” چھوٹے پاکستان “سے
“بڑے پاکستان” تک کا سفر
شہادتوں قربانیوں کی لہو لہو داستاں
تحریر ؛۔ جاویدایاز خان
اکبرپور باروٹہ چاروں جانب سے ہندوں آبادی میں گھرا واحد مسلمان گاؤں تھا۔
ہندو اسے “چھوٹا پاکستان” کہتے تھے۔ اِردگرد کے ہندو مظالم سے تنگ سب غریب مسلمان یہاں پناہ لیتے تھے۔
یہاں کے بزرگ میرے دادا محبوب خان تھے، جو اپنے خاندان اور گاؤں والوں کے ہمراہ تین دن سے ہندوؤں کے حملوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔ بے شمار مسلمان شہیدوں کی بیوائیں اور بچے ان کی پناہ گاہ میں موجود تھے۔
اس رات گاؤں کے اکثر لوگ اس “چھوٹے پاکستان “سے” بڑے پاکستان ” کی جانب اپنے سفر کا آغاز کر چکے تھے، کیونکہ مزید لڑنے کی سکت نہ تھی مگر محبوب خان شہید نے پناہ گزینوں کی حفاظت کے لیے گاؤں میں ہی ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔
گاؤں میں ان کے ہمراہ بے شمار مسلمان ان کے بیوی بچے اور میری والدہ جو سفر کے قابل نہ تھیں اور دو بہن بھائی خالد اور خدیجہ بھی گاؤں میں موجود تھے ۔
یہ وہ گاؤں تھا جس کے تمام لوگوں نے “بڑے پاکستان ” کی جانب ہجرت کے لیے جامِ شہادت نوش کیا اور پاکستان کی بنیادوں میں اپنا لہو شامل کیا ۔
میرے دو بہن بھائی، ماں عزیز واقارب اور دادا محبوب خان کی شہادت کا دُکھ گاؤں اکبر پور باروٹہ کی تباہی و بربادی کا سانحہ اور غم ہماری تیسری نسل تک آن پہنچا ہے۔
۱۴ اگست کو آج بھی ان کا ذکر ہمیں سوگوار کر دیتا ہے۔ میرے ایک ماموں زاد بھائی مرزا شریف بیگ مرحوم اس تحریک آزادی اور لڑائی کا حصہ تھے اور فسادات کے دوران قتل غارت گری کے عینی شاہ بھی تھے۔
انھوں نے اپنی کہانی یوں بیان کی ہے:
وہ صبح کا خونین دن طلوع ہوا تو چشم فلک نے عجیب نظارہ دیکھا آج اکبر پور باروٹہ کا پھاٹک بند نہیں بلکہ کھلا تھا۔ بوڑھا محبوب خان گاؤں کے مین دروازے کے درمیان کسی چٹان کی طرح کھڑا تھا۔
دونوں ہاتھوں میں گنڈاسے اور سر پر طرہ دار پگڑی تھی۔ اس کے دائیں بائیں چند بزرگ اور ضعیف پٹھان اور مغل کلہاڑیاں اور لاٹھیاں لیے موجود تھے۔
مقامی پولیس اور ڈوگر رجمنٹ کی سرپرستی میں ہزاروں کی تعداد میں ہندو غنڈے اور جو ٹوکوں، گنڈاسوں، نیزوں، چھریوں، بھالوں اور برچھیوں سے لیس تھے، اندر داخل ہونے لگے۔
بوڑھے محبوب خان کے گنڈاسے نے کئی دشمنوں کا صفایا کر دیا۔ ایک اطلاع کے مطابق سات ہندو قتل کیے، پھر تڑاخ! تڑاخ! تڑاخ! کی آواز اُبھری۔
ڈوگرہ رجمنٹ کی سنساتی گولیاں ان کے سینے میں پیوست ہو گیں تو نعرۂ تکبیر بلند کیا اور لڑکھڑا کر گر پڑے۔ غنڈوں نے اپنے سارے ہتھیار اُن پر آزما لیے۔
ان کا خون اکبر پور باروٹہ کے دروازے پر پھیل گیا۔ اناَللہ وانا الیہ راجعون۔
وہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے شہادت کے عظیم رتبہ پر فائز ہو گئے۔ انھوں نے اپنا کہا سچ ثابت کر دکھایا:
“دشمن میری لاش سے گزر کر ہی گاؤں میں داخل ہو سکتا ہے” ۔ غنڈوں کا مجمع ان کی لاش کو روندتا ہوا گاؤں میں داخل ہو گیا ۔خون اور ظلم کی وہ ہولی کھیلی گئی، جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
بھائی شریف بیگ مرحوم نے مجھے بتایا کہتے کہ گاؤں میں ایک جنگ کا سماں تھا۔ لوگوں کی چیخ و پکار اور ہندوؤں کے نعرے گونج رہے تھے۔
“ڈوگرہ رجمنٹ کی گولیوں دشمنوں کے ٹوکے، گنڈاسوں، نیزوں، چھریوں، بھالوں اور برچھوں سے مسلمانوں کا قتل عام جاری تھا ۔میرے ہاتھ میں بھی ایک کلہاڑی تھی۔ گاؤں کے سبھی نوجوان لڑ لڑ کر شہید ہو چکے تھے۔
ایک کونے میں جمشید بیگ اور شہزاد بیگ برسر پیکار تھے۔ ہماری پشت سے حملہ روکنے کے لیے نطام الدؔین ماشکی اپنا بھاری بھرکم لٹھ لیے دشمنوں کے وار سے ہمیں بچا رہا تھا ۔
میرے سر میں دشمن کی کلہاڑی لگی جس سے گہرا زخم آیا۔ خون بہتا رہا اور میں چکرا کر زمین پر گر پڑا۔
کچھ ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ میرے ساتھی دائیں طرف بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے اور دشمن گاؤں کے بائیں جانب اس حصہ پر سیلاب کی طرح دوڑ رہے تھے۔ جہاں مختلف گرد و نواح دیہات سے آئی ہوئی شہیدوں کی بیوائیں ،نوجوان یتیم بچیاں اور ان کے چھوٹے چھوٹے معصوم بچے چیخ اور چلا رہے تھے ۔
دشمن غنڈے نوجوان عورتوں کو اپنی طرف گھسیٹ رہے تھے۔ جو بچے ان سے لپٹتے، ان کو وہ بےدردی سے قتل کر رہے تھے۔ بوڑھی عورتوں کے گلوں، کانوں اور ہاتھوں سے زیورات نوچ نوچ کر انھیں بھی شہید کر رہے تھے ۔
بے شمار عورتوں نے گاوں کے کنوئیں میں ڈوب جانے کو ترجیح دی۔ گاؤں کے کنوئیں لاشوں سے بھر چکے تھے۔ عورتوں اور بچوں کی چیخ وپکار سے گاوں لرز رہا تھا۔
ہندو غنڈے لوٹ مار اور قتل غارت گری میں اس قدر مشغول تھے کہ مجھ پر نظر نہ پڑی۔ میں اُٹھا اور جس طرف میرے ساتھی دوڑے تھے، اسی طرف چھپتا چھپاتا چل پڑا اور اپنے چند ساتھیوں سے جا ملا۔
ہم نامعلوم سمت میں دوڑتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے۔ مجھے یاد نہیں کہاں اور کیسے ہم ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔
میرے سر سے خون بہ رہا تھا۔ بھوک، پیاس اور نقاہت سے پھر بےہوش ہو کر گر پڑا۔ جب آنکھ کھلی اور ہوش آیا تو رات کا پچھلا پہر تھا۔ ۲۷ شعبان کی شب تھی، اس لیے اندھیرا تھا۔
میں نے ستاروں کی مدد سے سونی پت شہر کا راستہ متعین کیا جہاں ہمارے گاؤں کے پٹھان مجاہدین اس شہر مدافعت کے لیے سر ِپیکار تھے۔
کیچڑ سے لت پت لڑکھڑاتا لڑکھڑاتا مشہد شریف( کوٹ ) کے راستے ان تک جا پہنچا ۔میرے ساتھی کہیں راستے میں مجھ سے بچھڑ کر شہید ہو چکے تھے اور پھر اسپیشل ٹرین سے مہاجرین کوٹ ادو پاکستان آئے تو ان کے ہمراہ میں بھی پاکستان آ کر آباد ہو گیا۔
ایک اور بازیاب مسلمان خاتون نے زار زار روتے ہوئے بتایا کہ
“جو انسانیت سوز مظالم اکبر پور باروٹہ میں ہوئے وہ ناقابل بیان ہیں۔ بچوں اور خواتین پر وحشت اور بربریت کے پہاڑ ٹوٹ گئے۔ جو نہ زبان سے بیان کئے جا سکتے ہیں اور نہ تحریر میں لائے جا سکتے ہیں۔
حیرت ہے نہ زمین پھٹی اور نہ آسمان ہی گرا۔
انسانیت دم توڑ گئی مذہبی جنون جیت گیا۔ اس وہ ظلم میں فوج، پولیس اور ہندو بلوائی سب شامل تھے۔ گاؤں کے غیرت مند مسلمانوں نے اپنے ہاتھوں اپنی بچیوں کو کنوئیں میں ڈالا۔
چھوٹے چھوٹے بلکتے مسلمان بچے ان ظالموں کے نیزوں اور گنڈاسوں سے اپنی ماؤں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھرے پڑے تھے۔
شہداء کی بیوائیں چلاتی رہیں مگر ہندو غنڈے انھیں گھسیٹ گھسیٹ کر مال غنیمت کی طرح لے گئے۔ان کے کپڑے تار تار کر دیے۔
جو زیادہ مزاحمت کرتی، اسے گاجر مولی کی طرح کاٹ دیتے ۔ بوڑھی عورتوں کے کانوں، ہاتھوں، ناکوں اور گلوں سے زیور ایسے نوچے کہ وہ لہو لہان ہو گئیں ۔
جوان عورتوں کو مال غنیمت کی طرح بانٹ لیا۔ جب کوئی عورت چلاتی تو کہتے، بلاؤ قائد اعظم کو، بلاؤ محبوب خان کو، بلاؤ خان محمد خان کو تمہاری مد د کرے !
پورے گاؤں کو خون میں نہلا دیا گیا ۔مسجد کا صحن خون اور خواتین کی برہنہ لاشوں اور کٹے ہوے اعضاء سے پٹ چکا تھا ۔
ایک ہندو جاٹ نے محبوب خان کی لاش کو مخاطب کر کے کہا:
” آج ہم نے مسلمانوں سے سو سالہ پرانا بدلہ لے لیا ہے۔ ” محبوب خان اُٹھو اور دیکھو اپنے “چھوٹے پاکستان” کا حشر!
گاؤں کو لوٹ اور راکھ کا ڈھیر بنا کر ہندوں غنڈے دوپہر تک واپس جا چکے تھے. گاؤں کے تمام مرد، بوڑھی عورتیں اور بچے شہید اور جوان عورتیں اغوا ہو چکی تھیں ۔ پورے گاؤں میں مرد عورتوں اور بچوں کے کٹے اور جلے ہوئے اعضاء بکھرے ہوئے تھے۔
انھیں شہداء میں تمہارے بہن بھائی خدیجہ اور خالد اور ماں خاتون کے معصوم لاشے بھی تھے ۔ گاؤں کے مرکزی دروازے کے درمیان محبوب خان شہید کی خون میں لتھڑی اور روندی ہوئی لاش پڑی تھی، مگر دونوں ہاتھوں میں گنڈاسے اب بھی مضبوطی سے موجود تھے۔
ہندو غنڈے دُور سے دیکھتے، مگر خوف سے نزدیک نہ آتے۔
اتنی جرات نہ تھی کہ ہاتھ لگا سکیں۔ آج ان شہداء کی مسخ اور جلی کٹی ہوئی میتوں پر کوئی رونے والا نہ تھا ۔
کئی مہینوں تک خوف اور تعفن کی وجہ سے کوئی بھی گاؤں میں داخل نہ ہوتا تھا۔ پورے گاؤں کے مسلمانوں کے بے گور و کفن لاشے پڑے رہے۔ کوئی دفنانے والا نہ تھا ۔
یہ سب پاکستان کے وہ مسافر تھے جو منزل تک نہ پہنچ پائے۔ یہ دراصل پاکستان بنانے والے تھے۔ ان سب شہداء کو قوم اور ملک کا سلام ہو !
اے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدائے وطن! ہم تمہارے مقروض ہیں۔ تمہارا خون رائیگاں نہ جائے گا۔ ہم ایک دن یہ قرض ضرور اُتاریں گے۔
یوم پاکستان اور تحریک پاکستان کے ان واقعات سے پتا چلتا ہے کہ اس زمانے کے مسلمانوں نے اس مملکت خداداد کو بنانے کے لیے کتنی قربانیاں دی تھیں۔ جس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔
ہمیں ۱۹۴۷ء میں رونما ہونے والے انقلاب ہجرت کو صرف داستانوں کی حد تک رکھنا نہیں چاہیے، بلکہ دنیا کی اس سب سے بڑی ہجرت سے سبق لیتے ہوئے ہمیں اپنے وطن ، ملک اور قوم کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے ۔
یہ ملک بڑی مشکل اور بے پناہ جانی و مالی قربانیوں سے حاصل ہوا ہے۔ اس کی بنیادوں میں ہمارے بزرگوں ،عورتوں اور بچوں کا خون شامل ہے، جو ہماری پہچان، ہمارا ایمان ہے۔
بلکہ ہماری جان اور آخری پناہ ہے۔
اس کا تحفظ ،ترقی اور بقا کے لیے جدوجہد ہمارا قومی و دینی فرض ہے ۔
آج میں سوچتا ہوں کہ کیا ہم یہ فرض ادا کر رہے ہیں ؟کیا پاکستان بنانے کا مقصد حاصل کر پائے ہیں ؟ ایک بڑے اور عظیم پاکستان کی جانب یہ سفر کب تک جاری رہے گا ؟