36 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

New Year in China|ملک چین کاسال نو

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ملک چین کاسال نو
“Guo Nian”
( 4فروری2019، چین میں آمدسال نواور جشن بہاراں کے موقع پر خصوصی تحریر)
از:ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com
چین میں سال نو کی آمد پر جشن بہاراں کا تہوار تائیوانی تہذیب میں سب سے اہم تہوار تصور کیا جاتا ہے، چین میں اس کانام ’’چینی سال نو‘‘ہے، جبکہ چین سے باہر اسے تائیوانی جشن بہاراں کانام بھی دیا جاتا ہے ۔باقی دنیا کے برعکس چین کے سال کاآغاز کسی خاص دن پر شروع نہیں ہوتا بلکہ چین کے قمری سال کا آغاز اپنے حساب سے جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں واقع ہوتا ہے۔ اس تائیوانی تہوار کے ڈانڈے ماضی بعید میں ’’شانگ‘‘دور حکومت(1700تا1100ق م)میں ملتے ہیں۔ اس وقت بھی یہ تہوار سال کے آغاز میں منایا جاتا تھا لیکن اس کا تصور قدرے مختلف تھا۔ اس وقت اس تہوار میں آسمانی کھانے اور بہشتی پکوان رکھے جاتے تھے جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس دنیا سے کوچ کر جانے والے آبا ؤ اجداد ان دسترخوانوں پر چنے ہوئے کھانے تناول کرتے ہیں۔

مشرقی ایشیا کا یہ قدیمی تہوار سال کے آغاز پر پہلے مہینے کی پہلی تاریخ سے شروع ہوتا ہے اور پندرہ دنوں تک اس کی تقریبات زندہ رہتی ہیں۔ پہلے ماہ کی ہی پندرہ تاریخ کو، جب چاند اپنا روشن وجود مکمل کر چکتا ہے، ’’لالٹین میلے‘‘میں اس پندرہ روزہ تہوار کا اختتام ہو جاتا ہے۔ اس طویل تہوار کا ایک خاص موقع ایک رات کا عشائیہ ہوتا ہے جس کا انعقاد وسیع پیمانے پر کیا جاتا ہے اور اس عشائیے میں روایتی کھانے تیار کیے جاتے ہیں اور دسترخوان پر چنے جاتے ہیں ،ان کھانوں میں بطخ، مرغی، خنزیر کا گوشت اور بعض مقامات پر مچھلی بھی شامل ہوتی ہے اور میٹھا بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے۔

شمالی علاقے میں میٹھی کھیر بڑے شوق سے تیار کی جاتی ہے جب کہ جنوب والے چاولوں کے زیادہ شوقین ہیں۔ یہ عشایہ ایک طرح کے پورے خیش قبلیے کا سالانہ عشائیہ ہوتا ہے جس میں تمام افراد شریک ہوتے ہیں اور رات گئے تک آگ کے کنارے اس عشائیہ کی تقریبات چلتی رہتی ہیں۔

تقریب کے آخر میں بعض لوگ عبادت گاہ کی طرف بھی سدھار جاتے ہیں اور رات کے بقیہ میں سے کچھ وقت وہاں گزارتے ہیں۔ یہ تہوار خاص طور پر خاندان والوں کے لیے اور خاندانی بزرگوں سے ملنے کے لیے مخصوص ہوتا ہے اور اس عشایئے کے لیے خاندان کی سب سے بزرگ ہستی کے گھر کا یااسی کے گھر سے قریب ترین جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

عشائیہ کے آخر میں تمام شرکا کی تصویر بھی لی جاتی ہے اور تصویر کے لیے خاندان کے سب سے بوڑھے مردکو درمیان میں بٹھایا جاتا ہے۔ اس موقع پر چین اور تائیوان میں عام تعطیل بھی ہوتی ہے۔ چین میں رہنے والے اور دوسری دنیاؤں میں بسنے والے چینی باشندوں کے علاوہ ہانک کانگ، ماکو، تھائی لینڈ، کوریا، جاپان ،نیپال، بھوٹان، ویت نام، فلپائن اور سنگاپورکی تہذیبی تقریبات میں بھی اس تہوار کے اثرات ملتے ہیں۔

خاص طور پر ’’ہان تہذیب‘‘کی باقیات جہاں جہاں بھی موجود ہیں وہاں یہ تہوار پورے مذہبی و ثقافتی جوش و خوش سے منایا جاتا ہے۔
چین کے باشندے اس تہوار کا بہت بے چینی سے انتظار کرتے یں، اس موقع  پر نمائشی اشیا اور تحفوں کی خرید و فروخت پر بے پناہ وسائل خرچ کیے جاتے ہیں اور لوگ دل کھول کر اپنی جیبیں خالی کرتے ہیں۔

مختلف قسم کے کھانے تیار کیے جاتے ہیں اور مرد، خواتین اور بچے اپنے لیے نئے نئے کپڑے سلواتے ہیں اور نئے جوتے خریدتے ہیں تاکہ تہوار کے موقع پر دیدہ ذیب نظر آئیں۔ ملکی نشریاتی ادارے اس موقع  پر بہت اچھے اچھے اور دلچسپ تفریحی و پرکشش پیش نامے تیار کرتے ہیں، چنانچہ ہر گھر میں رات گئے تک ٹیلی ویژن چلتا رہتا ہے۔

تمام گھروں میں خوب خوب اور رگڑ رگڑ کر صفائیاں کی جاتی ہیں اور آمد سال نو کے موقع پر ہر طرح کے میل کچیل کو گھر سے نکال دینے کو ایک نیک مذہبی شگون کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ شہر کے گھرانے ہوں یا دیہات کے، یہ گھر والی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سال بھر کا جمع شدہ گند گھر سے باہر نکال پھینکے۔ لیکن باقی گھر والے بھی اس کی بھرپور مدد کرتے ہیں اور صفائی سے اپنے سال کا آغاز کرتے ہیں۔ دروازوں اور کھڑکیوں کو سرخ رنگ کے خوبصورت نمائشی کاغذوں کے کٹتیوں سے آراستہ کیا جاتا ہے، ان کٹتیوں پر سال نو کی آمد کے حوالے سے خوشی، خوش بختی، دولت اور طویل العمری کے بارے میں خوبصورت تحریریں بڑے دلکش انداز سے تحریر کی گئی ہوتی ہیں جبکہ بعض لوگ اس موقع پر سارے گھر کو سرخ رنگ سے قلعی کرواتے ہیں۔

بچوں کو سرخ لفافوں میں کرنسی ڈال کر عیدی کے طور پر دی جاتی ہے، امیر لوگ اپنے بچوں کو بڑی بڑی رقوم دیتے ہیں جب کہ باقی لوگ اپنی حیثیت کے مطابق۔

بڑوں کے لیے یہ تہوار سال بھر کی رنجشوں اور ناراضگیوں کے خاتمے کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ اور اس موقع  پر ایک دوسرے کو صحت اور خوشی کی مبارک بھی دی جاتی ہے، مبارک باد دینے کا روایتی طریقہ تو سرخ لفافے میں عید کارڈ بھیجنا ہے لیکن فی زمانہ ای میل اور موبائل فون میں موجود متعدد تحریری و تصویری طریقوں سے بھی نت نئے انداز سے عید مبارک بھیجی جاتی ہے۔

اس تہوار کے موقع پر سرخ رنگت کے پیچھے ایک روایتی کہانی کار فرما ہے، چینی سال کا آغاز ایک جنگلی جانور’’نیان‘‘سے لڑائی کے ساتھ ہوتا تھا۔

نیان ہر سال کے پہلے دن گاؤں پر حملہ کرتا تھا تاکہ پالتو جانوروں کو کھائے، فصلوں کو اجاڑے اور کاشتکاروں کو اور ان کے بچوں کو ہڑپ کر کے اپنے پیٹ کا ایندھن بھرے۔

گاؤںکے لوگ’’نیان‘‘سے بچنے کے لیے سال کی پہلی رات اپنے گھروںکے دروازوں پر خوراک رکھ دیا
کرتے تھے جس کے باعث نیان وہی خوراک کھا کر واپس چلا جاتا تھا اور ان کی بچت ہو جاتی تھی۔

ایک دفعہ لوگوں  نے دیکھا کہ نیان ایک بچے سے ڈر کر بھاگا چلا جا رہا ہے کیونکہ بچے نے سرخ رنگت کے کپڑے زیب تن کیے رکھے تھے، تب سے گاؤں والوں  نے نئے سال کے آغاز پر سرخ رنگ کو اپنا لیا، اب وہ اپنے گھروں اور کھڑکیوں کو سرخ رنگ دیتے ہیں اور سرخ رنگ کا ہی لالٹین جلاتے ہیں چنانچہ تب سے نیان نے حملہ کرنا چھوڑ دیا ہے۔

اب نیان کو چین کے قدیم دیوتاؤں میں سے ایک دیوتا ’’ہونگ جن لوذو ‘نے گرفتار کر رکھا ہے اور یہ دیوتا اب نیان پر سواری بھی کرتا ہے۔
پندرہ روزہ تہوار کا پہلا دن آسمانی خداؤں اور دیوتاؤں کو خوش آمدید کہنے کا دن ہوتا ہے، پہلی تاریخ کا آغاز چونکہ نصف شب کو ہو جاتا ہے اس لیے رات گئے سے ہی روشنیوں کا انتظام کر لیا جاتا ہے اور بڑے بڑے بانس جلتے رہتے ہیں اور آتش بازی بھی کسی حد تک جاری رہتی ہے۔

رات کا یہ عمل نصف شب  12 بجے شروع ہو جاتا ہے، قدیم زمانے میں تو رات گئے تک جاری رہتا تھا لیکن فی زمانہ کسی حادثے سے بچت کے لیے آدھ گھنٹے بعد آتش بازی ختم کر دی جاتی ہے، خاص طور پر شہری علاقوں میں۔

یہ رات بہت رونق والی رات ہوتی ہے، چینی ثقافت کے قدیمی روایتی رقص بھی کثرت سے ہوتے نظر آتے ہیں۔ شمالی چین میں’’یانگ کو‘‘نامی روایتی ناچ اور بانسوں پر پاؤں ٹیک کر اونچا ہو کر چلنے والا رقص کیا جاتا ہے، جب کہ جنوبی چین میں بہت سے افراد مل کر اپنے اوپر لمبا سا رنگ برنگا کپڑا ڈال کر شیر جیسا روپ اور اژدہا جیسا روپ دھار کر خوب ہلتے جلتے ڈولتے ناچتے ہوئے چلتے ہیں۔

اس ساری تگ و دو کا مقصد ’’نیان‘‘جیسے جانور کو دور رکھنا ہے۔ بدھ مذہب کے ماننے والے سال کے اس پہلے دن گوشت سے پرہیز کرتے ہیں کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق اس سے طوالت عمری ملتی ہے۔ بدھوں کے مطابق سال کا پہلا دن ان کے ایک دیوتا ’’بدائی لولان‘‘ کے جنم کا دن بھی ہے۔

تہوار کے دوسرے دن شادی شدہ خواتین اپنے میکے جاتی ہیں جبکہ چینی تہذیب میں خواتین کے میکے جانے کو عموماََ پسند نہیں کیا جاتا اور سخت معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن سال کا دوسرا دن شادی شدہ خواتین کے لیے اس لحاظ سے پرمسرت دن ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین، بزرگوں اور دیگر نسبی رشتہ داروں سے ملنے کے لیے خصوصی طور پر اپنے آبائی علاقے چلی جاتی ہیں۔

اس کے بعد تہوار کے باقی تمام ایام میں رشتہ داروں، عزیزوں، دوستوں اور تعلق داروں کو ملنے کی سعی کی جاتی ہے۔ پندرہ دن کا لمبا وقت اس مقصد کے لیے بہت کافی ہوتا ہے کہ سال کے شروع میں اپنے تمام واقف کاروں سے مل لیا جائے۔

سال اور تہوار  کے دوسرے دن بعض بے روزگار یا منگتوں  نے دولت کے دیوتا کی تصویر اٹھائی ہوتی ہے اور گھر گھر خوش بختی کی صدائیں دیتے ہوئے گزرتے ہیں جبکہ گھر والے کچھ سکے بطور خوش قسمتی دولت کے ان کی نذر کر دیتے ہیں۔

بعض مذہبی روایات کے مطابق سال کا دوسرا دن کتوں کی پیدائش کا دن ہے ،چنانچہ اس دن کتوں کے نصیب بھی کھلے رہتے ہیں۔

تہوار کا تیسرا دن غریب شیطان کا دن کہلاتا ہے اور بعض علاقوں میں اسے سرخ منہ والا دن یا سرخ کتے کا دن بھی کہتے ہیں، یہ سب استعارات نحوست کی نشاندہی کرتے ہیں چنانچہ تیسرے دن کوئی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملتی اور لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہی دبکے رہتے ہیں۔

جدید چین کے اکثر علاقے چوتھے دن سال نو کی تقریبات ختم کر کے تو اپنی اپنی ذمہ داریوں پر لوٹ آتے ہیں لیکن باقی ماندہ افراد تہوار کے پندرہ دن پورے کرتے ہیں۔
یہ تہوار پورے ملک میں سفر کا سماں  لے کر وارد ہوتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک لوگ اپنے سامان کندھوں پر اٹھائے اور بیوی بچوں کو بغل میں سنبھالے  بسوں، گاڑیوں اور ہوائی اڈوں پر سراپا انتظار بنے نظر آتے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق پوری قوم کم و بیش چالیس دنوں تک اس تہوار سے قبل اور مابعد گویا حالت سفر میں رہتی ہیں۔ پہلے اپنے اپنے آبائی علاقوں میں جانے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے اور پھر واپسی کا جاں گسل مرحلہ درپیش ہوتا ہے۔ جب ایک سال بھر کی جدائی پھر دامن گیر ہوتی ہے۔

تین بلین افراد سفر انداز ہوتے ہیں جن میں طلبہ و طالبات اور پیشہ ور افراد کافی کافی عرصے قبل دو طرفہ سفر کی خاطر اپنی منزل کے لیے نشستیں محفوظ کرا لیتے ہیں تاکہ عین وقت پر دقت کا سامنا نہ ہو۔

شمالی چین والے بیجنگ کے لیے رخت سفر باندھتے ہیں، جنوبی چین والوں کی اکثریت ’’گھنگو‘‘ کے لیے عازم سفر ہوتے ہیں اور چونکہ یہ جنوری کے آخری ایام یا فروری کے ابتدائی ایام ہوتے ہیں اس لیے صاحبان ثروت ’’ہربن‘‘ کا رخ کرتے ہیں جو بلند پہاڑی مقام  ہے اور عید بہاراں کے دوران تک ابھی بھی برف کی باقیات یہاں سرمازن ہوتی ہیں۔
پانچواں دن دولت کے دیوتا کا جنم دن سمجھا جاتا ہے اور گھروں میں عمدہ پکوان تیار کیے جاتے ہیں، ساتواں دن سب لوگوں کی زندگی کو ایک سال کا اضافہ عطا کرتا ہے ۔ آج  کے دن سب لوگ اب ایک سال اور بڑے ہو گئے ہیں، بدھوں کے ہاں ساتویں دن بھی گوشت سے پرہیز کیا جاتا ہے۔آٹھواں دن خاندان کے ساتھ رات کے کھانے کا دن ہوتا ہے ۔

نواں دن دعاؤں کا دن ہوتا ہے اور ہر کوئی اپنی مراد یں مانگتا ہے۔ تیرہواں دن چین کے عسکری دیوتا کا دن ہے۔ اس دن صرف سبزیاں کھائی جاتی ہیں تاکہ کئی دنوں سے بھرا ہوا پیٹ صاف ہو سکے۔

آخری اور پندرواں دن ’’لالٹین میلا‘‘ کہلاتا ہے ۔ گھروں کی دیواروں پر موم بتیاں روشن کی جاتی ہیں اور خاندان بھر  کے لوگ اپنے ہاتھوں میں لالٹین  لے کر رات کے اندھیروں میں گلی میں نکلتے ہیں ۔سال نو کے تہوار کا یہ آخری دن ہوتا ہے۔ بعض مقامات پر یہ پندرہ دن مکمل طور پر منائے جاتے ہیں جبکہ بعض مقامات پر ان سے کم ایام میں یہ تہوار اختتام پزیر ہو جاتا ہے۔

ان تمام ایام میں موسیقی بھی مکمل طور پر انسانوں کا ساتھ دیتی ہے اور مقامی زبانوں میں سال نو کے خوش آمدیدی گیتوں سے تمام تقریبات گونجتی رہتی ہیں۔ اس تہوار کی آمد سے کئی دن پہلے سے تیاریاں عروج پر پہنچ جاتی ہیں اور بچے بچیاں موسیقی کی دھن پر نغموں کی مشق کرتے ہیں۔ تمام تہواروں کے دوران سرخ ہیرے کا نشان گھروں کے ماتھے پر لٹکا رہتا ہے جو خوش بختی کا نشان سمجھا جاتا ہے۔
چین سوشلسٹ ملک ہے اور سوشلزم بھی دراصل سیکولرازم کی ناجائز  پیداوار ہے۔ سیکولرازم کا خمیر مذہب دشمنی سے اٹھایا گیا اور سولھویں صدی میں میکاولی  نے وحی کو بلاضرورت قرار دے کر عقل انسانی کو انسانوں کے کل مسائل کے حل کے لیے کافی سمجھانے کا بے ہودہ تصور دیا تھا۔

گزشتہ چار پانچ صدیوں سے سیکولرازم کا تجربہ جہاں انسان کے دنیاوی و جسمانی مسائل بھی حل کر نے میں انتہائی ناکام رہا ہے، وہاں اس تصور حیات  نے انسان کو روحانی طور پر بہت ہی تشنہ کام کر رکھا ہے۔

انسانوں  کے گروہ کے گروہ خدا ناآشنائی کے باعث روحانیات سے بالکل نابلد خشک اور بے مروت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس نظریے کی فکر حلق سے شروع  ہوتی ہے اور پیٹ کے نیچے پہنچ کر اختتام پزیر ہو جاتی ہے۔

قرآن مجید نے اس پر کیا خوبصورت تبصرہ کیا کہ اولئک کالانعام بل ہم اذل یعنی یہ لوگ جانوروں کی مانند ہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر۔ چنانچہ انسانی زندگی کی مذکورہ کوتاہیاں پوری کرنے کے لیے آج کا سوشلزم بھی ہزاروں سال قدیم مذہب کا دست نگر ہے۔ مذہب سے انکار انسانیت سے انکار ہے کیونکہ اگر انبیاء علیھم السلام اس دنیامیں تشریف نہ لاتے تو جنگل کا بادشاہ انسان ہوتا، اور آج بھی تعلیم و تعلم اور علوم و معارف سے بھری خلاؤں کی طرف گامزن دنیا جو آسمانی تعلیمات سے محروم ہے، دنیا کے خطوں پر شیر، چیتے، بھیڑیے اور کتوں کے جنگلی و غیر انسانی رویوں کی خونین تاریخ رقم کر رہی ہے۔
خوشی اور غمی کے مواقع کی فراہمی تمام مذاہب کے درمیان قدر مشترک ہے۔ سیکولرازم اور مذہبی تعلیمات میں یہی فرق ہے کہ مذہبی تعلیمات جوانوں کو اپنے بزرگوں سے قریب کرتی ہیں، خاندانوں کو جوڑتی ہیں اور انسانوں سے  پیار کرنا سکھاتی ہیں جبکہ سیکولرازم میں بوڑھے افراد کنارے لگا دیے جاتے ہیں، خاندان کی اکائی کو سیکولرازم  نے ’’آزادی نسواں ‘‘کے نام  پر آزادی زنا کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اور انسانیت کے نام  پر اس سیکولر مغربی تہذیب نے قتل و غارت گری اور خون کی ہولی کے بازار گرم کیے ہیں۔

تمام مذاہب وحی کے مقدس ذریعے سے اس زمین پر نازل ہوئے لیکن بعد میں آنے والوں  نے کل مذاہب میں اپنی پسند و ناپسند  اور اپنے طبقے کی برتری سے مذاہب کی مقدس تعلیمات کو آلودہ کر دیا اور توحید کی جگہ شرک کو اور فکر آخرت کی جگہ ہوس نفس کو مذاہب کی تعلیمات داخل کر دیا۔

آخر میں خالق کائنات نے اپنے آخری نبیﷺ اور آخری کتاب نازل فرمائی اور تمام گزشتہ مذاہب کی تعلیمات کا خاصہ و خلاصہ اس کتاب قرآن مجید میں نازل فرما دیا اور اس پر عمل کرنے کے لیے آخری نبیﷺ کی اطاعت کی شرط عائد کر دی۔

اب یہ کل انسانیت کو دعوت ایمان و عمل ہے کہ اس آخری دین کی ٹھنڈی چھاؤں میں اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو آسودگی و راحت سے آراستہ کریں اور دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کی ضمانت حاصل کر لیں۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles