی آنکھوں سے اِن مجسموں کے اندر زندگی کے آثار دَیکھ چکا تھا،
اِس لیے یہ معاملہ محض مذاق میں نہیں ٹالا جا سکتا تھا۔ ڈاکٹر بائرن کی بےپناہ ذہانت اور دماغی صلاحیتوں پر اُسے ایمان لانا ہی پڑا۔
اگر فی الواقع اِس شخص نے ایسے جیتے جاگتے مجسمے بنا لیے ہیں اور مستقبل قریب میں وہ اِن کی نسل بڑھانے کا اہتمام بھی کر رہا ہے، تو یہ انتہائی خوفناک بات ہو گی۔
ابھی وہ اِنہی خیالات میں غوطے کھا رہا تھا کہ کمرے میں ڈاکٹر بائرن کی آواز گونجی:

’’تم نے مقدس بائبل میں پڑھا ہو گا کہ خداوند خدا نے انسان کی تخلیق مٹی سے کی ہے۔ ڈاکٹر فاسٹر! کیا تم اِس بات پر یقین رکھتے ہو؟‘‘

یہ سوال اِس قدر غیرمتوقع اور اَچانک تھا کہ فاسٹر بھونچکا رہ گیا۔ بلاشبہ اُس نے بائبل مقدس ایک زمانے میں پڑھی تھی اور اُسے بچپن ہی میں بتایا گیا تھا کہ انسان کو خدا نے مٹی سے بنایا ہے،
لیکن ڈاکٹر بائرن نے جس انداز میں سوال کیا تھا وہ اَیسا نہ تھا کہ فاسٹر جیسا ذہین انسان اِس کا اصل مقصد نہ سمجھ سکتا۔ چنانچہ ایک لحظہ تامل کے بعد فاسٹر نے دبی زبان سے صرف اتنا کہا:

’’مَیں جدید سائنس کے اصولوں پر زیادہ یقین رکھتا ہوں، ڈاکٹر!‘‘

بائرن یہ جواب سن کر یک لخت مشتعل ہو گیا۔ اُس نے آنکھیں نکال کر فاسٹر کو گھورا اَور دَبنگ لہجے میں بولا:

’’اِس کا مطلب یہ ہے کہ مَیں سائنس پر یقین نہیں رکھتا اور جو چیز تم نے ابھی ابھی دیکھی، کیا وہ سائنس کا جدید ترین کرشمہ نہیں ہے؟‘‘

’’بےشک، بےشک ….. یہ بھی سائنس ہی ہے۔‘‘ فاسٹر نے جلدی سے اعتراف کیا۔
بائرن اب کمرے میں تیزی سے ٹہل رہا تھا۔ اُس نے رک کر کہا:

’’اور تم نے بائبل میں یہ بھی پڑھا ہو گا کہ خدا نے مٹی کا پُتلا بنا کر اُس کے نتھنوں میں زندگی کی روح پھونکی اور وُہ جیتا جاگتا انسان ہو گیا۔
سنو، اگر مَیں بھی مٹی کے پتلے بنا کر اُن میں زندگی کی روح پھونک دوں، تو کیا وہ جیتے جاگتے انسان نہیں بن جائیں گے؟ بولو، جواب دو۔ اِس نظریے کے مطابق مٹی کے پتلوں کو جاندار بنایا جا سکتا ہے۔‘‘

’’جی ہاں ضرور بنایا جا سکتا ہے ….. لیکن ابھی تک یہ کام خدا نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھا ہے۔
کسی سائنس دان کے سپرد نہیں کیا۔‘‘ فاسٹر نے آہستہ سے جواب دیا۔

اُس کا خیال تھا کہ اِس جواب پر بائرن مزید طیش میں آئے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
بائرن نے دو تین مرتبہ زور سے شانے اچکائے اور دوبارہ پُرسکون ہو گیا۔ پھر اُس نے الماری کا دروازہ بند کیا اور کرسی پر بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیں۔ فاسٹر بغور اُس کا مشاہدہ کر رہا تھا۔
بظاہر ڈاکٹر بائرن پاگل دکھائی نہیں دیتا تھا، لیکن ….. جو شخص خدا بننے کے خبط میں مبتلا ہو جائے، اُسے پاگل نہیں، تو اور کیا کہیں گے،
البتہ فاسٹر کو بار بار اِن مجسموں کا تصوّر پریشان کر رہا تھا۔ مٹی کے بنے ہوئے اِن پتلوں کو اُس نے خود بہ ہوش و حواس پلکیں جھپکتے اور مسکراتے دیکھا تھا۔

معاً ڈاکٹر بائرن نے دونوں آنکھیں کھول دیں اور فاسٹر کی طرف دیکھ کر دھیمے سے ہنسا۔ اُس کی ہنسی عجیب تھی۔

’’دنیا میں ہر کام ممکن ہے۔‘‘ اُس نے فاسٹر سے کہا۔
’’ایسے تمام کام جنہیں موجودہ دَور کے لوگ ناممکن اور محال سمجھتے ہیں، سب کے سب آسانی سے کیے جا سکتے ہیں۔ شاید تم اپنے دل میں یہ سوچ رہے ہو کہ ڈاکٹر بائرن خدا کا انکار کرتا ہے۔
نہیں، میرے عزیز! ایسی کوئی بات نہیں۔ مَیں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ زمین پر خدا کا نائب ہونے کی حیثیت سے انسان ہر کام کر سکتا ہے جس کی نسبت ہم خدا سے کرتے ہیں۔
خدا نے انسان کو بےپناہ صلاحیتوں اور طاقتوں سے نوازا ہے۔ انسان آہستہ آہستہ کائنات کے پوشیدہ بھید جان رہا ہے۔ ذرا تصوّر کرو وُہ باتیں جن کے بارے میں انسان سو سال پہلے سوچ بھی نہیں سکتا تھا، آج وہی باتیں حقیقت بن کر سامنے آ رہی ہیں۔
زمین آسمان کے فاصلے سمٹ رہے ہیں۔ ستارے نزدیک آ رہے ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ یہی خاکی انسان بعید از فہم فاصلوں تک واقع سیّاروں پر بھی پہنچ جائے گا۔
اِس لامحدود کائنات کے اسرار جب اُس پر روشن ہوں گے، تو سوائے حیرت زدہ ہونے کے وہ کچھ نہیں کر سکے گا۔ بہرحال یہ باتیں تم نہیں سمجھ سکو گے …..
جو کچھ مَیں نے دیکھا اور سمجھا ہے ، وہ مَیں تمہیں تقریر کے ذریعے ہرگز نہیں سمجھا سکوں گا۔ البتہ مشاہدہ کرا دُوں گا، تب شاید تمہاری عقل باور کر لے۔ بولو دیکھنے کے لیے تیار ہو۔‘‘

فاسٹر کے دل کی دھڑکنیں خود بخود تیز ہو گئیں۔ منطقی طور پر اُسے ڈاکٹر بائرن کی باتوں میں خاصا ربط اور وَزن محسوس ہوا۔ آخر اُس نے کہا:

’’اگر آپ اپنے تجربات مجھے دکھانا ہی چاہتے ہیں، تو مَیں بڑی خوشی سے دیکھنے کو تیار ہوں۔‘‘

بائرن کرسی سے اٹھا اور فاسٹر کا ہاتھ پکڑ کر اُس لمبی میز کے قریب لے گیا جو کمرے کی شمالی دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی تھی۔
فاسٹر نے دیکھا کہ مٹی کا بنا ہوا ایک روبوٹ اُس میز پر پہلے سے موجود ہے۔
غالباً یہ وہی روبوٹ تھا جسے فاسٹر نے اُس وقت ڈاکٹر بائرن کے ہاتھ میں دیکھا تھا جب وہ رِینالڈس کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تھا۔

’’یہ مجسمہ آپ نے حال ہی میں بنایا ہے؟‘‘ فاسٹر نے پوچھا۔

’’ہاں ….. اور تم اِسے میرا آخری مجسمہ بھی کہہ سکتے ہو۔‘‘
ڈاکٹر بائرن نے معنی خیز انداز میں مسکرا کر جواب دیا۔ پھر اُس نے میز پر سے مجسمہ اٹھایا اور فاسٹر کو دیتے ہوئے کہا ’’اِسے اچھی طرح دیکھو۔‘‘

فاسٹر نے جونہی مجسمے پر نگاہ جمائی، وہ فوراً چونک پڑا۔
اُس کے چہرے کے خدوخال ڈاکٹر بائرن سے بےحد مشابہ تھے۔

’’اِس کا چہرہ تو آپ کے چہرے سے ملتا جلتا ہے۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔

ڈاکٹر بائرن نے اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے کہا:

’’ہاں ….. یہ میرا ہی چہرہ ہے، بلکہ یوں کہیے کہ یہ مَیں ہی ہوں۔‘‘

’’مَیں بالکل نہیں سمجھا کہ آپ کا مطلب کیا ہے۔ ذرا وَضاحت کیجیے۔‘‘

’’بھئی مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جسمانی طور پر یہ مجسمہ مجھ سے صرف مشابہت ہی نہیں رکھتا، بلکہ اِس کا دماغ بھی مجھ جیسا ہی ہے۔‘‘

فاسٹر نے گہرا سانس لیا اور مجسمہ ڈاکٹر بائرن کو واپس کر دیا۔
’’اِس کا جسم تو بےشک آپ کا سا ہے، لیکن دماغ …..‘‘

’’یقین کرو اِس کا دماغ مَیں نے بنایا ہے اور وُہ میرا ہی دماغ ہے۔‘‘ بائرن نے مجسمہ دوبارہ اِحتیاط سے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں ابھی احساس نہیں ہو سکتا، اِس لیے کہ مجسمہ بےجان ہے، لیکن جونہی یہ حرکت میں آئے گا، تم یقین کر لو گے کہ یہ مَیں ہی ہوں۔
تم یہ نہ سمجھنا کہ اِس کی کھوپڑی کے اندر مَیں نے ننھی ننھی بیٹریاں نصب کر دی ہوں گی۔ جی نہیں! یہ بیٹریوں سے چلنے والا حقیر کھلونا ہرگز نہیں ہے۔
یہ ایک جیتا جاگتا ننھا منا ڈاکٹر بائرن ہے۔ ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی۔‘‘

فاسٹر نے کندھے جھٹک کر پوچھا:

’’اگر اِس کی کھوپڑی میں بیٹریاں نصب نہیں ہیں، تو پھر اِس کے اندر کیا ہے؟‘‘

’’پھر وہی احمقانہ سوال کیا تم نے؟‘‘ بائرن بھڑک اٹھا۔ ’’بتا تو رہا ہوں کہ اِس کے اندر مَیں ہوں مَیں۔‘‘

فاسٹر نے مجسمہ میز پر سے اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا، لیکن بائرن نے اُسے روک دیا۔

’’ٹھہرو ….. فی الوقت یہ روبوٹ ہی ہے ….. مَیں نے ابھی اِس کا ظاہر مکمل کیا ہے۔
باطن پر کام باقی ہے۔ یہ کام بھی مَیں آج یا کل تک پورا کر لوں گا۔ باطن پایۂ تکمیل تک پہنچنے کے بعد یہ مٹی کا پتلا نہیں رہے گا۔‘‘

’’بلکہ ڈاکٹر بائرن بن جائے گا۔‘‘ فاسٹر نے جملہ مکمل کر دیا۔ ’’ننھا منا ڈاکٹر بائرن!‘‘

’’بالکل درست!‘‘ بائرن نے خوش ہو کر کہا۔ ’’کہنے کو جسمانی طور پر یہ چھوٹا سا بائرن ہو گا، مگر ذہنی طور پر اُتنا ہی بڑا جتنا اصل ڈاکٹر بائرن۔‘‘
یہ کہہ کر وہ میز کے کنارے بیٹھ گیا اور اَپنے بےجان پتلے پر نگاہ جما دی۔ ’’ڈاکٹر رُتھ فورڈ کو مَیں نے اپنے تجربے سے آگاہ کیا تھا، مگر اُس احمق کی عقل میں کوئی بات نہ آئی۔
شاید تمہیں یہ جان کر تعجب ہو کہ ڈاکٹر رُتھ فورڈ میرا شاگرد رَہ چکا ہے۔ اب بھی وہ میرا بڑا اِحترام کرتا ہے۔
اِس کمرے کی ظاہری آرائش و زیبائش سے تم اندازہ کر سکتے ہو کہ اُس نے احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، لیکن اِس کا کیا علاج کہ وہ مجھے پاگل سمجھتا ہے۔
وہ مجھے دھوکے سے یہاں لے آیا اور اُس وقت سے اب تک مَیں یہیں قید ہوں۔‘‘

’’یہ تو واقعی بہت ظلم ہوا آپ پر۔‘‘ فاسٹر نے کہا۔ ’’اگر آپ اجازت دیں، تو مَیں ڈاکٹر رُتھ فورڈ سے بات کروں۔‘‘

’’کوشش کر دیکھو۔‘‘ بائرن نے ٹھنڈا سانس بھرتے ہوئے کہا۔ ’’ویسے مجھے توقع نہیں کہ رُتھ فورڈ تمہاری بات مانے گا۔ مَیں اپنے شاگرد کو اَچھی طرح جانتا ہوں۔
بہرحال مجھے اِس کی پروا نہیں کہ کوئی مجھے کیا سمجھتا ہے۔ مَیں اپنا کام کیے جا رہا ہوں اور دُنیا پر جب میرے تجربات روشن ہوں گے، تو سب جان لیں گے کہ پاگل کون تھا، مَیں یا ڈاکٹر رُتھ فورڈ۔‘‘

فاسٹر خاموش رہا۔ ویسے وہ اَپنے ذہن میں ڈاکٹر رُتھ فورڈ کو داد دِیے جاتا تھا کہ اُس نے بروقت کارروائی کر کے ڈاکٹر بائرن کو یہاں منتقل کر دیا۔

دفعتاً بائرن نے کہا ’’رُتھ فورڈ سے ایک حماقت بھی سرزد ہوئی جو سراسر میرے حق میں جاتی ہے اور وُہ یہ کہ اُس نے میرے اِن مٹی کے پُتلوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔
وہ سمجھتا تھا یہ فضول مشغلہ ہے۔‘‘ بائرن کی آنکھوں میں وحشیانہ چمک نمودار ہوئی۔ بہت جلد رُتھ فورڈ کو اَپنی حماقت کی سزا مل جائے گی ….. جن پتلوں کو وہ حقیر اور بےجان خیال کرتا ہے ….. وہی پتلے …..‘‘

یک لخت بولتے بولتے وہ رُک گیا۔ فاسٹر نے اپنے عقب میں کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ اُس نے گردن گھما کر دیکھا، رینالڈس اندر آ رہا تھا۔ غالباً اُسے دیکھ کر ہی بائرن خاموش ہوا تھا۔

’’آپ کو ڈاکٹر رُتھ فورڈ بلا رہے ہیں۔‘‘ رینالڈس نے فاسٹر سے کہا اور اَبھی فاسٹر جواب میں کچھ کہنے بھی نہ پایا تھا کہ ڈاکٹر بائرن مشتعل ہو کر چلّایا:

’’جاؤ! فوراً یہاں سے چلے جاؤ۔ اُسی احمق کے پاس جو خود کو ڈاکٹر رُتھ فورڈ کہتا ہے۔
کوئی شخص سچائی اور حقیقت کی تاب نہیں لا سکتا، خواہ وُہ سائنس دان ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

فاسٹر اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور اُس نے ایک ایک لفظ پر زور دَیتے ہوئے بائرن سے کہا:

’’ڈاکٹر! کاش تم احساس کر سکو کہ تمہاری ذہنی کیفیت کیا ہے۔

تم خدا بننے کی کوشش کر رہے ہو، جبکہ انسان ….. خدا نہیں بن سکتا ….. تم مٹی کے پُتلے بنا کر اُن میں جان ڈالنا چاہتے ہو۔‘‘

’’ہاں، ہاں! مَیں خدا بننا چاہتا ہوں۔‘‘ بائرن پھر چلّایا۔ ’’مَیں پوچھتا ہوں اِس میں حرج ہی کیا ہے۔ اگر ایک انسان دوسرے انسان کو ہلاک کرنے پر قادر ہے، تو کیا وہ زِندگی دینے پر قدرت نہیں رکھتا۔
خدا بھی تو مارتا اور جِلاتا ہے۔
تم لوگ آخر یہ کیوں سمجھتے ہو کہ انسان صرف مارنے ہی کا کام کر سکتا ہے، کسی بےجان میں جان نہیں ڈال سکتا۔‘‘

’’کوئی انسان دوسرے انسان کو ہلاک کرنے پر قادر نہیں ہے، ڈاکٹر بائرن!‘‘ فاسٹر نے پُرسکون لہجے میں کہا۔ ’’سب کچھ خدا کی طرف سے ہے۔
بہرحال آپ جو چاہیں کہیں، مَیں آپ کا نظریہ تسلیم نہیں کرتا۔ آپ جتنی جلد یہ ناپاک خیالات اپنے ذہن سے خارج کر دیں، اتنا ہی آپ کے حق میں بہتر ہے اور اَب مَیں جا رہا ہوں، پھر ملاقات ہو گی۔‘‘

’’قطعی نہیں ….. تم فرسودہ خیالات رکھنے والے شخص ہو اَور مجھے ایسے لوگوں سے سخت نفرت ہے۔‘‘ بائرن نے کہا۔
’’مَیں مٹی کے اِن پُتلوں کو زندگی عطا کرنے میں کامیاب ہو چکا ہوں اور بہت جلد تم یہ بھی دیکھ لو گے کہ مَیں اِنہی پُتلوں کے ذریعے موت پر بھی قدرت حاصل کر لوں گا۔ رُتھ فورڈ سے جا کر کہہ دو کہ اُس کا وقت قریب ہے۔‘‘

فاسٹر مسکرایا۔ ’’مَیں آپ کا پیغام ڈاکٹر رُتھ فورڈ تک ضرور پہنچا دوں گا۔‘‘

پھر اُس نے اپنے عقب میں ڈاکٹر بائرن کے منہ سے نکلی ہوئی مغلظات کی بوچھاڑ سنی۔ رینالڈس اِس اثنا میں دروازے کے قریب ہی کھڑا رَہا۔
فاسٹر کے باہر راہداری میں قدم رکھتے ہی رینالڈس نے جلدی سے دروازہ بند کر کے مقفل کر دیا۔ فاسٹر کی جان میں جان آئی۔ رینالڈس بےحد سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔ فاسٹر نے کہا:

’’ڈاکٹر بائرن کے ارادے اچھے معلوم نہیں ہوتے ….. وہ رُتھ فورڈ کو ہلاک کرنے کی فکر میں ہے۔‘‘

’’جی ہاں! ڈاکٹر رُتھ فورڈ بھی اِس حقیقت سے آگاہ ہیں۔‘‘ رینالڈس نے آہستہ سے کہا۔
’’شاید آپ یہ سن کر حیران ہوں کہ ڈاکٹر بائرن پہلے بھی کئی افراد کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔‘‘

فاسٹر چلتے چلتے رک گیا۔

’’اگر تم یہ بات مجھے پہلے بتا دیتے، تو مَیں ڈاکٹر کے کمرے میں ہرگز نہ جاتا۔ اب بھی میرا مشورہ یہی ہے کہ اُس کے کمرے میں احتیاط سے داخل ہوا جائے۔
اِس کے علاوہ یہ امر بھی میری عقل سے باہر ہے کہ تم لوگوں نے آخر کس بنا پر ڈاکٹر بائرن کو اتنا بڑا اَور سجا سجایا کمرا دَے رکھا ہے۔ کیا وہ وَاقعی پاگل اور قاتل ہے یا اُس نے محض بہروپ بھر رکھا ہے؟‘‘

رینالڈس مسکرایا۔ ’’ڈاکٹر بائرن فی الواقع ڈاکٹر رُتھ فورڈ کا استاد ہے ….. اور وَاقعی اپنے دماغی توازن سے محروم ہو چکا ہے …..
آپ نے دیکھا نہیں کہ وہ مٹی کے بےجان پُتلوں میں جان ڈالنے کے در پے ہے اور یہ کام وہ بےحد انہماک اور سنجیدگی سے کر رہا ہے …..
یہ پاگل پن کی علامت نہیں، تو اور کیا ہے؟‘‘

’’ہو سکتا ہے وہ پاگل ہو …..‘‘ فاسٹر نے کہا۔ ’’لیکن جہاں تک بےجان پتلوں میں جان ڈالنے کا سوال ہے، مَیں نے خود محسوس کیا کہ اُس کی بنائی ہوئی پُتلیاں پلکیں جھپکا رہی تھیں۔‘‘

’’کیا یہ ممکن نہیں کہ ڈاکٹر بائرن نے اُن پُتلیوں کے اندر میکانکی نظام چھپا رکھا ہو۔ اور یہ نظام بیٹری سیل کے ذریعے کام کرتا ہو۔‘‘ رینالڈس نے پوچھا۔

’’بالکل ممکن ہے ….. مگر مَیں پوچھتا ہوں کہ یہ بیٹری سیل اِس پاگل خانے میں ڈاکٹر بائرن کے پاس کیسے آئے؟ جی نہیں۔ یہ توجیہہ میرا ذہن قبول نہیں کرتا …..
پھر یہ تو سوچو کہ آخر ڈاکٹر بائرن جیسے آدمی کو مٹی کے یہ پُتلے بیٹری سیل سے متحرک کرنے کی کیا ضرورت پڑی تھی۔‘‘

رینالڈس حیران ہو کر فاسٹر کی شکل تکنے لگا۔ ’’پھر اِس کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر بائرن پُتلیوں کے اندر جان ڈالنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔‘‘

’’یہ مَیں نے کب کہا ہے؟ ڈاکٹر بائرن ہپناٹزم کا بھی ماہر ہے۔ ہو سکتا ہے اُس نے ہپناٹزم کے ذریعے میرے دماغ کو باور کرایا ہو کہ پتلے جھپک رہے ہیں۔
مَیں سمجھتا ہوں ڈاکٹر بائرن کی قوتِ متخیّلہ بہت بڑھی ہوئی ہے اور یہ ایسی قوت ہے جس سے حیران کن اور لرزہ خیز کرشمے دکھائے جا سکتے ہیں۔‘‘

’’کیا قوتِ متخیّلہ مادی اشیا پر بھی حاوی ہو سکتی ہے؟‘‘ رینالڈس نے سوال کیا۔

فاسٹر نے اثبات میں گردن ہلائی۔ ’’ہو سکتی نہیں، ہوتی ہے ….. قوتِ متخیّلہ کے کمالات لامتناہی ہیں ….. اور …..‘‘ اُس نے جملہ نامکمل چھوڑ دیا اور پلٹ کر رینالڈس سے پوچھا:

’’لیکن تم تو محض ایک اردلی ہو ….. پھر یہ علمی نوعیت کے سوالات کیوں کر رہے ہو؟‘‘

’’بےشک مَیں ایک اردلی ہوں۔‘‘ رینالڈس نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔
’’مگر پاگل خانے میں پاگلوں اور ڈاکٹروں کے ساتھ دن رات رہتے رہتے ایسی باتوں کا شوق ہو گیا ہے۔‘‘

’’خیر، خیر ….. مَیں نے تمہاری بات کا برا تو نہیں مانا، بلکہ تمہارا یہ علمی ذوق دیکھ کر مَیں خوش ہوا ہوں۔‘‘ فاسٹر نے جلدی سے کہا۔
’’اب بتاؤ ….. کتنے مریض ایسے باقی ہیں جن سے مجھے ملاقات کرنی ہو گی۔ ابھی تک مَیں دو خواتین سے ملا ہوں، بُونی اور باربرا سے۔ اور اُن دونوں میں ڈاکٹر بی اسٹار کوئی نہیں ہے۔ یہ بات مَیں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں۔‘‘

’’ابھی کئی عالی مرتبت پاگل یہاں موجود ہیں جناب! جن سے آپ آئندہ ملیں گے۔
اُن میں عورتیں بھی ہیں اور مرد بھی۔ خاص طور پر پروفیسر برنارڈ کا مطالعہ آپ کے لیے بےحد دلچسپی اور حیرانی کا باعث ہو گا۔
دراصل مجھے پہلے ہی آپ کو پروفیسر برنارڈ کے پاس لے جانا چاہیے تھا، لیکن کوتاہی ہو گئی۔ بہرحال ….. پھر سہی۔‘‘

جاری ہے۔ (آگے کیا ہوا؟ پڑھیں حصہ ششم میں)

https://shanurdu.com/pagal-khana-part-6-dr-b-star/

NO COMMENTS