28 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

غربت کا مذاق(بلال صاحب)

سلسلے وار ناول

بلال صاحب

پندرہویں قسط

غربت کا مذاق

بلال اور بابا جمعہ بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے۔ آج بابا جمعہ کے پاس ان کا کوئی گاہک نہیں تھا۔ عادل بابا جمعہ کی طرف ہی آ رہا تھا ۔ بلال اس کو دیکھ کر مسکرایا۔
عادل عقیل ہاشمی فربہ جسم کا مالک تھا۔ رنگ گندمی قد کاٹھ درمیانہ، بال چھوٹے چھوٹے ۔ سوال زیادہ کرتا اور سوچتا کم۔ ذہین تھا، مگر ذہانت سوال ڈھونڈنے میں لگاتا۔
ہاں اپنی غلطی مان لیتا۔ بڑی بات ہنستے ہنستے پوچھ لیتا۔ بات کرتا تو الفاظ غیر مناسب ہوتے مگر لہجہ شائستہ ہوتا اس لیے برا نہ لگتا تھا۔
آج بھی وہ سوالوں کی پوٹلی سر پر اٹھائے ہوئے آ گیا تھا۔
’’السلام علیکم۔ سب سے پہلے تو میں اس دن کی بات پر معذرت کرتا ہوں۔ ‘‘ بابا جمعہ عادل کی بات سن کر مسکرائے پھر فرمایا:
’’وعلیکم السلام! بیٹا جی …اور معذرت کس بات پر؟ ‘‘
’’و ہ اس دن جب میں آپ کے طریقہ علاج پر تنقید کر رہا تھا۔ ‘‘
’’دیکھو بیٹا! اختلاف گفتگو کا حسن ہے، مگر خیال رہے اختلافِ رائے کبھی بھی نفرت کی شکل اختیار نہ کرے۔ پھر خیر ہے ایسا اختلاف رحمت ہے۔ ‘‘
’’ میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘عادل نے سیدھا سوال کر دیا۔
’’ضرور بیٹا جی …پوچھیے۔ ‘‘ بابا جمعہ سادگی سے بولے۔
’’شرم آ رہی ہے …میرا سوال تھوڑا بولڈ ہے۔ ‘‘ عادل نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
’’شرع میں کوئی شرم نہیں۔ ‘‘ آپ پوچھو۔ بابا جمعہ نے حوصلہ بڑھایا۔
’’آپ نے کبھی کسی عورت سے محبت کی ہے؟‘‘عادل نے ایمانداری سے پوچھ لیا۔
’’الحمدللہ۔ بالکل کی ہے ۔ اپنی والدہ محترمہ اور بیوی سے۔ ‘‘
’’نہیں، میں وہ ، دوسری محبت کی بات کر رہا ہوں۔ آپ سمجھے نہیں ‘‘
’’بیٹا جی …! میں بالکل سمجھ گیا ہوں۔ آپ کس محبت کی بات کر رہے ہیں۔ ہاں وہ بھی کی تھی۔‘‘
’’پھر،کیا ہوا؟کچھ بتائیں اس کے بارے میں۔ ‘‘
بابا جمعہ کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ ہنس رہے تھے۔ بلال بھی شاید اتنا زیادہ کبھی پہلے نہیں ہنسا ہو گا۔
سوال تو عادل کا سیدھا تھا مگر اس کے پوچھنے کا انداز ایک چھوٹے بچے کی طرح کا تھا جو معصومیت سے کچھ بھی پوچھ لیتا ہے۔
کچھ انداز، سوال سے زیادہ حسین ہوتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ انداز عادل عقیل ہاشمی کا تھا۔ بعد میں وہ بھی اپنے سوال پر ہنس پڑا۔
’’اب تمہارے والی محبت کی بات کرتے ہیں۔ میں کوئی بیس اکیس سال کا تھا ۔ مجھے ایک لڑکی بہت اچھی لگتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں تو محبت ہی نظر آتی تھی ،مگر اس نے مجھے کبھی میرے خط کا جواب نہیں دیا۔
کبھی مجھ سے ملاقات نہیں کی۔ بس ہلکا سامسکرا دیتی تھی۔ ایک سال ایسے ہی گزر گیا۔ ہمارے میواتی لوگ ایک بزرگ کو بہت مانتے تھے۔ بابا سیلانی ان کا نام تھا ۔ میں ان کے پاس چلا گیا۔ کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ بول پڑے:
’’چھوری کا کیا نام ہے؟ کیسی ہے؟‘‘انہوں  نے جلالی انداز میں پوچھا ۔
’’بہت اچھی ہے …مگر مغرور بہت ہے…نخرہ بھی بہت کرتی ہے …اپنے حسن پر ناز بھی بہت ہے۔  اپنی حیثیت پر اتراتی ہے پھر بھی مجھے محبوب ہے اور میں اس سے محبت کرتا ہوں۔‘‘
میں نے ساری باتیں بابا سیلانی کو صاف گوئی سے بتا دیں۔
’’وہ مسکرائے اور بولے پوری کائنات میں صرف ایک محبوب عیبوں سے پاک ہے اور وہ محبوب خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ تمام محبوبوں کے بھی سردار اور وہ اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔  ان میں کوئی عیب کوئی کمی نہیں ہے۔
باقی سب کے محبوب عیبوں والے ہیں۔ نقائص اور خامیوں والے ہیں۔ محبت کی پہلی شرط یہ ہے کہ محبوب کے عیب آپ کو نظر نہ آئیں، اگر عیب نظر آ گئے تو پھر محبت ناقص ہے۔ عیب ہوتے ہوئے نظر نہ آئیں تو سمجھو محبت کی پہلی سیڑھی پر آپ کا قدم ہے۔‘‘
میں بابا سیلانی کی بات سن کر پانی پانی ہو گیا اور کافی دیر شرمندگی سے ان کے سامنے بیٹھا رہا۔ نمکین پانی میری آنکھوں سے برسنے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ میرے ضبط کے باوجود ٹپ ٹپ آنسو مٹی پر گر رہے تھے۔
بابا سیلانی جلال سے بولے :
’’بس کر چھورے۔ بس کر۔ فقیر منگتا ہوں۔  تجھے کچھ نہیں دے سکتا۔ خود فقیر ہوں۔‘‘
’’حضور بس دُعا کر دو۔‘‘میں نے عرضی پیش کی۔
’’چل چپ کر جا۔ تیرے لیے مانگتے ہیں ۔بادشاہوں کے بادشاہ سے ۔ بتا کیا مانگنا ہے ؟‘‘
بابا سیلانی نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے جلدی سے عرضی پیش کی ۔
’’حضور…اپنا محبوب…اور محبت کا طریقہ ، سلیقہ آجائے …بس ہجور…بس‘‘
’’چھورے سب کچھ مانگ کے کہتا ہے …بس…بس…‘‘
انہوں نے بند آنکھوں لزرتے ہونٹوں اور کھلے ہاتھوں سے میرے لیے دُعا کی۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد عادل دوبارہ بول پڑا :
’پھر اس لڑکی کا کیا بنا …جس سے آپ محبت کرتے تھے…؟ ‘‘
’’کلثوم کا …؟میری اس سے شادی ہوگئی ‘‘بابا جمعہ نے بتایا۔
’’اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں … ان سے بھی ملنا چاہتا ہوں ‘‘عادل نے اگلی فرمائش کردی۔
’’کوچ کا نقارہ بجا، وہ یہاں سے کوچ کر گئی… ‘‘یہ بتاتے ہوئے بابا جمعہ کی آنکھوں میں نمی تھی۔ وہ یادوں کے میلے میں کھوکر اُلفت کے منظر دیکھ رہے تھے۔
’’عادل صاحب…! آپ نے اپنی بات تو بتائی نہیں…‘‘بلال نے جانچتی نگاہوں سے پوچھا۔
’’میری بات تو کوئی بھی نہیں …آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ‘‘عادل گھبرا کر بولا۔
’’بلال کا اندازہ تو اکثر ٹھیک ہوتا ہے ‘‘بابا جمعہ نے عادل کو بتایا۔
’’و ہ میرے ساتھ پڑھتی تھی …ساری باتیں آپ کی کہانی والی ہیں…سمجھ نہیں آتا کہ میں کیا کروں…؟‘‘
’’سب سے پہلے اپنی پڑھائی مکمل کرو‘‘بابا جمعہ نے جواب دیا۔ بلال نے بابا جمعہ سے جانے کی اجازت لی اور اپنی گاڑی کی طرف چل دیا۔
’’بلال بھائی…!‘‘ عادل نے پیچھے سے آواز دی۔
’’جی… عادل صاحب!‘‘
’’وہ ایک کام تھا… آپ سے‘‘ عادل جھجکتے ہوئے بولا۔
’’جدھر آپ کا گھر ہے اس سے تھوڑا آگے ہمارا کھو ہوتا تھا اور اس کے کنارے بڑا سا پیپل کا درخت تھا اور ساتھ ہی ہمارا ویلنا لگا ہوتا تھا‘‘
BGاپنے بچپن کے قصے سنارہی تھی، جب بلال کمرے میں داخل ہوا دونوں بہنیں مقابلہ کر رہی تھیں دادی کی ٹانگوں کی مالش میں…یہ بلال کی صحبت کا اثر تھا ورنہ آج کل کے بچے تو دادا، دادی کو منہ ہی نہیں لگاتے ۔
’’BG یہ ویلنا کیا ہوتا ہے؟ ‘‘نوشی نے پوچھا۔
’’ویلنا جی…کیسے بتاؤں…‘‘BG سوچ رہی تھی ۔
’’گنے کا رس نکالنے والی دیسی مشین جو بیلوں کی مدد سے چلتی ہے۔ ‘‘بلال نے تفصیل بتائی۔
’’پھر ایک دن میں ویلنے میں گنے لگارہی تھی تو وہاں رُڈ سے دو موئی نکل آئی ‘‘
’’اب یہ روڈ اور دو موئی کیا ہیں؟ ‘‘توشی بیزاری سے بولی۔
’’BGآپ سے سٹوری سننی ہو تو پہلے ٹرانس لیشن کے لیے کسی کو ہائیر کرنا پڑتا ہے۔‘‘ توشی نے بلال کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا : ’’بتائیے یہ بھی بتائیے…رُڈ اور دو موئی‘‘
’’رُڈ کا مطلب بل اور دو موئی کا مطلب سانپ کی کزن ہے ‘‘
’’مطلب جیسے ہم دونوں تمھاری کزن ہیں… دو موئی… اور تم سانپ ہو جس نے سو سال بعد روپ بدل لیا ہے…جبھی تو ایسی پرانی باتیں جانتے ہو…ویلنا، رُڈ، دوموئی وغیرہ‘‘ BG جا چکی تھی اور یہ دونوں بہنیں بھی ہاتھ دھوکر آچکی تھیں۔
’’آپ کہاں اتنی دیر لگادیتے ہیں …اسکول سے تو آپ ڈھائی تین بجے تک فارغ ہوجاتے ہیں ‘‘نوشی سب کچھ جان کر بھی انجان بن رہی تھی۔
’’میں بابا جمعہ کے پاس بیٹھ جاتا ہوں ‘‘بلال نے کچھ چھپائے بغیر جواب دیا۔
’’وہ جو موچی ہے …بڑا عجیب سا نام ہے جمعہ‘‘نوشی نے دوٹوک تبصرہ کردیا۔ اب توشی کی باری تھی جہاں آرا بیگم خاموش تماشائی کی طرح سارا تماشا دیکھ رہی تھیں۔
’’آج کل بڑے تحفے دیے جارے ہیں ‘‘توشی مذاق سے بولی۔
’’فراک اچھی ہے ہمیں بھی منگوادو چاہے لنڈے ہی سے کیوں نہ ہو ‘‘ نوشی کے جملے میں طنز تھا۔
’’ٹھیک ہے …اور کچھ حکم …‘‘بلال دھیرے سے بولا۔
’’کتنے کوٹ ہیں تمہارے پاس‘‘توشی نے مذاق کے انداز میں پوچھا۔
’’40کے آس پاس ‘‘بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’اور ان چالیس میں سے لنڈے کے کتنے ہیں ‘‘نوشی نے لب کشائی کی۔
’’چار…‘‘بلال نے صاف گوئی سے سچ بولا۔
دونوں بہنیں کھل کھلا کر ہنس پڑیں جیسے غریب کی غربت کا مذاق اڑارہی ہوں مگر بلال غریب نہیں تھا اور وہ یہ بھول رہی تھیں۔
’’ویسے وہ کوٹ کبھی پہنو تو بتانا ضرور‘‘نوشی نے بے تکی سی فرمائش کی۔
’’اب نہیں پہنتا اس لیے کہ اب وہ چھوٹے ہوچکے ہیں، رکھے اس لیے ہیں کہ مجھے یاد رہے اور میں کسی لنڈے کے کپڑے پہننے والے کا مذاق نہ اڑائوں‘‘
’’ایکسکیوز می…‘‘بلال اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
جہاں آرا بیگم نے خاموشی سے سب کچھ دیکھا مگر کہا کچھ نہیں، تھوڑی دیر بعد نوشی بھی چلی گئی۔ توشی کو دادی نے روک لیا تھا۔
’’یہ بیٹا تم نے اچھا نہیں کیا ‘‘دادی نے خفگی سے کہا۔
’’کیا اچھا نہیں کیا …دادو…؟‘‘توشی بے نیازی سے بولی۔
’’میں تو مذاق کر رہی تھی مگر بلال تو برا مان گیا، اکثر اس سے مذاق کرتی ہوں مگر اس نے کبھی مائنڈ نہیں کیا ‘‘
’’بیٹا تم نے ہمیشہ اس سے اکیلے میں مذاق کیا ہے …یا پھر میرے سامنے…مگر آج تم نوشی کے سامنے شروع ہوگئی…اور تمہاری ماں نے بھی نوشی کے خوب کان بھرے ہیں…آج سارا دن…بلال کے خلاف‘‘ دادی زخمی آواز کے ساتھ بولی۔
’’اتنا روپیہ پیسہ ہونے کے باوجود میرے بچے نے فقیروں جیسی زندگی گزاری ہے … تمہیں نہیں پتہ خود پڑھنے کے لیے لوگوں کے گھروں میں جاجاکر ٹیوشن پڑھاتا تھا مگر اپنے پیسے میں سے کبھی ایک دھیلا نہیں مانگا…مجھ سے بھی کبھی ایک پیسہ نہیں لیا…تیرا باپ میرا بیٹا بڑا تھوڑدلامرد ہے اور تیری ماں بڑی کپتی…تیرے بھائی کو اگر کچھ نہ ملتا تو سارے گھر میں تھرتھلی مچادیتا اور تم دونوں ماں باپ کی ہیجلی (پیاری ) تھیں…تم سب گھر والے بڑے ڈاہڈے ہو بھئی…بڑے ڈاہڈے ہو…‘‘دادی کی آنکھوں سے مون سون کی بارش کی طرح آنسو ٹپک رہے تھے۔
’’Sorry…Sorryدادو…او مائی گاڈ…یہ میں نے کیا کردیا…دادو مجھے معاف کردیں… پلیز… دادو…آئی ایم ویری سوری…‘‘
توشی اپنی دادی سے لپٹ کر معافی مانگ رہی تھی۔ دادی آنسو صاف کرتے ہوئے درد میں ڈوبی ہوئی آواز کے ساتھ بول پڑی :
’’معافی مجھ سے کیوں مانگتی ہو…اس سے جاکر مانگو…جس کی عزت اور خودداری کے سارے بخیے ادھیڑ دیئے تم نے اور تمہاری بہن نے …‘‘
توشی کافی دیر تک دادی سے لپٹی رہی اور معافی تلافی کرتی رہی …اس کی آنکھوں سے بھی آنسو نکل آئے تھے۔
’’میں جاؤں اس کے کمرے میں ؟‘‘اس نے دادی سے صلاح مانگی۔
’’نہیں ابھی نہیں صبح۔ جب وہ اسکول کے لیے نکلے تو اس کی گاڑی میں بیٹھ جانا۔ تب بات کرنا اس سے۔‘‘ دادی نے بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ مشورہ دیا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles