20 C
Lahore
Friday, November 1, 2024

Book Store

daayin|ڈائن|Maqbool Jahangir

ڈائن

مقبول جہانگیر

۱۷ نومبر ۱۹۵۸ء کو اَمریکا کی ریاست کیلی فورنیا کے ایک خوبصورت شہر سانٹا باربرا میں ایک شادی شدہ خاتون مسز اولگا فرینک کو انتہائی بےرحمی سے موت کے گھاٹ اتار دِیا گیا۔
قاتل دو اَیسے نوجوان تھے جو اُس خاتون کو صرف نام سے جانتے تھے اور مقتولہ سے اُن کی کوئی عداوت نہ تھی۔ دونوں قاتلوں کو مسز فرینک اولگا کی ساس، مسز الزبتھ ڈنکن نے کرائے پر حاصل کیا تھا ۔
مسز ڈنکن کو اَپنی بہو سے صرف یہ شکایت تھی کہ اُس کے بیٹے فرینک نے اولگا سے شادی کیوں کر لی۔

سانٹا باربرا کی خوشحال آبادی میں اگرچہ مسز ڈنکن کی مالی حیثیت کچھ زیادہ مستحکم نہ تھی، تاہم اُس کی بارعب شخصیت اور تحکمانہ اندازِ گفتگو سے ہر شخص متاثر ہو جاتا تھا۔
اُن چند افراد کے سوا جو خاتون کو بہت قریب سے جانتے تھے،
اکثر لوگ مسز ڈنکن کو محض ایک نوجوان وکیل کی شفیق ماں کی حیثیت سے جانتے اور اُس کا احترام کرتے تھے۔
اولگا کے قتل کے بعد مقدمے کی کارروائی میں مسز ڈنکن کی جس مکروہ اَور گھناؤنی شخصیت پر سے نقاب اُٹھا، اُس کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی تھا کہ:
یہ خاتون ہر شخص کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو جاتی تھی کہ:
وہ یا تو بہت دولت مند ہے یا عنقریب دولت میں کھیلنے لگے گی۔

عدالتی تفتیش کے دوران مسز ڈنکن نے بتایا کہ وہ ۱۹۰۴ء میں ریاست مسوری کے شہر کنساس میں پیدا ہوئی،
تو اُس کا نام ہیزل سنکلارا رَکھا گیا تھا، لیکن مقدمے کی کارروائی میں ابتدا سے لے کر انتہا تک مسز ڈنکن نے کوئی ایسی بات نہیں کی جس پر عدالت کو ’’سچ‘‘ کا شبہ ہو سکتا۔

مسز ڈنکن نے اپنی عمر میں جس قدر قانونی اور غیرقانونی شادیاں کیں، اُن میں سے جن شادیوں کا دستاویزی ریکارڈ مل سکا، اُن میں مسز ڈنکن کی عمر ہر بار مختلف لکھی گئی تھی۔
عدالت کی جانب سے مقرر کیے گئے ایک ماہرِ نفسیات نے مسز ڈنکن کی دروغ گوئی کو ایک نفسیاتی مرض قرار دِیا۔ اِس کے علاوہ مسز ڈنکن کا حافظہ بھی خاصا ’’کمزور‘‘ ثابت ہوا۔
عدالتی تحقیقات میں یہ تو معلوم ہو گیا کہ:
یہ خاتون اُس وقت تک تقریباً دو دَرجن افراد سے شادی کر چکی تھی یا شادی کا ڈھونگ رچا چکی تھی،
لیکن اُسے خود وُہ تمام شادیاں پوری طرح یاد نہیں تھیں۔
مسٹر ڈیوی ٹیسٹر سے پہلی شادی کے بارے میں جب عدالت نے پوچھا کہ:
آیا اُس وقت مسز ڈنکن کی عمر چودہ برس تھی، تو جواب ملا
’’ہو سکتا ہے۔‘‘
عدالت نے پوچھا کہ آیا وہ اِس سے بھی پہلے ایک شخص مسٹر مچل سے بیاہی گئی تھی؟
مسز ڈنکن نے جواب دیا ’’مجھے یاد نہیں پڑتا۔‘‘

۱۹۲۷ء میں مسز ڈنکن نے ایک اور شخص ایڈورڈ لنچ برگ سے شادی کی جو اُسے یاد نہیں تھی۔
۱۹۲۸ء میں مسز ڈنکن نے فرینک لُو سے شادی کی۔
اُس شادی کے بعد اُس کا لڑکا فرینک پیدا ہوا، لیکن مسز ڈنکن کو یہ یاد نہیں تھا کہ:
آیا اُس شادی سے پہلے مسٹر ٹیسٹر نے اُسے طلاق دی تھی یا نہیں۔
مسٹر ٹیسٹر سے جو تین بچے پیدا ہوئے، وہ اَوائل عمر ہی میں کسی یتیم خانے کے حوالے کر دیے گئے۔
۱۹۳۲ء میں مسٹر فرینک لُو کی موت سے پہلے ہی مسز ڈنکن نے ایک اور شادی کر لی،
لیکن ’’اقتصادی‘‘ طور پر پہلے شوہر سے بھی تعلقات بحال رکھے۔ مسز ڈنکن نے عدالت کو بتایا:

’’میرے بچے فرینک کے دانتوں میں کچھ تکلیف تھی، چنانچہ مَیں ڈاکٹر کے بِل ہمیشہ اُس کے باپ کو بھیجتی رہی۔ جب ایک بِل کی ادائیگی نہ ہوئی، تو مجھے معلوم ہوا کہ فرینک لُو کا انتقال ہو گیا ہے۔
مجھے اُس کا واقعی افسوس ہوا۔‘‘

مسز ڈنکن نے چونکہ فرینک لُو کی زندگی ہی میں طلاق حاصل کیے بغیر دوسری شادی کر لی تھی،
لہٰذا وُہ شادی غیرقانونی تھی ۔
مسٹر ڈنکن نے کئی سال مسز ڈنکن کے ساتھ شادی شدہ زندگی بسر کرنے کے بعد بالآخر عدالت سے تنسیخِ نکاح کی ڈگری لے لی،
لیکن اُس عرصے میں بھی مسز ڈنکن ایک مختصر مدت تک ایک اور شخص فرینک کریگ کی بیوی بھی بنی رہی۔
اُس شخص نے حقیقت کا علم ہونے کے بعد عدالت سے یہ نکاح منسوخ کرا لیا،
لیکن مسز ڈنکن بڑے عرصے تک اُس شخص کا نام اپنے نام کے ساتھ استعمال کرتی رہی،
کیونکہ مسٹر کریگ کی کاروباری ساکھ اچھی ہونے کی وجہ سے قرض آسانی سے مل جاتا تھا۔

مسز ڈنکن کی اِن ’’کاروباری شادیوں‘‘ کی تمام تفصیلات اِن مختصر صفحات میں بیان نہیں کی جا سکتیں۔ عدالت کے سامنے جو حقائق آئے، وہ حیرت انگیز بھی ہیں اور شرمناک بھی۔
مسز ڈنکن سے اِس عجیب و غریب اندازِ زندگی کے بارے میں عدالت نے پوچھا کہ:
کیا اِس طرح ایک شوہر کی موجودگی میں دوسری شادی کر لینے کو اُس نے معیوب اور خلافِ قانون نہیں سمجھا؟
مسز ڈنکن نے بےپروائی سے جواب دیا:

’’مجھے نہیں معلوم، تاہم مَیں نے ایسا کیا۔‘‘

مسز ڈنکن نے بارہا انجان مردوں کے سامنے اپنے آپ کو ایک امیر کبیر بیوہ کے روپ میں پیش کیا اور اَپنی بےپناہ دَولت یا عنقریب ملنے والی دولت کی من گھڑت کہانیاں سنا کر مردوں کو لالچ کے دام میں پھانسا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ مسز ڈنکن کی شرمناک زندگی پر ظاہری رکھ رکھاؤ اور بناوٹی شرافت کا دبیز پردہ اِتنے عرصے تک کیونکر پڑا رَہا۔
شاید کسی مشرقی ملک میں اِس قسم کے اعمال کے نتائج یکسر مختلف ہوتے،
لیکن امریکا میں جہاں پیسہ ہی تمام تر اِنسانی تعلقات کی بنیاد بن گیا ہے،
صورتِ حال یہ تھی کہ وہ مرد جو نام نہاد دَولت کے حصول کے لیے مسز ڈنکن کی فریب دہی کا شکار ہوئے، خود اَپنی حماقت پر اتنے نادم تھے کہ:
اُنھوں نے بعد میں بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی جرأت نہ کی۔

مسز ڈنکن کے لیے شادی ایک عمدہ کاروبار تھا اور اُسے اُس کاروبار میں کبھی نقصان نہیں ہوا۔
مسز ڈنکن نے ایک بار ایک کیفے کھول لیا۔
اُس کیفے کے لیے شراب کا پرمٹ حاصل کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کا نام اپنے شوہر کے طور پر اِستعمال کیا جو کبھی اُس کا شوہر نہیں رہا تھا۔
ایک اور موقع پر مسز ڈنکن نے اپنے آپ کو بحریہ کے ایک ڈاکٹر کی بیوی الزبتھ کریگ کے روپ میں پیش کر کے ایک کار خریدی اور دو سو ڈالر کے بوگس چیک سے ادائی کی۔

مسز ڈنکن لوگوں کو دکھانے یا اپنی انا کی تسکین کے لیے جائیداد کی خریدوفروخت کا کاروبار بھی کرتی تھی۔
ایک بار اُس نے ایک کمپنی کو جائیداد خریدنے کے لیے پچاس ہزار ڈالر کا چیک بھی دے دیا،
لیکن سودا بن نہ سکا، کیونکہ بینک میں اُس وقت مسز ڈنکن کی کُل دولت اٹھائیس ڈالر تھی۔
دسمبر ۱۹۵۱ء میں مسز ڈنکن نے ایک شخص مسٹر گولڈ سے طلاق حاصل کر لی،
لیکن وہ طلاق کے باوجود بھی شادی شدہ تھی، کیونکہ مسٹر ڈنکن سے اُس کی غیرقانونی شادی ابھی تک منسوخ نہ ہوئی تھی۔

اب مسز ڈنکن نے ایک اور شخص جارج سیڑیانو کو اَپنی ’’دولت‘‘ کا جھانسا دیا۔
اُس شخص نے مسز ڈنکن کی دولت سے جائیداد خریدنے اور مستقل آمدنی کا ذریعہ پیدا کرنے کے لیے اپنی نوکری سے بھی استعفا دے دیا،
لیکن کچھ عرصے بعد جارج سیڑیانو کو پتا چلا کہ مسز ڈنکن ایک شخص کو پانچ سو ڈالر کے معاوضے پر اِس لیے حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ جارج سیڑیانو کے چہرے پر تیزاب پھینکنے کی ’’خدمت‘‘ بجا لائے۔
اِس سے پہلے کہ سیڑیانو اپنی ’’بیوی‘‘ سے نجات حاصل کرنے کے لیے عدالتی کارروائی کرتا،
خود مسز ڈنکن نے اُس کے خلاف طلاق کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا،
چنانچہ جارج سیڑیانو کو عدالتی فیصلے کے مطابق مسز ڈنکن کے حق میں اپنی کیڈلک کار سے بھی دست بردار ہونا پڑا۔

جارج سیڑیانو سے طلاق کے مقدمے کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی مسز ڈنکن نے بنجمن کاگ بِل سے شادی کر لی اور اِس جوڑے کو کچھ عرصے بعد کسی غیرقانونی کاروبار کی پاداش میں جیل بھی جانا پڑا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب مسز ڈنکن کا لڑکا فرینک مسان فرانسسکو میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔
۱۹۵۳ء میں عدالت نے مسز ڈنکن اور کاگ بِل کی شادی کو فسخ قرار دَے دیا۔
مسز ڈنکن نے فوراً ہی اپنے بیٹے کے ایک ہم جماعت اسٹیفن گِلس کو اپنے دامِ فریب میں پھانس لیا۔

اُس وقت اسٹیفن گِلس کی عمر صرف ۲۶ برس تھی۔
اُس نے عدالت کو بتایا کہ مسز ڈنکن نے پچاس ہزار ڈالر کا لالچ دے کر اُس سے شادی کی تھی،
لیکن شادی کے بعد مسز ڈنکن نے اُسے دس ہزار ڈالر کا ایک چیک دیا جو جعلی تھا۔

اسٹیفن گِلس شادی کے باوجود کبھی مسز ڈنکن کے ساتھ نہیں رہا اور مسز ڈنکن نے جس جس طریقے سے اُسے ہراساں کر کے ’’گزارہ اَلاؤنس‘‘ حاصل کیا، وہ خاصی شرمناک داستان ہے۔
اسٹیفن گِلس نے عدالت کو بتایا:
’’مسز ڈنکن کی شخصیت میں یہ خاص بات ہے کہ ہر شخص اُس کی بات پر یقین کر لیتا ہے،
اگرچہ ہر بات جھوٹی ہوتی ہے، تاہم اُس پر کبھی جھوٹ کا شائبہ نہیں ہوتا۔‘‘

اسٹیفن گِلس نے بمشکل مسز ڈنکن کے چُنگل سے نجات حاصل کی، تو ایک بس ڈرائیور اِس قسم کی دھوکادہی کا شکار بن گیا۔
بس ڈرائیور سے گزارہ اَلاؤنس اینٹھنے کے بعد مسز ڈنکن نے ایک ۲۸ برس کے نوجوان لیونارڈ سولین کو یہ پٹّی پڑھائی کہ ’’اگر مَیں دوبارہ شادی کر لوں، تو مجھے ایک فنڈ سے ایک لاکھ چھیانوے ہزار ڈالر مل جائیں گے۔‘‘
ظاہر ہے ایسے کسی فنڈ کا کوئی وجود نہ تھا، چنانچہ مسز ڈنکن کو ایک بار پھر تنسیخِ نکاح کے لیے عدالت میں حاضر ہونا پڑا۔

فرینک نے ماں کو گھر سے نکال دینے کی دھمکی دی اور مسز ڈنکن نے احتجاج کے طور پر خواب آور گولیوں کی بڑی مقدار کھا لی، چنانچہ مسز ڈنکن کو فوری طور پر کاٹیج اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔
اُس اسپتال میں ایک نرس اولگا سے فرینک کی پہلی ملاقات ہوئی۔
اولگا کی عمر اُس وقت ۲۹ سال تھی، اُسے برٹش کولمبیا سے آئے ہوئے ایک سال ہو چکا تھا جہاں اُس کا باپ ریلوے میں فورمین تھا۔
مسز شارٹ نے بتایا کہ فرینک، سیاہ بالوں والی اُس صحت مند اور حسین لڑکی میں دلچسپی لینے لگا ہے۔
یہ بات مسز ڈنکن کو سخت ناگوار گزری۔

مسز ڈنکن صحت یاب ہو کر اسپتال سے واپس آ گئی،
تو اولگا نے فرینک سے ملنے کے لیے اُن کے گھر آنا جانا شروع کر دیا۔
ایک بار جب فرینک بیمار تھا، تو اولگا اُس کے لیے پھول بھی لے کر آئی،
لیکن مسز ڈنکن نے وہ پھول اٹھا کر باہر پھینک دیے۔ اُدھر فرینک روز بروز اولگا سے قریب ہوتا جا رہا تھا۔
وہ اُس سے شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن اپنی ماں سے خوف زدہ تھا۔
آخر اُسی سال جون کے مہینے میں اُس نے اپنی ماں سے ااولگا کے بارے میں بات کرنے کی ہمت کر لی۔

مسز ڈنکن نے اُس وقت تو اپنے بیٹے سے یہ وعدہ لے کر بات ختم کر دی کہ :
وہ ماں کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کرے گا،
لیکن اُس کے بعد فوراً ہی اولگا کو ٹیلی فون پر ڈانٹ بتائی۔

’’تم فرینک کے قابل نہیں ہو اَور اِس سے پہلے کہ تم اُس سے شادی کر سکو، مَیں تمہیں جان سے مار ڈالوں گی۔‘‘

تاہم چند روز بعد فرینک نے ماں کو بتائے بغیر اولگا سے شادی کر لی۔
اُس شادی کو ماں سے خفیہ رکھنے کے لیے اُس نے ہر ممکن کوشش کی۔
اُس نے اولگا کی رہائش کا علیحدہ بندوبست کیا اور رَات گھر پر ماں کے پاس ہی گزارتا تاکہ مسز ڈنکن کو شبہ نہ ہو جائے، لیکن مسز ڈنکن اگلے ہی دن صورتِ حال سے باخبر ہو گئی۔
ہوا یوں کہ اُس نے حسبِ عادت اولگا کو ڈرانے دھمکانے کے لیے کاٹیج اسپتال فون کیا اور وَہاں سے جواب ملا کہ اولگا کی شادی ہو چکی ہے اور اُس نے ملازمت چھوڑ دی ہے۔
یہ خبر ملتے ہی مسز ڈنکن نے اُس شادی کو ناکام بنانے اور اَولگا فرینک سے انتقام لینے کے لیے وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیے جس قسم کے ہتھکنڈے حکومتوں کے تختے الٹنے کے لیے سی آئی اے سے منسوب کیے جاتے ہیں۔

فرینک اور اَولگا کی شادی کے چوتھے دن ایک مقامی اخبار میں فرینک ڈنکن کی طرف سے اِس مضمون کا اشتہار شائع ہوا:

’’۲۵ جون ۱۹۵۸ء کے بعد مَیں کسی ایسے قرض یا کسی ایسی چیز کے لیے ادائی کا ذمےدار نہ ہوں گا جو میری ماں الزبتھ ڈنکن کے سوا کسی اور نے خریدی ہو۔‘‘

جب اولگا فرینک نے اپنے شوہر کو یہ اشتہار دِکھایا، تو وہ فوراً سمجھ گیا کہ یہ ماں کی شرارت ہے،
چنانچہ اگلے ہی دن مسز ڈنکن نے ایک اور گُل کِھلا دیا۔
وہ اَولگا کے مکان کے قریب ایک اسٹور پر پہنچیں اور اسٹور کے مالک کو نصیحت کی کہ وہ اَولگا فرینک کو اُدھار نہ دے ’’کیونکہ وہ عورت ایک اور اسٹور سے ہزاروں ڈالر کا سامان اُدھار لا چکی ہے جس کی ابھی تک ادائی نہیں ہوئی۔‘‘

مسز شارٹ نے عدالت میں گواہی دیتے ہوئے بتایا کہ اُن دنوں اولگا کو بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ مسز ڈنکن روز بلاناغہ اولگا فرینک کو کئی کئی بار ٹیلی فون پر دھمکیاں دیا کرتی:
’’اگر تم نے میرے بیٹے سے علیحدگی اختیار نہ کی، تو مَیں تمہیں قتل کر دوں گی۔‘‘
نہ صرف یہ بلکہ مسز ڈنکن کو جب موقع ملتا، وہ اَولگا کے مکان پر پہنچ جاتی اور اُسے ’’خطرناک نتائج‘‘ کی دھمکیاں دے آتی۔
جب الفاظ سے کام نہ نکلا، تو مسز ڈنکن زیادہ خطرناک اور عملی منصوبوں پر اتر آئی۔

اِس مقصد کے لیے اُس نے سب سے پہلے اپنے بیٹے کو اَغوا کرنے کی کوشش کی۔
منصوبہ یہ تھا کہ مسز شارٹ اور ایک اور بڑھیا سہیلی مسز فرینکلن کی مدد سے پہلے فرینک کو خواب آور گولیاں کھلا کر بےہوش کیا جائے۔
اُس کے بعد اُس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اُسے کار کے ذریعے لاس اینجلز پہنچا دیا جائے۔
مسز ڈنکن نے لاس اینجلز میں قیام کے لیے اپنی بہن کے مکان کا بندوبست کر لیا تھا تاکہ وہ وَہاں کچھ دن رہ کر اپنے ’’قیدی‘‘ بیٹے کو اولگا سے علیحدگی پر مجبور کر سکے۔
اِس منصوبے کی ناکامی کے بارے میں مسز شارٹ اور مسز فرینکلن نے عدالت کو بتایا کہ وہ دونوں رات بھر ایک رسّی لیے مسز ڈنکن کے مکان میں چھپی رہیں،
لیکن فرینک کو کسی طور بھی خواب آور گولیاں نہ کھلائی جا سکیں اور اِس طرح منصوبہ ناکام ہو گیا۔

فرینک کی شادی کے خلاف مسز ڈنکن کی مہم جُوں جوُں شدت پکڑتی جا رہی تھی، اولگا کی صحت بھی گرتی جا رہی تھی۔ اُس بےچاری کا بیشتر وقت آنسو بہاتے گزرتا تھا۔
مسلسل خوف اور اَعصابی کھنچاؤ کے باعث ایک ماہ کے اندر اَندر وُہ بیمار ہو گئی۔
اُس کے ہاتھوں کی نسوں میں درد رَہنے لگا۔ ساس کے قہر سے بچنے کے لیے اولگا نے بار بار مکان تبدیل کیے۔
آخر اُس نے محکمہ ٹیلی فون سے اپنے لیے ایسا ٹیلی فون نمبر بھی حاصل کر لیا جو اُس وقت تک ڈائریکٹری میں درج نہیں کیا گیا تھا۔
اُدھر مسز ڈنکن کو جب اولگا کے نئے مکان کا پتا اور ٹیلی فون نمبر نہ مل سکا، تو اُس نے ایک اور مکروہ حربہ استعمال کیا۔
مسز ڈنکن نے مُکتی فوج (Salvation Army) سے رابطہ قائم کر کے ایک ایسے رضاکار کی خدمات طلب کیں جو کھڑکیاں صاف کر سکے۔

مقامی مکتی فوج نے ایک سابق سزا یافتہ مجرم رالف ونٹر سیٹن کو مسز ڈنکن کے پاس بھیج دیا۔ مسز ڈنکن نے اُس شخص کو اپنی ’’مصیبت بھری‘‘ داستان سنا کر اپنا ہمدرد بنا لیا۔
اُس نے ونٹر سیٹن کو بتایا ’’میرے بیٹے فرینک نے ایک چھچھوری قسم کی غیرملکی لڑکی سے شادی کر لی ہے۔ وہ لڑکی رقم حاصل کرنے کے لیے مجھے مسلسل بلیک میل کر رہی ہے۔
میرا بیٹا اُس لڑکی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن اپنے پیشے کے وقار کے پیشِ نظر تنیسخِ نکاح کا مقدمہ دائر کرنے سے ڈرتا ہے۔‘‘

مسز ڈنکن نے آخر ونٹرسیٹن کو کچھ رقم کے عوض اِس بات پر راضی کر لیا کہ وہ عدالت میں اولگا فرینک سے طلاق کے مقدمے میں فرینک ڈنکن کے نام سے پیش ہو جائے۔
اُس کے بعد مسز ڈنکن نے ایک وکیل کا بندوبست کر کے تنسیخِ نکاح کے کاغذات بھی تیار کر لیے اور خود کو اَولگا فرینک اور مسز شارٹ کو اولگا کی خالہ بنا کر عدالت میں پہنچ گئیں۔
یہ دونوں خواتین تو تماشائیوں میں بیٹھی تھیں جبکہ ونٹرسیٹن کو عدالت کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے گواہوں کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔
چونکہ عدالت میں فرینک کو ذاتی طور پر جاننے والے بھی موجود تھے،
اِس لیے فوراً ہی اِس جعلی مقدمے کا بھانڈا پھوٹ گیا اور وِنٹرسیٹن کو دروغ حلفی کی پاداش میں چند دن کے لیے جیل جانا پڑا۔

یہ واقعہ ۷؍اگست کو پیش آیا۔ اُس کے ایک ہفتے بعد مسز ڈنکن کو اَولگا کے نئے مکان کا سراغ مل گیا۔
ہوا یوں کہ فرینک نے کسی بیمہ کمپنی کو درخواست بھیجی تھی جس کا جواب مسز ڈنکن کے پتے پر موصول ہوا۔
اُس نے فوراً لفافہ کھول لیا اور اِس ذریعے سے اُسے اولگا فرینک کا نیا پتا بھی معلوم ہو گیا،
چنانچہ مسز ڈنکن کی جانب سے اولگا کو بدنام کرنے اور اَپنے بیٹے کو ہراساں کرنے کی مہم اُسی طرح پوری شدت سے جاری ہو گئی۔
اُس نے فرینک کے بیمہ ایجنٹ سے یہ جھوٹ بولا کہ اولگا پہلے سے شادی شدہ ہے۔
اُس کے دو بچے برٹش کولمبیا میں موجود ہیں۔
پھر اُس نے ایک ملّاح کو معاوضے پر اِس مقصد کے لیے حاصل کیا کہ وہ فرینک کی کار کو اُس کے دفتر یا گھر کے سامنے سے ہٹا دیا کرے۔
اُدھر اولگا نے بھی فوری طور پر مکان تبدیل کر کے گارڈن اسٹریٹ میں سکونت اختیار کر لی۔
مسز ڈنکن کے عتاب سے بچنے کے لیے یہ اُس بےچاری کی آخری کوشش تھی۔

دو ہفتے کچھ سکون سے گزرے۔ آخر ایک دن مسز ڈنکن اپنے بیٹے کا پیچھا کرتی ہوئی گارڈن اسٹریٹ میں اولگا کے نئے مکان پر بھی پہنچ گئی اور مالکۂ مکان کو بلا کر ایک زبردست ہنگامہ کھڑا کر دیا۔
مسز ڈنکن نے اُس موقع پر اپنی بہو کے خلاف الزام تراشیوں کا ایک طومار باندھ دیا اور چلتے چلتے مالکۂ مکان سے کہہ آئی کہ اگر اولگا نے میرے بیٹے سے علیحدگی اختیار نہ کی، تو مَیں اُسے قتل کر دوں گی۔

مسز ڈنکن اب اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کے منصوبے بنا رہی تھی۔ اُس نے اپنی معتمد سہیلی مسز شارٹ سے اِس سلسلے میں مسلسل صلاح مشورے شروع کر دیے۔
اِس دوران میں اولگا پر تیزاب پھینکنے کی تجویز کئی بار زیرِبحث آئی۔
مسز شارٹ نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے ایک منصوبے کا اِس طرح ذکر کیا:

مسز شارٹ: اُنھوں (مسز ڈنکن) نے مجھ سے کہا تھا کہ مَیں اولگا کے گھر جا کر اُسے اپنے ہاں بلاؤں،
جب وہ میرے گھر آ جائے،
تو اُسے برتنوں کی الماری کے سامنے کرسی پر بٹھا دوں تاکہ مسز ڈنکن اُس کے گلے میں رسّی ڈال کر اُس کا گلا گھونٹ سکیں۔

اِس کے بعد وکیلِ استغاثہ مسٹر گستافسن نے مسز شارٹ پر اِس طرح جرح کی۔

سوال: تمہارا مطلب ہے کہ منصوبے کے مطابق مسز ڈنکن پہلے سے برتنوں کی الماری میں چھپی ہوتیں؟

جواب: جی ہاں!

سوال: اور جب اولگا کرسی پر بیٹھ جاتی، تو مسز ڈنکن عقب میں الماری سے نکل آتیں اور اُس کا گلا گھونٹ دیتیں؟

جواب: جی ہاں!

سوال: گلا گھونٹنے کے بعد کیا کرنا تھا؟

جواب: اولگا کے بال مونڈ دیے جاتے۔

سوال: پھر؟

جواب: پھر اولگا کی لاش کو رات تک کے لیے الماری میں چھپا دیا جاتا اور رَات کو مسز ڈنکن لاش کو ایک کمبل میں لپیٹ کر رسّی سے باندھ دیتیں۔ اُسی رسّی کے ساتھ ایک بھاری پتھر باندھ دیا جاتا اور صبح سویرے ہم دونوں اُس لاش کو کار میں ڈال کر ساحل پر لے جاتیں اور سمندر میں پھینک آتیں۔

سوال: پھر تم نے مسز ڈنکن کو اِس منصوبے کے بارے میں کیا جواب دیا؟

جواب: مجھے یہ بہت خوفناک بات معلوم ہوئی، چنانچہ مَیں نے کہا یہ ممکن نہیں کہ میرے برتنوں کی الماری میں رات بھر ایک لاش رکھی رہے۔

مسز شارٹ کے اِس جواب سے ثابت ہوا کہ اُس خاتون کو درحقیقت نہ تو ایک انسان کے قتل پر کوئی بنیادی اعتراض تھا اور نہ اولگا سے کوئی ہمدردی تھی۔ مسز شارٹ کو یہ بھی اچھی طرح معلوم تھا کہ اولگا بےگناہ تھی۔
وہ اِس منصوبے میں صرف ایک بات برداشت نہیں کر سکیں کہ اولگا کی لاش اُن کی صاف ستھری الماری میں رات بھر پڑی رہے،
چنانچہ مسز شارٹ کی ’’نفاست پسندی‘‘ کی وجہ سے اولگا کی جان وقتی طور پر بچ گئی،
لیکن اب مسز ڈنکن نے اپنے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کسی قاتل کی باقاعدہ تلاش شروع کر دی۔

اگر آپ کو ضرورت پڑ جائے، تو آپ ایسے شخص کو کیسے اور کہاں تلاش کریں گے جو معاوضہ لے کر کسی کو قتل کر سکے؟ بظاہر یہ کام بہت مشکل نظر آتا ہے۔
آپ کھلے بندوں قتل کے موضوع پر بات نہیں کر سکتے، کوئی قاتل اخبار میں اشتہار بھی نہیں دیتا کہ اُسے ’’کام‘‘ کی ضرورت ہے۔
نہ آپ یہ اشتہار شائع کریں گے کہ کرائے پر قاتل کی ضرورت ہے، تاہم مسز ڈنکن کو اَپنے معاشرے میں یہ مہم انجام دینے کے سلسلے میں کچھ زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔
اُس نے دکان، ہوٹل، ریستوران اور اَپنے گھر میں ہر سہیلی اور شناسا سے اِس منصوبے پر بات کی۔
اُس نے ہر ملنے والے کے سامنے اپنی اہم اور فوری ضرورت کا اِسی طرح اظہار کیا جس طرح آپ مناسب مکان یا گھریلو ملازم کی تلاش میں دوستوں اور ملنے والوں کی مدد کے خواہاں ہوتے ہیں۔

سانٹا باربرا میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہ تھی جنہوں نے مسز ڈنکن کے اِس منصوبے میں دلچسپی لی۔ اگرچہ بیشتر خواتین و حضرات وہ تھے جو اَپنی ’’مجبوریوں‘‘ کی وجہ سے اولگا کے قتل میں مسز ڈنکن کی عملی مدد نہ کر سکے۔
کچھ وہ تھے جنہوں نے ایک بےگناہ کے قتل کے منصوبے میں ’’اخلاقی مدد‘‘ کی اور مسز ڈنکن کی راہنمائی کی۔
بہت کم افراد اَیسے نکلے جنہوں نے مسز ڈنکن کی مدد سے صاف انکار کر دیا،
لیکن اُن تمام لوگوں میں سے کسی نے بھی یہ ضروری نہ سمجھا کہ پولیس کو اِس ہونے والے قتل سے آگاہ کر دیتا۔
سانٹا باربرا کے اُن لوگوں میں اکثریت اُن افراد کی تھی جنہیں امریکا کی معاشرتی اقدار کے مطابق اشراف کا مرتبہ حاصل ہے۔
اُن تمام افراد میں سے آٹھ افراد نے عدالت میں پیش ہو کر مسز ڈنکن کی جانب سے ’’سودےبازی‘‘ کی گواہی بھی دی۔

سانٹا باربرا کے ایک جدید ڈرائیو اِن ریستوران میں کام کرنے والی مسز ریڈ نے عدالت کو بتایا کہ:
وہ کسی زمانے میں مسز ڈنکن کی آنجہانی بیٹی کی ہم جماعت رہ چکی ہے۔
ایک دن مسز ڈنکن نے اُسے ٹیلی فون کیا کہ ایک انتہائی ضروری کام ہے، لہٰذا وُہ گھر پر آ کر ملاقات کرے۔

مسز ریڈ جب مسز ڈنکن کے گھر پہنچیں، تو وہاں اُن کی معتمد سہیلیاں مسز شارٹ اور مسز فرینکلن پہلے سے موجود تھیں۔
مسز ڈنکن فوراً مسز ریڈ کو علیحدہ کمرے میں لے گئیں اور دَروازے بند کر کے اولگا کے بارے میں اپنی ’’دکھ بھری‘‘ داستان یوں سنائی:

’’وہ عورت مجھے مسلسل ٹیلی فون پر پریشان کرتی رہتی ہے۔‘‘
انھوں نے عدالت کو بتایا:
’’مسز ڈنکن نے مجھ سے کہا کہ اولگا کسی طور بھی فرینک سے علیحدہ ہونے پر تیار نہیں اور مجھے مسلسل دھمکیاں دے رہی ہے۔‘‘
مسز ریڈ نے پوچھا کہ آخر مسز ڈنکن کس قسم کی مدد چاہتی ہے۔
’’چنانچہ مسز ڈنکن نے مجھے پورا منصوبہ یوں سمجھایا کہ مَیں اولگا کے مکان پر تیزاب کی ایک بوتل لے کر جاؤں۔ جُوں ہی اولگا دروازہ کھولے، اُس کے چہرے پر تیزاب پھینک دوں۔
مسز ڈنکن کلوروفارم میں بسا ہوا ایک کمبل لیے وہیں میرے پیچھے چھپی کھڑی ہوں گی۔
وہ اُسی لمحے آگے بڑھ کر اولگا کو کمبل میں لپیٹ لیں گی۔
پھر ہم دونوں اُسے بنڈل بنا کر فرینک کی کار میں پہاڑ پر لے جائیں گی اور کمبل میں لپٹی ہوئی بےہوش اولگا کو کسی کھائی میں پھینک آئیں گی۔
مسز ڈنکن نے مجھ سے کہا کہ اِس منصوبے کے لیے صرف ’ہاں‘ کہہ دینے پر وہ مجھے اِسی وقت پانچ سو ڈالر ادا کریں گی اور اَولگا کو ٹھکانے لگانے کے بعد پانچ سو ڈالر مزید ادا کریں گی۔
پھر پانچ سو ڈالر اُس وقت ادا کریں گی جب وہ فرینک اور مسز ڈنکن کو اَپنی کار میں سان فرانسسکو پہنچا دے گی۔‘‘

’’پھر تم نے مسز ڈنکن کو کیا جواب دیا؟‘‘ وکیلِ استغاثہ نے مسز ریڈ سے سوال کیا۔

’’مَیں نے کہا کہ مَیں اِس بارے میں سوچوں گی۔‘‘

مسز ریڈ، مسز ڈنکن سے رخصت ہو کر اَپنے ریستوران پہنچیں اور کافی کی دو پیالیاں پینے کے بعد اُس پیش کش پر خوب غور کیا۔
آخر وہ اِس نتیجے پر پہنچیں کہ فرینک کو اِس صورتِ حال سے آگاہ کر دیا جائے۔
مسز ریڈ نے عدالت کو بتایا:

’’مَیں نے فرینک کو ٹیلی فون کیا، لیکن مجھے اصل بات بتانے کی پھر بھی ہمت نہ پڑی ۔
مَیں نے صرف یہ کہا کہ مسز ڈنکن، اولگا کو اَغوا کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔
اِس لیے بہتر ہو گا کہ کسی ناخوشگوار حادثے سے پہلے ہی وہ اَولگا کو لے کر کہیں باہر چلا جائے۔ فرینک نے مجھے جواب دیا کہ وہ اَولگا کا خیال رکھے گا۔‘‘

فرینک فوراً بھنّایا ہوا اَپنی ماں کے پاس پہنچا اور مسز ریڈ کے ساتھ اپنی گفتگو کا ذکر کیا۔
مسز ڈنکن صاف مکر گئیں اور کہنے لگیں کہ مسز ریڈ نے بالکل جھوٹ بولا۔
منصوبہ تو دراصل خود فرینک کو اغوا کرنے کا بنایا گیا تھا تاکہ اُسے اولگا سے الگ کر کے سمجھایا بجھایا جا سکے۔

فرینک اپنی ماں سے بےحد برگشتہ ہو چکا تھا، لیکن اُسے کوئی ایسی بات معلوم ہی نہ ہوئی تھی کہ وہ ماں کے خلاف کوئی قدم اٹھاتا۔
اُدھر مسز ڈنکن کا بیشتر وقت کرائے کے قاتل کی تلاش میں گزر رَہا تھا۔
اُس نے اِس اہم مصروفیت کے سبب اولگا کو ٹیلی فون پر مسلسل دھمکیاں دینا موقوف کر دیا تھا۔

ایک بار اُس نے مسز شارٹ سے کہا کہ وہ اَولگا کو ٹھکانے لگانے کےلیے رالف ونٹر سٹین سے بات کریں۔
مسز شارٹ نے فوراً مسز ڈنکن کے اِس حکم کی تعمیل کی، لیکن ونٹر سٹین، اولگا کے خون سے ہاتھ رنگنے پر آمادہ نہ ہوا۔
عدالت کی طرف سے مقرر کیے ہوئے ماہرِ نفسیات کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے مسز شارٹ نے بتایا کہ:
وہ مسز ڈنکن کی ہر بات اِس لیے مان لیا کرتی تھیں کہ مسز ڈنکن نے اُنھیں مہماتی زندگی کی لذّت فراہم کی تھی۔
ماہرِ نفسیات نے بتایا کہ یہ وہی لذّت یا نشہ ہے جو مطلق العنان آمر اپنے ساتھیوں اور ملک کے لوگوں کی اطاعت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اُدھر ونٹر سٹین سے جب عدالت نے دریافت کیا کہ اُس نے پولیس کو اِس متوقع قتل کی اطلاع کیوں نہ دی، تو کھڑکیاں صاف کرنے والے مکتی فوج کے اُس رضاکار نے بتایا کہ:
چونکہ وہ فرینک کے نام سے اولگا کے خلاف تنسیخِ نکاح کے جعلی مقدمے میں ماخوذ ہو چکا تھا،
اِس لیے پولیس کے سامنے جاتے ہوئے گھبراتا تھا۔

اگست کے مہینے میں مسز ڈنکن نے اُس ملّاح کی مدد حاصل کرنے کی بھی کوشش کی جس سے وہ پہلے فرینک کی کار اِدھر اُدھر چھپانے کی خدمت لیتی رہی تھی۔
مسز ڈنکن نے اُس سے دریافت کیا تھا کہ وہ اَولگا کی لاش کو کار میں ڈال کر شہر سے باہر لے جانے اور ’’غائب‘‘ کرنے کا کیا معاوضہ لے گا۔
اُس ملّاح نے عدالت کو بتایا کہ وہ اُس سودےبازی کو محض مذاق سمجھ کر ٹال گیا۔

ستمبر کے مہینے میں مسز ڈنکن نے شہر کی ایک اور عورت مسز ڈیانے رُمرو کو اَپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔
ڈیانے رُمرو کا شوہر، روڈ وُلف رُمرو ایک بار نشہ آور اَشیا کے ناجائز کاروبار کے الزام میں گرفتار ہو گیا تھا۔
فرینک اُس کا وکیل تھا اور وُہ اَپنے موکل کو بری کرانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

مسز ڈنکن نے شروع میں ڈیانے کو تحفے تحائف دے کر بڑی ہوشیاری سے اپنی گرویدہ اور اِحسان مند بنایا۔
چند دن بعد اُس نے پھر ڈیانے کو اَپنے گھر بلایا، اُسے مزید تحفے دیے ۔
اُس کے لیے لباس وغیرہ خرید دینے کی پیش کش بھی کی۔
اُس کے بعد مسز ڈنکن نے مسز ڈیانے رُمرو کو سوڈا کاسٹک کا محلول خریدنے کے لیے پانچ ڈالر دیے اور پورا منصوبہ سمجھایا۔

مسز ڈیانے رُمرو نے عدالت کو بتایا:

’’مسز ڈنکن نے مجھے ساتھ لے جا کر اولگا کا مکان دکھایا اور سفید دستانے دیے تاکہ کسی چیز پر میری انگلیوں کے نشان نہ باقی رہ جائیں۔
پھر اُنھوں نے مجھے سمجھایا کہ مَیں اولگا کے مکان پر کاسٹک کی بوتل لے کر پہنچوں۔
جب وہ مجھے گھر میں بلا لے، تو پہلے اُسے مار مار کر بےہوش کر دوں، پھر اُسے گھسیٹ کر نہانے کے ٹب میں پھینک دوں اور اُوپر سے سوڈا کاسٹک چھڑک دوں۔‘‘

ڈیانے رُمرو بتائے ہوئے پتے پر گارڈن اسٹریٹ پہنچ گئی۔
اولگا نے دروازہ کھولا۔ ’’مہمان‘‘ اور میزبان کی نظریں چار ہوئیں اور دونوں کا ردِعمل ایک ہی تھا۔ حیرت اور خوشی۔
ڈیانے رُمرو نے کاسٹک کی بوتل اپنے تھیلے میں پڑی رہنے دی۔
وہ کافی دیر اولگا کے ساتھ بیٹھی پرانی باتیں یاد کرتی رہی۔

ایک عجیب اتفاق تھا کہ ڈیانے رُمرو جس عورت کو قتل کرنے آئی تھی،
وہ کسی زمانے میں برٹش کولمبیا کے ایک اسپتال میں اُس کی دیکھ بھال کرتی رہی تھی۔
اولگا کو ایک پرانی ہم وطن اور شناسا خاتون سے مل کر خوشی ہوئی اور ڈیانے رمرو کو اُس ملاقات میں یہ بتانے کی ہمت نہ ہوئی کہ اُسے کس مقصد کے لیے وہاں بھیجا گیا تھا۔

ڈیانے رُمرو نے جب یہ واقعہ مسز ڈنکن کو سنایا، تو وہ منصوبے کی ناکامی پر مایوس ہونے کے بجائے خوش ہوئی۔ مسز رُمرو نے عدالت کو بتایا:

’’مسز ڈنکن نے کہا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ تم اولگا کو پہلے سے جانتی ہو۔
اِس کا یہ فائدہ ہو گا کہ تم جس وقت چاہو آسانی سے اُس کے گھر جا سکتی ہو۔‘‘

اولگا سے ملاقات کے بعد مسز ڈیانے رُمرو کو اِس سودےبازی میں کوئی دلچسپی نہ رہی تھی،
چنانچہ مسز ڈنکن نے ڈیانے کے شوہر روڈ وُلف سے خود ملاقات کی۔
اُسے ایک ہزار ڈالر کے معاوضے کا لالچ دے کر اولگا کو قتل کرنے پر آمادہ کرنا چاہا۔
اِس پیش کش پر مسز رُمرو کا جو ردِعمل تھا، وہ اُس نے عدالت میں یوں بیان کیا:

’’مَیں اِس منصوبہ بندی سے خوف زدہ تھی اور روڈ وُلف کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے؟‘‘

روڈ وُلف نے مسز ڈنکن کو کوئی جواب نہ دیا اور وہ ہر ملاقات میں قتل کے معاوضے میں اضافے کا وعدہ کرتی چلی گئی۔
روڈ وُلف جب کسی طور بھی راضی نہ ہوا، تو مسز ڈنکن نے اُسے دھمکی دی کہ
اگر اُس نے یہ کام نہ کیا، تو وہ اُسے دوبارہ جیل بجھوا دَے گی۔
اِس دھمکی کے بعد روڈ وُلف نے اِس موضوع پر بات تک کرنے سے انکار کر دیا۔
مسز ڈنکن نے معاوضے کی رقم ڈیڑھ ہزار سے ڈھائی ہزار ڈالر تک بڑھا دی،
لیکن روڈ وُلف نے اپنا فیصلہ تبدیل نہ کیا۔

اُدھر مسز ڈنکن کے پائے استقلال میں بھی کوئی جنبش نہ آئی ۔
اُس نے مسز رُمرو کو ایک ہوٹل میں کھانے پر مدعو کیا اور وَہاں پھر اُسے قائل کرنا چاہا کہ
وہ اَپنے شوہر کو اِس کام کے لیے راضی کر لے۔
ڈیانے رُمرو نے عدالت کو بتایا:
’’مَیں نے مسز ڈنکن سے کہا کہ اگر وہ یہ کام کروانا چاہتی ہیں، تو پہلے نصف رقم مجھے ادا کریں۔‘‘
لیکن مسز ڈنکن اتنی بڑی رقم اُس وقت ادا نہیں کرنا چاہتی تھی یا اُس کے پاس اتنی رقم ہی نہ تھی۔

جب یہ سودا طے نہ پا سکا، تو مسز ڈنکن نے اپنی معتمد خاص مسز شارٹ کے ہمراہ اُس مالکۂ مکان سے رابطہ قائم کیا جس کے مکان میں کبھی ڈیانے رُمرو رَہا کرتی تھی۔
مسز ڈنکن نے مسز ربیکا ڈیاز کو بتایا کہ ایک چڑیل قسم کی نرس نے فرینک سے شادی کر لی ہے۔
یہ نرس اُنھیں (مسز ڈنکن کو) قتل کر دینے کی دھمکی دے کر ایک بڑی رقم کا مطالبہ کر رہی ہے۔

مسز ربیکا ڈیاز نے عدالت میں حلفی بیان دیتے ہوئے بتایا:
’’پھر مسز ڈنکن نے مجھ سے پوچھا، کیا مجھے کچھ رقم کی ضرورت ہے؟
مَیں نے اثبات میں جواب دیا، تو اُنھوں نے پھر پوچھا کہ کیا مَیں اُن کی مدد کر سکوں گی؟
مَیں نے جواب دیا کہ اِس کا انحصار کام کی نوعیت پر ہے۔
تب مسز ڈنکن نے اپنا مدّعا بیان کیا کہ وہ کسی ایسے شخص کی تلاش میں ہیں
جو اَولگا کو ٹھکانے لگا دے۔
چنانچہ مَیں نے مسز ڈنکن کو مشورہ دِیا کہ وہ پولیس کی امداد حاصل کریں،
لیکن مسز ڈنکن نے بتایا کہ ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں جس کی بنیاد پر پولیس سے مدد مانگی جائے۔‘‘

اگلے دن مسز ڈنکن نے مسز ڈیاز کو ٹیلی فون کیا اور پوچھا کہ:
وہ کسی ایسے شخص کو جانتی ہیں جو یہ کام کر سکے۔ مسز ڈیاز نے جواب دیا کہ
وہ اَیسے کسی آدمی کو نہیں جانتیں۔
پھر اُس نے درخواست کی کہ اگر اُن کی نظر میں ایسا کوئی شخص آئے، تو وہ مسز ڈنکن کو مطلع کر دیں اور مسز ڈیاز نے وعدہ کیا کہ اگر کوئی موزوں شخص ملا،
تو مسز ڈنکن سے اُس کی ملاقات کا انتظام کر دیں گی۔

مسز ڈیاز اور مسز ڈنکن کے درمیان اِس گفتگو کے بعد پھر کبھی اِس موضوع پر بات نہیں ہوئی،
البتہ ایک مہینے بعد مسز ڈنکن نے مسز ڈیاز کو پھر ٹیلی فون کیا:

’’بیکی! کیا تمہیں وہ بات یاد ہے جو ہمارے درمیان ہوئی تھی؟‘‘
’’ہاں! مجھے اچھی طرح یاد ہے۔‘‘
’’اچھا، تو پھر وہ بات بھول جاؤ۔ مجھے تمہاری مدد کی ضرورت نہ پڑے گی۔
وہ کام بس آج ہی ہو گا یا کبھی نہ ہو گا۔‘‘

مسز ڈیاز اِس بات کو واقعی ’’بھول‘‘ گئیں اور اُس وقت تک چپ سادھے رکھی جب تک عدالت نے اُنھیں گواہی کے لیے طلب نہ کر لیا۔
اُس مہینے کے دوران میں مسز ڈنکن نے جانے کتنے حضرات اور خواتین سے اِس منصوبے پر بات کی ہو گی اور کتنے ہی افراد کو ایک عورت کے قتل کے لیے کرائے پر حاصل کرنے کی کوشش کی ہو گی،
لیکن اُن سب افراد میں اکثریت مسز ڈیاز جیسے ’’شرفا‘‘ کی تھی جنہوں نے ایک بےگناہ عورت کے خون میں ہاتھ رنگنے پسند کیے اور نہ یہ کہ وہ پولیس کو اطلاع دے کر اُس ’’جھگڑے‘‘ میں ملّوث ہوں،
البتہ مسز شارٹ کی مہم پسندی ہر پسند اور ناپسند پر غالب آئی۔ اُنھوں نے عدالت کو بتایا:

’’مجھے یقین تھا کہ مسز ڈنکن، اولگا کو ضرور ختم کرا دَیں گی۔
مَیں اِس تجویز کے حق میں نہ تھی، لیکن مسز ڈنکن سے بحث کرنا لاحاصل تھا۔‘‘

مسز ڈنکن کی بارعب شخصیت سے مسحور ہونے والی یہ خاتون اُن مجرمانہ سرگرمیوں میں ہر اہم موقع اور مقام پر مسز ڈنکن کی شریکِ کار تھی۔
بارہ نومبر کو یہ دونوں خواتین اپنی مہم کے سلسلے میں سانٹا باربرا کے پس ماندہ علاقے کے ایک گھٹیا سے ریستوران، ٹراپیکل کیفے میں پہنچیں۔
کیفے کی دبلی پتلی مدقوق مالکہ مسز ایسپرنزا الیسکیول سے وہ پہلے کبھی نہ ملی تھیں،
لیکن مسز ڈنکن اُس کے بارے میں ضروری معلومات پہلے ہی حاصل کر چکی تھی۔
مثلاً اُسے معلوم تھا کہ مسز الیسکیول میکسیکو سے غیرقانونی طور پر یہاں آ کر آباد ہوئی تھی۔
وہ ہمیشہ شہر سے نکالے جانے کے خوف میں مبتلا رہتی تھی۔
مسز ڈنکن کو یہ بھی معلوم تھا کہ ستمبر کے مہینے میں پولیس نے مسز الیسکیول اور اُس کے شوہر مارسیانو کو چوری شدہ سامان خریدنے کے جرم میں گرفتار کر لیا تھا۔
فرینک نے اُن دونوں کے مقدمے کی پیروی کی تھی جس میں مارسیانو کو سزا ہو گئی،
لیکن مسز الیسکیول کو بری کر دیا گیا تھا۔

مسز ڈنکن نے فرینک کے حوالے سے اپنا تعارف کرایا اور جلد ہی مسز الیسکیول سے یوں گھل مل کر گپ لگانی شروع کر دی جیسے برسوں کی ملاقات ہو۔
پہلی ہی ملاقات میں مسز ڈنکن نے اپنی اِس نئی سہیلی کو اپنے ’’مصائب‘‘ بھی بتا دیے۔
’’فرینک کی بیوی اولگا مجھے مسلسل ہراساں کر رہی ہے۔
حال ہی میں اُس نے مجھ سے پھر ایک ہزار ڈالر کا مطالبہ کیا اور دَھمکی دی ہے کہ اگر یہ رقم فوری طور پر ادا نہ کی گئی، تو وہ میرے چہرے پر تیزاب پھینک دے گی۔‘‘

مسز الیسکیول نے عدالت کو بتایا کہ مسز ڈنکن نے اُس کے بعد اُس سے درخواست کی کہ اُسے ایسے شخص کا پتا بتایا جائے جو اَولگا کو قتل کرنے میں اُس کی مدد کر سکے۔
مسز الیسکیول کا شوہر جیل میں تھا اور سزا کے خلاف اپیل کی پیروی کے لیے اُسے فرینک کی ضرورت تھی،
اِس لیے اس  نے مسز ڈنکن سے فوراً وعدہ کر لیا کہ وہ دو اَیسے لڑکوں سے اُسے متعارف کرا دَے گی جو یہ کام کر سکتے ہیں۔

یہ دونوں لڑکے گس بالڈو ناڈو (عمر ۲۶ سال) اور لوئیس مویا (عمر ۲۱ سال) تھے۔
دونوں بےروزگار تھے اور اَپنا بیشتر وقت کیفے ٹراپیکل میں گزارتے تھے۔
دونوں دن میں ایک آدھ بار کیفے میں برتن وغیرہ دَھو دیا کرتے تھے جس کے عوض کیفے کی مالکہ اُنھیں کھانا کھلا دیا کرتی تھی۔
بالڈوناڈو کے رہنے کا بھی کوئی ٹھکانا نہ تھا اور وُہ رَات بھی کیفے میں گزارتا تھا۔
مسز الیسکیول نے دونوں لڑکوں کو پہلے ہی مسز ڈنکن سے غائبانہ متعارف کرا دِیا۔
اُس کے وہاں آنے کا مقصد بھی بتا دیا تھا،
چنانچہ اگلے دن جب مسز ڈنکن اور مسز شارٹ وعدے کے مطابق کیفے پہنچیں،
تو دونوں لڑکے اُن کے منتظر تھے۔
مسز الیسکیول دونوں لڑکوں کو میڈم ڈنکن کے سامنے پیش کر کے کاؤنٹر پر واپس چلی گئی۔
مادام شارٹ ایک الگ میز پر جا بیٹھی۔

مسز ڈنکن دونوں لڑکوں کے ساتھ کاؤنٹر کے قریب ہی بیٹھی باتیں کر رہی تھی۔
مادام الیسکیول کے کان میں بھی کچھ جملے پڑے۔
اُس نے عدالت میں بتایا کہ معاوضے کے بارے میں بات کرتے ہوئے مسز ڈنکن نے اُن لڑکوں سے کہا تھا کہ تین ہزار ڈالر کافی ہیں۔
اِس کے علاوہ اُنھوں نے تیزاب، خواب آور گولیوں اور کار کی بات بھی کی تھی۔
مسز ڈنکن نے یہ پیش کش بھی کی کہ اگر ضرورت پڑی، تو وہ خود اِس مہم میں شریک ہو جائے گی۔

لوئیس مویا نے اُس گفت و شنید کے بارے میں عدالت کو بتایا ’’شروع میں تو ہم بس ایک دوسرے کو ٹٹولتے رہے تاکہ صورتِ حال کا صحیح اندازہ ہو جائے۔
مَیں نے مسز ڈنکن سے اُن کے بیٹے فرینک کے بارے میں چند سوالات کیے۔
سانٹا باربرا کے ایک لائق وکیل کی حیثیت سے اُس کا نام مَیں نے پہلے بھی سنا تھا۔
مسز ڈنکن نے مجھے بتایا کہ اولگا، فرینک کو بلیک میل کر رہی ہے۔
اُس نے دھمکی دی ہے کہ اگر اگلے جمعے تک ہم نے اُسے ایک ہزار ڈالر نہ دیے،
تو وہ فرینک کی پیشہ ورانہ مہارت کو تباہ کر دے گی،
اِس لیے مَیں کسی ایسے شخص کی مدد چاہتی ہوں جو اُس لڑکی (اولگا) کو ٹھکانے لگا دے۔‘‘

اِس کے بعد مویا، بالڈوناڈو اور مسز ڈنکن کے درمیان معاوضے کی بات ہوئی۔
مویا نے عدالت کو بتایا ’’شروع میں مسز ڈنکن صرف تین ہزار ڈالر ادا کرنا چاہتی تھی،
لیکن مَیں نے معاوضے میں اضافے کا مطالبہ کیا اور وُہ چھ ہزار ڈالر ادا کرنے پر راضی ہو گئی۔
اُس نے وعدہ کیا کہ وہ تین ہزار ڈالر پیشگی ادا کر دے گی۔
باقی تین ہزار ڈالر اُس وقت ادا کرے گی جب اولگا کی لاش ٹھکانے لگا دی جائے گی۔
مَیں نے مسز ڈنکن کو بتایا کہ مجھے اور بالڈوناڈو کو اِس منصوبے کی تکمیل کے لیے کار، ہتھیار اَور دَستانوں کی ضرورت پڑے گی۔
یہ چیزیں حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس رقم نہیں تھی،
چنانچہ مَیں نے مسز ڈنکن سے درخواست کی کہ وہ فوری طور پر کچھ رقم ہمارے حوالے کر دیں۔‘‘

مسز ڈنکن تھوڑی سی رقم اُسی وقت ادا کرنے پر راضی ہو گئی۔
اُس کے بعد تینوں نے موزوں ترین طریقۂ قتل انتخاب کرنے کے لیے بڑی دیر تک گفتگو کی۔
مویا نے عدالت کو بتایا:
’’ہم نے کئی تجاویز پر آپس میں غور کیا۔ مسز ڈنکن نے ہمیں بتایا کہ
اُن کے پاس خواب آور گولیاں، کچھ تیزاب اور رَسّی موجود ہے جنہیں اِس کام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
خواب آور گولیوں کی ایک بڑی مقدار سے ہم اولگا کو بےہوش کر سکتے تھے۔
اگر ہم اُسے گھر کے قریب راہ چلتے اغوا کرتے یا گھر سے اٹھا کر لے جاتے،
تو رسّی سے اُس کے ہاتھ پاؤں باندھے جا سکتے تھے۔
تیزاب سے اولگا کے چہرے اور اُنگلیوں کو مسخ کرنا مقصود تھا تاکہ لاش کو پہچانا نہ جا سکے۔‘‘

مسز ڈنکن نے مویا اور بالڈوناڈو کو ایک ماہر سراغ رساں کی مانند منصوبے کی تمام تفصیلات سمجھائیں۔
اولگا کے گھر سے باہر جانے اور آنے کے اوقات بتائے تاکہ حملے کے لیے موزوں ترین وقت منتخب کیا جا سکے ۔
دونوں لڑکوں کو یہ بھی بتایا کہ اولگا خاصی صحت مند لڑکی ہے
حملہ آوروں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتی ہے۔

آخر ہم تینوں ایک منصوبے پر رضامند ہو گئے۔ مویا نے عدالت کو بتایا:
’’منصوبہ یہ تھا کہ اگر اولگا اپنے گھر کے قریب سڑک کے کنارے مل جائے اور وَہاں کوئی اور موجود نہ ہو،
تو اُسے گھسیٹ کر کار میں ڈال دیا جائے۔
یہ ممکن نہ ہو، تو پھر اُس کے گھر پہنچا جائے، جب وہ دَروازہ کھولے، تو اُسے دھکیل کر گھر میں داخل ہوا جائے۔
اُس کے بعد اُس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں اور اُسے کار میں ڈال کر سان ڈیاگو پہنچا جائے
جہاں سے سرحد پار کر کے تجوانا جایا جائے اور وَہاں اَولگا کی لاش کو کہیں غائب کر دیا جائے۔‘‘

مویا نے مسز ڈنکن کو بتایا کہ وہ پستول آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔
مسز ڈنکن نے اِس منصوبے کے لیے اپنی کار کی پیش کش بھی کی،
لیکن مویا نے یہ تجویز اِس خطرے کی بنا پر رد کر دی کہ تفتیش کے دوران مسز ڈنکن پر شبہ کیا جا سکتا تھا۔
اُس کی کار کا اِستعمال پولیس کو باقاعدہ ثبوت فراہم کر دیتا۔
مویا اِس سلسلے میں بہت محتاط تھا کہ بعد میں پولیس کو مسز ڈنکن اور اَصل قاتل کے مابین کسی قسم کے تعلق پر شبہ نہ ہو۔
ظاہر ہے کہ مویا کو اَولگا فرینک سے کوئی ذاتی دشمنی نہ تھی۔
پولیس بغیر کسی وجہ کے اُس پر شبہ بھی نہ کر سکتی تھی۔
خود مسز ڈنکن بھی قانون کی آنکھوں میں اِسی طرح دھول جھول سکتی تھی،
چنانچہ وہ مویا کی تمام تجاویز مان گئی اور کیفے سے یہ کہہ کر رخصت ہوئی کہ:
وہ بینک سے رقم نکلوانے جا رہی ہے،
لیکن حقیقت یہ تھی کہ بینک میں اُس کی کوئی رقم نہ تھی۔
وہ کیفے سے اٹھ کر سیدھی ایک ساہوکار کی دکان پر پہنچی۔
اَپنی دو اَنگوٹھیاں گروی رکھ کر ایک سو پچھتر ڈالر لے آئی۔
مسز ڈنکن نے یہ رقم کیفے ٹراپیکل کے باورچی خانے میں مویا کے حوالے کی۔
اِس ادائی کے بعد دونوں لڑکوں نے مسز ڈنکن پر پوری طرح بھروسا کرنا شروع کر دیا ۔
مزید رقم کی فوری ادائی کا مطالبہ کیے بغیر کام کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔
اُس موقع پر مسز ڈنکن اور مویا کے درمیان یہ طے پایا کہ:
اگر آئندہ اِس سلسلے میں ٹیلی فون پر بات کرنے کی ضرورت پیش آ جائے،
تو اپنا اصل نام استعمال کرنے کے بجائے صرف ایک نام ’’ڈروتھی‘‘ استعمال کیا جائے۔

مسز ڈنکن کے ساتھ اِس سودےبازی اور منصوبہ بندی کے دوران بالڈوناڈو،
ایک خاموش سامع کے طور پر شریک رہا اور تمام معاملات مویا نے طے کیے،
تاہم وہ ایک وفادار اَور فرمانبردار ساتھی کی طرح مویا کی ہر بات سے متفق تھا۔

مسز ڈنکن کو اِس بار یقین تھا کہ،
اولگا کو قتل کرنے کے لیے جن دو لڑکوں کا انتخاب کیا ہے،
وہ یہ کام ضرور کر گزریں گے، چنانچہ کیفے ٹراپیکل سے رخصت ہوتے وقت اُس نے مسز شارٹ سے کہا:
’’مجھے پوری اُمید ہے کہ وہ یہ کام کر دیں گے۔‘‘
اِس موقع پر مسز شارٹ کے اپنے احساسات کیا تھے؟
اُنھیں اولگا سے کوئی عداوت نہ تھی، بلکہ وہ جانتی تھیں کہ اولگا بےقصور ہے، پھر وہ خاموش کیوں رہیں؟
یہ ایک معّمہ ہے جسے وکیلِ استغاثہ نے بھی حل کرنے کی کوشش کی اور ماہرِ نفسیات نے بھی۔
وکیلِ استغاثہ مسٹر گستافسن نے مسز شارٹ سے اِس طرح سوالات کیے:

سوال: اگر تم چاہتیں، تو اولگا کو قتل ہونے سے یقیناً بچا سکتی تھیں؟
جواب: جی ہاں!
سوال: اگر تم یہ محسوس کرتیں کہ پولیس کو اِس منصوبے سے آگاہ کر کےم
اولگا کی جان بچائی جا سکتی تھی، تو رپورٹ لکھوانے ضرور جاتیں۔
جواب: نہیں جناب!
سوال: نہیں؟ تو کیا تم یہ نہیں چاہتی تھیں کہ پولیس کو اِس بات کا علم ہو؟
جواب: یہ بات نہیں۔ اصل میں مَیں ڈر گئی تھی۔ مَیں اِس تمام عرصے میں سخت خوف زدہ رَہی۔
سوال: کیا تم پولیس سے خوف زدہ تھیں؟
جواب: نہیں! مَیں اصل میں مسز ڈنکن کی باتوں سے خوف زدہ تھی۔
اُن سے خود بات نہیں کر سکتی تھی۔
سوال: تو کیا مسز ڈنکن نے کبھی تمہیں کوئی دھمکی دی؟
جواب: نہیں، کبھی نہیں۔
سوال: تم اُس کے ساتھ ہر جگہ جاتی رہیں۔
جواب: جی ہاں!
سوال: اور اِس دوران مسز ڈنکن سے تمہارے تعلقات دوستانہ تھے؟
جواب: جی ہاں، تقریباً دوستانہ۔
سوال: کیا تمہیں پولیس پر اعتماد تھا؟
جواب: جی ہاں!
سوال: اِس کے باوجود تم نے پولیس کو کیفے ٹراپیکل میں،
مسز ڈنکن اور مادام الیسکیول کی گفتگو سے آگاہ نہیں کیا؟
جواب: نہیں!
سوال: تم نے قانون کو حرکت میں لانے کے لیے کسی اور شخص کو بھی اطلاع نہیں دی؟
جواب: نہیں جناب!
سوال: اور اِس کے بعد تم اگلے دن پھر مسز ڈنکن کے ساتھ کیفے ٹراپیکل گئیں؟
جواب: جی ہاں!
سوال: مسز ڈنکن نے تمہیں ساتھ چلنے پر مجبور تو نہیں کیا تھا؟
جواب: بالکل نہیں۔
سوال: اُس نے تم سے ساتھ چلنے کے لیے محض کہا تھا؟
جواب: جی ہاں!
سوال: اگر تم جانا نہ چاہتیں، تو انکار بھی کر سکتی تھیں؟
جواب: نہیں! مسز ڈنکن کی کسی بات پر ’نہیں‘ کہنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔

عدالت کی جانب سے مقرر کیے ہوئے ماہرِ نفسیات نے
مسز شارٹ سے انٹرویو کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ
مسز ڈنکن اپنے ملنے جلنے والوں پر یہ تاثر بڑی کامیابی سے قائم کرتی تھی کہ:
اگر کوئی اُس کی مخالفت کی جرأت کرے گا، تو اُسے اُس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

’’اِس کے علاوہ جدید معاشرے اور ہمارے ماحول پر بےیقینی اور شکوک و شبہات کی فضا حاوی ہے۔
ایسے ماحول میں جب کوئی شخص، مسز ڈنکن کی مانند تیقّن اور فیصلہ کن انداز میں سوچتا
اور عمل کرتا ہے۔  عام آدمی کو اُس کی شخصیت میں زبردست کشش محسوس ہوتی ہے۔
اَیسے لوگوں کی قربت میں ایک قسم کے ذہنی سکون اور ذاتی تحفظ کا احساس ملتا ہے۔
ہٹلر کی شخصیت میں بھی یہی فیصلہ کن انداز تھا ۔
جس کے سبب وہ کروڑوں انسانوں کے دلوں پر حکمرانی کرتا تھا۔‘‘

بہرکیف، ماہرینِ نفسیات و قانون اِس حادثے سے خواہ کچھ ہی نتائج اخذ کریں،
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکا جیسے ’’متمّدن‘‘ ملک کے ایک خوشحال اور بارونق شہر میں،
ایک بےگناہ عورت کے قتل سے پہلے درجنوں خواتین و حضرات کو یہ بخوبی علم تھا کہ:
اولگا فرینک کو قتل کیا جائے گا،
لیکن کسی ایک نے بھی آگے بڑھ کر قاتل کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کی۔

امریکی مصنّف پیڑو پڈن نے اپنی کتاب میں صرف یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ
آخر وہ لوگ کسی مٹی کے بنے ہوتے ہیں
جو کسی بھی اجنبی کو محض کچھ رقم کے لالچ میں قتل کر دیتے ہیں،
لیکن کرائے کے قاتلوں کی نفسیات سے قطع نظر ،
صرف اولگا فرینک کے قتل کے پس منظر میں جو کردار اَور حالات عدالت کے ذریعے منظرِعام پر آئے،
وہ بجائے خود اِتنے بھیانک اور شرم ناک ہیں کہ کرائے کے قاتلوں کا وجود اُن کے سامنے ہیچ ہے۔
اُن میں بیشتر کردار وُہ ہیں جو خود اِس لیے اولگا کو قتل نہ کر سکے کہ:
اُن میں ’’ہمت‘‘ نہ تھی،
ورنہ اخلاقی طور پر اُنھوں نے بھی معاوضے پر انسانی جان کے قتل کو محض ’’کاروبار‘‘ ہی سمجھا تھا۔
ایک کاروباری اُلجھن ہی کی وجہ سے کاروبار میں شریک یہ سب خواتین و حضرات ،
دنیا کی نظروں میں برہنہ ہوئے۔

مسز ڈنکن نے اولگا کے قتل کے بعد وعدے کے مطابق قاتلوں کو ادائی نہ کی۔
یہ بات ’’کاروباری دیانت‘‘ کے خلاف تھی۔
قاتل معاوضے کے لیے اصرار کر رہے تھے۔
مسز ڈنکن پولیس کو جُل دینے کے لیے نئے سے نیا ہتھکنڈا اِستعمال کر رہی تھی، لیکن تابکے۔

۱۹۵۸ نومبر کی ۱۷ تاریخ اور پیر کا دن تھا۔
جب طےشدہ پروگرام کے مطابق رات گیارہ بجے گس بالڈو ناڈو اَپنے ساتھی مویا کے مکان پر پہنچا۔
دونوں نے اپنے سازوسامان کا جائزہ لیا۔ پچیس ڈالر کرایہ دے کر اُنھوں نے ایک دوست سے ہلکے کریم رنگ کی شیورلیٹ کار حاصل کر لی تھی۔
مویا نے ایک اور دوست کا پستول یہ کہہ کر مانگ لیا تھا کہ:
وہ لاس اینجلز میں راہ زنی کے لیے جا رہا ہے۔
اِس کے علاوہ دونوں نے کچھ کارتوس، اولگا کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے لیے پلاسٹک کی ڈوری
اور چمڑے کے سیاہ دَستانے بھی خرید لیے تھے۔

وہ دونوں کار میں بیٹھ کر گارڈن اسٹریٹ میں ایک جدید طرز کے دو منزلہ بنگلے کے سامنے پہنچ گئے۔
جب مویا سیڑھیاں چڑھ کر دوسری منزل کے دروازے پر دستک دے رہا تھا،
اُس وقت گھڑی میں ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے تھے۔
اُسی دروازے سے بیس منٹ پہلے کاٹچ اسپتال کی دو نرسیں نکل کر جا چکی تھیں۔
وہ دونوں نرسیں اولگا کا جی بہلانے کے لیے اتنی دیر وہاں رکی رہی تھیں۔
مویا نے دروازے پر دستک دی۔ چند لمحے بعد اولگا نے دروازہ کھولا۔
مویا نے دیکھا کہ وہ پانچ فٹ دو اِنچ قامت اور خاصے تندرست جسم کی مالک تھی۔

مویا نے اُس سے کہا:
’’مَیں فرینک کا دوست ہوں اور فرینک اِس وقت نیچے میری کار میں موجود ہے۔
اصل میں آج اُس نے کچھ زیادہ پی لی ہے۔
اُس کی جیب میں خاصی رقم ہے۔ اِس لیے مَیں نے مناسب سمجھا کہ:
اُسے حفاظت سے اپنے ساتھ ہی یہاں لے آؤں۔
اب آپ ذرا میرے ساتھ نیچے چلیں تاکہ ہم دونوں اُسے سہارا دَے کر اُوپر لے آئیں۔‘‘

اولگا اپنے شوہر کو لینے کے لیے فوراً سیڑھیاں اتر کر کار تک پہنچ گئی۔
کار کی پچھلی نشست پر بالڈو ناڈو اِس طرح لیٹا ہوا تھا کہ اُس کا چہرہ نظر نہیں آتا تھا۔
اولگا یہی سمجھی کہ وہ فرینک ہو گا، چنانچہ اُس نے لپک کر کار کا دَروازہ کھولا۔
اُس موقعے پر مویا نے عقب سے اُس کے سر پر پستول کے بھاری دستے کی ضرب لگائی۔
اَندر سے بالڈو ناڈو نے اولگا کو پکڑ کر کار میں گھسیٹ لیا۔

اولگا بےہوش نہیں ہوئی تھی اور مسلسل ہاتھ پاؤں مار رَہی تھی۔
بالڈو ناڈو نے اُس کے ہاتھ پاؤں پکڑ رکھے تھے اور منہ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔
مویا کار چلا رہا تھا اور سڑک بالکل سنسان تھی۔
ایک چوراہے کی سرخ بتّی پر جب کار کو روکنا پڑا، تو بالڈو ناڈو نے مویا سے کہا:
’’اِسے قابو میں رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔‘‘
چنانچہ مویا نے پلٹ کر پستول کے دستے سے اولگا کے سر پر اتنی ضربیں لگائیں کہ :
پستول ٹوٹ گیا اور وُہ بےہوش ہو گئی۔
اب بالڈو ناڈو نے پلاسٹک کی ڈوری نکالی اور اُس کے ہاتھ پاؤں کَسّ کر باندھ دیے۔
چند منٹ سفر کرنے کے بعد دونوں لڑکوں نے محسوس کیا کہ کار میں کچھ گڑبڑ ہو گئی ہے۔
اِس حالت میں میکسیکو کی سرحد تک پہنچنا مشکل تھا۔
چنانچہ بالڈو ناڈو نے تجویز کیا کہ:
اوجائی کے سنسان پہاڑی علاقے میں پہنچ کر اولگا کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔

سانٹا باربرا سے جنوب میں تقریباً تیس میل کے فاصلے پر،
خشک پہاڑی علاقے میں اُنھیں ایک جگہ پسند آئی،
لیکن اولگا ابھی تک زندہ تھی اور کوئی بات بھی منصوبے کے مطابق نہیں ہو رہی تھی۔
مویا نے اولگا کو گولی مارنے کا ارادہ کیا، لیکن پستول کا دستہ اِس طرح ٹوٹا ہوا تھا کہ:
اب اُس سے فائر کرنا بھی ممکن نہ تھا۔
اِس کے علاوہ اُن کے پاس ایسی کوئی چیز نہ تھی،
جس کے ذریعے زمین کھود کر لاش کو دفن کیا جا سکتا۔
وقت تیزی سے گزر رَہا تھا ۔
ہر لمحے یہ دھڑکا تھا کہ سڑک پر جاتی ہوئی کسی گاڑی کی روشنی اُن پر نہ پڑ جائے،
چنانچہ مویا نے پریشان ہو کر برہنہ ہاتھوں سے مٹی کھودنی شروع کر دی۔
اُدھر بالڈو ناڈو نیم جاں اولگا کا گلا گھونٹنے لگا۔ کچھ دیر بعد بالڈو ناڈو مٹی کھودنے پہنچا۔
مویا نے بالڈو ناڈو کی جگہ لے لی۔ آخر قبر تیار ہو گئی اور اَولگا کی نبضیں بھی ساکت ہو گئیں۔

اولگا کو دفن کرنے کے بعد جب مویا اور بالڈو ناڈو آدھی رات کے بعد کیفے ٹراپیکل پہنچے،
تو مسز الیسکیول کی آنکھ کھل گئی۔
اُس نے دونوں لڑکوں کے ہاتھ اور کپڑے خون میں لت پت دیکھے،
لیکن کچھ کہے بغیر کروٹ بدل کر سو گئی۔
اُسے معلوم تھا کہ لڑکے اپنا کام کر آئے ہیں، چنانچہ اِس ’’اطمینان‘‘ کے بعد بلاوجہ جاگتے رہنا بےمعنی تھا۔

مسز ڈنکن نے اپنی دھمکی کو سچ کر دکھایا تھا،
لیکن اُس کے پاس قاتلوں کو ادا کرنے کے لیے کوئی رقم نہ تھی۔
مویا کے بار بار تقاضے پر دو تین قسطوں میں وہ صرف ۳۳۵ ڈالر ادا کر پائی۔

اِس دوران مسز اولگا فرینک کی گمشدگی پولیس کے لیے معّمہ بنی ہوئی تھی۔ آخرکار مویا کے تقاضوں اور مسز ڈنکن کی وعدہ خلافیوں نے اصل صورتِ حال سے پردہ اُٹھایا۔
اب کوئی بات بھی معّمہ یا راز نہیں تھی۔ ایک ایک کر کے بیسیوں گھناؤنے کردار عدالت کے کٹہرے میں پہنچے۔

عدالت نے مقدمے میں ماخوذ یا ملّوث ہر کردار کی زندگی کے حالات کی چھان بین شروع کی،
تو اولگا فرینک کی گزشتہ زندگی کے بارے میں بھی پوچھ گچھ ہوئی،
لیکن تمام تر تفتیش کے بعد صرف اتنا معلوم ہوا کہ:
اولگا سے زندگی میں واحد لغزش یہی سرزد ہوئی تھی کہ:
اُس نے مسز ڈنکن جیسی ڈائن کو اپنی ساس بنایا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles