22 C
Lahore
Saturday, April 27, 2024

Book Store

کالی دھوپ

افسانہ

کالی دھوپ

نیلم احمد بشیر

’’ہیلو بےبی! کیا نام ہے آپ کا؟‘‘
مونا نے نئی ملازمہ غلام فاطمہ کے ساتھ کھڑی، پلکیں جھپکاتی، ننھی سی لڑکی کو دیکھ کر پیار سے پاس بلایا اور ایک ٹافی آگے بڑھا دی۔ بچی آگے آنے کے بجائے ماں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرنے لگی۔
’’ارے لو نا۔‘‘ مونا نے بےتکلفی سے اصرار کیا اور اُس کی ماں سے پوچھا:
’’کیا نام ہے اِس کا؟‘‘
’’شریفاں۔ بس بی بی جی! ذرا شرماتی ہے۔ بڑے لوگوں سے۔‘‘ غلام فاطمہ نے بی بی کے ہاتھ سے ٹافی لے کر بیٹی کو تھما دی۔ خود زور زور سے زمین پہ ٹاکی لگا کر اُسے چمکانے لگی۔
مونا کو اُس روز کالج ذرا ٹھہر کے جانا تھا، اِس لیے دیر سے اُٹھی تھی۔ اَب گھر میں اِدھر اُدھر چل پھر کر معمولات کا جائزہ لے رہی تھی۔
مما صبح سویرے ہی اسکول روانہ ہو چکی تھیں۔ پرنسپل ہونے کی وجہ سے اُنھیں وقت کی پابندی کا بہت خیال رہتا تھا۔ اِس لیے صبح کے وقت اُن کا گھر میں نظر نہ آنا معمول کی بات تھی۔
مما گھر کے پرانے ملازم رمضان بابا کو کھانے، صفائی، سودا سلف کے بارے میں ضروری ہدایات دیتیں اور چلی جاتیں۔ بابا گھر کے انتظام کو اَپنی مرضی اور قابلیت سے اَحسن طور پر چلانے کے اہل تھے۔
’’شریفاں! بھلا یہ کیا نام ہوا؟ نہ نہ اِس پر بالکل بھی سُوٹ نہیں کرتا۔ کتنی پیاری بچی ہے تمہاری۔ آج سے اِس کا نام شیری ہے بس۔ ٹھیک شیری!‘‘
مونا نے ملازمہ کی چھے سات برس کی خوبصورت گُپلی گپلی بیٹی کا یک دم رُتبہ بلند کر دیا۔ غلام فاطمہ ڈھیٹوں کی طرح مسکرا دِی اور جلدی سے اپنی بٹیا کو قریب لا کر اپنی چادر سے اُس کا منہ صاف کرنے لگی۔
’’اِدھر آؤ شیری!‘‘ مونا نے شریفاں کو پاس بلایا۔ غلام فاطمہ نے اُسے چھوٹی مالکن کے قریب دھکیلنے کی کوشش کی۔
’’آؤ چلو ہم دونوں وڈیو گیم کھیلتے ہیں۔‘‘
مونا نے اُسے ٹی وی کے آگے سیٹ کر کے ہاتھ میں گیم کے مینوئل کنٹرولز تھما دیے اور اُسے گائیڈ کرنے لگی۔ غلام فاطمہ حیرانی اور خوشی سے بیگم صاحبہ کی اِس نرالی بیٹی کو دیکھنے لگی۔
بڑے لوگوں کی بیٹیاں ایسی نیک دل بھلا کہاں ہوتی ہیں۔ یہ چھوٹی باجی تو کوئی اللہ لوک ہی ہے جو میری شریفاں کو اِتنی محبت دے رہی ہے۔ اُس نے بےیقینی سے سوچا۔
اِس گھر کے پرانے ملازم رمضان بابا نے اُسے صفائی کی نوکری دلواتے ہوئے یہ تو نہیں بتایا تھا کہ اِس گھر میں ایک اتنی پاک روح بھی رہتی ہے جو اُس بن باپ کی بچی کو نہ صرف چھوٹی سی سہیلی سمجھے گی، بلکہ نام بدل کر اُس کا مقام بھی بلند کر دے گی۔
چند ہی ہفتوں بعد مونا کی مما بیگم شیرازی  نے محسوس کر لیا کہ اُن کی بیٹی نے غلام فاطمہ کی بیٹی کو کافی سر چڑھا رکھا ہے۔ ہر وقت اُسے شیری کہہ کر بلانا، ساتھ بیٹھ کر کلرنگ بُک میں رنگ بھروانا، نت نئی اِمپورٹڈ چاکلیٹیں کھلانا، میکڈونلڈ پر لے جانا۔ یہ سب فضول حرکات مونا کر رہی تھی۔
مما کی کوفت بڑھتی جا رہی تھی۔ نہ جانے اِس لڑکی کو کیا تھا؟ کیا مینوفیکچرنگ فالٹ گندھا تھا اُن کی بیٹی میں؟
کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ اُس کا بچپن سے یہی وتیرہ تھا۔ نوکروں، مالیوں، چوکیداروں کے بچوں سے گھل مل جانا۔ اُن کے گھروں میں گھس کر اُن کے ساتھ کھا پی لینا اور آ کر کہنا
’’اُن کے جیسا مزے کا کھانا ہمارے گھر کیوں نہیں پکتا؟‘‘
ارہر اور مسور کی دالیں، ہرے ہرے دھنیے کے بگھار، اُبلے ہوئے ٹوٹا چاول کے ننھے پہاڑوں جیسے ڈلے اور ڈھیر سارے بچوں کا اردگرد چھایا ہوا غول۔ سب کچھ کتنا مزے کا تھا۔
اپنے گھر کی بارہ کرسیوں والی بڑی سی شاندار کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے وہ اَور مما، اور کبھی کبھار نظر آنے والے پاپا، سُوپ، چکن روسٹ اور ہوم بیک بریڈ، سفید بےداغ نیپکن اور چمکتے ہوئے چھری کانٹے۔ یہ سب کچھ مونا کو بہت بورنگ، بےمزا اَور بےرنگ لگتا۔
وہ تینوں اپنی بڑی سی ڈائننگ ٹیبل پر خاموش بیٹھے کھانا کھاتے رہتے ۔ مونا سے اُس کی پڑھائی کے بارے میں سوال کرتے رہتے۔ کوئی مزے کا موضوع کبھی زیرِ بحث نہ آتا۔
پیٹ بھر کے کھا لینے کے باوجود مونا بھوکی، پیاسی اُٹھ کھڑی ہوتی اور چپکے سے کمرے میں پہنچ کر کھڑکی کا پردہ اُٹھا کر باہر کا نظارہ کرنے لگتی جہاں نوکروں کے گھروں سے طرح طرح کی آوازیں اور خوشبوئیں آ رہی ہوتیں۔
’’غلام فاطمہ! تم اِسے، یعنی شریفاں کو کسی کے پاس گھر چھوڑ آیا کرو۔ تمہارے کام میں حرج ہوتا ہے۔ دَیکھو نا یہ بےچاری بھی بس یونہی تمہارے پلو سے لٹکتی تمہارے پیچھے پیچھے پھرتی رہتی ہے۔‘‘
ایک دن بیگم شیرازی نے مونا کو اِردگرد نہ پا کر غلام فاطمہ سے اپنی دل کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ آج اُنھیں موقع مل گیا تھا کہ وہ اَپنی صفائی کرنے والی کو اِحساس دلا دیں کہ گھر کے ملازموں اور تنخواہ داروں سے تعلق کی ایک حد ہوتی ہے، جسے اُنھیں پار نہیں کرنا چاہیے۔
اُن کی بیٹی بےوقوف تھی جو کئی بار اَپنے اِس اعتماد کر لینے والی عادت سے نقصان بھی اٹھاتی تھی، مگر وہ بہتر سمجھتی تھیں کہ کیا کرنا اور کیا نہیں۔
’’اچھا بیگم صاحبہ! مَیں کوشش کروں گی اِسے ساتھ نہ لاؤں۔‘‘
غلام فاطمہ نے ادب سے جواب دیا اور رَمضان بابا کے ساتھ گھر کی جھاڑپونچھ میں مصروف ہو گئی۔ اُسے کوئی شوق نہیں تھا شریفاں کو ساتھ ساتھ چپکا کر رکھنے کا، مگر کیا کرتی؟ اُسے ساتھ رکھنا اُس کی مجبوری تھی۔
گھر پہ سوائے اُس کی بوڑھی ساس کے اور کوئی نہ تھا۔
شوہر شریفاں کے پیدا ہوتے ہی ہیروئن کی لت کی وجہ سے گھربار چھوڑ کر کہیں غائب ہو چکا تھا ۔ اَب شریفاں ہی اُس کی کل کائنات تھی۔ ساس آنکھوں سے تقریباً اندھی اور کانوں سے بہری ہو چکی تھی، مگر کم از کم گھر میں اُس کا جیتا جاگتا وجود تھا تو سہی۔
اب غلام فاطمہ شریفاں کو کبھی کبھار گھر پر دادی کے پاس چھوڑ کر تو آنے لگی تھی، مگر اُس کا دھیان ہر دم پیچھے ہی لگا رہتا۔
مونا نے دو تین بار شیری کے بارے میں پوچھا، تو غلام فاطمہ نے ڈھکے چھپے لفظوں میں اُسے بتا دیا کہ بیگم صاحبہ کی مرضی ہے کہ وہ اُسے ساتھ نہ لایا کرے۔
مونا کو اِس بات کا شک تو پہلے سے تھا، اب یقین ہو گیا کہ مما بہت پتھر دل ہیں۔
جذبات و اِحساسات سے کوری ایک کولڈ اور کیلکولیٹنگ عورت۔ پتا نہیں کیوں شاید اسکول پرنسپل ہونے کی وجہ سے اُن کی طبیعت اتنی منجمد ہو گئی تھی۔ سارا اسکول اُن سے ڈرتا تھا، کیونکہ وہ نظم و ضبط کی بہت سختی سے قائل تھیں۔
اونچی لمبی، گوری چٹی، صحت مند جُثے والی چالیس، پینتالیس برس کی بیگم شیرازی کاٹن کی کلف لگی، استری شدہ ساڑی میں ملبوس اسکول میں راؤنڈ لگاتی بہت پُروقار لگتی تھیں۔
لوگ اُن کی شخصیت سے متاثر ہو کر اُن کی طرف بےساختہ دیکھنے لگتے، مگر پھر کچھ دیر بعد سنبھل جاتے کہ بیگم شیرازی کی سرد لہجے میں ڈانٹ ڈپٹ سننے کا کسی میں حوصلہ تھا نہ تاب۔ وہ اَپنی انگلی کے ایک اشارے سے ہی اپنی بات سمجھانے کی عادی تھیں۔
فالتو باتیں کرنے کا اُنھیں کوئی شوق نہیں تھا۔ وہ اگر کسی کلاس روم کے آگے سے گزر جاتیں، تو بچوں کو سانپ سونگھ جاتا۔ لان میں سے ہو کر دفتر کو جاتیں، تو پھول پتے سانس روک لیتے۔
اسٹاف روم کی طرف آن نکلتیں، تو اساتذہ کی گپیں اور قہقہے گلے میں گھٹ کر رہ جاتے۔
نوکر طبقہ سکول کی صفائی ستھرائی میں مستعدی سے جُت جاتا اور اسکول کی عمارت مضبوطی سے قدم جمائے اُن کی طرف اطمینان سے کھڑی دیکھتی رہتی کہ اُن جیسی فرض شناس، قابل، اپنے کام کے لیے پُرعزم پرنسپل کے ہوتے ہوئے اسکول کو کسی قسم کی پریشانی لاحق نہ ہو سکتی تھی۔
سب کو ہی پتا تھا کہ بیگم شیرازی کی بیٹی مونا کی طبیعت اُن سے بالکل الٹ تھی۔ شاید وہ اَپنے والد پر گئی ہو، لیکن شیرازی صاحب کو کبھی کسی نے کوئی خاص قریب سے دیکھا نہیں تھا۔
خاموش طبع سے، خوبصورت نظر آنے والے شیرازی صاحب کبھی کبھار اَپنی اہلیہ کو لینے اسکول آتے، تو گیٹ کے باہر سے ہی چوکیدار کو کہلوا دَیتے۔ خود گاڑی میں بیٹھے رہتے، یوں جیسے اُنھیں بیگم شیرازی کے اسکول، کام یا زندگی سے دور دُور کا بھی واسطہ نہ ہو۔
مونا کو اَپنے پیارے پاپا پہ کبھی کبھی بہت ترس آتا۔ وہ اَپنے بڑے سے کلونیل اسٹائل مکان میں کسی خاموش فلم کے کردار کی طرح ڈریسنگ گاؤن پہنے، پائپ ہونٹوں سے لگائے ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک یوں دبے قدموں گزرتے نظر آتے جیسے خواب میں چل رہے ہوں۔
وہ اُنھیں کبھی لائبریری میں گھسے ہارڈ باؤنڈ کلاسیکس کھنگالتے یا پرانے گانے سنتی دیکھتی، تو اُسے لگتا پاپا بہت تنہا ہیں۔ اُن کے کوئی خاص دوست بھی نہیں تھے جو اُنھیں کمپنی دیتے یا اُن کے ساتھ باہر چلے جاتے۔
پاپا کے سبھی دوست دوسرے ملکوں میں رہتے تھے جن کے فون اکثر آتے رہتے۔ مما کے پاس اُن کے لیے شاید نہ وقت تھا اور نہ ہی کوئی خواہش یا جذبہ۔
وہ اُنھیں بس ضروری بات کے لیے ہی مخاطب کرتیں اور برفیلی نظروں سے دیکھتی رہتیں۔ مما کا اُنھیں ’’سر‘‘ کہہ کر بلانا بھی مونا کو عجیب لگتا، مگر سوچتی شاید مما اُن کی اتنی عزت کرتی ہیں کہ اُنھیں نام تک سے نہیں بلا سکتیں۔
مما اور پاپا اپنی اپنی دنیاؤں میں دو اَجنبی سیاروں کی طرح گول گول چکر کاٹتے اپنے اپنے مداروں میں زندگی بسر کر رہے تھے۔
مونا کو یاد آتا، اُس کے بچپن میں ایک ایسا دور بھی تھا جب مما اور پاپا پیار کے پنچھیوں کی طرح آپس میں ہر وقت چپکے اکٹھے نظر آتے تھے۔ اُس وقت اِس بڑے سے مکان میں خوشیاں اور قہقہے گونجتے اور دَر و دِیوار، زندگی سے دھڑکتے تھے۔ زندگی ایک مسلسل لمبی پکنک کی طرح محض موج میلہ ہوا کرتی تھی۔
پھر پتا نہیں کیا ہوا، وقت ظالم ہو گیا۔ مما اور پاپا ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔
شاید کیرئیر، شخصیات، مصروفیات سبھی کا اثر تھا یا شاید محبتیں یونہی مر جایا کرتی ہیں۔ مونا کو کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔
ایک گھر میں رہتے کبھی ایک دوسرے کے سامنے آ جاتے، تو یوں جیسے گہرے نیلے سمندر میں گہری رات کو دو بحری جہاز پاس سے گزرتے، ایک دوسرے کو راستہ دینے کے لیے اخلاقاً پیچھے ہٹ جائیں اور اَپنے چپو اِحتراماً نیچے گرا دیں۔
مونا کو لگتا، گھر شاید ایسے ہی ہوتے اور ماں باپ اِسی طور سے ساتھ رہا کرتے ہیں۔
بس گھر کے معمولات کو کسی طور پر چلنا ہوتا ہے، سو وہ چلتے رہتے ہیں اور زندگی بسر ہوتی رہتی ہے۔
پاپا اپنے کاروباری دوروں پر اکثر ملک سے باہر جاتے رہتے تھے۔ کبھی مہینہ، پندرہ دِن گزار کر آ جاتے اور کبھی اُس سے بھی زیادہ۔
مونا اُن کے انتظار میں دن گنتی رہتی، کیونکہ اُن کے گھر میں ہونے سے اُسے ایک تسلی سی رہتی۔ اُن کے پائپ کی مخصوص خوشبو کمرے میں پھیلنے لگتی، تو پتا چل جاتا کہ پاپا آ رہے ہیں۔
مونا کا دل باغ باغ ہو جاتا کہ پاپا اُس سے بہت پیار کرتے تھے۔
باہر سے لَوٹتے، تو مما اور مونا کے لیے طرح طرح کی مہنگی مہنگی کریمیں، لوشن، پرفیوم، جیولری لاتے۔ کئی دن تک گھر میں جیسے نمائش سی لگی رہتی۔
ماڈل ٹاؤن کے اِس بڑے سے پرانے، انگریزوں کے زمانے کے بنے ہوئے خوبصورت اونچی اونچی چھتوں والے مکان میں مونا کے دم سے ہی رونق تھی۔
وہ گھر ہوتی، تو در و دِیوار زندگی کی جھنکار سے گونج اٹھتے۔ وہ اِدھر سے اُدھر دوڑتی بھاگتی، کبھی پاپا سے لاڈ پیار اَور مباحثہ کرتی، کبھی مما کو اَپنی کالج کی دلچسپ باتیں اور چٹکلے سنا کر مسکرانے پر مجبور کر دیتی۔ کبھی رمضان بابا کے ساتھ باورچی خانے میں گھس کر چھیڑ خانی کرتی نظر آتی۔
جب سے غلام فاطمہ کی پیاری سی بیٹی شریفاں عرف شیری نے اِس گھر میں آنا جانا شروع کیا تھا، ایک نئی دلچسپی مونا کے ہاتھ آن لگی تھی۔
اب شیری اُس کا کھلونا، اُس کی ننھی سی بہن تھی جس کی وجہ سے وہ بھی خوب چہکتی تھی۔ کبھی اُس کا منہ دھلا کر صاف کپڑے پہنا کر اُسے کنگھی کر رہی ہے، تو کبھی انگلش قاعدے سے A B C پڑھا رہی ہے۔
کبھی اُسے کھلونے خرید کر دے رہی ہے، تو کبھی اپنے ساتھ میز پر بٹھا کر کھانا کھلا اور تمیز طریقہ سکھا رہی ہے۔
غلام فاطمہ حیرت سے یہ سب دیکھتی اور اَپنی بٹیا کے مقدروں پر رشک کرتی جسے ایسی پیاری باجی ملی تھی جو اُس کی بیٹی کو اَپنی سطح پر لے آئی تھی . اِنسانوں میں فرق نہیں کرتی تھی۔
’’شیری come to me‘‘ مونا نے اتنی انگریزی شیری کو سکھا دی تھی کہ وہ باجی کی بات سمجھ کر اُس کے پاس دوڑی چلی آتی۔
غلام فاطمہ کے دل میں ہوک سی اٹھتی۔ کاش میری شریفاں کے مقدر وَاقعی ایسے ہوتے کہ وہ انگریزی سکول میں پڑھ رہی ہوتی اور یونہی گٹ پٹ کرنے کے قابل ہوتی۔
’’تم اُس بچی کے ساتھ اچھا نہیں کر رہی ہو۔ اُس میں نفسیاتی تضادات پیدا کر رہی ہو بےبی۔ تمہارا کیا خیال ہے، اِس گھر میں یوں رہنے کے بعد کیا یہ بڑی ہو کر اَپنی غربت اور جہالت کی زندگی میں آسانی سے ایڈجسٹ ہو سکے گی؟‘‘
ایک روز بیگم شیرازی نے مونا کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’دیکھو بیٹا! اِن لوگوں کا کیا ہے، آج یہاں کام کیا، کل کہیں اور پھر جب اُس بےچاری بچی کو اگلے کسی گھر میں تم جیسی باولی باجی نہیں ملے گی، تو اُس کے دل پہ کیا گزرے گی؟
کیا تم اُس کی ذہنی حالت کی ذمےداری لے سکو گی، یہ سب سوچا ہے تم نے؟‘‘
’’مگر مما! مَیں تو ایک ایسے بچے کو زندگی کی بہتر نعمتوں سے متعارف کروا رَہی ہوں جسے ہمارے معاشرے کی طبقاتی کشمکش کیڑے مکوڑوں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
کچھ عرصے کے لیے ہی سہی، لیکن کم از کم مَیں نے ایک ایسے ہی بدقسمت بچے کی اندھیری زندگی کو اُجلی کرنوں سے منور کرنے کی اور اُس کے حالات کو بدلنے کی کوشش تو کی ہے۔
مجھے یہ احساسِ جرم تو نہیں ہو گا کہ ایک بچی میرے سامنے آئی، تاریکی کے پردے میں کھڑی رہی اور مَیں نے سلسلوں کو ویسے کا ویسا رہنے دیا۔ اُسے اجالے میں لانے کی کوشش ہی نہ کی۔‘‘
مونا نے اپنی منطق دے کر ماں کو لاجواب کر دیا ۔ بیگم شیرازی کو یقین ہو گیا کہ اُن کی بیٹی اور وُہ کبھی ہم خیال نہیں ہو سکتیں۔ زمین آسمان کا فرق تھا اُن دونوں کی سوچ میں۔
مونا نے محسوس کیا تھا کہ مما کی نسبت پاپا کا رویّہ شیری سے کافی پُراخلاق تھا۔ کبھی کبھار وُہ شیری کو ہیلو ہائے بھی کر لیتے تھے۔
ایک دو بار اُنھوں نے غلام فاطمہ کو شیری پر خرچنے کے لیے اپنے پاس سے کچھ پیسے دیے، تو مونا کو اُن پر بہت پیار آیا۔
اُسے فخر محسوس ہوا کہ اُس کا باپ اتنا فرشتہ صفت ہے۔ اُسے غریبوں اور محروموں کی مشکلات کا احساس رہتا ہے۔
غلام فاطمہ نے بڑی بیگم صاحبہ کی مرضی کے مطابق شریفاں کو کبھی کبھار گھر پہ دادی کے حوالے کرنا شروع کر دیا تھا۔ اِن دنوں ویسے بھی چھوٹی بی بی صبح کو گھر ہوتی نہیں تھی۔
کسی کام سے جلدی کالج چلی جایا کرتی تھی۔ پھر یہ کہ غلام فاطمہ اتنی اچھی بڑی بیگم صاحبہ کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
غریبوں کی بستی کے چھوٹے سے جھونپڑے نما گھر میں یوں تو کچھ بھی خاص قیمتی نہ تھا، مگر غلام فاطمہ اپنی ننھی سی سونے کی ڈلی کو گھر چھوڑتے وقت امّاں کو اَچھی طرح اُس کا اور گھر کا خیال رکھنے کی نصیحت کرنا نہ بھولتی تھی۔
دادی، بہو کے واپس آنے تک اپنے طور پر گھر اور بچی کا خیال رکھنے کی پوری پوری کوشش کرتی اور چاہتی کہ گھر کا کچھ کام کاج بھی کر لے، مگر بڑھاپے نے اُسے بےکار اور بےزار کر رکھا تھا۔
زیادہ اُٹھ بیٹھ نہ سکتی تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہانپنے لگتی۔
ننھی شریفاں خود ہی گھر میں اِدھر اُدھر کھیلتی رہتی اور کھڑکی میں کھڑی ہو کر ماں کا انتظار کرتی۔
کبھی کبھار ہمسائیوں میں سے کوئی گزرتا، تو شریفاں کو دیکھ کر پل بھر کو کھڑکی میں رک جاتا ۔
اُس سے گھڑی دو گھڑی کو باتیں کرنے لگ جاتا، تو شریفاں بہل جاتی۔
ایک دو دِنوں سے دادی نے دیکھا تھا کہ ایک پندرہ سولہ برس کا لڑکا کھڑکی میں سے گزرتے شریفاں کو ٹافی یا کھانے کی اور کوئی چیز تھما دیتا تھا جسے وہ خوشی خوشی تھام لیتی۔
بچی کو مسکراتا دیکھ کر دادی خوش ہو جاتی کہ بچی کا دل بہلا ہوا ہے۔
زور زور سے ہاتھ کا پنکھا جھل کر اپنے گرد منڈلانے والی مکھیاں اڑانے لگتی۔
ایک روز غلام فاطمہ کے کام پر جانے کے بعد دادی نے ڈولتے ہاتھوں سے اپنے سر میں تیل لگایا اور پل بھر کو آنکھیں بند کر کے لیٹ گئی۔
شریفاں پاس ہی بیٹھی زمین پر رکھی دیگچی میں سے چاول کھا رہی تھی، دادی مطمئن ہو کر اُونگھنے لگی۔
دادی کو گہری نیند سے ہڑبڑا کر اُٹھنے میں کچھ وقت لگا۔ اُسے ایک لمحے کے لیے تو سمجھ میں نہیں آیا کہ ہوا کیا ہے۔
ننھی پوتی زمین کے بجائے بستر پر پڑی تھی اور اُس کے اوپر ایک ہیولہ جھکا ہوا تھا۔ شریفاں کے گلے سے ایسی آوازیں آ رہی تھیں جیسے کوئی اُس کے گلے پر چھری پھیر رہا ہو۔ دادی نے اپنی اندھی آنکھوں کو کوستے ہوئے اِدھر اُدھر ہاتھ مارنے شروع کر دیے۔
اُس کی چھٹی حِس بتا رہی تھی کہ بچی کسی بہت بڑے نقصان سے دوچار ہو چکی ہے۔ پنکھے کی ڈنڈی سے ہیولے کو پیٹتے ہوئے دادی کے منہ سے ایسی دلدوز چیخیں نکلیں کہ ہیولے نے گھبرا کر ایک چھلانگ لگائی اور کھلے دروازے میں سے باہر بھاگ گیا۔
دادی نے شور مچا مچا کر سارا محلہ سر پر اٹھا لیا۔ لوگ ننھے پھول کو یوں بےدردی سے مسلا ہوا دَیکھ کر سُن رہ گئے۔
کسی نے بھاگ کر غلام فاطمہ کو فون کروا دِیا جو اُس وقت مونا بی بی سے شیری کو کئی دن سے ساتھ نہ لانے پر ہلکی ہلکی ڈانٹ کھا کر زیرِلب مسکرا رہی تھی۔
فاطمہ نے گھر پر نمبر تو چھوڑا ہوا تھا، مگر کسی نے کبھی اُسے فون نہ کیا تھا۔ بات کو یقین اور بےیقینی کے عالم میں سن کر اَور نہ سمجھتے ہوئے بھی اُسے کچھ سمجھ آ ہی گئی تھی۔
غلام فاطمہ نے سینے پہ دوہتڑ مار کر چیخنا، چلّانا شروع کر دیا اور مونا بی بی کو وہ سب بتا دیا جو اُس نے فون پہ سنا تھا۔
’’یا میرے اللہ! اتنا ظلم، چلو جلدی میرے ساتھ، مَیں تمہیں گھر لے چلتی ہوں۔‘‘
مونا نے جلدی سے اپنی گاڑی نکالی اور رَوتی ہوئی، دہائی دیتی ماں کو اُس میں بٹھا کر اُس کی بستی جا پہنچی۔ گھر کے باہر لوگوں کا ہجوم تھا جو غلام فاطمہ کے ساتھ آنے والی میڈم کو اَپنی زبانی رپورٹ دینے کے لیے بےتاب نظر آ رہے تھے۔
مونا نے شیری کو گود میں لینا چاہا، مگر ننھی تتلی کے نازک نچے ہوئے پَر اور جسم کے چیتھڑے دیکھ کر وہ سہم گئی اور آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔ اُسے یقین نہیں آ رہا تھا کیا کوئی اتنا ظلم بھی کر سکتا ہے۔
مونا نے ماں بچی کو گاڑی میں ڈالا اور اَسپتال جا پہنچی۔ ڈاکٹروں کی پوری ٹیم حرکت میں آ گئی اور پریس والے ’’چائلڈ ریپ‘‘ کیس پہ اپنی رپورٹیں تیار کرنے پہنچ گئے۔
خواتین کی تنظیموں کی ارکان نے بھی آ کر اپنی حمایت کا اعلان کیا اور اِس کیس کے مجرم کو سخت سے سخت سزا دِلوانے کے مطالبے کرنے شروع کر دیے۔ چاروں طرف ایک شور مچ گیا۔
بیگم شیرازی کو پتہ چلا، تو وہ گھبرا گئیں۔ اُن کی جوان، غیرشادی شدہ بیٹی کا اِس قسم کے واقعے میں ذاتی طور پہ ملوث ہونا، پریس کو بیان دینا، بچی کو اُٹھائے اٹھائے اسپتال جا پہنچنا۔
یہ سب اُن کے خاندان، اسکول کی شہرت کے لیے کتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔ کل کو اِس لڑکی کی کہیں شادی بھی ہونا تھی۔ بڑی ناسمجھ تھی اُن کی بیٹی۔ وہ دِل ہی دل میں کڑھنے لگیں۔
مونا گھر پہنچی، تو مما نے اُس کے خوب لتے لیے۔
’’کیا ضرورت تھی تمہیں اِس معاملے میں اتنا آگے بڑھ جانے کی؟ تمہیں اپنی ماں، باپ، خاندان کی عزت کا کیا کوئی خیال نہیں آیا؟ لوگ سو طرح کی باتیں بنائیں گے۔ کبھی تو عقل سے کام لیا کرو مونا۔‘‘
’’مما! آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں۔ اُس ننھی معصوم جان کے ساتھ اتنا ظلم ہوا ہے، آپ کو احساس ہے اِس بات کا؟ میرا ضمیر یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ ایسے وقت میں جب اُن ماں بیٹی کو ہماری ضرورت ہو، تو ہم اُنھیں اِس Big bad worldمیں تنہا چھوڑ دیں۔ سوری مما! میری سمجھ بُوجھ مجھے اِس چیز کی اجازت نہیں دیتی۔‘‘
مونا بھی اپنے موقف پر ڈٹی رہی۔
’’دنیا میں ازل سے ظلم ہوتا چلا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ یہ کوئی مثالی دنیا نہیں ہے جس میں ہم تم سانس لے رہے ہیں۔ ہم کس کس کے دکھ دور کر سکتے ہیں آخر۔‘‘ مما نے اُسے ڈانٹ کر جواب دیا۔
’’مَیں اُس درندے، اُس جانور کا پتا لگا کر اُسے اپنے کیے کی سزا دِلوا کر رہوں گی، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔
گھٹیا جاہل، گندے لوگ، ایک معصوم بچی کی زندگی کو تار تار کر کے رکھ دیا۔
اُنھیں اللہ کا خوف نہیں آتا؟ توبہ اِس طبقے میں اکنامک فرسٹریشن اور جہالت اتنی ہے کہ اُنھیں زندگی ڈھنگ سے گزارنے کی تمیز ہی نہیں رہی۔‘‘
مونا کو اَپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے مناسب الفاظ نہیں سُوجھ رہے تھے۔
’’اِس رویّے کا طبقے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا مونا، میری بچی۔ یہ مرد کا عورت کو قابلِ تصرف، ڈسپوزایبل شے سمجھنے کے تصوّر کا نتیجہ ہے اور بس۔
میری جان، اِس حقیقت کو جان لو کہ عورت کو انسان نہیں ایک چیز سمجھنے کی روایت صدیوں سے دنیا کے معاشروں میں موجود ہے۔
جب تک مرد، عورت کو اِس سے کچھ مختلف نہیں سمجھے گا، یہ ظلم ہوتے ہی رہیں گے۔ بس اب تم اسپتال نہیں جاؤ گی، سمجھیں؟‘‘
مما نے پیار سے سمجھاتے سمجھاتے مونا کو پھر ڈانٹ پلانی شروع کر دی۔
’’کیا ہو رہا ہے بھئی؟ مونا بےبی تم پریشان لگتی ہو؟‘‘
پاپا بھی شاید ماں بیٹی کو اُونچی آوازوں میں بحث کرتے سن کر اپنی لائبریری سے نکل آئے تھے۔ ’’کیا مسئلہ ہے؟‘‘ اُنھوں نے بیگم کو مخاطب کیا۔
’’اپنی بیٹی سے ہی پوچھ لیں۔‘‘ مما نے ٹکا سا جواب دیا اور خود پیر پٹختی کمرے سے باہر نکل گئیں۔
مونا باقاعدگی سے جم جا کر ورزش کرنے والے، اونچے لمبے، خوبصورت شخصیت والے گریس فُل پاپا کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنے لگی۔
نفیس طبع، سلجھے ہوئے آدمی تھے۔ کتنا ٹھہراؤ تھا اُن کی طبیعت میں۔
کتنا احساسِ تحفظ ملتا تھا اُن کے آس پاس ہونے سے یوں جیسے کڑکتی دھوپ میں چلتے چلتے کوئی چھتری سر پہ تن جائے اور جسم کو بھسم ہو جانے سے بچا لے۔
شیری کو تو باپ کا سایہ ہی نہیں ملا۔ اُسے کیا پتہ تحفظ کا اِحساس کیا ہوتا ہے۔
مما واپس کمرے میں آ گئیں۔
’’ایک جانور نے شیری جیسے اجلے معصوم فرشتے کو روند ڈالا ہے۔ مما مَیں ایسے ظلم کو سمجھ نہیں سکتی۔ مَیں آج کی نسل ہوں، مَیں ظلم سہنے کی روایت کے خلاف بغاوت کرتی ہوں۔
مجھے کوئی روکنے کی کوشش نہ کرے مگر بتائیں مما ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘‘ مونا رو کر پوچھنے لگی۔
’’کیونکہ اِس دنیا میں اجلے فرشتوں کے ساتھ کالے فرشتے بھی سانس لیتے ہیں، ابلیس ہر جگہ آن دھمکتا ہے کہ اُس کی رگوں میں ہر دم منفی توانائی دوڑتی ہے۔ وہ تو اَللہ سے بھی ٹکر لے سکتا ہے ۔ ہے نا شیرازی صاحب؟‘‘
مما نے پاپا سے سوال کر کے اُنھیں اُلجھا دیا اور خود دَبے قدموں کمرے سے باہر جا کر لان میں ٹہلنے لگیں۔
کاش وہ اَپنی معصوم بیٹی کو سمجھا سکتیں کہ دنیا انصاف سے خالی ہوتی ہے۔
بلائیں معصومیت کو نگل جاتی ہیں اور سیاہ رَات دِن کی پاکیزگی پہ غلبہ پا لیتی ہے۔ مگر مونا کو سمجھانا آسان نہیں تھا۔
پاپا خاموش بیٹھے پائپ پیتے رہے۔ یہ تو اُنھوں نے نوٹ کیا تھا کہ مونا ملازمہ کی بیٹی کے ساتھ غیرمعمولی پیار کرتی ہے، مگر حالات و وَاقعات اِس طرح کا رُخ اختیار کر لیں گے، یہ اُنھیں بھی اندازہ نہیں تھا۔
وہ مونا کو ہر دُکھ سے کیسے بچا سکتے تھے۔ مونا اُن کی جان، اُن کی زندگی تھی، مگر اُس کا دل چکنا چُور ہو چکا تھا اور وُہ بےبس تھے۔
مما کا سوال سن کر پاپا کے چہرے کا رنگ یکسر بدل گیا، مگر چند لمحوں میں اُنھوں نے اپنے حواس کو مجتمع کیا اور مونا کو پیار سے پچکارنے لگے۔
’’میری بچی! تُو اِتنی حساس ہے، تیرا کیا ہو گا، مجھے تو یہی فکر کھائے جا رہی ہے۔
اچھا چلو ایسا کرتے ہیں کہ اِس ساری بات کو بھول کر ہم دونوں باپ بیٹی باہر چلتے ہیں۔
کھانے کے بعد آئس کریم اور پھر گھر آ کر کوئی اچھی سی مزاحیہ فلم دیکھتے ہیں۔ ٹھیک؟‘‘
’’پاپا! میرا اِس قسم کا کوئی موڈ نہیں ہے۔ مَیں بہت پریشان ہوں۔‘‘ مونا نے حیرت سے پاپا کو دیکھا جو اِس وقت اچھے موڈ کے پروگرام بنا رہے تھے۔
ننھی شریفاں کے پرزے پرزے ہو جانے کا اِن ماں باپ کو کوئی احساس کیوں نہیں ہو رہا تھا۔ یہ یقیناً طبقاتی فرق کی وجہ تھی۔
اگر اعلیٰ طبقے کی کسی بچی کے ساتھ یہ ہوا ہوتا، تو اِن لوگوں کے کلیجے پر بھی ہاتھ پڑتا۔ مگر پاپا تو اتنا طبقاتی فرق رکھنے والے نہیں تھے، پھر بھی وہ میرے احساسات کو سمجھ نہیں پا رہے تھے۔
مونا کو تھوڑا سا افسوس ہونے لگا۔
مونا کی زندگی میں اتنا سنگین واقعہ ہو چکا تھا، مگر مما اور پاپا کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔
دونوں حسبِ معمول اپنی روٹین کے مطابق زندگی گزارے چلے جا رہے تھے۔ آنے والے دنوں میں پاپا ذرا زیادہ ہی خوش مزاج نظر آنے لگے۔
اکثر مونا کا دل بہلانے کے لیے اِدھر اُدھر کی گپیں ہانکتے، اُسے باہر لے جاتے اور اِس مخصوص موضوع پر بات کرنے سے مونا کو باز رکھنے کی کوشش کرتے نظر آتے۔
مونا نے اسپتال جا کر شیری کو دیکھنا نہ چھوڑا۔ وہ ننھے فرشتے کو ٹافیاں، برگر، غبارے دے کر ڈاکٹروں سے اُس کے بارے میں صلاح مشورے کرتی، تو غلام فاطمہ کے دل سے اُس کے لیے دعائیں نکلنے لگتیں۔
ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے بچی جسمانی کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر بھی شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار رَہے گی۔
اب مونا کو بھی احساس ہونے لگا تھا کہ وہ تمام زندگی اِس بچی کی خیروعافیت کی ذمےداری نہیں لے سکے گی۔
نہ جانے کیسے طے کرے گی، وہ زندگی کا کٹھن سفر، وہ دِن رات یہی سوچتی رہتی۔
آٹھ دس دن بعد غلام فاطمہ کام پر واپس آ گئی کہ کام بنا تنخواہ نہیں ملتی اور تنخواہ کے بغیر زندگی نہ گزرتی تھی۔ اُس صبح اتفاق سے مونا گھر پر ہی تھی۔
ایک ضروری کالج اسائن منٹ پہ کام کرنے کے لیے کچھ ہی دیر میں اُسے لائبریری جانا تھا جس کے لیے وہ تیار ہو رہی تھی۔
غلام فاطمہ کو دیکھتے ہی اُس نے سب سے پہلا سوال اُس کی بیٹی کے بارے میں کیا
’’کہاں ہے شیری اور تم اُسے کس کے پاس چھوڑ کر آئی ہو؟‘‘
غلام فاطمہ نے بتایا کہ اُس کی بہن گاؤں سے آ گئی ہے اور بچی کی تیمارداری کے لیے کچھ عرصے تک اُس کے گھر ٹھہری رہے گی۔
شریفاں ابھی تک خوف سے چیخیں مارتی اور سانس روک لیتی تھی۔ مونا کچھ مطمئن سی ہو گئی اور غلام فاطمہ صفائی کرتے کرتے دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
مما نے اُس روز سکول میں ہونے والی تقریب کی وجہ سے کچھ دیر سے جانا تھا، اِس لیے اُن کی بھی غلام فاطمہ سے ملاقات ہو گئی۔
مما نے سرسری انداز میں شریفاں کی طبیعت پوچھی اور پھر دھیمی آواز میں کہنے لگیں:
’’غلام فاطمہ! میری بات دھیان سے سنو۔
اب آئندہ تم اپنی بیٹی کو اِس گھر میں دوبارہ کبھی نہیں لاؤ گی۔‘‘
’’جی بی بی جی، بیگم صاحبہ۔ وہ ؟‘‘
غلام فاطمہ کی سوالیہ آنکھوں میں حیرت اور تاسف کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔
’’بیگم صاحبہ! شریفاں بہت زیادہ ڈرنے لگی ہے جی اکیلے میں۔‘‘
’’بس مَیں نے کہہ دیا نا ۔ تمہاری بچی کی وجہ سے میری بیٹی بہت پریشان رہتی ہے۔
ٹھیک ہے تمہارے گھر میں حادثہ ہو گیا ہے، لیکن بس ہمیں معاف کر دو ۔
اللہ تعالیٰ تمہارے حال پہ رحم کرے۔ گا  اِن شاء اللہ ۔‘‘
مما کے الفاظ مونا کے کانوں میں انگاروں کی طرح اترے اور رُوح کو جھلسا کر خاک کر گئے۔
اُس کا جی چاہا وہ اُٹھ کر جائے اور مما سے پوچھے:
’’مما! ایسا کیوں کر رہی ہیں آپ؟ کیوں اُس نیک پاک فرشتے کو یہاں آنے سے روک رہی ہیں؟‘‘
مگر وہ خاموش رہی۔ اُسے پتا تھا مما کوئی جذباتی عورت نہیں تھیں، جو فیصلہ ایک بار کر لیتیں، اُس پہ ثابت قدمی سے ڈٹی رہتیں۔
انسانیت سے زیادہ شاید اُنھیں اپنی کلاس، حیثیت، مرتبے کا خیال تھا۔
یک دم مونا کے ذہن میں ایک خیال بجلی کے بلب کی طرح روشن ہو گیا۔
’’شاید مما میری شیری سے ہونے والی محبت سے حسد کرتی ہیں۔
شاید وہ نہیں چاہتیں کہ مَیں کسی سے بھی محبت کروں۔ اُن کی طرح محبت سے خالی زندگی گزار دُوں۔
کسی کو اُن سے زیادہ توجہ نہ دوں۔ ہو سکتا ہے اُن کا کوئی نفسیاتی مسئلہ ہو۔‘‘
’’یہ سوچتے ہی وہ بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اپنے کمرے سے نکلی اور مما کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
’’مما! ایک بات پوچھوں؟‘‘
اُس نے لان میں پھولوں کی کیاری کو پانی دیتی مما سے سوال کیا۔ مما نے سوالیہ نگاہوں سے اُس کی طرف دیکھا۔
’’مما! مَیں نے محسوس کیا ہے کہ آپ ہر اُس شخص کو مجھ سے دُور کر دیتی ہیں جس سے مجھے پیار ہو یا دوستی ہو جائے۔‘‘
’’کیا مطلب ہے تمہارا؟ کتنی فضول بات کی ہے تم نے۔‘‘
مما کا چہرہ غصّے سے تمتمانے لگا۔ موتیے کی کیاری بھی ہمہ تن گوش ہو گئی۔
’’آپ ، نے  شیری کو یہاں آنے سے منع کر دیا ہے۔ آپ نے امریزہ کو بھی مجھ سے دور کر دیا تھا۔‘‘
’’امریزہ؟‘‘ مما کے حلق سے ایک سسکی نکلی۔ وہ یک دم جیسے کسی خواب سے چونک اٹھیں۔
’’امریزہ کا کیا ذکر، اتنے برسوں بعد؟‘‘
مما دھیمی آواز میں بولیں اور گلاب کی کیاریوں کی مٹی کو پاؤں سے کریدنے لگیں۔
’’تمہیں اب تک امریزہ بھولی نہیں؟‘‘
’’کیسے بھول سکتی ہوں اُسے مَیں؟ کتنی دوستی تھی میری اور اُس کی۔
پھر ایک دن آپ نے اُسے مجھ سے دور کر دیا اور مَیں روتی رہ گئی۔ نہ جانے کیوں؟ وہ معصوم بچی تھی مگر ، مجھے یاد ہے ۔
وہ مجھے کبھی نہیں بھولی۔‘‘
مما یک دم جیسے تھک سی گئیں۔ پاس پڑی کرسی پر بیٹھ کر اکھڑی اکھڑی سانسیں لینے لگیں۔
مونا کے ذہن میں روشنیوں کے چھپاکے سے ہونے لگے۔ وقت یک دم بہت پیچھے چلا گیا۔
خوبصورت سی گوری چٹی بارہ تیرہ برس کی امریزہ اُس کی آنکھوں کے سامنے آ گئی
جسے مما نے کسی پہاڑی علاقے سے مونا کو کمپنی دینے کے لیے بلوا کر ملازم رکھا تھا۔
مما سکول میں ہوتی تھیں، تو اُنھیں مونا کی تنہائی کی فکر ہوتی تھی۔
اِسی لیے اُنھوں نے اُس کے لیے اُس کی عمر سے تھوڑی سی بڑی یہ پہاڑی لڑکی رکھ لی تھی تاکہ مونا کا خیال رکھے اور اُس کے ساتھ کھیلے کودے بھی۔
مونا، امریزہ اَور مالی کا لڑکا یاسین ہر وقت اکٹھے کھیلتے تھے۔
کبھی باغ میں سے امرود توڑ رہے ہیں، تو کبھی یاسین کی بازار سے لائی ہوئی کٹھی میٹھی املی کھا رہے ہیں۔
رات کو اکثر نوکروں کے دوسرے بچوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے برآمدے کے بڑے بڑے خاموش کھڑے ستونوں کے پیچھے چھپ جانا اور پھر ڈراؤنی آوازیں نکال کر ایک دوسرے کو ڈرانا ۔
کتنا مزا آتا تھا، اُن سب حرکتوں میں۔ اچھے بھلے ہی تو رہ رَہے تھے وہ سب کہ اچانک مما نے امریزہ کو اُس کے گاؤں واپس بھیج دیا۔
امریزہ کو لینے کے لیے اُس کی ماں آئی، تو امریزہ اور مونا دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر خوب روئیں۔
یاد رَکھنے کے لیے چھوٹی موٹی نشانیاں بھی دی گئیں
پھر دوبارہ کبھی نہ کبھی ملنے کے وعدے بھی ہوئے، مگر وقت کا ظالم سانپ سرسراتا ہوا کہاں سے کہاں نکل گیا۔
اَمریزہ نام کے جنگلی پھول کی مہک مونا اور مما کی یادوں سے بھی دھیرے دھیرے جاتی رہی۔
مونا کو اُس کی رخصت کا دن کبھی نہیں بھولا تھا۔
مما اور مونا ڈرائیور کے ساتھ اُنھیں ریل پر چڑھانے گئی تھیں۔
امریزہ کی ماں کے آنسو بہتے چلے جا رہے تھے۔
وہ بار بار کہہ رہی تھی۔
’’ہم غریب آدمی ہیں بیگم صاحبہ، ہم بڑے غریب ہیں۔‘‘
مما نے اُسے بہت سے پیسے بھی دیے تھے، شاید امریزہ کی اگلی پچھلی تنخواہ۔ مما کی بھی آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں۔
اُس روز کے بعد مونا نے امریزہ کو نہ پھر کبھی دیکھا، نہ ہی اُس کی کوئی خبر سنی۔
’’بتائیں نہ مما۔ آپ نے امریزہ کو اَور مجھے الگ کیوں کر دیا تھا۔
کتنی خوش رہتی تھی مَیں اُس کے ساتھ۔
وہ تو میری بہن کی طرح تھی۔
کتنا خیال رکھتی تھی میرا، لیکن شاید آپ سے برداشت نہ ہوا۔ آپ حسد کرنے لگتی ہیں مما۔
اِس بات کا شاید آپ کو خود بھی احساس نہیں ہے۔‘‘ مونا کی آواز کی تلخی بڑھتی جا رہی تھی۔
’’مَیں نے اُسے کسی اور وجہ سے تم سے علیحدہ کیا تھا میری جان!‘‘
’’کیا؟‘‘ مونا نے مما کا ہاتھ پکڑ کر دبایا۔ ’’ایسی کون سی وجہ ہو گئی تھی؟‘‘
’’اُس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ظلم ہوا تھا۔‘‘ مما کی آنکھیں ڈبڈبانے لگیں۔
’’کیا؟ نہیں؟ امریزہ ، وہ پیاری سی لڑکی۔ میری سہیلی، میری بہن، یا اللہ!‘‘
مونا نے دکھ سے آنکھیں بھینچ لیں۔
’’کون تھا وہ؟ کس جانور نے یہ نیچ حرکت کی تھی مما ؟‘‘ مونا چلّانے لگی۔
’’یاسین؟
وہ جو ہمارے ساتھ دوپہر کو آنکھ مچولی کھیلا کرتا تھا؟ اُف خدایا!‘‘
مونا غصّے اور دُکھ سے بار بار مٹھیاں بھینچنے لگی۔
’’یاسین کو پولیس کے حوالے کیوں نہیں کیا؟
آپ لوگوں کو چاہیے تھا اُسے پہاڑی لوگوں کے حوالے کر دیتے۔
وہ خود ہی مار مار کے اُس کا بھرکس نکال دیتے۔
اتنی آسانی سے سب کچھ ہونے دیا۔
آپ کی اخلاقی ذمےداری تھی یہ مما۔ پڑھی لکھی ہیں،
پھر عورت کے ساتھ اتنا استحصال ہوتا دیکھ کر چپ کیوں رہیں؟ بولیں۔ بتائیں نا۔
آپ تو خود پردہ پوشی کر کے اُس جرم میں حصّےدار بن گئیں۔
کاش مَیں اُس وقت بچی نہ ہوتی، تو اُس جانور یاسین کے ٹکڑے کروا کے کتوں کے آگے ڈلوا دَیتی۔
یہ اَن پڑھ غریب طبقہ اِسی لیے آج تک ترقی نہیں کر سکا۔ اُنھیں جہالت کی وجہ سے کوئی اچھے برے کی تمیز نہیں رہتی۔‘‘
’’یہ کسی مخصوص طبقے کی بات نہیں ہے بیٹی۔ یہ ظلم عورت کے ساتھ ہر زمانے میں ہوتا رہا ہے۔‘‘
مما نے برف جیسے ٹھنڈے لہجے میں جواب دیا۔
’’آپ نے یاسین کو اُس واقعے کے بعد بھی گھر میں ملازم رکھا ہوا تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے، کیوں؟ آخر آپ نے اُسے کیوں اتنا برداشت کیا، کیوں؟‘‘
’’اِس لیے کہ مجرم وہ نہیں تھا۔‘‘ مما نے ایک اور بم گرایا۔
’’مجرم وہ نہیں تھا، تو کون تھا مما؟ مَیں سمجھی نہیں۔‘‘ مونا پریشان ہو کر بولی۔
اُسی لمحے سیڑھیوں پر سے پائپ کی مخصوص خوشبو نے نیچے اترنا شروع کر دیا۔
’’کون تھا وہ حرام زادہ مما؟‘‘ مونا ہسٹریائی انداز میں چیخی۔ ’’مہربانی کر کے مجھے بتائیں۔‘‘
مما صوفے سے اٹھ کر کھڑی ہو گئیں اور آنکھیں پوری طرح کھول کر، سیڑھیوں سے اترتے، پُروقار، مردانہ وجاہت کے نمونے، میرون ڈریسنگ گاؤن میں ملبوس شخص پر گاڑ دیں۔
چند لمحوں کے لیے ماحول بالکل ساکت ہو گیا۔
دھوئیں کے مرغولوں کے پیچھے سے پہچانتے، مانوس چہرے کو دیکھ کر مونا کے لبوں سے ایک سسکی نکلی
’’پاپا ۔‘‘

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles