31 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

سوال

سوال

شکیل احمد چوہان 

دُعا کے آگے سعید لکھوں یا سجاد۔۔۔؟ شادی سے پہلے میں دُعا سعید تھی اور شادی کے بعد دُعا سجاد بن گئی، پھر مجھ پر ایک قیامت گزری اور میں دُعا سے بد دُعا بن گئی۔
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں تھرڈ ایئر کی اسٹوڈنٹ تھی کینٹ سیالکوٹ سے ایک فیملی کا رشتہ آیا، لڑکے والے ابراہیم بھائی کے جاننے والے تھے ۔ ابراہیم بھائی میرے بڑے اور اکلوتے بہنوئی ہیں۔ حیا آپی کو بھی وہ رشتہ بہت پسند آیا۔ آناً فاناً میری شادی ہو گئی۔ شادی کے وقت میری عمر تقریباً 18 سال تھی۔ شادی کی پہلی رات میں نے سجاد سلطان کو دیکھا اُس سے پہلے امّی نے سجاد کی ایک تصویر دکھائی تھی۔ وہ اپنی تصویر سے کہیں زیادہ خوبصورت اور ہینڈسم تھا۔ میری اور سجاد کی عمر میں سات آٹھ سال کا فرق تھا۔ شادی کے چند دنوں بعد ہی میں اور سجاد ہنی مون کے لیے یورپ چلے گئے۔ سجاد کے والد انکل سلطان سیالکوٹ کے جانے مانے ایکسپوٹر تھے، سجاد کے گھر میں پیسے کی ریل پیل تھی میں بھی دولت کی اُس چمک میں کھو گئی شادی کے دو ماہ بعد ہی اللہ نے کرم کر دیا۔ میری گود بھرائی کی رسم بھی بڑی دھوم دھام سے انجام پائی۔حیا آپی نے بھی میری گود بھرائی کی رسم میں شرکت کی، اُس کے بعد وہ بھی ابراہیم بھائی کے پاس واپس پیرس چلی گئی اُن کے بچوں کی چھٹیاں ختم ہوگئی تھیں۔
میری شادی کے بعد امّی اور راشد اکیلے پڑ گئے تھے۔ راشد کالج میں چلا گیا تھا۔ میں ہر روز امّی کو ٹیلی فون کرتی اور ہفتے میں ایک چکر اُن کی طرف ضرور لگاتی کینٹ سے اڈہ پسروریاں دُور ہی کتنا تھا، کبھی سجاد اپنی فیکٹری جاتے ہوئے مجھے امّی کی طرف ڈراپ کر دیتے اور شام کو فیکٹری سے واپسی پر پِک کر لیتے۔ میرا ساتواں مہینہ شروع ہو گیا تھا ایک رات میں نے سجاد کو ٹیلی فون پر کسی سے باتیں کرتے ہوئے سُنا مجھے شک ہوا۔
چند دن بعد میں نے حوصلہ کرکے سجاد سے پوچھ ہی لیا۔ تو اُس نے بغیر کسی جھجھک اور شرم کے مجھے صاف صاف بتا دیا کہ اُس کا ایک شادی شدہ عورت سے چکر ہے اُس کے دو بچے بھی ہیں۔ اُس کا میاں بھی ایکسپورٹر ہے اور اکثر ملک سے باہر ہوتا ہے اُس کی غیر موجودگی میں سجاد اُس عورت کی تنہائی کو دُور کرتا تھا۔ میں نے کئی بار سجاد کو سمجھانے کی کوشش کی مگر کوئی رزلٹ نہیں نکلا۔ ایک رات بات اتنی بڑی کہ سجاد کا مجھ پر ہاتھ اُٹھ گیا پھر یہ اکثر ہونے لگا میری زبان چلتی اور اُس کا ہاتھ، میں کس سے اِس کا ذکر کرتی۔۔۔اپنی ساس سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن نہیں کر سکی۔
پھر اللہ نے مجھے خوشی دکھا دی۔ ارسلان کی پیدائش کی خوشی میں انکل سلطان نے ایک دعوت کی۔ جس میں میرے میکے اور سسرالیوں کے تمام رشتے دار مدعو تھے۔ مجھے لگا یہ مناسب وقت ہے۔ میں نے سجاد اور اُس عورت کی ساری کہانی سب رشتے داروں کو سُنا دی اور سجاد کو سمجھانے کی درخواست بھی کی۔ سجاد کو جب یہ پتا چلا تو وہ کہنے لگا
تم نے مجھے سب رشتے داروں میں بدنام کیا ہے۔ تم مجھ سے بات کرتیں، رشتے داروں کے سامنے تماشا لگانے کی کیا ضرورت تھی۔
بحث شروع ہوگئی۔ بحث تلخ کلامی میں کب بدلی پتا ہی نہیں چلا۔ تلخ کلامی نے لڑائی کی شکل اختیار کر لی۔ میرا بھائی راشد بھی جذباتی ہو گیا ۔ سجاد کے گھر والوں نے ارسلان کو مجھ سے چھینا، سجاد نے اُسی وقت مجھے کئی طلاقیں دے ڈالیں۔
مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ لمحوں میں میری دنیا برباد ہو گئی۔ اُسی وقت مجھے میرے رشتے داروں سمیت گھر سے نکال دیا گیا۔
میں روتی ہوئی وہاں سے اپنے گھر پہنچی۔ ایک ارسلان کی جدائی کا غم اوپر سے طلاق کا طوق میرے گلے میں۔۔۔ دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں، مہینوں نے سالوں کا روپ دھار لیا چار سال کیسے گزرے پتہ ہی نہیں چلا۔ اُن چار سالوں میں سجاد کے گھر والوں نے کبھی مجھ سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی میں نے کوشش کی کہ اپنے بیٹے کا ہی پتہ کر لوں یا اُسے دیکھ ہی آئوں۔امی اور حیا آپی نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا:
’’اپنا بیٹا مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر تم نے اِس سلسلے میں عدالت سے رجوع کیا تو سمجھنا تمھاری ماں اور بہن مر گئیں تمھارے لیے۔۔۔‘‘ میں امی اور آپی کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ امی اور آپی میری دوسری شادی کروانا چاہتی تھیں۔میرے کئی رشتے آئے مگر بات نہیں بن سکی۔
ایک دن خبر ملی کہ سجاد کو اُس عورت کے رشتے داروں نے ڈنڈوں سے مار مار کے گلی میں پھینک دیا ہے۔ سجاد کے گھر والے لاش اُٹھا لائے۔ سجاد کی موت کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی یہ حادثہ رات دس بجے کے قریب ہوا تھا، اگلے دن صبح 11بجے سجاد کا جنازہ تھا قبر کھود لی گئی تھی۔ سجاد کے ایک انکل ڈاکٹر ہیں ۔جنازہ اُٹھانے سے پہلے انہیں سجاد کے جسم میں حرارت محسوس ہوئی وہ سب سے لڑ جھگڑ کر سجاد کو ہسپتال لے گئے وہاں انہوں نے جا کے سجاد کو کوئی مہنگا انجیکشن لگوایا۔
سجاد کے جسم میں جان باقی تھی۔ سجاد اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ مجھے نہیں پتا یہ کرامت تھی یا کچھ اور۔۔۔؟
سارا شہر سجاد کو دیکھنے اُس کے گھر جا رہا تھا۔ میرے محلے کی عورتوں نے مجھے بھی مجبور کیا کہ تم بھی چلو میں بھی پردہ کرکے اُن کے ساتھ چلی گئی۔
بڑے سے لان میں سجاد ایک سٹیج پر بیٹھا ہوا تھا اور لوگ اُس کی زیارت کر رہے تھے۔ سب لوگوں کو مٹھائی اور چائے پیش کی جا رہی تھی۔
یہ ہے وہ نوجوان جو موت کی دہلیز پر کھڑا رہا اور دنیا سے عالمِ برزخ میں نہیں گیا۔
ایک ملنگ نے زور سے سجاد کی طرف انگلی کر کے کہا۔ سجاد کی ممّی نے سجاد پر سے چند ہزار وار کر اُس ملنگ کو دیئے۔ گھر کی ایک ملازمہ اُسی وقت میرے بیٹے ارسلان کو بھی وہاں لے آئی۔ میری ساس نے ارسلان کو چوما اور کہنے لگی
یا اللہ تیرا شکر ہے جو تونے میرے پوتے ارسلان پر اُس کے باپ کا سایہ قائم رکھا۔ میںنے سُنا تو میرے اندر کی ممتا جاگ اُٹھی۔ میں ارسلان کی طرف لپکی میری چادر گر گئی۔ میرے چہرے سے نقاب ہٹ گیا۔ میں نے جاتے ہی اپنی ساس سے ارسلان کو  لے لیا اور اُسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ ارسلان کو سینے سے لگاتے ہی مجھے سکون مل گیا۔ سارا ہجوم حیران اور پریشان تھا۔
سجاد اپنی کرسی سے اُٹھا اور ہجوم کو مخاطب کر کے کہنے لگا
’’یہ میری بیوی ہے۔ ناراض ہو کر میکے چلی گئی تھی۔‘‘
ہماری آنکھیں چار ہوئیں۔ پتا نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا۔ میں چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کہہ سکی۔ میں سجاد کے پاس ہی رُک گئی۔ محلے کی عورتوں نے گھر جا کر امّی کو اطلاع دی۔ چند گھنٹے بعد امّی اور بھائی مجھے لینے آئے۔ تب تک سجاد شہر کے ایک بڑے عالم کا فتویٰ  لے آیا تھا ۔
امّی نے میری مرضی پوچھی۔ میں محبت کی تپش سے پگھل چکی تھی۔ وہ محبت ارسلان کی تھی یا پھر سجاد کی مجھے نہیں پتا۔
تمھاری طلاق ہو چکی ہے۔ امی نے مجھے سمجھایا۔ یہ سُن کر سجاد کہنے لگا
میرے پاس بڑے عالمِ دین کا فتوہ ہے ہماری طلاق نہیں ہوئی۔ یہ اب بھی میری بیوی ہے۔ میں اِسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں۔ اُس دِن جو ہوا میں آپ سب سے اُس کی معافی مانگتا ہوں۔
سجاد کی آنکھوں میں نمی تھی۔ وہ یہ ریلیشن رکھنا چاہتا تھا۔ میں وہیں رُک گئی۔ میں چار ماہ سجاد کے ساتھ بیوی کی طرح رہی، مگر بے چین ، ہر گزرتے دن کے ساتھ میری بے چینی میں اضافہ ہوتا رہا۔ پھر مجھے خوف ناک خواب آنے لگے کہ میں جہنم کی آگ میں جل رہی ہوں۔
چار ماہ بعد میں پھر سے امی کے گھر آ گئی۔ سجاد کئی بار مجھے لینے آیا مگر میں نے جانے سے انکار کر دیا۔
ایک دن تنگ آ کر سجاد مجھے کہنے لگا
اِس بار تو میں نے تمھیں پھولوں کی طرح رکھا ہے اور اب میرے کسی دوسری عورت کے ساتھ تعلقات بھی نہیں ہیں۔
بات تو سجاد کی صحیح تھی مگر میں اُس کے ساتھ جانا نہیں چاہتی تھی۔ سجاد کی قربت مجھے کسی گناہ کا احساس دلاتی۔ میں بیمار رہنے لگی۔ امّی نے کئی ڈاکٹروں سے دوائی لی مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ امّی کو کسی نے ایک حکیم صاحب کا بتایا۔
حکیم صاحب نے دو بار مجھے ہفتے ہفتے کی دوائی دی۔ تیسرے ہفتے حکیم صاحب کہنے لگے
بیٹی تمھیں بیماری تو کوئی نہیں کوئی دُکھ کوئی پچھتاوا ہے۔ حکیم صاحب شہر کے جانے مانے حکیم تھے۔ انہوں نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ میں نے اپنی ساری کہانی اُنہیں سُنا دی۔
’’بیٹی تم چار ماہ تک اُس شخص کے ساتھ ناجائز طور پر رہی ہو۔‘‘
’’مگر سجاد کے پاس کسی عالمِ دین کا فتویٰ تھا۔‘‘
تو پھر واپس چلی جاؤ۔‘‘ حکیم صاحب نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اُس کی قربت مجھے کسی گناہ کا احساس دلاتی ہے۔
حکیم صاحب میری بات سُن کر سوچ میں پڑ گئے ۔ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے
نیکی کرنے کے بعد سکون ملتا ہے اور گناہ کرنے کے بعد پچھتاوا ہوتا ہے۔۔۔ اگر گناہ مسلسل کرتے رہو پھر پچھتاوا ہونا بھی بند ہو جاتا ہے۔ میرے عقیدے کے مطابق تمھاری طلاق ساڑھے چار سال پہلے ہی ہو چکی تھی ۔
دیکھو بیٹی!! یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ میں تمہیں کوئی فتویٰ تو جاری نہیں کروں گا۔ اپنا نقطہ نظر میں نے تمھارے سامنے رکھ دیا ہے باقی شہر علما کرام سے بھرا پڑا ہے تم کسی اور سے پوچھ لو۔
حکیم صاحب نے بڑی شائستگی سے اپنی رائے میرے سامنے رکھ دی تھی۔ میں وہاں سے آ گئی۔ اگلے چند دن میں نے شہر کے تمام بڑے علما کرام سے فتوے لیے آدھے کہتے ہیں
ساڑھے چار سال پہلے تمھاری طلاق ہوگئی تھی۔
آدھے کہتے ہیں : تمھیں طلاق نہیں ہوئی۔
میں پریشان ہوں میں اپنے بیٹے کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں ۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی میں کیا کروں؟ آپ ہی مجھے بتائیں۔۔۔؟
میں کس کی مانوں۔۔۔یہ ہے میرا سوال۔۔۔؟

…٭…

Previous article
Next article

Related Articles

1 COMMENT

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles