30 C
Lahore
Friday, March 29, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 8

 

( 8 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

جبران جپہ اپنے آفس میں لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھا ہوا کام میں مصروف تھا۔ بختیار بابا اندر آیا اور آتے ہی خفگی سے بولا
’’بچے۔۔۔! پورے بارہ گھنٹے ہو گئے ہیں تمھیں مسلسل کام کرتے ہوئے۔‘‘
جبران فاتحانہ انداز کے ساتھ بختیار بابا کی طرف اپنا لیپ ٹاپ کرتے ہوئے بولا
’’کام بھی تو ہو گیا ہے نا۔۔۔ یہ دیکھیں۔۔۔‘‘
بختیار بابا نے لیپ ٹاپ کی اسکرین کو دیکھا۔ سرمد کی بارہ سالہ پُرانی تصویر کے اردگرد چھے مختلف تصویریں تھیں۔ ایک کلین شیو، دُوسری پوری ڈاڑھی کے ساتھ، تیسری چھوٹی ڈاڑھی کے ساتھ، چوتھی سر اور منہ کے بالوں کے بغیر، پانچویں بڑی بڑی مونچھوں کے ساتھ اور چھٹی ماسک لگائے ہوئے۔
جبران اپنی کرسی سے اُٹھتے ہوئے بختیار بابا کے برابر کھڑا ہوتے ہوئے ماسک والی تصویر پر اُنگلی رکھتے ہوئے کہنے لگا
’’اِن دنوں اُس کا حلیہ یہ ہو سکتا ہے۔‘‘
بچے۔۔۔! تم نے تو کمال کر دیا۔ بختیار بابا نے تعریفی انداز میں کہا۔
آج کل تو ایسا کمال بچہ بچہ کر لیتا ہے بابا جی۔۔۔
جبران نے بتایا۔ بختیار بابا پہلے تو حیران ہوا، پھر بولا
’’جو کام بچہ بچہ کر لیتا، اُس پر تم نے بارہ گھنٹے لگا دیے؟‘‘
بختیار بابا کی بات سُن کر جبران مسکرایا، پھر کہنے لگا
بارہ گھنٹے تو سرکاری کاغذوں میں اُس کی کھوج میں لگے ہیں۔۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ حکومت کے ریکارڈ میں ہی نہیں ہے۔۔ خیر بابا جی۔۔۔! آپ ناشتا لگائیں۔
یہ سننے کے بعد بختیار بابا آفس سے چلا گیا۔ جبران  نے اپنی آفس کی چیئر پر بیٹھتے ہوئے اپنے آئی فون سے لیپ ٹاپ کی اسکرین سے کچھ اسکین کیا، پھر اپنے موبائل سے کچھ میسج واٹس ایپ کیے۔
اس کے بعد دراز سے سرخ مارکر نکال کر کرسی کے پیچھے آویزاں پاکستان کے نقشے پر کراچی، حیدرآباد، فیصل آباد، پنڈی اور پشاور کے گرد سرخ دائرے لگائے اور آفس سے نکل گیا۔

۞۞۞

کراچی، حیدرآباد، فیصل آباد، پنڈی اور پشاور میں پانچ لوگوں کو وہ واٹس ایپ میسج ملے۔ سات تصویروں کے ساتھ اُردُو میں ایک عبارت بھی لکھی تھی
بارہ سال پُرانی تصویر درمیان میں ہے۔۔۔ اب یہ بندہ ایسا دکھائی دے سکتا ہے۔۔۔ بندہ زندہ چاہیے۔۔۔ انعام دس لاکھ۔۔۔
یہ میسج دیکھتے ہی مختلف شہروں کے پانچوں لوگوں کے چہروں پر خوشی رقص کرنے لگی۔ اُن پانچوں نے تاخیر کیے بغیر وہ تصویریں اور اپنا اپنا وائس میسج آگے ہزاروں لوگوں کو بھیج دیا
انعام پچاس ہزار۔۔۔ تیس ہزار ملیں گے۔۔۔ پچیس ہزار دوں گا۔۔۔ چالیس ہزار تمھارے۔۔۔ پینتیس ہزار پہنچا دوں گا۔
چند منٹوں میں ہی ملک کے پانچ بڑے شہروں میں یہ میسج ہزاروں لوگوں تک پہنچ گیا۔ سینکڑوں فقیروں، ہیجڑوں، کام والی ماسیوں، زلف تراشوں اور قُلیوں نے ساحل کی تصویریں دیکھ لیں۔ اُن سب نے انعام کے چکر میں ساحل کو ڈھونڈنے کی ٹھان بھی لی۔ کراچی کے ریلوے اسٹیشن پر وہ تصویر قاسم قُلی نے بھی دیکھی۔

۞۞۞

خستہ حال کمرے میں شمیم چمکیلے کپڑے پہنے ہوئے گنگناتے ہوئے میک اپ کر رہا تھا۔ اُ س کے موبائل پر میسج کی بیپ ہوئی۔
غریب محتاج ہوں۔۔۔ گھر میں کمانے والا کوئی نہیں ہے۔۔۔ اللہ کے نام پر دیتے جاؤ!
فقیر چوہدری جبار کے کشکول میں دھڑا دھڑ دس روپے کے نئے سکے اور پُرانے نوٹ گر رہے تھے۔ اسی دوران اُس کے موبائل پر بھی واٹس ایپ آیا۔ وہ دھندے کے وقت اپنا ٹچ موبائل نکال کر خود سے لوگوں کو بدظن کرنے کا رسک نہیں اُٹھا سکتا تھا۔
شمیم  نے میک اپ سے فارغ ہونے کے بعد اپنا موبائل دیکھا۔ واٹس ایپ کھولا تو وہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ اُس کے منہ سے بے ساختہ نکلا
’’ہائے میں مر گئی۔۔۔ یہ تو وہی ہے۔۔۔ انعام بھی پورے پچاس ہزار۔۔۔
شمیم نے اپنا ڈوپٹا پکڑا اور بل کھاتا ہوا اپنے خستہ حال کمرے سے نکل گیا۔

۞۞۞

سورج کی کرنیں دھند کے کمبل کو چیرتی ہوئیں اندرون لاہور کی ساتھ ساتھ جڑی چھتوں پر پڑنا شروع ہو گئی تھیں۔ جبران نرم دھوپ میں کرسی پر بیٹھا ہوا ناشتا کر رہا تھا۔ اُ س کے سامنے خالص شہد اور براؤن بریڈ پڑی ہوئی تھی۔ وہ براؤن بریڈ کے سلائس پر شیشے کی بوتل سے چمچ کی مدد سے شہد لگاتا اور کچھ سوچتے سوچتے کھانے لگتا۔
اُس کا موبائل سیدھا اُس کے سامنے پڑا تھا۔ اسی دوران بختیار بابا چائے  لے کر آ گیا۔ اُس نے چائے جبران کے سامنے رکھی، پھر وہ اُس کے روبرو دُوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’کس کی تلاش میں ہے وہ؟‘‘
بختیار بابا کے اچانک پوچھے گئے سوال پر جبران کی سوچ کا سلسلہ رُک گیا۔ اُس نے منہ والے نوالے کو نگلنے کے بعد بتایا
’’اپنے گاؤں کے ترکھان کے بیٹے کو۔‘‘
کیوں؟ بختیار بابا نے پوچھا۔ جبران مسکرا دیا۔ بختیار بابا نے خود ہی اندازہ لگایا
’’اب محبت تو ترکھان کے بیٹے سے ہونے سے رہی۔۔۔‘‘
اُسی لمحے جبران کے موبائل پر واٹس ایپ وائس میسج آیا۔ اُس نے میز سے موبائل اُٹھائے بغیر ہی صرف اُنگلی کی مدد سے وائس میسج آن کر دیا
’’جپہ صاحب۔۔۔!میں نیچے کھڑا ہوں۔‘‘
جبران نے میسج سننے کے بعد بختیار بابا سے کہا
’’بابا جی۔۔۔! عطا آیا ہے، اُسے اُوپر لے آئیں۔‘‘
بختیار بابا نیچے چلا گیا۔ جبران نے میز سے چائے والا کپ پرچ سمیت اُٹھایا اور چھت کے کنارے کھڑا ہو کر سورج کو دیکھتے ہوئے چائے کی چسکیاں بھرنے لگا۔
جپہ صاحب۔۔۔! رقم لے آیا ہوں۔
عطا نے جبران سے دو قدم پیچھے کھڑے ہوتے ہوئے بتایا۔ جبران پلٹا۔ بختیار بابا نے آگے بڑھتے ہوئے پرچ اور کپ جبران سے لے کر میز پر رکھ دیے۔ جبران ہلکا سا مسکراتے ہوئے بولا
بابا جی تمہیں اور تمہاری بی بی سرکار کو اب چائے کبھی نہیں پلائیں گے۔۔۔ کچھ اور منگواؤں عطا؟۔
’’شکریہ! رقم لایا ہوں۔‘‘
عطا نے کم لفظ بولتے ہوئے بریف کیس سامنے کر دیا۔ جبران نے بریف کیس پکڑنے کے بجائے مسکراتے ہوئے بختیار بابا کی طرف دیکھا۔ بختیار بابا نے عطا سے وہ بریف کیس لے لیا۔ جیسے ہی بختیار بابا وہاں سے جانے لگا تو عطا نے جلدی سے کہا
’’جپہ صاحب۔۔۔! گنتی کروا لیں۔‘‘
یہ سنتے ہی بختیار بابا کے قدم تھم گئے۔ اُس نے غور سے عطا کو دیکھا، پھر بڑی سنجیدگی سے کہنے لگا
بے حساب محبت اور نفرت کرنے والوں کی گنتی ہمیشہ پوری ہوتی ہے۔
یہ کہتے ہی بختیار بابا وہاں سے چلا گیا اور عطا اُس کے جملے پر غور کرنے لگا۔ جبران، عطا کو دیکھنے لگا تو اُس نے پوچھا
’’جپہ صاحب۔۔۔! وہ مل تو جائے گا۔ نا۔۔۔؟‘‘
عطا۔۔۔! کسی سرکاری ادارے میں اُس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔۔۔ کوئی بھی سرکاری دستاویز اُس نے نہیں بنوائی۔۔۔ سوشل میڈیا سے کوسوں دُور ہے وہ۔۔۔ بس مجھے اُس کا ایک نشان کہیں سے مل جائے ، پھر قبر سے بھی نکال لاؤں گا۔

۞۞۞

شمیم نے گلستان ہوٹل سے نکلتے ہوئے خودکلامی کی
’’یہاں نہیں آیا تو کدھر گیا؟‘‘
فقیر چوہدری جبار کے اردگرد سے گہماگہمی تھوڑی کم ہوئی تو اُس نے بھی کمبل میں منہ چھپاتے ہوئے اپنے موبائل کو دیکھا۔ سرمد کی تصویر دیکھتے ہی وہ دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ ابھی سوچ بیچار ہی کر رہا تھا کہ شمیم کی آواز اُس کے کانوں میں پڑی
’’اِدھر تُو منہ چھپا کے بیٹھا ہے۔۔۔ اُدھر وہ ہیرو کہیں اور چھپ گیا ہے۔‘‘
فقیر نے جلدی سے کمبل ہٹا کے سوالیہ انداز میں پوچھا
’’دیکھ لیا تُو  نے بھی میسج؟‘‘
شمیم نے بے چینی سے اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں سے کاٹتے ہوئے کہا
’’ہاں۔۔۔‘‘
کدھر جا سکتا ہے؟ فقیر نے سوچتے ہوئے پوچھا۔
بری امام۔۔۔ شمیم نے حتمی انداز میں بتایا۔
(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles