25 C
Lahore
Saturday, October 12, 2024

Book Store

ڈینش قوم کی دلچسپ و خاص باتیں|Denmark

خوش و خرم لوگوں کا ملک 
ڈنمارک

چھٹا حصہ

ڈینش قوم کی دلچسپ و خاص باتیں

طارق محمود مرزا، سڈنی

 بین الاقوامی سر وے کے مطا بق ڈنیش دُنیا میں سب سے خوش طبع قوم ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ڈنمارک زندہ دلی میں اوّل نمبر پر ہے۔
اس خطے کے دیگر دو ملک فِن لینڈ اور ناروے بھی اس فہرست میں نمایاں ہیں ۔ مقامی پاکستانی احباب ڈینش عوام کے خوش رہنے کی وجوہ کا واضح تعیّن نہ کر سکے۔ جب یہ تذکرہ ہو رہا تھا تو میں نے ازراہِ تفنّن کہا۔
آ پ کے ہاں جتنی شدید ٹھنڈ پڑتی ہے، اس سے دانت بج اُٹھتے ہوں گے۔ کہیں اس کو اِظہار مسّرت تو نہیں سمجھ لیا جاتا ۔جیسے شیخی خور میراثی کو سمجھا گیا تھا۔
ایک دوست نے کہا، میراثی کا کیا قصہ ہے؟
دوستوں کے اصرار پر میں  نے پورا لطیفہ سنایا۔
ایک میراثی سسرال گیا تو شیخی بگھارنے لگا کہ میں ٹھنڈ سے بالکل نہیں ڈرتا ۔
اس کی شیخی کو ہوا دینے کے لیے اُس کے سالے  نے کہا۔
ہاں! آج رات بھائی جان رضائی کے بغیر چھت پر سوئیں گے ۔
میراثی کی شیخی عروج پر تھی۔
اُس  نے کہا، کیوں نہیں۔ آج رات میں چھت پر ہی سوؤں گا ۔
پوہ ماگھ کا جاڑا عروج پر تھا۔ میراثی چھت پر لیٹ تو گیا لیکن سردی سے اس کے دانت بجنے لگے۔ اسی حالت میں وہ چل بسا۔ صبح اس کی بیوی نے جا کر دیکھا تو بین کرتے ہو ئے بولی، اس کی بہادری تو دیکھو ، مرتا مر گیا مگر ہنسی کم نہ ہو ئی۔
ڈنیش ایک لفظ یا محاورہ اکثر استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے سے بہتر نہیں ہے۔ یہ محاورہ ڈنیش تمدّن کا اہم اصول بن گیا ہے۔ اس قوم  نے تہیہ کر لیا ہے کہ ہر شخص چاہے وہ امیر ہو یا غر یب، گورا ہو یا کالا، برابری کی حیثیت حاصل ہے اور کوئی شخص دوسرے سے بہتر نہیں ہے۔
یہ بات سن کر مجھے محسنِ انسانیت پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے خطبہ حجتہ الوداع کے الفاظ یاد آ گئے جو انہوں  نے چودہ سو برس قبل اِرشاد فرمائے تھے ۔
لوگو تمہارا رب ایک ہے۔ تمہارا باپ ایک ہے۔ تم سب حضرت آدم ؑ کی اولاد ہو اور آدم خاک سے بنے تھے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک معّزز وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہو۔ کسی عجمی پر کسی عربی کو تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت نہیں۔ ہاں جاہلیت کے تمام دستور میرے زیرِپا ہیں، اور جاہلیت کے تمام آثار و مفاخر ختم کیے جاتے ہیں۔
چودہ سو برس قبل دُنیا کی کسی قوم میں اس بات کا تصوّر بھی نہیں تھا جو پیغمبرِ اسلام ﷺ نے فرمائی تھی۔ آج ہم مسلم ملکوں کی طرف نظر دوڑائیں تو اس آفاقی تعلیم کا کہیں اثر دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن یورپ کا غیر مسلم معاشرہ مساوات کا یہ پیغمبرانہ اُصول اپنا کر فلاح، ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن ہے ۔ اسلامی اُمّہ کے اس رِستے ناسُور کی طرف حکیم الامّت ؒ نے یوں توجہ دلائی تھی۔

؎ فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنَپنے کی یہی باتیں ہیں

سائیکل سواری کے لیے ڈنمارک سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے۔ کیونکہ ارضِ ڈنمارک انتہائی مسطح اور ہموار ہے۔ اس میں نشیب و فراز بہت کم ہیں۔ ڈنمارک کا بلند ترین مقام سطح سمندر سے صرف ۱۷۰ فٹ بلند ہے۔ اسکینڈے نیویا میں سائیکل سواری عام ہے۔
گھر کے ہر فرد کی الگ سائیکل ہے۔ باوجودیکہ اُن کے پا س گاڑیاں بھی ہیں اور ایندھن بھی ارزاں ہے، بیشتر لوگ سائیکل پر کام پر جاتے ہیں۔ کوپن ہیگن، سٹاک ہوم اور اوسلو کی سڑکوں پر صبح و شام سائیکلوں کا تانتا بندھا رہتاہے۔
یہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر گاڑیوں کا رش زیادہ نہیں ہے۔ یوں ان کی صحت بھی اچھی رہتی ہے اور ماحول کثافت سے پاک رہتا ہے۔ آسٹریلیا کے برعکس یہاں سائیکل سوار بغیر ہیلمٹ چلا تے ہیں۔
ما ہرینِ ارضیات کی تحقیق کے مطابق ڈنمارک کے یخ بستہ برف زار میں چودہ ہزار برس قبل بھی انسان رہائش پزیر تھے۔ وہ ماہی گیری اور زراعت سے وابستہ تھے۔ اگر اس خطے کے موسموں کی شدّت کو مدّنظر رکھا جائے جہاں سرما میں درجہ حرارت منفی چالیس سے بھی نیچے چلا جاتا ہے تو یہ حیران کن تحقیق ہے۔
اُس دور کے ذرائع آ مدروفت، گھروں کی ساخت اور قلت وسائل کو مدّنظر رکھا جائے تو اُس دور کے انسانوں کی قوت برداشت اور حوصلے کی داد دینی پڑے گی۔
ڈنمارک کا قومی پرچم ڈین بروگ آزاد دُنیا کا سب سے قدیم پرچم تسلیم کیا جا تا ہے۔ یہ یقینا ڈنیش قوم کے لیے باعثِ افتخار ہے۔
ڈنمارک میں تعلیم اور علاج بالکل مفت ہے۔ اگرچہ اس کے اخراجات عوام کے ٹیکس کے ذریعے ادا ہوتے ہیں ۔مگر اس سے مستفید ہو نے والوں میں ٹیکس دہندگان کے ساتھ ساتھ کم آمدنی والے لوگ بھی شامل ہیں۔ گویا تعلیم اور صحت کے مواقع غریب اور امیر سب کو یکساں حاصل ہیں۔
میرے خیال میں دُنیا کو ڈنمارک سے سیکھنے اور اس فلاحی نظام کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آسٹریلیا جس کا میں شہری ہوں وہاں بھی یہی نظام رائج ہے۔ کاش پوری دُنیا کے انسانوں کو یہ سہولتیں حاصل ہوں۔
ڈنمارک کی کل آبادی کا دس فیصد 1880 سے 1920 کے درمیان امریکا ہجرت کر گیا۔ یہ خاصی بڑی اور قابل ذکر تعداد ہے۔
یہ اس دور کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالات اور موسم کی سختیوں کے ستم رسیدہ لوگ تھے جو قسمت بدلنے امریکا منتقل ہو گئے۔
آ ج سو برس بعد پاکستان کی آبادی کا دس فیصد سے زائد حصّہ دُنیا کے مختلف ممالک میں ہجرت کرنے پر مجبور ہے۔ ہجرت کبھی بھی آسان نہیں ہوتی۔ اُ س کے پس پشت ان گنت عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ ہجرت کے اثرات کئی نسلوں تک چلتے ہیں اور کئی خاندان اپنی شناخت تک سے محروم ہو جاتے ہیں۔ لیکن حالات اس جہنم میں دھکیلتے رہتے ہیں۔

؎ مجھے بھی لمحۂ ہجر ت نے کر دیا تقسیم
نگا ہ گھر کی طرف ہے قد م سفر کی طرف

ڈنمارک کی ایک اور خاص بات یہاں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے جس پر ڈنیش نازاں ہیں۔ مگر میرے نزدیک اس آزادی کی حد ہونی چاہے۔ کسی کو اتنی آزادی بھی حاصل نہ ہو کہ وہ کروڑوں لوگوں کی دل آزاری کرتا پھرے اور اُسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ ہو۔
یہ مادر پدر آزادی جنگل میں جانوروں کو تو ہو سکتی ہے، مہذّب معاشروں میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک ڈینش اخبار  نے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کے نازیبا کارٹون شائع کر کے کروڑوں مسلمانوں کی سخت دِل آزاری کی۔ یہ اس مادر پدر آزادی کے تباہ کن مضمرات کی بدترین مثال ہے۔ ایسے بیمار ذہن لوگوں کو اتنی آزادی نہیں ملنی چائیے کہ کسی کے مذہبی جذبات سے کھیل سکیں۔

(باقی اگلی قسط میں)
اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں

Previous article
Next article

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles