29 C
Lahore
Saturday, April 20, 2024

Book Store

( مجروح ( قسط نمبر 48

 

( 48 مجروح ( قسط
شکیل احمد چوہان

۞۞۞

دروازے پر دبی دبی دستک کے ساتھ سرگوشی کے انداز میں کواڑ کے ساتھ ایک نسوانی آواز ٹکرا رہی تھی:
’’سنی۔۔۔! دروازہ کھولو۔۔۔ میں ہوں ۔۔۔!‘‘ ٹھنڈے فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہوئے سنی کے دل میں بھڑکنے والا الاؤ بہت حد تک ٹھنڈا ہو چکا تھا۔
غور کرنے پر اُسے پتا چلا کہ کوئی دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اُس نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے تابندہ کھڑی تھی۔ اُس کے ہاتھ میں چینی کی ایک پلیٹ تھی۔ سنی نے باہر دیکھا ، ہلکی سی دھند پڑ چکی تھی۔ اُسے اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ دن ہے یا رات۔ اُس نے اُسی سے پوچھ لیا:
’’ٹائم کیا ہوا ہے؟‘‘
’’ساڑھے گیارہ۔۔۔‘‘ تابندہ نے کمرے میں آتے ہوئے بتایا۔ سنی نے سوالیہ نظروں سے تابندہ کو دیکھا تو وہ مچلتی آواز میں کہنے لگی:
’’بچے سو گئے ہیں۔۔۔ انوار بھی کل آئے گا۔۔۔ دھند پڑ گئی تھی، اِس لیے جلدی آ گئی۔‘‘
سنی نے اُس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تو تابندہ نے جلدی سے چینی کی پلیٹ دکھاتے ہوئے کہا:
’’تمہارے لیے دَم والے کباب لائی ہوں۔‘‘
تابندہ کی بات سن کر بھی سنی نے کوئی بات نہ کی تو وہ خود ہی بتانے لگی:
’’بڑے کے نہیں۔۔۔ چھوٹے گوشت کے ہیں۔‘‘
سنی نے لشکارے مارتی تابندہ کو غور سے دیکھا، پھر کہنے لگا:
’’میں درمیانے گوشت کا عادی ہوں۔‘‘
تابندہ نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بڑی دلچسپی سے سوالیہ انداز میں پوچھا:
’’درمیانہ؟‘‘
سنی نے تابندہ کے سامنے بیڈ پر پڑی ہوئی کبابوں والی پلیٹ کو دیکھا، پھر وہ بھی تابندہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ لمحہ بھر سوچا، پھر اپنے انداز کو معتبر بناتے ہوئے کہنے لگا:
’’درمیانہ یعنی سُوَر۔۔۔ سُوَر مطلب حرام۔۔۔ شریعت کے بنائے ہوئے رشتے میںا یک ساتھی سُوَر کھانے لگے تو دُوسرے کے لیے حلال نہیں ہو جاتا۔‘‘
تابندہ نے سنی کی باتوں پر غور کیا، پھر کہنے لگی:
’’کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘
سنی سفید بیڈ شیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا:
’’تابندہ جی۔۔۔! زندگی میں میرے بیڈ پر ہزاروں عورتیں آئیں۔۔۔ اُن میں سے سینکڑوں آپ جیسی تھیں۔‘‘
تابندہ نے سنی کی بات سننے کے بعد آنکھیں سکیڑتے ہوئے پوچھا:
’’میرے جیسی۔۔۔ مطلب؟‘‘
’’مطلب۔۔۔ فطرتاً شریف۔۔۔ وہ عورتیں صرف اپنے شوہروں کی ضد میں۔۔۔‘‘ سنی بات کرتے کرتے رُک گیا، پھر لمبی سرد آہ بھر کے کہنے لگا:
’’تابندہ جی۔۔۔! ضد نیکی میں کرنی چاہیے۔۔۔ گناہ میں نہیں۔۔۔‘‘
سنی کی آخری بات تابندہ کے دل پر لگی۔ وہ سوچ میں پڑ گئی۔ لمحوں میں ہی اُس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اُس نے کباب والی پلیٹ اُٹھائی اور برق رفتاری سے کمرے سے نکل گئی۔ سنی بڑے آرام سے اُس کے پیچھے گیا۔ اُس نے تابندہ کو اپنے گھر کی طرف لوٹتے ہوئے دیکھنا چاہا، مگر دھند کی وجہ سے اُسے کچھ دکھائی نہ دیا۔

۞۞۞

سرمد کے پیچھے شور ہوا۔ وہ پلٹا اور ممٹی کی طرف چل دیا۔ ممٹی کا دروازہ کھلا تھا۔ اُس نے اپنے ذہن پر زور دیا۔ امداد ثاقب کے جانے کے بعد اُس نے دروازہ بند کر کے اُسے اُوپر سے تالا نہیں لگایا تھا۔ وہ دروازہ بند کرنے لگا تو اُسے گھر کے نیچے سے کُھسرپُھسر سنائی دی۔
اُسے تشویش لاحق ہوئی۔ وہ گھر کی سیڑھیاں اُترنے لگا۔ ابھی وہ چند سیڑھیاں ہی اُترا تھا کہ اُس کا موبائل بج اُٹھا۔ اُس نے پینٹ کی جیب سے اپنا موبائل نکالا اور اُسے دیکھا:
’’ماسٹر صاحب۔۔۔!‘‘ یہ بولتے ہوئے اُس نے کال ریسیو کی۔
’’السلام علیکم ماسٹر صاحب۔۔۔! میں نے آپ کو کتنی بار فون کیا تھا۔‘‘ سرمد نے جلدی سے بتایا۔ ماسٹر صاحب کھانستے ہوئے لرزتی آواز میں بولے:
’’سونو۔۔۔! شکر ہے بیٹا تُم سے رابطہ ہو گیا۔‘‘ ہیڈماسٹر فیض رسول کی سانس پھولنے لگی۔
’’آپ ٹھیک تو ہیں نا ماسٹر صاحب۔۔۔؟‘‘ سرمد نے فکرمندی سے پوچھا۔ ماسٹر صاحب نے اُسے جواب دینے کے بجائے اپنی کہہ دی:
’’سونو بیٹا۔۔۔! مجھے معاف کر دینا۔۔۔ منشامزاری نے بارہ سال سے کسی کو بھی تمھارے ماں باپ کی قبروں پر مٹھی بھر مٹی بھی نہیں ڈالنے دی۔‘‘
یہ سنتے ہی سرمد کا چہرہ دہکنے لگا۔
’’وہ قبریں نہیں۔۔۔ اب گڑھے بن چکی ہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی سرمد نے اپنا موبائل دیوار پر دے مارا اور دیوانہ وار سیڑھیاں اُترنے لگا۔ جیسے ہی اُس نے باہر نکلنے کے لیے بیرونی دروازہ کھولا، ٹیپو نے ایک زوردار مُکّے سے اُس کا سواگت کیا۔ سرمد کا سر چکرا گیا۔ اُسے آگے پیچھے سے تین افراد نے دبوچ لیا۔ وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ گھوما۔ اُن افراد میں سے دو کی گرفت چھوٹ گئی۔ تیسرے کو اُس نے زور سے زمین پر پٹخ دیا۔
ٹیپو کے دُوسرے بندے اُس پر ٹوٹ پڑے۔ ٹیپو کے بندوں کی وہ دُھلائی کرنے لگا۔ ایک ایک کر کے اُس کے بندے زمین پر گرنے لگے۔ گلی میں سے بھاگتا ہوا ٹیپو کا ایک آدمی گھر کے اندر آیا۔
اُس نے آتے ہی سرمد پر مضبوط ڈوری والا ایک جال ڈال دیا۔ ٹیپو نے جلدی سے ایک رومال پر بے ہوش کرنے والا لیکوڈ ڈالا اور وہ سرمد کے منہ پر رکھ دیا۔ وہ جال کے اندر پھڑپھڑانے لگا، پھر جلد ہی بے ہوش ہو گیا۔

(بقیہ اگلی قسط میں)

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles