جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی عظیم اور انسانی تاریخ کی بے مثل جدوجہد کا ثمر
عافیہ مقبول جہانگیر
ہمارا وطن پاکستان جسے ہمارے بزرگوں نے ان گنت، لازوال قربانیوں کے عوض حاصل کیا تھا اسی کی بدولت مسلمانانِ ہند آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہر زمانے، ہر دور میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر زمانہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی عظیم جدوجہد کی تشریح و تفسیر ہر دور میں نئی تحقیق و جستجو کے ساتھ کرے گا۔ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی یہ عظیم و لازوال جدوجہد انسانی تاریخ کا ایک بے مثل ذریعہ ہے۔ جسے کروڑہا مسلمانانِ ہندنے اپنے عظیم قائد محمد علی جناحؒ کی قیادت میں اپنے خون سے رقم کیا۔
ہماری آج کی نسل بہت لاپروائی اور بے نیازی سے کہتی ہے کہ آخر الگ ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ ایسا کہتے ہوئے انہیں قطعاً اندازہ نہیں ہوتا کہ آخر ایسی کیا ضرورت اور مجبوری آن پڑی تھی کہ ہزاروں لاکھوں مسلمان اپنے خاندان، اپنی جانوں کو داؤ پر لگا کر خون کی ہولی سے نبردآزما ہو کر، اپنا سب کچھ لُٹانے پر خوشی خوشی تیار ہو گئے۔ ذرا تصور تو کرے ہماری آج کی یہ نئی نسل، اگران کے والدین بہت معمولی باتوں پر روک ٹوک کریں یا پابندیاں لگائیں تو یہ نسل انتہائی ناگواری و بیزاری کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہے۔ تو کیا مسلمان ایسے حالات میں جی سکتے تھے۔۔؟ جہاں ان کے ساتھ قدم قدم پر امتیازی اور انتہائی توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہو؟ جہاں ان کو آز اد فضا میں اپنی مرضی سے سانس لینے کی اجازت نہ ہوتی ہو۔ جہاں اُن کے مذہب اور مقدس مذہبی جذبات و احساسات کو پیروں تلے بے رحمی سے کچلا جاتا ہو، جہاں انھیں اپنے مذہبی فرائض انجام دینے سے روکا جاتا ہو۔ معاشرے میں ان کے حقوق ضبط کیے جاتے ہوں۔ ایسے حالات میں ایک ایسی ریاست کا قیام ناگزیر ہو گیا تھا جہاں وہ اسلام کے تقاضوں کے مطابق اپنی زندگیاں آزادانہ بسر کر سکیں۔ جہاں غلامی کے طوق ان کے گلوں میں نہ پڑے ہوں جہاں ہر مسلمان کو شخصی آزادی حاصل ہو۔ جہاں زندگی ان پر تنگ نہ ہو اور وہ کھل کر ایک آزاد اسلامی ریاست میں سانس لے سکیں۔ایسے میں پاکستان کا مطالبہ ناگزیر ہو گیا تھا۔ ایک ایسا خواب جو علامہ اقبالؒ نے دیکھا اور قائداعظمؒ نے دیگرعظیم راہنما ؤں کی مددسے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔
نظریۂ پاکستان پیش کرنے سے پہلے قائداعظمؒ اور ان کے ساتھی راہنماؤں نے بہت کوشش کی کہ ہندو قوم برصغیر کے مسلمانوں کے جائز حقوق کی مخالفت اور دشمنی سے باز آ جائے لیکن ہندو، ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد سے اس تاک میں تھے کہ کسی طرح اپنی اکثریت کے بل بوتے پر انگریز حکومت کی خوشامد کر کے اپنے مکروفریب ہتھکنڈوں سے انگریزوں کو رضا مند کر کے، اس بات پر راضی کر لیا جائے کہ وہ ان کو اپنی حکومت میں برابر کا حصہ دار بنا لیں یا ملک کو آزاد کر کے اِن کے حوالے کر جائیں۔ اس طرح سے وہ ہندو راج قائم کر کے مسلمانوں کو اپنا غلام بنا لیں۔ یہی وجہ تھی کہ کانگریس کے مضبوط ہوتے ہی انھوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کے حقوق پامال کرنے پر تیار ہو گئے۔ مسلمانوں کا اتحاد انھیں صرف اسی صورت میں قبول تھا کہ اگر مسلمان ہندو کے ماتحت ہو کر رہیں اور ہندوؤں کی مرضی کے مطابق اپنے دین، تہذیب، رسم و رواج، زبان سب سے ہاتھ دھو بیٹھیں، جو ظاہر ہے کسی طور ممکن نہ تھا۔ آخر قائداعظمؒ نے اپنے ساتھیوں سے صلاح مشورہ کرکے طے کیا کہ مسلمانوں کو اپنی ایک علیحدہ اسلامی ریاست قائم کرنا ضروری ہے اس کے بغیر ہمیں برصغیر میں زندہ سلامت رہنے کا حق نہیں رہے گا۔ چناںچہ ۲۳؍مارچ ۱۹۴۰ء کو تاریخی شہر لاہور میں مسلم لیگ کا ایک شاندارجلسہ قائداعظمؒ کی صدارت میں منعقد کیا گیا جس میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ اسلامی ریاست قائم کرنے کا مطالبہ پیش کر دیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قرارداد میں کہیں بھی ’’پاکستان‘‘ نام نہیں لیا گیا تھا صرف علیحدہ اسلامی ریاست کا ذکر کیا گیا۔ لیکن اللہ پاک کو منظور تھا کہ اسلامی مملکتِ پاکستان قائم ہو چناںچہ مسلم لیگ اور مسلمانوں کے مخالفوں اور دشمنوں نے خود ہی ’’پاکستان‘‘ کے نام کی تبلیغ شروع کی۔ یعنی ۲۴؍مارچ ۱۹۴۰ء کو ملک بھر کے تمام ہندو اخبارات نے جلی حروف میں یہ خبر چھاپ دی کہ’’مسلم لیگ نے پاکستان کا مطالبہ منظور کر لیا‘‘اور اس کے ساتھ ہی ملک کے چپے چپے پر مسلمانوں کے ہر مرد، عورت، بوڑھے، جوان اور بچے کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ’’پاکستان ہمارا ہے۔ پاکستان زندہ باد۔‘‘
ہندو اخبارات نے پاکستان کی مخالفت میں خوب شور مچایا۔ پاکستان کے خلاف دھواں دھار بیانات دیے اور چیخ و پکار مچائی کہ ملک کے دو ٹکڑے کیے جا رہے ہیں۔ ہندو لیڈروں نے کہا کہ بھارت ہماری ’’ماں‘‘ ہے اور کتنے افسوس کی بات ہے کہ جناح صاحب اور مسلم لیگ ’’ماں‘‘ کے دو ٹکڑے کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایسا ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ ہم اسے کسی قیمت پر بھی قبول نہیں کریں گے۔سکھوں نے اعلان کر دیا کہ اگر پاکستان بنا تو ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے۔ ان کے اس شوروغوغا کے جواب میں قائداعظمؒ نے ۲۶؍مئی ۱۹۴۰ء کو اپنی تقریر میں صاف الفاظ میں فرمایا:
’’گاندھی جی کہتے ہیں کہ ہندوستان کو جیتے جی ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے۔ راج گوپال اچاریہ کہتے ہیں کہ ’’بچے کے دو ٹکڑے کیے جا رہے ہیں‘‘ میں کہتا ہوں کہ قدرت نے تو پہلے ہی سے ہندوستان کو تقسیم کر رکھا ہے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھے ہیں۔ ہندوستان کے نقشے پر مسلم ہندوستان اور ہندو ہندوستان پہلے ہی سے موجود ہیں۔ یعنی ایک حصہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور دوسرے میں ہندوؤں کی۔ معلوم نہیں اتنا شوروغل کیوں کیا جا رہا ہے۔ وہ ایک ملک ہے کہاں جس کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جائیں گے اور وہ قوم ایک کب ہے جس کی قومیت کو ختم کیا جائے گا؟‘‘
پاکستان کی مخالفت ہندو کانگریس سے بھی زیادہ حکومت برطانیہ کر رہی تھی اور حکومت کی طرف سے کسی نہ کسی طریقہ پر مسلم لیگ اور مسلمانوں کے خلاف برطانوی اعلیٰ حکام صاف صاف لفظوں میں بیانات دیتے اور یہ جتاتے رہتے کہ ہندوستان ایک متحدہ ملک ہے اس کودو حصوں میں ہرگز تقسیم نہیں کیا جا سکتا اس لیے پاکستان مسلمانوں کا ایک خواب ہی ہے جس کا پورا ہونا کسی طور ممکن نہیں۔
ان حالات میں مسلم لیگ اور اس کے حامی تمام مسلمان بڑے نازک دور سے گزر رہے تھے۔ قائداعظمؒ کو بھروسہ تھا تو صرف اپنے دین اور خدائے ذوالجلال پر۔ چناںچہ انھوں نے اپنے ایک بیان میں لیگ کے حامیوں کو مخاطب کر کے کہا:
’’ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی کتاب قرآنِ حکیم کی تعلیم کی طرف رجوع ہو جائیں۔ہم کو حدیث اوراسلام کی زبردست اور اعلیٰ روایات پرعمل کرنا چاہیے۔ اگر ہم قرآن حکیم کے احکامات پر عمل کریں، احادیث اور اسلامی روایات کو صحیح طور پر سمجھیں تو ہمارے لیے ان میں تمام احکام و ہدایت اور نیک اعمال موجود ہیں۔ یاد رکھیے ہم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کیے ہوئے ہیں۔ ہماری انتہائی کامیابی کی یہی ایک کنجی ہے۔‘‘
قائداعظمؒ کے غیر متزلزل فیصلے اور دیگر راہنماؤں کی یکجہتی نے حقیقی معنوں میں انگریزوں اور ہندوؤں کے چھکے چھڑوا دیے۔ کانگریس اور انگریز اس صورت حال سے اس حد تک نالاں ہوئے کہ انھوں نے مسلم لیگ کے سیاسی راہنماؤں کو تنگ کرنے اور ان پر ظلم و ناانصافی کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیے۔ مسلم لیگ کے نامور راہنماؤں کی گرفتاریاں عمل میں لائی جانے لگیں۔ حکومت نے جبروتشدد کی انتہا کر دی۔ اخبارات کو نادرِ شاہی حکم دیا گیا کہ وہ مسلمانوں کے جلسوں کی ایک سطر بھی نہ چھاپیں۔ پولیس کو سختی سے ہدایت دی گئی کہ وہ مظاہرے کرنے والے مردوں، عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں پر بلارعایت جس طرح بھی ہو سکے مظالم ڈھائیں۔ لیکن مسلمان عہد کر چکے تھے کہ جس طرح بھی ممکن ہو گا، ہر طرح کی قربانیاں دیں گے، سر کٹائیں گے لیکن اب مزید غلامی کی زندگی نہیں جیئیں گے۔
کانگریس کا سب سے بڑا ’’مہاتما گاندھی‘‘ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہتا تھا۔ کبھی وہ مسلمانوں کے ساتھ صلح اور سمجھوتے پر آمادہ ہو جاتے اور کبھی کانگریس کے مکمل حمایتی نظر آتے ہوئے مسلمانوں کے جانی دشمن بن جاتے۔ ۲۲؍مارچ ۱۹۴۷ء کو لارڈماؤنٹ بیٹن وائسرائے بنا کر دہلی بھیجے گئے۔ ماؤنٹ بیٹن نے پہلا کام ہی گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو سے ملاقات کا کیا۔ پنڈت سے اس کی فوراً ہی دوستی ہو گئی۔ پنڈت نے لارڈماؤنٹ بیٹن کو بھارت کا گورنر جنرل بنانے کی پیش کش کر کے ماؤنٹ بیٹن کی خوشنودی حاصل کر لی۔
ماؤنٹ بیٹن نے گاندھی اور پنڈت کی ہی طرح قائداعظمؒ کو بھی نوالہ تر سمجھتے ہوئے ملاقات کی اور انھیں اپنی طرف سے ہموار کرنے کی کوشش کی۔ ماؤنٹ بیٹن کا خیال تھا کہ نہرو کی طرح قائداعظمؒ بھی پکے ہوئے پھل کی طرح جھولی میں آ گریں گے۔ مگر ان کی یہ خام خیالی ہی تھی۔ قائداعظمؒ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ آخر ماؤنٹ بیٹن کو قائداعظمؒ کے غیر متزلزل ارادہ کی کیفیت کا اندازہ ہو گیا اور اس ملاقات کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے الفاظ تھے کہ:
’’اوہ خدایا! یہ آدمی کتنا سخت ہے۔ اس کو گرمانے اور اپنے مطلب کی بات اس سے اگلوانے کے لیے میں نے ہر ممکن جتن کیا۔ مگر یہ شخص اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوا۔‘‘
وہ سمجھ گیا تھا کہ گاندھی اور نہرو کی بہ نسبت مسلمان قائد بالکل مختلف ہے اور اس قائدؒ پر اس کا جادو نہیں چل سکتا۔ دوسری طرف جب قائداعظمؒ ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کر کے وائسرائیگل لاج سے سے باہر تشریف لائے تو اخباری نمائندوں نے ان سے ان کا ردعمل جاننا چاہا۔ قائداعظمؒ نے مختصراً جواب میں صرف اتنا فرمایا:
’’یہ وائسرائے بھی ہماری بھی ہماری بات کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔‘‘
پاکستان کا قیام عمل میں آتے ہی ہندوؤں اور سکھوں نے نہتے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیے اور مختلف شہروں اور قصبوں میں ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ قائداعظمؒ نے کانگریس کے ہندولیڈروں خصوصاً ’’امن و شانتی‘‘ کا پرچار کرنے والے گاندھی ’’جی‘‘ کی توجہ ان فسادات کی طرف دلائی۔ انھوں نے قائداعظمؒ کی ہمنوائی تو ضرور کی کہ ہندوؤں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیاکہ میں کیا کروں میری کوئی نہیں سنتا۔ یہ کیسا راہنما تھا کہ جس کی بات اس کی قوم سننے پر تیار نہ تھی۔ حالانکہ یہی گاندھی تھا کہ جب بھی اسے اپنی کوئی بات منوانا ہوتی تھی تو وہ مہون برت کی دھمکی دے کر منوا لیا کرتا تھا، لیکن اس موقع پر شاید وہ یہ چاہتا ہی نہیں تھا کہ فسادات ختم ہوں۔ ان فسادات کی یقینی وجہ یہی تھی کہ ہندوؤں اور سکھوں کی مثال ہارے ہوئے جواریوں کی سی تھی۔ انھوں نے قیام پاکستان کو اپنی ہار سمجھا اور وہ مسلمانوں کو ہر علاقہ میں آزار پہنچانے لگے۔ کانگریس کی مقامی حکومتوں نے سکھوں اور ہندوؤں کا کھلم کھلا ساتھ دیا، جبکہ ہمارے قائدؒ نے بار بار اپنی قوم کو امن و آتشی سے رہنے کے پیغام دیے۔ اس کے علاوہ انھوں نے گاندھی اور نہرو کو متعدد بار خطوط میں لکھا کہ وہ اپنے علاقوں میں امن و امان قائم کرنے کی کوشش کریں۔ بعض مقامات پر مسلمانوں نے بھی انتقام کی آگ میں جل کر اپنے مظلوم برادر ان ملت کا بدلہ لینے کے لیے ہندوؤں اور سکھوں کو تکلیفیں پہنچائیں۔ مگر یہ سب ہندوستان (بھارت) میں ہوا۔ اسلامی مملکت پاکستان کے ہر علاقہ میں قائداعظمؒ کے فرمان اور سخت انتظامی کارروائیوں کے باعث جلد ہی امن و سکون قائم ہو گیا جبکہ ہندوستانی علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں قتل و غارت جاری رہا۔
پاکستان کو آباد کرنے کے لیے بلاشبہ لاکھوں مسلمانوں کو آگ اور خون کے طوفانوں سے گزرنا پڑا۔ یہ اتنی بڑی ابتلا تھی کہ دنیا کی تاریخ اس قسم کی تبدیلیٔ آبادی کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔
دشمنوں کے خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے اور اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا ہوا اور سب سے بڑی اسلامی ریاست بنا۔
قائداعظمؒ کا سنہری قول ’’اتحاد، ایمان اور تنظیم:
کوئی شاندار کارنامہ سرانجام دینے کے لیے اور ملک کی قومی زندگی میں اپنا صحیح مقام حاصل کرنے کے لیے خدمت، تکلیف اور قربانی بنیادی تضاضے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان بن گیا۔ اب ہمارے سامنے پاکستان کی تعمیر و ترقی کا زیادہ مشکل اور بڑا مرحلہ درپیش ہے۔ جو ہماری قوت و توانائی کے ایک ایک ریزے کا تقاضہ کرتا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ہم اس اسلامی ریاست کو مکمل اتحاد ایمان اور تنظیم سے دنیا کی ایک عظیم اور مثالی مملکت بنا دیں گے۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔‘‘
اور ان سب حقائق کے باوجود اگر آج کی پاکستانی نوجوان نسل یہ کہے کہ آخر الگ ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی؟کہ ہمارا کلچر، ہمارا رہنا سہنا، ہماری رسم و رواج ایک ہی توہیں۔ اگر کہے کہ دونوں ملکوں میں کوئی فرق نہیں۔اور یہ کہ پاکستان اور بھارت کو مل کر فلموں اور موسیقی اور ناچ گانے میں حصہ لینا چاہیے۔ اگر یہاں کے نوجوان بھارت جا کر وہاں ہولی جیسے تہوار منانے میں خوشی و فخر محسوس کرنے لگے ہیں تو وہ اپنے آباؤاجداد کے خون سے کھیلی گئی ہولی یکسر فراموش کر چکے۔ اگر ہماری نوجوان نسل آج ’’امن کی آشا‘‘ کے گن گاتی نظر آ رہی ہے تو یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہم انھیں اپنی ثقافتوں اور حدودوقیود سے صحیح طرح آگاہی نہیں دے سکے۔ آج اگر ہمارے قائد محمد علی جناحؒ ہمارے درمیان موجود ہوتے، تو کیا تب بھی ہماری نسل اور ہم فخریہ، ہندوستان کو اس کے ناپاک ماضی سے بری الزمہ قرار دے کر اپنا دوست اور ہمدرد اور ’’سب بھول جاؤ‘‘ کا نعرہ لگا کر ہم ایک ہی تو ہیں کہہ سکتے تھے۔۔؟ بھارت، سن لو یہ سچ ہے کہ ہمسایہ ممالک سے تعلقات اچھے مثالی ہونے چاہئیں مگر ہندوستان اور پاکستان کے بارے میں ایک بات بالکل حتمی اور واضح ہو جانی چاہیے کہ ’’ہم ایک نہیں ہیں۔‘‘