پہاڑوں کی لڑکی۔۔کرشمہ علی
تحریر: ارم ناز
سر بہ فلک برف پوش پہاڑوں کی قدم بوسی کرتی سورج کی کرنیں جب میری کھڑکی کے کواڑوں پر دستک دیتیں تو فوراً میری آنکھ کھلی جاتی تھی اور میں کھڑکی کے بند کواڑ کھولے گھنٹوں فطرت کے حسین مناظر دیکھ کر مبہوت ہوتی رہتی تھی۔۔۔
صبح کی روشنی وادی کو سنہرے رنگ کی چادر اوڑھا دیتی تھا،
روئی کے گالوں کی مانند اڑتے بادل،
تا حد نگاہ پھیلے سرسبز پہاڑی میدان، درختوں کے بلند و بالا جھنڈ۔۔اپنے اندر کئی صدیوں کی کہانیاں سموئے ہوئے تھے۔
ہر سو پرندوں کی چہکار ،چشموں کا بہتا پانی،
پھولوں کی پنکھڑیوں پر شبنم کے قطرے وادی کی مسحور کن خوبصورتی کو بیان کر رہے ہوتے تھے۔
ایسےسحر انگیز مناظر ہمیشہ ایک خوشگوار صبح اور نئی امید کا احساس دلاتے تھے۔
آٹھ سال کی عمر میں پگڈنڈیوں پر چلتے،
بلند و بالا پہاڑوں کےدامن میں ہمیشہ سوچا کرتی تھی کہ ہمارے اطراف جوبہار کے نظارے ہیں،
ان میں خزاں کا لبادہ اوڑھے زرد سوچ کب تبدیل ہوگی؟
یہاں لڑکیوں کا ایک مختلف خواب دیکھنا یامعاشرے کی توقعات کے برعکس کچھ کرنا مشکل کیوں ہے؟
کچھ شعبوں کو خواہش ہونے پر بھی خواتین اپنا نہیں سکتیں،
عورتیں وہ کیوں نہیں کر سکتیں جو مرد کرتے ہیں؟
لڑکیوں میں بھی اتنی ہمت اور حوصلہ ہے کہ اگر ان کو اپنے خواب کی تکمیل کے لیے ایک موقع دیا جائے تو وہ خود کو منوا سکتی ہیں۔
یہ سوالات میرے اندر ہمیشہ کسی جوار بھاٹے کی مانند اٹھتے رہتے تھے۔
صد شکر کہ میرے والد کی سوچ مختلف ہے،
ورنہ یہ زنگ آلود خیالات میری حیات کو بھی کملا کے رکھ دیتے۔
ہمارے علاقے میں تو لڑکیوں کو اسکول تک نہیں بھیجا جاتا،
انسانی حقوق کی تنظیم کے مطابق پاکستان میں پانچ لاکھ پرائمری عمر کے بچے اسکول جاتے ہی نہیں ،
جن میںٓ ’’بیشتر لڑکیاں‘‘ہیں۔
یہ میرے والد کی اعلیٰ سوچ ہی ہے کہ انہوں نے مجھے میری والدہ یا بہن کو کبھی کسی کام سے نہیں روکا اور عام مردوں کے برعکس مجھے اعلی تعلیم دلوائی ،
ان کی ایما پر ہی میں نے بزنس مینجمنٹ میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔
میرے والد کھیلوں کے بہت شوقین ہیں۔
۲۰۰۶ءکے فیفا ورلڈ کپ میچز انہوں نے مجھے ساتھ بٹھا کر دکھائے۔ تب میرے اندر بھی فٹ بالر بننے کا جذبہ پیدا ہوا کہ
میں بھی ان کی طرح میدان میں اتروں ،کھیلوں اور دوسروں سے کچھ الگ کروں لیکن بڑی رکاوٹ ایک تو ہمارے علاقے کی روایات اور دوسرا میرا لڑکی ذات ہونا تھا،
مگر میرے والد اس شوق کے لیے علاقے کی روایات اور سوچ کے آگے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے اور مجھے اپنے خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھنے کا نادر موقع دیا
میں نے انہیں مایوس نہیں کیا۔
یہ ہیں پاکستان کے علاقے چترال سے تعلق رکھنے والی ’’کرشمہ علی‘‘ جن کا دل اپنے لوگوں کی محبت سے لبریز ہے
جو پہاڑوں کے ان باسیوں کی ترقی اور سوچ کو بدلنے کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔
ابتدائی حالات
۲۳ سالہ کرشمہ علی وادئ چترال کے خوبصورت سیاحتی علاقہ کریم آباد سے تعلق رکھتی ہیں،
جو سطح سمندر سے ۱۵۰۰ میٹر بلندی پر واقع ہے،
جہاں وائی فائی اور بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہونے کے باوجود ،وہ پہاڑوں کے ان باسیوں کی زندگی بدلنا چاہتی ہیں۔
ان کے لیےفٹ بالر بننا، خود کو منوانا اور وطنِ عزیز کی بین الاقوامی سطح پر نمائندگی کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ۔
کرشمہ علی کو بچپن سے ہی فٹ بال کھیلنے کا شوق تھا ۔
آٹھ سال کی عمرمیں وہ گھر سے فٹ بال کھیلنے کا آغاز کر چکی تھیں،
مزید برآں وہ اپنے اس شوق کی تسکین فیملی کے ساتھ پکنک پر جا کر کرتی تھیں،
جہاں وہ اپنے والد اور کزنز کے ساتھ فٹ بال کھیلتی تھیں
لیکن انہیں کبھی باقاعدہ طور پر ٹیم کے لیے کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا اور نہ چترال میں ایسی کوئی سہولت میسر تھی ۔
وقت نے یہ موقع تب فراہم کیا جب وہ اسلام آباداسکول گئیں،
تو ان کی فٹ بال میں دلچسپی اور سمجھ بوجھ کو دیکھتے ہوئے ایک ٹیم میں شامل کیا گیا۔
بین الاقوامی مقابلوں میں شمولیت
شب و روز محنت کے بعد ۱۵ سال کی عمر تک کرشمہ پروفیشنل فٹ بالر کے طور پر ٹرینڈ ہوچکی تھیں۔اب وہ اس قابل ہو گئی تھیں کہ کسی بڑے مقابلے میں شامل ہوں
لیکن کوئی نادر موقع میسر نہیں تھا۔
ان کے اس خواب نے حقیقت کا روپ اس وقت دھار جب ایک یادگار دن وہ پہلی بار بین الاقوامی مقابلے کے لیے منتخب ہوئیں لیکن یہ انتخاب پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے زیرِاہتمام نہیں بلکہ ’’جوبلی گیمز‘‘ کے لیے تھا ۔ ۲۰۱۶ء دبئی میں ’’جوبلی گیمز‘‘کا انعقاد کیا گیا،
جس میں اپنے فن کا لوہا منواتے ہوئےکرشمہ علی نے ’’چاندی کا تمغہ‘‘حاصل کیا۔
اس کے بعد ۲۰۱۷ء میں ہونے والے ’’آسٹریلین فٹ بال لیگ انٹرنیشنل کپ‘‘ میں شرکت کرنے والی پہلی پاکستانی خواتین فٹ بال ٹیم کا حصہ بھی تھیں۔
اس کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں’’ جب میں میدان یا پچ پر قدم رکھتی ہوں تو اپنی زندگی میں موجود تمام مسائل ، ہر چیز بھول جاتی ہوں،
توجہ ہوتی ہے تو صرف گیند پر،
اپنی ٹیم کے ساتھیوں اور میدان پر ،
باقی کچھ بھی ذہن میں نہیں رہتا۔ یہ خوشی کی ایک مختلف قسم ہے۔
واقعی میں اس کو بیان نہیں کر سکتی‘‘۔
خوفناک ردعمل
جوبلی گیمز سے پہلے تک چترال کے باسیوں کوخاص خبر نہیں تھی کہ کرشمہ قومی اور بین الاقوامی طور پر بھی فٹ بال کھیلتی ہیں،
کیونکہ ان کے والد نے کہا تھا کہ چترال کے لوگ آپ کے بارے میں معلومات نہ ہی رکھیں تو بہتر ہے۔
بنیادی وجہ وہاں کے لوگوں کی سوچ ہے۔
جب وہ اسلام آباد فٹ بال کھیلتی تھیں تو کچھ چترالی مردوں کو اس بارے معلوم ہوا تو ان کی جانب سے انہیں دھمکیاں دی گئیں،
یہاں تک کہا گیا کہ اگر انہوں نے یہ کھیل نہ چھوڑا تو واپس آنے پر یا
تو انہیں قتل کر دیا جائے گا یا پھر ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔
۲۰۱۶ء کے جوبلی کھیلوں نے جب ’’کرشمہ علی کو پہلی چترالی لڑکی جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر فٹ بال کھیلتی ہے‘‘
کے طور پر سراہا ،تب بھی اس ردعملمیں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔
اس وقت بھی سوشل میڈیا پر نفرت کا اظہار کیا گیا، برے برے تبصرے کیے گئے،
عین ممکن تھا کہ ۱۸ سال کی اس عمر میں وہ ڈر کر ہار مان جاتیں اور اپنے خواب سے دستبردار ہو جاتیں۔۔۔
لیکن ان حالات میں کرشمہ کے والدشجرِ سایہ دار کی طرح آگے بڑھے،
انہوں نے اپنی بیٹی کا حوصلہ بڑھایا اور لوگوں کی تنگ نظری کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کی ہمت بندھائی۔
اس لیے کرشمہ کہتی ہیں کہ
وہ آج جس بھی مقام پر ہیں صرف اور صرف اپنے والد اور گھروالوں کی وجہ سے ہیں۔
فٹ بال کلب کا قیام
مقابلوں میں شرکت کے بعد کرشمہ کو شدت سے احساس ہواکہ وہ اپنے علاقے کی خواتین کے لیے عملی طور پر کچھ کرے،
ان نوجوان لڑکیوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر بااختیار بنائے جو ہاوس وائف نہیں بلکہ اپنی محنت کے بل بوتے پر ان کی طرح کچھ خاص کرنا چاہتی ہیں۔
چترال جیسے دور افتادہ علاقے میں خواتین کی کھیلوں میں شمولیت عام نہیں تھی۔
کرشمہ کی خواہش تھی کہ چترال میں بھی خواتین کے لیے کوئی ادارہ یا کلب ہو
جہاں سے وہ تربیت حاصل کر کے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کریں۔
جس طرح انہیں دوسرے شہروں میں جا کر تربیت حاصل کرنی پڑی،
نئ آنے والی لڑکیوں کو ایسی مشکلات سے نہ گزرنا پڑے۔
اس مقصد کو مدِنظر رکھ کر اپنی مدد آپ کے تحت کرشمہ علی نے ۲۰۱۸ء چترال میں’’ چترال ویمن اسپورٹس کلب‘‘ کی بنیاد رکھی ،
جو چترال میں خواتین کا پہلا سپورٹس کلب ہے۔
جب کیمپ رجسٹریشن کا آغاز کیا گیا تو
کرشمہ کا خیال تھا کہ بیس تیس سے زیادہ لڑکیاں کلب میں نہیں آئیں گی ۔
پھر بھی انہوں نے تیس کے قریب فارم پرنٹ کروائے
لیکن ان کی حیرت کی اس وقت انتہا ہو گئی جب بہت زیادہ لڑکیاں رجسٹریشن کے لیے آگئیں اور وہ خود سے فارم فوٹو کاپی کروا کر جمع کروانے لگیں۔
تب کرشمہ کو احساس ہوا کہ یہاں کی لڑکیاں کچھ کر دکھانے کے لیے کتنی پر عزم ہیں۔
اب ان کے کلب میں ٹوٹل ۷۰ خواتین ہیں جن میں ۶۰ لڑکیاں ممبران ہیں جنہیں فٹ بال اور دیگر کھیلوں کی تربیت دی جاتی ہے۔
کرشمہ اپنے گاؤں میں ایک ٹورنمنٹ بھی منعقد کرواچکی ہیں،
جس میں شمولیت کے لیے لڑکیاں چار گھنٹے پیدل چل کر آتی تھیں، مقابلے کے بعد ان کو شیلڈ اور سندیں بھی دی گئیں۔
کووڈ ۱۹ وبائی مرض کے دوران یہ کلب بند کر دیا گیا تھا، تاکہ کسی قسم کی بے احتیاطی سنگین صورتحال سے دوچار نہ کر دے،
جسے اب صورتحال میں بہتری کے بعد پھر سے کھول دیا گیا ہے۔
کرشمہ کی کوشش ہےکہ وہ اسلام آباد اور دیگر شہروں میں فٹ بال کلب کی کھلاڑیوں کے ساتھ تربیتی کیمپ کا آغاز کریں تاکہ وہ چترال آ کر لڑکیوں کو فٹ بال کھیلنے کی تربیت دیں۔
اس طرح ان کو سیکھنے کے زیادہ بہتر مواقع میسر آئیں گے۔
کرشمہ کا کہنا ہے کہ’ ’اب سے دس سال بعد میں اپنے جیسی کم سے کم ۱۰ سے ۲۰ ایسی لڑکیوں کو دیکھنا چاہتی ہوں جو اپنے خوابوں کی تسخیر کے بعد واپس یہاں آ کر دوسروں کے لیے کام کریں گی‘‘۔
میلان فیشن ویک
ہر وقت اپنے علاقے کی خواتین کے لیے کوشاں رہنے والی اس پرعزم لڑکی نے چترال میں دستکاری سنٹر بھی قائم کیا۔
کرشمہ کا مقصد تھا کہ وہ خواتین جو اپنے گھر کے مالی معاملات میں تعاون کرنا چاہتی ہیں یا وہ جن کو کہیں باہر جا کر کام کرنے کی اجازت نہیں تھی،
وہ آسانی سے اپنے ہی علاقے میں رہتے ہوئے کام کر کے پیسے کما سکیں۔ چترال کی کڑھائی بہت مشہور اور منفرد ہے
لیکن یہاں رہ کر یہ کڑھائی اچھے داموں فروخت نہیں ہو سکتی تھی۔
اس مقصد کے حصول کے لیے کرشمہ علی نےیہاں کی کڑھائی کو میلان فیشن ویک میں متعارف کروایا۔
۲۰۱۹ء میں اطالوی ڈیزائنر اسٹیلا جین نے اقوامِ متحدہ کے اسٹریٹجک ترقیاتی اہداف کو فروغ دینے اور دیہی علاقوں کی خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے مختلف ممالک کا دورہ کیا
جن میں سے پاکستان ایک ہے۔پاکستان میں ، جین کی ملاقات کرشمہ علی سے ہوئی۔ یوں جین نے چترالی خواتین کے ساتھ مل کر ڈیزائن تیار کرنے کے لیے ، چترال اور کیلاش کے علاقے سے روایتی کڑھائی کا استعمال کیا۔
جین نے وادی کیلاش کا بھی سفر کیا ،
جہاں اس نے دستکاری سنٹر کی خواتین سے ملاقات کی۔سنٹر کی اڑتالیس خواتین نے ۴۰۰میٹر کڑھائی تیار کی ، جسے جین نے اپنی کپڑوں کی کلیکشن میں استعمال کیا۔
یوں کرشمہ علی اطالوی ڈیزائنر کے تعاون سے چترال کی کڑھائی کو دنیا بھر میں متعارف کروانے میں کامیاب ہوئیں اور شو میں انہوں نے جین کے ساتھ کیٹ واک بھی کی۔
اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، ان کا کہنا ہے کہ
’’ پہاڑوں کی ایک لڑکی کا میلان فیشن ویک میں شامل ہونا کسی خواب سے کم نہیں اور اس کے لیے وہ اسٹیلا جین کی تہہ دل سے مشکور ہیں‘‘۔
دستکاری سنٹر اور میلان فیشن ویک میں شامل ہونے کے سبب کرشمہ کی ملاقات گذشتہ سال برطانوی شہزادے پرنس ولیم اور شہزادی کیڈ میڈلٹن سے بھی ہوئی،
جنہوں نے اس نوجوان کھلاڑی کی کوششوں کو خوب سراہا۔
بین الاقوامی پزیرائی
سال ۲۰۱۹ء میں بین الاقوامی جریدے’’ فوربزتھرٹی انڈر تھرٹی‘‘ نے کرشمہ علی کو ایشیاء کی ٹاپ تھرٹی اسپورٹس اور انٹرٹینمنٹ کی انڈر تھرٹی شخصیات کی فہرست میں بھی شامل کیا۔
کرشمہ اپنے علاقے کی وہ پہلی لڑکی ہے جس نے قومی سطح کے مقابلوں کے بعد بین الاقوامی فٹبال مقابلوں میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی،
نیز انہوں نے چترال میں ویمن اسپورٹس کلب اور دستکاری سنٹر کی بنیاد بھی رکھی۔
اتنی کم عمری میں یہ گراں قدر خدمات فوربز میں شمولیت کا سبب بنیں ۔
کرشمہ اس اعزاز کو حاصل کرنے پر مسرور ہیں اور ان کا کہنا ہے
’’آہستہ آہستہ لوگوں کو یہ احساس ہو رہا کہ لڑکیوں کو معمولی سمجھے بغیر
ایک موقع فراہم کیا جائے ، تو نہ صرف وہ اپنا بلکہ ملک و قوم کا نام بھی روشن کرسکتی ہیں،
مزید برآں میں یہاں ایک ترقی پسند معاشرے کو ابھرتا ہوا دیکھ رہی ہوں
جہاں مرد اور خواتین یکساں طور پر کام کر یں گے ،
جہاں خواتین کو روایتی رسم و رواج کےدباؤ میں آئے بغیر
اپنی مرضی سے کام کرنے کی آزادی ہوگی۔
اس ساری تبدیلی کامیں بھی حصہ ہوں۔
میں قیادت کی پوزیشنوں پر زیادہ سے زیادہ خواتین کو دیکھنا چاہتی ہوں،
تاکہ پھر وہ بیٹھ کر اس سے لطف بھی اٹھائیں اور یہی چاہتی ہوں کہ اسی کے لیےوہ لڑیں‘‘۔
فلاحی خدمات
حالیہ کرونا وائرس لاک ڈاون کے دوران جب معمولات زندگی مفلوج ہو کر رہ گئے تھے
تو ایسے حالات میں اپنے لوگوں کا دکھ درد محسوس کرتے ہوئے، کرشمہ علی نے جانفشانی سے کام کیا۔
وہ کبھی اپنے والد اور کبھی چچا کے ساتھ گھنٹوں، اونچے نیچے اور پرپیچ پہاڑی علاقوں کا سفر کر کے مقامی اسپتالوں اور غریب دیہاتیوں کو ضروری سامان زندگی فراہم کرنے جاتی تھیں۔
ان تمام چیزوں کے لیے رقم انہوں نے سوشل میڈیا کےذریعے جمع کی تھی۔
اگست کے مہینے تک انہوں نے تین سو خاندانوں میں راشن تقسیم کیا
کیونکہ ان میں بہت سے افراد پاکستان کے مختلف شہروں میں دیہاڑی دار مزدور کے طور پر کام کرتے تھے ۔
جب کوویڈ ۱۹ کے سبب بہت ساری صنعتیں اور کاروبار بند ہوئے ،
تو انہیں واپس لوٹنا پڑا ،
جس کے نتیجے میں ان خاندانوں میں فاقوں کی نوبت آ گئی تھی
جن کی کرشمہ اور ان کے ساتھیوں نے مسلسل امداد کی اور
ضروری سامان کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے کوششیں کیں۔
مزید برآں ۱۵۵ این 95ماسک،
۵۳ عینکیں،
۲۵۰پی پی آئی سوٹ ،
۶۵۰ سرجیکل ماسک،
۴۰۰ سرجیکل دستانے اور
۷۶ فیس شیلڈز ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال کو عطیہ بھی کیں۔
کرشمہ علی جیسی نوجوان اور پرعزم خواتین اپنی خدمات کے باعث نہ صرف علاقائی
بلکہ حکومتی سطح پر بھی حوصلہ افزائی وتعریف کی حقدار ہیں
کیونکہ کسی خاتون کا دور دراز اور بنیادی سہولیات سے نابلد علاقے سے نکل کر اپنے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دینا اور
دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بننا باعثِ ستائش و توقیر ہے ۔
ان پر پوری قوم کو فخر ہے۔