17 C
Lahore
Sunday, December 1, 2024

Book Store

کینن ہال کی روح|canin hall ki rooh

کینن ہال کی روح

مقبول جہانگیر

یہ ذکر ہے ۱۹۰۲ء کا ….. مَیں اُس زمانے میں کرۂ ارض کے تاریک دور سے متعلق ایک تحقیقی کتاب لکھنے کی فکر میں تھا۔
اِس سلسلے میں مَیں نے تمام مواد جمع کر لیا تھا اور اب اِس تگ و دَو میں تھا کہ شہر کے ہنگاموں سے دور کوئی ایسی جگہ ملے، جہاں سکون سے بیٹھ کر یہ کتاب لکھ سکوں۔
جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والی ایک ایجنسی نے جب نیویارک ٹاؤن کے ایک مکان کینن ہال کا پتا بتایا اور مَیں وہ عمارت دیکھنے گیا، تو اُسی وقت فیصلہ کر لیا کہ ایسی الگ تھلگ اور پُرسکون جگہ آسانی سے کہیں اور نہ مل سکے گی۔

کینن ہال تین منزلہ نہایت عالی شان قدیم طرز کی عمارت تھی اور گزشتہ چالیس برس سے بالکل خالی پڑی تھی۔ اُس کے چاروں طرف کسی زمانے میں نہایت پُرفضا باغ ہو گا جو اَب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث بھیانک جنگل میں بدل چکا تھا۔
نچلی منزل کی کھڑکیاں لمبی لمبی گھاس خود رَو پودوں اور جھاڑ جھنکاڑ کی کثرت سے نظر نہ آتی تھیں۔ دیواروں پر سیاہ رنگ کی کائی کی گہری تہ جمی ہوئی تھی۔
کہیں کہیں سے پلاستر بھی اُکھڑ چکا تھا اور خستہ اینٹیں جھانک رہی تھیں۔
لوہے کے دروازے اور اُن پر لگی ہوئی سلاخیں زنگ آلود تھیں۔ جا بجا مکڑیوں نے بڑے بڑے جالے تان دیے تھے اور حشرات الارض کی بھرمار تھی۔

جب مَیں نے کینن ہال کی عمارت سستے داموں خرید لی اور اُس کی مرمت اور صفائی کا ارادہ کیا، تو گاؤں کا کوئی شخص بھی اُس کے اندر دَاخل ہونے کے لیے تیار نہ تھا۔
اُنھوں نے مجھے بتایا کہ مَیں نے یہ عمارت خرید کر سخت غلطی کی ہے، کیونکہ یہ آسیب زدہ ہے۔ اندھیری راتوں میں اِس کے اندر سے چیخنے، چلّانے اور رَونے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔
اکثر لوگوں نے قسمیں کھا کر کہا کہ اُنھوں نے اپنی آنکھوں سے ایک بھیانک شکل کے آدمی کو اُوپر کی منزل میں چلتے پھرتے دیکھا ہے۔

مَیں یہ قصّے سن کر ہنس دیتا اور لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا کہ یہ سب واہمے ہیں، بھوت پریت یا آسیب کا کوئی وجود نہیں ہوتا، لیکن میری اِن باتوں کا گاؤں والوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔
آخر مَیں نے شہر جا کر بھاری معاوضے پر چند آدمی جمع کیے اور اُنھیں اپنے ساتھ لا کر کینن ہال کی صفائی اور مرمّت کرائی۔ اِس کام میں دو ماہ لگے۔
اِس دوران میں کوئی غیرمعمولی واقعہ پیش نہ آیا اور مَیں نے کسی بدروح کو نہ دیکھا، تاہم یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ کینن ہال کو ایک عجیب سوگوار اَور اندوہ گیں ماحول نے جکڑ رکھا تھا۔
لمبی غلام گردشوں اور بڑے بڑے کمروں میں ہر وقت اداسی سی چھائی رہتی۔ شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ اِس عظیم عمارت میں رہنے والا صرف ایک ہی شخص تھا اور وُہ میری ذات تھی۔
مَیں نے بڑی کوشش کی کہ گاؤں کے لوگوں کو کسی طرح کینن ہال میں آنے اور کچھ دیر بیٹھنے کی دعوت دوں، مگر ہر شخص نے وہاں آنے سے انکار کیا اور مَیں جس سے بھی ذکر کرتا، وہ فوراً اپنے سینے پر انگلی سے صلیب کا نشان بناتا اور چلا جاتا۔

اُنہی دنوں میری ملاقات ڈاکٹر البرٹ ماریسن سے ہوئی اور چند دن کے اندر اَندر ہمارے تعلقات بےتکلفی کی حدوں کو چھونے لگے۔
ڈاکٹر ماریسن کا مکان کینن ہال سے کوئی ایک فرلانگ دور تھا اور اِس اعتبار سے وہ میرا سب سے قریبی پڑوسی تھا۔ اُس کی عمر اسّی بیاسی برس کے لگ بھگ تھی، مگر صحت نہایت اچھی اور مزاج بےحد شگفتہ تھا۔
اِس عمر کو پہنچ کر اکثر بڈھے بدمزاج اور چڑچڑے ہو جایا کرتے ہیں، لیکن ڈاکٹر ماریسن میں ایسی کوئی بات نہ تھی۔ وہ جب ملتا، خوش اخلاقی سے پیش آتا۔
ایک دو بار اُس نے مجھے اپنے مکان پر بھی بلایا اور خاطر تواضع کی۔ جب اُسے معلوم ہوا کہ مَیں نے کینن ہال خرید لیا ہے اور مَیں اُس عمارت میں مستقل طور پر رہنے کا ارادہ رکھتا ہوں، تو اُس نے کسی حیرت کا اظہار نہ کیا، بلکہ مجھ سے کہا:

’’وہ مکان گزشتہ چالیس برس سے بےآباد اَور ویران پڑا ہے۔ بہت اچھا ہوا کہ آپ یہاں آ گئے۔‘‘

’’جی ہاں! وہ عمارت مجھے پسند آئی اور مَیں نے خرید لی۔ اُس کی صفائی اور مرمت وغیرہ کرانے میں دو ماہ لگے ہیں۔ آپ کسی روز تشریف لائیے اور دَیکھیے۔‘‘

مَیں نے یہ بات ڈرتے ڈرتے کہی تھی، کیونکہ احساس تھا کہ ڈاکٹر ماریسن فوراً آنے سے انکار کر دے گا، لیکن اُس نے مسکراتے ہوئے کہا:

’’اگر آپ مجھے کینن ہال آنے کی دعوت نہ دیتے، تب بھی مَیں ضرور آتا۔ مَیں خود اُس مکان میں خاص دلچسپی رکھتا ہوں۔‘‘

یہ سن کر مَیں حیران ہوا۔ میرا خیال تھا کہ اب ڈاکٹر ماریسن بھوتوں کے قصّے چھیڑے گا، لیکن وہ سر ہلاتا ہوا اَپنی گھوڑا گاڑی کی طرف گیا اور اُس پر بیٹھتے ہوئے بولا:

’’مَیں کل شام کینن ہال میں حاضر ہوں گا۔‘‘

اگلے روز وُہ وَعدے کے مطابق میرے ہاں آیا۔ مَیں نے اُسے نچلی منزل کے بڑے کمرے کی حالت دکھلائی۔
وہ حیرت سے اردگرد آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کمرے کی حالت دیکھتا رہا۔ پھر کہنے لگا:

’’آپ نے تو کمال کر دیا ہے۔ کینن ہال کی حالت بدل دی۔ یقین کیجیے، آج مَیں چالیس سال بعد یہاں آیا ہوں۔ میرے دوست ہورک کینن کا انتقال بھی اُسی زمانے میں ہوا تھا۔
اُس وقت میرا خیال تھا کہ شاید زندگی میں دوبارہ یہاں آنے کا موقع نہ ملے گا اور نہ اِس جگہ اب کوئی شخص رہے گا، مگر عجیب اتفاق ہے کہ میرے یہ دونوں نظریے غلط ثابت ہوئے۔‘‘

’’آخر یہ نظریے آپ نے کس بنیاد پر قائم کیے تھے؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔

’’آہ! یہ ایک دردناک داستان ہے۔‘‘ ڈاکٹر ماریسن نے افسردہ لہجے میں جواب دیا۔

یہ داستان مَیں کتنی ہی مرتبہ گاؤں کے لوگوں کی زبان سے سن چکا تھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ کینن ہال کے مالک ہورک کینن نے بعض پُراسرار حالات کے تحت گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کر لی تھی ۔
اَب اُس کی روح عمارت میں بھٹکتی پھرتی ہے، چنانچہ مَیں نے ڈاکٹر سے کہا:

’’جس داستان کی طرف آپ اشارہ کرتے ہیں، وہ داستان مَیں گاؤں کے تقریباً ہر فرد کی زبانی سن چکا ہوں ۔
اَب میری درخواست ہے کہ آپ بھی اِس بارے میں جو کچھ جانتے ہیں، مجھے بتا دیں۔‘‘

ڈاکٹر ماریسن نے بےچینی سے پہلو بدلا۔ چند لمحے تک اُس کی نیلی آنکھیں چھت کو گھورتی رہی، پھر اُس نے مدھم لہجے میں کہنا شروع کر دیا:

’’واقعہ یہ ہے کہ اصل حادثے کا علم میرے سوا کسی کو نہیں ہے اور مَیں نے اب تک اِس بارے میں کسی سے ایک لفظ نہیں کہا۔
شاید اِس لیے کہ کوئی اِس پر یقین نہ کرتا۔ مگر آپ صاحبِ علم و فضل ہیں، اِس لیے آپ کو بتا دینے میں کوئی ہرج نہیں۔ یوں بھی اِس راز کو چالیس سال سے اپنے سینے میں دفن کیے ہوئے ہوں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ اِس راز کو اَپنے سینے کی قبر سے نکال کر آپ کے سامنے رکھ دوں، کیونکہ آپ کینن ہال کے مالک بن چکے ہیں۔‘‘

چند ثانیے خاموش رہنے کے بعد اُس نے انگلی سے چھت کے ایک روشن دان کی طرف اشارہ کیا اور کہا:

’’یہ وہ جگہ ہے جہاں بدنصیب ہورک کینن نے رسّا باندھا اور اَپنے گلے میں پھندا ڈال کر خود کو موت کے حوالے کر دیا۔
جہاں تک ہورک کی روح کا تعلق ہے، مَیں اِس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ عمارت میں بھٹکتی پھرتی ہے یا اُسے سکون مل گیا ہے، تاہم چالیس برس پیشتر جو واقعہ یہاں ہوا،
اُس کی تفصیل یہ ہے کہ اٹھارہویں صدی کے آغاز میں ہورک کینن کے والد نے یہ عظیم عمارت بنوائی تھی جب اُس کا والد وفات پا گیا، تو ہورک اِس کا مالک بن گیا۔
وہ عجیب و غریب ذہنیت کا آدمی تھا۔ اُس کی شخصیت کا الفاظ کی مدد سے نقشہ کھینچنا میرے لیے دشوار ہے۔ کبھی جوش و خروش اور غیظ و غضب کی تصویر نظر آتا اور کبھی بالکل مسکین بکری کی طرح۔

’’بچپن میں اُسے پڑھنے لکھنے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ کھیل کود سے بھی کچھ زیادہ لگاؤ نہ تھا۔ اپنے ہم جماعت بچوں کو پیٹنا اُس کا محبوب مشغلہ تھا۔
کئی بار مَیں بھی اُس کے ہاتھوں زخمی ہوا ہوں۔ جب وہ جوان ہوا، تو بہت مضبوط ہاتھ پاؤں کا مالک تھا۔ اب وہ دُنیا کی سیاحت کے منصوبے بنانے لگا جو کبھی پایۂ تکمیل تک نہ پہنچے۔
اُس نے کئی مرتبہ مجھ سے اِس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ایک طویل بحری سفر کرنا چاہتا ہے۔
پھر اُس نے کہا، وہ دُنیا کی مشہور و معروف درس گاہوں میں داخل ہو کر علم حاصل کرے گا، مگر اُس نے اِس پر عمل بھی نہ کیا۔

’’اُنہی دنوں اُس کی شادی ہیلن نام کی ایک حسین لڑکی سے ہو گئی۔ وہ اِسی گاؤں کی رہنے والی تھی۔ نہایت خاموش، متین اور سنجیدہ مزاج۔ اُس میں غصّہ نام کو نہ تھا۔
ہورک اور ہیلن کی یہ شادی کامیاب ثابت نہ ہوئی۔ دونوں کی طبیعت میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ علیحدگی ہو گئی۔ اُس وقت ہورک کی زندگی میں ایک اور اِنقلاب برپا ہوا۔
اُس نے کینن ہال سے باہر نکلنا چھوڑ دیا۔ دن رات اپنے کمرے میں پڑا رَہتا۔ یہ حالت دیر تک رہی۔ پھر وہ باہر نکلنے لگا۔ کسی روز موسم اچھا ہوتا، تو وہ گھوڑے پر بیٹھ کر گرد و نواح کی سیر کے لیے چلا جاتا یا جھیل پر جا کر مچھلی کا شکار کھیلتا۔
کبھی کبھی گاؤں میں آ کر لوگوں سے بات چیت بھی کرتا، لیکن برف باری کے زمانے میں وہ ہفتوں کیا، مہینوں گھر سے باہر نہ آتا اور اِسی کمرے میں جہاں اِس وقت ہم بیٹھے ہیں، آتش دان کے پاس آرام کرسی میں دھنسا کوئی کتاب پڑھتا رہتا۔
آتش دان کے بارے میں اُس نے نوکروں کو سختی سے حکم دے رکھا تھا کہ اُس میں کسی بھی لمحے آگ مدھم پڑنے نہ پائے اور اَگر اِس معاملے میں ذرا سی بھی غفلت ہو جاتی، تو وہ نوکروں پر بری طرح برس پڑتا۔ گالیاں دیتا اور بعض اوقات تو ہاتھ بھی چلا دیتا۔‘‘

’’شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُس کے اندر بھی آگ بھڑک رہی تھی۔ وُہ آتش دان میں لپکتے ہوئے شعلوں کو دیکھ کر تسکین حاصل کرتا تھا۔‘‘ مَیں نے کہا۔

’’آپ کا خیال صحیح ہے۔‘‘ ڈاکٹر ماریسن نے کہا۔ ’’بہرحال آپ قصّہ سنیے۔ ہورک کے علاوہ کینن ہال میں ایک اور عجیب شخصیت بھی موجود تھی، اُس کا نام تھا کیَور۔
وہ شخص ہورک کا ذاتی خادم ہونے کے ساتھ ساتھ خانساماں بھی تھا اور مالی بھی۔ اُس کے علاوہ دُوسرے ملازموں کی نگرانی بھی کیَور ہی کے سپرد تھی۔ کیَور کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ کون ہے، کہاں سے آیا ہے؟ اپنے بارے میں اُس نے کبھی کچھ نہ بتایا۔
گاؤں والے اُس کے بارے میں بھی طرح طرح کی باتیں بنایا کرتے تھے، لیکن کیَور نے کبھی زبان نہ کھولی۔ بلاضرورت وہ کسی سے بات نہ کرتا تھا اور غیرمتعلقہ سوالوں کو یوں نظرانداز کر دیتا جیسے سنا ہی نہیں۔
پہلے پہل مجھے باورچن کی زبانی معلوم ہوا کہ کیَور نام کا ایک شخص کینن ہال میں ملازم رکھا گیا ہے جس کی حرکتیں نہایت پُراسرار ہیں۔ پھر ایک روز مَیں نے کیَور کو دیکھا۔
اُن دنوں ہورک کا موڈ کچھ اچھا تھا، چنانچہ اُس نے گاؤں کے چند سرکردہ اَفراد کو کینن ہال میں رات کے کھانے پر بلایا تھا۔

’’کیَور اَدھیڑ عمر کا ایک دبلا پتلا آدمی تھا۔ دھنسی ہوئی زرد آنکھیں، مڑی ہوئی ناک اور پتلے پتلے بھنچے ہوئے ہونٹ۔ جب وہ چلتا، تو اُس کے پیروں کی آہٹ سنائی نہ دیتی تھی۔
کھانے کے دوران میں وہ کئی مرتبہ کمرے میں آیا، لیکن اُس نے ایک لفظ بھی کسی سے نہ کہا۔ اگر کوئی مہمان اُس سے مخاطب ہو کر کسی چیز کی فرمائش کرتا، تو کیَور اَدب سے گردن جھکا کر تعمیل کر دیتا۔
مَیں نے دیکھا کہ وہ اَپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیتا ہے اور حتی الامکان کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیتا۔
ہورک نے بھی اُس کی تعریف میں چند الفاظ مہمانوں سے کہے، لیکن مَیں نے اندازہ کیا کہ اندرونی طور پر ہورک اُس شخص کیَور کو پسند نہیں کرتا اور کسی قدر اُس سے خائف رہتا ہے۔

’’اُسی روز ہورک نے مجھے بتایا کہ کیَور کی بیوی مر چکی ہے اور وُہ اَپنے دو لڑکوں کو لے کر کینن ہال میں ملازمت کے لیے آیا ہے۔
بڑے لڑکے ٹام کی عمر بارہ سال اور چھوٹا لڑکا ہنری دس سال کا ہے۔
کیَور نے اُن لڑکوں پرکوئی پابندی نہ لگائی، چنانچہ وہ بچے گاؤں کے لڑکوں میں جا کر کھیلتے اور بہت جلد سب میںگھل مل گئے۔

’’سردیوں کی ایک تاریک اور سرد رَات تھی جب اُس خوفناک حادثے کا آغاز ہوا جس نے ہورک کی زندگی تلخ کر دی۔ ہیلن کو علیحدہ ہوئے کچھ زیادہ دِن نہیں گزرے تھے اور ہورک اندر ہی اندر گُھل رہا تھا۔
اِس کیفیت کو تمام نوکروں نے بھانپ لیا اور وُہ کوشش کرتے کہ ہورک کے سامنے جانے کا زیادہ موقع نہ ملے۔
غالباً اِس چیز کو سامنے رکھ کر کیَور نے اپنے لڑکوں کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ ہورک کے کمرے میں آتش دان کی آگ مدھم نہ ہونے دیں۔

’’اُس رات ہورک جب سونے کے لیے اِس کمرے میں آیا، تو اُس نے دیکھا کہ لیمپ بجھا ہوا ہے اور آتش دان بھی کچھ زیادہ رَوشن نہیں ہے۔
کیَور کا ایک لڑکا آتش دان کے قریب کھڑا لوہے کی سلاخ سے راکھ کرید رہا تھا۔ ہورک کا پارہ چڑھ گیا۔ اُس نے آگے بڑھ کر لڑکے کو اِس زور سے طمانچہ مارا کہ بدنصیب لڑکا چکرا کر آتش دان میں گرا۔
اُس کا سر پتھر کی دیوار سے ٹکرایا۔ ہورک نے چیخ کر کہا جلدی سے آتش دان میں کندے جھونکو اَور لیمپ جلاؤ، مگر لڑکے نے کوئی حرکت نہ کی۔
تب ہورک نے ٹھوکر مار کر لڑکے کو اُٹھانے کی کوشش کی، مگر اُس نے جنبش بھی نہ کی۔ یہ دیکھ کر ہورک غیظ و غضب سے کانپتا ہوا باہر نکلا اور اُس نے دیکھا کہ برآمدے میں کیَور کھڑا ہے۔

’’یہ کیا تماشا ہے؟ ….. ہورک چلّایا۔
’آتش دان سرد پڑا ہے اور لیمپ بھی بجھا ہوا ہے۔ جاؤ اپنے لڑکے کی خبر لو، مَیں نے اُسے ہلکا سا تھپڑ مارا، تو وہ آتش دان کے پاس لیٹ گیا اور اب مکر کیے پڑا ہے۔‘

’’کیَور نے ایک لفظ نہ کہا اور ہورک کے کمرے میں داخل ہو گیا۔
چند منٹ بعد وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا اَپنے آقا کے پاس آیا اور پُرسکون لہجے میں کہا:

’’جناب! میرا لڑکا ….. ٹام ….. مر چکا ہے۔ ….. اُس نے دم توڑ دیا ہے۔‘‘

’’مر گیا …..‘‘ ہورک دہشت سے چلّا اٹھا۔ ’’خدا کی پناہ ….. کیَور! یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔‘‘

’’مَیں یہ عرض کر رہا ہوں سرکار کہ ٹام مر گیا ہے۔‘‘ کیَور نے پھر اُس انداز میں جواب دیا جیسے کھانا تیار ہو جانے کا اعلان کر رہا ہو۔

’’ہورک کے اعصاب جواب دے گئے۔ دیر تک کوئی لفظ اُس کے منہ سے نہ نکل سکا۔
وہ پلک جھپکائے بغیر کیَور کو گھورتا رہا۔ پھر دھڑام سے زمین پر گرا۔ کیَور نے اُسے سنبھالا اور اُٹھا کر دوسرے کمرے میں لے گیا۔
ہورک کی حالت غیر تھی۔ اُس نے روتے ہوئے کہا:

’’کیَور! خدا کے لیے مجھے معاف کر دو، مَیں نے تمہارے لڑکےکو جان بُوجھ کر نہیں مارا۔
مجھے کیا خبر تھی کہ ہاتھ لگاتے ہی وہ آتش دان میں جا گرے گا۔‘‘

’’کیَور نے اطمینان سے جواب دیا:

’’سرکار! جو ہونا تھا، وہ ہو گیا۔ آپ کوئی رنج نہ کریں۔
ٹام میرا بیٹا تھا اور مَیں سب معاملہ سنبھال لوں گا۔ اب آپ یہاں آرام کریں اور کسی سے اِس بارے میں کچھ نہ کہیں۔‘‘

’’ہورک کو چھوڑ کر کیَور اُس کے کمرے میں گیا اور لڑکے کی لاش اٹھا کر اُس جگہ لے گیا جہاں وہ رَہا کرتا تھا۔
پھر اُسی رات کیَور نے ایک گھوڑا گاڑی منگوائی، لاش اُس میں رکھی اور اَپنے دوسرے بیٹے کو بھی ساتھ لے کر روانہ ہو گیا۔
تین ہفتے غائب رہنے کے بعد وہ وَاپس کینن ہال میں آیا اور ہورک کو بتایا کہ اُس نے ٹام کو اُس کی ماں کی قبر کے پاس دفن کر دیا ہے اور دُوسرے لڑکے ہنری کو بعض رشتےداروں کے سپرد کر آیا ہے۔
ہورک نے بہت پوچھا کہ تمہارے رشتےدار کہاں رہتے ہیں تاکہ ہنری کے کُل اخراجات وہاں بھیج دیے جائیں، مگر کیَور نے اپنا منہ سختی سے بند کر لیا اور ہورک کو پتا نہ بتایا۔

’’آہستہ آہستہ دن گزرتے رہے۔ کیَور دُوسرے تیسرے ہفتے چھٹی لیتا اور کسی نامعلوم مقام پر روانہ ہو جاتا۔
دو تین دن بعد واپس آتا اور خاموشی سے اپنے کام میں لگ جاتا۔
ہورک کا خیال تھا کہ وہ اَپنے بیٹے ہنری کو دیکھنے جاتا ہو گا۔

’’ایک دن ہورک خلافِ معمول میرے مکان پر آیا۔ مَیں اُس وقت باہر برآمدے میں بیٹھا پائپ پی رہا تھا۔
چند لمحے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ یک لخت خاموش ہو گیا۔
مَیں نے دیکھا کہ وہ خاصا فکرمند ہے۔ چہرے کا رنگ بھی کسی قدر اُڑا ہوا ہے۔
اِس سے پیشتر کہ مَیں کچھ کہوں، وہ اچانک بول پڑا:

’’ڈاکٹر ماریسن! کیا آپ کو معلوم ہے کہ کیَور کا بیٹا ٹام مر گیا؟‘‘

’’کب؟ کیسے؟‘‘ مَیں نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’معمولی سا حادثہ تھا۔ مَیں نے اُسے طمانچہ مارا۔ وہ آتش دان میں گرا اَور مر گیا۔‘‘

’’تعجب ہے، لیکن یہ حادثہ کب پیش آیا؟‘‘

’’کوئی چھے ماہ قبل!‘‘

’’چھے ماہ قبل، مگر آپ نے پہلے ذکر کیوں نہیں کیا؟‘‘

’’ذکر کرنے سے بھلا کیا فائدہ تھا۔‘‘

’’بندۂ خدا، ہم لوگ کم از کم کیَور سے چند تعزیتی کلمات ہی کہہ دیتے۔‘‘

’’ٹھیک ہے، لیکن کیَور نے خود مجھ سے کہا تھا کہ اِس حادثے کا ذکر کسی سے نہ کروں۔ وہ ٹام کی لاش یہاں سے لے گیا اور کسی جگہ دفنا آیا۔‘‘

’’اور ہنری کہاں ہے؟‘‘

’’کیَور اُسے اپنے چند رشتےداروں کے سپرد کر آیا ہے۔‘‘

’’خدا رَحم کرے۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’بےچارے کیَور کے لیے یہ صدمہ ناقابلِ برداشت ہو گا۔‘‘

’’یقینی بات ہے، لیکن بظاہر اُسے کوئی غم نہیں۔ حسبِ معمول اپنے کام میں لگا رہتا ہے۔‘‘

’’ہمارے درمیان بس اتنی ہی بات ہوئی۔ اُس کے بعد ہورک رخصت ہو گیا۔ مَیں دیر تک کیَور کے بارے میں سوچتا اور ہورک کے بیان کی صداقت پر غور کرتا رہا۔
بات سمجھ میں نہ آتی تھی کہ آخر حادثے کے چھے ماہ بعد ہورک کو یہ خیال کیوں آیا کہ مجھ سے ذکر کیا۔ بہرحال مَیں نے گاؤں میں کسی سے اِس بارے میں کوئی بات نہ کی۔

’’دو مہینے گزر گئے۔ ایک رات میرے مکان کے آگے گھوڑا گاڑی رکی، اُس کا دروازہ کھلا اور مَیں نے دیکھا کہ ہورک باہر نکلا۔ اُس کے قدم لڑکھڑا رَہے تھے۔
میرے خادم نے بڑھ کر اُسے سہارا دِیا اور اَندر کمرے میں لایا۔ پانی کے دو گلاس پی لینے کے بعد اُس کے حواس کچھ درست ہوئے۔

’’ڈاکٹر ماریسن! معاف کرنا۔ مَیں نے بےوقت آپ کو زحمت دی، مگر خدارا مجھے یہ بتاؤ کیا مَیں پاگل ہو گیا ہوں؟ کیا مَیں فریبِ نظر کا شکار ہو سکتا ہوں؟‘‘

’’میرا خیال ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ کے اعصاب خاصے مضبوط ہیں۔‘‘

’’پھر کیا ماجرا ہے کہ مجھے بھوت نظر آتے ہیں؟‘‘ اُس نے مسکرا کر کہا۔ یہ مسکراہٹ بالکل بےجان اور بےاثر تھی۔

’’بھوت؟‘‘ مَیں نے آنکھیں پھاڑ کر کہا۔ ’’مَیں اِن واہیات باتوں میں وقت ضائع نہیں کرتا۔‘‘

’’ہورک اپنی جگہ سے اٹھا اور اُس نے میرا بازو سختی سے تھام کر کہا:

’’مگر مَیں نے اُسے دیکھا ہے ڈاکٹر ….. اپنی اِن آنکھوں سے ….. اور اِس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔‘‘

’’اُس کی آواز کانپ رہی تھی اور آنکھوں سے خوف کا اظہار ہوتا تھا۔
مَیں نے اُسے دوبارہ کرسی پر بٹھایا اور پوچھا:

’’آپ نے کسے دیکھا؟‘‘

’’ٹام کو ….. کیَور کے لڑکے ٹام کو ….. گزشتہ رات۔‘‘

’’کہاں، کس جگہ؟‘‘

’’اپنے مکان کینن ہال میں۔‘‘ ہورک نے جواب دیا اور دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ کر سسکیاں لینے لگا۔

’’ڈاکٹر! مجھے پورا یقین ہے کہ وہی تھا …..‘‘

’’کینن ہال تو بہت بڑی عمارت ہے۔ آپ نے ٹام کو کس جگہ دیکھا تھا؟‘‘

’’اپنے کمرے میں، آتش دان کے پاس …..‘‘

’’وہ وَہاں کیا کر رہا تھا؟‘‘

’’چپ چاپ ….. بےحس و حرکت کھڑا تھا۔‘‘

’’اور اُس وقت آپ کہاں تھے؟‘‘

’’مَیں گھوڑے کو اصطبل میں بندھوا کر اَپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا۔ کیَور میرے ساتھ تھا۔
جب مَیں کمرے کی بڑی کھڑکی کے سامنے پہنچا جہاں اونچے اونچے پودے لہلہا رہے تھے، تو دفعتاً کیَور کے حلق سے ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی۔
وہ اُن پودوں پر جھکا اور چند سفید ریشمی دھاگے اٹھا کر میرے پاس لایا۔ مَیں نے پوچھا یہ کیا چیز ہے۔ تب اُس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا:

’’سرکار! یہ اُس کپڑے کے دھاگے معلوم ہوتے ہیں جس میں مَیں نے اپنے بڑے بیٹے ٹام کو کفنایا تھا۔‘‘

’’عین اُسی لمحے میری نگاہ کھڑکی میں سے ہو کر اَپنے کمرے میں گئی اور مَیں نے دیکھا کہ آتش دان کے قریب ٹام کھڑا مجھے گھور رَہا ہے۔ خوف کے مارے میرا جسم پتھر کا ہو گیا۔
یہ کیفیت صرف چند ثانیے ہی قائم رہی۔ اِس کے بعد مَیں نے کیَور سے کہا کہ آتش دان کے نزدیک ٹام کھڑا تھا۔
یہ سن کر وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا، پھر کمرے میں گیا اور کہنے لگا:

’’سرکار! یہاں تو کوئی بھی نہیں۔‘‘

’’ہورک کی زبانی یہ قصّہ سن کر مَیں بھی سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا معاملہ ہے۔ مَیں نے اُسے دماغی طاقت کی ایک دوا اِستعمال کرنے کا مشورہ دَے کر رخصت کر دیا۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہورک اپنے ضمیر کی ملامت کے باعث پریشان ہے اور ٹام کی شکل اُس کی آنکھوں کے سامنے گھومتی ہے۔
ابھی مشکل سے ایک ہفتہ گزرا ہو گا کہ ہورک دوبارہ میرے پاس آیا۔ اِس مرتبہ اُس کی حالت پہلے سے بھی ابتر تھی۔ چہرہ ہلدی کی مانند زرد تھا اور وُہ خشک تنکے کی طرح کانپ رہا تھا۔
کرسی پر بیٹھتے ہی اُس نے ہانپتے ہوئے کہا:

’’ڈاکٹر! گزشتہ رات مَیں نے اُسے پھر دیکھا ہے۔ مَیں ڈائننگ روم سے گزر رَہا تھا کہ دفعتاً مجھے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ کھانے کے کمرے کے دروازے کے ساتھ ہی سیڑھیاں ہیں۔
جب مَیں نے نگاہ اُٹھائی، تو وہ سب سے اوپر کی سیڑھی پر کھڑا مجھے گھور رَہا تھا۔ اندھیرے میں اُس کی آنکھیں تاروں کی مانند چمکتی تھیں اور سر ایک طرف جھکا ہوا تھا۔
اُف خدایا ….. مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے قلب کی حرکت بند ہو جائے گی۔ مَیں بےاختیار چیختا ہوا وَہاں سے باورچی خانے کی طرف بھاگا۔ باورچن اُس وقت ہاتھوں میں شوربے کا بھرا ہوا برتن لے کر آ رہی تھی۔ اُس نے مجھے اِس حال میں دیکھا، تو برتن اُس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
مَیں نے کیَور کو اُس کے کوارٹر میں پایا۔ وہ فوراً میرے ساتھ ڈائننگ روم میں آیا، لیکن ٹام جا چکا تھا۔
کیَور کہنے لگا کہ یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے، مگر مَیں نے قسمیں کھا کر کہا کہ ابھی چند لمحے پہلے مَیں نے اُسے سیڑھیوں پر کھڑے دیکھا ہے۔

’’مَیں نے ہورک کو گرم گرم قہوے کی ایک پیالی پلائی، تب اُسے کچھ سکون ہوا۔ پھر اُس نے کہا:

’’ڈاکٹر! خدا کے واسطے میری مدد کرو۔ مَیں واقعی معصوم بچے کا قاتل ہوں، لیکن مَیں نے اُسے جان بُوجھ کر نہیں مارا، وہ تو اِتفاقی حادثہ تھا۔ اب اُس کی روح زندگی بھر اِسی طرح مجھے ستاتی رہے گی۔‘‘

’’کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ کینن ہال میں رہنا چھوڑ دیں؟‘‘

’’آہ! یہ خیال میرے ذہن میں بھی آیا تھا۔‘‘ ہورک نے کہا۔
’’مگر اِس میں کئی قباحتیں ہیں۔ اوّل تو یہ کہ گاؤں والے چہ می گوئیاں کریں گے اور دوم یہ کہ مَیں خواہ کہیں چلا جاؤں، ٹام کی روح میرا تعاقب کرے گی۔‘‘

’’مَیں خاموشی سے اُس کی باتیں سنتا رہا۔ میرے پاس دراصل اُسے تسلّی دینے کی کوئی صورت نہ تھی۔ اگلے روز مَیں نے کینن ہال جانے کا ارادہ کیا۔
اِس کا مقصد کیَور سے دو دو باتیں کرنا تھا۔ جب مَیں اپنی گھوڑا گاڑی سے اُتر کر اُن کوارٹروں کی طرف چلا جن میں نوکر رہتے تھے، تو مَیں نے کیَور کو دیکھا کہ صحن میں کھڑا لکڑیاں چیر رہا ہے۔
جونہی اُس کی میری آنکھیں چار ہوئیں، مَیں نے دیکھا کہ وہ میری آمد سے خوش نہیں ہوا، بلکہ نہایت بیزاری سے جلدی جلدی کلہاڑا چلانے لگا۔
مَیں چند لمحے اُس کے پاس کھڑا رَہا اور جب اُس نے میری طرف کوئی توجہ نہ دی، تب مَیں نے ڈھیٹ بن کر کہا:

’’کیَور! مَیں تم سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’جی! فرمائیے۔‘‘ اُس نے تلخ لہجے میں کہا۔

’’تمہیں معلوم ہے کہ مَیں مسٹر ہورک کا نہ صرف پرانا دوست ہوں بلکہ اُن کا ذاتی معالج بھی ہوں۔
آج کل مسٹر ہورک ذہنی طور پر بہت زیادہ پریشان ہیں اور مجھے اُن کی جسمانی صحت کی طرف سے بھی خطرہ لاحق ہوتا جا رہا ہے۔
کیا تم بتا سکتے ہو کہ اِس کی وجہ کیا ہے؟‘‘

’’مجھے معلوم ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ آپ مسٹر ہورک ہی سے دریافت کیجیے۔‘‘

’’گزشتہ تین ماہ سے مسٹر ہورک کینن ہال میں کسی بدروح کو دیکھ رہے ہیں۔ اُس کا ذکر اُنھوں نے مجھ سے کیا ہے۔ تمہارا اِس بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘

’’مَیں نے کسی بدروح کو نہیں دیکھا اور نہ مجھے اِن باتوں میں کوئی دلچسپی ہے۔‘‘ کیَور نے غرّا کر کہا۔

’’مگر مسٹر ہورک نے یہ تمام حالات تمہیں بتائے تو ہیں …..‘‘

’’مَیں معافی چاہتا ہوں جناب! مزید گفتگو کرنے سے قاصر ہوں۔‘‘

’’یہ کہہ کر اُس نے کلہاڑا کندھے پر رکھا اور تیزی سے دوسری طرف چلا گیا۔
اُس کے اِس گستاخانہ رویّے سے مجھے بےحد صدمہ ہوا، مگر مَیں نے اُس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔

’’دیکھو کیَور! تمہارا یہ رویّہ ناقابلِ برداشت ہے۔‘‘ مَیں نے درشت لہجے میں کہا۔
’’کیا تمہیں اپنے آقا کے دوست اور معالج سے اِسی انداز میں گفتگو کرنی چاہیے تھی؟ بہتر یہ ہے کہ تم حالات کو ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی کوشش کرو۔
اگر خدانخواستہ مسٹر ہورک کو کچھ نقصان پہنچا، تو تم بھی محفوظ نہ رہو گے۔‘‘

’’ڈاکٹر صاحب! آپ مجھ سے اِس موضوع پر کچھ نہ کہیے، ورنہ مَیں مزید گستاخی پر مجبور ہو جاؤں گا۔‘‘ کیَور نے جھلّا کر کہا۔ اُس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔
مَیں خون کے گھونٹ پیتا ہوا چلا آیا۔ اگر مَیں کیَور کی اِس بدتمیزی کی خبر ہورک کو دیتا، تو وہ نہ جانے اُس کے ساتھ کیا سلوک کرتا، تاہم مَیں نے زبان بند رکھنا ہی مناسب سمجھا۔

’’چند روز بعد مَیں صبح صبح کینن ہال کی طرف گیا۔ گھوڑا گاڑی سے اتر کر وسیع لان میں داخل ہوا ہی تھا کہ ایک جانب ہورک اوندھے منہ پڑا دِکھائی دیا۔
نرم گیلی زمین پر اُس کے جوتوں کے نشان بھی عقب میں دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی کے پیچھے بھاگ رہا تھا کہ ٹھوکر کھا کر گر گیا۔
مَیں نے اُسے کوچبان کی مدد سے اٹھایا۔ وہ بےہوش ہو گیا تھا۔ نبض بےحد سست رفتار سے چل رہی تھی۔ اتنے میں کینن ہال کے کئی نوکر بھی آ گئے اور وُہ اَپنے آقا کو اُٹھا کر بڑے کمرے میں لے گئے۔
چند لمحے بعد ہورک نے آنکھیں کھول دیں۔ وہ برسوں کا مریض نظر آتا تھا۔ ایسا مریض جس کے جسم سے خون نچوڑ لیا گیا ہو۔
اُس نے اشارے سے سب نوکروں کو چلے جانے کا حکم دیا۔ جب کمرا خالی ہو گیا، تو اُس نے ہلکی آواز میں کہا:

’’ڈاکٹر! مَیں نے کل رات اُسے پھر دیکھا۔ مَیں اپنی خواب گاہ میں گیا اور بستر پر لیٹ کر کمبل اوڑھا ہی تھا کہ معاً دروازہ زور سے کھلا اور ٹام کھڑا دِکھائی دیا۔
موم بتی کی ہلکی روشنی میں اُس کا چہرہ سنگِ مرمر کی طرح سفید، مگر بےجان نظر آتا تھا۔ اُس کی آنکھیں میرے چہرے پر مرکوز تھیں اور اُن سے ناقابلِ بیان نفرت اور حقارت کا اظہار ہوتا تھا۔
دہشت سے میری چیخ نکل گئی۔ پھر مَیں نے سیڑھیوں میں سے کسی کے اترنے کی آواز سنی۔ مَیں بستر سے نکلا اور سوچے سمجھے بغیر سیڑھیوں کی طرف گیا۔
وہاں کوئی نہ تھا۔ اُس وقت مجھے بالکل احساس نہ تھا کہ مَیں کیا کر رہا ہوں۔ جب مَیں لان میں آیا، تو کچھ فاصلے پر ایک سایہ سا نظر آیا۔
مَیں اُس کی طرف لپکا، مگر ٹھوکر کھا کر گرا۔ اُس کے بعد اب ہوش آیا ہے۔‘‘

’’اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم ساری رات باہر لان میں بےہوش پڑے رہے؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

’’کیَور کہاں ہے؟‘‘

’’وہ تو کل دوپہر سے کہیں گیا ہوا ہے۔ آج سہ پہر تک آئے گا۔‘‘

’’دو گھنٹے بعد پتا چلا کہ کیَور آ گیا ہے اور اِس وقت اصطبل میں ہے۔ مَیں اُس کے پاس گیا اور ابھی کچھ کہنے بھی نہ پایا تھا کہ وہ منہ پھیر کر چلا گیا۔

’’اِس حادثے کے بعد مَیں پھر کینن ہال نہ گیا۔ ہورک سے کبھی کبھار گاؤں میں ملاقات ہو جاتی۔ ٹام کی روح بدستور اُسے پریشان کر رہی تھی۔ مَیں نے دیکھا کہ ہورک سُوکھ کر کانٹا ہو رَہا ہے۔
اُس پر دیوانگی سی طاری رہنے لگی۔ اکثر شناساؤں کے قریب سے گزر جاتا اور اُنھیں نہ پہچانتا۔
پھر ٹام کی موت کے ٹھیک ایک سال بعد مَیں نے سنا کہ ہورک نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کر لی۔ وہ بالکل پاگل ہو چکا تھا۔

’’ہورک کے مرتے ہی کینن ہال کے ملازم ایک ایک کر کے رخصت ہوئے۔ کیَور بھی جا چکا تھا۔ اُس کے بعد کینن ہال کے دروازے بند کر دیے گئے اور آہستہ آہستہ لوگوں میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور ہونے لگیں۔
کینن ہال کو آسیب زدہ قرار دَے دیا گیا۔ ہورک کوئی معمولی آدمی نہ تھا۔
ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے مَیں کہہ سکتا ہوں کہ اُس کے اعصاب فولادی تھے۔
بھوت پریت پر اُس کا قطعاً اعتقاد نہ تھا اور نہ وہ فریبِ نظر کا شکار ہو سکتا تھا۔ پھر یہ کیا بات تھی جس نے ہورک کو اِس انجام پر پہنچایا؟
فرصت کے لمحات میں مَیں اِس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتا، مگر سرا ہاتھ نہ آتا۔

’’ہورک کی موت پر چھے مہینے گزر گئے۔ ایک روز دوپہر کے وقت مَیں گھومتا پھرتا کینن ہال کی طرف جا نکلا۔ تمام دروازے اور کھڑکیاں بند تھیں۔
مَیں عمارت کے چاروں طرف گھوما اور یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اصطبل کا دروازہ کھلا پڑا ہے۔ مَیں اندر گیا۔ ہر طرف گرد ہی گرد تھی اور مکڑیوں کے بڑے بڑے جالے تنے ہوئے تھے۔
گھوڑوں کے بےکار ساز، لوہے کے نال اور لید کا انبار بھی لگا تھا۔ مَیں واپس آنے ہی والا تھا کہ اچانک میری نگاہ ایک سیڑھی پر گئی جو اصطبل کے ایک کونے میں دیوار سے لگی ہوئی تھی۔
بھلا یہاں سیڑھی کا کیا کام؟ مَیں محض تجسّس کی تسکین کے لیے سیڑھی پر چڑھا، کیا دیکھتا ہوں کہ اصطبل کی چھت کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی کوٹھڑی بنی ہوئی ہے۔
جب مَیں نے اُس میں جھانکا، تو ایک کرسی، ایک لوہے کا بوسیدہ پلنگ، چند میلے کپڑے، کچھ برتن اور سُوکھی روٹی کے ٹکڑے پڑے دکھائی دیے۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی شخص اِس کوٹھڑی میں رہتا رہا ہے۔ ایک گوشے میں سڑے ہوئے دودھ سے بھرا جگ بھی رکھا تھا۔
مَیں نے بہت دماغ لڑایا، مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کسی شخص کو یہاں چھپ کر رہنے کی کیا ضرورت پیش آئی۔

’’چار سال بِیت گئے۔ اِس دوران مجھے نیویارک ٹاؤن سے سو میل دور ایک گاؤں میں جانا پڑا۔ وہاں کوئی تقریب تھی۔ مَیں جس دوست کے گھر ٹھہرا تھا، ایکاایکی اُس کا بڈھا باپ چل بسا۔
مَیں میت کے ساتھ قبرستان تک گیا۔ ایک قبر کے قریب سے گزرتے ہوئے یک لخت میری نگاہ اُس پتھر پر پڑی جو قبر پر لگا ہوا تھا۔ میرے قدم وہیں رک گئے اور پھر آنکھوں کے آگے سے پردہ ہٹ گیا۔
قبر کے اُس پتھر نے ٹام کیَور کی روح اور ہورک کینن کی خودکشی کا راز فاش کر دیا۔

’’قبرستان سے واپس آ کر مَیں نے لوگوں سے کیَور کے بارے میں پوچھا کہ کوئی اُسے جانتا ہے۔ تقریباً ہر شخص نے اقرار کیا کہ کیَور کو کون نہیں جانتا۔
وہ اِسی گاؤں کا رہنے والا تھا، مگر اب بہت دن سے نہ معلوم کہاں ہے۔ جب اُس کی بیوی دو لڑکوں کو چھوڑ کر اِنتقال کر گئی، تو کیَور اَپنے بیٹوں کو لے کر کہیں چلا گیا۔
پھر عرصے بعد وہ اَپنے ایک بیٹے کی میت لے کر گاؤں آیا اور اَپنی بیوی کی قبر کے پاس اُسے دفنا دیا۔ اُس لڑکے کے بارے میں اُس نے گاؤں والوں کو بتایا کہ وہ ایک حادثے میں مر گیا ہے۔
چند روز گاؤں میں رہنے کے بعد وہ دُوسرے لڑکے کو لے کر واپس چلا گیا۔ ایک سال بعد پھر لڑکے سمیت واپس آیا اور بتایا کہ اُس کا آقا خودکشی کر کے مر گیا ہے۔
سب نے افسوس کا اظہار کیا اور اُمید ظاہر کی کہ اب کیَور یہیں رہے گا، لیکن وہ پھر چلا گیا اور اَب تک لَوٹ کر نہیں آیا۔‘‘

اِس مرحلے پر مَیں نے ڈاکٹر ماریسن کی بات کاٹی اور کہا:

’’ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ کیَور کے گاؤں والوں نے کہا کہ وہ لڑکے کو لے کر واپس چلا گیا۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے، جبکہ …..‘‘

ڈاکٹر ماریسن کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اُس نے کہا:

’’آہ ……! یہی تو اصل راز ہے۔ کینن ہال اور اُس کے نواح میں رہنے والے لوگ یہی جانتے تھے کہ کیَور دُوسرے بیٹے ہنری کو اَپنے گاؤں چھوڑ آیا ہے، مگر یہ بات صحیح نہ تھی۔
ہنری بلاشبہ اپنے باپ کیَور کے ساتھ گیا تھا، لیکن وہ زندہ نہیں تھا، بلکہ کیَور اُسے وہاں دفن کرنے گیا تھا اور وُہ اُسی لڑکے کی قبر تھی جسے مَیں نے دیکھا۔
پتھر پر ہنری کیَور کا نام، عمر اور تاریخِ وفات درج تھی۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ کینن ہال میں ہورک کے ہاتھوں جو لڑکا مارا گیا، وہ ٹام نہیں ہنری تھا۔‘‘

مَیں حیرت سے ڈاکٹر ماریسن کا منہ تکنے لگا۔

’’خدا کی پناہ ……!‘‘ مَیں چلّا اٹھا۔ ’’اِس کے معنی یہ ہیں کہ ……‘‘

’’جی ہاں! اِس کے معنی یہ ہیں کہ کیَور نے نہایت عمدہ ناٹک رچایا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ہورک نے جب لڑکے کو طمانچہ مارا اَور وُہ آتش دان میں جا گرا، تو اُس وقت ہورک نے لڑکے کی شکل نہ دیکھی تھی اور جب وہ مر گیا،تب بھی ہورک اُس کی صورت دیکھنے نہ پایا۔
جب اُس نے کیَور سے اُس حادثے کا ذکر کیا اور وُہ کمرے کے اندر گیا، تو اُس نے دیکھا کہ ہنری مرا پڑا ہے اور اِس مختصر سے وقفے ہی میں کیَور نے اپنے آقا سے انتقام لینے کی انوکھی تدبیر سوچ لی۔
اُس نے باہر آ کر ہورک کو بتایا کہ ٹام مر گیا۔
پھر وہ ہنری کی لاش لے کر اپنے گاؤں گیا اور ٹام کو بھی ساتھ لے گیا۔ کچھ عرصے بعد ٹام کو واپس لے آیا اور اُسے اصطبل میں بنی ہوئی خفیہ کوٹھڑی میں چھپا دیا۔
پھر اُس نے لڑکے کو پڑھا سکھا کر بدروح میں تبدیل کر دیا۔
یہ ہے داستان کینن ہال کے آسیب کی جو چالیس برس سے گاؤں میں مشہور ہے۔‘‘

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles