29 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

Save me from my doctors|مجھے میرے معالجوں سے بچاؤ

مجھے میرے معالجوں سے بچاؤ

طارق محمود مرزا۔ آسٹریلیا

Tariq Mehmood Mirza Sydney
Tariq Mehmood Mirza Sydney Australia #shanurdu

زمانہِ طالب علمی میں ہم نے اُردو ادب کے مشہور انشاء نگار سجاد حیدر یلدرم کا ایک دلچسپ انشائیہ پڑھا تھا جس کا عنوان تھا ’مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ ۔
سجاد حیدر کو اپنے ان دوستوں سے گلہ تھا جو وقت بے وقت ان کے گھر آ جاتے ،فضول گفتگو سے ان کا وقت ضائع کرتے اور بے مقصد باتوں سے انہیں ذہنی کوفت پہنچاتے۔ ان کے دوست محدود ہوں گے اور کبھی کبھار ان کے گھر آتے ہوں گے، مگر عصرِ حاضر میں سوشل میڈیا کی برکت سے دوستوں کی تعداد بے شمار اور ان کی دسترس لامحدود ہو گئی ہے۔
ان میں سے اکثر کسی نہ کسی میدان کے ماہرِ خاص ہیں لہذا دن ہو یا رات اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے رہتے ہیں ۔ سجاد حیدر حیات ہوتے تو موجودہ حالات دیکھ کر یہی لکھتے مجھے میرے خود ساختہ ماہرین اور جعلی معالج دوستوں کے مشوروں سے بچاؤ ۔
سجاد حیدر کے دوست دروازہ کھٹکٹا کر آتے ہوں گے لیکن آج کے احباب صبح شام رات کسی بھی وقت مشورہ لے کر حاضر ہو سکتے ہیں جسے سنے بغیر مفر نہیں ،کیونکہ یہ آپ کے ذاتی پیغامات کا حصہ ہوتے ہیں ۔ حتّی کہ رات کو سوتے وقت بھی ایسے پیغامات آتے رہتے ہیں ۔
مسیج کی آواز سن کر آپ یہ سوچ کر موبائل اٹھاتے ہیں کہ شاید کسی عزیز یا قریبی دوست کا کوئی اہم پیغام ہو، لکھا ملتا ہے
’ کورونا کا علاج دریافت کر لیا گیا ہے۔  چین اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک اربوں ڈالر خرچ کر کے بھی جو علاج دریافت نہیں کر سکے وہ پاکستان نے کر لیا ہے۔
دراصل پیاز کا پانی پینے سے کرونابالکل ٹھیک ہو جاتا ہے یوں کروڑوں ڈالر کی ضرورت نہیں ہے چند روپوں کے پیاز لیں اور آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا ۔‘
آپ ان مشوروں اور تبصروں سے کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں حتّی کہ موجودہ لاک ڈاؤن میں بھی نہیں ۔ صبح اٹھتے ہی موبائل ہاتھ میں اٹھاؤ تو واٹس ایپ، مسینجر، ایس ایس ایم اور فیس بک ایسے پیغامات سے بھرے ملتے ہیں ۔
ساتھ میں یہ حکم بھی درج ہوتا ہے کہ اسے آگے فارورڈ کر دیں۔ کئی دوست پوچھے بغیر اپنے واٹس ایپ گروپ میں شامل کر لیتے ہیں ۔ گروپ کے پیغامات پڑھ کر دماغ دُکھنے لگتا ہے ۔ گروپ کو خیر باد کہیں تو دوست کی خفگی آڑے آتی ہے ۔
کرونا کے متعلق اتنے علاج اور تجاویز سامنے آچکی ہیں کہ کئی کتابیں مرتب ہو سکتی ہیں ۔ دُعائیں، توبہ، استغفار، نماز، عبادات تک تو ٹھیک ہے موت کو یاد کرنے ، قبر کی نایابی، دفنانے اور جنازہ پڑھنے والوں کی عدم دستیابی ، مردوں کو جلانے کا ذکر کر  کے انسان کو جیتے جی مارنے کا پورا بندوبست کیا جاتا ہے ۔
ایسے میں کرونا سے پہلے انسان دہشت اور خوف سے نیم مردہ ہو چکا ہوتا ہے ۔ کئی دوست باری باری کئی نسخے لے کر سامنے آتے ہیں۔ جیسے پیاز سے کرونا کا علاج کرنے والے دوست کا اگلا نسخہ لیموں کا پانی تھا، تیسرا کلونجی اور چوتھے کے بارے میں وہ ابھی تحقیق کر رہے ہیں، ایک دو دنوں میں آ جائے گا۔

 Sky News COVID-19: India's doctors warn against using cow dung to ward off coronavirus
Sky News COVID-19: India’s doctors warn against using cow dung to ward off coronavirus #shanurdu

بھارت میں اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز صورتِ حال ہے۔ وہاں کرونا سمیت ہر بیماری کا علاج گائے کے پیشاب اور گوبر میں ڈُھونڈا جاتا ہے ۔ ہزاروں افراد اپنی صبح کا آغاز اس گند کو کھانے اور پینے سے کرتے ہیں ۔

DW Hindu group hosts cow urine drinking party to ward off coronavirus


گائے کا پیشاب اور گوبر بوتلوں میں بند کر کے بیچا اور خریدا جاتا ہے اور لوگ بڑے شوق سے اسے استعمال کر رہے ہیں۔ یوں انہوں نے بھی کرونا کا مسئلہ حل کر لیا ہے ۔
کرونا کے مسئلے میں صرف سوشل میڈیا ہی نہیں ٹی وی بھی پوری طرح متحرک ہے۔ جب بھی ٹی وی آن کرو ،سنسنی خیز خبروں ، کرونا کی تباہ کاریوں ،متاثرین اور اموات کی تعداد کی تکرار، حکومتی نااہلیوں پر تبصروں ، تنقید اور مشوروں کا سلسلہ جاری ملتا ہے ۔
اینکر اور پیشہ ور تبصرہ نگار حکومت کے ہر قدم پر ایسے تنقید کر رہے ہوتے ہیں جیسے دشمن ملک کی کوئی سیاسی جماعت حکومت پر قابض ہو گئی ہو اور یہ کہ حکومت میں بیٹھے تمام لوگ حالات سے بے خبر اور قوتِ فیصلہ سے محروم ہیں ۔
اگر کسی کو میری بات میں شک ہے تو جیو کا پروگرام رپورٹ کارڈ دیکھ لے جہاں عموماََ چھ’ ماہرین‘ بیٹھے ہوتے ہیں جو بیک وقت حکومت، سیاست، معیشت، طب،تجارت اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ماسٹر  اور حکومت میں کیڑے نکالنے کے ماہر ہیں ۔
اس میں حفیظ اللہ نیازی غصے میں جھاگ نکال رہے ہوتے ہیں ۔ سلیم صافی دانت پیس پیس کر حکومت کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں ۔ باقی بھی حقِ نمک ادا کرتے ہوئے حتی الوسع عوام میں مایوسی پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہوتے ہیں۔
اس چینل کا سب سے بڑا مسئلہ نیب اور کرپٹ لوگوں کی گرفتاری ہے۔ اب تو خیر اس ادارے کے مالک میر شکیل الرحمن اسی نیب کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں لہذا جیو اور جنگ کے مطابق نیب کو بند کر دیا جائے تو ملک کے تمام مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ ۔لہذا یہ تنخواہ دار دانش ور حکومت دشمنی میں یک طرفہ پروپیگنڈا کر کے عوام کو ذہنی خلجان میں مبتلا کرتے ہیں۔ زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کے لیے اوپر سے کہتے ہیں یہ کر کے جیو وہ کر کے جیو ۔ باقی ٹی وی چینل بھی عوام کی نیندیں اُڑا رہے ہیں ۔
اس کی چھوٹی سی مثال ہے کہ روزانہ درجنوں بار کرونا کے نئے اور پرانے مریضوں کا ذکر تو کرتے ہیں مرنے والوں کی تعداد بھی بار بار بتاتے ہیں مگر اس مرض سے صحت یاب ہونے والوں کا ذکر گول کر جاتے ہیں جو دراصل لوگوں کے لیے تسلی کا باعث بن سکتی ہے ۔
میں ان سے یہی کہوں گا کہ لوگوں کو جینے دو ۔ یہی عرض اپنے دوستوں سے بھی ہے جو صبح شام مشورے لے کر پیش ہوتے ہیں ۔
اکثر علماء کا کردار بھی قابلِ ستائش نہیں ۔ میڈیا اگر سنسنی پھیلانے میں لگا ہے تو ایسے علماء عوام کو لاپروائی پر اُکسا کر، مساجد میں جمع کرنے کرنے کے اصرار کے ذریعے اس مرض کے پھیلانے کا موجب بن رہے ہیں ۔
اس طرح وہ اپنی دکان تو چمکا لیں گے لیکن اپنے جاہل عقیدت مندوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیں گے ۔ کیا ایسے علماء سعودی عرب اور اس جیسے کسی ملک میں حکومتی احکامات کی یوں خلاف ورزی کرنے کی جرا’ت کر سکتے تھے ۔
صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جہاں جس کا جو جی چاہے قانون کے پرخچے اُڑا سکتا ہے۔ اللہ تو ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے اسے کہیں بیٹھ کر بھی پکارا جا سکتا ہے ۔ پھر انسانی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے۔
اس سارے ہنگامے میں کچھ مثبت باتیں بھی ہوئی ہیں ، اکثر لوگ مذہب کی جانب مائل ہوئے ہیں۔ انہوں نے پھر سے اللہ سے لو لگائی ہے ۔ بیرونی ہنگاموں سے لوٹ کر اہلِ خانہ سے قریب ہوئے ہیں ۔ خود کو ، گھر والوں کو ، والدین کو ، بچوں کو وقت دے رہے ہیں ۔ قرآن سے ربط بڑھا ہے ۔ مطالعے کی طرف راغب ہوئے ہیں۔ گھریلو زندگی کی طرف واپسی ہوئی ہے۔
شاید قدرت یہی چاہتی تھی کیونکہ شب و روز کی مسلسل دوڑ میں انسان اپنوں سے ، اپنے آپ سے اور اپنے خالق سے دور ہوتا جا رہا تھا ۔ اس کی یہ دوڑ رک گئی ہے ۔ وہ اپنے اصل کی طرف لوٹ رہا ہے۔ جیسے سارے دن کا تھکا ہارا شخص شام گھر آ کر آغوشِ مادر میں سر رکھ کر سو جاتا ہے۔
یہ محبت بھری آغوش ایک عرصے بعد آباد ہوئی ہے ۔میری دعا کہ کل کو جب اس وبا سے نجات مل جائے تو بھی یہ آغوش اور یہ آشیانے یوں ہی آباد رہیں۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles