29 C
Lahore
Saturday, July 27, 2024

Book Store

پادری کا خزانہ

پادری گلفام جوزف نے فکرمندی کے ساتھ ہاتھ میں پکڑے خط کو دوبارہ دیکھا۔ شکستہ تحریرمیں مختصر خط اُس کے عزیز دوست نذیر مارٹن کی طرف سے تھا
’’دوست!! خط مِلتے ہی شیام گڑھ کے لیے روانہ ہو جاؤ۔ دیر مت کرنا۔‘‘
پادری گُلفام کو عِلم تھا کہ اُس کا دوست دو ہفتے پہلے کِسی مہم پر شیام گڑھ گیا تھا۔ نہ جا نے وہاں کیا پیش آیا ہو گا؟ پادری اِسی لیے پریشان تھے۔
اُنھوں نے فوراََ ایک بیگ میں دو جوڑے رکھے او ر اپنے نائب کو گرجا کے انتظام کی ہدایت دے کر روانہ ہو گئے۔ سات آٹھ گھنٹے کا فاصلہ طے کر کے شام کے قریب دیے ہوئے پتے پر جا پہنچے۔
وہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جس میں ایک ہی سرائے تھی۔ پادری اِسی میں رہ رہے تھے۔
دروازہ اِن کے ملازم نے کھولا۔
وہ پادری گُلفام کو لے کر اندر کمرے میں داخل ہوا۔ اپنے دوست کو دیکھتے ہی اُسے دھچکا لگا۔ وہ بہت کمزور اور بیمار لگ رہا تھا۔ انھیں آتا دیکھ کر پادری نذیر مارٹن کی آنکھیں چمکنے لگیں اور وہ کمزور آواز میں بولے:
’’مجھے یقین تھا تُم فوراََ چل پڑو گے۔ میں ابھی بہت کمزوری محسوس کر رہا ہوں۔ تمہیں ایک بہت ضروری کام کے لیے بلایا ہے , لیکن وعدہ کرو جب تک کام مکمل نہیں ہوتا تم مجھ سے کوئی سوال نہیں کرو گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے میرے دوست!‘‘ پادری نے وعدہ کیا۔
’’مجھے تم پر اعتماد ہے اور تم بھی مجھ پر بھروسا کرو۔ میں بِلا یہ کام، تمہاری ہدایت کے مطابق کرنے کی کوشش کروں گا بغیر کسی سوال جواب کے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘ پادری نذیر یکدم نِڈھال دِکھائی دینے لگا۔ سورج ڈوبنے کے قریب تھا۔ اُس نے مضمحل آواز میں کہا: ’’باقی باتیں میرا وفادار خادم جاوید سائمن بتا دے گا۔ اب میں آرام کروں گا۔‘‘
خادم سائمن، پادری گلفام کو دوسرے کمرے میں لے آیا۔’’
جناب! آپ تازہ دَم ہو جائیں۔ میں کھانا لے آتا ہوں۔‘‘
کھانے سے فراغت کے بعد سائمن نے کہا: ’’جناب! اب آپ آرام کیجئے۔‘‘
پھر ہچکچاتے ہوئے بولا:
’’دروازہ اندر سے اچھی طرح بند رکھیے گا اور کچھ بھی ہو، کھولنا نہیں۔ صبح سورج نِکلنے کے بعد میں خود آپ کے پاس حاضر ہو جاؤں گا۔‘‘

پادری گلفام نے وعدے کے مطابِق کچھ نہ پوچھا اور دل ہی دل میں حیرت زدہ بِستر پر لیٹ گئے۔
شاید فوراََ سو بھی گئے کیوں کہ ایک تھکا دینے والے لمبے سفر سے یہاں تک پہنچے تھے، مگر یہ کیا … اچانک ہڑبڑا کر اُٹھے۔
پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا۔ رفتہ رفتہ حواس بحال ہوئے تو اُنھیں محسوس ہوا گویا کمرے میں کیچڑ اور پھپھوندی جیسی سڑاند پھیلی ہو۔ پھر وہ چونکے۔ کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا تھا۔
جیسے کوئی آہستگی سے دروازے پر زور آزمائی کر رہا ہو۔ اچانک اُ نھیں خادم کی بات یاد آئی،
’’کچھ بھی ہو دروازہ نہیں کھولنا۔‘‘
وہ سوچ میں پڑ گئے مگر وہ بدبو اُن کی سوچ میں مُخل ہو رہی تھی۔ اب وہ اُٹھے اور بدبو کا منبع ڈھونڈنے لگے۔
کمرا بالکل صاف تھا۔ غسلخانے میں بھی بظاہر کوئی گندگی نہیں تھی لیکن بدبو پورے کمرے اور غسلخانے میں پھیلی ہوئی تھی۔
تھک ہار کر وہ بِستر پر لیٹ گئے اور تکان کے باعث جلد ہی نیند کے جھونکے آنے لگے۔
ساری رات نیند، بدبو اور دروازے کی زور آزمائی کے درمیان آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ پھر حیرت انگیز طور پر پو پھٹتے ہی کمرے میں سُکون ہو گیا۔
وہ دماغ مائوف کر دینے والی بد بو غائب تھی اور دروازہ خاموش تھا۔
اس وقت پادری گہری نیند سوئے ہوئے تھے جب دروازے پر دستک کی آواز سے آنکھ کھُلی۔ سائمن اُ ن کا نام لے کر پُکار رہا تھا۔ پادری صاحب بمشکل اُٹھے۔
دروازہ کھولا۔ سامنے خادم ناشتہ کی ٹرے لیے کھڑا تھا۔

’’معاف کیجئے جناب۔ مجھے معلوم ہے رات آپ بے چین رہے مگر پادری صاحب آپ کو یاد فرما رہے ہیں۔
براہِ مہربانی ناشتہ کیجئے۔‘‘
یہ کہہ کر خادِم ٹِرے میز پر رکھ کر کمرے سے نِکل گیا۔ پادری گلفام غسلخانے جاتے ہوئے سوچنے لگے:

’’اسے رات کی بے چینی کا کیسے پتا؟‘‘‘ وہ حیرت زدہ ضرور تھے مگر بدگُمان ہرگز نہیں۔
آدھے گھنٹے بعد دونوں دوست آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ رَسمی گفتگو کے بعد پادری نذیر مارٹن بولے:
’’میرے عزیز دوست! اب کام کا وقت ہو گیا۔
تم سائمن کے ساتھ جائو۔ وہ تمہیں کام کی نوعیت سے آگاہ کر دے گا۔‘‘

وعدے نے پادری کی زبان بند رکھی۔ وہ خاموشی سے اُٹھے اور خادِم کے ساتھ باہر نِکل گئے۔

تقریباََ چالیس پینتالیس منٹ بعد دونوں واپس سرائے میں پادری نذیر مارٹن کے کمرے میں داخل ہوئے۔ پادری گلفام کا چہرہ شِدّتِ جذبات سے تمتما رہا تھا۔
’’کام مکمل ہو گیا؟‘‘ پادری نذیر نے سوال کیا۔ ’’کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا؟‘‘
’’نہیں جناب۔‘‘ پادری گلفام کے بجائے خادِم نے ادب سے جواب دیا۔
’’ہمارے محترم پادری صاحب نے بخیر و خوبی تمام فریضہ انجام دیا۔‘‘

بستر پر لیٹے ہوئے پادری نذیر نے گہرا سانس لیا:
’’خداوند کا شکر ہے۔‘‘ پھر پادری گلفام کا ہاتھ پکڑ کر اپنے نزدیک کیا اور کہنے لگا:
’’سائمن! تم بھی بیٹھو اور میرے عزیز دوست۔ میں تمہیں پوری کہانی سُناتا ہوں۔
اِس کا آخری حِصّہ سائمن سنائے گا۔ اب میں خود کو ترو تازہ اور پُر سُکون محسوس کر رہا ہوں۔ اب مجھ میں اتنی طاقت ہے کہ میں تمہیں تفصیل سے سب سُناؤں۔‘‘
پادری گُلفام ہمہ تن گوش ہو گئے۔ پادری نذیر نے چند لمحے توقف کیا پھر اُٹھ بیٹھے اور ہلکا سا کھنکھار کر یوں گویاہوئے:
’’پچھلے سال کی بات ہے۔ آثارِ قدیمہ کے ایک ماہر کی تحقیقی کِتاب میرے ہاتھ لگی۔ اس کی تحقیق پُرانے گرجا گھروں کے بارے میں تھی۔
خصوصاََ وہ گرجا گھر جو اب آباد نہیں رہے مگر اُن کی کوئی نہ کوئی تاریخی اہمیت ضرور ہے۔ اِن میں شیام گڑھ کا گِرجا بھی شامِل تھا۔

اِس گرجے کا ذکر کر نے سے پہلے اُس مُحقِق نے ایک داستان بیان کی جِس کی کڑیاں اِسی سے جا ملتی ہیں۔ اُس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ گئے وقتوں میں اِس گرجا کے رہائشی کوارٹر میں ’یونس‘ نام کے ایک پادری تھے۔
انھوں نے ذاتی طور پر شیام گڑھ کے اِس گرجا کی تزئینِ نو اور آرائش کا کام شروع کیا۔
وہ خود بھی بہت اچھے کاریگر تھے۔ لکڑی پر نقش و نگار بنانا، دیواروں پر تصاویر بنانا، شیشوں پر رنگ و روغن سے تصویر کشی کرنا … وہ اِن تمام چیزوں کے ماہر تھے۔
کہا جاتا ہے اِس گرِجے کے اندر جتنا بھی لکڑی کا کام ہوا یعنی کھڑکیاں دروازے وغیرہ اور بڑے عبادت والے ہال کی تمام کھڑکیوں کے شیشوں پر مقدس ہستیوں کی رنگین شبیہیں انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے بنائیں یا اپنی زیرِ نگرانی بنوائیں۔
جب تک وہ زندہ رہے گرجا میں باقاعدگی سے عبادت کروائی۔ وہ گرجا کے احاطے ہی میں رہتے تھے۔ اِن کا کوئی والی وارث نہیں تھا نہ ہی کوئی دور پرے کا عزیز۔
عیسائی ہو یا کسی بھی دین مذہب کا کوئی بھی ضرورت مند، مدد کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔
قصبہ بھر میں بہت ہر دل عزیز اور مقبول تھے۔ مرنے سے پہلے وقتاََ فوقتاََ لوگوں کو اشارے دینے لگے۔ جِس کا خلاصہ صاحبِ کِتاب نے کچھ یوں بیان کیا۔‘‘

’’پادری یونس کے پاس سونے کی شکل میں کچھ دولت موجود تھی جو اُس نے اُسی گرجا کے احاطے میں کہیں چھپا دی تھی۔ اس دولت کا کوئی وارث نہ تھا۔
پادری یونس لوگوں سے کہتا تھا کہ اُس نے وہ دولت چھپائی ضرور مگر اُس کی کھوج کے لیے کچھ نِشانیاں چھوڑی ہیں۔ اب جو بھی قِسمت آزمائی کرے اور دولت ڈھونڈ نِکالے تو وہ اُسی کی ہو گی۔ اگر وہ یہ دولت استعمال کر سکے تو ضرور کرے۔

صاحبِ کِتاب اِس کے بعد رقمطراز ہے کہ جب یہ روایات اِس تک پہنچیں تو وہ بھی قِسمت آزمانے وہاں جا پہنچا۔ گرجا گھرکی عمارت اپنی جگہ قائم مگر بہت بوسیدہ تھی البتہ احاطے میں موجود رہائشی کوارٹر کھنڈر بن چکا تھا۔
قصبے کے لوگوں سے اِن روایات کی تصدیق ہوئی۔ وہاں کے لوگ ایسی مہم جوئیوں کے عادی تھے۔ کسی نے تعرض نہ کیا۔ مدد کے لیے لوگ بھی مہیا کیے لیکن باوجود کوشش وہ کِسی نِشانی کا کھوج نہ لگا سکا۔

وہ لکھتا ہے یقیناََ نِشانیاں دیواروں کی تصاویر اور شیشے پر نقش و نِگار میں ہی پوشیدہ ہیں
مگر افسوس وہ انھیں ڈھونڈنہ سکا اور اپنی مفصل تحقیق لکھنے کے بعد اُس نے آنے والی نسلوں کے لیے ایک چیلنج چھوڑ دیا۔ میں نے کئی مرتبہ کِتاب کا وہ حِصّہ پڑھا
جِس میں پادری یونس کے چھپے خزانے اور نِشانیوں کا ذکر تھا۔‘‘

’’پھر میں نے اِس کام کا بیڑا اُٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔ سائمن ایک عرصہ سے میرے ساتھ ہے۔ میرا ہمدم، ہمراز اور قابلِ بھروسا۔ میں نے سائمن کو تفصیل بتائی اور ہم دونوں اپنی تیاری کرنے لگے۔
ہم نے پورا منصوبہ بنایا جِس میں اِس بات کو بھی مد نظر رکھا کہ کیا خبر ہمیں رات کو کوئی خفیہ کارروائی کرنا پڑے تو ہم نے مصوری کا سامان بھی ساتھ رکھ لیا۔ آج سے دو ہفتے پہلے ہم اس سرائے میں پہنچ چکے تھے۔ اگلے دِن ہم نے گرجا کا جائزہ لیا۔
عبادت کا بڑا ہال گرد و غبار اور جالوں سے اَٹا پڑا تھا۔ تمام تصاویر اِن کے پیچھے چُھپی ہوئی تھیں۔ ہم نے ایک تصویر منتخب کی اور اس کی مٹی دھول صاف کرنے لگے۔ دس پندرہ منٹ کی محنت کے بعد تصویر کے نقش و نگارواضح ہو گئے۔ سورج کی تیزکرنیں کمرا روشن کیے ہوئے تھیں۔
اِس روشنی میں اندازہ ہوا کہ تصویر کا روغن ابھی تک اپنی آب و تاب برقرار رکھے ہوئے ہے۔ شام تک ہم کافی تصویریں اور شبیہیں صاف کر چکے تھے۔
ہر ایک تصویر مختلف تھی۔ کہیں تجریدی مصوری، کہیں ہندسی؍جیومیٹریکل شکلوں سے فَن پارہ بنایا گیا تھا۔

’’اگلے دِن میں کاغذ پنسل ساتھ لے گیا۔ دوپہر تک مزید کئی کھڑکیوں کے شیشے صاف کیے۔ پھر ہم نے کام روک دیا۔ اب میں فرداََ فرداََ ہر تصویر کی اہم باتیں نوٹ کرنے لگا۔
دِن ڈھلے تک تقریباََ سب تصاویر کی اہم باتیں نوٹ ہو گئیں۔ سرائے میں واپس آ کر بہت سَر کھپایا مگر کچھ پلے نہ پڑا۔ وہ تمام تصاویر جو ہماری پہنچ میں تھیں وہ ہم صاف کر چکے تھے۔
اب کچھ کھڑکیاں اور بڑے روشندان جو بُلندی پر تھے، وہاں سیڑھی کے بغیر پہنچنا ممکن نہ تھا۔

’’تیسرے دن ہم پہلے قصبے کے اکلوتے بازار گئے۔ ڈھونڈ ڈھانڈ کر ایک خاصی لمبی سیڑھی کرائے پر مِل گئی۔ وہیں سے ہم نے ایک مزدور بھی اُجرت پر ساتھ لے لیا۔
اُوپر دو بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں۔ ہم نے مزدور کو سیڑھی پر چڑھایا کہ وہ کھڑکی کو احتیاط سے صاف کرے۔ جب کھڑکی صاف ہو گئی تو ہم نے مزدور کو بھیج دیا کہ کل آ کر دوسری کھڑکی صاف کرے۔ اب میں سیڑھی پر چڑھا۔ کھڑکی بڑی تھی۔
اِس کی اہم باتیں نوٹ کرنے کے لیے تین مرتبہ سیڑھی کھسکانی پڑی۔ صفائی بھی اِسی طرح ہوئی تھی۔ چوتھے روز مزدور صبح ہی پہنچ گیا۔ دوسری بڑی کھڑکی کی صفائی شروع ہوئی۔ ابتدائی مٹی دھول، جالے صاف ہوئے تو تصویر کے گِرد ایک کالا حاشیہ نظر آیا۔
آدھی کھڑکی صاف ہوئی تو سیڑھی کھِسکائی۔ مزدور دوبارہ اُوپر چڑھا۔اب جو صفائی شروع کی تو جانے کِس طرح قدرے زور سے اُس کا ہاتھ کالے حاشیے پر پڑا کہ اُس پر جمے ہوئے ٹھوس رنگ یا روغن کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اُتر گیا۔
نیچے سے پیلا رنگ دکھائی دینے لگا۔میرا ماتھا ٹھنکا۔ کیا کالے رنگ سے کوئی چیز چھپائی گئی ہے؟ کیا کالا رنگ کسی چیز کو چھپانے کے لیے پیلے رنگ پر کیا گیا؟

ایک لمحے کے ہزارویں حِصّے میں فیصلہ ہو گیا۔ میں نے ڈانٹ کر مزدور کو کہا کہ تم نے نقصان کر دیا ہے۔ اب تم نیچے اُتر آؤ۔ باقی کام ہم خود کر لیں گے۔ وہ پہلے ہی شرمندہ تھا۔ فوراََ نیچے اُتر آیا۔ میں نے طے شدہ اُجرت اُس کے حوالے کی اور واپس بھیج دیا۔
’’اب میں خود اُوپر چڑھا اور بہت احتیاط سے کالے حاشیے کو کھر چا۔ واقعی تھوڑا ہی رنگ اُترا تو نیچے پیلے رنگ کے اُوپر کچھ حروف ِ تہجّی لکھے نظر آئے۔
مجھے اپنی کامیابی نزدیک محسوس ہوئی۔ بہت احتیاط سے میں نے تمام کالا حاشیہ کھرچ ڈالا۔ چاروں اطرف میں ایک ترتیب سے حروفِ تہجی لکھے ہوئے تھے مگر شام قریب تھی۔
اِس لیے نوٹ کرنے کا کام اگلے دن کے لیے اُٹھا رکھا۔

’’پانچویں روز ہم دونوں خوشی خوشی گِرجا گھر جا پہنچے اور تمام حروف کو اُفقی اور عمودی اُسی ترتیب سے نوٹ کیا۔ وہ حروفِ تہجی انگریزی میں تھے۔
میں نے بہت احتیاط سے انھیں کاغذ پر نقل کر لیا۔ جب ایک طرف کے حروف لِکھ لیے تو تصدیق کے لیے انھیں گِنا۔ حاشیے پر اور میرے لکھے ہوئے حروف برابر تعداد میں تھے۔
یعنی اڑتیس ( ۳۸ )۔ اِس طرح میں نے سب حروفِ تہجی لکھتا اور تصدیق کے لیے گنتی کرتا گیا۔ وہ سب اڑتیس اڑتیس تھے۔ یہ بہت صبر آزما اور مُشقّت طلب کام تھا۔

’’دوپہر کے بعد ہم فارغ ہوئے اور سرائے میں اِن حروف کو جوڑنے کا کام شروع کیا۔ ہم نے ہر طرح کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ رات سر پر آ گئی۔
ہم ذہنی اور جِسمانی طور پر تھک چکے تھے۔ فیصلہ ہوا کہ دوبارہ تصویر پر غور کرنے صبح جائیں گے۔ یقیناََ اِسی تصویر میں اِن حروف کو سمجھنے کا کوئی سُراغ چُھپا ہو گا۔

 ہمیں وہاں آئے چَھٹا دِن تھا جب ہم دونوں پھرگرجا کے اِسی کمرے میں تھے۔ میں سیڑھی سے اُوپر چڑھا۔ کھڑکی کے شیشے پر روغن سے بنائی ہوئی تین مُقدس ہستیوں کی شبیہیں تھیں۔
پس منظر میں بادل اور چند پرندے اُڑتے دکھائے گئے تھے۔کہیں بھی کچھ لکھا ہوا نہیں تھا۔ اچانک میری نظر حاشیے کے اندرونی کونے پر پڑی۔ وہاں رومَن ہندسوں میں بہت باریک سا XXXVIII یعنی اڑتیس لکھا تھا۔ میں نے پھر شبیہوں پر غور کرنا شروع کیا۔

’’پہلی شبیہہ کے بائیں ہاتھ میں پرانے زمانے کا نیم کھُلا گول کاغذ تھا اور دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت ہوا میں بُلند تھی۔ میں نے غور سے کاغذ کو دیکھا تو اُس میں انگریزی میں واضح لکھا تھا:
’’ایک پتھر کی ۷ آنکھیں۔‘‘ شاید یہ اُس جگہ کا سُراغ تھا جہاں خزانہ پوشیدہ تھا۔

’’دوسری شبیہہ کے بائیں ہاتھ میں ایک کِتاب اور دائیں ہاتھ کی دو انگلیاں ہوا میں بلند تھیں۔ کِتاب پر کوئی خاص قابلِ توجہ بات نہ تھی۔
’’تیسری شبیہہ کے بھی بائیں ہاتھ میں ایک کاغذ تھا مگر سادا اور دائیں ہاتھ کی تین اُنگلیاں ہوا میں بُلند تھیں۔ میرے ذہن میں ایک جھپاکا ہوا۔ ہاتھ کی ایک دو اور تین انگلیاں ۔
یقیناََ یہ ہی سُراغ تھا۔ میں فوراََ سیڑھی سے نیچے اُترا۔ میں اور سائمن تیزی سے سرائے پہنچے۔ حروفِ تہجی کو سامنے رکھ کر پنسل ہاتھ میں لی اور پہلا حرف چھوڑ کر اگلے حرف کے گِرد دائرہ بنا دیا۔ پھر ایک حرف چھوڑ کر اگلے دو حروف کے گرد دائرہ بنایا۔
پھر ایک حرف چھوڑ کر اگلے تین حروف کو دائرے میں کر دیا۔ اِس طرح تمام حروف کو ترتیب کے ساتھ ایک، دو اور تین حروف کے گرد دائرے بناتا رہا۔
جب تمام حروف مکمل ہو گئے تو دائرے سے باہر حروف کو لکھنا شروع کیا۔ بہت واضح الفاظ ترتیب پاتے رہے اور پیغام مکمل ہو گیا۔ جو اِس طرح تھا:
میں، یونس نے شیام گڑھ میں گرجا کے احاطے میں کنوئیں کے اندرسونے کی دس ہزار اینٹیں محفوظ کی ہیں، اور اُن پر ایک نگران بھی مُقرر کیا ہے۔

’’ہم دونوں کی خوشی بیان سے باہر تھی لیکن اِس کے ساتھ ساتھ نگران مقرر کیے جانے کی بات پر ہم دونوں فکر مند بھی تھے کہ نہ جانے یہ کیسا نگران ہو؟
یہ سوچ کر ہی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی سرد لہر اُٹھی اور ہلکی سی کپکپاہٹ طاری ہو گئی۔ ہم دونوں نے خیالات کے بہت گھوڑے دوڑائے مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔
فیصلہ ہوا کہ کنوئیں کی تلاش اگلے دِن کی جائے۔ پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا۔

ساتویں دِن صبح گرجا پہنچے۔ ہمیں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی۔ احاطے میں داخل ہوتے ہی سامنے داخلی دروازہ ہے۔ ہم دائیں مُڑے تو ذرا ہی آگے ہمیں ایک جگہ اینٹوں کے آثار نظر آئے۔ قریب پہنچے تو واقعی ایک کنوئیں کی منڈیر تھی۔ اِس کے اُوپر پانی نکالنے والی چرخی بالکل صحیح حالت میں تھی۔
معلوم ہوتا کہ مقامی لوگ کچھ عرصہ پہلے تک بھی اِس کا پانی استعمال کرتے رہے تھے۔ پھر کنوئیں کے منہ پر لکڑیاں رکھ اور اُوپر سے گھاس پھونس بچھا کر اُسے بند کر دیا۔
ہم نے کنوئیں کے چاروں اطراف خوب غور و خوص کیا۔ ٹوٹا کوارٹر بھی دیکھ آئے مگر کسی محافظ کا اندازہ نہ ہو سکا۔ ہم نے خطرہ مول لینے کا فیصلہ کر لیا۔

’’احاطے کی دیوار جا بجا شِکِستہ اور دروازہ بھی غائب تھا۔ اِس بات کا امکان موجود تھا کہ اگر ہم دِن میں کوئی کارروائی کریں تو لوگوں کی نظروں میں آ سکتے تھے۔
بہت سوچ بچار کے بعد ہم نے ایک منصوبہ ترتیب دیا۔ ہم بازار سے مضبوط لمبی رسی خرید کر لائے۔ تصویر کشی کا سامان اور ’ ایزل بورڈ‘ ہمارے پاس پہلے ہی موجود تھا۔

’’قدرت بھی جیسے ہم پر مہربان تھی۔ اگلے دن چاند کی چودھویںرات تھی۔ آٹھویں دِن ہم نے صبح ہی سرائے کے مالک سے کہہ دیا کہ آج رات ہم چاند کی روشنی میں گرجا کی تصویر کشی کریں گے اور رات کو دیر سے واپسی ہو گی۔ شام کو ہی ہم اپنا سامان گرجا کے احاطے میں پہنچانے لگے۔
تصویر کشی کے سامان کے ساتھ رسّی، ایمر جنسی لائٹیں بھی احاطے میں رکھ دیں۔
کھانا کھا کر رات آٹھ بجے ہم احاطے میں پہنچ گئے۔ ایک طرف ہم نے مصوری کا سامان اِس طرح سیٹ رکھا کہ ہم ایزل اور کینوِس کے پیچھے چھُپ جائیں۔

یہ تیاری کر کے ہم نے کنوئیں کا منہ کھولا۔ ایک لمبے عرصے تک بند رہنے کی وجہ سے اندر کافی بد بو تھی۔ کنوئیں کا منہ خاصا کشادہ ہے۔
اِس لیے گھٹن اور گیس بھرنے کا امکان کم تھا۔ سائمن نے رسّی کا ایک سِرا چرخی میں سے گزارا۔
پھر اُس کی مضبوطی جانچنے کے لیے زور زور سے جھٹکے دیے۔ بلاشبہ اُس کی مضبوطی قائم تھی۔

سائمن نے میرے بازوئوں کے نیچے سے رسّی گزار کر مجھے بڑے اچھے طریقے سے باندھ دیا کہ کِسی حادثے کی صورت میں، وہ مجھے گرنے سے محفوظ رکھے۔
میں قدم قدم نیچے اُترنے لگا۔ میرے ہاتھ میں ایک مضبوط لاٹھی تھی۔
سیڑھیاں بہت کشادہ اور مناسب فاصلے سے دیوار کے ساتھ ساتھ نیچے اُتر رہی تھیں۔ ہر سیڑھی پر قدم رکھنے سے پہلے میں احتیاطاََ لاٹھی سے سیڑھی کو ضرب لگا کر جانچتا کہ وہ صحیح ہے یا نا قابلِ بھروسا۔ کیا پتا کہیں کوئی چال نہ ہو … کوئی پوشیدہ پھندہ۔

’’اندازہ کرو کہ یہ مشق میں ہر قدم پر کر رہا تھا۔ میرے ایک ہاتھ میں لاٹھی اور دوسرے میں ایک ٹارچ تھی۔ صورتِ حال یہ تھی کہ ایک طرف میں احتیاط سے سیڑھیوں پر قدم رکھتا۔
دوسری طرف ٹارچ کی روشنی میں سیڑھیوں کے ساتھ والی دیوار بھی بغوردیکھ رہا تھا۔
پھر تیسری طرف ہر سیڑھی کو گِن رہا تھا۔ میرے ذہن میں ۳۸ کا ہندسہ تھا۔
یہی کچھ کرتے ۳۸ ویں سیڑھی آ گئی۔ میں نے خوب غور سے کنوئیں کی اندرونی دیواروں کو دیکھا، لیکن اِن میں کچھ بھی محسوس نہیں ہوا۔
اِس سے آگے اُترائی کا سفر جاری تھا اور پینتالیس کے بعد سیڑھیاں ختم! جب کہ کنوئیں میں پانی کی تہ اب بھی ٹارچ کی روشنی میں کہیں دور تھی۔

’’میں دوبارہ اوپر کی جانب جانے لگا اور ۳۸ ویں سیڑھی پر آ کر کھڑا ہو گیا۔
لاٹھی پیروں میں رکھ ٹارچ دو سیڑھیاں اُوپر رکھی اور ہاتھ سے دیوار ٹٹولنے لگا۔
ہاتھ پھیرتے ہوئے ایک جگہ دیوار کا حصّہ باقی دیوار کی سطح سے مختلف لگا۔
میں نے ٹارچ اُٹھائی اور غور سے دیکھنا شروع کیا۔ کنوئیں کی اندرونی دیوار میں بڑے بڑے ناہموار پتھر نصب تھے مگر ایک پتھر کے چاروں طرف سیمنٹ کا حاشیا سا بنا ہوا تھا۔
میں نے اُس پتھر کو غور سے دیکھا۔ مجھے اُس پر صلیب کا نشان نظر آیا۔ مزید غور کیا تو صلیب کے نشان میں آنکھیں پیوست نظر آئیں۔ گِنا توسات تھیں۔
یقیناََ میں درست جگہ پر کھڑا تھا۔ میں نے سائمن کو آواز دے کر سیمنٹ اُکھاڑنے والا نُوک دار آلہ منگایا۔ وہ فوراََ لے آیا۔

’’سائمن رسی اور ٹارچ سنبھالے تقریباََ چوتھی پانچویں سیڑھی پرکھڑا تھا۔ میں نے سیمنٹ پر چوٹ لگائی تو وہ پہلی پر ہی اُکھڑ گیا۔ میں بہت احتیاط سے سیمنٹ اُکھیڑنے لگا۔
جلد ہی چاروں اطراف صاف ہو گئیں۔
سامنے ایک ایسا پتھر ظاہر ہوا جس میں انگلیاں پھنسا کر آسانی سے نکالا جا سکتا تھا۔ میں نے سائمن کو کامیابی کا اشارہ کیا اور انگلیاں پتھر کے دونوں اطراف پھنسا کر ہلکا سا زور لگایا۔
پتھر آسانی سے میرے ہاتھوں میں آنے لگا۔
وہ وزن میں بہت ہلکا تھا۔ میں نے آرام سے اُسے نِکالا اور اپنے نیچے والی سیڑھی پر احتیاط سے رکھ دیا۔ پھر میں اُس جگہ سے کچھ پیچھے ہٹ گیا کہ مُبادا مدتوں بند رہنے سے کوئی زہریلی گیس ہو تو نِکل جائے۔

ہاں! ایک بات بتانا میں بھول گیا۔ میں نے کنوئیں میں سے بدبو آنے کا ذکر کیا تھا۔
جب اُس کا منہ کھولا تو جیسے جیسے میں نیچے اُترا، ویسے ویسے بدبو تیز تر ہوتی گئی۔ بہر حال جیسے ہی میں پیچھے ہوا، اُوپر سے سائمن کی آواز آئی۔

’’ذرا رُکیے۔‘‘ اور فوراََ اُوپر کو لَپکا۔ میں کان لگائے کھڑا رہا۔ کنوئیں کی منڈیر کے آس پاس سائمن کے قدموں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ دو چار منٹ میں واپس آ کر کہنے لگا۔
’’جناب! مجھے اُوپر سے کوئی جھانکتا ہوا محسوس ہوا۔ ایک بڑا سا، بے ہنگم سر… گویا کسی بڑے سے مینڈک کے سر کا سایہ لیکن جناب میں سڑک تک دیکھ آیا۔ وہاں کوئی نہیں ہے۔
’’میں نے بھی اطمینان کا سانس لیا اور خداوند کا نام لے کر ٹارچ کی روشنی اُس نئے ’دریافت شدہ ‘ سوراخ میں ڈالی۔ گھپ اندھیرے میں روشنی سے کچھ تھیلیاں اُوپر نیچے رکھی دکھائی دیں۔
میں  نے دایاں ہاتھ بڑھا کر سامنے والی تھیلی اُٹھانے کی کوشش کی۔ وہ خاصی وزنی تھی۔
میں ٹارچ نیچے رکھ کر دونوں ہاتھوں سے تھیلی باہر نکا لنے لگا۔ تھیلی اُوپر اُٹھتے ہی ایک ناقابلِ برداشت سڑاند میری ناک سے ٹکرائی۔
اُس کا وزن اتنا زیادہ تھا کہ اُسے سنبھالنے کے لیے مجھے تھیلی اپنے بازوئوں میں لینا پڑی۔
جیسے ہی میں نے تھیلی کو سینے سے لگایا تو مجھے یوں لگا کہ سخت تھیلی کے بجائے کوئی عجیب سی چیز میرے سینے سے لگی جو یکدَم پھیل کر اُوپر میرے چہرے تک پہنچ گئی اور نیچے جیسے کئی ایک بازوؤں اور پیروں نے مجھے کمر سے جکڑ لیا۔
یہ سب ایک لمحے میں ہوا۔ میں نے اِس بلا سے پیچھا چُھڑانے کے لیے سر کو جھٹکا دیا اور غالباََ چیخا بھی۔ پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔

ہوش آیا تو میں زمین پر لیٹا ہوا تھا۔ سائمن میرے منہ پر پانی کے چھینٹے مار رہا تھا۔
تھیلی کو ابھی تک میں نے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ اب واقعے کا اگلا حصّہ سائمن سُنائے گا۔‘‘

جاوید سائمن نے گلا صاف کر کے کہنا شروع کیا:
’’میں جب اُوپر سے تسلی کر کے واپس آیا تو صاحب مجھے صاف نظر آ رہے تھے۔ میں رَسّی پکڑے مستعد کھڑا تھا۔
اب میں واپس اندر نہیں اُترا بلکہ منڈیر کے پاس ہی چرخی کے پیچھے سے رسّی پکڑ لی۔ پھر میں نے آواز دے کر صاحب کو مطلع کر دیا۔ میں نے مسلسل ان پر نظر رکھی ہوئی تھی۔
انھوں نے جب دونوں ہاتھ سوراخ کے اندر ڈالے تو میں مزید چوکنّا ہو گیا۔
اگلے ہی لمحے ایک تھیلی صاحب کے بازوئوں میں تھی مگر یکدم ہی صاحب نے اپنا سر جھٹکنا شروع کر دیا۔ میں نے انھیں آواز بھی دی مگر دو تین مرتبہ سر جھٹکنے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ جیسے وہ اپنا توازن کھونے لگے ہیں۔ میں نے رسّی کو مضبوطی سے تھام کر دوسرے سِرے کو اپنی کمر سے لپیٹ لیا۔
ایک دم مجھے جھٹکا لگا۔ صاحب کنوئیں کے درمیان جھول رہے تھے اور پیر سے ٹارچ ٹکرا کر نیچے گر چکی تھی۔

میں نے حواس قائم رکھتے ہوئے رسّی کو کھینچنا شروع کیا۔ کچھ ہی دیر میں صاحب کا ہیولا نظر آنے لگا۔ میں بمشکل تمام انھیں منڈیر تک لایا۔
شکر ہے چرخی نہایت عمدگی سے کام کر رہی تھی۔ میں نے رسّی کو چرخی پر ہی کئی بَل دیے اور دونوں ہاتھوں سے صاحب کو منڈیر سے باہر نکالا۔
صاحب کے اُوپر آنے کے ساتھ ساتھ ناقابلِ برداشت بد بو میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ میں نے صاحب کو زمین پر لٹایا۔ وہ بو اُس تھیلی میں سے آ رہی تھی۔‘‘

پادری نذیر مارٹن نے ہاتھ کے اشارے سے سائمن کو روکا:
ایک منٹ سائمن! میں پادری گلفام کو وہ حیرت انگیز بات بتا دوں کہ اِس سوراخ میں کئی تھیلیاں ہیں مگر کسی بو کا نام تک نہ تھا۔ سوائے اُس بدبو کے، جو پہلے ہی کنوئیں میں پھیلی ہوئی تھی لیکن جیسے ہی تھیلی اپنی جگہ سے ہِلی، اِس سڑاند نے مجھے چکرا کر رکھ دیا۔ پھر اُوپر سے وہ جِسم!
یہ کہتے ہوئے پادری نذیر نے جھرجھری لی اور سائمن کو بولنے کا اشارہ کیا۔

جی جناب! تو اس بدبو سے میرا دماغ پھٹنے لگا مگر صاحب نے بے ہوشی میں بھی اسے نہایت مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا۔ میں جلدی سے پانی کی بوتل لایا اور رومال بھگو بھگو کر صاحب کے چہرے پر پھیرنے لگا۔
پانی کے چھینٹے مارے، ہاتھ پائوں سہلائے۔
غرضیکہ تقریباََ پندرہ منٹ کی کوشش کے بعد صاحب نے آنکھیں کھولیں۔ میرا نام لیا، تھیلی مجھے پکڑائی ۔مجھے ایسے لگا کہ صاحب پھر سے بے ہوش ہونے لگے۔
میں نے انھیں پھر ہلایا۔ انھوں نے آنکھیں تو کھولیں مگر بالکل سپاٹ، زندگی سے عاری۔
میں نے اُٹھانے کی کوشش کی تو اُٹھ کے بیٹھ گئے مگر بالکل ایسے جیسے کوئی چابی والا کھلونا ہو۔
مجھے یہ بھی غنیمت محسوس ہوا۔

رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ چاند بھی قدرے ڈھَل چکا تھا۔ میں نے تھیلی وہیں سامان میں چُھپائی اور اِن کو سہارے سے کھڑا کیا۔
صاحب کھڑے بھی ہو گئے، چلنے بھی لگے، آنکھیں بھی کھُلی تھیں مگر کسی قسم کے احساس سے عاری تھے۔ میں ان کو لیے آہستہ آہستہ سرائے کی طرف چلا۔ پانچ منٹ کا فاصلہ بیس منٹ میں طے ہوا۔ سرائے کا دروازہ کا کھلا تھا۔ میں آرام سے انھیں لے کر کمرے میں آ گیا۔
بستر پر لٹا کر چادراُوڑھائی۔ صاحب کی سانس ہموار چل رہی تھی اور آنکھیں بند تھیں۔ میں انھیں چھوڑ کر واپس گرجا پہنچا۔ ایزل اور کینوس کے علاوہ تمام سامان سمیٹا۔
تھیلی کی بدبو مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ میں کسی نہ کسی طرح سامان میں رکھ تھیلی کمرے میں لے آیا۔ وہاں بہت سے کپڑوں کے اندر تھیلی کو لپیٹا تو بو قدرے کم ہونے لگی پھر بالکل ہی ختم ہو گئی۔ پو پھٹ چکی تھی۔
میں تھکن سے چور تھا۔ وہیں فرش پر لیٹ کر سو گیا۔

صاحب کے کراہنے سے میری آنکھ کھُلی۔ دوپہر ہو چکی تھی۔ فوراََ اُٹھ بیٹھا۔ جلدی سے انھیں دیکھا۔ چہرے پر زردی کھنڈی تھی۔
صاحب ’پانی پانی‘ بُڑبُڑا رہے تھے۔ میں فوراََ پانی کا گلاس اور چمچ لے آیا۔
قطرہ قطرہ پانی ہونٹوں سے لگایا تو انھوں نے آنکھیں کھول دیں اور بہت مشکل سے بولے۔
کان لگایا تو ٹوٹے پھوٹے الفاظ سُنے:

’’پادری گلفام جوزف، خط، فوراََ آؤ۔‘‘
میں نے جلدی سے کاغذ پر یہ پیغام لکھا اور صاحب کو اُسی حالت میں چھوڑ کر قصبے کے اکلوتے ڈاکخانے پہنچ گیا۔
پھر واپسی پر گرجا سے ایزل اور کینوس بھی اُٹھا لایا۔ صاحب سارا دن غنودگی کے عالم میں رہے۔ کھانا بھی بہت کم کھایا۔ شام کو سورج ڈوبنے کے فوراََ بعد وہی ناگوار بو کمرے میں پھیلنے لگی۔
میں نے ہر طرح کا سامان چھپائی ہوئی تھیلی پر ڈھیر کرنا شرع کر دیا مگر بے فائدہ۔
بدبو بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ میں نے دروازہ اندر سے بند کر کے اُس کی درزوں میں مختلف کپڑے اور کاغذ پھنسا دیے کہ بدبو دروازے سے باہر نہ جائے۔
رات کچھ اور گہری ہوئی تو ایسا لگا کوئی دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔
بدبو کی وجہ سے صاحب بھی کچھ ہوش میں تھے۔ ہم دونوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا:

’’محافظ‘‘… جب تمام باتیں پوری ہو چکیں تو یقیناََ محافظ والی بات بھی درست ہو گی۔
مجھے یقین ہو گیا کہ کنوئیں کی منڈیر پر جو بے ہنگم، بد شکل سایہ تھا وہ یقیناََ محافظ تھا، جو مجھے نظر نہ آیا مگر صاحب کو اُس نے جکڑا …مگر وہ ہے کیا؟ ہم سمجھنے سے قاصر تھے۔
ساری رات آنکھوں میں کٹی۔ صاحب کابہت برا حال تھا۔
پو پھٹنے پر بدبو اور آوازیں ختم ہو گئیں اور ہم دونوں دوپہر تک سوتے رہے۔ پھر شام کو آپ! جناب پادری گلفام صاحب تشریف لائے اور بعد کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔

’’میرے عزیز دوست گلفام جوزف! اب تو تم بھی اِن تمام جگہوں سے ہو آئے۔ تم نے میرے حالات بھی سُن لیے۔ اب تم تفصیل سے اپنا تجربہ بیان کرو۔‘‘
پادری گلفام نے گہری سانس لی۔ اُنھوں نے بہت غور سے تمام باتیں سنی تھیں۔ اب اُن کی باری تھی۔ کھنگورا بھرتے ہوئے انھوں نے بولنا شروع کیا:
میرے عزیز دوست! چونکہ میں ہر چیز اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تو میں نے بلا تامل تمہارے ایک ایک لفظ پر یقین کر لیا۔ اگر میں نے یہ سب نہ دیکھا ہوتا تو میں منہ سے تو کچھ نہ کہتا مگر … اور ہاں!!
میں نے محافظ کا معمہ بھی دیکھ لیا ہے جو تم سے حل نہ ہوا تھا۔ بہرحال، میں سائمن کی راہنمائی میں بہت آسانی سے سیڑھیاں اُتر گیا۔ اُس نے مجھے بھی احتیاطاََ تمہاری طرح رسّی باندھ دی تھی۔ سوراخ اُسی طرح کھُلا تھا۔

کنوئیں میں بدبو تھی مگر وہ رات والی سڑاند نہیں تھی۔ میں نے احتیاط سے تھیلی اندر رکھی۔ پتھر سے سوراخ بند کیا۔ تمہاری لاٹھی وہیں رکھی تھی، وہ بھی اُٹھا لی۔ پھر میں سکون سے اُوپر آ گیا۔ سائمن نے گیلی مٹی تیار کی ہوئی تھی۔
اب وہ نیچے اُترا تاکہ گیلی مٹی کا لیپ کر کے تمام پتھروں کی ہیئت ایک جیسی کر دے۔
میں فارغ تھا۔ یوں ہی منڈیر کی اینٹیں دیکھنے لگا۔ دیکھتے دیکھتے مجھے محسوس ہوا کہ اینٹوں پر اُگی جڑی بوٹیوں کے پیچھے کچھ اینٹوں کا رنگ الگ ہے۔
میں نے تجسس کی خاطر وہ بوٹیاں اُکھاڑیں تو پتھروں پر ایک شبیہہ کندہ تھی۔ ایک بڑا سا مینڈک اِس طرح بیٹھا تھا گویا جست بھرنے کے لیے تیار ہو اور اُس کے نیچے لکھا تھا:

پوشیدہ چیز کا محافظ۔
اچھا! تو اُوپر سے اس مینڈک محافظ ہی نے جھانکا اور مجھ پر بھی اُسی نے حملہ کیا۔
پادری نذیر مارٹن آہستہ سے بولا اور سکون سے لمبی سانس لے کر نیم دراز ہو گیا۔

اب خزانے تک پہنچنا ممکن تھا اور آسان بھی۔ تھیلی اور محافظ کا راز سامنے آ چکا تھا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles