سلسلے وار ناول
بلال صاحب
سولہویں قسط
غلطی اور گناہ
ارم واسطی اپنے ڈبل بیڈ پر کہنی کے بل لیٹی ہوئی ولید سے آنکھیں چار کر رہی تھی۔ یہ دونوں پانچ مرلے کے ایک پورشن میں میاں بیوی کی طرح زندگی گزار رہے تھے مگر نکاح کے بغیر۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی لت لگ گئی تھی۔ نیچے والے پورشن میں بھی یہی کہانی تھی مگر کردار الگ تھے۔
ولید کا ایک بلڈر دوست اور اس کی ضرورت کوئی ایئر ہوسٹس بھی اسی طرح ٹائم پاس کر رہے تھے۔
’’ہم کب تک ایسے زندگی گزاریں گے؟ ‘‘ ارم شربتی آنکھوں اور حسرت بھری آواز کے ساتھ بولی۔
’’یا خود کچھ کر لو یا میری مان لو۔ فول پروف پلان ہے۔ ‘‘
’’کرنا کیا ہے میری جان؟ ‘‘ ولید نے ارم کی آوارہ لٹوں کو پکڑتے ہوئے پوچھا۔ ولید اس کے پہلو میں تکیے پر سر رکھ کر لیٹا ہوا تھا۔
’’جو میں کہتی ہوں ،کرتے جاؤ۔ پرسوں ان کی ایک کلاس فیلو کی تیل مہندی ہے۔ تم وہاں جاؤ اور کہانی شروع کرو۔‘‘
’’مگر میں وہاں کیسے جا سکتا ہوں؟کوئی انویٹیشن بھی تو ہو ۔‘‘
’’تو یہ بلڈر حنیف بسرا کس دن کام آئے گا؟ ‘‘
’’مگر حنیف بسرا کا کیا تعلق اس فنکشن سے؟‘‘
’’تعلق سالی سے نہیں ہو گا تو کس سے ہو گا؟‘‘ ارم اسٹائل سے بولی۔
’’میں سمجھا نہیں؟‘‘ ولید نے حیرت سے پوچھا۔
’’بھولے بادشاہ ہو۔ سمجھا کرو۔ حنیف کی شادی اپنے چچا کی بیٹی ثانیہ سے ہوئی ہے۔ ثانیہ کی چھوٹی بہن رانیہ کی تیل مہندی ہے ۔ مل گیا کارڈ یا پھر ثانیہ کو سندیسہ بھجواؤں کہ آ کے اپنی سوتن سے مل لے جس کے نام پر پانچ مرلے کا گھر ہے وہ بھی ڈیفنس میں۔‘‘
’’ارم تم بڑی کمینی ہو…کیا لومڑی والا دماغ ہے تمہارا …‘‘
’’اسی لیے تو کہتی ہوں …چیتے بنواور ان دو ہرنیوں میں سے ایک کا شکار کر لو … تمہارے بچے کھُچے میں سے میں بھی کھالوںگی…‘‘
ارم واسطی تیکھے نقوش والی عام سی لڑکی تھی۔ رنگت سانولی، قدر درمیانہ ، آنکھیں شربتی، جسامت دبلی پتلی، بال گھنے کالے سیاہ … پہلی نظر میں لگے یہ کوئی مدراسن ہے جو پاکستان میں آگئی ہے۔
دماغ لومڑی جیسا … پر کوئی بڑا شکار اس کے ہاتھ نہیں لگا۔
بلال فجر کی نماز سے فارغ ہوکر سیدھا نانو کے کمرے میں تھا، آج جمعے کا دن تھا اور اس نے روزہ رکھا تھا۔ اس لیے وہ جاگنگ کے لیے نہیں گیا۔
’’رات وہ دیر تک میرے پاس روتی رہی…تمہارے پاس آئے گی…بیٹا معاف کردینا۔ ‘‘نانی بلال کے گال پر ہاتھ رکھ کے محبت سے اسے سمجھا رہی تھیں۔ بلال کا چہرہ روشن چمکدار اور نکھرا ہوا تھا۔ بالکل بارش کے بعد کی دھوپ جیسا تبسم پھولوں کی کلیوں کی طرح اس کے ہونٹوں پر تھا۔
’’وہ تو میں معاف کردوں گا…میں ڈھیٹ ہوچکا ہوں، ایسی باتیں سن سن کر، اس وقت مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے ‘‘
’’ہاں بیٹا بولو…‘‘نانی کو خدشہ تھا یہ وہی بات کرے گا پھر بھی انہوں نے حوصلے سے کہا۔
’’آپ مجھے اس قید سے رہائی دے دیں۔ میں آزاد ہونا چاہتا ہوں…‘‘
بلال کچھ دیر خاموش رہا…وہ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا …مگر ارادہ بدل دیا۔
’’میرے جیتے جی تو یہاں رہو…میں مر کھپ جائوں تو چلے جانا…‘‘
نانی اپنی محبت کا رونا رو رہی تھیں، بلال اپنی عزت اور خودداری کا سوالی بن کر نانی کے قدموں میں سرجھکائے بیٹھا ہوا تھا۔
’’نانو…!میں نے آپ سے زندگی میں کچھ نہیں مانگا…آج مانگ رہا ہوں …ان رشتوں کی قید سے رہائی…نانو میں تو بے گناہ ہوں…پھر بھی یہ قید کیوں…کیوں…آپ مجھے جانے نہیں دیتیں…؟‘‘بلال کرب سے بول رہا تھا۔
’’اس لیے کہ صبح و شام تمہیں دیکھ لیتی ہوں…ایک بار تم چلے گئے تو واپس تھوڑی آئو گے … آلنے(گھونسلے) سے گرے ہوئے بوٹ واپس آلنے میں نہیں آتے۔ ہاں میرے مرنے پر ضرور آئوگے مگر قبرستان، گھر پھر بھی نہیں آئوگے‘‘
نانی کھوئی کھوئی آنکھوں سے ایسے بول رہی تھی جیسے مستقبل کو آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں اور بلال کی آنکھیں ایسے جیسے پتھر کی ہوں، نمکین پانی سفید نمک کی طرح چمک رہا تھا آنکھوں میں مگر کیا مجال کہ زمین پر گرجائیںیہ نمکین پانی کے قطرے۔
’’تو آپ میرے ساتھ چلیں‘‘بلال نے درخواست کی ۔
’’بیٹا…!پیٹ پہلے آتا ہے … اور گھٹنے بعد میں…ایک ماں اچھی منصف کبھی نہیں بن سکتی…تُو میری بیٹی کا بیٹا ہے …اور وہ میرا بیٹا ہے …کیسے انصاف ہوسکتا ہے …ہاں…اگر تیری جگہ تیری ماں ہوتی…تو پھر دھڑا… برابر کا تھا ‘‘
بلال گاڑی لے کر نکلنے ہی والا تھا عین اس وقت توشی آگئی اچانک جیسے ڈاکو لوٹنے کے لیے پتہ نہیں اچانک کہاں سے نکل آتے ہیں، بالکل اسی طرح اور دروازہ کھول کر ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
’’آپ کے سونے کا وقت تھا اور آپ یہاں توشی جی…! ‘‘بلال مسکراتے ہوئے بولا۔
’’پاپا بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ تم سے زیادہ Selfless بندہ آج کل ملنا مشکل ہے، رات میں نے تمہارے ساتھ زیادتی کی… الٹی سیدھی بکواس کی …اور تم مسکرا رہے ہو تمہیں تو مجھ پر غصہ کرنا چاہیے تھا مگر تم تو …‘‘توشی سنجیدگی سے بات کر رہی تھی۔
’’پہلی بات تو یہ کہ میں Selflessنہیں Selfish ہوں، اس مسکراہٹ میں بھی کوئی غرض ہے اور جہاں تک غصے کی بات ہے تو میں ڈھیٹ ہوچکا ہوں جیسے واٹر پروف ہوتا ہے ویسے ہی بے عزتی پروف ہوں۔ آپ پلیز اتریں مجھے دیر ہورہی ہے …‘‘
اسی لمحے بلال کے موبائل پر ایک کال آئی، اُس نے ریسیو کی، اب فکر مندی اس کے چہرے پر واضح تھی۔
’’آپ پلیز اترو ایک ایمرجنسی ہے مجھے وہاں جلدی پہنچنا ہے میں نے آپ کو معاف کیا، جاؤ بابا… جائو…!‘‘
’’کیا ہوا کچھ بتائو تو سہی‘‘توشی نے فکرمندی سے پوچھا۔
’’فوزیہ ایمرجنسی میں ہے اس کی خالہ کا فون آیا تھا ‘‘بلال نے جواب دیا۔
’’کیا مطلب ایمرجنسی میں ہے ‘‘توشی نے تفصیل مانگی۔
’’جناح ہسپتال کی ایمرجنسی میں، اللہ خیر کرے، آپ پلیز نیچے اترو، مجھے ہاسپٹل پہنچنا ہے‘‘
’’میں بھی تمہارے ساتھ چلتی ہوں ‘‘توشی نے جواب دیا۔
بلال اس کی ضد سے واقف تھا اس لیے خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرنے لگا، تھوڑی دیر بعد وہ دونوں جناح ہاسپٹل کی ایمرجنسی میں تھے۔
ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوتے ہی فوزیہ کی ماں نے بلال کو دیکھ لیا، اُس نے دُور ہی سے اٹھ کر اپنی جگہ سے ہاتھ کا اشارہ کردیا۔
’’فوزیہ تیرا سر آگیا ہے ‘‘فوزیہ کی ماں نے اسے ہولے سے خبر کر دی۔
فوزیہ جو کہ ہوش میں تھی اس نے آنکھیں بند کرلیں جیسے بے ہوش ہو۔ ڈرپ اسے لگی ہوئی تھی اس کی ماں اور اس کی خالہ یعنی ہونے والی ساس پاس بیٹھی ہوئی تھیں، اتنے میں بلال ان کے پاس آگیا۔ توشی اس کے ساتھ تھی بلال نے سلام کیا اور فوزیہ کے پاس بیڈ کے بائیں طرف دیوار کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ یہ اس ہال کا آخری بیڈ تھا۔
بلال نے فوزیہ کی ماں اور خالہ کے چہروں کو پڑھا تو دونوں کے چہرے مطمئن تھے۔ ’’شکر ہے یااللہ ‘‘بلال نے دل میں کہا۔ اب اس نے فوزیہ کی طرف نظر کی اس کا چہرہ بغیر میک اپ کے قدرے بجھا ہوا لگ رہا تھا، مرجھائی ہوئی گلاب کی کلی کی طرح، کلی تو وہ تھی۔ بلال نے لب کشائی کی :
’’خالہ جان کیا ہوا ہے …فوزیہ جی کو …؟‘‘بلال نے اس کی ماں سے پوچھا۔
’’بیٹا ہونا کیا ہے …بس مقدر ماڑے…نیند کی گولیاں کھالی تھیں وہ بھی …پورے کا پورا پتا…‘‘
’’مگر کیوں…کس لیے…کل تو بہت خوش تھی اور بتارہی تھی کہ جنوری میں شادی ہے …‘‘بلال نے حیرت سے پوچھا۔
’’وہی تو …خصما نوں خانے…لیاقت علی نے …ادھر شارجہ میں کسی …پھینی سے ویاہ کرلیا ہے… اگر میری بچی کو کچھ ہوجاتا تو میں نے لیاقت علی کو اپنا دودھ نہیں بخشنا تھا‘‘ خالہ نصرت نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
اب فوزیہ کی ماں ثریا نے آنکھوں دیکھا حال بیان کرنا شروع کیا:
’’ رات کو میں نے اس کے کمرے میں چاتی ماری (دیکھا) یہ بے ہوش تھی اور کمپیوٹر لگا ہوا تھا، اللہ بھلا کرے رفیق رکشے والے کا، ہمارا کرایہ دار ہے، اسے اُٹھایا، وہ دسی منٹی ہسپتال لے آیا‘‘
’’ڈاکٹر نے کچھ بتایا کب تک ہوش آجائے گا؟ ‘‘بلال نے پوچھا۔
’’ہوش تو آگیا ہے خیر سے …آپ کو دیکھ کر ڈرامہ کر رہی ہے ‘‘فوزیہ کی ماں ثریا دوپٹے سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔
بلال کو شرارت سوجھی میڈیکل رپورٹ کے پاس ایک پیپر پن پڑی ہوئی تھی اس نے اٹھائی اور ہلکے سے فوزیہ کے بائیں ہاتھ پر چبھودی۔
فوزیہ یک لخت بول پڑی :
’’ہائے اللہ جی …‘‘اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔
بلال اس کے سامنے کھڑا تھا اور اسے دیکھ رہا تھا فوزیہ کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے، اس کا دماغ مائوف ہوچکا تھا اور اس کا سینہ چھلنی ہو چکا تھا اس کے چہرے پر ہارے ہوئے سپاہی کی طرح شکستگی پڑھی جاسکتی تھی۔ اس کے ارمانوں کا خون سفاکی اور بے رحمی سے کردیا گیا تھا اور وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اپنے مسیحا کو دیکھ رہی تھی۔
فوزیہ اکثر بلال کو کہتی تھی، سر آپ کے پاس ہر مرض کا علاج ہوتا ہے فوزیہ کو کہی ہوئی بات یاد تھی اور بلال کو وہ سنی ہوئی۔
’’ایسے تھوڑی کرتے ہیں …‘‘مسیحا نے اپنا ہاتھ مریض کے ماتھے پر رکھا تو آنسو آنکھوں سے جاری ہوگئے جو اب تک قید تھے، جیسے ان کو رہائی مل گئی ہو۔ وہ مسلسل بہہ رہے تھے بغیر کسی آواز او رہچکی کے۔ تھوڑی دیر میں فوزیہ کا تکیہ دونوں اطراف سے بھیگ چکا تھا، یہ آنسو نہیں تھے اس کا درد اور غم تھا…جو مسیحا کے چھونے سے سارے کا سارا بہہ چکا تھا۔
تھوڑی دیر بعد فوزیہ نم آنکھوں اور گھائل آواز کے ساتھ بولی:
’’سر…!میں نے مرنے کی کوشش تو بہت کی …لیکن کامیاب نہیں ہوسکی…‘‘
’’کوشش ہمیشہ جینے کی کرو…کامیاب ہو یا نہ ہو …‘‘بلال نے جواب دیا۔
’’سر…!کہنا بہت آسان ہے اور سہنا بہت مشکل…‘‘
’’فوزیہ جی …!آپ صرف سہنے کی کوشش کرو…ہمت دینا اس کا کام ہے …‘‘
’’سر…!آپ کو کیا معلوم محبت کے غم کتنے بڑے ہوتے ہیں…‘‘
’’فوزیہ جی…!محبت کے غم کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں…زندگی جیسی نعمت سے چھوٹے ہی رہتے ہیں اور آپ اس زندگی کو ختم کرنے چلی ہو…‘‘
’’سر…! اگر آپ کے ساتھ ایسا ہوتا …تو…‘‘
’’تو…میں …فوزیہ جی…خود کشی پھر بھی نہ کرتا…زندگی اس کی عطا کردہ نعمتوں میں سے سب کی ماں ہے…زندگی ہم پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا قرض ہے …وہ فرض تو معاف کردیتا ہے…مگر قرض نہیں…نہ اپنا…نہ اپنے بندوں کا۔‘‘ توشی کھڑی ہوئی سب کچھ دیکھ رہی تھی اسے آج بلال کی زندگی کا ایک اور روپ نظر آیا وہ اپنی عمر سے بڑی باتیں کر رہا تھا۔ بلال ایک بار پھر بولا:
’’اگر تمہیں کچھ ہوجاتا …تو…ان کا کیا بنتا…تمہاری ماں کا تمہاری خالہ کا…جو تمہیں دیکھ کر جیتی ہیں… ان دونوں نے تم دونوں کی خاطر اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ لیا…یہ دونوں شادی کرسکتی تھیں…مگر نہیں کی… تمہاری خاطر اور اس لیاقت کی خاطر…اور تم نے یہ حرکت کی…اور اس کی تو میں خبر لیتا ہوں… ابھی‘‘بلال نے یہ ساری گفتگو نپے تلے انداز میں موقع کی مناسبت سے کی۔ ثریا اور نصرت بار بار اپنے آنسو دوپٹے سے صاف کر رہی تھیں اور فوزیہ نظریں جھکائے سن رہی تھی۔ بلال نے کچھ پیسے فوزیہ کی ماں کو دیے انہوں نے انکار کیا پیسے لینے سے۔
’’خالہ جی…! رکھ لیں…ایسے ہی نہیں دے رہا ہوں…اس کی سیلری سے کاٹ لوں گا…‘‘بلال نے ماحول بدلنے کی خاطرمذاق سے کہا۔
’’ میں ڈاکٹر سے مل لوں…کچھ ضرورت ہو تو فون پر بتادیجیے گا۔‘‘ بلال نے پیچھے مڑتے ہوئے کہا، اسی لمحے کسی نے اس کی آنکھیں پیچھے سے اپنی ہتھیلیوں سے بند کردیں۔
’’محسن رضا…‘‘بلال نے فوراً بول دیا۔
’’کمال ہے…‘‘میں تجھے اب بھی یاد ہوں، محسن رضا ڈاکٹر کا کوٹ پہنے حیرت اور مسرت سے کہہ رہا تھا۔
دونوں گرم جوشی سے بغل گیر ہوئے جیسے سالوں کے بچھڑے ملتے ہیں۔
’’آج کوئی چھ سات سال بعد ملے ہیں‘‘محسن نے اندازے سے کہا۔
’’سات سال چار مہینے اور بائیس دن بعد ‘‘بلال نے تفصیل بتائی۔
’’کمال ہے …پھر سے تو بازی لے گیا ‘‘ڈاکٹر محسن رضا بولا۔
ڈاکٹر محسن ان دونوں کو اپنے کمرے میں لے گیا بلال واش روم میں چلا گیا، ڈاکٹر محسن نے کالج کے دنوں کا فولڈر کھول لیا اور توشی کو نوشی سمجھ کر قصے سنانے لگا :
’’بھابھی جی…آپ کو پتہ ہے …اس کے پاس آپ کی ایک تصویر ہوتی تھی اس میں آپ کی چھوٹی بہن بھی تھی…آپ دونوں نے سرخ رنگ کے کپڑے اور اوپر بلیک لیدر کی جیکٹیں پہنی ہوئی تھیں…ایک دن یہ دیکھ رہا تھا… تو میں نے دیکھ لیا تب مجھے پتہ چلا ورنہ یہ تو اپنی بات کو ہوا ہی نہیں لگنے دیتا تھا ‘‘ ڈاکٹر محسن رضا ایسے ہی بات کر رہا تھا جیسے کالج کا سٹوڈنٹ ہو۔
’’پھر میں نے اسے بلیک میل کیا مجھے بتائو ورنہ میں ساری کلاس کو بتادوں گا تب جاکے اس نے مجھ کو آپ کے اور آپ کی بہن کے بارے میں بتایا، یہ نسیم اور تسلیم ہیں۔ تصویر دیکھ کر تو لگتا تھا جیسے انجو اور منجو ہوں، وہ چالباز فلم والی، اس نے مجھے بتایا نسیم میری منگیتر ہے تو میں نے کہا یار یہ تیری سالی تسلیم اگر مجھے تسلیم کرلے تو مزہ آجائے پورے کالج میں صرف میں اکیلا اس کا دوست تھا…سب حیران ہوتے کہ سب سے لائق بندے کا دوست سب سے نالائق مگر یہ حقیقت تھی… پتہ نہیں بلال کو مجھ میں کیا نظر آیا کہ میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھادیا ورنہ ہر کوئی بلال سے دوستی کرنا چاہتا تھا …‘‘ بلال واش روم سے نکل آیا۔
’’میں بھابھی کو اپنے کالج کے قصے سنارہا تھا ‘‘محسن مسکراتے ہوئے بلال کو بتایا۔
بلال نے اپنا سر پکڑ لیا توشی کھاجانے والی نظروں سے محسن کو دیکھ رہی تھی، بلال نے فوراً بات بدلی :
’’محسن…! تم نے مجھے فوزیہ کی کنڈیشن کے متعلق انفارم نہیں کیا‘‘
یادوں کی بارات واپس کالج جاچکی تھی اور محسن بھی ڈاکٹر محسن رضا بن چکا تھا۔
’’Well Actually کچھ پرابلم ہے Stomachمیں، Thanks God ٹائم پر آگئے یہ لوگ اور آتے ہی دو تین Vomitکر دیں پیشنٹ نے اور جو پلس پوائنٹ تھا، وہ یہ کہ نیند کی گولیاں جعلی تھیں جس کی وجہ سے بچت ہوگئی۔ ‘‘ڈاکٹر محسن رضا بول رہا تھا ایک ڈاکٹر کی طرح۔
’’یہ لو …اب آدمی سکون سے مر بھی نہیں سکتا، اس ملک میں جہاں زہر بھی خالص نہ ملتا ہو…‘‘توشی بھولی صورت بناکر بولی۔
’’اس نے نیند کی گولیاں کھائی تھیں زہر نہیں‘‘ڈاکٹر نے وضاحت پیش کی ۔
’’زہر سمجھ کر ہی کھائی تھیں مگر ہوا کیا…کچھ نہیں…وہ تو زندہ بچ گئی ناں…‘‘توشی نے سنجیدگی سے اپنی دلیل پیش کی ۔ بلال اور محسن توشی کی دلیل پر ہنس پڑے۔
’’ویسے آپ ڈاکٹر ہیں بھی …یا ایویں…سفید کوٹ ہی پہنا ہے…کہاں سے کیا MBBSآپ نے…میرا مطلب ہے کون سے کالج سے …؟‘‘
’’میں نے میڈیکل کی تعلیم چائنہ سے حاصل کی ہے۔ ‘‘ڈاکٹر محسن نے بتایا۔
’’یہ لو …اب ڈاکٹر بھی Made in China آگئے ہیں…جیسی چائنہ کی چیزیں… ڈاکٹر بھی ویسے ہی ہوں گے ‘‘توشی بیزاری سے بولی۔ بلال محسن کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا:
’’ڈاکٹروں کا تو مجھے پتہ نہیں …ہاں چائنہ کی چیزیں اپنی قیمت کی مناسبت سے بہت اچھی ہیں…تسلیم جی…چائنہ کا غریب لوگوں پر بڑا احسان ہے…وہ اشیا جو غریبوں کی پہنچ سے باہر تھیں…چائنہ نے ان کے گھروں میں پہنچادیں خیر چھوڑیں…ڈاکٹر صاحب ہم چلتے ہیں۔ ‘‘
’’مجھے تو اب یاد آیا…آپ مجھے بھابھی… بھابھی کس چکر میں بلارہے تھے ‘‘توشی کو اپنا نام تسلیم سن کر یاد آہی گیا۔
’’تسلیم…! سوری…‘‘ڈاکٹر محسن شرمندگی سے بولا۔
’’میرا گھر پاس ہی ہے یہیںفیصل ٹائون میں… وہاں چلتے ہیں …آپ کو ناشتہ کرواتا ہوں…اپنی والدہ کے ہاتھ کا بنا ہوا …‘‘
’’یہ لو…اپنی ماں سے کام کرواتے ہو …بیوی کے ہوتے ہوئے …اور گھر میں نوکر بھی نہیں رکھے ’‘‘توشی خائف ہوکر بولی ہاتھ لہراتے ہوئے ۔
’’نوکر تو ہیں مگر…کھانا، ناشتہ ماں کے ہاتھ کا بنا ہی کھاتا ہوں ‘‘ڈاکٹر نے بتایا۔
’’کیا بیوی مرگئی ہے؟‘‘توشی فٹافٹ بول اٹھی۔
’’میری ابھی شادی نہیں ہوئی …‘‘ڈاکٹر محسن نے شرماتے ہوئے بتایا۔
’’یہ لو …لگتے تو آپ چار بچوں کے باپ ہیں‘‘توشی نے فٹافٹ جواب دیا۔
’’کیا شادباغ چھوڑدیا…؟‘‘بلال نے بات بدلی۔
’’نہیں شاد باغ والوں نے مجھے چھوڑ دیا…‘‘ڈاکٹر محسن نے مصنوعی مسکراہٹ کا سہارا لیا۔
’’چل نہ یار نخرے نہ دکھا، اماں تجھے دیکھ کر خوش ہوجائیں گی ، ویسے بھی سال بھر سے وہ کھلکھلا کر ہنسی بھی نہیں…‘‘ڈاکٹر محسن نے محبت سے درخواست کی ۔
تھوڑی دیر بعد وہ فیصل ٹائون میں واقع کنال کے گھر میں موجود تھے، محسن کی اماں نے بلال کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور بڑی محبت سے ملیں۔ توشی کو بھی انہوں نے بڑے پیار سے گلے لگایا۔ اس طرح کا پیار اور خلوص توشی کے لیے نیا تجربہ تھا۔
محسن کی اماں کا تعلق اندرون لاہور سے تھا اور شادی کے بعد وہ شمالی لاہور میں شادباغ بیاہی گئیں جوکہ اندرون لاہور سے ملتا جلتا علاقہ تھا، اخلاق اور محبت کے لحاظ سے ۔
ڈاکٹر محسن رضا کا تعلق کشمیری بٹ فیملی سے تھا اوپر سے پیور لاہوریے۔ کشمیری بٹ دو وجہ سے شہرت رکھتے ہیں، ایک اپنی گوری رنگت کی وجہ سے اور دوسری اپنی خوش خوراکی کی وجہ سے، کاروباری لوگ، اور زندہ دل ، محبت کرنے والے، یاروں کے یار، یہ کشمیری بٹوں کی دوسری خوبیاں ہیں ۔
محسن کی اماں ناشتہ تیار کرنے کے لیے کچن میں جاچکی تھیں، ان کو دو ملازموں کی خدمات بھی حاصل تھیں اور انہوں نے توشی کو بھی کچن میں گھسیٹ لیا محبت کے زور پر۔
’’بڑے بٹ صاحب نظر نہیں آرہے …‘‘بلال نے پوچھا۔
’’وہی تو میں رونا رو رہا ہوں…سال بھر پہلے ابا چھوڑگئے۔ وہی جائیداد کے پواڑے بھائیوں کی جھک جھک بس یار خون سفید ہوگیا ‘‘
’’ہوا کیا تھا …رضا بٹ صاحب کو…؟‘‘بلال نے پوچھا۔
’’وہی ہماری قومی بیماری ہارٹ اٹیک…‘‘ڈاکٹر محسن بولا۔
’’بھائی میرے تو اپنا خیال کر ڈاکٹر ہوکر اتنا وزن گین کرلیا ہے، اس عمر میں چاچا لگتا ہے ‘‘دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑے۔
’’ویسے یار …سالی تیری ہے ایٹم‘‘ محسن بٹ نے فل تبصرہ کیا صرف ایٹم کہہ کر۔
’’تو نہیں بدلا…ویسے کا ویسا…ڈاکٹری بھی تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکی…شرم کر وہ میرے ماموں کی بیٹی بھی ہے اور میں بڑی عزت کرتا ہوں اس کی …‘‘بلال کو محسن کی بات پسند نہیں آئی اس کے باوجود اس نے تحمل سے جواب دیا دھیمے لہجے میں۔
’’Sorryیار…میرا یہ مطلب نہیں تھا ‘‘ڈاکٹر محسن نے شرمندگی سے کہا۔
’’Sorryیار بلال غلط مت سمجھنامجھے…تمہیں تو میری عادت کا پتہ ہے ‘‘
’’معذرت بار بار نہ کرو میں تمہیں جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں، اسی لیے تمہارے گھر آگیا…‘‘بلال نے سنجیدگی سے کہا۔
اتنے میں ملازم ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ لگارہا تھا، نہاری، پائے، حلوہ پوری، کلچے، پراٹھے اور لسی، پیور لاہوری ناشتہ یہ سب کچھ دیکھ کر ڈاکٹر کا گھر نہیں لگتا تھا مگر ڈاکٹر محسن ایسا ہی تھا، بول کر سوچتا کیا بول دیا اور سب کچھ کھا کر کہتا تھوڑا زیادہ کھالیا، ایسے ڈاکٹرز بھی ہوتے ہیں۔ ناشتے کی میز پر بیٹھتے ہوئے توشی نے دیکھ کر کہا:
’’آنٹی یہ ڈاکٹر تو ہیں نا…؟‘‘
’’ہاں…ہاں…بیٹی…! ڈاکٹر ہی ہے …بلال بیٹا…! تم بھی آئو نا …وہاں کیوں بیٹھے ہو…‘‘
بلال نے محسن کو بتادیا تھا کہ میرا روزہ ہے، محسن اور توشی آمنے سامنے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے اور محسن کی والدہ گھر کے سربراہ کی جگہ پر بیٹھی تھیں۔
’’اماں آپ شروع کرو…اس کا روزہ ہے…‘‘ڈاکٹر محسن نے اطلاع دی …
’’ہاں تو بیٹی…! بات دراصل یہ تھی کہ یہ بننا چاہتا تھا باڈی بلڈر… اور بٹ صاحب کی خواہش تھی …کہ یہ ڈاکٹر بنے …بٹ صاحب کے خاندان میں کوئی آٹھویں سے آگے نہیں گیا …کسی نے بٹ صاحب کو کہہ دیا کہ تیرے پورے خاندان میں ایک بھی ڈاکٹر نہیں ہے…تو ان کو غصہ آگیا بڑے دونوں بیٹے تو پڑھائی چھوڑ چھاڑ کر باپ کے ساتھ گودام سنبھالتے تھے، یہ تھا نویں جماعت میں گھر کا سب سے پڑھا لکھا مرد، تو ڈاکٹر کا مشن اس کو سونپ دیا گیا …‘‘
ڈاکٹر محسن کی والدہ بڑی خوش تھیں کیونکہ آج کافی دنوں بعد ان کا دستر خوان کسی مہمان کی میزبانی کر رہا تھا۔ ان کی ساری گفتگو کے دوران بلال نے اپنے اسکول اطلاع کردی تھی اور گھر پر بھی نانی کو بتادیا تھاکہ توشی اس کے ساتھ ہے اور لیاقت علی کو بھی شارجہ فون کیا تھا۔
لیاقت علی نے جمعہ کی نماز کے بعد Skype پر بات کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
بلال دیکھ رہا تھا کہ توشی ان میں گھل مل گئی ہے اور کافی خوش بھی ہے، آتے ہوئے ڈاکٹر محسن کی والدہ نے اس کو ایک خوبصورت سوٹ کا تحفہ بھی دیا، ساڑھے 12بجے وہ اسکول پہنچے۔ بلال نے توشی کو سکیورٹی گارڈ کی بیوی کے پاس چھوڑا۔ اس کے بعد بلال جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے چلا گیا اسکول میں چھٹی ہوچکی تھی۔ اسکول میں سکیورٹی گارڈ اور اس کی بیوی اور دو بچے تھے، بلال جمعہ پڑھ کر آچکا تو اس نے لیاقت علی سے Skypeپر شارجہ بات کی۔ اس کے بعد وہ دوبارہ ہسپتال گئے، جب وہ وہاں پہنچے تو فوزیہ کافی بہتر تھی اور اس کی والدہ بتارہی تھیں کہ ڈاکٹر نے کہا ہے کل چھٹی ہوجائے گی۔
بلال نے انہیں بتایا کہ میری لیاقت علی سے تفصیل سے بات ہوئی ہے اور وہ شرمندہ ہے مگر اس نے شادی وغیرہ نہیں کی کسی سے بھی۔
’’بات دراصل یہ ہے کہ جس سُپر مارکیٹ میں وہ کام کرتا ہے وہاں فلپائن کی ایک لڑکی اس کے ساتھ کام کرتی ہے ان دونوں نے مل کر ایک روم کرایہ پر لیا تھا کرایہ بچانے کے لیے وہ دونوں ایک ساتھ ایک کمرے میں رہتے ہیں ‘‘
’’ہائے…درفٹے منہ لیاقت کا…اسے ذرا شرم نہ آئی…یہ بے غیرتی کرتے ہوئے …بھلا کوئی گل ہے ‘‘ نصرت لیاقت کی ماں بولی۔
’’اور وہ جو ننگی تصویریں Facebook پر میں نے کل رات کو دیکھی تھیں … وہ … ‘‘ فوزیہ نے شکایتی انداز میں کہا۔
’’اب کیا کہتا ہے …اسے رکھنا ہے…یا پھر…‘‘ فوزیہ کی ماں نے پوچھا۔
’’دیکھیں خالہ جی…وہ اگلے مہینے نوکری چھوڑ کر واپس آرہا ہے…ہمیشہ کے لیے …اس نے معافی بھی مانگی ہے …اور وہ شرمندہ بھی ہے …اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے …اسے معاف کرنا ہے …یا نہیں…فوزیہ وہ تمہیں بھی فون کرے گا …میرا مشورہ ہے معاف کر دینا‘‘
اس کے بعد بلال واپس ڈیفنس کے لیے نکلا، واپسی پر اس نے ایک قصائی کی دکان کے سامنے گاڑی روکی ہارن دیا آدمی جلدی سے باہر آیا اور گوشت کا ایک بڑا شاپر بیگ گاڑی میں رکھ دیا۔ بلال نے اسے پیسے تھمادیے، بات چیت کوئی نہیں ہوئی سلام دعا کے علاوہ جیسے پہلے سے سب کچھ طے ہو۔
’’ویسے تم مرد بھی بڑے کمینے ہوتے ہو …ہمیشہ مرد کی سائیڈ ہی لیتے ہو‘‘توشی نے خاموشی توڑی اور بلال کی حرکت پر تبصرہ کیا۔
’’اگر فوزیہ ایسی حرکت کرتی…تو کیا لیاقت علی اسے معاف کردیتا…؟‘‘
’’لیاقت معاف کرتا یا نہیں…یہ تو میں نہیں بتاسکتا…مگر وہ لڑکا …اچھا ہے…میں نے تو صرف ایک بکھرے ہوئے گھرانے کو جوڑنے کی کوشش کی ہے…میں لیاقت کو دو بار شارجہ میں ملا ہوں…جس طرح کا وہاں ماحول ہے…شراب اور عورت آسانی سے مل جاتی ہے …بڑا مشکل ہے باہر کے ملکوں میں خود پر قابو رکھنا…‘‘
’’تم اگر شارجہ میں ہوتے تو …تم بھی بہک جاتے…؟‘‘توشی نے تیکھا سوال پوچھا۔
’’بہکنے کے لیے شارجہ میں ہونا ضروری تو نہیں…آپ کے ڈیفنس میں سب کچھ ملتا ہے…‘‘بلال نے گاڑی چلاتے ہوئے بتایا۔
’’ایک سوال پوچھوں…؟‘‘توشی نے جھجکتے ہوئے اجازت مانگی۔
بلال کے چہرے پر جان لیوا مسکراہٹ تھی اور وہ مسکراتے ہوئے بولا:
’’صبح سے کیا کر رہی ہو …سوال ہی تو پوچھ رہی ہو…‘‘
’’نوشی اگر کوئی ایسی حرکت کرے تو…؟‘‘توشی نے بڑی بات سادگی سے کہہ دی ۔
’’دیکھو توشی جی کہنا آسان ہے …کرنا مشکل …غلطی اور گناہ الگ ہیں…جھوٹ اور فریب الگ ہیں…غلطی اور گناہ معاف کرنا اللہ تبارک و تعالیٰ کی سنت ہے …اور نبی پاکؐ کی حدیث کا مفہوم ہے میرا امتی ہر گناہ میں مبتلا ہوسکتا ہے …جھوٹا اور فریبی کبھی نہیں ہوسکتا…‘‘ گاڑی گھر کے مین گیٹ کے سامنے پہنچ گئی تھی۔
’’تم نے مجھے واقعی معاف کردیا ہے؟ ‘‘توشی نے اترنے سے پہلے پوچھا۔
’’ہاں کردیا ہے …‘‘بلال سنجیدگی سے بولا۔
’’مجھے تم سے ضروری بات کرنا تھی مگر…ٹائم ہی نہیں ملا‘‘توشی معصومیت سے بولی۔
’’یہ لو…‘‘بلال نے توشی کی نقل اتاری اس کا تکیہ کلام بول کر۔ توشی کھل کھلا کر ہنس دی اور جاتے ہوئے بولی:
’’پیاز گوشت اچھی طرح بنانا…آج وہ بھی کھائے گی‘‘