Home اردو ادب پانچ کا نوٹ

پانچ کا نوٹ

اُس ویگن کے کنڈیکٹر نے مجھے کچھ نہ کہہ کے بھی اپنے اخلاق سے بہت کچھ سمجھا دیا۔ میں اُس نوٹ کو تحفہ سمجھتا ہوں۔اور وہ تحفہ میں نے سنبھال کر رکھا ہے وہی ’’پانچ کا نوٹ‘‘

0
565

پانچ کا نوٹ

شکیل احمد چوہان 

آج میں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کے ہاتھ میں دس روپے کا سکہ دیکھا۔ گزرے ہوئے وقت کا ایک دن یاد آ گیا۔
وقت ہم کو گزارتا ہے یا ہم وقت کو گزارتے ہیں۔۔۔؟
یہ سوال تو اپنی جگہ بہر حال رہے گا۔ میں تو یہ جانتا ہوں ہر گزرتا دن بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ آپ کی ذات میں بھی اور کائنات میں بھی۔ وقت سے زمانہ ہے اور زمانے سے وقت۔ قدرت نے وقت کے ہر گزرتے لمحے میں بے شمار پیغام رکھے ہیں۔ کسی کو وقت دلشاد کر جاتا ہے اور کسی کو برباد۔۔۔کوئی اپنی خصلت سے مجبور ہی رہتا ہے اور کوئی کوئی بدل بھی جاتا ہے۔
اسی طرح وہ پانچ کا نوٹ بھی میری زندگی میں بہت کچھ بدل گیا۔ میرے سوچنے کے زاویے میرے خیالات۔ سالوں بعد آج بھی وہ نوٹ میں نے سنبھال کر رکھا ہے۔ یہ بھی کمال ہے، کچھ نہ کہہ کر بھی بہت کچھ کہہ جانا۔
اُس دن مجھے اِس بات کی سمجھ آئی۔ کسی کو لاجواب کرنے کے لیے زبان سے جواب دینا ضروری نہیں ہوتا اور ایک ہم ہیں، سارا دن عدالت میں دلیلیں دے دے کر ہلکان ہو جاتے ہیں۔
جج کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
اِسی طرح ٹی وی ٹاک شو زدیکھتے ہوئے سیاسی قائدین کے چیلے چپاٹے اپنے قائد کی شان میں لمبے چوڑے قصیدے بیان کر رہے ہوتے ہیں وہ ٹی وی شو میں بیٹھ کر سینہ چوڑا کر کے کروڑوں لوگوں کے سامنے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔ نا جانے ہم کب سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ مانیں گے؟
آج میں شہر کا بہت مشہور اور بڑا وکیل ہوں۔ یہ قصہ اُن دنوں کا ہے، جب میں کالج میں پڑھتا تھا ۔میرے ایک دوست کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ میں اُس کی تیمار داری کرنے کے لیے جناح ہسپتال پہنچا۔
گپ شپ کے دوران وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ جب گھڑی پر نظر پڑی تو رات کے دس بج رہے تھے۔ میں نے دوست سے اجازت لی اور ہسپتال سے نکل آیا۔
دسمبر کا مہینہ تھا سردی اتنی زیادہ تھی کہ دانت خود ہی حکومت اور اپوزیشن کی طرح ٹکرا رہے تھے۔ میں اسٹیشن پر جانے کے لیے ویگن کے انتظار میں اسٹاپ پر کھڑا تھا۔ چند منٹ کھڑا رہنے کے بعد سردی کی وجہ سے میری ٹانگیں خود بہ خود رقص کرنا شروع ہو گئیں۔ پاس ہی ایک ڈھابہ تھا۔ وہاں پر چائے والا ملکہ ترنم نور جہاں کے پنجابی گانے سُننے کے ساتھ ساتھ چائے بنانے میں مصروف تھا۔
سُن وے بلوری اکھ والیا۔۔۔ آساں دل تیرے نال لا لیا۔ میں چائے پینے کی غرض سے ڈھابے پر پہنچا۔
چائے پینے کے بعد میں نے اپنی جیب سے اکلوتا سو روپے کا پھُس پھُسا سا نوٹ نکالا۔ وہ نوٹ میلا بھی تھا اور پھٹا ہوا بھی ۔
نوٹ پھٹ جائے تو کوئی بات نہیں، نوٹ کے اوپر قائد کی تصویر نہیں پھٹنی چاہیے ۔۔۔ جیسے ہی وہ نوٹ چائے والے کے ہاتھ میں گیا۔ اُس نے نوٹ کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا، پھر میرے چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے مجھے واپس کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ یہ نوٹ نہیں چل سکتا۔
وہ اپنے ڈیک کا والیم کم کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اِس لیے اُس نے اشارے ہی سے کام چلا لیا تھا۔ میں نے بھی اُسے اشاروں ہی سے بتا دیا، میرے پاس یہی اکلوتا نوٹ ہے۔ لینا ہے تو لو، نہیں تو تمہاری مرضی۔
چائے والا مسکرایا اور نوٹ تھام کر اندر جاتے ہوئے میری توجہ چائے کی طرف دلوائی۔ خیال رکھنا چائے اُبل نہ جائے۔
تھوڑی دیر بعد وہ واپس آیا اور مجھے 90 روپے تھما دیے۔ وہ سب دس دس کے 9 نوٹ تھے۔ چائے تو نہیں اُبلی وہ نوٹ دیکھ کر میں ضرور اُبل گیا تھا۔
اُن نوٹوں کے مقابلے میں میرا نوٹ صاف ستھرا بھی تھا اور صحت مند بھی۔ وہ سکہ رائج الوقت ہو کر بھی شکل سے غریب اور مفلس ہی لگ رہے تھے۔ میں نے وہ نوٹ اپنے کوٹ کی سامنے والی پاکٹ میں رکھ لیے اور ویگن کے اسٹاپ کی طرف چل پڑا۔
ویگن آئی، اُس میں بیٹھا، ویگن چل پڑی۔ اُس ویگن کا آخری اسٹاپ لاہور کا ریلوے اسٹیشن تھا۔ کنڈیکٹر پچاس پچپن سال کا آدمی تھا۔ جس نے اپنے بالوں کی سفیدی کو مہندی کی رنگت سے چھپایا ہوا تھا۔ پان کھا کھا کر اُس کے دانت گہرے براؤن ہو چکے تھے۔
صحت کے معاملے میں بھی اُس کا ہاتھ تنگ ہی تھا۔ اُس نے بے شمار جیبوں والی موٹی سی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ اگر میں اُسے جیکٹ کے بغیر دیکھتا تو شاید اُس کی صحت دیکھ کر اُسے کوئی لقب دے دیتا ۔
ویگن میں پہلے سے کوئی چھے سات لوگ ہوں گے، جو اپنی اپنی سوچوں میں غرق تھے۔ ابھی تھوڑا سا سفر ہی ویگن نے طے کیا تھا کہ کنڈیکٹر نے اپنے مخصوص انداز کے ساتھ ہاتھ کا اشارہ کیا، کدھر؟
میں نے بھی اُسے ہاتھ سے بتایا آخر تک۔ پھر اُس نے اپنے انگوٹھے اور انگوٹھے کی پڑوسن انگلی کی مدد سے نوٹ گننے کا اشارہ کیا۔ اُس کا مطلب یہ تھا، کرایہ دو۔۔۔؟
میںنے وہ نو کے نو غریب نوٹ اپنی جیب سے نکالے اور کنڈیکٹر کے سامنے انہیں چیک کرنے لگا۔ وہ کنڈیکٹر مسلسل بڑی سنجیدگی کے ساتھ مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اُن نوٹوں میں سے جو سب سے بری حالت میں تھا،  نکال کر کنڈیکٹر کے حوالے کیا۔
کنڈیکٹر نے نوٹ تھاما۔ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ اُس نے اپنی جیکٹ کی اندرونی جیب سے نوٹوں کی ایک گٹھی نکالی اور کچھ تلاش کرنے لگا۔ جب اُسے کچھ نہ ملا تو اُس نے میرا دیا ہوا نوٹ اپنے نوٹوں کے بیچ میں بڑی احتیاط سے رکھ دیا۔ کہیں نوٹ کوکوئی نیا زخم نہ لگ جائے۔
پھر اُس نے دوسری پاکٹ میں ہاتھ ڈالا اور چھوٹے بڑے نوٹوں کی دوسری گٹھی نکالی اور اُس میں سے کچھ تلاش کرنے لگا۔ میں ٹکٹکی باندھے اُسے دیکھنے لگا۔
مجھے چائے والا یاد آگیا۔ میں نے سوچا اب یہ کنڈیکٹر بھی میرے ساتھ ویسا ہی کچھ کرنے والا ہے۔
کنڈیکٹر نے وہ گٹھی بھی واپس اُسی پاکٹ میں ڈال دی۔ وہ کچھ یاد کر رہا تھا۔ جلد ہی اُسے یاد آ گیا۔ اُس نے اپنی جیکٹ کی دل پر لگی ہوئی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک کڑکتا، اُجلا، نیا نکور نوٹ نکال کر بڑے ادب کے ساتھ مجھے ایسے پیش کیا، جیسے کوئی غلام اپنے آقا کو کوئی تحفہ پیش کرتا ہے۔
اُس نے ایک لمحے میں اخلاق کی بلندی کو چھو لیا ۔
اُس نے کچھ بھی نہیں کہا اور سب کچھ کہہ گیا ۔سارے راستے میرے اور اُس کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ آج بھی وہ غریب شکل و صورت کا بندہ میری نظر میں کسی شہنشاہ سے کم نہیں ۔
کتنے ہی سال ہو گئے اِس بات کو آج تک اُس کا چہرہ مجھے نہیں بھولا ۔
جب میں نے اُسے 10 کا نوٹ دیا اُس کے چہرے پر بڑی پیاری مسکراہٹ تھی اور جب میں نے اُس کے ہاتھ سے پانچ کا نوٹ پکڑا تو میں شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔
اُس ویگن کے کنڈیکٹر نے مجھے کچھ نہ کہہ کے بھی اپنے اخلاق سے بہت کچھ سمجھا دیا۔ میں اُس نوٹ کو تحفہ سمجھتا ہوں۔اور وہ تحفہ میں نے سنبھال کر رکھا ہے وہی
’’پانچ کا نوٹ‘‘

NO COMMENTS