عافیہ جہانگیر
لوگوں کا ہجوم وہ منظر دیکھنے کے لیے بے تاب ہے جو ابھی کچھ دیر میں سرِ عام سب کے سامنے رو نما ہو گا۔ کچھ لوگ شوقیہ یہ سب دیکھنے کے لیے آئے ہیں تو کوئی اپنے پیارے کو جان کی بازی ہارتے دیکھنے اور آخری دفعہ اُسے سانس لیتا دیکھنے کی غرض سے آیا ہے۔
وقتِ مقررہ پر ایک ادھیڑ عمر مرد خوفناک تاثرات چہرے پر سجائے، کسی کو اپنے ساتھ لیے آ رہا ہے۔ نوجوان کے چہرے پر بدحواسی اور گھبراہٹ کی بوندیں نمودار ہوتی ہیں۔ وہ رحم طلب نظروں سے ایک ایک کی طرف نظر اُٹھاتا ہے مگر وہاں ایسا کوئی نہیں جو اُس نوجوان کی فریادی آنکھوں پر توجہ دے۔ سب کو ’’تماشہ‘‘ دیکھنا ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے اُس نوجوان کے چہرے پر کالا نقاب چڑھایا گیا اور اس ’’ظالم‘‘ انسان نے ایک نوجوان کو پل میں موکے گھاٹ اُتار دیا۔
چاروں طرف سکوت طاری ہے اور اب اُس نوجوان کے گھر والے ’’ظالم‘‘ کو ملامتی نظروں سے دیکھتے ہوئے اُلٹے قدموں پیچھے ہٹ رہے۔ کہیں کوسنے تو کہیں بددعائیں، مگر ٹھہریے! یہ ظالم انسان، بے قصور ہے… کیونکہ وہ اور کوئی نہیں، پاکستان کا پہلا سرکاری جلّاد تارا مسیح ہے۔ جو حقیقتاً ظالم نہیں بلکہ نہایت انسان دوست، ہمدرد اور پیار کرنے والا شخص ہے۔
تمام عمر، دوسروں کو اپنے ہاتھوں موت دینے والا انسان، کیا ایک خوشیوں بھری نارمل زندگی گزار سکتا ہے؟ سزائے موت کے مجرم کو پھانسی دینے سے پہلے آخر جلّاد اُس کے کان میں کیا کہتا ہے؟ یہی جاننے کے لیے مجھے اس کے بارے میں سب کچھ پڑھنا پڑا۔ آئیے آپ بھی جانیے معروف
جلاّد تارا مسیح اور لال مسیح کی زندگیوں کے حیرت ناک واقعات:۔
phansi ghaat #qila #rohtas
#hangman #laal maseeh
لال مسیح ایک ’’ریٹائرڈ جلاد‘‘ ہے۔ اس نے اپنی ۲۷ سالہ پولیس کی نوکری میں ۷۵۰ لوگوں کو پھانسیاں دیں، یکی گیٹ لاہور میں ۱۹۵۵ء کو پیدا ہونے والا لال مسیح معروف جلاد تارا مسیح کا سالا ہے اور اپنے خاندانی جلاد ہونے پر آج بھی فخر کرتا ہے۔
تارا مسیح وہ جلاد ہے جس کے والد نے معروف حریت پسند باغی بھگت سنگھ کو پھانسی دی تھی اور خود تارا مسیح نے پاکستان کے مقبول ترین وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا جس کا معاوضہ اُس دور کی حکومت نے مبلغ ۲۵ روپے ادا کیا۔ اپنے بہنوئی تارا مسیح کی وفات کے بعد لال مسیح ۱۹۸۴ء میں بطور جلاد پولیس میں بھرتی ہوا۔
جلاد کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک سفاک شخصیت کا تصور ابھرتا ہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ صرف سرکاری احکامات کی پابندی کرتے ہیں، انھیں نہیں پتا ہوتا کہ جس کی زندگی کا یہ خاتمہ کرنے جا رہے ہیں وہ سزا کا حقدار تھا یا نہیں۔ انھیں صرف اپنا فرض ادا کرنا ہوتا ہے۔
لال مسیح کے مطابق پاکستان میں پھانسی کے وقت چار لوگ مجرم کے پاس موجود ہوتے ہیں جس میں کیس کا جج، ایس پی اور کچھ پولیس کے آدمیوں کے ساتھ ایک ڈاکٹر بھی شامل ہوتا ہے۔ عموماً ایس پی، پھانسی پانے والے سے اس کی آخری خواہش پوچھتا ہے، زیادہ تر مجرم اپنے بچوں پیار پہنچانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔
۱۹۸۵
ء تک پھانسی کا یہ عمل مجرم کے لواحقین کو بھی براہِ راست دیکھنے کی اجازت تھی تا ہم سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو نے پہلی بار یہ احکامات جاری کیے کہ لواحقین کو اپنے پیاروں کی پھانسی کا سارا عمل دکھانے کی بجائے صرف ڈیڈ باڈی ان کے حوالے کی جائے۔
لال مسیح کے مطابق جب مجرم کو پھانسی گھاٹ کے سامنے لایا جاتا ہے تو اسے ایک کالے رنگ کا نقاب پہنا دیا جاتا ہے تاہم مجرم اس میں سے باہر کا دھندلا سا منظر دیکھ سکتا ہے۔ جب مجرم کو یہ نقاب پہنایا جاتا ہے تو پھانسی گھاٹ پر گمبھیر خاموشی چھا جاتی ہے حتیٰ کہ ایس پی صاحب بھی پھانسی کی اجازت محض ہاتھ ہلا کر دیتے ہیں۔
لال مسیح نے بتایا کہ مجرم کو پھانسی گھاٹ پر لانے کے بعد اس کی گردن میں رسی باندھنا بھی جلاد کے فرائض میں شامل ہے۔ یہ رسی اس انداز سے باندھی جاتی ہے کہ کسی بھی صورت مجرم کا سر اس کی گرہ میں سے نہ نکل سکے۔
جب لال مسیح کسی مجرم کو پھانسی دینے کے لیے لیور کھینچنے لگتا تو اس کے کان میں آہستہ سے کہتا:
’’مجھے تمہاری موت کی نہ کوئی خواہش ہے نہ سروکار، میں تو صرف اپنی ڈیوٹی نبھا رہا ہوں‘‘ یہ سب کچھ چیک کرنے کے بعد وہ لیور کے اسٹینڈ کے پاس چلا جاتا اور ایس پی کی اجازت کا انتظار کرتا۔
اجازت ملتے ہی لال مسیح لیور کھینچتا اور مجرم کے پیروں کے نیچے سے تختہ کھل جاتا۔
مجرم کی گردن لکڑی کے فریم میں پھنس جاتی اور اس کا جسم تقریباً پانچ فٹ نیچے ہوا میں لٹکنے لگتا۔ لال مسیح کے مطابق پھانسی پانے والے کے جسم کو تیس منت تک لٹکائے رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کے لٹکے ہوئے جسم کے ہاتھ کالے ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے۔
بعدازاں ڈاکٹر مجرم کی موت کی تصدیق کرتا ہے۔ متعلقہ جج کاغذات پر دستخط کرتا ہے اور لاش ورثا کے حوالے کر دی جاتی ہے۔
لال مسیح نے بے شمار قاتلوں سے لے کر، اوّل درجے کے دہشت گردوں اور اشتہاریوں کو اپنے ہاتھوں سے پھانسیاں دیں جن میں کئی پھانسیاں اس نے سرعام دیں۔
لال مسیح کی تنخواہ ۴۵۰ روپے تھی تاہم اسے پورا پاکستان گھومنے کا موقع ملا کیونکہ عموماً مجرم کو اس کے علاقے کے قریبی جیل میں ہی پھانسی دی جاتی ہے۔ اس لیے جہاں جہاں پھانسیاں ہونا ہوتیں لال مسیح کو طلب کر لیا جاتا۔
#BBC
#bhagatSingh
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں فی پھانسی جلاد کو دس ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی ۲۰۱۳ء کی رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان میں ۶۲۱۸ سزائے موت کے قیدی اپنی پھانسی کے منتظر ہیں۔
انڈیا میں تو پیشہ ور جلادوں کی سخت کمی محسوس کی جاتی ہے۔ اگر پاکستانی جلاد کا معاوضہ بھی ایک ہندوستانی جلاد کے مطابق ہو جائے تو آج کی تاریخ میں ساری پھانسیاں دینے کے بعد جلاد کو ملنے والی ممکنہ رقم لگ بھگ ۶ کروڑ بنتی ہے…!!!
لال مسیح کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے ’’جلادی‘‘ دور میں ڈاکٹر، بینکار اور دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی تختہ دار پر لٹکایا ہے۔
اس نے بتایا کہ سرعام پھانسیاں عام طور پر جنوبی پنجاب میں دی جاتی رہی ہیں جس میں مظفر گڑھ، میانوالی اور ملتان شامل ہیں۔
اس کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ ایک موٹے مجرم کو پھانسی دینے کے لیے لیور کھینچا تو تو رسی ہی ٹوٹ گئی تاہم ایسی صورت میں پھر یہ پولیس کا کام ہوتا ہے کہ وہ آدھے مرے ہوئے مجرم کو دوبارہ پھانسی گھاٹ پر لے کر آئے۔
لال مسیح کے مطابق کم وزن والے مجرم اکثر رسی کے ساتھ لہراتے رہتے لیکن ان کی جان نہ نکلتی۔ ایسی صورت میں ان کی تکلیف ختم کرنے کے لیے اسے حکم دیا جاتا کہ وہ نیچے جائے اور مجرم کے پاؤں پکڑ کر خود بھی لٹک جائے۔ یوں ۱۱۰ کلو گرام کا لال مسیح جب دبلے پتلے مجرم کے پیر پکڑ کر لٹکتا تو واقعی مجرم کی ’’تکلیف‘‘ رفع ہو جاتی۔
لال مسیح بڑے فخر سے بتاتا ہے کہ ایک دفعہ اس نے ایک ہی وقت میں پانچ آدمیوں کو ایک ساتھ پھانسی دی۔
اُس نے بتایا کہ اس نے زندگی میں سب سے کم عمر پھانسی ایک لڑکے کو دی جس کی عمر ۱۷-۱۶ سال تھی اور وہ اپنی منگیتر کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار ہوا تھا اور سب سے زیادہ عمر کی پھانسی تقریباً ۵۵ سالہ شخص کو دی جس نے اپنے بھائی کا قتل کیا تھا۔
اس نے کہا کہ سب سے بہادر وہ شخص تھا جو ہائیکورٹ بم دھماکے میں ملوث تھا۔ اس نے ایک لمحے کے لیے بھی خوف نہ دکھایا۔ اس کا نام محرم علی شاہ تھا۔
لال مسیح نے کہا کہ جب میں نے اس کے کان میں جا کر کہا کہ میں صرف حکم کی تعمیل کرنے جا رہا ہوں تو محرم مسکرایا اور اس نے کہا ’’حکم کی تعمیل کرو‘‘۔
لال مسیح کو ایک دفعہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنے ایک رشتہ دار کو بھی پھانسی دینا پڑی۔ اپنے سفاکانہ پیشے کے بالکل برعکس، لال مسیح ایک ہنس مکھ آدمی ہے، مزاح سے بھرپور۔ ۵ عدد پوتوں کا دادا یہ جلاد ایک مکمل پیار کرنے والا انسان ہے۔
اس کی دو بیٹیاں اور سات بیٹے ہیں جن میں سے دو کی شادی ہو چکی۔
معزز جلادوں کے درمیان ایک اور جلاد بھی ہے۔ جسے سرکاری قاتل کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے ملک الموت کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ایک نیک انسان ہی نہیں بلکہ خدا کا پسندیدہ فرشتہ تھا جو انسان کے جسم و جان کے رشتے کو ختم کرنے کے فرائض سر انجام دیتا تھا کہا جاتا ہے کہ اچھے اور نیک انسانوں کی روح قبض کرنے آتا تو یہ فرشتہ بہت دوستانہ شکل میں نمودار ہوتا اور ایسا لگتا کہ سفر میں آسانی پیدا کرنے آیا ہو۔
گناہگاروں کے سامنے یہ فرشتہ خوفناک شکل میں نمودار ہوتا۔ پاکستان کے قیدیوں کے لیے یہ فرشتہ کوئی اور نہیں بلکہ صابر مسیح ہے۔
#saabar maseeh #hangman
پاکستان کی تاریخ کے تین جلادوں میں سے صابر مسیح وہ جلاد ہے جو ۲۵۰ سے زیادہ قیدیوں کو پھانسی دے چکے۔ مسیح کا تعلق ہی جلاد فیملی سے ہے اور اس کے والد صادق بھی ۴۰ سال تک جلاد رہے اور ۲۰۰۰ء میں ریٹائر ہوئے، اُن کے دادا اور دادا کے بھائی بھی یہی کام کرتے تھے۔
ان کے دادا کے بھائی نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی۔ تارا مسیح بھٹو کو پھانسی دینے کے لیے بہاولپور سے لاہور کی کوٹ لکھپت پہنچے تھے کیونکہ صادق مسیح نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ صابر مسیح کو معلوم تھا کہ وہ اس فیملی بزنس کا حصہ بنیں گے۔
انھوں نے پہلی پھانسی ۲۲ سال کی عمر میں دی۔ اس واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل انھوں نے اس وقت تک صرف ایک لاش کو لٹکتے ہوئے دیکھا تھا۔
اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں لیور کھینچتے وقت وہ اس بات کو نہیں سوچتے بلکہ ان کا دھیان جیل سپرنٹنڈنٹ کے اشارے کی طرف ہوتا ہے۔
صابر مسیح جلاد فخر کا اظہار کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ڈیوٹی پر آتے ہی پہلے کچھ مہینوں میں انھوں نے ۱۰۰ افراد کو پھانسی دی تھی۔ ۲۰۰۸ء کے بعد کچھ عرصہ کے لیے صابر مسیح کا کام رک گیا تھا کیونکہ پیپلز پارٹی نے پھانسیوں پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی تھی۔
یہ پابندی ۲۰۱۴ء میں ہٹا دی گئی جس کی وجہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول کا واقعہ تھا جس میں ۱۵۰ سے زائد بچوں کو شہید کیا گیا تھا۔ اس سے پوری حکومت اور عوام سکتے میں آ گئی تھی اور پھر حکومت نے فوری طور پر پھانسی سے پابندی ختم کر دی تاکہ ٹی ٹی پی کے مجرموں کو جلد از جلد اُن کے جرائم کی سزا دی جا سکے۔ کچھ ہی گھنٹوں میں مسیح کو لاہور سے فیصل آباد بلایا گیا اور انھوں نے ۲ دہشتگردوں کو لٹکایا۔
اس دن سے لے کر اب تک پاکستان میں ہیومن رائٹ آف کمیشن آف پاکستان کے مطابق ۴۷۱ افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ پچھلے سال پاکستان میں ۸۷ افراد کو پھانسیاں دی گئیں اور دنیا میں پھانسیاں دینے والے ممالک میں پاکستان ۴ نمبر پر رہا۔ تمام کی تمام پھانسیاں پنجاب کے صوبے میں دی گئیں۔
ایک بار جلّاد سےپوچھا گیا کہ کیا وہ گنتے ہیں کہ وہ اب تک کتنے افراد کو پھانسیاں دے چکے؟ تو اس نے کہا کہ جب جیل کے پاس ریکارڈ ہوتا ہے تو انھیں یاد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭