غریب ہڈ حرام
ازقلم: سبیغ ضو
وہ رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی عید کی شاپنگ کر لیتی۔
روزہ رکھ کر بازار کے چکر لگانا اسے سخت ناگوار گزرتا۔ ایک تو بلا کا رش، بندہ ایک دوسرے سے جب تک ٹکرائے نہیں، آگے بڑھنے کو رستہ نہیں ملتا۔ وہ تو عام دنوں میں بھی اور عورتوں کی طرح بازار کا رخ کرنے سے گریز ہی کرتی تھی کہ سب سے مشکل کام اسے یہی لگتا، مگر اب تو رمضان کی مبارک گھڑیاں قریب ہی تھیں۔
عید کی شاپنگ نپٹانی تو تھی ہی۔ اتنے دنوں کی بچت کو پرس میں ڈالا ، دونوں بچوں کو ساتھ لیے چل پڑی۔
آج بھی خوب رونق تھی مارکیٹ میں۔ قیمتیں بھی آج ہی آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ بازار میں ایک سائڈ پر بڑے بڑے شاپنگ مالز تھے۔ جہاں شیشوں میں چیزوں کو بڑی نزاکت سے سجایا گیا تھا۔دوسری طرف باہر کھلی دکانیں اور ٹھیلے تھے۔
اس نے مالز میں جانے سے گریز ہی کیا۔ معلوم تھا ان مالز سے خریداری اس کے بس کی بات نہیں، وہ اپنی دکان کا کرایہ، بجلی کا بل وغیرہ سب کچھ گاہک سے ہی نکلواتے۔
ٹھیلوں اور کھلی دکانوں میں سے بھی ڈھونڈنے سے کارآمد چیزیں مل ہی جاتیں ہیں۔ اس طرح خود کو دلاسہ دے کر وہ خریداری کرنے لگی۔ ایک خوبصورت سی دکان میں بچوں کے ایک سے ایک رنگ برنگی خوبصورت کپڑے تھے۔ فینسی فراک, ٹی شرٹس۔ دونوں بچے بھی مچل پڑے۔ بے اختیار اس دکان کی جانب بڑھی۔ ہر کپڑا بہت خوبصورت تھا۔ بچے جس کپڑے پر ہاتھ رکھتے، قیمت دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ جاتی۔
اس دکان میں ایسا کوئی کپڑا نہ تھا جو وہ خریدنے کی سکت رکھتی ہو۔ وہ بچوں کو بہلا پھسلا کر وہاں سے نکال تو لائی، مگر خود اس کا اپنا دل بجھ کر رہ گیا۔ ہمیشہ حوصلہ مند رہنے والی، یکدم بجھ گئی تھی۔
کیا میرے بچوں کو بھی اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹنا پڑے گا۔ کیا مجھے ابھی سے انہیں بھی اپنی خواہشات پر صبر کا اجر سمجھانا ہو گا
اپنی تمناؤں کو تو اسے روندنے کی اسے عادت ہوگئی تھی، مگر بچوں کی اداسی اسے مایوسی کی جانب لے کر جا رہی تھی۔ اس نے بچوں کی توجہ بانٹنے کے لیے آئسکریم کی آفر کر دی۔ انہیں آئس کریم دلانے لگی۔ اس دوران ایک چودہ پندرہ سالہ لڑکا پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس، پاس آ کر سب سے بھیک مانگنے لگا۔ وہ سب کے سامنے آتا اور مسکین صورت بنا کر ہاتھ پھیلا دیتا۔ بے اختیار اس کے دل سے الحمدﷲ نکلا۔ کم از کم بہت سے لوگوں سے اچھے تھے اس کے بچے۔
لڑکے کو دیکھ کر سوچنے لگی.
“بے چارہ غریب انسان، جانے کب تک یوں مانگتا رہے گا”
دل میں تلخی بڑھتی جارہی تھی کہ اچانک ایک اور ننھے بچے پر نظر پڑی۔ بہت عام مگر صاف ستھرے لباس میں ملبوس بچہ چھوٹی چھوٹی ضرورت کی اشیاء بیچ رہا تھا۔
عمر کوئی دس بارہ سال ہو گی۔ اسے بے ساختہ اس چھوٹے مزدور پر پیار آیا۔
“کتنی محنت کرتا ہو گا ننھا سا بچہ”
کتنا سامان ہو گا؟ بس ایک لکڑی کے اسٹینڈ پر یہی کوئی پانچ چھے سو کا سامان۔ چھوٹی موٹی چیزیں۔
ہائے غریب کی زندگی بھی بس بھاگ دوڑ کا نام ہے۔ آسمان کے درخت سے کسی سوکھے ہوئے پتے کی طرح اس زمین پر گرتا ہے اور امیری کے پیروں تلے کچلا جاتا ہے
دل میں ایک خیال آیا ” اور کچھ نہیں تو اس ننھے مزدور کو تو میں کوئی خوشی دے سکتی ہوں۔ کیا پتا اس کی آنکھوں کی چمک سے میرے بچوں کی اداس آنکھوں میں خوشی کے جوت جگمگانے لگیں اور مدد کرنے کا جذبہ پروان چڑھے۔
اس نے جب بچے سے کہا کہ اسے تمام سامان خریدنا ہے تو بچے نے پہلے حیران ہو کر اسے دیکھا۔ یقین آنے پر اس کا چہرہ خوشی سے جگمگانے لگا۔
“غریب کی خوشیاں بھی کتنی معصوم اور سادہ ہوتی ہیں ” وہ دل میں سوچ رہی تھی کہ بچے کی آواز آئی۔ ” باجی پورے چھے سو کا سامان ہے آپ پانچ سو میں لے لو”
” نہیں بیٹا میں پورے پیسے دوں گی” بچہ متشکرانہ انداز میں مسکرایا۔ لیکن جب اس نے اسے چھ سو کے بجائے اسے سات سو روپے دینے چاہیں تو بچے نے زبردستی سو روپے لوٹا دیے اور اپنی جائز کمائی لے کر خوشی خوشی روانہ ہو گیا۔ وہ اتنے ننھے بچے کی خود داری دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔
“چلو آج کے دن تو مارے مارے پھرنے سے بچ گیا” اب اس کا دل مایوسی بھول کر خوشی کی قندیل سے روشن تھا۔ واقعی کسی کو خوشی دے کر جو خوشی کا احساس ہوتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔
ادھر وہ چودہ پندرہ سالہ لڑکا اب تک لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر اچانک اس کے ذہن میں ایک اور نیکی کرنے کا خیال آیا
کیوں نہ میں یہ سارا سامان اسے دے دوں۔ بیچ کر کچھ پیسے کمالے گا۔ ایک تو اس طرح اس کے اندر محنت کا جذبہ پیدا ہو گا۔ دوسرا جب محنت کے پیسے ملیں گے تو یقیناً اسے بھیک جیسی ذلت کی نسبت یہاں زیادہ خوشی اور راحت ملے گی۔
یہ سوچ کر وہ اسے پکار بیٹھی۔ پاس آنے پر تمام سامان دیتے ہوئے یہ آفر اس کے سامنے رکھ دی۔
لڑکا منمناتے ہوئے اپنی فوری ضرورت کا رونا رونے لگا
” باجی یہ سب بیچتے ہوئے بہت ٹائم لگ جائے گا۔ میری ماں بیمار ہے، فلاں ڈمکاں، آپ بڑے لوگ ہو۔یونہی دو چار سو کی مدد کر دو”
لوگو سے پانچ دس روپے کی بھیک مانگنے والا اسے کوئی بڑی میم سمجھ کر رٹے رٹائے جملے دہرا کر اس سے نقد پیسوں کی امداد کا مطالبہ کر رہا تھا۔ یقیناً ان چیزوں کو بیچتے ہوئے خواری اٹھا کر چند پیسے کمانے کے بجائے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر جلدی جلدی بٹور لینا زیادہ آسان تھا۔ ویسے بھی تو رمضان میں انہی لوگوں کا سیزن ہوتا ہے۔
وہ حیران پریشان ایک فقیر کے ہاتھوں ضرورت کی اشیاء کی بے وقعتی دیکھ کر سوچ رہی تھی…. ” کیا ہڈ حرامی کی لذت بندے کو اتنا ذلیل بنا دیتی ہے کہ وہ محنت کی عظمت اور خود داری کو نیلام کر آتا ہے” .