25 C
Lahore
Saturday, October 12, 2024

Book Store

ڈینش ماضی اور حال کے آئینے میں|Denmark

خوش و خرم لوگوں کا ملک 
ڈنمارک

بارہواں حصہ

ڈینش ماضی اور حال کے آئینے میں

طارق محمود مرزا، سڈنی

صبح نو بجے میں ہوٹل سے نکلا تو دُھوپ خوب پھیلی تھی۔ موسم انتہائی خوشگوار اور فضا پُرسکون تھی۔ میں نے حسبِ معمول صرف قمیص اور پتلو ن پہنی تھی ۔جبکہ میرے اردگرد سب لوگ جیکٹ، سویٹر اور کوٹ وغیرہ میں ملبوس تھے جس کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آئی۔ کیونکہ مجھے سردی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
گرنیڈ ہوٹل ایسٹر بروگیڈ نامی خاصی مصروف شاہراہ پر واقع تھا۔ باہر نکل کر میں مشرق کی سمت جس طرف سنٹرل اسٹیشن تھا، چل پڑا۔
چند منٹ کی مسافت پر ایک دوسری سڑک کے کنارے مجھے ایکسپریسو ہاؤس نظر آیا تومیرے قدم وہیں رُک گئے۔
ناشتے کے لیے یہاں رُکنے کی ابتدائی وجہ اس کا دلکش ماحول تھا۔ اس کے ہال، بالکونیوں اور صحن میں خوبصورتی سے سجی اس کی میزیں تھیں۔
کرسیوں کی پُشت پر چھوٹے چھوٹے کمبل تہ کر کے رکھے تھے۔ ہال کے اندر لکڑی کے آتشدانوں کی خوشگوار حرارت پھیلی تھی۔ کرسیوں اور صوفوں کے رنگ اور ڈیزائن جُدا اور اندازِ نشست منفرد تھے۔ کسی ماہرِِ سجاوٹ  نے نشستیں کلاسیکی انداز میں سجائی تھیں۔
دوسری وجہ اس کیفے میں براجمان درجنوں سیاح تھے جو اس رُومانوی فضا میں پرسکون انداز میں ناشتے میں مصروف تھے۔ کچھ کھانے کی میزوں کے اردگرد بیٹھے تھے۔ کچھ گھر کی طرح صوفوں پر براجمان تھے اور سامنے کافی ٹیبل پر ناشتا لگا تھا۔ کچھ باہر دھوپ میں بیٹھے بیک وقت ناشتے، رنگین فضا اور رونق سے محظوظ ہو رہے تھے۔
میں  نے بھی کاؤنٹر پر جا کر ناشتے کا آرڈر دیا۔ ادائیگی کی اور نمبر والا دستی جھنڈا  لے کر بالکونی کی ایک میز پر بیٹھا۔ جب ناشتا تیار ہو گیا تو ویٹرس  نے جھنڈے پر درج نمبر کی مدد سے مجھے ڈُھونڈ نکالا۔ اس نوجوان ڈنیش دوشیزہ کے سیب سے سُرخ گالوں سے جیسے جوانی کا رس ٹپک رہا تھا۔
اس کا توبہ شکن گورا بدن تنگ پتلون قمیص سے اُبلا جا رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں، چہرے، ہو نٹوں بلکہ اَنگ اَنگ سے مسکرا ہٹ چھلک رہی تھی۔ اس مستانی مسکراہٹ کے ساتھ پیش کی گئی خوشبودار کافی نے جو ذائقہ دیا وہ امر ہو گیا۔ میں  نے اُبلے انڈے والا سینڈوچ اور کافی لی تھی۔ سینڈوچ بھی لذیذ تھا۔ مگر اس کیفے کی کافی لاجواب تھی۔ اس کافی  نے جیسے مجھے اسیر کر لیا۔

اس کافی ہاؤس کی شاخیں سویڈن اور ناروے میں بھی تھیں۔ لہٰذا میں جتنے دن اسکینڈے نیویا میں رہا، اس کیفے کی کافی کے سحر سے نہیں نکل سکا۔ حالانکہ یہ خاصی گراں تھی۔ دوسری جگہوں پر اس سے کم نرخوں میں کافی مل جاتی تھی، مگر کافی کے معاملے میں مُدتوں سے میری عادت بن چکی ہے۔ میں دن میں ایک دو مرتبہ سے زیادہ نہیں پیتا اور صرف اچھی اور ہاتھ سے بنی ہوئی کافی پیتا ہوں۔
مشینی اور عام کافی میرے حلق سے نہیں اُترتی۔ کافی کے برعکس چائے جتنی مرتبہ ملے، پی لیتا ہوں کیونکہ یہ ہماری گھٹی میں شامل ہے۔
ہم پاکستانیوں کی اس وقت تک آنکھ ہی نہیں کُھلتی جب تک ایک دو پیالیاں چائے نہ پی لیں۔ پُورا دن کھا ئے بغیر گزار لیتے ہیں مگر چائے کے بغیر ایک گھنٹہ نہیں گزرتا۔ بعض لوگ بچت کی غرض سے اوقاتِ کار میں کھانا نہیں کھاتے، لیکن دن بھر میں اتنی چائے پی لیتے ہیں کہ اس کی جگہ کھانا کھا سکتے ہیں۔ مگر بات وہیں آ جاتی ہے کھانے کے بغیر گزر بسر ہو سکتی ہے چا ئے کے بغیر نہیں۔
دفتروں، دُکانوں، ہوٹلوں، مسافر گاہوں اور گھروں میں اتنی چائے پی جاتی ہے کہ ایسے لگتا ہے ہم کچھ اور کرتے ہی نہیں سوائے چائے پینے کے۔ کسی کے گھر بلکہ دفتر میں بھی جائیں تو چائے کے بغیر نہیں جانے دیا جا تا۔ گھر آئے مہمان کو چائے کے علاوہ جو دل چاہے کھلائیں پلائیں، وہ ناکافی ہے۔
دیہات میں کسی دور میں لوگ دُودھ اور لسّی سے تواضع کرتے تھے۔ آج کل اگر مہمان کی خدمت میں کھانا دُودھ، لسّی اور شربت وغیرہ پیش کر دیا جائے اور چائے کا نہ پوچھیں تو یہ بدتہذیبی سمجھی جائے گی۔ چائے جیسی بھی ہو، پیش کر دی جا ئے تو حقِ میزبانی ادا ہو جاتا ہے۔ مہمان بھی خوش اور میزبان بھی دُودھ، دہی، لسّی اور شربت کے تکلف سے بچا رہتا ہے۔

دُودھ، دہی ویسے بھی پاکستان میں نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی جگہ چائے کو سفید بنانے والا محلول عام ہے۔ وہ زمانہ گیا جب خالص دُودھ جس کے اوپر بالائی کی تہ جمی ہوتی تھی، بڑے بڑے گلاسوں میں بھر کر مہمانوں کی خدمت میں پیش کیا جاتا تھا۔
اس خالص دودھ کی جگہ نیسلے کے وائٹنر  نے  لے لی ہے۔ بس چائے کا رنگ ہی سفید ہوتا ہے۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔ چائے کا ذکر چل رہا ہے تو اپنے پاکستانی قارئین کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ جس طرح ہمارے ہاں دیگچی میں چا ئے بنائی بلکہ پکائی جاتی ہے، اہلِ یورپ، جنہوں  نے چائے سے روشناس کرایا تھا، اس طریقے سے ناآشنا ہیں۔
اگر انہیں ہمارے ہاں کے ٹرک اڈوں اور ڈھابوں والی کڑک چائے دکھائی جائے جو پورا دن ایک ہی دیگچی میں پکتی رہتی ہے تو گوروں کے چودہ طبق روشن ہو جائیں۔ یہ خالص برصغیر پاک و ہند کی اختراع ہے جو دُنیا میں کہیں اور رائج نہیں۔ جبکہ انگریز آج بھی گرم پانی میں ایک ٹی بیگ ڈال کر کبھی دُودھ کے ساتھ اور کبھی اس کے بغیر پی لیتے ہیں۔
یُوں انگریزوں نے ہمیں چائے کے جس نشے سے روشناس کرایا تھا وہ گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ جبکہ خود وہ ہلکی پھلکی بلکہ نیم چڑھی کچی پکّی چائے پر گزارا کر رہے ہیں۔ بے چارے گورے۔
میں ابھی نا شے میں منہمک تھا کہ محمد یاسین کا فون آ گیا۔ سلام دُعا کے بعد اُنہوں  نے دریا فت کیا ۔
آج آپ کا کیا پروگرام ہے؟
میں نے بتایا، ابھی تک تو کوئی پروگرام نہیں۔
کہنے لگے،  پھر تیار ہو جائیں۔ تھوڑی دیر میں آپ کو لینے آؤں گا۔ جمعہ کی نماز ادا کر نے جائیں گے۔
میں خوش ہو گیا ۔ کیونکہ آج کے پروگرام کے بارے میں مخمصے میں تھا۔ دوسرا یہ کہ دورانِ سفر نمازِ جمعہ کی ادائیگی کا مو قع مل رہا تھا۔ نا شتے کے بعد میں گرد و نواح گھومتا رہا۔
یہ کوپن ہیگن کا مرکزی علاقہ تھا۔ جہاں ایک جیسی قدیم عمارتیں سر اُٹھائے کھڑی تھیں۔ سُرخ اینٹوں سے بنی پانچ منزلہ رہائشی و تجارتی عمارات کا یہ سلسلہ حدّنظر تک چلا جاتا تھا۔ میں اس شاہراہ پر تقریباً دو کلو میٹر تک چلتا چلا گیا۔
اس شاہراہ کے دونوں اطراف ایستادہ سُرخ اینٹوں والی ایک جیسی عمارات، اس کے نیچے دُکانیں، فٹ پاتھ پر پیدل اور سائیکل سوار، کیفے، ریستوران، اسٹور، گل فروش، پھل فروش، چھو ٹے چھوٹے پارک جس میں درخت، پودے، پھول اور گھاس کے درمیان چوبی بنچ رکھے ہیں۔ سب کچھ بہت خوبصورت اور متاثر کن تھا مگر ان عمارتوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا کہ میں انیسویں صدی میں پہنچ گیا ہوں۔
کہیں جدید، رنگدار، شیشے والی، سفید یا سیاہ عمارت نہیں تھی۔ بس سرخ اینٹیں تھیں جو ایک جیسے قد و قامت والی فوجی بیرکیں دکھائی دیتی تھیں۔ ان میں تنوع نہیں ہے۔ جدیدیت نہیں ہے۔ اکیسویں تو چھوڑیں بیسیویں صدی بھی نہیں ہے۔
ڈنیش طرز تعمیر کی بہت قدیم تاریخ ہے جو اس کے آ ثارِ قدیم میں پائی جاتی ہے۔ اس کا سِرا ازمنہ ِوُسطیٰ سے جا ملتا ہے (تاریخ یورپ میں پانچ سے پندرھویں صدی کے درمیانی زمانے کو مڈل ایج یا ازمنہِ وسطیٰ کہا جاتا ہے) جب رومن تہذیب کا زوال شروع ہوا تو جدید دریافت کا آغاز ہوا۔
ڈنیش طرز تعمیرپر ابتدائی اثرات رومن تہذیب و تعمیر کے تھے۔ اس کے بعد گوتھک طرزِ تعمیر پورے اسکینڈے نیویا میں مقبولِ عام ہو گیا۔
یہی وہ دور تھا جب تعمیر میں پتھر اور اینٹ کا مشترکہ استعمال ہوا۔ ابتدا ً اس سے گرجا گھر اور قلعے تعمیر ہوئے۔ سُرخ خشت اور تراشیدہ سنگ سے تعمیر کردہ ایسے گرجا گھر اور قلعے ڈنمارک کے طول و عرض میں نظر آتے ہیں۔ فریڈرک دوئم اور کرسچین چہارم کے دورِ بادشاہت میں ڈچ اور فرانسیسی ماہر تعمیر ڈنمارک مدعو کیے گئے۔
ان کا بنیادی فریضہ جنگی قلعوں کو بہتر اور جدید بنانا تھا۔ تاہم اُن سے تاریخی عمارات جیسے محل اور گرجا گھر بھی بنوائے گئے۔
ان یورپی معماروں کے زیراثر گھروں اور دیگر عمارات کی تعمیر میں سنگ و خشت کے ساتھ لکڑی کا استعمال بھی عام ہوتا گیا۔ بادشاہت کے اسی سلسلے کے کرسچین چہارم کے دور میں دنیا بھر سے جمع کی گئی گراں تریں لکڑی، قیمتی پتھر اور دیگر اعلیٰ ترین مواد سے شاندار گرجا گھر بنانے کا سلسلہ شروع ہوا جو بڑے شہروں سے قصبات و دیہات تک پھیلتا چلا گیا۔
جدید کلاسیکی طرزِ تعمیر بنیادی طور پر فرانسیسی ماہرین سے شروع ہوئی جسے بعد میں ڈنیش ماہرین تعمیرات نے بھی کسی حد تک اپنا لیا۔ قدیم ڈنیش طرز تعمیر اور جدید یورپی طرز کے امتزاج سے ایک ایسے اندازِ تعمیر کی بنیاد ڈالی گئی جو ڈینش کا فخریہ اور منفرد انداز ہے۔
اُنیسویں اور بیسیویں صدی میں قومی رومانٹک اسٹائل  اپنایا گیا۔ تاہم ڈنیش طرز تعمیر کی پیش قدمی جاری رہی حتیٰ کہ ۱۹۶۵ء میں انہوں  نے دُنیا کے سامنے ایک نیا اور انوکھا طرز تعمیر متعارف کروایا جسے فنکشنالم کا نام دیا گیا۔
اس کے مطابق ہر عمارت کو اس کی ضرورت اور استعمال کے مطابق مختلف ساخت اور نمو نے کے تحت بنایا جا سکتا ہے۔ اس اُصول کے تحت ڈنیش ماہر تعمیر  نے سڈنی اوپیرا ہاؤس اور گریٹ بیلٹ برج جیسی شہرہ آفاق تعمیرات کے ذریعے بین الاقوامی شہرت و ناموری حاصل کی۔
اوپیرا ہاؤس سڈنی یعنی میرے شہر کی اس عجوبہ روزگار عمارت کا ذکر ہوا تو عرض کر دوں کہ سڈنی کے ماتھے کا یہ جُھومر شہر کے مرکز میں سمندر کے کنارے اس شان سے ایستادہ ہے کہ جس جانب سے دیکھیں بس دیکھتے رہ جائیں۔
اس کی ساخت دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور اس کا حسُن انسان کو مبہوت کر دیتا ہے۔ اس عجوبے کو دیکھنے دنیا بھر سے لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ حسین و جمیل قدرتی مناظر کے درمیان اور شہر سے ملحق یہ تتلی نما عمارت تین اطراف سے نیلے پانی میں گھری ہوئی، جبکہ اس کے بائیں جانب سمندری پٹی کے ساتھ ساتھ انتہائی دلکش اور سرسبز و شاداب پارک ہے۔ اس کے پُشت میں نباتاتی باغ ہے جہاں ہزاروں اقسام کے پیڑ اور پودے ہیں۔ اوپیرا ہاؤس کے سا منے خشکی والے حصّے میں کھڑے ہوں تو آپ کے بائیں جانب سمندر کنارے کے بارونق نظارے اور سامنے سڈنی بلکہ آسٹریلیا کی پہچان اس کا مشہور و معروف ہاربر برج نظر آتا ہے۔
اس سمندری پٹی کے دوسری جانب کے دلفریب نظارے بھی صاف دکھائی دیتے ہیں۔ سڈنی کا یہ اوپیرا ہاؤس  ڈینش آرکیٹیکٹ (معمار) کی کاوش ہے۔
جب جورن کو ۱۹۵۷ء میں اوپیرا ہاؤس ڈیزائن کرنے پر بین الاقوامی ماہرِ تعمیر کا ایوارڈ دیا گیا، اس وقت اُس کی عُمر صرف اڑتیس برس تھی اور اُس سے پہلے اُسے کوئی نہیں جانتا تھا۔ مگر تاریخ میں اپنا نام درج کرانے اور تاابد زندہ رہنے کے لیے اُس کا یہی کارنامہ کافی ہے۔
یُوں ڈنیش طرزِ تعمیر اور ان کے معمار بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں۔ ڈنمارک کے شہر اور قصبے جس انداز میں بسائے گئے اور ان کی رہائشی عمارات جس طرح ترتیب دی گئیں ہیں وہ دُنیا کے لیے قابل تقلید ہیں۔
آج بھی جب کوپن ہیگن میں یہ صدیوں پُرانی عمارتیں اور اُن کے درمیان واقع کشادہ سڑکیں دیکھیں تو میں اُن کی دُور اندیشی کو سراہے بغیر نہ رہ سکا۔
صدیوں قبل جب یہ عمارات تعمیر ہوئی تھیں تو نہ اتنی گاڑیاں تھیں اور نہ اتنے افراد۔ پھر بھی اتنی کشادہ سڑکیں فٹ پاتھ، پانی، بجلی اور گیس کا مربوط زیر زمین انتظام اور عمارتوں کی پائیداری دیکھ کر اس قوم کے حکمرانوں اور ان کے معماروں کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا تھا۔
حالانکہ یہاں سال کے زیادہ تر حصّے میں شدید سردی، بارشیں اور برف باری ہوتی ہے۔ برف کی دبیز تہ عمارتوں، سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر جم جاتی ہے۔ مسلسل باد و باراں، برفباری، سورج مہینوں تک نظر نہ آتا ہو، تو بھی سڑکیں، فٹ پاتھ اور عوامی مقامات قابلِ استعمال ہوتے ہیں۔
اشیا اور خدمات دستیاب ہوتی ہیں۔ اس قوم  نے ان سخت موسموں کے ساتھ نہ صرف جینا سیکھ لیا ہے بلکہ اسے مسخّر کر  کے اپنا تابع کر لیا ہے۔ یہ موسم اُن کے کسی کام میں مخل نہیں ہوتے اور عوام تعلیم، صحت، رسل و رسائل کے قابلِ رشک انتظام کی وجہ سے نہ صرف خوشحال زندگی بسر کرتی بلکہ دُنیا کی سب سے زیادہ خوش و خرّم قوم بن کر بتا رہی ہے کہ جینا ہے تو ہماری طرح جیو۔
شمالی یورپ کے دیگر ممالک جیسے سویڈن، ناروے اور فن لینڈ میں بھی اسی نوعیّت کا موسم ہے ۔ڈنمارک کی طرح انہوں  نے بھی موسم کی شدت اور سختی کو اپنے حسن انتظام کے ذریعے فتح کیا ہوا ہے اور عوام کو موسم کی شدّت سے کوئی گزند نہیں پہنچنے دیتے۔
اب ذرا چشمِ تصوّر سے دیکھیں کہ اگر وطنِ عزیز پاکستان جیسے مُلک میں اتنا شدید موسم ہو، اتنی برفباری ہو تو کیا صورتِحال ہو گی؟ اگر سال کے چھے ماہ درجہ حرارت منفی سے نیچے اور دسمبر جنوری میں منفی چالیس سے بھی نیچے چلا جائے، گھر، گلیاں، سڑکیں، چھتیں، دفاتر، کھیت کھلیان، برف میں ڈھک جائیں، چھے چھے ماہ سورج کی شکل نظر نہ آ ئے تو لوگوں کا کیا حشر ہو گا۔
روزمرہ کی زندگی، رسل و رسائل، آمدورفت، کام کاج، علاج معالجہ، تعلیم، خور و نوش اور تعمیر و ترقی کی صورت حال کیا ہو گی؟ سب سے اہم بات یہ کہ ان گھروں اور ان سہولیات کے ساتھ اتنے سخت موسم میں کتنے لوگ جی پائیں گے اور کتنے اس کی بھینٹ چڑھ جائیں گے؟
اتنی غربت اور بے سر و سامانی میں تو موجودہ سردیوں میں بھی کتنے لوگ چل بستے ہیں۔ ایک سرما پر ہی کیا موقوف، ہمارے ہاں ایک بارش سے کراچی جیسا بین الاقوامی شہر پانی میں ڈوب جاتا ہے۔ سڑکیں ندیاں نالے بن جاتے، پانی گھروں میں گھس آتا ہے۔ دیہات زیر آب آ جاتے ہیں۔
اسی طرح گرمی سے بھی کتنے لوگ اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ برسات آتی ہے تو ہیضے اور دیگر وبائی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم سے تو ڈینگی، ملیریا پر ہی قابو نہیں پایا جاتا۔ اگر سات آٹھ ماہ اتنی شدید سردی، بارش اور برفباری ہو تو اس کے نتائج کا سوچ کر ہی وحشت ہوتی ہے۔
اسی دنیا کے ایک خطے میں اتنی اعلیٰ حکومتیں، اتنے بہترین انتظامات، اتنی خوشحالی اور اسی دنیا کے دوسرے خطے میں اتنی بدانتظامی، مفلسی، قلّتِ وسائل اور لوگوں کی کسمپرسی دیکھ کر دل خون کے آ نسو روتا ہے۔
اس مضمون کو انگریزی میں پڑھیں
https://shanurdu.com/in-the-mirror-of-past-and-present/

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles