25 C
Lahore
Monday, October 14, 2024

Book Store

(بلال صاحب) محبت

بلال صاحب

اکیسویں قسط
(21)

محبت

شکیل احمد چوہان

’’عظمیٰ بیٹی اٹھو، نہیں تو نماز کا وقت نکل جائے گا۔‘‘ڈاکٹر ہاجرہ نیازی نے کمبل کے اندر ہاتھ ڈال کر عظمیٰ افگن نیازی کو اٹھایا، عظمی جلدی سے اٹھی اپنے کھلے ہوئے کالے سیاہ گیسوسمیٹے اور  گرم شال اوڑھ کر واش روم کی طرف چل دی۔
عظمیٰ نے فجر کی نماز ادا کی اس کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کی پھر ٹریک سوٹ پہن کر لاؤنج میں آئی اور پروفیسر زمان افگن نیازی کے روم کی طرف چل دی۔ دروازے پر دستک دی۔ اندر سے ڈاکٹر ہاجرہ نیازی کی آواز آئی ۔
’’آجاؤ عظمیٰ‘‘
’’آنی…! انکل کہاں ہیں…؟‘‘عظمیٰ نے پوچھا۔
’’وہ تو واک پر چلے گئے۔ تمہارے کمرے میں گئے تھے۔ انہوں نے ہی مجھے آکر بتایا کہ تم اب تک سوئی ہوئی ہو۔‘‘ڈاکٹر ہاجرہ نیازی نے جواب دیا۔
’’میں بھی چلتی ہوں۔ ‘‘عظمیٰ جلدی سے بولی ۔
’’رکو عظمیٰ …! باہر بہت دھند ہے۔ یہاں بیٹھو میرے پاس۔‘‘ہاجرہ نے صوفے پر دائیں ہاتھ سے اپنے پہلو میں عظمی کو بیٹھنے کو کہا اور بائیں طرف شیشے کے سائیڈ ٹیبل پر کتاب رکھ دی جس کو وہ پڑھ رہی تھی ۔
’’جی آنی…کوئی خاص بات ہے…؟‘‘عظمی بیٹھتے ہوئے بولی۔
’’کل تم کچھ ڈسٹرب تھی۔ رات کھانا بھی نہیں کھایا۔ اپنے کمرے میں بھی جلدی چلی گئیں۔ ‘‘ہاجرہ اپنی انگلیوں کے پوروں سے عظمی کے بالوں کو سہلاتے ہوئے بولی۔
’’نہیں کچھ خاص نہیں…بس ایسے ہی…‘‘عظمیٰ نے بات گول کرنا چاہی ۔
’’اماں کہا کرتی تھیں … ماسی یعنی ماں جیسی، میں نے تم کو ماں بن کر پالا ہے …مجھے نہیں بتاؤ گی…؟‘‘ہاجرہ نے صوفے پر اپنی پوزیشن تبدیل کی اور عظمیٰ کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئیں۔
’’ہر سنڈے تم بہت خوش ہوتی ہو مگر کل …بلال نے کچھ کہا تھا …؟‘‘ہاجرہ نے پوچھا۔
’’آنی وہ کل نہیں آیا تھا …پچھلے دو سال میں پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ وہ اس سنڈے کو نہیں آیا، جب میں نے فون کیا تو اس کا رویہ عجیب سا تھا …جیسے مجھے جانتا ہی نہ ہو۔‘‘عظمی پریشانی سے بتا رہی تھی ۔
’’وہ ایسا تو نہیں۔ جب وہ آٹھ سال کا تھا، میں تب سے اسے جانتی ہوں۔ وہ تو بڑے اچھے اخلاق والا بچہ ہے۔ ‘‘ہاجرہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
’’وہ بچپن سے اپنے ماموں کی بیٹی سے منسوب ہے۔ کیا نام تھا اس کا ہاں نسیم جمال رندھاوا۔ نوشی کہتے ہیں جسے۔ ‘‘
’’مجھے معلوم ہے۔ اس کی منگنی ہوچکی ہے ۔ اس نے مجھے خود بتایا تھا۔ ‘‘عظمیٰ سرجھکائے ہاتھ کی ہتھیلیوں کو دیکھ رہی تھی۔ ڈاکٹر ہاجرہ کچھ دیر عظمیٰ کو دیکھتی رہی، وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
’’پروفیسر صاحب مجھے رات کو کہہ رہے تھے۔ اگر ہمارے دونوں بیٹے شادی شدہ نہ ہوتے، تو میں عظمی کو اپنی بہو بنا کر یہاں سے جانے نہ دیتا۔ ‘‘عظمی ہاتھ ملتے ہوئے، ہاجرہ کی طرف دیکھ کر مسکرائی، ہاجرہ اس کا چہرہ غور سے دیکھ رہی تھی۔
’’تم بلال کو پسند کرتی ہو؟‘‘ہاجرہ نے عظمیٰ کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’نہیں…میں اس سے محبت کرتی ہوں…‘‘عظمیٰ نے صاف گوئی سے جواب دیا۔
’’اور …وہ…؟‘‘ہاجرہ کے وہ میں بہت سارے سوال تھے۔
’’آنی…اس نے ان دو سالوں میں کبھی مجھے آنکھ بھر کر نہیں دیکھا…کبھی غلطی سے بھی مجھے چھوا نہیں…کوئی ایسی بات نہیں کی جس سے مجھے لگے کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرتا ہے…میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ہے …جہاں میرے لیے حیا ہے…احترام ہے…ہاں میں اسے اچھا دوست کہہ سکتی ہوں…اور بس‘‘
’’تو پھر …بیٹی سائے کے پیچھے نہیں بھاگتے‘‘ہاجرہ نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔
’’تم شادی کرلو‘‘
’’کرلوں گی…اس کی شادی کے چار دن بعد‘‘عظمیٰ نے بھولی صورت بناکر کہا۔
’’چار دن بعد کیوں…؟ ‘‘ہاجرہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’تین دن سوگ کے اور چوتھے کو شادی…‘‘عظمیٰ نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ہاجرہ ہنستے ہوئے بولی:
’’کملی نہ ہو تو،میں اس کے اسکول کا ایڈریس بتاتی ہوں مل آؤ، ویسے بھی آج تمہاری چھٹی ہے اور شام کو جلدی آجانا میں نے اور پروفیسر صاحب نے ایک پروگرام بنایا ہے تمہارے لیے۔ ‘‘

’’یار تمہارا اسکول تو بڑا شاندار ہے…الگ مختلف…پاکستانی اسکول تو بالکل نہیں لگتا…کسی بھی اینگل سے…میں نے سارے کلاس روم دیکھے ہیں…انگلش کے پیریڈ میں ٹیچر بچوں سے صرف انگلش بول رہا تھا اور دوسری کلاس میں سارے بچے عربی بول رہے تھے ‘‘ڈاکٹر محسن چائے پیتے ہوئے تبصرہ کر رہا تھا۔
’’تم نے آج پھیکی چائے کیوں لی؟ ‘‘بلال نے پوچھا۔
’’میں انگلش اور عربی کی بات کر رہا ہوں اور تم چائے کا پوچھ رہے ہو‘‘ محسن نے خفگی سے کہا۔
’’تمہیں عربی بولنا آتی ہے ‘‘بلال نے پوچھا ۔ محسن نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’اور انگلش بول سکتے ہو‘‘بلال نے پھر پوچھا۔
’’وہ میں گزارہ کرلیتا ہوں ‘‘ محسن نے فوراً بتایا۔
’’میرے اسکول میں کلاس Fiveکا بچہ ہم دونوں سے اچھی انگلش اور عربی بول سکتا ہے۔ وہ اس لیے کہ یہاں پانچویں کلاس تک بچوں سے زبان بولی جاتی ہے پڑھائی نہیں جاتی ‘‘
’’تو پھر بچوں کے سبجیکٹ کون سے ہیں؟انگلش تم نہیں پڑھاتے، عربی اور اردو بھی نہیں پڑھاتے‘‘ محسن نے حیرت سے پوچھا۔
’’قرآن مجید…سائنس، کمپیوٹر اور میتھ۔ دنیا کا سب سے بڑا سبجیکٹ قرآن مجید ہے۔ وہ ہم نے ایصال ثواب کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ ہم قرآن کو سمجھ نہیں پاتے، اس لیے کہ ہمیں عربی نہیں آتی، میں خود ترجمے والا قرآن مجید پڑھتا ہوں … بچوں کوعربی زبان آ جائے گی تو وہ قرآن کو سمجھ جائیں گے۔ ترجمہ مفہوم کے قریب لے جاتا ہے پورا مفہوم ترجمے سے بیان نہیں ہوتا …رہا انگلش کا سوال تو اس وقت سارے علوم انگلش میں ہیں، ہم جیسے تیسے کرکے انگلش میں پاس ہو جاتے ہیں بول پھر بھی نہیں سکتے۔ میں نے وہ پاس فیل کا چکر ہی ختم کردیا ہے، انگلش زبان ہے سبجیکٹ نہیں۔ ‘‘
’’ویسے تم عجیب بات کر رہے ہو ‘‘ انگلش زبان ہے سبجیکٹ نہیں…‘‘ محسن نے اختلاف کیا۔
’’تم چائنہ میں کتنے سال رہے ہو؟‘‘بلال نے پوچھا۔
’’یہی کوئی پانچ چھے سال ‘‘
’’چائنیز آتی ہے؟ ‘‘
’’اب تو فر فر بول لیتا ہوں ‘‘ محسن نے فخریہ انداز میں بتایا۔
’’چائنیز زبان تم نے پڑھ کر سیکھی تھی؟ ‘‘بلال نے پوچھا۔
’’نہیں تو…شروع میں ایک سال تو بڑی مشکل ہوئی …پھر میں غور سے سنتا تھا اور بولنے کی کوشش کرتا تھا… جیسے جیسے میں بولتا گیا مجھے زبان کی سمجھ آ گئی ‘‘
’’تو بات سیدھی سی ہے۔ زبان بولنا آ جائے تو آپ اس میں لکھی ہوئی تحریر آسانی سے سمجھ سکتے ہیں، اسی لیے چھوٹے بچوں کو یہاں بولنے کی تربیت دی جاتی ہے اور چھٹی کلاس سے پھر ان کو پڑھایا جاتا ہے۔ ‘‘
’’بھائی…! تو ابھی سے دو بچوں کی سیٹ رکھ لے۔ ‘‘ محسن نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’وہ کس کے بچے ہیں…؟ ‘‘
’’بھائی میرے ہونے والے بچے اور کس کے۔ ‘‘ محسن نے سنجیدگی سے کہا۔
’’اماں کو توشی بہت پسند آئی ہے اور وہ رشتہ مانگنے کے لیے آنا چاہتی ہیں۔ ‘‘ محسن کی بات سننے کے بعد بلال تھوڑی دیر خاموش رہا پھر بولا:
’’دیکھو ڈاکٹر صاحب…! میں تمہارے ساتھ دو سال تک پڑھا ہوں اور تمہاری طبیعت سے اچھی طرح واقف ہوں…وہ تمہارے ٹائپ کی لڑکی نہیں ہے…دیکھنے میں جتنی شوخ و چنچل ہے اندر سے اتنی ہی معصوم اور بھولی… تم ٹھہرے ایک دل پھینک عاشق… دیکھومائنڈ مت کرنا …‘‘
’’کمال ہے…بلال صاحب… پیار سے بے عزتی کر کے کہتے ہو مائنڈ مت کرنا ‘‘ ڈاکٹر محسن ناراضی سے بولا۔
’’دیکھو ڈاکٹر صاحب…! صاف گوئی کو بے عزتی کا نام مت دو۔ جو میرے دل میں تھا میں نے کہہ دیا ‘‘بلال نے اپنی صفائی پیش کی۔
’’بلال…! میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں …فلرٹ نہیں کر رہا …اور دوسری بات ابا جی کی وفات کے بعد میں بدل گیا ہوں …‘‘ڈاکٹر محسن نے اپنا موقف بیان کیا۔
’’خیر…ایک دو دن میں ماموں امریکہ سے آنے والے ہیں…اس سے پہلے تم توشی سے بات کرلو اگر اسے کوئی اعتراض نہیں ہے …تو آپ لوگ آجاؤ…حتمی فیصلہ ماموں اور ممانی نے کرنا ہے ‘‘
’’بلال میں واقعی سچ کہہ رہا ہوں …مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے ‘‘
’’تم توشی سے بات کرلو…‘‘بلال نے جواب دیا۔
’’تم بات کرو نا اس سے… ‘‘ ڈاکٹر محسن نے درخواست کی ۔
’’اگر اس سے محبت ہے …تو پھر میری سفارش کی ضرورت نہیں … ڈاکٹر صاحب…! ایک بات یاد رکھنا کوئی ایسی ویسی حرکت مت کربیٹھنا کہ میری اور خود کی نظروں میں گرجاؤ ‘‘
’’بات کیسے کروں یہی تو سمجھ نہیں آرہا۔ ‘‘ محسن نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔
بلال اسے دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرایا، کیا یہ وہی محسن رضا بٹ ہے جو شرط لگا کر راہ چلتی لڑکیوں سے بات کر لیتا تھا اور ہمیشہ شرط بھی جیت جاتا تھا۔ جس لڑکی پر تعریف کا منتر پڑھ کر پھونک مار دیتا وہ اس کی ہو جاتی۔ اس کی بے چینی ایک سو لہ سال کے اناڑی عاشق جیسی تھی جس کی بھوک پیاس ختم ہوجائے۔ (یہ تو واقعی بدل گیا ہے) بلال کے دل نے اسے بتایا ذہن نے دل کی بات پر تصدیق کی مہر لگادی اور آنکھوں نے دیکھ لیا سامنے بیٹھے ڈاکٹر محسن رضا بٹ کو۔
’’ تم واقعی سیریس ہو؟ ‘‘بلال کے جملے سے ڈاکٹر محسن چونک گیا اور سر کو اثبات میں ہلا دیا۔
’’اچھا…ایسا کرو اس کا نمبر لے لو …اسے کھانے پر انوائیٹ کرو…اور Propose کردو اگر اس نے تمہارا پروپوزل ایکسپٹ کرلیا تو میں ماموں سے بات کروں گا‘‘بلال نے مشورہ دیا۔
’’اور وہ کیسے ری ایکٹ کرے گی؟ ‘‘ڈاکٹر محسن نے بلال سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں کہے گی …تمہاری بات سن کر خاموش ہوجائے گی …اور شرم سے نظریں جھکا دے گی…اور اپنے بال کان کے پیچھے کرتے ہوئے بولے گی میں سوچ کر بتائوں گی، جانے سے پہلے وہ گردن جھکا کر ہلکا سا مسکرائے گی… یاد رکھنا یہ ساری باتیں کھانے کے بعد کرنا ‘‘
’’اگر اس نے میرا پروپوزل ریجیکٹ کردیا‘‘ڈاکٹر محسن بھولے پہلوان کی طرح بولا۔
’’اگر تمہارے جذبوں میں سچائی ہوئی تو وہ انکار نہیں کرے گی ‘‘اتنے میں آفس بوائے آتا ہے :
’’سر…! وہ پولیو کے قطرے پلانے والے آئے ہیں اور ایک لڑکی بھی آپ سے ملنا چاہتی ہے ‘‘
’’پولیو ٹیم کو پہلے چائے پلائو اور بسکٹ وغیرہ ضرور رکھنا… اس لڑکی کا نام پوچھا…؟ ‘‘
’’سر…! وہ…عظمیٰ افگن بتایا انہوں نے ‘‘
’’عظمیٰ یہاں…بھیج دو انہیں ‘‘
’’السلام علیکم …!‘‘عظمیٰ آفس میں داخل ہوئی بلال صوفے سے اٹھ گیا اور اسے دیکھ کر ڈاکٹر محسن بھی اٹھ گیا۔ بلال نے مسکرا کر استقبال کیا اور جواب دیا :
’’یہ میرے دوست ڈاکٹر محسن رضا بٹ ہیں اور آپ ڈاکٹر عظمیٰ افگن نیازی ہیں ‘‘بلال نے تعارف کرایا۔ ڈاکٹر محسن نے جانے کی اجازت مانگی:
’’بلال صاحب میں چلتا ہوں ‘‘
’’وہ نمبر تو لے لو‘‘بلال نے ڈاکٹر محسن کو توشی کا موبائل نمبر لکھ کردیا۔ بلال اپنی آفس ٹیبل پر بیٹھا تھا، اس نے آفس بوائے کو بلانے کے لیے بیل دی ۔
’’آپ…بیٹھیں کھڑی کیوں ہیں…؟‘‘بلال صوفے کی طرف بڑھا، ڈاکٹر محسن جا چکا تھا۔
’’جی سر…!‘‘ آفس بوائے بولا۔
’’پولیو ٹیم کو چائے دے دی؟ ‘‘بلال نے پوچھا۔
’’سر…! چائے بن رہی ہے ‘‘
’’اچھا ایسا کرو ایک چائے اور فروٹ کیک میڈم کے لیے بھی لائو۔ ‘‘ آفس بوائے چلا گیا۔
’’ایک چائے کیوں…؟ اور آپ کو کس نے بتایا مجھے فروٹ کیک پسند ہے؟ ‘‘عظمیٰ نے سوال پوچھا۔
’’میرا روزہ ہے ‘‘بلال نے بتایا۔
’’اور وہ فروٹ کیک والی بات‘‘عظمیٰ نے بات چھوڑی نہیں۔
’’آپ کو چائے کے ساتھ فروٹ کیک بہت پسند ہے کچنار اور قیمہ شوق سے کھاتی ہیں، احمد فراز کی شاعری، قدرت اللہ شہاب کی تحریریں، جاوید چوہدری کے کالم، حسینہ معین کے ڈرامے، ٹینا ثانی کو سنتی ہیں،Blackاور Pink آپ کے پسندیدہ کلر ہیں انگور بڑے شوق سے کھاتی ہیں ‘‘بلال نے عظمیٰ کی ساری جنم کنڈلی بیان کر دی، اسے احساس تھا کہ کل اس نے عظمیٰ سے اچھی طرح بات نہیں کی تھی شاید اسی لیے اسے مسکا لگارہا ہو، عظمیٰ منہ کھولے حیرت میں مبتلا تھی۔ آفس بوائے سینٹر ٹیبل پر چائے اور کیک رکھ رہا تھا، تب جاکے وہ حیرت کی دنیا سے واپس لوٹی، بلال اس کے سامنے ٹیبل کی دوسری طرف صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔
’’روزہ کیوں رکھا آج…؟‘‘چائے کا سپ لیتے ہوئے عظمیٰ نے پوچھا۔
’’میں جمعہ اور پیر کا روزہ رکھتا ہوں ‘‘بلا ل نے جواب دیا۔
’’اسکول اور آفس تو بڑا شاندار ہے کیا اسکول اپنا ہے؟ ‘‘عظمیٰ نے کیک کھاتے ہوئے پوچھا۔
’’بلڈنگ کرائے پر ہے، سیٹ اَپ اپنا ہے ‘‘ سامنے سڑک کی دوسری طرف کنال کے پلاٹ کا بیعانہ دیا ہے پندرہ بیس دن بعد ٹرانسفر ہو جائے گا ‘‘ بلال نے تفصیل سے آگاہ کیا۔
’’کتنے کا پلاٹ خریدا…؟‘‘عظمیٰ نے پوچھا۔
’’تین کروڑ پچیس لاکھ کا ‘‘ بلال نے عاجزی سے بتایا۔ عظمیٰ نے بڑی مشکل سے چائے کا گھونٹ حلق سے نیچے اتارا (باپ نے خوب مال چھوڑا ہوگا ) (یا پھر بڑا ڈاکو ہے تبھی تو اتنا سب کچھ ہے تعلیم کے نام پر ڈاکہ ڈال رہا ہے ) عظمیٰ نے دل ہی دل میں کہا۔
’’کیا آپ کے والد صاحب بڑے بزنس مین ہیں…؟‘‘عظمیٰ نے بات آگے بڑھائی۔
’’نہیں ان کا انتقال ہوچکا ہے ‘‘بلال نے بتایا۔
’’لگتا ہے کافی جائیداد چھوڑ کر گئے تھے آپ کے لیے …‘‘عظمیٰ پھر سے بولی۔
’’نہیں وہ تو سفید پوش آدمی تھے یہ میری خود کی سیونگ ہے ‘‘بلال نے بتایا ۔
’’میں دو سال سے سیونگ کر رہی ہوں… نو دس لاکھ ہی بچا پائی ہوں، سوچ رہی ہوں جاب چھوڑ کر یہ بزنس شروع کرلوں ‘‘عظمیٰ نے ہونٹوں پر تبسم سجا کے کہا۔
’’بلال…! آپ ایک بات بتائیں گے سچ سچ؟ ‘‘بلال نے ہاں میں گردن ہلادی ۔
’’میرے بارے میں اتنا سب کچھ آپ کو کس نے بتایا ہے؟ ‘‘
’’آپ نے خود‘‘بلال نے جواب دیا۔
’’میں نے تو آپ سے کبھی کوئی بات نہیں کی ‘‘
’’دیکھیں میں اور آپ تقریباً دو سال سے مل رہے ہیں، ہر سنڈے کے سنڈے۔ آج ہماری 100ویں ملاقات ہے آپ نے میرے ساتھ جب بھی چائے پی فروٹ کیک ضرور آرڈر کیا۔ ریسٹورنٹ میں ہم چار بار گئے آپ نے کچنار کا ہر بار پوچھا وہ الگ بات ہے ہم کھا ایک دفعہ بھی نہیں سکے۔ دو دفعہ آپ کی گاڑی میں بیٹھا آپ نے ٹینا ثانی کو ہی سنا، کپڑے آپ ہمیشہ Pink اور Balck پہنتی ہیں، ان دو سالوں میں آپ نے چار شعر سنائے چاروں احمد فراز کے تھے آپ نے جتنے ڈراموں کا ذکر کیا، وہ سارے حسینہ معین کے لکھے ہوئے تھے ۔ میں نے ہمیشہ آپ کو انگور کھاتے دیکھا … ویری سمپل ‘‘
’’کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں…؟ ‘‘عظمیٰ نے آناً فاناً پوچھا۔
’’میں سب سے محبت کرتا ہوں بشمول آپ کے ‘‘بلال نے جوں کا توں جواب دے دیا ۔ انٹر کام پر بیل ہوئی، بلال نے اٹھ کر کال ریسیو کی۔
’’ٹھیک ہے آپ اندر آؤ‘‘بلال نے انٹر کام پر کہا ۔ تھوڑی دیر بعد ایک لڑکا اندر آیا ۔
’’جی سر‘‘سامنے کھڑے لڑکے نے کہا۔
’’رشید ایسا کرو یہ پیسے لو سارے سٹاف کے لیے کھانا لائو اور پولیو ٹیم والوں کو کھانا ضرور کھلانا ‘‘بلال نے 20ہزار روپے دیے وہ لڑکا چلا گیا۔
’’بلال میں آپ کو سمجھ نہیں پائی ‘‘ سارے سٹاف کو کھانا اور پولیو ٹیم والوں پر اتنی مہربانی…؟‘‘ عظمیٰ نے پرکھتی نظروں کے ساتھ پوچھا۔
’’پولیو کے قطرے پلانے والے تو غریب لوگ ہوتے ہیں۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ ٹھیک طرح سے ان سے بات بھی نہیں کرتے۔ حد تو یہ ہے بے وجہ کتنے لوگوں کو مار دیا گیا ہے… سٹاف کو کھانا اس لیے کہ آج میری امی کی سالگرہ ہے ‘‘
’’دو دسمبر کو…؟ آج تو میری بھی سالگرہ ہے ‘‘عظمیٰ فوراً بول پڑی ۔
’’مجھے معلوم ہے پچھلے سال آپ شہر سے باہر تھیں تب آ پ سے کچھ خاص دوستی بھی نہیں تھی اس لیے آپ کو وِش نہیں کیا۔ ‘‘
’’This Time please accept my congratulations ‘‘
’’اور یہ آپ کا گفٹ‘‘بلال نے ایک پارسل عظمیٰ کو پیش کیا۔
’’جتنی میں کل ہرٹ ہوئی تھی اس سے کہیں زیادہ آج خو ش ہوں…شکریہ بلال ‘‘ عظمیٰ کی آنکھیں چمک اُٹھی تھیں۔ اُس نے اُسی چمک کے ساتھ پوچھا : ’’ویسے آپ کی برتھ ڈے کب ہے‘‘
’’29فروری کو‘‘بلال نے بتایا ۔
’’سال کون سا تھا ‘‘عظمیٰ نے پوچھا ۔
’’29فروری 1988کو میں پیدا ہوا تھا‘‘بلال نے تفصیل بتائی۔
’’آپ بہت اچھی ہیں، میں امید کرتا ہوں آ پ مجھے غلط نہیں سمجھیں گی۔ عظمیٰ جی! میں نے ہمیشہ آپ کو ایک دوست کی طرح دیکھا ہے۔ آج کے علاوہ میں نے کبھی آپ سے کوئی بات نہیں کی ہمیشہ آپ کو سنا ہے دو چار دفعہ آپ کے ساتھ کھانا کھا لیا، آپ کی خواہش پر، میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا میری منگنی ہوچکی ہے وہ بھی بچپن سے ، رہا محبت کا سوال، میرے نزدیک محبت فرض ہے آپ نے پوچھا تھا کیا مجھے آپ سے محبت ہے بالکل ہے جیسے ایک دوست کو دوسرے دوست سے ہونی چاہیے ‘‘
عظمیٰ غور سے بلال کو دیکھ رہی تھی، خلاف توقع اس نے بلال کی کسی بات کو محسوس نہیں کیا اور نہ ہی خائف ہوئی تھی۔ یہ ساری باتیں تو وہ پہلے سے جانتی تھی، بلال کے منہ سے سن کر اسے اچھا لگا نہ کہ برا بلکہ وہ اور مرمٹی بلال پر پہلے سے زیادہ کہیں زیادہ۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles