21 C
Lahore
Saturday, April 27, 2024

Book Store

گدھ اور مردار

(تیسرا خط بہ ترتیب ویب سائٹ شان اردو)
امامیات ( مکاتیب ) خط نمبر ۱
بیٹی کے نام خط
جان سے پیاری بیٹی !
سلام عرض ہے ۔ میری پیاری بیٹی دنیا عجائب خانہ ہے ۔ اور اس عجائب خانے کی عجیب بات یہ ہے کہ تمھاری ماں ہو کر مجھے کچھ باتیں تم سے اس خط کے ذریعے کرنی پڑ رہی ہیں ۔
زندگی ایسے موڑ پہ ہے میری جان جہاں ایک ماں عجیب بے بسی محسوس کرتی ہے ۔ اپنی جوان ہوتی بچی کو معاشرے کی درندگی سے ڈرا کر خوف زدہ کر دے یا اتنا نڈر بنا دے کہ وہ خود بھی بسا اوقات درندہ بن جائے ۔
میری بچی میانہ روی کی راہ بڑی کھٹن ہے ۔ لیکن یہی بہترین راستہ ہے ۔ یہ وہی راستہ ہے جس کے اختتام پہ وہ منزل موجود ہے جہاں پہنچنے پر سستایا جا سکتا ہے ۔
میری بیٹی ! اس دنیا میں سر اٹھا کر جینے کا ایک چلن ہمیشہ یاد رکھنا۔ دنیا میں ہر انسان کی عزت کرنا لیکن صنفِ مخالف کے لیے اپنا ایک اصول وضع کرنا کہ ان کے اور تمھارے بیچ کھینچی گئی لائن واضح اور انمٹ ہو ۔ اس لائن کے پار تمھیں خود بھی کبھی نہیں جانا اور اس لائن کو پار کرنے کی اجازت بھی کبھی کسی کو مت دینا ۔
میری بیٹی تم عورت ہو اس بات کا اپنی طاقت بنانا۔ اسے اپنی کمزوری کبھی مت سمجھنا۔ سر اٹھا کے جینا اور چھوٹے چھوٹے غموں پہ واویلا کبھی مت کرنا ۔ جو چیزیں تکلیف دیتی ہیں ان تکالیف کا تذکرہ اگر ہمہ وقت بہ آواز بلند کیا جاتا رہے تو وہ آپ کی نفسیات پہ برے اثرات مرتب کر کے آپ کو کمزور کر دیتی ہیں ۔
اگر ہم ایک گھنٹہ یہ کہتے ہوئے گزار دیں کہ گرمی ہے ۔ تو گرمی ختم نہیں ہو جاتی لیکن احساس شدت پکڑ لیتا ہے ۔ جب کہ اسی گرمی کو صبر اور خاموشی کے ساتھ گزارنے پہ اللہ آپکے دل کو تھام لیتا ہے ۔
میری بیٹی ! دنیا میں اللہ کے ماسوا کبھی کسی سے مت ڈرنا۔
تم عورت ہو۔  اس پاک رب نے تمھیں نازک اندام بنایا لیکن یاد رکھو شیشے کا بلوریں جام ٹوٹے تو اس کا کانچ توڑنے والے ہاتھوں کو لہولہان کر جاتا ہے ۔
جس دن تمھیں اس بات کا ادراک ہو گیا کہ تم صرف ایک خوبصورت شو پیس نہیں ہو ۔ وقت پڑنے پہ ایک تیز دھار آلہ بن سکتی ہو اس دن تم سے اپنے دشمن سے ہمیشہ کے لیے گھبرانا چھوڑ دو گی ۔
میری پیاری بیٹی ! گدھ مردار کھاتا ہے کیونکہ مردار کھانے کے لیے محنت نہیں کرنی پڑتی۔
مشقت نہیں اٹھانی پڑتی ، وہ تیار مل جاتا ہے ۔لیکن شاہین شکار کر کے کھاتا ہے ۔ وہ گھات لگاتا ہے ، محنت کرتا ہے،  اڑان بھرتا ہے اور اپنی تیز نگاہوں سے شکار کی موجودگی کا یقین کرتا ہے ۔لیکن جب حملہ کرتا ہے تو ایسی مضبوط گرفت ہوتی ہے کہ شکار مر تو سکتا ہے لیکن اس شکنجے سے خود کو آزاد نہیں کروا سکتا ۔
دنیا میں جہاں بھی تم اپنے آس پاس کے گدھ نما انسانوں کو زمین پہ چھوڑ کر اونچی اڑان بھرو گی تو حسد کے مارے گدھ تمھیں فقط ایک بات سے ذلیل کرنے نیچا دکھانے کی کوشش کریں گے ۔
” بھئی آخر کو ہے تو عورت “
” ارے عورتوں کی اتنی سمجھ کہاں “
اور جو راجا گدھ ہوں گے وہ اس سے بڑھ کر گندی اور غلیظ زبان کا استعمال کرتے ہوئے یہ بھول جائیں گے کہ وہ ایک عورت کےبطن سے پیدا ہوئے۔
ہر وہ انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت جسےانسانوں کےشرف کا پاس نہیں وہ نہ انسان کہلانے کے لائق ہے اور نہ کوئی بھی کسی بھی قسم کی صنف ۔ اسلیےمیری بچی ایسے حیوانوں کی باتوں کو در گزر کر کے اپنے فلاح کے سفر میں آگے بڑھتی جانا۔
میری بیٹی فلاح کیا ہے اس پہ انشاء اللہ اگلے خط میں تمھیں مطلع کروں گی۔
خوش رہو ۔
اللہ تمھیں ہمیشہ اپنی امان میں رکھے۔
فقط تمھاری ماں
سمیرا امام

پیاری دوستو !
کچھ وقت ادھر ہم نے خطوط لکھنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا ۔
یہ خطوط ہمارے والدِ محترم کی ہم سے کی گئی ان کی تمام عمر کی نصیحتیں تھیں ۔ زندگی کے ہر مرحلے پہ جب ہم ہمت ہارنے لگتے ہیں ہمارے کانوں میں مرحوم والد کی آوازیں گونجتی ہیں ان کے ہمت بھرے جملے ہمارے کاندھے تھپتھپاتے ہیں ۔ اور ہم اپنے عزم اور حوصلے کو بلند کر کے دوبارہ اسی جوش اور جذبے سے جُت جاتے ہیں ۔
ہمارے والد کا شمار ان والدین میں سے تھا جو شاہین کی طرح اپنے بچے کو پہاڑ کی چٹان پر سے گرا کر انکو اپنے پر کھولنے کا حوصلہ دینے والوں میں سے ہوتے ہیں ۔
انکا لاڈ اور پیار فقط یہ تھا کہ خود اڑو ۔ وہ اڑنے کے لیے ہمیں حوصلہ دے سکتے تھے ۔ ہمت بندھا سکتے تھے لیکن اڑانے میں کوئی مدد نہ کرتے اس وقت وہ آنکھیں ماتھے پہ رکھ لیتے ۔
اور ہم غصے سے ایسی اڑان بھرتے کہ خود ہمیں بھی یقین نہ آتا ۔ کہ ہم اس قدر بلند پرواز بھر چکے ہیں ۔
بے جگری ، بے خوفی ، نڈر اور بے باکی سے زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا انھوں  نے سکھایا ۔
انکی زندگی میں ہم چیتے کا جگر رکھتے ۔ انکی موت سے لگا ہم کمزور ہو گئے ۔ لیکن انکی آواز کانوں میں گونجتی ۔
جھکنا مت ۔
ڈرنا نہیں ۔
اصولوں پہ ڈٹ جاؤ تو سر کٹوا لینا ۔
اپنا وعدہ نبھانا ۔
اپنی زبان سے کبھی مت پھرنا ۔
اور ہم اسی جوش اور جذبے سے آگے بڑھتے ۔
ان خطوط میں اگر کچھ اچھی باتیں ہیں تو وہ بابا کی کہی گئی ہیں ۔ اگر کچھ کمزوریاں ہیں تو وہ میری ذات کی ہیں ۔
اگر آپکو ان سے کوئی فائدہ ہوتا ہے تو میرے والد کی مغفرت کے لیے دعا کر دیجیے گا ۔
ان خطوط کو بہت سی بہنوں نے سراہا ۔ کئی بہنوں نے اپنی پیاری بچیوں کو جہیز کے تحفے کے طور پہ یہ خطوط دئیے ۔ کئی بہنوں نے ان کو پڑھ کر مجھ سے رابطہ کر کے اپنے دلوں کے حال سنائے ۔
ان خطوط نے بہت عزت دی حالانکہ یہ فقط اپنی یاد دہانی کے لیے لکھے گئے تھے ۔ مجھے لگتا میری اولاد کو کون بتائے گا کہ زندگی کیسے گزارنے کی ضرورت ہے ؟؟
انکے نانا دنیا سے جا چکے ۔ وہ نانا جو تب تک تحمل سے سمجھایا کرتے جب تک کسی بات کو عادت ثانیہ نہ بنا لیتے ۔
جزاک اللہ خیرا
سمیرا امام

 

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles