26 C
Lahore
Friday, April 26, 2024

Book Store

” احساس کے انداز “

” احساس کے انداز “

تحریر: جاوید ایاز خان

javed ayaz khan

راجا رانی سے میرے جگر تک

بھٹ شاہ میں محبت کی لازوال کہانی

ہمارے ابا جی مرحوم ہم بہن بھائیوں کو رات کے وقت ایک کہانی بار بار سناتے تھے کہ ایک تھا راجا اور ایک تھی رانی۔
چنو اور منو ان کے دو ہی بچے تھے۔ رانی اور راجا گاوں بھر کا مثالی جوڑا تھا۔ ان کی محبت گاؤں بھر میں مشہور تھی۔ بیوی نیک سیرت تو خاوند محنتی اور جفاکش مگر بھولا بھالا اور شریف انسان تھا۔
ذریعہ روزگار ان کی ایک دودھ دینے والی اکلوتی گائے تھی۔
ایک دفعہ بہت بڑا قحط آیا اور لوگ بھوکوں مرنے لگے۔ گائے تک کو چارہ کھلانا مشکل ہو گیا۔ تو میاں بیوی نے گائے بیچنے کا فیصلہ کیا۔ راجا گائے کو  لے کر مویشی منڈی روانہ ہوا تو گھر سے نکلتے ہی گاؤں کے سود خور بنیے لال چند سے ملاقات ہو گئی۔
وہ بولا، راجا کہاں جا رہے ہو؟
راجا نے بتایا کہ گائے فروخت کرنے شہر جا رہا ہوں۔ آگے راستے میں ایک اور شخص ملا جو گھوڑے پر سوار تھا۔
بولا پیدل شہر کیوں جاتے ہو؟ گھوڑے پر جاؤ۔ شہر جا کر بیچ دینا۔
راجا کو بات سمجھ میں آئی۔ گائے دے کر گھوڑا  لے لیا ۔ابھی تھوڑا سفر کیا تھا  کہ ایک اور شخص ملا جو بکری لے کر جا رہا تھا۔
اس  نے کہا، راجا جی یہ بکری لے لو۔ بڑا دودھ دیتی ہے اور ساتھ دو بچے بھی ہیں۔
راجا  نے گھوڑا دے کر بکری لے لی۔
آگے چلا تو ایک بھیڑ والا ملا۔ اس نے کہا، بھیڑ کے بال بہت قیمتی ہوتے ہیں اور دودھ بھی دیتی۔ شہر والے پسند کرتے ہیں۔ یہ لے جاو۔
راجا نے فوراً ہاں کر دی اور بھیڑ لے کر روانہ ہوا۔
آگے ایک شخص مرغا لیے چلا آ رہا تھا۔  وہ بولا، راجا جی، اب شہر میں جانوروں کا نہیں، مرغوں کا دور ہے۔ لوگ مرغ رکھنا اور کھاناپسند کرتے ہیں کیونکہ یہ صبح اذان بھی دیتا ہے۔
راجا  نے  بھیڑ کے بدلے مرغ لے لیا اور چل پڑا۔ شہر میں داخل ہوا تو سخت بھوک لگ چکی تھی۔ ایک نانبائی کی دکان پر گیا اور کھانا مانگا۔  جب پتا چلا کہ راجا کے پاس پیسے نہیں ہیں تو نانبائی نے کہا، مرغ مجھے دے دو اور کھانا کھا لو۔
راجہ کو بھوک لگی تھی۔ فوراً مرغ دے کر کھانا کھا لیا اور خالی ہاتھ واپس گاؤں لوٹ گیا۔
گھر کے باہر لالہ لال چند منتظر تھا کہ قرض وصول کرے۔
راجا  نے ساری داستان لالہ جی کو سنائی تو لالہ جی بولے۔
راجا یہ تو نے کیا کیا؟ میں تو قرض پھر  لے لوں گا مگر تیری بیوی تیری کہانی سن کر تیرا جو حشر کرے گی اور غصہ میں اتنا لڑے گی کہ سارا گاوں تماشا دیکھے گا۔
راجا بولا، میری بیوی رانی مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔ وہ مجھے کچھ نہ کہے گی۔ وہ میرے لیے جان بھی دےسکتی ہے۔
لالہ بولا، تمہاری گائے کتنے کی تھی؟
راجا نے کہا ۵۰ روپے کی۔
وہ بولا، اگر تمہاری  بیوی نے واقعی کچھ نہ کہا تو میں ۱۰۰ روپے کی شرط لگاتا ہوں۔
راجا مان گیا  اور لالہ کو  گھر کی ڈیوڑھی میں کھڑا کر کے گھر میں داخل ہو گیا۔
لالہ جی کان لگا کر سن رہے تھے۔  رانی نے راجا کو دیکھتے ہی آواز دی۔
ارے منو چنو چارپائی بچھاؤ، تمہارے ابا آ گئے ہیں۔ پانی لاؤ۔
منو چنو دوڑتے آئے اور ابا کے پیر دبانے لگے۔ بیوی نے گائے کی تفصیل پوچھی تو راجا  نے روداد شروع کی کہ کیسے اس نے گائے دے کر گھوڑا لیا۔
بیوی سن کر خوشی سے چلائی، یہ بہت اچھا کیا۔ اب ہم پیدل سفر نہیں کریں گے۔ منو چنو گھوڑے کے باندھنے کا انتظام کرو۔ راجا بولا، اللہ کی بندی، پوری بات تو سنو۔
آگے چل کر میں نے بکری اور اس کے بچے لے لیے۔ ایک بار پھر بیوی خوش ہوکر بولی، یہ بہت اچھا کیا۔ منو چنو بکری اور اس کے بچے سنبھالو۔
راجا بولا پوری بات تو سنو۔ پھر میں نے بھیڑ  لے لی تو بیوی بچے خوشی سے اچھلنے لگے۔ بیوی بولی سردی آ رہی ہے۔ بھیڑ کی اُون سے گرم چادر بھی بن جائے گی۔
راجا بولا صبر کرو۔ پوری بات سنو۔ میں نے آگے چل کر مرغ  لے لیا۔
بیوی چہکی، یہ تو بہت اچھا کیا۔ اب صبح مرغ اذان دے کر جگایا کرے گا۔ ارے منو چنو، دوڑو اور مرغ کے لیے ٹوکرے کا انتظام کرو۔
راجا بولا، اللہ کی بندی پوری بات تو سن لو۔  شہر پہنچا تو سخت بھوک لگی تھی۔ مرغ دے کر کھانا کھا لیا ۔بیوی کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
بولی، شکر خدا کا۔  آپ کا پیٹ بھرا۔ یہ سب کچھ ہم اپنے پیٹ کے لیے ہی تو کر رہے تھے۔ تم نے بہت اچھا کیا۔منو چنو، اپنے ابا کے پیر دباؤ۔ یہ بہت تھک گئے ہوں گے اور  خود خاوند کا سر دبانے لگی۔
راجا نے آواز دی۔ لالہ جی آجاؤ اور ۱۰۰ روپے نکالو۔
لالہ جی ڈیوڑھی سے نمودار ہوا۔ ۱۰۰ روپے کی تھیلی راجا کو دی اور کہا، تمہارے جیسا خوش قسمت اور امیر کوئی نہیں ہے۔ میں شرط ہار گیا ہوں۔ دنیا میں محبت کو کوئی نہیں ہرا سکتا۔ میں اسے ہمیشہ ایک جھوٹی کہانی سمجھتا تھا۔ یقین نہیں آتا تھا کہ ایسا ممکن ہے۔ اس قدر بڑے دل کی محبت کرنے والی عورتیں ہوتی ہوں گی؟ جو خاوند کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھیں اور خاوند کے دکھ کو اپنا دکھ۔ تمام عمر میں اس  راجا رانی کی کہانی کا کردار تلاش کرتا  رہا ۔۔۔۔۔۔

کہانی آج جا کر مجھے سچ لگی، جب سوشل میڈیا اور اخبارات میں  بھٹ شاہ کی خاتون کی لازوال محبت کی داستان  سامنے آئی۔  بھٹ شاہ خیرپور سندھ کی ایک خاتون نے گمبٹ ہسپتال میں اپنا آدھا جگر  کا ٹکرا  عطیہ کر کے اپنے خاوند کی جان بچا لی اور محبت کی مثال قائم کر دی۔
اس کا خاوند محمد خان ہیپا  ٹا ٹئٹس سے اور جگر کے کینسر میں مبتلا تھا اور شاہ عبدالقادر جیلانیؒ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس گمبٹ  سندھ میں محمد خان  زندگی سے مایوس زیر علاج تھے۔
ڈاکٹروں نے انہیں پیوندکاری کی تجویز دی تھی جس کے لیے جگر عطیہ کرنے کی ضرورت تھی۔ جس پر ان کی بیوی سامنے آئی اور  اپنی زندگی کو داؤ پر لگا کر شوہر کو اپنے جگر کا  ٹکرا دے کر اس کی جان بچائی۔
کامیاب آپریشن کے بعد خاتوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے شوہر سے بہت پیار کرتی ہے اور یہی میرا سب کچھ ہے۔ میرے جسم کا ہر حصہ لے لو لیکن میرے شوہر کو بچا لو۔  میں شوہر کے بغیر زندہ رہ کر کیا کروںگی۔
آپریشن کے بعد دونوں میٓاں بیوی رو بہ صحت ہیں۔ آپریشن کے بعد ایک انٹرویو میں بیوی نے بتایا کہ ان کی شادی کو دس سال ہو چکے مگر وہ اولاد سے محروم ہیں۔ اس لیے ان کے لیے شوہر ہی سب کچھ ہے۔ جس کے لیے وہ اپنے جسم کے تمام اعضا عطیہ کر نے کو تیار ہیں۔
وہ شوہر سے بے پناہ محبت کرتی ہیں اور اب شوہر  ہی تو ان کا جگر ہے!
اس کامیاب آپریشن اور بے مثال قربانی پر بیوی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ماضی کا قصہ ہو  یا حال کی خبر۔ کسی پرانے زمانے کی بات ہو یا آج کی زندہ حقیقت۔ بیوی کی وفاداری اور محبت لازوال تھی اور رہے گی۔

شوہر کو اپنا جگر دے کر کہتی ہے جگر کے ٹکڑے کو جگر دیا ہے۔
شاہ لطیف نے اسی لیے کہا تھا عورت عشق کی استاد ہے۔ بیوی کا رشتہ تو عورت کا  صرف ایک روپ ہے ورنہ  محبت کرنے والی عورت ہر روپ میں، چاہے ماں ہو، بہن، بیٹی یا بیوی، وفا شعاری، محبت، شفقت، ایثار و قربانی   کا پیکر ہوتی ہے۔ سلام اس ان پڑھ اور محبت کرنے والی خاتون پر جس نے محبت کی لازوال داستان رقم کر دی ۔ یقیناً زندگی کا ساتھ مجبوری کے تحت نہیں بلکہ محبت کی بنیاد پر قائم ہونا چاہیے ۔

 

۞۞۞

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles