24 C
Lahore
Tuesday, October 8, 2024

Book Store

شک کا بیج(بلال صاحب)

سلسلے وار ناول

بلال صاحب

چودہویں قسط

شک کا بیج

وہ سارا دن سوتی رہی. مغرب کی اذان ہونے والی تھی، جب BG اس کے کمرے میں داخل ہوئی۔
’’اٹھو نوشی بیٹا.!اب اٹھ بھی جاؤ۔ بڑی بیگم صاحبہ بار بار پوچھ رہی ہیں۔‘‘ BG نے نوشی کو ہلاتے ہوئے کہا تھا۔
’’کیا صبح ہو گئی؟‘‘ نوشی غنودگی میں پوچھ رہی تھی ۔
’’صبح۔ نہیں جی، اب تو رات ہونے والی ہے۔ مغرب کی اذان کا وقت ہو گیا ہے۔ ‘‘ BG نے تفصیل بتائی۔
’’آج کون سا دن ہے؟‘‘ نوشی ایسے پوچھ رہی تھی جیسے سوئے ہوئے محل کی شہزادی ہو اور سالوں بعد جاگی ہو۔
کون سا دن ہے؟ سال کون سا ہے؟ میں کہاں ہوں۔ کچھ ایسا ہی نوشی کے ساتھ تھا۔
’’توشی کہاں ہے اور ماما بھائی کہاں ہیں؟ ڈیڈ بھی نہیں ہیں، دادو،اور وہ ۔
وہ کہاں ہے؟‘‘ وہ بے ربط اور بے تکی باتیں پوچھ رہی تھی۔ BG اپنا ہاتھ ٹھوڑی پر رکھے ہوئے اُسے حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔
’’وہ کون جی کس کا پوچھ رہی ہیں؟ ‘‘ BG نے حیرت سے سوال کیا۔
’’وہ،ہاں بلال…،کہاں ہے؟ ‘‘
’’بلال جی،  وہ تو مغرب کی نماز کے بعد آئے گا، مگر آپ ان کا کیوں پوچھ رہی ہیں؟‘‘ BG ہکابکا تھی۔ یہ بلال کا پوچھ رہی ہے مگر کیوں؟ مغرب کی اذان ہو چکی تھی۔
’’آپ جی منہ ہاتھ دھو لو، میں ناشتا، پتا نہیں کھانا، کیا ہے، ‘‘ BG نے خود سے کہا پھر بولی : ’’جو بھی ہے، میں لے کر آتی ہوں ‘‘
نوشی واش روم میں جا چکی تھی اور BG کچن میں۔
تھوڑی دیر بعد BG ٹرالی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی تو نوشی ٹاول سے منہ صاف کر رہی تھی۔ وہ ڈریسنگ کے سامنے بیٹھے اپنی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی ۔
’’صبح۔ توشی نے آپ کو بہت اٹھایا۔ پھر وہ اکیلی بوتیک چلی گئی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے بھی 11 بجے فیکٹری جانے سے پہلے آپ کا پوچھا تھا۔ بڑی بیگم صاحبہ نے تو صبح سے کتنی بار پوچھا ہے آپ کا۔ ‘‘ BG نے ساری تفصیل بتا دی۔
’’اور بلال؟‘‘ نوشی نے حسرت بھری نگاہوں سے پوچھا۔
گیٹ پر ہارن بجا۔
’’لو جی… بلال صاحب آ گئے۔ ‘‘ BG نے اطلاع دی۔
’’تمہیں کیسے پتا؟ ‘‘نوشی نے وضاحت مانگی۔
’’پتا کیوں نہیں ہو گا۔ نوشی بیٹا۔ ہمارے گاؤں والی نورانی مسجد میں وہ مغرب کی نماز پڑھتا ہے پھر دس منٹ بعد گھر پر۔ ‘‘
وہ فوراً اُٹھی اور ٹیرس کی طرف لپکی۔ کہیں پلیٹ فارم سے گاڑی نہ چھوٹ جائے۔ کہیں دیر نہ ہو جائے ۔
بلال اپنی گاڑی سے نکل رہا تھا۔ پینٹ کوٹ پہنے ہوئے۔ گارڈ کے سلام کا جواب مسکرا کر دیا اور بغیر کسی طرف دھیان کیے وہ اپنے ڈبل یونٹ کی طرف چل دیا۔
نیچے گیسٹ روم تھا اور اوپر بلال کا کمرا ۔
کمرے کی لائٹ روشن کی، پردے پیچھے ہٹائے۔
اپنا بیگ کمپیوٹر ٹیبل پر رکھا۔ کچن میں الیکٹرک کیٹل لگائی، اس کے بعد کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد عابدہ پروین کی آواز ہوا کے دوش پر سفر کرتی ہوئی، اس کے کانوں تک پہنچی۔ آواز بہت کم تھی کیونکہ ٹیرس کا شیشے والا دروازہ بند تھا۔
بلال نے وارڈ روب سے شلوار قمیص نکالی اور واش روم میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ  باہر تھا، اپنے سوٹ کو وارڈ روب میں ہینگ کیا۔
بلال کا کمرا روشن تھا اور وہ اندھیرے میں کھڑی تھی۔ اس لیے وہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ بلال اس سب سے انجان تھا ۔
اس نے فریج سے بریڈ نکالی۔ اسے سینڈوچ میکر کے حوالے کیا۔ اس کے اوپر گرین پیسٹ ڈالا اور سینڈوچ میکر کو بند کر دیا اور خود کافی بنانے میں مصروف ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ اپنے بیڈ پر ٹرے رکھ کر کھانے میں مصروف تھا۔ ٹرے رکھنے سے پہلے وہ Disposable دسترخوان بچھانا نہیں بھولا تھا جو پلاسٹک کی نرم شیٹ جیسا تھا۔
’’کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ وہ یکدم ڈر گئی۔ ناہید پیچھے کھڑی ہوئی پوچھ رہی تھی۔
’’نہیں،کچھ نہیں۔ بس یونہی۔‘‘
’’میں سمجھ سکتی ہوں، مگر تمہارا باپ اور تمہاری دادی۔وہ میری پیش نہیں جانے دیتے۔‘‘ ناہید نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
کوئی کہہ سکتا ہے۔ یہ فقرا ہے۔ دیکھو کیسی شاہانہ زندگی گزار رہا ہے۔ وہ بھی مفت میں۔‘‘
نوشی کو بس فقرا یاد تھا۔ اپنی ماں کی باتوں سے ۔
’’توشی بتا رہی تھی کہ بہت جائیداد ہے اس کی۔ پھر فقرا کیسے ہوا۔؟‘‘
’’تم اندر آؤ، میں سب کچھ بتاتی ہوں۔ ‘‘
نوشی کمرے کے اندر گئی اور اس کے پیچھے ناہید بھی۔ ناہید نے کھانے والی ٹرالی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :
’’پہلے کچھ کھا لو پھر بات کرتے ہیں۔ ‘‘
ناہید کا موڈ خراب ہو چکا تھا اور اسے اپنی چھوٹی بیٹی توشی پر غصہ آ رہا تھا۔ نوشی نے جوس کا گلاس منہ سے لگایا، ناہید دیکھ رہی تھی۔
’’ ایک تو یہ توشی، اسے بھی اپنے جیسی نہ بنا دے۔ باپ کی چمچی۔‘‘ اس نے دل میں سوچا۔ ناہید خدشات میں گھری ہوئی تھی ایسے ، مگر، کیوں،ٹھیک ہے۔
’’میں سوچ رہی تھی کہ تم میرے ساتھ والے روم میں شفٹ ہو جاؤ۔ ‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘ نوشی نے حیرانی سے سوال کیا۔
’’اس لیے کہ اب تم دونوں جوان ہو۔ سب کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے اور پرسنل لائف بھی۔
ہاں وہ میں بتانا بھول گئی۔ مسز لغاری ہیں نا، ان کا بیٹا جنید لغاری پاکستان آیا ہوا ہے۔ تم اس سے مل لو۔ بہت اچھا لڑکا ہے۔ ‘‘
’’وہ کیوں؟ اور کس لیے؟‘‘ نوشی بول پڑی۔
’’جنید اچھا لڑکا ہے۔ اگر تمہیں پسند آ جائے تو شادی کی بات چلاؤں؟‘‘
’’جنید سے شادی کیوں؟‘‘ نوشی نے اپنی ماں کے طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ناہید کی شاطر نگاہیں جانچ چکی تھیں کہ نوشی میں کچھ تبدیلی ہے۔
’’ کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کہیں یہ، اُسے، نہیں کبھی نہیں۔
ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ ناہید نے دل میں سوچا۔ حالانکہ سوچ کا تعلق دماغ سے ہے مگر جب انسان حقیقت سے آنکھیں موڑ  لے، تو وہ دل سے سوچتا ہے دل نہ مانے تو، وہ اسے شٹ اَپ کہہ دیتا ہے۔
’’ماما! ڈیڈ کہاں ہیں؟ ‘‘ نوشی نے پوچھا۔
’’وہ تو کہہ رہے تھے کہ نوشی سے بات ہوئی ہے میری۔ ‘‘
’’ہاں، وہ میں بھول گئی تھی، ‘‘نوشی نے کچھ یاد کیا۔
’’ہاں کل ڈیڈ کا فون آیا تھا ایئر پورٹ سے۔‘‘ اسے یاد آ گیا۔
’’تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘ ناہید نے تفتیشی لہجے میں پوچھا۔
’’ہاں میں ٹھیک ہوں، بالکل۔‘‘ نوشی نے مصنوعی مسکراہٹ سے جواب دیا۔ ناہید کو تسلی نہیں ہوئی اس نے ہاتھ لگا کر اس کا ماتھا چیک کیا۔
’’میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں۔ ‘‘ ناہید بولی۔
’’نہیں ماما میں بالکل ٹھیک ہوں۔ بس کچھ تھک گئی ہوں۔ ‘‘
’’اگر تم اس کی وجہ سے پریشان ہو، تو میں ایسا بالکل نہیں ہونے دوں گی ۔ تم پریشان مت ہو۔‘‘ ناہید نے نوشی کے گالوں کو سہلاتے ہوئے کہا۔
’’ہے تو یہ جمیلہ کا ہی بیٹا۔ اس کی ماں نے تھوڑا تمہارے باپ کو پریشان کیا تھا۔ اگر اچھی ہوتی اس کے سسرال والے اسے گھر سے کیوں نکالتے؟‘‘
توشی کمرے میں داخل ہوئی ، ناہید اسے دیکھ کر خاموش ہو گئی۔
’’بڑا پیار ہو رہا ہے ، ماں بیٹی میں۔ ‘‘ توشی نے دیکھ کر کہا۔
’’تمہیں تو توفیق نہیں کہ ماں کی خبر  لے لو۔‘‘ ناہید نے تیکھا جواب دیا۔
’’ماما! آپ کی کہاں سے خبر لوں؟‘‘ توشی نے ترش جواب دیا۔
’’ہفتہ، ہفتہ آپ سے ملاقات نہیں ہوتی۔ یہ تو ہم ایک دوسرے کے سہارے، خیر چھوڑیں۔‘‘
نوشی بچ بچاؤ کے لیے بیچ میں بول پڑی:
’’خاک سہارا ہے تمہارا۔ تم نے صبح سے میری خبر لی۔ میں زندہ ہوں یا مر گئی۔ ‘‘
’’تو میں کس کے لیے آئی ہوں۔ تمہارے لیے۔ دوپہر سے دس دفعہ فون ملایا مگر تمہارا نمبر off تھا۔
میں نے ارم سے کہہ دیا بھئی میں جا رہی ہوں۔ تم دیکھ لینا۔‘‘ توشی بیڈ کے اُوپر بیٹھ گئی۔ ناہید جلدی سے اُٹھ کر چلی گئی۔ توشی کھانے کی ٹرالی کو دیکھ کر بولی:
’’اوہو۔ عیاشی ہو رہی ہے۔ ‘‘ گلاس میں جوس ڈالا اور غٹاغٹ پی گئی۔
’’ویسے، بائی دا وے۔ یہ ڈنر ہے،لنچ ہے یا پھر بریک فاسٹ؟‘‘
’’بریک فاسٹ۔‘‘ نوشی نے مسکرا کر جواب دیا ۔ توشی کے آنے سے جیسے اس میں جان آ گئی ہو۔
’’میں فریش ہو جاؤں، تم بھی ریڈی ہوجاؤ ،پھر چلتے ہیں‘‘
’’کہاں؟‘‘ نوشی نے پوچھا۔
’’بتاتی ہوں۔ سب بتاتی ہوں۔ پہلے تم ریڈی تو ہو جاؤ۔‘‘
توشی یہ کہہ کر واش روم میں چلی گئی۔
نوشی نے وارڈ روب کھولی اور کپڑے دیکھنے لگی۔ اس نے تیز رنگوں والا ایک سوٹ نکال کر پہن لیا اور اس کے اوپر ہلکا میک اپ بھی کرلیا۔
توشی کمرے میں واپس آئی تو نوشی موجود نہیں تھی اس نے اِدھر اُدھر دیکھا ٹیرس پر گئی تو نوشی بلال کے روم کی طرف دیکھ رہی تھی۔ عابدہ پروین کی آواز واضح سنی جا رہی تھی۔
’’کہیں وہ بادشاہِ تخت نشین۔کہیں کاسہ لیے گدا دیکھا۔‘‘
بلال کے کمرے کا ریلنگ والا شیشے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ دیوان پر ایک بادشاہ کی طرح تخت نشین تھا۔ دائیں ہاتھ میں مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی شریف تھی۔
دُور سے مثنوی اس کے ہاتھ میں ایسے محسوس ہو رہی تھی جیسے کوئی بادشاہ تخت پر کاسہ لیے بیٹھا ہو۔
اس کا بیٹھنا بائیں بازو کو دیوان کے ساتھ ٹیک لگائے ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھے، کسی شہنشاہ کی شبیہہ تھی۔ دراز قد، گوری رنگت، سیاہ کالے گھنگھریالے بال، لباس سادہ، چہرے پر جمال اور جلال ایک ساتھ تھا۔
’’کہیں وہ در لباس معشوقہ، برسرناز اور ادا دیکھا۔‘‘
وہ سفید لباس میں ملبوس اوپر کالی گرم چادر لیے ہوئے بیٹھا تھا۔ اُس نے سامنے لگی وال کلال کو دیکھا، میوزک بند کیا اور واش روم چلا گیا۔
’’چلو آؤ۔ عشا کی اذان کا وقت ہو گیا ہے۔ وہ وضو کرے گا۔ اب وہ نماز پڑھنے کے لیے مسجد جائے گا۔‘‘ توشی پیچھے کھڑی بول رہی تھی ۔
نوشی دم بخود حیرت میں مبتلا تھی اور پھٹی پھٹی نگاہوں سے توشی کو دیکھ رہی تھی۔
’’تم اندر آؤ۔ مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنا ہیں۔‘‘ توشی بولی اور کمرے میں واپس آ گئی۔ نوشی اس کے پیچھے ہو لی۔
’’ادھر صوفے پر آ جاؤ۔‘‘ توشی بولی۔ نوشی اور توشی صوفہ پر آمنے سامنے بیٹھ گئیں۔
’’دیکھو نوشی۔! بلال بہت اچھا لڑکا ہے۔وہ تمہیں بہت خوش رکھے گا۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، اس کو دیکھ رہی ہوں۔ جتنی محبت وہ تم سے کرتا ہے ، اس سے بہت زیادہ میں اس سے کرتی ہوں۔‘‘
وہ رُکی، ٹھنڈی سانس لی اور دوبارہ بول پڑی :
’’مگر، اس  نے کبھی بھی مجھے اس نظر سے نہیں دیکھا۔ تمہیں یاد ہے ؟ اتوار والے دن جب تم اس کے کمرے میں آئی تھیں۔ میں نے اس کی آنکھوں میں سب کچھ دیکھا، سوائے اس محبت کے جس کی مجھے تلاش تھی۔‘‘ توشی کی نمکین پانی سے آنکھیں چمک رہی تھیں۔ وہ پھر بولی :
’’سچ کہوں تو ۔ نمونہ ہے، کاش مجھے بھی ایسا کوئی نمونہ مل جائے۔ ‘‘ توشی نے نوشی کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا۔
’’میں تمہاری بہن ہوں۔ اصل زندگی والی، ڈراموں والی نہیں کہ اپنے ہی جیجا جی پر نظر رکھوں۔ شاید ایسا ہوتا بھی ، مگر بلال کے ساتھ رہ کر تھوڑا بہت سیکھا ہے۔ محبت چھینی نہیں جاتی،  محبت تو دی جاتی ہے ۔ ‘‘
’’تم  نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟‘‘نوشی کسی بچے کی طرح بولی۔
’’بتایا، سب کچھ بتایا۔ مگر تم نے سنا ہی نہیں۔ ‘‘
’’بلال کہتا ہے ، محبت اور قابلیت کو سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘
’’ہے تو وہ نمونہ ہی۔ تبھی تو سردی میں دروازہ کھول کر بیٹھا ہوا تھا۔ ‘‘نوشی مسکرا کر بولی جیسے کچھ دیکھ رہی ہو، خیالوں ہی خیالوں میں۔
’’نہیں وہ نمونہ نہیں ہے۔ اسے رات کی رانی کی خوشبو بہت پسند ہے۔ اس لیے ٹیرس کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ اس کے ٹیرس پر دو بڑے بڑے گملوں میں رات کی رانی لگی ہوئی ہے۔‘‘
’’تم جلدی سے تیار ہو جاؤ۔‘‘ توشی نے حکم دیا۔
’’تیار تو ہوں۔‘‘نوشی نے کپڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’آج تم میری مرضی کا ڈریس پہنو گی۔ یہ پہنو۔ یہ والا۔‘‘ توشی نے وارڈروب سے ایک سوٹ نکال کر نوشی کو تھما دیا۔
’’مگر ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘نوشی نے تشویش سے پوچھا۔
’’Waar Movie دیکھنے…ڈئں…ڈئں…ڈاڈاں…ڈاڈاں۔‘‘توشی نے اپنے بیگ سے تین ٹکٹیں نکال کر ہوا میں لہرا دیں۔
’’میں، تم اور وہ۔‘‘ توشی شرارتی انداز میں بولی۔
’’وہ کون ؟‘‘نوشی بھولی بچی بنی پوچھ رہی تھی ۔
’’وہ۔‘‘ہونٹوں کی سیٹی بنا کر بولی:
’’رات کی رانی والا، راجہ نہیں، جیجا ۔
جیجا، سچ کہوں تو میں آج بہت خوش ہوں تمہارے اور بلال کے لیے۔‘‘وہ بیڈ پر سیدھی لیٹ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ سینے پر رکھے اپنے دل کی دھڑکن سننے لگی۔
’’تم دونوں کی جوڑی بہت خوبصورت لگے گی۔ اللہ نظر بد سے بچائے۔‘‘نوشی اب تک صوفے پر بیٹھی ہوئی خوش ہو رہی تھی۔ اپنی خوشی سے زیادہ توشی کو دیکھ کر جو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ بلال کے کمرے کے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ کوئی رسپانس نہیں ملا تو دروازے کو دھیرے سے کھولا اور ہولے سے اندر داخل ہوئی۔
کمرے میں روشنی بہت کم تھی۔ صرف اوپن کچن کا ایک انرجی سیور روشن تھا۔ کمرا رات کی رانی کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ اس کی فضا میں بلال کے سانسوں کی مہک بھی تھی۔ اس نے کمرے کی لائٹ On کی۔
کمرا چمک رہا تھا۔ ہر چیز اپنی جگہ پر نفاست سے رکھی ہوئی تھی۔
نوشی سیاہ رنگ کا چوڑی دار پائجامہ اور سیاہ فراک جس کے گلے پر سرخ رنگ کا تھوڑا سا کام ہوا تھا، پاؤں میں ملتانی کھسہ اور گلے میں لمبا سا دوپٹہ گلے سے پیچھے کی طرف لٹکا ہوا تھا۔
دوپٹے کے نیچے کھلی سی سیاہ جرسی جس کے سارے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ وہ کسی ماڈل کی طرح کیٹ واک کرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے بائیں ہاتھ میں اپنا Mobile تھا۔
ڈوپٹے کا ایک پلو ماربل کے براؤن، فرش سے دست و گریباں ہو رہا تھا۔ وہ آئی اور اس نے اپنی براؤن آنکھوں سے سارے کمرے کا جائزہ لیا۔
کتابوں کا آشیانہ۔ اس کی نظر وہاں ٹھہری، وہ پاس گئی۔’’
وہ کتاب کہاں ہے؟‘‘دل میں سوال کیا اور دماغ سے پوچھا۔ اسے یاد آیا موٹی تھی اور کلر کون سا؟مل گئی۔ ہاتھ آگے بڑھے اور اس نے کتاب، کتابوں کے درمیان سے نکالی کچھ صفحے پڑھے، وہ مثنوی کا اُردو ترجمہ تھا۔
اُردو تو وہ پڑھ لیتی تھی مگر وہ تحریر اس کی عقل و دانش سے ماورا تھی۔ اس نے کتاب کو اسی جگہ رکھ دیا۔ وہ مڑی اور اس جگہ کو دیکھا جہاں وہ بیٹھا ہوا تھا ۔
وہ چلی، دیوان پر اُسی جگہ بیٹھ گئی۔ اُسی کے انداز میں۔ اس نے گردن موڑی اور اپنے ٹیرس کو دیکھنے لگی، مگر سی گرین کلر کے پردوں نے اس کی نظر کا راستہ روکا۔
وہ اٹھی اور پردوں کو پیچھے ہٹایا۔ ریلنگ ڈور کھولا اور واپس اسی انداز میں آ کر بیٹھ گئی۔ پھر دوبارہ گردن گھمائی اور اپنے ٹیرس کی طرف دیکھا۔ وہاں اسے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔
دماغ نے اسے بتایا…نہیں نہیں…واپس دیکھو…پھر سے اس نے نظر دوڑائی …یہ وہاں کون ہے اور اس طرف کیوں…بے قراری اور یکسوئی سے دیکھ رہی ہے، بے قراری اس کے جسم میں تھی اور یکسوئی نظروں میں، اس نے انگشت شہادت اس طرف کرتے ہوئے خود سے پوچھا …
’’یہ کون ہے…؟‘‘جانچتی نگاہوں سے وہ اٹھی اور بلال کے ٹیرس پر چلی گئی اور سامنے دیکھنے لگی …اس کے دونوں ہاتھ سلور کے گول راڈ پر تھے…جوکہ ٹیرس کی دیوار پر لگا ہوا تھا…اوپر کی طرف۔
’’یہ…یہ…میں ہوں…یہ کیسے ہوسکتا …میں خواب دیکھ رہی ہوں…یا میں پاگل ہو چکی ہوں ‘‘
موبائل شور مچادیتا ہے …جوکہ دیوان پر پڑا ہوا تھا…وہ مڑی اور موبائل کی طرف دیکھا … ایک نظر واپس اپنے ٹیرس پر…اب وہاں کوئی نہیں تھا۔
اس کے قدم رُک گئے… اچانک اس کی نظر رات کی رانی کے دونوں گملوں پر پڑی …جو دائیں بائیں پڑے ہوئے تھے۔
’’رات کی رانی …کا راجہ…‘‘ توشی کا جملہ اس کے کانوں میں گونجا۔ موبائل دوبارہ سے بول اٹھا…وہ کمرے میں آئی اور موبائل سے کال ریسیو کی۔
’’Where Are you? ‘‘ دوسری طرف سے توشی بول رہی تھی۔
’’دادو کے کمرے میں آجائو میں یہاں ہوں اور بلال بھی آچکا ہے ‘‘توشی نے تفصیل بتادی۔
’’میں پاگل ہو گئی ہوں ‘‘ نوشی نے خود سے کہا اور موبائل اپنی پیشانی پر لگایا۔ بایاں ہاتھ اپنی کمر پر رکھا اور ارد گرد نظر دوڑائی ٹیرس کا دوازہ بند کیا، پردے اسی طرح سیٹ کیے، لائٹ بند کی اور کمرے سے نکل گئی ۔
چند منٹ بعد وہ دادی کے کمرے میں تھی۔ توشی موبائل کے ساتھ مصروف تھی اور بلال نانی کے ساتھ گپ شپ لگا رہا تھا۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو چند لمحوں کے لیے دونوں کی نظریں ٹکرائیں۔ نوشی نے اپنے گولڈن بال گالوں سے اٹھاکر کان کے پیچھے کیے اور آکر توشی کے پہلو میں بیٹھ گئی۔ اسی انداز میں، ایک جیسا لباس دونوں بہنوں کا۔ اگر بالوں کا فرق نہ ہوتا تو دونوں بہنوں میں پہچان کرنا مشکل تھا۔
’’ماشاء اللہ …ماشاء اللہ …اللہ نظر بد سے بچائے ‘‘جہاں آرا بیگم، آنکھوں میں چمک اور الفاظ میں مٹھاس لیے بول پڑی تھیں۔
’’تم دونوں کہیں جارہی ہو …؟ ‘‘دادی نے پوچھا۔
’’ہاں پروگرام تو ہے…اگر بلال صاحب مان جائیں …‘‘توشی شرارتی آنکھوں کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر بولی۔ بلال اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ اس نے اپنے بیگ سے ٹکٹیں نکالیں اور بلال کو آنکھوں سے اشارہ کیا، میں، تم اور یہ اپنے پہلو کی طرف توجہ دلائی۔
’’بلال چلوگے نا؟‘‘توشی نے اپنی زباں کو تالو سے لگاکر کہا۔ بلال خاموشی سے اس کو دیکھ رہا تھا اور نوشی بلال کو دیکھ رہی تھی۔ دادی ان سب کو دیکھ رہی تھیں۔
’’چلے جائو بیٹا‘‘نانی نے مشورہ دیا۔
’’وہ…میں…‘‘بلال کے پاس الفاظ ختم ہوگئے تھے۔
’’چلیے نا …‘‘نوشی نے اپنی گردن جھکائے ہی کہا جو اپنی کلائی میں موجود کنگن کو گھمارہی تھی ۔
چلیے نا …حکم تھا …عرضی تھی…یا فرمائش…بلال کو سمجھ نہیں آیا…مگر جو بھی تھا جانے کے لیے کافی تھا۔
آدھے گھنٹے بعد وہ تینوں پورچ میں تھے، بلال نے اپنا پسندیدہ ڈریس پہنا، وائٹ شرٹ لائٹ اسکائی بلوجینز اور اوپر بلیک کوٹ بالوں میں انڈونیشیا کی بنی ہوئی Jony Andrean کریم لگائی جو کہ اسے بہت پسند تھی اور اپنا پسندیدہ عطر عود بھی لگایا۔ وہ بہت ڈیسنٹ لگ رہا تھا۔
’’جانا کہاں ہے؟ ‘‘بلال نے پوچھا۔
’’یہ لالک Round Aboutکے آگے جو سینما ہے وہاں … یہ پاس ہی تو ہے دس منٹ کی واک ہے ‘‘ توشی نے نوشی کی طرف مشاورتی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔
’’As you like‘‘نوشی نے جواب دیا۔
’’کتنے بجے کا شوہے؟ ‘‘بلال نے پوچھا۔
’’ساڑھے دس بجے والا۔‘‘توشی نے بتایا۔
’’واپسی تک ڈیڑھ دو بج جائیں گے…سردی بھی ہے…اور حالات تو…‘‘بلال نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔
’’تو پھر گاڑی پر چلتے ہیں ‘‘توشی نے فیصلہ سنانے کے بعد جلدی سے کہا : ’’مگر Key تو DJ کے پاس ہے میں لے کر آتی ہوں، نہیں فون کر دیتی ہوں، وہ آجاتا ہے‘‘
’’آپ کی گاڑی میں چلیں!‘‘نوشی فرمائشی انداز میں بولی۔
توشی نے حیرت سے اپنی بہن کو دیکھا جو کل تک اس گاڑی کو جلانے کی باتیں کرتی تھی، اب اسی گاڑی میں جانا چاہتی ہے۔
’’ضرور…مگر…آپ میری گاڑی میں…؟‘‘بلال نے حیرت سے پوچھا۔
’’چلتی تو ہے نا …‘‘نوشی جذب و مستی سے بلال کو دیکھ کربولی۔
’’آج تو ضرور چلے گی ‘‘بلال نے جواب دیا۔
بلال کی گاڑی Toyota Land Cruiser 1988گرے کلر میں ماڈل پرانا تھا۔ مگر گاڑی اندر باہر سے صاف ستھری۔ نوشی کو اس گاڑی سے نفرت تھی، وہ اکثر کہتی میرا بس چلے تو میں اس کھٹارا کو آگ لگادوں۔ توشی بیک سیٹ پر بیٹھ گئی اور نوشی فرنٹ سیٹ پر بلال کے ساتھ۔ گاڑی گیٹ سے باہر تھی گاڑی میں خاموشی تھی۔
’’کوئی گانا شانا لگادو‘‘توشی نے خاموشی توڑی اور فرمائش کردی ۔
وہ آکے پہلو میں ایسے بیٹھے…کہ شام رنگین ہوگئی ہے
لتا جی کی مسحور کن آواز نے کانوں کے پردوں پر میٹھی سی دستک دی، ان کا ساتھ شبیر کمار بخوبی دے رہے تھے۔ میوزک ڈائریکٹر لکشمی کانت پیارے لال کی یہ دُھن فلم غلامی سے تھی مگر ان سب خوبیوں کے باوجود بلال اسے صرف گلزار صاحب کی وجہ سے سنتا تھا کیونکہ یہ گلزار صاحب کا لکھا ہوا تھا، بلکہ اس USB کے سارے گانے ہی گلزار صاحب کے لکھے ہوئے تھے۔
ذرا ذرا سی کھلی طبیعت…ذرا سی غمگین ہوگئی ہے
یہ شام نہیں تھی …بلکہ رات تھی۔ محبوب پہلو میں ہو تو کیا شام اور کیا رات تب تو اندھیرے بھی رنگین ہوجاتے ہیں۔
پانچ منٹ سے پہلے ہی وہ سینما کی پارکنگ میں تھے۔ ہینڈ بریک کھینچتے ہوئے بلال کا ہاتھ غیر ارادی طور پر نوشی کے ہاتھ سے ٹکراگیا۔ نوشی نے فوراً بلال کی طرف دیکھا، بلال بھی اُسے دیکھ رہا تھا…نوشی کے لبوں پر میٹھی مسکراہٹ تھی۔ بلال نے منہ میں Sorryکہا آواز نہیں نکلی مگر نوشی نے سن لیا۔ نوشی جاذبیت سے بلال کے رخ پُر نور کو دیکھ کر دلفریبی سے مسکرائی پھر اپنی نظریں جھکالیں۔
یہ شرم ہے …یا حیا ہے …کیا ہے …نظر اٹھاتے ہی جھک گئی ہے
گانا تو ختم ہو چکا تھا مگر محبت کی کہانی دوسری طرف سے اب شروع ہوئی تھی، نوشی کی طرف سے۔ بلال تو بچپن ہی سے اسی کا تھا۔
’’چلو اترو بھی فلم شروع ہوجائے گی ‘‘توشی چلا رہی تھی ۔
’’ابھی پانچ منٹ باقی ہیں‘‘بلال نے بتایا۔
’’اندر جانے میں بھی تو ٹائم لگے گا‘‘ توشی نے بتایا۔
چند منٹ بعد وہ ڈیفنس کے سینما ہال کے اندر تھے۔ دونوں بہنیں بلال کے ساتھ بیٹھنا چاہتی تھیں، اس لیے بلال خود ہی سینٹر میں بیٹھ گیا…ہاف ٹائم میں بلال نے دونوں سے پوچھا:
’’ کچھ لائوں کھانے کے لیے ؟ ‘‘ توشی بولی:
’’مجھے تو کچھ نہیں چاہیے‘‘بلال نے نوشی کی طرف دیکھا۔
’’Popcornصرف‘‘نوشی نے دھیمی آواز میں فرمائش کی۔
تھوڑی دیر بعد بلال دو پاپ کارن کے پیکٹ اٹھائے ہوئے واپس اپنی سیٹ پر تھا۔ فلم شروع ہوچکی تھی، لائٹیں بند تھیں۔ بلال غور سے فلم دیکھ رہا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ پر نوشی نے بایاں ہاتھ رکھا اور اس کے کان میں سرگوشی کی ۔
’’Popcornکھائو نا‘‘
بلال جب بھی Popcorn اٹھاتا اس کا ہاتھ نوشی کے ہاتھ سے ٹکراجاتا جوکہ نوشی اپنی مرضی سے کر رہی تھی، اُسے بلال کو چھونا اچھا لگ رہا تھا…فلم ختم ہوگئی۔
تالیاں، سیٹیاں، تعریفی جملے، تبصرے، اردو میں ہونی چاہیے تھی مگر پھر بھی زبردست، یقین نہیں آرہا یہ پاکستانی فلم، ایسا لگا HollyWood کی کوئی Movieدیکھ رہے ہیں، Nice Movie, Action Too Much, Very wellہال میں جتنے لوگ تھے، سب کی اپنی اپنی رائے تھی، باہر آتے آتے کئی تبصرے اور تعریفیں کانوں میں پڑیں مگر یہ تینوں خاموش تھے۔ گاڑی میں بیٹھ کر توشی پھر سے بولنے میں بازی لے گئی۔
’’کوئی اور پروگرام کریں، آئس کریم کھانے چلتے ہیں ‘‘ توشی کی طرف سے مشورہ آیا۔
’’اس وقت…؟ بہت دیر ہوجائے گی‘‘ آئس کریم کا موڈ بھی نہیں ہے…ہاں اگر کافی ہوجائے تو…مزہ آجائے…‘‘ نوشی نے اپنے دل کی بتا دی۔
’’کافی…کافی…کہاں سے …ہاں یاد آیا…بلال صاحب پلائیں گے اپنے ہاتھوں سے بناکر …نوشی تمہیں پتہ ہے…بلال بڑی مزیدار کافی بناتا ہے‘‘توشی نے سارے فیصلے خود ہی کرلیے تھے۔ بلال نے گاڑی اسٹارٹ کی۔
’’اب ایسا کرو ایک نیا گانا لگائو اگر راحت کا ہو تو کیا بات ہے ‘‘توشی پھر سے انسٹرکشن دے رہی تھی، ایک ڈکٹیٹر کی طرح۔
ایسی اُلجھی نظر ان سے ہٹتی نہیں…دانت سے ریشمی ڈور کٹتی نہیں
راحت فتح علی خاں کی دلفریب آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔
دھند کی وجہ سے ونڈ اسکرین سے کچھ نظر نہیں آرہا تھا مگر بلال ایک ماہر ڈرائیور کی طرح گاڑی احتیاط سے چلا رہا تھا۔ گاڑی بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی، دھند اتنی زیادہ تھی کہ باہر کچھ نظر نہیں آرہا تھا، ایسے محسوس ہورہا تھاجیسے بادلوں کے درمیان سے جارہے ہوں، بلال جہاز اڑا رہا ہو اور نوشی اس کے پہلو میں بیٹھی ہو اوپر سے راحت کی آواز کا جادو جیسے نوشی کے دل کا ہی حال بیان کر رہا ہو۔ گانا ختم ہوا ہے، نوشی نے دوبارہ Playکیا، ایک دفعہ پھر وہی آواز کا جادو نوشی کو ایسے محسوس ہورہا تھا جیسے وہ کسی اور دُنیا میں ہو۔
واللہ یہ دھڑکن بڑھنے لگی ہے…چہرے کی رنگت اڑنے لگی ہے
ڈر لگتا ہے تنہا سونے میں جی دل تو بچہ ہے جی
نوشی نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور دھڑکن محسوس کرنے کی کوشش کی دھڑکن تو تھی مگر دھک…دھک …کی بجائے …بلال …بلال…کی صدا تھی، اس نے مخمور نگاہوں سے بلال کو دیکھا جو گاڑی چلانے میں مصروف تھا۔ (میرا دل آج اس کا نام کیوں لے رہا ہے، کیوں…دھک دھک نہیں کر رہا؟ اس نے دل کی گستاخی دل ہی سے پوچھی…اس نے دل سے کہا تم اصولوں کو توڑ رہے ہو۔ تم میرے تابع ہو میرا حکم مانو اور دھک دھک کرو اس کا نام لینا بند کرو…ورنہ…میں تمہیں…سزا دوں گی…)
دل مسکرا کر بولا : (نسیم جمال…! تمہاری بھول ہے میں تمہارا غلام نہیں ہوں، ہم سے تم ہو …تم سے ہم نہیں۔ رہا سزا کا سوال…تو وہ بھی ہم ہی دلواتے ہیں… ہمیں اس مالک کے علاوہ کوئی سزا نہیں دے سکتا، اسی خالق کے حکم سے ہم دھڑکتے ہیں اور اسی کے حکم سے ہماری دھڑکن بند ہوتی ہے۔ ہاں میری ایک نصیحت یاد رکھنا … دل نے نوشی کو ایک درویش کی طرح کہا : میں بہت گہرا ہوں…بڑا ہوں…وسیع ہوں…اللہ کی شان ہے… دُنیا کے سارے راز مجھ میں سماسکتے ہیں دنیا کے سارے علوم میں جذب کرسکتا ہوں مگر میں محبت اور شک میں سے صرف ایک کو رکھتا ہوں…آج بلال کی محبت ہے اگر شک آیا تو پھر محبت چلی جائے گی …)
دل کی دو ٹوک، کھری کھری، سچی اور حقیقت پر مبنی باتوں نے نوشی کے ہوش ٹھکانے لگادیے۔
گیٹ پر ہارن بجا، دروازہ کھلا، بلال کی گاڑی اندر پورچ میں پہنچ گئی۔
پانچ منٹ کا فاصلہ دس منٹ میں طے ہوا ۔تھوڑی دیر بعد وہ تینوں بلال کے روم میں تھے۔
’’اب جلدی سے کافی پلادو اور ہاں ہیٹر بھی جلادو…بہت سردی ہے…اور یہ دھند … کل تو چھٹی پکی… کسٹمر کدھر نکلتا ہے ایسی دھند میں ‘‘ بلال خاموشی سے توشی کی انٹ شنٹ سن رہا تھا اور نوشی ٹک ٹکی باندھے بلال کو دیکھ رہی تھی۔ توشی بلال کے بیڈ پر بیٹھ گئی اور نوشی اسی جگہ دیوان پر بیٹھی جہاں بلال بیٹھا تھا، بلال ہیٹر جلاچکا تھا اور کافی بنانے میں مصروف تھا۔
’’ہائے اللہ …عائشہ خان کی آنکھیں…اور حمزہ علی عباسی کی Smile…اور شان …کی کیا بات ہے…واقعی شاندار ہے…مزہ آگیا‘‘ توشی فلم پر تبصرہ کر رہی تھی، نوشی کی طرف دیکھ کر جوکہ چور نگاہوں سے بلال کو دیکھ رہی تھی۔ توشی مسلسل فلم کی باتیں کر رہی تھی۔ مگر نوشی سنی ان سنی کر رہی تھی،اسے کچھ یاد نہیں توشی نے کس کے بارے میں کیا کہا۔ چند منٹ بعد بلال ان کو کافی پیش کر رہا تھا۔
توشی کو اس نے چھوٹی ٹرے میں کافی اور بسکٹ بیڈ پر ہی دے دیے اور نوشی کو دیوان پر بڑی ٹرے رکھ دی جس میں دو مگ او ر بسکٹ تھے بلال نے کرسی پکڑی اور بیٹھ گیا۔
’’نوشی…!تمہیں فلم کیسی لگی…؟‘‘توشی نے بسکٹ کھاتے ہوئے پوچھا۔
’’مزیدار…سویٹ…‘‘نوشی کافی کا سپ لیتے ہوئے بلال کی طرف دیکھ کر بولی۔
’’تم کافی کی بات کر رہی ہو یا فلم کی؟ ‘‘توشی نے وضاحت مانگی ۔
نوشی نے اپنے آپ کو کنٹرول کیا اور وضاحت پیش کی:
’’کافی واقعی بہت مزیدار ہے فلم بھی بہت اچھی تھی ‘‘
’’کس کاکام تمہیں سب سے اچھا لگا؟ ‘‘توشی نے پوچھا۔
’’مجھے…مجھے تو سچی …میشا شفیع اور شمعون عباسی کا کام بہت اچھا لگا اور خاص طور پر ان دونوں کا ڈانس‘‘
’’تمہیں ہمیشہ یہ Bad Men ہی کیوں اچھے لگتے ہیں ہمیشہ ولن پسند کروگی‘‘
توشی اپنی بہن کی پسند سے متفق نہیں تھی اور ناراضی کا اظہار کر رہی تھی۔
’’توشی جی …!فلم کی بات ہورہی ہے آپ اس نقطہ نظر کوسمجھیں اور بس‘‘
بلال کو معلوم تھا کہ یہ دونوں کافی دیر سے لڑی نہیں ہیں کہیں اب شروع نہ ہو جائیں۔
’’آپ نے تو بتایا ہی نہیں… آپ کو کس کا کام پسند آیا؟‘‘نوشی اپنا پسندیدہ بسکٹ ہاتھ میں لیے ہوئے بلال سے پوچھ رہی تھی۔
’’بلال کا کام سب سے اچھا تھا‘‘بلال نے کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے جواب دیا۔
’’یہ لو … ان کی سنو …یہ اپنی ہی تعریفیں شروع ہوگئے‘‘توشی نے دایاں ہاتھ بلال کی طرف لہراتے ہوئے تبصرہ کیا تھا۔
’’تم بھی ایک نمبر کی ڈفر ہو بس بک بک سن لو ان کی ‘‘نوشی نے توشی کو کھری کھری سنا دی۔
’’اب کیا میں نے بول دیا…جو اتنا بھڑک رہی ہو؟‘‘توشی معصومیت سے بولی۔
’’میں بلال لاشاری کی بات کر رہا تھا ‘‘
’’As a Directorاس کا کام اچھا تھا اور Cinematography میں تو اس نے کمال ہی کردکھایا جتنی تعریف کی جائے کم ہے‘‘ بلال نے میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی رائے دی۔ سب کافی ختم کرچکے تھے۔
’’چلو شاباش اٹھو…پہلے ہی بڑی دیر ہوگئی ہے ‘‘توشی نے چٹکی بجاتے ہوئے حکم دیا۔ وہ دونوں کمرے سے باہر نکل آئیں، توشی آگے تھی اور نوشی پیچھے کمرے کے دروازے سے نکلتے ہوئے نوشی نے جھوم کر پیچھے کی طرف دیکھا…جیسے ان لمحوں کو اپنی آنکھوں سے اپنے دماغ کے خزانوں میں محفوظ کر رہی ہو۔ بلال بھی اسے دیکھ رہا تھا، نوشی اپنے پورے چہرے کے ساتھ مسکرائی۔ بلال نے صرف تبسم پر اکتفا کیا، وہ جا چکی تھی۔
ذرا ذرا سی کھلی طبیعت…ذرا سی غمگین ہوگئی ہے
کوئی ڈر…خوف… پریشانی…خدشہ تھا… کوئی کھٹکا سا تھا… بلال کا دل خوش تھا پریشانی دماغ کو تھی۔
’’تم یہ جو ہر وقت برے لوگوں کی تعریفیں کرتی رہتی ہو…ہمیشہ تمہیں ولن گروپ ہی کیوں اچھا لگتا ہے ‘‘توشی اپنے کمرے میں پانی پیتے ہوئے بول رہی تھی۔ وہ اپنے بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی لے کر کھڑے کھڑے غتاغٹ پی گئی۔ نوشی تکیہ لیے ہوئے دائیں ہاتھ کو گردن کے نیچے رکھے ہوئے آدھی لیٹی آدھی بیٹھی بول پڑی :
’’مجھے بھی پانی دینا‘‘
’’یہ لو ڈارلنگ ‘‘توشی نے پانی کا گلاس تھماتے ہوئے کہا۔
’’بھر کے تو دیتی…یہ تو آدھا خالی ہے‘‘نوشی نے پانی پینے سے پہلے کہا تھا۔
’’یہ لو…نوشی جی…اتنی سردی میں…پورا گلاس… پاگل ہو‘‘
’’کسی بھی کہانی میں اگر ولن نہ ہو…تو کہانی ادھوری ہے …ولن ہی تو کہانی میں ٹوئسٹ لاتا ہے…تم نے آج دیکھا نہیں…شمعون نے شان کو کیسا وخت ڈالا ہوا تھا‘‘نوشی نے توشی کو خالی گلاس تھماتے ہوئے بتایا۔
’’یہ لو…او…ولن کی ویم…کھل نائیک کی کھل نائیکہ…اب سو بھی جائو‘‘توشی کمرے کی لائٹ بند کرتے ہوئے بولی۔ اُس کے بعد کمبل کھولا اور بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہنے لگی :
’’اگر آج تم نے کمبل کھینچا تو…اسی وقت لگادوں گی…مجھے تو یہ ڈر ہے اصل زندگی میں کسی ولن کے ہتھے نہ چڑھ جانا۔‘‘
’’ہم جیسے نہ ہوں تو ان امیر زادیوں کا پیسہ کون کھائے گا‘‘ہاتھ میں وِسکی کا گلاس اُٹھائے ولید ہاشمی عالیہ زی کو دیکھ کرکہہ رہا تھا۔
’’چلو اوپر چلتے ہیںمیرے سر میں شور کی وجہ سے درد ہورہا ہے‘‘ارم واسطی بولی۔
یہ مشہور Fashion Designer عالیہ زی کی پارٹی تھی، رات کے اس پہر سارے تھرکتے بدن تھک چکے تھےDJنے شاید ہی کوئی ڈانسنگ نمبر چھوڑا ہو، اس بڑے سے بیسمنٹ ہال میں کمال کی لائٹنگ تھی جو کہ گانے کے موڈ اور میوزک کے مطابق ہوتی، ایک سائیڈ میں چھوٹا سا Pubb اور اس کے ساتھ کونے میں DJ کا سیٹ اپ تھا۔
عالیہ زی شہر کی ایک مشہور ڈیزائنر تھی، اس کے کپڑوں کی طرح اس کی پارٹی بھی شاندار ہوتی ، Western رنگ میں رنگی ہوئی شراب، کباب، میوزک اور وہ سب کچھ جو اس طرح کی پارٹیوں میں ہوتا ہے۔
اس بڑے سے فارم ہائوس کی چھت پر بھی عجیب منظر تھا۔ ایک طرف باربی کیو کا پروگرام مٹن، چکن، فش اور کباب کولڈ ڈرنکس اور سویٹس اور دوسری طرف شیشہ پینے والے اور چرس کے شوقین ٹیبلوں پر ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ ایلیٹ کلاس کے سارے لو برڈز موجود تھے اور کچھ کوّے بھی تھے جو ہنس بننے کی کوشش میں تھے۔
کئی مشہور ایکٹریس ، بیوروکریٹس کلاس کے لوگ، بزنس کمیونٹی کے لوگ، مشہور ماڈلز، سیاسی لوگوں کے چیلے ، کچھ لوگ اپنے کارڈ بانٹ رہے تھے اور کچھ دوسروں کے وزٹنگ کارڈ اکٹھے کر رہے تھے۔
کہیں فوٹو سیشن چل رہا تھا اور کچھ لوگ مشہور ایکٹریسز کو دیکھ کر پہلے اس کے کردار میں کیڑے نکالتے پھر اسی کے ساتھ تصویر بھی بنواتے اور ساتھ ہی Facebook پر اَپ لوڈ بھی کردیتے۔ کہیں بریک اَپ کی باتیں اور کہیں افیئرز کے چرچے اور کچھ ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پر اپنے تبصرے پیش کر رہے تھے۔ کچھ ایسے نمونے بھی تھے جنہوں نے کھانے کو ہاتھ ہی نہیں لگایا، کچھ کو فگر کی فکر ۔
’’میں تو کھاکے آیا تھا بس عالیہ زی کی پارٹی تھی، اس لیے حاضری لگوائی، ورنہ میں تو بہت بزی تھا‘‘ایک طرف سے آواز آئی، ٹی وی کا ایک مشہور ایکٹر تھا۔
اور کچھ ایسے بھی تھے جو زندگی کا آخری کھانا کھارہے تھے، پیٹ تو بھرگئے مگر ندیدی آنکھیں ان کا کیا کریں؟
رات سرد تھی، پھر بھی یہ لوگ انجوائے کر رہے تھے، سردی محسوس کرنے والے آگ کی انگیٹھیوں کے گرد اور کچھ گرین فابر کی Roofکے نیچے شیشہ پینے میں مصروف تھے۔
’’وہ جو اس کونے میں بیٹھا ہے بلیک لیدر کی جیکٹ میں ‘‘ارم واسطی ولید کو بتارہی تھی۔
’’وہ جو نتاشا کے ساتھ ہے؟ ‘‘ولید ہاشمی نے پوچھا۔
’’ہاں …وہی…یہ نوشی توشی کا بھائی ہے بڑا روپیہ ہے اس کے پاس۔ ‘‘
’’تو چلائو چکر‘‘ولید ہاشمی نے مشورہ دیا۔
’’کوشش کی تھی …مگر …بات نہیں بنی…بڑا کھچرا ہے…پھر میں نے سوچا…‘‘
’’کیا سوچا تم نے؟ ‘‘ ولید ہاشمی نے مٹن تکہ کھاتے ہوئے پوچھا، ساتھ ہی کہنے لگا : ’’ تم بھی کھائو … بہت Tastyہے‘‘
ارم نے تکہ کھانے کی بجائے مال بنانے کا نسخہ دے ڈالا :
’’ایک پلان ہے…اگر تم تھوڑی کوشش کرو…ساری معلومات میں دوں گی… اس کی بہنیں یعنی میری باس ایک بھی پھنس گئی تو کروڑوں ہاتھ لگیں گے‘‘
’’وہ کیسے…؟‘‘ولید نے تکے والی پلیٹ رکھتے ہوئے جلدی سے پوچھا۔
’’دونوں بہنوں کے نام پر دو دو پلازے اور دو دو گھر ہیں اور بینک بیلنس بھی کروڑوں میں ہے۔ بھائی ان کا اپنی ماں کے بغیر کچھ نہیں کرتا، سوائے عیاشی کے وہ بھی ہزاروں میں اور بس…تمہیں پتہ ہے اس کے افیئرز اس کی کنجوسی کی وجہ سے ختم ہوتے ہیں ‘‘
ارم واسطی ایسی مچھلی تھی جو کھارے میٹھے اور گدلے پانیوںکا سفر کرچکی تھی اور بڑے بڑے مگرمچھوں سے علیک سلیک تھی چند سال پہلے جنوبی پنجاب دنیا پور سے لاہور آئی محبت کے جھانسے میں پھر واپس نہیں گئی۔
ولید ہاشمی حجرہ شاہ مقیم کا رہنے والا تھا، Up Coming ماڈل لمبا قد سانولی رنگت لمبے بال اسٹائلش پرسنالٹی، وہ الُّو شاٹ کٹ سے امیر بننا چاہتا تھا۔ الُّو کی ایک اور خوبی اس میں تھی وہ اکثر پرندوں کا شکار رات کو کرتا تھا۔
ارم اور ولید ایک دوسرے کے ساتھ دو سال سے تھے اگر وہ کسی اور کے ساتھ نہ ہوتے …تو اکٹھے ہوتے، ان کی راتیں اکٹھی گزرتیں۔ اس تعلق کو محبت کا نام دینا محبت کی توہین ہوگی، ہاں ایک بات ضرور تھی کہ وہ دونوں ایک دوسرے کی عادت بن چکے تھے۔ زندگی کا سفر ختم ہوجاتا ہے مگر انسان کی عادتیں رستہ نہیں بدلتیں۔
’’نانو…! یہ میں آپ کے لیے لایا تھااور یہ باجی غفوراں کو دے دیجیے گا ‘‘بلال نے گرم شال نانو کو پیش کی ۔
’’یہ تو بڑی اچھی ہے…کہاں سے لی…؟‘‘نانو شال کو دیکھتے ہوئے بول رہی تھیں۔
’’کوئٹہ سے منگوائی ہے ‘‘ بلال نے بتایا۔
’’وہاں…کس سے …؟‘‘نانو نے حیرت سے پوچھا۔
دروازے پر دستک ہوئی ’’آجائو‘‘ بلال بولا۔
’’بیگم صاحبہ آپ کا دودھ‘‘ غفوراں دودھ کا مگ ٹرے میں رکھے ہوئے کھڑی تھی۔
’’یہ آپ کے لیے باجی غفوراں…! ہاں آپ کے لیے ‘‘بلال نے حیرت میں ڈوبی غفوراں کو بتایا۔
’’مگر…بلال بیٹا…ابھی عید پر تو تم نے کپڑے لے کر دیے تھے ‘‘
’’کوئی بات نہیں آپ رکھ لو ‘‘
’’وہ بیٹا میرے نواسے کو تم نے اپنے اسکول میں داخلہ دے کر بڑا احسان کیا مجھ بیوہ پر…‘‘
’’وہ لائق بچہ ہے …ان شاء اللہ پڑھ جائے گا…پھر آپ کے حالات ٹھیک ہوجائیں گے، یہ جنجوعہ صاحب کے کسی دوست کے بھائی کی دکان ہے کوئٹہ میں، وہاں سے منگوائی ہے۔ اچھا نانو…اجازت دیں…مجھے اسکول سے دیر ہورہی ہے‘‘ بلال نے جانے سے پہلے نانو سے پیار لیا اور وہاں سے چلا گیا۔
’’میں واری میں صدقے اللہ کی قسمیں بیگم صاحبہ اللہ مجھے ان تین مشٹنڈوں کی بجائے بلال جیسا ایک ہی پُتر دے دیتا ‘‘ غفوراں بلال کے جانے کے بعد بولی۔
’’نا… نا… غفوراں ایسی باتیں نہیں کرتے…دُعا کر اللہ تیرے بیٹوں کو ہدایت دے ‘‘جہاں آرا بیگم نے سمجھایا۔
فون پر بیل ہوئی… بلال نے کال ریسیو کی :
’’کہاں ہو…؟‘‘توشی فون کی دوسری طرف سے بولی۔
’’آفس میں…‘‘بلال نے جواب دیا۔
’’کب تک آئو گے؟ ‘‘
’’اُسی وقت …خیریت ہے؟ ‘‘
’’ایک تو کام ہے …اور ایک گلہ بھی…تم آتے ہو…تو پھر بات ہوتی ہے …اوکے بائے Take Care‘‘ توشی نے فون بند کر دیا۔
فوزیہ آج صبح ہی سے بہت خوش تھی اور سارے کام فٹافٹ کر رہی تھی اور آج اس نے وہی بلوچی فراک پہنی ہوئی تھی جو بلال نے اسے گفٹ کی تھی۔
’’سر! …یہ آپ کے لیے …‘‘ٹفن کا ایک ڈبہ اس نے بلال کے سامنے رکھ دیا۔
’’کیا ہے …اس میں…؟‘‘بلال نے پوچھا۔
’’سر !…میں نے کھیر بنائی تھی آپ کے لیے …خالص دودھ کی ہے …پیکٹ سے نہیں بنائی…بادام اور کاجو بھی ڈالے ہیں…لیاقت علی نے شارجہ سے بھیجے تھے‘‘فوزیہ اپنی بنائی ہوئی کھیر کی خوبیاں بیان کر رہی تھی۔
’’اور کچھ تو نہیں ڈال دیا اس میں …آخر تم میرے سارے رازوں سے واقف ہو ‘‘بلال نے شرارتی انداز میں کہا۔
’’سر!…قسم سے …آ پ میرے بارے میں ایسا سوچتے ہیں ‘‘فوزیہ معصومیت سے بولی۔
’’ہاں تو …تمہارا کیا بھروسہ…ویسے بھی تو تم ساری باتیں دوسروں کو بتاتی ہو ‘‘بلال کھیر کھاتے ہوئے بول رہا تھا۔
’’سر!…قسم سے…میں نے کچھ نہیں بتایا کسی کو‘‘فوزیہ بھولی سی صورت بناکر بولی۔
’’وہ جو …فرح بھابھی کو طارق رامے کے قصے سناتی ہو…وہ کیا ہے …؟‘‘
’’سر!…قسم سے …وہ تو ایسے ہی زبان پھسل گئی تھی …ویسے سر ! آپ کو کیسے پتہ چلا ‘‘
’’فرح بھابھی نے جنجوعہ صاحب سے بات کی اور جنجوعہ صاحب نے مجھ سے ‘‘
’’اور تم توشی کو بھی ساری رپورٹ دیتی ہو…میرے بارے میں ‘‘
’’سر…وہ تو میری فرینڈ ہے…Facebook پر بات ہوجاتی ہے ‘‘
’’ٹھیک ہے …ضروربات کرو…مگر آفس کی نہیں…اور نہ ہی میرے متعلق ‘‘
’’سر!…قسم سے …توشی بڑی چالو ہے …باتوں باتوں میں پوچھ لیتی ہے ‘‘
’’فوزیہ جی …!آفس کی بات باہر نہ کرو…اور گھر کی بات آفس میں نہ ہو … آفس کو آفس میں چھوڑ کر جائو…اور گھر کو گھر چھوڑ کر آئو ‘‘
فوزیہ نے چترائی سے بات بدلی:
’’سر…! آپ کو پتہ ہے …جنوری میں لیاقت علی دو مہینے کی چھٹی پر آرہا ہے، اس کے آنے کے ایک ہفتہ بعد ہماری شادی ہے ‘‘ فوزیہ نظریں جھکائے شرما رہی تھی۔
’’اچھا …اچھا… تم نے کھیر اس لیے بنائی ہے‘‘
’’سر…! ایک اور بات…مجھے دو مہینے کی چھٹی بھی چاہیے ‘‘
’’کب سے …کب تک؟ ‘‘بلال نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’لیاقت علی کے آنے سے ایک دن پہلے سے اور جانے کے ایک دن بعد تک …‘‘ فوزیہ کے گال شرم کی وجہ سے سرخ ہوگئے تھے اور آنکھوں میں کئی خواب جاگ اٹھے تھے۔
’’ہاں سر!… ایک اور بات …ایک معذرت ایڈوانس میں قبول کرلیں ‘‘
’’وہ کیا …؟‘‘بلال کو اندازہ تھا کہ اس نے پھر کوئی بونگی مارنی ہے۔
وہ میں نہیں بتاسکتی ابھی…آج کل میں آپ کو پتا چل جائے گا …بلال گردن کو جنبش دیتے ہوئے مسکرایا، وہ سب کچھ سمجھ گیا تھا۔
’’ایک شرط پر تمہاری معذرت قبول کروں گا۔‘‘
’’وہ کیا…سرجی…؟‘‘فوزیہ جھپاک سے بول اٹھی۔
’’فوزیہ جی …حضرت عمرؓ کے ایک قول کا مفہوم ہے …اگر آقا اپنا راز اپنے غلام کو بتادے تو سمجھو، غلام آقا بن گیا اور آقا اس کا غلام… زندگی میں اپنا راز کسی کو نہ بتائو اگر کوئی تمہیں اپنا راز بتادے تو وہ اس کی امانت ہے…اس میں خیانت نہ کرو آئندہ رازداری رکھنا یہی شرط ہے ‘‘
’’ویسے BG !بلال کے بارے میں کیا جانتی ہو ‘‘نوشی نے پوچھا۔
’’میں جی…وہ تو کھلی کتاب ہے جی …اس کے بارے میں کیا جاننا …‘‘
’’پھر بھی …BGکچھ ایسا جو تمہاری توشی میڈم کو نہ پتہ ہو …‘‘
’’نوشی بی بی…! میں اپنے بچوں کو اتنا نہیں جانتی جتنا آپ سب لوگوں کو جانتی ہوں۔ کنواری تھی جب میری ماں مجھے لے کر آئی تھی …
بڑے چوہدری صاحب نے دیکھا تو آپ کے ڈیڈی کو بلایا اور کہا …جس طرح جمیلہ میری بیٹی ہے …اسی طرح یہ بھی …بہن کا خیال رکھنا …بڑے سیانے تھے آپ کے دادا…چور کو چوکیدار بنادیتے تھے‘‘
’’چورکو چوکیدار…‘‘نوشی نے تجسس سے الفاظ دہرائے۔
’’نوشی بی بی ابھی آپ کو سمجھ نہیں آئے گی‘‘BGنے اپنی بات کی وضاحت کی ۔
’’تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے تم آج پھر گھر پر ہو…؟‘‘ناہید نے سرزنش کرتے ہوئے کہا جو کہ سیلابی ریلے کی طرح اندر داخل ہوئی تھی ۔
’’تم جائو…اور میرے لیے چائے لائو…‘‘BG کو دیکھ کر حکم صادر کیا۔
’’ تم دونوں رات کہاں گئی تھیں…؟ جانے سے پہلے کسی سے پوچھ تو لیا کرو‘‘
’’میں آپ کے روم میں بتانے گئی تھی …مگر آپ خود کسی پارٹی میں جاچکی تھیں‘‘
’’فون نہیں کرسکتی تھی‘‘ناہید غصے سے چلّائی۔
’’ماما …! کیا ہوگیا ہے آپ کو …میں نے آپ کا ایسا ری ایکشن پہلے کبھی نہیں دیکھا ‘‘
’’پہلے تم نے ایسی حرکت بھی تو نہیں کی ‘‘ناہید تڑاخ سے بولی۔
’’فار گاڈ سیک…ایسا کیا کردیا ہے…آپ کیوں اتنی ہائپر ہورہی ہیں ‘‘
’’مجھے بتائو… میں نے تمہیں کبھی روکا ہے کہیں بھی جانے سے …تمہیں خبر بھی ہے تمہاری اس حرکت سے میں کتنی ہرٹ ہوئی ہوں…؟‘‘
’’ویسے ماما…! مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے …توشی بھی ساتھ تھی…دادو سے اجازت لے کر گئے تھے اور بلال بھی ساتھ ہی تھا…‘‘نوشی اطمینان سے بتارہی تھی ۔
’’یہی تو…اصل وجہ یہی ہے …‘‘ناہید دانت پیستے ہوئے بولی۔
’’ماما…! سچ کہوں…وہ ایسا نہیں ہے …جیسا آپ نے مجھے ساری زندگی بتایا ‘‘نوشی نے سادگی سے اپنی ماں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سب کچھ کہہ دیا۔
’’تم بھی توشی کی زبان بول رہی ہو۔ بائی دا وے تم پر یہ حقیقت کب کھلی؟‘‘ناہید غصے میں بولی۔
نوشی مسکراتے ہوئے اپنی ماں کے گلے لگ گئی۔
’’آپ غصہ نہ ہوں آئندہ آپ کی پرمیشن لے کر جائوں گی ‘‘
’’وہ اچھا لڑکا نہیں ہے ‘‘ناہید نے شوشہ چھوڑا۔
’’3بجے تک اسکول سے فارغ ہوجاتا ہے …گھر مغرب کے بعد آتا ہے …چھٹیاں یہ باہر گزارتا ہے اور ہر اتوار صبح نو بجے چلا جاتا ہے اور رات کو واپس آتا ہے…
کسی کو انفارمیشن نہیں کہا ں ہوتا ہے سارا دن…پچھلے آٹھ دس سال سے ایسے ہی ہے … ٹپیکل پینڈو ہے…بیک ورڈ سوچ کا مالک…‘‘
دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھلا تھا، SMS چائے کی ٹرالی کے ساتھ برآمد ہوا۔
’’آجائو…SMS…‘‘نوشی نے کہا۔
’’یہ آپ کی چائے ‘‘SMSنے چائے ناہید کو پیش کی ۔
’’آپی آپ کے لیے کیا بنائوں؟ ‘‘SMS نے نوشی کو دیکھ کر پوچھا۔
’’ماما جیسی چائے ‘‘نوشی نے ناہید کو مسکا لگایا
’’اور SMS کیا خبر ہے تمہارے پاس ‘‘نوشی چائے کا سپ لیتے ہوئے بولی۔ وہ کوئی گوسپ سننے کے موڈ میں تھی۔
’’آپی…آپ کو پتہ ہونا چاہیے‘‘SMSنے اپنی بات میںتجسس پیدا کیا ۔
’’نہیں…سچی مجھے کچھ نہیں پتہ ‘‘نوشی بھولی صورت بناکر بولی۔
SMSنے ادھر ادھر دیکھا پھر ہولے سے کھسر پھسر کے انداز میں بتانے لگا :
’’DJ کی پھر سے منگنی ٹوٹ گئی ہے ‘‘
آپی میرا نام مت بتائیے گا، ویسے یہ تیسری دفعہ ہوا ہے اس کے ساتھ ‘‘
’’اسی سے پوچھ لو…ریالٹی کیا ہے …اور Fakeکیا ہے …بتائو SMSسب کچھ بتائو جو تمہیں معلوم ہے…‘‘
ناہید کے الفاظ نفرت کا لباس پہنے ہوئے تھے اور SMSکے چہرے پر حیرانی تھی۔ نوشی نے متجسس نظروں سے اپنی ماں کو دیکھا ۔
’’SMS…! تمہیں پتہ ہے، بلال ہر سنڈے کہاں جاتا ہے؟ ‘‘ناہید نے ترش لہجے میں پوچھا۔
’’نہیں جی …مجھے تو نہیں پتہ ‘‘SMSکھلے منہ کے ساتھ بولا۔
’’اور اسکول کے بعد کہاں جاتا ہے؟ ‘‘ناہید نے دوبارہ سخت لفظوں سے حملہ کیا۔
’’نہیں…ہاں…وہ …جی…وہ موچی بابا کے پاس بیٹھا ہوتا ہے ‘‘SMS نے بوکھلاہٹ میں بتایا۔
’’موچی کے پاس…موچی…‘‘نوشی کے الفاظ حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے ۔
’’سن لو …بس یہ کسر باقی تھی …ملک کے بڑے ایکسپورٹر جمال رندھاوا کا بھانجا ایک موچی کے پاس بیٹھتا ہے…‘‘ناہید نے چائے کا آدھا کپ میز پر رکھا۔ چائے سے اُٹھنے والی بھاپ کو شک کا دھواں بنانے کی کوشش کی اور کمرے سے نکل گئی۔
نوشی کے چہرے پر پریشانی تھی SMSکچھ الجھا ہوا تھا، میں نے ایسا کیا کہہ دیا ہے۔ ناہید جاتے ہوئے حقیقت کی زمین پرشک کا بیج ڈال گئی تھی …
اب حقیقت کی زمین پر عشق کا پانی کھڑا تھا مگر جیسے ہی عشق کا پانی اترے گا اور نفرت کی دھوپ پڑے گی تو شک کا بیج دیکھتے ہی دیکھتے برگد کے درخت کی طرح اپنی جڑیں زمین میں دُور دُور تک پہنچا دے گا ۔
شک کا درخت … وہ بھی برگد کی طرح ہی مضبوط اور بڑا ہوتا ہے ۔

۞۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles