۱ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اُردو میں بچّوں کا ادب ، جنوبی ایشیا کی ایک لسانی و ادبی حقیقت (مختصر اظہاریہ)
ادبِ اطفال سے رُو گردانی، اپنی ثقافت سے محرومی ہوگی!
تحقیق و تحریر(’’پی،ایچ۔ ڈی ‘‘مقالہ نگار:’’اُردومیں بچوں کا ادب آزادی کے بعد‘‘،جامعۂ اُردو):٭پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفرانوارحمیدی
اُردو زبان میں بچوں کے لئے کتب لکھنے کی ابتدا مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر کے عہد سے ہوئی ۔اس دور میں سب سے پہلے ، نو عمر افراد کے لئے مختلف نوع کی کتابیں لکھی گئیں ،جن میں زیادہ تعداد ’’حمدیہ ‘‘ اور ’’ نعتیہ ‘‘ کتب کی تھی ۔ان کتب کے نام ’’خالق باری ‘‘،’’ایزد باری ‘‘، ’’اللہ باری ‘‘ اور ’’ صفت باری ‘‘ وغیرہ تھے ۔ان کتب کے مصنفین نے بچّوں کو بڑے آسان اور عام فہم دلچسپ اشعار میں عربی اور فارسی الفاظ کے معنی سے متعارف کرایا۔
مرزا غالب ؔ مرحوم نے اپنی بیگم ’’امراؤ بیگم ‘‘ کے بھانجے زین العابدین عارفؔ کے دونوں لڑکوں کی تعلیم و تدریس کے لئے ’’قادر نامہ ‘‘ لکھا ،جو تقریباً سارا ہی حمد اور بڑا حصہ نعت پر مشتمل تھا ۔ہم بلا خوفِ تردید یہ لکھ سکتے ہیں کہ نظیر ؔ اکبر آبادی سب سے پہلے شخص تھے ،جنھوں نے ’’بچوں کے اُردو ادب ‘‘ کو مذہب اور نعت سے الگ کرکے بچّوں کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی اور ایسا ادب تخلیق کیا جس کا بچّوں کی اپنی دنیا سے تعلق تھا ۔
یُوں تو ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی ،زندگی کی قدروں میں زبردست تبدیلی لائی اور انسانی شعور کو متحرک کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوئی ، وہاں یہ زبان ِ اُردو کوبھی متاثر کرنے کا سبب بنی ۔اُس دور میں شعر و ادب میں بھی قدیم فرسودہ روایات کو ترک کرکے حقیقت نگاری کو فروغ ہوا۔اس سلسلے میں مولانا محمد حسین آزادؔ کے چند اشعار پڑھئے ، اور دیکھئے کہ مولانا نے بچوں کے ادب کو زندگی کے کس قدر قریب کردیا ہے ۔لکھتے ہیں :
گیا ستمبر آیا جاڑا
سردی نے اب جھنڈا گاڑا
پھینکی سب نے دُور دُلائی
نکلی توشک اور رضائی
دھوپ نے دن بھر دُکھ سے بچایا
شام ہوئی تو کُہرا چھایا بدن جو کانپے سب کے تھر تھر
ہوئی انگیٹھی روشن گھر گھر
مولانا محمد حسین آزادؔ ، استاد ذوقؔ کے شاگرد تھے ۔ان کے بعد مولانا الطاف حسین حالیؔ ، اسمٰعیل میرٹھی ، ڈپٹی نذیر احمد دہلوی اور سورج نرائن مہر ؔ وغیرہ نے بچّوں کے جذبات و احساسات کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے ایسے مضامین ِ نظم و نثر تخلیق کیے جو بچّوں کے لئے دلچسپی بھی
فراہم کریں اور اُن کی تعلیم و تدریس میں بھی کارآمد ثابت ہوں ۔
بچوں کے اہم لکھنے والوں کے ناموں کا معاملہ قبل از آزادی اور بعد از تقسیمِ ہند ہمیشہ توجہ طلب رہا،میرے خیال میں بچّے اپنے لئے لکھا ہوا پڑھتے ہیں، وہ لکھاری کا نام یاد نھیں رکھ پاتے، بہت کم بچّے ایسے ہوتے ہیں جو کسی تحریر کو لکھنے والے کے نام کے ساتھ یاد رکھ سکیں۔بہر حال برصغیر ہند و پاک میں تو مرزا غالبؔ، سرسیداحمد خان،محمد حسین آزادؔ، شبلی نعمانی ، الطاف حسین حالی، برج نرائن چکبست ،اکبر الہ آبادی ، پریم چند، تلوک چند محرومؔ،خواجہ حسن نظامی ،محمود اسرائیل ،حفیظ جالندھری، شفیع الدین نیر، علامہ اقبال ؔ ، احسن مارہروی ، حامد اللہ افسر،افسر میرٹھی،سیماب اکبر آبادی ،حیدر بخش حیدری،بہادر علی حسینی ، سید ولی حیدر،مائل خیر آبادی،کرشن چندر، امجد حسین حافظ کرناٹکی،سراج انور،محوی صدیقی،اختر شیرانی،امتیاز علی تاج، ڈاکٹر ذاکر حسین(صدرِ بھارت)،محمد مجیب ، غلام رسول مہر،صوفی غلام مصطفٰے تبسمؔ،مرزا ادیب،صالحہ عابد حسین،قدسیہ زیدی، عبد الواحد سندھی،عبد الغفار مہولی،قرۃ العین حیدر،پرکاش پنڈت ، تاجور نجیب اکبر آبادی ، ظفر پیامی،اختر پرویز ،اظہار اسرار،افتخار احمد اقبالؔ،قاضی مشتاق احمد،اندرجیت لال،ایم اے کیانی ، مولانا عبد المجید سالک ؔ ، مولانا چراغ حسن حسرت ، امتیاز علی تاج ، ارشد تھانوی ( بھوپال والے ، سلمان الارشد کے والد اور عادل رشید میئوی کے سُسر ) ،راجہ مہدی علی خان،شاعرؔ لکھنوی،انور کمال حسین،مہدی جعفر،سراج انور،چاند بی بی ،مقبول احمد دہلوی،خواجہ احمد عباس،غلام عباس،گوپی چند نارنگ،رام لال، عصمت چغتائی،شکیلہ رحمان، عفت موہانی،قتیل شفائی ،حرمت اکرام،شوکت پردیسی،کوثر چاند پُوری،مسرور جہاں، واجدہ تبسم،اظہر افسر، مظفر حنفی،جگن ناتھ آزاد،علقمہ شبلی، نذیر فتح پوری،مسعود احمد برکاتی،حکیم محمد سعید،ڈاکٹر جمیل جالبی، شہلا شبلی،فہمیدہ ریاض،شاہد جمیل،شان الحق حقّی،ابن انشاء،کشور ناہید،عادل اسیرؔ،مجیب ظفرانوار،شہنازپروین، وغیرہ نے بچّوں کے لئے خُوب مضامینِ نظم و نثر لکھے ۔یہ احسان فراموشی ہوگی ، اگر ، میں ، اس دور میں لطیف فاروقی اور عبد المجید بھٹی کے نام نہ لکھوں (پنجاب میں اُردو زبان میں بچوں کے ادب میں دونوں حضرات کا بڑا وقیع کام تاریخ کا حصہ بن چکا ہے )۔دلاور فگارؔاور پروفیسر سحرؔ انصاری نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
مَردوں کے ساتھ ساتھ ، خواتین لکھنے والیوں نے بھی بچّوں کے لئے اچھا اور معیاری لکھا ، بچّوں کی کتب شایع کیں اور رسائل جاری کئے ،ان میں سے کچھ رسائل ابھی تک ( ۲۰۱۸ء ) شایع ہورہے ہیں،کچھ خواتین کے نام پہلے لکھے جاچکے ہیں،تاہم بنتِ مجتبیٰ میناکا ماہنامہ’’نور‘‘(لاہور)کسے یاد نہ ہوگا ۔قیام ِ پاکستان سے قبل ’’پھول ‘‘ نامی ایک رسالہ ’’دار الاشاعت پنجاب (لاہور) ‘‘کے زیرِ اہتمام شایع ہوتا تھا ، اس کے مالک امتیاز علی تاجؔ تھے ۔پھول کے ایڈیٹرز میں اُس دور کے نامی گرامی عالم فاضل شامل رہے ہیں ۔غالباً ۱۹۷۲ء میں راقم نے ’’ سرسید احمد خان ‘‘ پر ایک مضمون لکھ کر،بذریعۂ ڈاک، ماہنامہ ’’ پھول ‘‘ کو بھجوا دیا ۔ چار روز بعد پھول کے ایڈیٹرجناب غلام عباس کا مکتوب موصول ہوا کہ آپ کا مضمون اگلے شمارے میں شایع ہورہا ہے ۔چنانچہ اگلے ماہ ’’پھول ‘‘جیسے ’’تیموری ‘‘ پرچے میں اپنی تخلیق کو طبع شدہ صورت میں دیکھ کر جو مسرت حاصل ہوئی ،آج ۴۷؍ برس گزر جانے کے باوجود اس کی یاد تازہ ہے۔بچّے کو اپنے ’’چَھپے ‘‘ ہوئے نام سے ’’ عشق‘‘ ہوتا ہے،۔بچہ ، شایع شدہ لفظ کی حُرمت سے آگاہ ہوتا ہے ۔بچّے کا کوئی ماضی نھیں ہوتا ، اسی لئے اُس کا تجربہ محدود ہوتا ہے ، وہ اپنے لئے لکھا گیا سب کچھ آہستہ آہستہ پڑھتا اور سمجھتا ہے، سیکھتا ہے اور پھر عمر کے دس برس گزر جانے کے بعد خود بھی ’’ اہلِ قلم ‘‘ کی صف میں شامل ہونے کا متمنی ہوجاتا ہے، ایسا اُن بچّوں کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے جن کی اُردو اچھی ہوتی ہے اور وہ اپنے نصابی مضامین میں ’’اُردو ‘‘ سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔
’‘پھول ‘‘ کے علاوہ بر صغیر پاک وہند کے مختلف حصوں سے بچّوں کے متعدد معیاری رسالے ،مثلاً ’’ گُلدستہ (لاہور )‘‘ ، ’’غنچہ (بجنور )‘‘،
۳
’’ بچّوں کی دنیا ( الہ آباد )‘‘ ، ’’پیامِ تعلیم ( دہلی ) ، منشی طالب علی پابندؔ قریشی کا اخبار ’’تعلیم ِ لاہور ‘‘ وغیرہ قابلِ تذکرہ ہیں ۔
قیامِ پاکستان کے بعد لاہور سے محمد امین شرقپوری نے ’’بچّوں کی دنیا ‘‘ کا اجراء کیا ،جو دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہوگیا ۔انہی ایّام میں ’’تعلیم و تربیت ‘‘(لاہور ) ، ’’کھلونا ( لاہور ‘‘ ، ’’ بچوں کا ڈائجسٹ ( لاہور ) ‘‘ ، ’’ بھائی جان (کراچی ) ‘‘ ، اور ’’ ہدایت (لاہور ) ‘‘ وغیرہ شایع
ہونے لگے ( راقم کے والدمرحوم سیّد انوار حسین حمیدی( علیگ)، ہر ماہ پابندی سے ان رسائل کا اہتمام فرمایا کرتے ۔اسی دور میں حافظ یوسف دہلوی نے (جو ’’ شمع ‘‘ دہلی کے مالک بھی تھے ) ،دہلی سے ’’ کھلونا ‘‘ نامی رسالہ نکال کر بچوں کے اُردو ادب میں قابل قدر اضافہ کیا ۔کراچی سے ’’ہمدرد دوا خانہ ‘‘ والوں نے ’’ نونہال ‘‘ اور متعدد بچوں کے رسائل شایع کئے ۔آج بھی لاہور اور کراچی سمیت ملک بھر میں بچّوں کے بیسیوں رسالے شایع ہورہے ہیں،ان کی تفصیل کے لیے ،مجھے ایک دفتر درکار ہوگا ۔
قیامِ پاکستان سے قبل کے اجمالی جائزے کے طور پر میں لکھ سکتا ہوں کہ ’’دار الاشاعت پنجاب ، لاہور ‘‘، ’’ مکتبہ جامعۂ دہلی‘‘اور ’’ عصمت بُک ڈپو ،دہلی ‘‘ بچوں کے لئے ان گنت کتب شایع کردیں ،جو بہت مقبول ہوئیں ۔قیامِ پاکستان کے بعد بچّوں کے لئے نظم و نثر لکھنے والوں میں چند نمایاں نام، مرزا ادیب ، صوفی غلام مصطفٰے تبسم ؔ ،عنایت علی خان ٹونکی ، ابن انشاء ،شان الحق حقی ، سراج الدین ظفر ، رفیق احمد خان ،انورعنایت اللہ ،کمال احمد رضوی، احمد ندیم قاسمی،حکیم محمد سعید ،مسعود احمد برکاتی ،ابن حسن نگارؔ، قتیل شفائی ،سید نظر زیدی ،امان اللہ نیر شوکتؔ، عزیز اثری ، مسلم ضیائی ، رحمان مذنب ،ذوالفقار احمد تابشؔ ،جبار توقیر، سعید لخت ، مقبول جہانگیر ،انیس الرحمٰن ، مظہر خان یوسف زئی ،شاہد جمیل ،دلاور فگارؔ ، معراج ، علی اسد ، عصمت علی پٹیل ،شہزاد منظر، نازش حیدری ،تنویر الدین احمد پھولؔ، اشتیاق احمد ،انوار احمد، عنبر چغتائی ،عباس العزم،مجیب ظفر انوار،اختر عباس ، صداقت حسین ساجد،ڈاکٹر افتخار کھوکھر، و دیگرہیں ۔علاوہ ازیں محمدی بیگم ، الطاف فاطمہ ، رضیہ فصیح الدین ، بیگم مہر نگار سرور ، بیگم عصمت جعفری، بیگم رشیدہ جہاں ، اختر بیگم ، بیگم ثا قبہ رحیم الدین ، فرخندہ لودھی ، صغیرہ بانو شیریں ،پروفیسر وحیدہ نسیم ،محسنہ جیلانی ،ریحانہ تبسم ، شمع زیدی ،یاسمین حفیظ و دیگر خواتین نے بھی بچوں کے لئے معیاری نظم و نثر لکھے ۔( نوٹ : یہ تمام تر حوالے تفصیلاً ، راقم السطور کے پی،ایچ۔ڈی مقالے ’’اُردو میں بچوں کا ادب ، آزادی کے بعد ( ۱۹۴۷ء تا ۲۰۰۳ء ) ،شعبۂ اُردو، وفاقی اُردو یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (اسلام آباد/کراچی) زیرِ نگرانی ڈاکٹر اسلم فرخی و ڈاکٹر وقار الحسن گِلؔ ) میں ملاحظہ فرمائے جاسکتے ہیں ۔
اُردو میں بچّوں کے ادب کے سلسلے میں کی جانے ’’ ایم فل /پی ،ایچ ۔ڈی سطح پر بڑے محدود نام ہیں ، پہلا نام۱۹۶۱ء میں ایم أاے اُردو کا مقالہ جامعۂ پنجاب سے شمیم اختر نے لکھا ، دوسری تحریر (پی ایچ ڈی کا مقالہ ) بھی جامعۂ پنجاب سے ڈاکٹر اسد اریب نے قلم بند کی جس کا سال ِ تکمیل ۱۹۶۳ء کے لگ بھگ تھا ، تیسر ی تحریر ڈاکٹر محمود الرحمٰن کی نیشنل بک کونسل کے پلیٹ فارم سے ’’ بچّوں کا ادب ‘‘ شایع ہوئی ، پی،ایچ ۔ڈی کی سطح کا پہلا عالمی جدید مقالہ اور اُردو دنیا ( جنوبی ایشیا میں دوسرا مقالہ ) کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر مجیب ظفر انوار حمیدی نے جامعۂ اُردو کے پلیٹ فارم سے ،جامعہ اُردو کو ’’ پی ایچ ڈی ‘‘ کروانے کی منظوری ملنے کے پہلے سال ۲۰۰۳ء میں تحریر کیا ۔اس کے بعد پاکستان بھر سے بچّوں کے اُردو اور غیر اُردو ادب پر مختلف تحقیقات و تحاریر شایع ہوتی رہیں جو ہرگز پی،ایچ۔ڈی کی سطح کی نھیں تھیں ۔’’لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی‘‘(لاہور)کی ایم۔فِل طالبہ حنا نفیس نے رسالہ ’’ پھول اور بچوں کا ادب ،۱۹۹۰ء تا ۲۰۱۴ء‘‘ پرتحقیقی مقالہ اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اُردو ڈاکٹر شازیہ رزّاق کی نگرانی میں لکھا اور صدرِ شعبۂ اُردو ڈاکٹر حمیرا ارشاد سرپرستی میں اپنے ایم فِل کے مقالے کو مکمل کیا۔۲۰۱۴ء کے بعد کا کوئی معیاری یا مکمل ’’تحقیقی کام ‘‘ بچوں کے اردو ادب کے حوالے سے میرے سامنے نھیں آیا، تاہم حال ہی میں ’’محسنِ ادبِ اطفال ‘‘ مسعود احمد برکاتی کے فن اور شخصیت ، بالخصوص اُن کی
۴
زیر ادارت مسلسل ساٹھ سال شایع ہونے والا بچوں کا اردو جریدہ ’’ہمدردِ نونہال ‘‘کے تناظر میں شاید کوئی لکھے۔
ٓ سندھ کے مقابلے میں ،صوبۂ پنجاب میں بچوں کے اُردو ادب کے فروغ کے سلسلے میں خوب کام ہوا۔ ماہنامہ ’’تعلیم و تربیت ‘‘ (لاہور) کے پلیٹ فارم سے(۱۹۲۹ء کے بعد ،جب اسے اساتذہ کرام کے لئے شایع کیا گیا تھا) سعید لخت ، خالد بزمی ، مقبول جہانگیر،مقبول انور داؤدی اور سیماں علی دور کے بعد،کئی اچھے مدیران سید جاوید امتیازی ،نذیر انبالوی، عابدہ اصغر و دیگر کے علاوہ،لیّہ سے ندیم اختر نے ’’بچوں کے ادب ‘‘ کے پلیٹ فارم سے مصطفٰے چاند،علی اکمل تصور ، ابن آس محمد، نوشاد عادل ، محبوب الٰہی مخمور ، صالحہ محبوب ، صالحہ صدیقی ، و دیگر کی مفید کتب شایع کیں ۔ساتھ محمد ندیم اختر نے بچوں کے اُردو ادب کو ایک اخبار ’’ تعمیرِ ادب ‘‘ ( لیّہ) کا اجراء کیا ، جو، اِن کی شناخت بنا ۔افسوس محمد ندیم اختر بچوں کے کئے نام ور ادیبوں ڈاکٹر محمود الرحمٰن ، پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، محمد افتخار کھوکھر،یاسمین حفیظ ، ابن آس،مصطفٰے چاند و دیگر کی( جو ماشاء اللہ حیات ہیں )کی،کوئی ایک کتاب بھی ( منتخب تحریروں کی) شایع نھیں کرپائے،اس عمل سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ بچوں کے اردو ادب میں ’’ گروہ بندی ‘‘ شامل ہوچکی ہے۔
اشتیاق احمد جیسے قد آور جاسوسی ناول نگار کی کتابوں کا ری پرنٹ بھی شایع نھیں کیا گیا۔لاہور ہی سے ’’بچوں کا پرستان ‘‘ نامی ایک مقبول پرچہ امان اللہ نیّر شوکت نے جاری کیا اور سندھ میں اُس سے پہلے محمد فاروق دانش’’بھائی جان ‘‘ ( روزنامہ جنگ کی اجازت سے ) اور محمد وسیم خان اپنے دور کا مقبول بچوں کا ماہنامہ ’’ نٹ کھٹ ‘‘ شایع کررہے تھے، کراچی ہی سے محمد اکرم صدیقی نے ’’ کھیل کھیل میں ‘‘ پرچہ شایع کیا اور ساجد علی احسن نے ایک پرچہ شایع کیا۔حنیف سحر ۱۹۷۹ء سے کراچی سے نوجوانو کا پرچہ ’’ٹوٹ بٹوٹ ‘‘ شایع کررہے تھے۔اسی اثنا میں اداکار طارق عزیز نے ’’ ہمارا رسالہ ‘‘ اور نیلوفر عباسی نے ’’ خزانہ ‘‘ پرچہ جاری کردیا۔ لاہور سے اشتیاق احمد مرحوم نے ’’ چاند ستارے ‘‘ شایع کیا اور کراچی سے شاہنواز فاروقی نے ’’ آنکھ مچولی ‘‘ جاری کیا جسے احمد فوڈ انڈسٹریز کے تعاون سے شایع کیا جاتا، محمد عمر احمد خان اسی پرچے سے بچوں کے اردو ادب کو ایک عمدہ لکھاری ملے۔ان میں سے بیشتر رسائل اب بند ہوچکے ہیں ۔ان رسائل کی کہانیوں کا انتخاب بھی کوئی شایع نھیں کررہا۔
آج مارکیٹ میں بچوں کے لئے سیکڑوں کتب اور ناول موجود ہیں ۔ان ناولوں میں جن ، دیو ، بھوت، چڑیل ، جیسے مافوق الفطرت کردار بھی شامل ہیں اور جدید ترین سائنسی کردار بھی ہیں ۔جے کے رولنگ کا ’’ ہیری پورٹر ‘‘ ہے اور ابن حسن نگار ؔ کی کتب ابھی تک مقبول ہیں ۔بچوں کے رسائل ،کراچی اور لاہور کے علاوہ بھی پورے ملک سے شایع ہورہے ہیں ۔ سرکاری ادارے بھی الحمد لِلّہ ’’ ادبِ اطفال ‘‘ کی جانب توجہ دے رہے ہیں ۔ آرٹس کونسل آف پاکستان ، کراچی کی سالانہ ’’ عالمی اُردو کانفرنس ‘‘ میں مہتمم و منصرمِ کانفرنس احمد شاہ بچوں کے
ا دب کا ایک اجلاس لازمی رکھتے ہیں ۔ کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی سُپر سانک ٹیکنالوجی کی ترقی کا دور ہے ، بچوں کا ادب نت نئی جہتوں سے متعارف کرایا جاریا ہے، بچوں کے مقبول رسائل کے تازہ شماروں کا ’’ ای پرچہ ‘‘ اور کتب کے ’’ پی ڈی ایف ‘‘ انٹر نیٹ پر مہیا ہیں ۔ ملالہ یوسف زئی کے کارہائے نمایاں اور عرفہ کریم کے کارنامے بھی موجود ہیں ۔
ستّر کی دہائی میں ،بچوں کے لئے مفید و سبق آموزناول شایع ہوئے ، ان میں لاہور کا مکتبۂ ’’فیروز سنز‘‘ کے ناول سب سے زیادہ مقبول ہوئے ۔ بچوں کے ناولوں میں جو مقبولیت ’’ عالی پر کیا گزری ‘‘ ( عزیز اثری) اور ’’ میرا نام منگو‘‘( جبّار توقیر ) کے حصے میں آئی ، بہت کم کسی ناول کے حصہ میں آسکی۔ان ناولوں کی مقبولیت کا اندازہ میں نے اس بات سے لگایا ، کہ ، ان ناولوں کی اشاعت کے بعد مارکیٹ میں ان ناولوں کے مرکزی خیالوں پر مبنی کئی ناول شایع ہوکر آگئے لیکن ’’ عالی پر کیا گزری ‘‘ اور فیروز سنز کے ناولوں کی اشاعت ِ نو ابھی تک جاری و ساری ہے، بازار میں بیسیوں ناول ایسے آگئے جن کا نام بھی ’’ عزیز اثری‘‘ کے نام پر اور اُن کے ناول ’’ عالی پر کیا گزری‘‘ سے ملتے جُلتے تھے۔عزیز اثری کا ناول ہنوز روزِ اوّل کی مانند آج بھی ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے ۔’’فیروز سنز‘‘ نے عزیز اثری ،سعید لخت، جبّار توقیر اور مقبول جہانگیر کے علاوہ شوکت تھانوی ، انور عنایت اللہ ، مرزا ادیب ، راز یوسفی ، عشرت رحمانی ، الطاف فاطمہ ، کمال احمد رضوی اور مجیب ظفر انوار اور دیگر سے بھی عمدہ ناول اور چھوٹی بڑی کہانیاں لکھوائیں ،گوکہ ادارے کے وسائل میں بھی تیزی سے تغیر واقع ہوا ، اب ان کا پرچہ ’’ تعلیم و تربیت ‘‘ بچوں کے لئے لکھنے والوں کو اعزازی کاپی اور ٹوکن منی کا بھی اہتمام نھیں کرتا ۔کچھ ایسے ہی حالات جناب مسود احمد برکاتی کی رحلت کے بعد اپنے دور کے مقبول ترین پرچے ’’ ہمدردِ نونہال ‘‘ کے ساتھ درپیش ہے، محترم حکیم محمد سعید صاحب کی صاحب زادی محترمہ سعدیہ راشد ’’ نونہال ‘‘ کی اشاعت (تادمِ تحریر) برقرار رکھے ہوئے ہیں۔اللہ اِن سب محسنوں و محسنات کو ہر پل اپنی آسانیوں اور رحمتوں کے سایوں میں رکھے ، آمین !
بچّوں کی کتابوں کا تذکرہ کررہا ہوں تو مجھے بچّوں کی کئی ناد ر و نایاب کتابیں یاد آگئیں ، جن کا ’’ ری پرنٹ ‘‘ بھی فی زمانہ ممکن نھیں ، ان کتب میں ’’بولتی الف ب (سراج الدین ظفر )‘‘ ،’’ٹوٹ بٹوٹ کے جھولنے ( صوفی تبسم ؔ )‘‘ ، ’’ بلّو کا بستہ ( ابنِ انشاء ؔ)‘‘ ،’’بولتی تصویریں ( عبد المجید بھٹّی )‘‘ اور ’’ چاند تارا ( غلام عباس )‘‘ بھی یاد آگئیں ، ماشاء اللہ کیسی شان دار کتابیں شائع ہوا کرتیں۔
آزادیٔ ہند کے بعد پاکستان میں ستّر کی دہائی میں بچوں کے لئے ناول اور کہانیوں کے علاوہ ’’ڈرامے‘‘ بھی تحریر کئے گئے ۔بچوں کے لئے بہترین ڈرامے عزیز اثری اور مرزا ادیب نے لکھے ہیں ۔دونوں حضرات کے ڈرامے اسٹیج بھی ہوئے اور ریڈیو سے بھی نشر کئے گئے ۔
ڈراموں کے علاوہ کچھ اخبارات نے تواتر سے ’’ بچوں کے ہفتہ وار صفحات ‘‘ شایع کئے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد لاہور ، کراچی ، راول پنڈی اور ہر قابلِ ذکر شہر سے قابل ِ ذِکر اخبارات ،ہفتہ میں ایک روز ’’ بچّوں کا ایڈیشن ‘‘ شایع کیا کرتے ۔کچھ اخبارات ابھی تک بچوں کے صفحات شایع کرتے ہیں ، جو قارئین کی نظر وں سے گزرتے ہی ہوں گے ، لیکن اب ان میں بچوں کا ’’ بچپن ‘‘ بہت کم اور ’’ سُپر ٹیکنالوجی کراداروں ‘‘ کی کہانیاں اور اکثر تُک بندی ( شاعری ) شایع ہوتی ہے ۔ ہر چند بچوں کے لئے ابن انشاء کی تُک بندی بھی اپنے دور کی مقبول ترین شاعری شمار کی گئی ، لیکن اب زیادہ تر نوجوان لکھاری ہی بچّوں کا ادب تخلیق کررہے ہیں اوراپنی ناتجربہ کاری کے باعث اکثر زبان و بیان اور املا کی غلطیاں کرتے ہیں ، چونکہ مُدیران بھی ’’ تجربہ کار ‘‘ یا ’’ ادبِ اطفال ‘‘ سے وابستہ نھیں ہوتے ، لہٰذا وہ غلطی نسل در نسل منتقل ہوتی جاتی ہے۔سرکار حکم کے مطابق ، راقم اکثر اعلا و ارفع تعلیمی اداروں کا دورہ کرتا ہے تو اُردو کی صورت ِ حال دیکھ کر سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے ۔ایک بہت بڑے ’’ایجوکیشن سسٹم ‘‘( جس کی ماہانہ فیس ہی ہزاروں ، بلکہ لاکھ کے قریب ہے ) ، وہاں دہم جماعت میں ایک نوجوان اُستانی صاحبہ ، کمرۂ جماعت میں مرزا غالبؔ کی مشہورِ زمانہ غزل پڑھا رہی تھیں :
؎ دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
ایک لمحہ کے لئے تو ، مَیں ، چکرا سا گیا کہ کیا فرمارہی ہیں ، لیکن جب پرنسپل صاحبہ کے آفس میں اُن خاتون کو مع کتاب بلوایا گیا تو یہ دیکھ کر میرے ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے ، کہ ، اسکول سسٹم کے ’’ مخصوص ‘‘ پبلشر نے مرزا کی غزل کے اشعار آمنے سامنے شایع کئے تھے، یعنی پہلے مصرعہ ’’
۵
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے ‘‘ کے عین سامنے ،نئے شعر کا پہلا مصرعہ لکھا تھا ، جیسے ’’ ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار ‘‘۔ سوائے افسوس اور کیا کرسکتے تھے ۔کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے اس ترقی یافتہ ترین دور میں ’’ تدریسِ اُردو ‘‘ کو جس قدر سہل لیا جارہا ہے، اس کاے نتائج سبھی اہل ِ علم کے سامنے ہیں ۔ ’’ عالمی اُردو کانفرنس ‘‘ ( آرٹس کونسل اوف پاکستان ، کراچی ) میں ،ایک نجی جامعہ کی پروفیسر صاحبہ نے اپنا خطبہ پیش کیا ، یقین فرمائیے ، اُس لیکچر کی ہر سطر میں املا و اظہار کی گنجائش تھی اور خاتون پی،ایچ۔ڈی اسکالر تھیں ، برملا فرما رہی تھیں : پروردِگار، جِزبِز،مُستَقَل،اِن پڑھ ، جَہَنُّم ، لہو(بہو کے وزن پر ) و لعب ، پردہ سِرکایا۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ، میں نے شدتِ درد سے اپنا سر تھا م لیا ۔ایک وہ زمانہ تھا جب مَیں ریڈیو پاکستان ، کراچی ’’بزمِ طلبہ ‘‘ اور ’’ بچوں ی دنیا ‘‘ میں جاتا تو وہاں جوشؔ ملیح آبادی صاحب اور عبد الحمید عدم ؔ صاحب ، ہم بچّوں کا تلفظ و تحریر جانچا کرتے اور غلطیوں پر بچّوں کو گُھرکیاں ملا کرتیں ۔
بات ، بچوں کے ہفتہ وار اخباری صفحات کی کررہا تھا ، تو اُن بچوں کے لئے مضامین ِ نظم و نثر ،معلوماتی مضامین وغیرہ شایع ہوتے اور اسے اپنے وقت کے جیّد اُردو داں یا بچوں کے ادب سے وابستہ ’’ سینئر ‘‘ شخصیات تحریر کیا کرتیں ۔
اس کے علاوہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلے وژن نے بھی بچوں کے ادب کے فروغ میں قابلِ قدر حصہ لیاہے ۔ ریڈیو پربچوں کہانیاں ، نظمیں ، فیچر ، غرض یہ کہ مختلف موضوعات پر مضامینِ نظم و نثر پیش کئے گئے ہیں ، خصوصا ً ’’ ریڈیائی ڈرامے ‘‘ بچوں میں بڑے ہی ذوق و شوق سے سُنے جاتے ، اس کے علاوہ اتوار کے اتوار،’’ بچوں کی دنیا ‘‘ بھی ریڈیو پاکستان کا مقبول ترین پروگرام تھا ۔’’بچوں کی دنیا ‘‘ طویل عرصے تک پیش کیا گیا ۔ان پروگراموں کا اسکرپٹ نام ور ادیب و شاعر تیار کرتے، جن میں ،مرزا ادیب ، عزیز اثری ، راجہ فاروق علی خان ، محشر بدایونی ، ظفر اقبال ، شعیب حزیں ، انوار حسین حمیدی ، افضل صدیقی ، محمد عمر ، اثنین قطب ( جو پروڈیوسر بھی رہے ) ، جوش ؔ ملیح آبادی ، حفیظ ؔ جالندھری ، ابن انشاء ، کمال احمد رضوی ،محمود خاور اور دیگر نے ریڈیو اور ٹی وی پر بچوں کے لئے مفید ادب پیش کیا ۔
ساٹھ تا اسّی کی دہائی میں بچوں کے لئے ’’ اسٹیج ڈرامے ‘‘ بھی پیش کئے گئے ،سب سے پہلے بچوں کے لئے اسٹیج ڈرامے پیش کرنے کا اعزاز جناب عزیز اثری کو حاصل ہے ۔عزیز اثری صاحب نے لاہور میں ’’ بچوں کا تھیٹر ‘‘ قائم کرکے اسٹیج پر بچوں کے لئے ڈرامے پیش کئے تھے ۔’’ بچّوں کا تھیٹر ‘‘ کی نقل میں سرکاری دانشوروں نے بھی بچوں کا تھیٹر قائم کرنے کی کوشش کی ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اُن سرکاری دانش وروں نے اُس دور کی گورنمنٹ سے کروڑوں رُپے حاصل کرکے بچوں کے لئے جو ڈرامے پیش کئے ،وہ عزیز اثری کے ڈراموں کے مقابلے میں ہر لحاظ سے پست ہیں ۔ علاوہ ازیں پروفیسر شعیب ہاشمی ،پروفیسر سلیمہ ہاشمی ، پروفیسر نوید شہزاد،پروفیسر قاسم جلالی و دیگر سرکاری ماہرینِ تعلیم اور دیگر ماہرین ِ تعلیم نے بھی بچوں کے لئے ریڈیو ، ٹیلی وژن اور اسٹیج پر بچوں کا مفید اُردو ادب پیش کیا ۔افسوس ، یہ سلسلہ نوّے کی دہائی کے آکر تک جارہ رہ سکا ، اے ۔حمید صاحب نے ’’ عینک والا جن ‘‘ ، لاہور ٹیلی وژن مرکز کی شناخت بنادیا ، بچوں میں جیسی مقبولیت ’’ عینک والا جن ‘‘ اور اُس کے کرداروں کو ملی ، شاید کسی اور ڈرامے کو میسر نہ ہوسکی ۔
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے وسط میں ، یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان کے سرکاری ادبی اشاعتی اداروں ، مثلاً ’’ اکادمی ٔ ادبیاتِ پاکستان ‘‘ ، ’’ نیشنل بک فاؤ نڈیشن ‘‘ اور دیگر نے ،طویل عرصہ بعد ایک مرتبہ پھر ’’ بچوں کے ادب ‘‘ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ، پرانے دور میں جناب آغا نُور محمد پٹھان ( ریجنل ڈائریکٹر اکادمی ِ ادبیاتِ پاکستان ،کراچی) کے دور میں ’’ بچوں کا ادب ‘‘ کی تین ضخیم جِلدیں شایع کروالیں جو پوری
۶
دنیا میں ’’پاکستانی بچوں کے اُردو ادب ‘‘ کو ایک حوالہ ثابت ہوئیں ، ساتھ ،ابن ِ انشاء اور ذولفقار احمد تابش ؔ کے پرچے ’’ ماہنامہ کتاب ‘‘ کی ا شاعت بھی اکادمی ادبیات ِ پاکستان نے جاری رکھتے ہوئے ، اپنے سہہ ماہی مجلّہ ’’ ادبیات ِ اطفال ‘‘ کا بھی ڈول ڈالا ۔ میرے خیال میں مزید برف پگھلنے کی ضرورت ہے ۔
بچوں کے ادب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے، کہ مجھے یاد آیا کہ ،اقوامِ متحدہ نے ۱۹۷۹ء کو بچّوں کا عالمی سال قرار دیا تھا اور یہ لگ بھگ ایک سواکتالیس ممالک میں منایا گیا تھا ۔اسی سال ہر سال ، دنیا میں ’’ بچوں کا عالمی دن ‘‘ منانے کی تجویز منظور ہوئی ۔
پاکستان میں ،انگریزی زبان میں بچوں کے لئے کوئی خاطر خواہ کام نھیں ہے، چند بڑے انگریزی اخبارات ہفتہ وار ایک مختصر میگزین نکالتے ہیں ،لیکن اس کے صفحات کم اور زبان سادہ نھیں ہوتی۔کہانیاں وہی جن بھوتوں والی ہوتی ہیں اور اگر سائنسی ہیں تو اتنی ’’مشکل‘‘ کہ بچوں کا دل ہی نھیں چاہتا کہ ان کتابوں کا مطالعہ کریں یا ’’ کامکس‘‘کارٹونوں کی عریانی و فحاشی پر غور کریں۔ہم اپنے بچوں کو تفریحی لیکن تعمیری ادب نھیں دے پارہے ۔معیاری،اخلاق و کردار ساز کہانیاں نھیں سُناتے ،بچّے بھی بزرگوں کے ساتھ وقت نھیں گزارتے ، چنانچہ بزرگ بڑی آسانی سے یہ الزام لگادیتے ہیں کہ :’’ نسل نو بے راہ روی کا شکار ہورہی ہے!‘‘
میرے خیال میں ، بچّے ہمارے معاشرے کا محروم ترین حصہ ہیں ، ان کے ساتھ جبری مشقت کا ظلم ہورہا ہے، بھاری بھرکم اسکول بیگ لاد کر اسکول جانا اوروالدین سے منہگی فیسوں اور دیگر اخراجات کا مطالبہ کرنے کی عادت ڈالنا،علاوہ بچوں کے ساتھ جنسی و جسمانی زیادتی بھی ہورہی ہے ۔بچوں کے کھیلنے کے لئے پارک اور تفریحی ادارے نھیں ، لڑکوں کے لئے ’’کھیل کے میدان ‘‘ نھیں ، جو تھے ، وہاں فلیٹوں کے جنگل قائم کردئے گئے ۔بچوں کے لئے کوئی تفریحی ادارے نھیں جہاں تعلیم کے ساتھ تفریح کا بندوبست بھی ہو،سو قوم کے بڑے پچھتائیں گے ۔اگر ’’بچوں کے ادب ‘‘ کی اہمیت و انفرادیت سے اجتناب و انحراف کریں گے تو اپنی ثقافت سے محروم ہوجائیں گے !
**************
حوالہ ہا : (۱) ’’بچوں کا ادب ‘‘ مقالہ پی ایچ ڈی ازپروفیسر ڈاکٹر اسد اریب ،ملتان
(۲) ’’آزادی کے بعد اُردو میں بچوں کا ادب ‘‘( ۱۹۴۷ء تا ۲۰۰۳ء )از پروفیسرمجیب ظفر انوارحمیدی ،کراچی
(۳) ’’بچوں کا ادب ‘‘ از مرزا ادیب ، لاہور
(۴)’’ بچوں کے ادب کے ۵۰ سال ‘‘، از ،مسعود احمد برکاتی ، روزنامہ جنگ ،کراچی ۱۹۹۷ء
(۵)اُردو انگریزی اخبارات ، رسائل وجرائدودیگر