مفلس کی زندگی اور اس کے خواب
ازقلم:سبیغ ضو
غربت کی فصیل پر خزاں کا موسم ٹھہرا ہوا سا لگے تو کلینڈر میں بہار کی تاریخ آکر گزر جاتی ہے۔۔۔ لیکن اداس دلوں پر بہار نہیں آتی۔۔
زرد کینوس کے وہ پھیکے پھول ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔۔۔
ان راستوں کا انتظار کب ختم ہوگا۔۔
جن پر چل کر ہم بھی معزز کہلا سکیں گے۔۔۔
وہ درخت ہم پر کب سایہ کریں گے
جن پر زندگی رس دار پھل کی طرح مسکاتی ہے۔
سخت محنت کی بھٹی میں نئے نئے کندن بنتے وہ نسوانی ہاتھ اکثر سوچتے ہیں کہ دن بدن نسوانیت پر مردانگی کی بھاری چھاپ لیے کیا کبھی وہ غربت کے منہ پر زوردار چانٹا رسید کر سکیں گے؟
حالانکہ انھیں علم ہے کہ اتنا آسان نہیں ہوتا اس مفلسی سے نکلنا جو عذاب کی طرح مسلط کر دی گئی ہو۔۔
جہاں بنیادی چیزوں کے حصول کے لیے تنخواہوں سے چوبیس گھنٹوں کی محنت بھی کم کرنے پڑنے لگے۔
جہاں مسیحا دوائیوں پر سانپ بن کر لوٹنے لگیں۔۔۔
جہاں احساسات و جذبات پر مفلسی غالب آجائے۔۔۔جب زیست اس بدترین مقام سے گزرنے لگے۔۔۔بلکہ ٹھہر جائے۔۔۔قیام بھی ایسا ہو جو صدیوں جیسا بھاری ہو۔تو۔۔۔کچھ کے لیے خود کشی آسان ہو جاتی ہے۔۔۔آخر کس لئے جیا جائے۔۔۔
کیکر کے چھال جیسے ہاتھ لیے مڑے ترے بوسیدہ نوٹوں جیسے لوگ۔۔۔۔جن کا وجود دوسروں کے لیے تو فایدہ مند رہتا ہے۔۔۔لیکن اپنے وجود کو نکھارنے کی قدرت نہیں رکھتا۔۔۔
گنجان گلیوں میں آباد گھر۔۔۔۔اور سرسراتے کواڑوں کے مکین۔۔ایک جیسے حالات کے مارے۔۔۔۔ایک جیسے خیالات کے حامل۔۔۔۔لیکن کچھ ٹین کی چھتوں میں بستے اپنے اندر جلتی بھانبڑ سے لڑتے پل پل مرتے لوگ۔۔۔۔۔، سماج اصل میں ان کے لیے تکلیف دہ ہے۔۔۔
جو سوال اٹھاتے ہیں اپنی حالت پر۔۔۔۔جو جتن کرتے ہیں خوشبوؤں میں بسیرے کی خواہش رکھتے ہیں۔۔۔۔جن کی آنکھوں میں خواب چیختے ہیں۔۔۔جن کے خوابوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔۔۔۔لیکن پھر بھی آنکھوں میں قید رہتے ہیں۔۔۔جو تخیل کی پرواز سے اپنے لیے خوشبو ڈھونڈ لاتے ہیں۔۔۔۔جن کی دولت ان کا خواب ہیں ۔۔جہاں سے وہ مضبوط تخیل اپنے دامن میں بھرے سراب جیسی خوشیوں کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے ہیں۔۔اور تخیل کو حقیقت میں بدلنے کی چاہ میں زیست کے زرد رنگوں کو ادھیڑتے اکثر انگلیاں فگار کر بیٹھتے ہیں۔۔۔
جب تخیل دھندلائے پردے سے انہیں حقیقت کی جھلک دکھاتا ہے تو پھر رات سیاہ نکتے کی طرح ٹھہر جاتی ہے۔۔۔اور ان ٹین کے چھت کے مکینوں کے دلوں پر اپنی سیاہی مسلط کرتی یہ رات انہیں بتاتی ہے۔۔۔۔
خواب قیدی نہیں۔۔۔
مگر خواب قید ہیں۔۔
ان کے خوابوں کو تعبیر قسمت کی بھٹی میں کندن بن کر اس وقت ملے جب وہ بوڑھے برگد جیسے ہوجائیں گے۔۔جب ان کا وجود شادابی کھودے گا۔۔۔لیکن ان کا تجربہ انہیں دانشور بنادے گا۔۔۔
وہ پھر امید کی لو جلاتے ۔۔۔۔ضرور یہ نظم گنگنائیں گے۔۔
خواب تخیل ہے
خواب فسوں ہے
خواب جگنو ہیں
انہیں امید کا دیا چاہیے….
خواب درد ہیں
خواب پلکوں پر ٹکا اشک….
خواب حزن بھی
خواب باعث ملال بھی….
غم کا مداوہ بھی یہی خواب ہیں
انہیں لطیف زندگی کا سرا چاہیے
لرزتی ہوئی پلکیں جب نیند کو پکاریں….
دلکش رعنائیوں کا استعارہ بھی خواب ہیں
مفلس کے جینے کا سہارا بھی خواب ہیں۔
اور کچھ ہوتے ہیں برہنہ خواب بھی
انہیں مقدس خیالوں کی ردا چاہیے
مگر…….
خواب ضروری ہیں
خواب سے خالی آنکھیں کیا…….
خواب سلامت رکھو
خواب ٹوٹنے نہ پائیں۔
Sabeegh Zu