31 C
Lahore
Thursday, April 25, 2024

Book Store

بے وفا

جاسوسی ناولٹ

بے وفا

بیمار بیٹے کی محبت اور بے وفا بیوی کی نفرت میں گھرے ایک شخص کی روداد
از۔ احمد نعمان شیخ

آج اتوار کا دن تھا۔ گرد و نواح کے رہائشی موسم کی پہلی برف باری سے بغل گیر ہونے کے لئے جوق در جوق مری پہنچ رہے تھے۔ کچھ با خبر سیاح انٹرنیٹ پر موسم کی پیشین گوئی دیکھ کر پہلے ہی ڈیرہ جما چکے تھے۔ مری ایکسپریس روڈ پربھی معمول سے زیادہ رش تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہر کوئی آسمان سے گرتی برف اپنی مٹھی میں قید کرنے کے لئے بے چین ہوا جا رہا ہے۔ دائیں طرف سفید پہاڑ اور بائیں طرف گہری کھائی اور کھائی میں سر اٹھائے بلند و بالا اداس پیڑ جن کی ویران شاخیں بھی اب برف کی لپیٹ میں آ چکی تھیں۔ درختوں کے تنوں کے گرد بل کھاتی اداس بیلیں اور سر اٹھائے ویران شاخیں، بہار کے انتظار میں بانہیں پھیلائے قدرت کی کاری گری کو گھور رہی تھیں۔
ایک سرخ سینٹرو کافی تیزی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔ اندر بیٹھا جوڑا مصروف زندگی کے کچھ پل چرا کر ایک دوسرے میں کھونے کے لئے کسی پرسکون مسکن کی تلاش میں تھا۔ مگر صرف وہ سرخ سینٹرو والے ہی کیوں، سفید کرولا، بلیک سیوک ،گرے کلٹس، میرون آلٹو، نیلی ہونٖڈا سٹی، غرض ہر کسی سواری میں سوار نئے نویلے جوڑے ہنی مون پر ، فیملی والے بچوں کی فرمائش پر اور کچھ من چلے اپنی جوانی کے لمحات کو مزید یاد گار بنانے کے لئے پر فضا مقام کی طرف محوِ سفر تھے۔
سینٹرو چلانے والا بل کھاتی سرمئی سڑک پر کمال مہارت سے خطرناک موڑ کاٹ رہا تھا۔
آج موسم بہت حسین ہے۔ ساتھ بیٹھی شریکِ سفر  نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
ہاں۔۔۔۔ پر آپ سے زیادہ حسین تو نہیں۔  اس نے اپنے پہلو میں بیٹھی اس کوہ قاف کی پری کو دیکھ کر کہا۔
سامنے دیکھیں۔۔۔۔۔ نتھیا گلی کا راستہ ایسا نہیں کہ آپ میرے حسن میں غزلیں سنانے لگیں۔ وہ شرماتے ہوئے دوسری طرف دیکھنے لگی۔
چلو میں تو گاڑی چلا رہا ہوں ، اس لیے نظر سامنے ہونی چاہیے ،پر جناب تو ہماری طرف دیکھ سکتے ہیں نا؟
اس نے اپنے بائیں ہاتھ سے شریک سفر کا چہرہ تھاما اور اپنی طرف کرنے لگا۔
ایک دم سے گاڑی کو ایک زور دار جھٹکا لگا، گاڑی بے قابو ہوئی۔ اس نے گھبرا کر اسٹیرنگ کو پوری قوت سے دائیں طرف گھمایا لیکن تب تک دیر ہو چکی تھی۔ گاڑی کو لگنے والا جھٹکا ایسا شدید تھا کہ سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا اور گاڑی ہزاروں فٹ نیچے کھائی میں جا گری۔ ارد گرد کے سواروں نے اس چمچماتی خوبصورت سینٹرو کو لڑکھڑاتے ہوئے کھائی میں گرتے اور پھر سپرد آتش ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
لگتا نہیں کہ کوئی سوار بچ پایا ہو۔  آگ کے شعلے دیکھ کر کوئی اپنے ساتھی سے بولا۔
آج کل کے نوجوان لائسنس تو لیتے نہیں ،بس اپنی اور دوسروں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔  کسی اور  نے اپنا خیال پیش کیا۔
کوئی پولیس کو تو فون کرے اور حادثے کی اطلاع دے۔
یہ گاڑی کافی دیر سے میرے آگے تھی۔ وہ آدمی تو بہت اچھی طرح گاڑی چلا رہا تھا۔ سمجھ نہیں آئی کہ ایک دم سے کھائی میں کیسے گر گئی۔
جس جگہ سے گاڑی کھائی میں گری تھی، وہاں کچھ لوگ اپنی گاڑیاں کھڑی کیے منظر ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کہ یہ حقیقی نہیں کسی فلم کا سین ہو۔ ہر کوئی نارنجی شعلوں میں گرفتار گاڑی کو دیکھ کر اپنا خیال پیش کرنا فرض سمجھتا۔ پھر کسی سمجھدار  نے پولیس کو اطلاع کر دی اور باقی اپنی اپنی راہ لینے لگے۔ آہستہ آہستہ رش کم ہونے لگا۔ ہر کوئی اس حادثے پر افسوس کر کے جانبِ منزل ہوا۔
٭
جیسے ہی آخری مریض اپنا معائنہ کروا کر کمرے سے باہر نکلا، ڈاکٹر رضوان پرویز  نے ریسپشن پر کال کی۔
میری کوئی اور اپائنٹمنٹ تو نہیں ہے نا؟
نہیں سر! آپ کے لئے یہ آخری مریض تھے ۔ ریسپشنسٹ نے جواب دیا۔
ٹھیک ہے ، میں پھر نکلتا ہوں۔ کوئی ایمرجنسی ہو تو ڈاکٹر جمشید آن ڈیوٹی ہیں، انھیں انفارم کر دینا۔ ریسیور کریڈل پر رکھنے کے بعد رضوان  نے اپنی جیکٹ ہینگر سے اتار کر پہنی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ پارکنگ میں داخل ہو کر اپنی بلیک ہونڈا سیوک میں بیٹھا اور گھر جانے کے لیے گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
ڈاکٹر رضوان اسلام آباد کا ایک نامی گرامی ڈاکٹر اور معروف ہسپتال کا مالک تھا۔ کم عمر میں ہی اس  نے اپنا وہ مقام بنا لیا جو لوگ ساری زندگی حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ پر نام اور پیسہ کمانے کی جستجو میں اپنی ازدواجی زندگی کو مکمل طور پر نظر انداز کر بیٹھا۔ جس کے نتیجے میں آج وہ اور ثمرہ بظاہر تو میاں بیوی کی حیثیت سے ایک گھر میں رہ رہے تھے لیکن دن بدن دونوں کے درمیان فاصلے بڑھتے جا رہے تھے۔ شاید اسی وجہ سے اب تک وہ اولاد کی نعمت سے بھی محروم تھے ۔
آج ویک اینڈ تھا۔ ہسپتال سے جلدی فارغ ہو کر اس  نے سوچا کہ آج کی شام اپنی بیوی کے ساتھ گزاری جائے، کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں ڈنر اور اس کے بعد اسلام آباد کی سڑکوں پر ایک لانگ ڈرائیو۔ راستے میں ایک پھولوں کی دکان نظر آئی۔ رضوان  نے دکان سے سرخ ٹیولپ کا ایک خوبصورت گلدستہ تیار کروا کر تقریباً آٹھ بجے گھر پہنچا۔گاڑی پورچ میں کھڑی کرنے کے بعد اپنی جیب سے چابی نکالی اور لاک کھولا۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا، ہاتھ میں ہینڈ بیگ لیے ثمرہ شاید کہیں جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ رضوان نے ایک نظر ثمرہ کی طرف ڈالی۔ سرخ شرٹ، بلیک کیپری ٹرائوزر اور ہم رنگ ہائی ہیل کے سینڈل پہنے اس نے رضوان کی طرف سوالیہ نگاہوں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ تم آج اتنی جلدی آ گئے؟
ہاں۔۔۔۔۔ میں نے سوچا کہ آج کی حسین شام کو مزید حسین بنانے کے لیے اپنی رفیقِ حیات کے ساتھ وقت گزارا جائے۔ اسی لیے جلدی آ گیا اور آتے ہوئے تمہارے لیے یہ پھول لایا ہوں۔  رضوان نے گلدستہ ثمرہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ثمرہ نے ایک نظر پھولوں کی طرف دیکھا اور بولی
یہ چونچلے کس لیے ؟ جب اس طرح کی حرکتوں کی ضرورت تھی ،تب تو تم سارا دن ساری رات اپنے ہسپتال میں مصروف رہتے تھے۔ میں ساری ساری رات تمہارے انتظار میں جاگتی رہتی تھی اور اب شادی کے چھے سال بعد تمہیں یہ سب یاد آنا شروع ہو گیا ہے۔ ہم اپنا اپنا راستہ الگ کر چکے ہیں اور بہتر یہی ہے کہ جیسا چل رہا ہے چلنے دو۔
ہم وہ وقت پھر سے لا سکتے ہیں۔ اب ہمارا ہسپتال سیٹ ہو چکا ہے۔ اب مجھے وہاں زیادہ وقت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنی فیملی کے لئے وقت نکال سکتا ہوں، بلکہ اپنی فیملی کو آگے بھی بڑھا سکتا ہوں۔  رضوان نے گلدستہ میز پر رکھا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔ ہمارا کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ ثمرہ بھی ہسپتال کی شیئر ہولڈر تھی۔
مگر اب میرے پاس وقت نہیں ہے۔ میں نے اپنی نئی مصروفیات ڈھونڈ لی ہیں۔ مجھے دیر ہو رہی ہے، چلتی ہوں۔ ثمرہ نے کہا اوربنا رضوان کا جواب سنے دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔
یہ تو بتاتی جاؤ کہ کہاں جا رہی ہو اور کب تک واپس آؤ گی؟
کسی فرینڈ کی برتھ ڈے ہے۔ رات دیر تک واپس آؤں گی۔ اس کے علاوہ کوئی سوال نہ پوچھنا۔ ثمرہ دروازہ کھول چکی تھی۔ باہر نکل کر اس کے قدم پورچ میں کھڑی اپنی سرخ سینٹرو کی طرف بڑھنے لگے۔ گاڑی میں بیٹھ کر اس نے ایک نمبر ملایا۔ تیسری بیل پر دوسری طرف سے فون اٹھا لیا گیا۔ سلسہ ملتے ہی وہ بولی
ہیلو علی! میں گھر سے نکل چکی ہوں۔ بس پندرہ منٹ میں تمہارے پاس پہنچ رہی ہوں۔ وہ گاڑی اسٹارٹ کر چکی تھی۔
ہاں۔۔۔۔۔ وہ رضوان آ گیا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ ڈنر کے لئے باہر چلتے ہیں۔ ساتھ میں پھول بھی لایا تھا۔ میں  نے منع کر دیا۔
ارے تم سے ملنا تھا نا ،تو اس کے ساتھ کیسے جاتی؟ کتنے دن ہو گئے تم سے ملے ہوئے۔ اس  نے ساتھ رہتے ہوئے بھی اپنے ہسپتال اور مریضوں کی باتوں کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کرنی ہوتی۔ بہت بورنگ انسان ہے وہ۔
ارے نہیں، اتنا آسان نہیں ہے طلاق لینا۔ رضوان سے طلاق لینے کی صورت میں ہسپتال کے شیئرز سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ تم فون بند کرو ،تمہارے پاس آ کر سب بتاتی ہوں۔ ثمرہ نے فون بند کر کے موبائل ڈیش بورڈ پر رکھا اور نظریں سامنے سڑک پر جما دیں۔
٭
ثمرہ کے باہر نکلنے کے بعد رضوان کچھ دیر ویسے ہی صوفے پر بیٹھا میز پر پڑے پھولوں کو دیکھتا رہا۔ پھر ایک خیال آنے پر موبائل پکڑا اور ایک نمبر ملانے لگا۔ سلسہ ملتے ہی پوچھنے لگا
ہیلو ایمن ! کہاں ہو؟
اچھا گھر میں ہی ہو۔ ڈنر کا کیا پلان ہے؟ میرے ساتھ کرو گی؟
نہیں۔۔۔۔۔ وہ پتا نہیں اپنے کسی فرینڈ کی برتھ ڈے میں گئی ہے۔ تو میں  نے سوچا یہ حسین شام کسی حسین پری کے ساتھ گزاری جائے۔ میں آدھے گھنٹے میں پک کرتا ہوں۔ تیار ہو جاؤ۔
فون رکھ کر رضوان نے میز پر پڑے گلدستے کی طرف دیکھا۔ ایک ٹھنڈی آہ بھری اورمسکرا کر کہا۔ لگتا ہے تم ثمرہ کے نہیں بلکہ ایمن کے بیڈ روم کی زینت بننے کے لئے خریدے گئے ہو۔
٭
ہسپتال کی پارکنگ میں عباس نے اپنی پک اپ کھڑی کی اور چند ثانیوں کے لیے آنکھیں موندھ کر سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا کر کچھ سوچنے لگا۔ چند لمحوں بعد اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اورگھڑی پر وقت دیکھا۔آٹھ بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے۔ ایک لمبا سا سانس اندر کھینچا اور ڈیش بورڈ پر پڑا ہوا بڑا سا زرد لفافہ ہاتھ میں پکڑ کر اداس نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ لفافے میں اسے اپنے چار سالہ بیٹے احمر کی ویران اور زرد چہرہ نظر آنے لگا۔ آنکھوں سے جھلکتے آنسو ہاتھ سے صاف کر کے وہ جلدی سے گاڑی سے باہر نکلا۔ اس کے قدم ہسپتال کی مین لابی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ لفٹ کے قریب اسے نرس کے یونیفارم میں ملبوس مریم کھڑی نظر آ گئی ۔
ڈاکٹر رضوان سے ملنے آئے ہیں؟ مریم نے اسے دیکھ کر پوچھا۔
ہاں۔۔۔۔ ڈاکٹر جمشید کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر رضوان مدد کر سکتے ہیں، وہ ہسپتال کے مالک ہیں ۔ اسی لیے ا ن سے ملنے آیا ہوں۔  لفٹ میں داخل ہوتے ہوئے عباس نے جواب دیا۔
احمر کیسا ہے ؟
طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس کی۔ کہہ رہا تھا کہ مریم آنٹی ملیں تو کہنا کہ میں آپ کو یاد کرتا ہوں، گھر چکر لگا لیں۔ چھٹی والے دن آ جاؤ نا۔ کافی وقت سے گھر نہیں آئی ہو۔
ٹھیک ہے میں جلدی چکر لگاؤں گی۔  عباس نے سر ہلا دیا اور لفٹ مطلوبہ فلور پر آ کر کھل گئی۔ باہر نکل کر عباس کے قدم ڈاکٹر رضوان کے کمرے کی طرف بڑھنے لگے۔
عباس ایک ریٹائیرڈ فوجی تھا۔ فوج میں بطور سپاہی اٹھارہ سال کی نوکری کے بعد صوبے دار میجر کے عہدے سے ریٹائیرڈ ہو کر اب ایک مقامی بینک میں سیکورٹی گارڈ کی نوکری کر رہا تھا۔
دن میں نوکری کرتا اور شام کو ایک الیکٹرونکس مارکیٹ میں پک اپ چلا کر لوگوں کا سامان ان کے گھر تک پہنچاتا تھا ۔ پک اپ اس کے ایک دوست کی تھی۔ وہ اسے شام کے وقت اور اتوار کے دن کے لیے چلانے کے لئے دیتا تھا تاکہ عباس اپنی مالی مشکلات کا مقابلہ کر سکے اور اضافی رقم کما سکے۔ بیوی نے دو سال پہلے چھوڑ کر کسی امیر آدمی سے شادی کر لی تھی۔
چار سالہ بیٹا احمر پیدائشی بیمار تھا۔ ڈاکٹر جمشید کی تشخیص کے مطابق احمر کو بون میرو ٹرانسپلانٹ کی اشد ضرورت تھی۔ کافی عرصہ تو ڈونر ڈھونڈنے میں لگ گیا۔ خوش قسمتی سے اب ڈونر مل چکا تھا لیکن ہسپتال کے اخراجات پندرہ لاکھ روپے بتائے گئے۔  ایک سیکورٹی گارڈ پندرہ لاکھ کا انتظام کیسے کر سکتا تھا۔ ڈاکٹر رضوان کا چھوٹا بھائی عدنان جب آرمی میں کیڈٹ بھرتی ہوا تب عباس ہی اس کا ٹرینر تھا۔ عدنان کے واسطے سے ہی ڈاکٹر رضوان  نے تین لاکھ کی رعایت دیتے ہوئے عباس کو بارہ لاکھ کا انتظام کرنے کا کہا تھا۔ لیکن عباس کے لیے یہ رقم بھی بہت بڑی تھی۔ آج ایک آخری امید لیے وہ ڈاکٹر رضوان سے ملنے آیا تھا کہ شاید کوئی حل نکل آئے۔
نرس مریم ، عباس کی بہن کی دوست تھی۔ جب سے عباس اس ہسپتال میں آ رہا تھا تب سے ہی دونوں میں اچھی شناسائی ہو گئی تھی۔ وہ اکثر احمر کو ملنے ان کے گھر بھی آتی تھی۔ مریم کی طلاق ہو چکی تھی اور کوئی اولاد نہیں تھی۔ اسی لیے احمر کو وہ اپنے بیٹوں جیسا پیار کرتی تھی۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر ڈاکٹر رضوان کے ساتھ ساتھ کمرے میں موجود اس کی بیوی ثمرہ پر پڑی۔ جس بینک میں عباس نوکری کرتا تھا ثمرہ کا وہاں اکاؤنٹ تھا، اسی لیے اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی۔
آئیے عباس صاحب! تشریف رکھیں۔  رضوان کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ عجلت میں ہے۔ عباس  نے دونوں کو سلام کیا اور سامنے بیٹھ گیا۔
ڈاکٹر صاحب! یہ میرے بیٹے کی نئی رپورٹس ہیں۔  عباس نے زرد لفافہ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ رضوان کے لفافہ اٹھا لیا اور کھول کر رپورٹس دیکھنے لگا۔
ڈاکٹر جمشید کا کہنا ہے کہ بہت مشکل سے ڈونر ملا ہے۔ دیر نہیں کر سکتے۔ آپریشن اسی مہینے میں ہونا چاہیے۔ اب آپ ہی بتائیں میں غریب آدمی بارہ لاکھ کہاں سے لاؤں؟ میں  نے ہر جگہ ہاتھ مارا ہے اور صرف دو لاکھ تک کا انتظام کر سکا ہوں۔ آپ سے ایک عرصے سے شناسائی ہے۔ اگر آپ باقی کی رقم کے لیے قسطیں کر دیں تو بہت مہربانی ہو گی۔
میں وعدہ کرتا ہوں کہ آہستہ آہستہ آپ کی سب رقم ادا کر دوں گا۔  وہ ایسے بات کر رہا تھا جیسے سب رٹ کر آیا ہے۔ رضوان  نے رپورٹس دیکھنے کے بعد میزپر رکھیں اور بولنے لگا
دیکھو عباس! یہ بات صحیح ہے کہ یہ ہسپتال میرا ہے۔ لیکن میں اکیلا تو مالک نہیں ہوں نا۔ ہمارے اور بھی بورڈ ممبرز ہیں۔ ہم دس لاکھ روپے کی رعایت نہیں دے سکتے۔ اور نہ ہی ادھار یا قسطوں کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ میں نے پہلے تین لاکھ روپے ڈسکاؤنٹ کر دیے تھے اور صرف تمہاری ذات کے لئے دو لاکھ روپے اور چھوڑ رہا ہوں۔ دس لاکھ سے کم میں تمہارے بیٹے کا آپریشن نہیں ہو سکے گا۔ رپورٹس بھی تسلی بخش نہیں ہیں۔ جتنا جلد ہو جائے اتنا ہی احمر کی زندگی کے لئے بہتر ہے۔
سرکاری ہسپتال والے بھی ہاتھ نہیں پکڑا رہے ۔ میں اپنے بیٹے کو کیسے سسکتے ہوئے دیکھوں۔ کیسے بن ماں کے بیٹے کو چار سال کی عمر میں مرنے دوں۔  عباس کی آنکھوں سے آنسو جھلکنے لگے۔
عباس صاحب! ہم آپ کی کیفیت سمجھتے ہیں۔ آپ کی تربیت سے ہی عدنان آج آرمی میں کیپٹن بن گیا۔ اسی لیے ہم آپ کے ساتھ اتنا تعاون کر رہے ہیں۔ ورنہ کوئی اور ہوتا تو اس کے ساتھ ایسی کوئی بھی فیور نہ کی جاتی۔
عباس صاحب! آپ نے کبھی بتایا نہیں کہ آپ کی بیوی کہاں ہیں؟  پہلی بار ثمرہ گفتگو کا حصہ بنی۔
چھوڑ کر چلی گئی۔  عباس نے مختصرسا جواب دیا۔
وفات پا چکی ہیں کیا؟  ثمرہ نے دھیمے سے انداز میں پوچھا۔
نہیں۔۔۔۔۔دو سال پہلے ہماری طلاق ہو گئی تھی۔ اسے کوئی امیر آدمی پسند آ گیا تھا۔ اس نے اپنے بیمار بیٹے کا سوچا اور نہ ہی میرا۔  عباس کے لہجے میں پریشانی کی جگہ نفرت  نے  لے لی تھی۔
تو کیا وہ بیٹے سے بھی ملنے نہیں آتیں؟ ثمرہ حیرا ن ہو رہی تھی۔
نہیں۔۔۔۔۔ اسے کسی کی پروا  نہیں۔ وہ صرف پیسے کی بھوکی تھی۔ میں اس کی خواہشات پوری نہ کر سکا ۔ ایسے میں کوئی امیر آدمی اس کی زندگی میں داخل ہوا۔ پیسے کی چمک نے اس کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھی کہ اسے نہ اپنا زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا بیٹا نظر آیا اور نہ ہی یہ محبت اور وفا کرنے والا شوہر۔
کبھی کبھی تو دل کرتا ہے کہ ہر بے وفا کو جان سے مار دوں۔ جیسے ملک سے غداری کی سزا موت ہے ، مذہب سے غدار، مرتد کی سزا موت ہے ایسے ہی محبت میں بے وفائی کی سزا بھی موت ہونی چاہیے۔
عباس کی لال ہوتی آنکھوں میں وحشت دیکھ کر رضوان اور ثمرہ دونوں حیران رہ گئے۔ عباس کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو ابھی دو منٹ پہلے اپنے بیٹے کی زندگی کے لئے آنسو بہا رہا تھا۔ اب ان کے سامنے کوئی اور ہی شخص بیٹھا تھا۔
عباس! یہ پانی پیئو ، اور غصہ ٹھنڈا کرو۔  رضوان نے میز پر پڑی پانی کی بوتل عباس کے سامنے سرکاتے ہوئے کہا۔عباس کو جیسے ہوش آ گیا ہو۔ اس نے پانی کی بوتل اٹھائی ، ڈھکنا کھولا اور ایک ہی سانس میں ساری بوتل خالی کر گیا۔
ہم کافی عرصہ سے آپ کو جانتے ہیں ، لیکن اس بات کا ہمیں آج تک پتا نہ چل سکا۔
بیوفائی کی تشہیر نہیں کی جاتی۔ خاموشی سے دکھ سہا جاتا ہے رضوان صاحب۔ بیوی چلی گئی اور اب بیٹا بھی اس حال میں ہے کہ اس کا مجبور باپ اس کی زندگی بچانے کے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ فوج سے ریٹائر منٹ پر جوپیسہ ملا وہ میرے والد کے علاج پر لگ گیا۔
اب تو میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے۔  عباس اپنی کرسی سے اٹھا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔ عباس کی باتیں رضوان اور ثمرہ دونوں کے لئے خاموش پیغام لے کر آئیں تھیں۔ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے اور پھر ثمرہ بولی
چلیں اب اٹھ جائیں، ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ اور میرے چچا کے گھر جا کر ایسی کوئی بھی بات مت کرنا، جس سے یہ ظاہر ہو کہ ہم دونو ں کے درمیان رشتہ برائے نام باقی ہے۔   ثمرہ نے آخری جملہ دانت چبا کر بولا۔
ٹھیک ہے چلتے ہیں تمہارے چچا کی بیٹے کی منگنی میں۔ اللہ کرے اسے کوئی اچھا ہمسفر نصیب ہو ۔ رضوان کے آخری ذومعنی جملے کا مطلب ثمرہ اچھی طرح سمجھ گئی تھی۔
٭
ایک گھر کا کچھ الیکٹرونکس سامان پہنچا کر عباس نے گھڑی پر وقت دیکھا، دس بج رہے تھے۔ اس  نے سوچا کہ اب گھر واپس جانا چاہیے۔ اس کا دماغ صرف یہ بات سوچ رہا تھا کہ دس لاکھ کا انتظام وہ کیسے کر پائے گا۔ کبھی سوچتا اپنے ہی بینک میں ڈاکا مار لوں ، کبھی سوچتا کہ کوئی جیولری شاپ لوٹ لوں یا پھر کوئی اور راستہ ڈھونڈا جائے۔
اپنے بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے اب اس کی حالت بن پانی کے مچھلی کی سی ہو رہی تھی۔ جیسے مچھلی کو زندہ رہنے کے لیے پانی کی ضرورت تھی ، ٹھیک اسی طرح عباس کو کم از کم مزید آٹھ لاکھ روپوں کی ضرورت تھی۔ جس مکان میں وہ رہتا تھا وہ مکان کرائے کا تھا ، ورنہ اسے بیچ دیتا۔ ابھی یہی باتیں وہ سوچ رہا تھا کہ اچانک موبائل بجنے لگا۔ اسکرین پر ڈاکٹر رضوان کا نام جگمگا رہا تھا۔ اس  نے جلدی سے فون پک کیا ۔
عباس! مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ کیا تم ابھی ہسپتال آ سکتے ہو؟
خیریت تو ہے ڈاکٹر صاحب؟  وہ پریشان ہو گیا۔
ہاں خیریت ہی ہے۔ تم ملو تو میں تمہیں بتاتا ہوں۔ کتنی دیر میں پہنچ سکتے ہو؟
پندرہ منٹ تک۔  وہ گاڑی ہسپتال کی طرف گھما چکا تھا۔
ٹھیک ہے پھر پندرہ منٹ بعد ملاقات ہوتی ہے۔  دوسری طرف سے کال منقطع کر دی گئی۔ تجسس اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں ڈرائیو کرتے ہوئے ٹھیک پندرہ منٹ بعد وہ ہسپتال پہنچ چکا تھا۔
جی ڈاکٹر صاحب! اب بتائیں خیریت تو ہے نا؟ مجھے پریشانی ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر رضوان کے کمرے میں داخل ہونے کے بعد عباس نے عجلت میں پوچھا۔
پریشان نہ ہو ، میرے پاس تمہارے لیے ایک آفر ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم آسانی سے دس لاکھ روپے کا انتظام نہیں کر سکو گے۔ اس لیے میں نے تمہاری مدد کرنے کا سوچا ہے۔
کیا آپ مجھے دس لاکھ روپے دیں گے؟  اس نے غیر یقینی کیفیت میں پوچھا۔
ہاں۔۔۔ میں تمہیں دس لاکھ روپے دوں گا۔ بدلے میں تمہیں میرا ایک کام کرنا ہوگا۔
کیسا کام ؟  عباس کے دماغ پر ہلکی ہلکی انجانی سی دستک ہونے لگی۔
میری بیوی ثمرہ کو قتل کر دو۔ میں تمہیں دس لاکھ روپے دینے کو تیار ہوں۔ رضوان نے عباس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سفاکی سے کہا۔
قق۔۔۔۔ قتل؟ وہ سمجھ گیاتھا کہ دس لاکھ پانے کے لیے کوئی بڑی قیمت دوسری شکل میں ادا کرنی پڑے گی۔
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔تم یہی سمجھ لو کہ تمہارے بیٹے کی زندگی کی قیمت میری بیوی کی موت ہے۔
دیکھیں رضوان صاحب! میں مانتا ہوں کہ مجھے اپنے بیٹے کی جان بچانے کے لئے پیسے کی ضرورت ہے۔ پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے بیٹے کی جان بچانے کے لئے میں کسی دوسرے کی جان لے لوں۔ میں نے فوج میں نوکری کی ہے۔ اب سکیورٹی کی جاب کر رہا ہوں میرا کام لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، جان لینا نہیں۔
کل تم ہی نے کہا تھا ۔۔۔۔۔ تمہارا دل کرتا ہے کہ ہر بے وفا کو جان سے مار دو۔ یہ دیکھو، ثمرہ کی بے وفائی کا منہ بولتا ثبوت۔ رضوان  نے چند تصاویر میز پر پھیلا دیں۔ ان تصاویر میں ثمرہ کسی مرد کے ساتھ نظر آ رہی تھی۔ ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے، شاپنگ مال میں گھومتے ہوئے، گاڑی میں ساتھ بیٹھے ہوئے اور مری کی پہاڑیوں میں برف کے ساتھ کھیلتے ہوئے۔ عباس ان تصاویر کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھوں میں وہی لالی پھر سے نظر آنے لگی جو کل رضوان دیکھ چکا تھا۔
رضوان سمجھ گیا کہ تیر ٹھیک نشانے پر بیٹھا ہے۔
کافی وقت سے مجھے ثمرہ پر شک تھا۔ اسی لیے میں نے ایک پرائیویٹ جاسوس کو ثمرہ کی نگرانی پر معمور کیا تھا۔ اور آج صبح ہی مجھے یہ سب ثبوت ملے ۔ میں نے اس کا اتنا خیال کیا۔ وہ ایک غریب فیملی سے تعلق رکھتی تھی۔ میں  نے اسے پیسہ دیا، لگژری لائف اسٹائل دیا۔ اپنے ہسپتال میں بیس پرسنٹ کا شیئر ہولڈر بنایا۔ وہ سب دیا جس کا وہ سب صرف خواب میں ہی سوچ سکتی تھی۔ لیکن مجھے بدلے میں صرف بے وفائی ملی۔
رضوان بھرائی ہوئی آواز میں کہتا چلا گیا۔
تو آپ اسے طلاق دے کر اپنی نئی زندگی کی شروعات کرو۔ مارنا ضروری ہے کیا؟
نہیں ۔۔۔۔۔ اسے اپنی بے وفائی کی سزا ضرور ملنی چایئے۔ تم نہیں مارو گے تو ایک نہ ایک دن شاید میں خود ہی اسے جان سے مار دوں۔ جس نے میرے پیار کی قدر نہ کی اسے میں اتنی آسانی سے اپنی زندگی سے علیحدہ نہیں کر سکتا۔
رضوان ، عباس کو یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اگر معاملہ طلاق تک پہنچا تو ایک نہ ایک دن ایمن کے ساتھ اس کے اپنے ناجائز تعلقات بھی دنیاکے سامنے آ جائیں گی۔ اسی لیے وہ عباس کو اندھیرے میں رکھنا چاہتا تھا۔
لیکن پھر بھی، میں کیسے کسی کی جان لے سکتا ہوں؟  وہ بے چارگی کے سے انداز میں بولا۔
اگر تمہاری بینک میں کوئی ڈاکو نقب لگائے یا کوئی ملک سے غداری کرے تو کیا کرو گے؟  رضوان اب عباس کے الفاظ اسی کو لوٹا رہا تھا۔
میں سمجھ رہا ہوں آپ کی بات۔ لیکن ، آج کل کی پولیس بہت ہوشیار ہو گئی ہے۔ کسی کا قتل ہو جائے تو سب سے پہلے شوہر یا بیوی پر ہی شک کیا جاتا ہے ، خاص طور پر اگر دونوں کے درمیان تعلقات خوش گوار نہ ہوں ۔
اور اگر ایسا لگے کہ قتل نہیں کوئی حادثہ ہوا ہے۔ جیسے روڈ ایکسیڈنٹ یا کسی اور قسم کا حادثہ؟
رضوان کی بات سن کر عباس کو اندازہ ہو گیا کہ رضوان ایک نہ ایک دن ثمرہ کو لازمی قتل کروا دے گا۔ اب وہ خود یہ قتل کر کے اپنے بیٹے کی جان بچا لے یا پھر انکار کر کے اپنے بیٹے کو مرنے دے۔ اگر وہ پکڑا بھی گیا تو کم از کم اس کے بیٹے کو نئی زندگی تو مل ہی جائے گی۔ ثمرہ کی جان کی بازی پر نہیں، اپنی جان کو داؤ پر لگا کر وہ یہ کھیل کھیلنے کے لئے راضی ہو گیا۔
ٹھیک ہے۔۔۔۔پر میری دو شرطیں ہیں۔ پہلی یہ کہ پہلے میرے بیٹے کا آپریشن ہو گا۔ جب تک وہ مکمل تندرست نہیں ہوتا میں کوئی بھی قدم نہیں اٹھاؤں گا۔ دوسرا یہ کہ میں قتل کا پلان خود بناؤں گا۔ قتل کب ، کہاں اور کیسے کرنا ہے میں خود فیصلہ کروں گا۔ آپ بس مجھے ثمرہ کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کریں گے۔  عباس کہتا چلا گیا۔
مجھے منظور ہے۔  رضوان  نے میز کا دراز کھولا اور پانچ پانچ ہزار کے نوٹوں کی دو گڈیاں اس کے سامنے میز پر رکھ دیں۔ عباس کو ان نوٹوں میں اپنے بیٹے کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آنے لگا۔
یہ دس لاکھ روپے ہیں۔ تم کاؤنٹر پر جا کر جمع کروا دو اور رسید لے لو۔ ایک دو دن میں تمہیں آپریشن کی تاریخ مل جائے گی۔ اور جیسے ہی تمہارے بیٹے کا آپریشن ہوا اور وہ ٹھیک ہو گیا۔ ہم پھر سے ملیں گے اور قتل کا منصوبہ بنائیں گے۔
قتل نہیں، خودکشی، ہم ثمرہ کے قتل کو خود کشی کا رنگ دیں گے۔ اور وہ سب کیسے کریں گے، یہ بعد میں سوچیں گے۔
جو تمہیں صحیح لگے۔ جو بھی پلان بناؤ گے۔ وہ فول پروف ہونا چایئے۔ میں جانتا ہوں کہ تم جاسوسی کہانیاں شوق سے پڑھتے ہو ، تو اپنے دماغ پر زور دو اور سوچو قتل کرنے کا کوئی نیا آئیڈیا۔
عباس نے مسکرا کر رضوان کو دیکھا، نوٹوں کی گڈی اپنی براؤن جیکٹ کی اندرونی جیبوں میں ڈالی اور کرسی سے اٹھ کر رضوان سے ہاتھ ملایا۔ آج پہلی بار رضوان کو عباس کے چہرے پر اعتماد نظر آ رہا تھا۔ شاید پیسہ ملنے کی خوشی یا پھر ایک بے وفا کو قتل کرنے کا موقع اپنا رنگ دیکھا رہا تھا۔
٭
رضوان سے پیسے لے کر عباس نے ریسیپشن پر جمع کروا دیئے۔ ریسیپشنسٹ نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر صاحب اور ڈونر کی دستیابی دیکھ کر دو دن تک آپریشن کی تاریخ کی اطلاع کر دیں گے۔ اسے یہ پیسہ کس نے دیا اور کس شرط پر دیا ،وہ کسی کو نہیں بتا سکتا تھا۔ گھر جا کر عباس نے اپنی ماں کو بتایا کہ ایک پرانا دوست اچانک مل گیا اور اس نے مدد کی ہے۔ اس کی والدہ نے جب یہ بات سنی تو اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گئیں۔ آج رات کافی عرصے بعد اسے پر سکون نیند آئی تھی۔
اگلے دن عباس بینک کے مین گیٹ کے باہر کھڑا اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھا۔ اسے پارکنگ لاٹ میں ثمرہ نظر آئی۔ وہ اسی کی طرف آ رہی تھی۔
کیسے ہو عباس؟ اور بیٹا کیسا ہے؟  ثمرہ  نے قریب آ کر پوچھا۔
بیٹا بیمار اور میں پریشان۔  اس نے ثمرہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
پریشان نہ ہو ، اللہ بہتر کرے گا۔ میں کچھ پیسے نکلوا کر تمہاری مدد کرتی ہوں۔ ثمرہ یہ کہہ کر بینک کے اندر چلی گئی۔ عباس اسے کیسے بتا سکتا تھا کہ کل رات تمہارے شوہر  نے تمہیں مارنے کے بدلے مجھے دس لاکھ روپے دیے ہیں۔ ثمرہ کے معصوم چہرے کو دیکھ کر اسے کل رات دیکھی گئی تصاویر یاد آ گئیں ، کیسے وہ کسی غیر کے پہلو میں موجود بے وفائی کی تاریخ رقم کر رہی تھی۔
٭
احمر کا آپریشین کامیاب رہا۔ عباس اور اس کی والدہ نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے احمر کو ایک نئی زندگی عطا کی تھی۔ عباس نے بینک سے دوہفتے کی چھٹی لے رکھی تھی، اب وہ سارا دن ہسپتال میں ہی گزارتا تھا۔ اکثر ہسپتال میں ہی سو جاتا، لیکن جس دن مریم کی نائٹ شفٹ ہوتی ، وہ اسے زبردستی گھر بھیج دیتی اور احمر کا خاص خیال رکھتی تھی۔ ہسپتال کا عملہ بھی جانتا تھا کہ مریم ، احمر کی رشتے دار ہیں۔
احمر کے آپریشن کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ آج بھی عباس اور مریم ہسپتال میں موجود تھے۔ عباس دل ہی دل میں اب مریم کو پسند کرنے لگا تھا۔ اور وہ سوچ رہا تھا کہ احمر کے مکمل صحت یاب ہونے کے بعد مریم کو اپنی پسندیدگی سے آگاہ کر دے گا۔ دونوں نے بے وفائی کا دکھ سہا تھا۔ فیضان  نے تین سال پہلے مریم کو طلاق دے کر ایک امیر لڑکی سے شادی کر لی تھی۔ مریم کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی اسی لیے وہ احمر کو اپنے بیٹوں جیسا سمجھتی تھی ۔
اس وقت عباس اسے گھر چھوڑنے جا رہا تھا۔ راستے میں عباس اور مریم خوش گوار گفتگو کرتے جا رہے تھے۔ بیٹے کی تندرستی سے عباس کے چہرے پر مسکراہٹ پھر سے لوٹ آئی تھی۔ اب وہ بات بات پر چہکتا تھا۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی دو ہفتے پہلے والا عباس ہے۔ٖ جس کا اداس اور غم زدہ چہرہ برسوں کا بیمار لگتاتھا۔
راستے میں عباس نے مریم سے اپنے دل کی بات کہہ دی۔ اس کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت وہ پہلے بھی کئی بار دیکھ چکی تھی۔ مریم  نے شرماتے ہوئے نظریں جھکا لیں۔ لیکن اس کی خاموشی کا مطلب عباس سمجھ چکا تھا۔ پھر دونوں کے درمیان کوئی خاص گفتگو نہیں ہوئی۔ جیسے ہی عباس نے مریم کو اس کے گھر چھوڑا۔ اس کا موبائل بجنے لگا۔ اسکرین پر ڈاکٹر رضوان کا نام دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ اپنے بیٹے کی زندگی کی قیمت ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اس نے کال ریسیو کی۔
ہیلو۔۔۔۔ کیا تم ابھی میرے گھر آ سکتے ہو؟  دوسری طرف فون پر رضوان تھا۔
ٹھیک ہے میں کچھ دیر تک آ رہا ہوں۔ عباس نے فون بند کر دیا۔ بیس منٹ بعد عباس ، رضوان کے گھر میں موجود تھا۔
ثمرہ آج اپنی امی کی طرف گئی ہوئی ہے، دو دن بعد واپس آئے گی۔ اس لیے میں نے سوچا کہ یہ اچھا وقت ہے، ہم دونوں مل کر کوئی منصوبہ بنا لیتے ہیں۔
مجھے ایک نظر آپ کا سارا گھر باریک بینی سے دیکھنا ہو گا اور ثمرہ کی ڈیلی روٹین بھی جاننا ہو گی۔ پھر ہی کوئی منصوبہ بنایا جا سکتا ہے۔ آپ مین گیٹ سے لے کر گھر کی چھت تک ایک ایک حصّہ دکھا دیں۔
عباس نے کہا اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیے۔ کچھ دیر میں وہ سارا گھر دیکھ چکے تھے۔ اس رات ان دونوں نے کافی وقت ساتھ گزارا۔ گھر کا نقشہ، ثمرہ کی عادات اور روٹین، اس کے زیرِ استعمال چیزیں ایک ایک بات نوٹ کی گئی۔ پھر ایک ایسا منصوبہ تیار کیا گیا کہ پولیس کو ثمرہ کی لاش ملنے کے بعد وہ ایک خود کشی لگے۔
٭
ہفتہ کے روز اپنی خالہ کی طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا کر رضوان شام کو ہی ایبٹ آباد چلا گیا۔ اگلے دن اتوار کی چھٹی تھی، اسی لیے اس نے ثمرہ کو بتا دیا کہ وہ رات وہاں گزار کر کل واپس آئے گا۔ ثمرہ کو رضوان کے گھر میں موجود نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ وہ گھر میں اکیلی تھی۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ کسی فرینڈ سے ملنے چلی جائے۔ لیکن پھر خیال آیا کہ کبھی کبھی خود کے ساتھ بھی وقت گزارنا چاہیے۔ اسی لیے آج وہ گھر میں اکیلی تھی۔
ساڑھے دس بجے کے قریب عباس کالا لباس زیب تن کیے او راپنے مضبوط ہاتھ دستانوں میں مقید کیے ڈوپلیکیٹ چابی کی مدد سے آسانی سے گھر میں داخل ہو گیا۔
میں اپنی گاڑی فاصلے پر کھڑی کر کے ساڑھے دس بجے گھر میں داخل ہوں گا۔  عباس نے رضوان کو اس رات بتایا تھا۔
رات دس سے گیارہ کے درمیان ثمرہ ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھتی ہے۔ اسی وقت تم ڈوپلیکیٹ چابی کی مدد سے گھر میں داخل ہو سکو گے۔ چابی میںتمہیں کل دے دوں گا۔  رضوان نے بتایا تھا۔
اگر اس دن ثمرہ گھر میں موجود ہی نہ ہوئی تو؟ یا پھر وہ اپنے محبوب سے ملنے چلی گئی؟  عباس نے اپنا خدشہ ظاہرکیا۔
میں نے پتا لگوایا ہے ، ثمرہ کا محبوب ،علی کچھ دن کے لئے ملک سے باہر گیا ہوا ہے، وہ یقینا گھر میں موجود ہو گی۔ اور اگر کہیں باہر بھی چلی گئی تو پلان اگلے دن تک کے لئے ملتوی کر دیں گے۔ میں ایبٹ آباد میں ایک اور دن گزار لوں گا۔ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ رضوان  نے بتایا۔
پلان کے مطابق وہ آج تمام تر تیاری کے ساتھ میدانِ عمل میں کودا تھا۔ بیڈ روم سے ٹی وی کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ جس کا مطلب تھا کہ ثمرہ گھر میں موجود تھی۔ لاؤنج میں ایک لیمپ کی نحیف روشنی کمرے میں بھلی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ دبے قدم چلتا کچن میں داخل ہوا اور فریج کھولا۔ فریج کے دروازے میں پلاسٹک بوتل میں دودھ موجود تھا۔
گیارہ بجے پروگرام ختم ہو نے کے بعد ثمرہ کچن میں آ کر دودھ کا گلاس لے کر کمرے میں واپس جا کر شاعری کی کتاب یا کوئی ناول پڑھتی ہے۔
میں گھر میں داخل ہو کر دودھ کی بوتل میں زہر ملا دوں گا۔ تم مجھے زہر فراہم کرو گے۔
عباس نے اپنا پلان بتایا۔ اور اب اس نے اپنے بیگ سے ڈاکٹر رضوان کا دیا ہوا زہر نکالا اور شیشی انڈیل دی۔ پھر بوتل کا ڈھکنا بند کرنے کے بعد بوتل کو اچھی طرح ہلایا اور واپس اسی جگہ پر رکھ دیا۔ کچن سے ملحقہ ایک اسٹور روم تھا جہاں آٹا، چینی ، چاول اور سبزیاں وغیرہ رکھی جاتی تھیں۔
بوتل میں زہر ملا کر میں اس اسٹور روم میں چھپ جاؤں گا۔
اب اسے کچھ دیر وہاں بیٹھ کر انتظار کرنا تھا۔ اس نے اپنا موبائل آف کر دیا تھا، اپنی گاڑی بھی کافی فاصلے پر کھڑی کی تھی۔ پورے گیارہ بجے اسے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ پھر اس نے فریج کھلنے کی آواز سنی، ثمرہ نے دودھ کی بوتل باہر نکالی ، ریک سے ایک گلاس اٹھایا اور گلاس میں دودھ انڈیل کر واپس اپنے بیڈ روم میں چلی گئی۔
اس کے جانے کے تقریباً دس منٹ بعد عباس اسٹور سے باہر نکلا، دبے پاؤں دھیرے دھیرے وہ بیڈ روم کی طرف بڑھنے لگا۔ دروازے کے قریب پہنچ کر اس  نے کی ہول سے اندر کا منظر جھانکا۔ ثمرہ بیڈ پر نیم دراز کوئی کتاب پڑھنے میں محو تھی۔ دودھ کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر ابھی تک ویسے ہی پڑ تھا۔
ثمرہ کتاب پڑھتے پڑھتے دودھ پیتی ہے۔ اس بار زہر ملا دودھ پی کر وہ مر جائے گی۔  رضوان نے بتایا تھا۔
پھر انتظار کی گھڑی ختم ہوئی اور ثمرہ کا ہاتھ دودھ کے گلاس کی طرف بڑھا۔ اس کی نظر برابر کتاب پر تھی اسی وجہ سے گلاس ٹھیک سے پکڑ نہ سکی اور گلاس قالین پر گر گیا۔ یہ منظر دیکھ کر عباس کا دل زور سے دھڑکا۔ اب کیا ہو گا؟  وہ خود سے سوال کرنے لگا۔
اوہ نو۔۔۔۔۔ یہ کیسے گر گیا۔ اب اسے کون صاف کرے گا؟  ثمرہ نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ قالین کی وجہ سے گلاس ٹوٹنے سے بچ گیا۔ ثمرہ نے گلاس اٹھایا اور دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔ جیسے ہی عباس نے یہ منظر دیکھا ، اس کے اوسان خطا ہو گئے۔
اس نے اپنے ارد گرد دیکھا اور ایک صوفے کی اوڑھ  لے کر چھپ گیا۔ ثمرہ کمرے سے باہر نکلی، کچن کی طرف گئی اور پھر چند لمحوں بعد وہ پھر سے دودھ کا گلاس ہاتھ میں لیے نظر آئی۔ یوں تو اگر وہ عباس کو ایسے دیکھ لیتی تو بھی عباس اسے مار سکتا تھا۔ لیکن پھر خود کشی والا ڈرامہ کار آمد ثابت نہ ہو پاتا اور پولیس کو ثمرہ کی موت ایک قتل لگتی۔ ثمرہ پھر سے کمرے میں داخل ہو گئی۔ عباس کچھ دیر صوفے کے پیچھے چھپا رہا۔
تقریباً دس منٹ بعد وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور پھر سے کی ہول سے جھانکنے لگا۔ اب کی بار اندر کا منظر اس کا من چاہا تھا۔ دودھ کا آدھا گلاس خالی ہو چکا تھا اور ثمرہ قالین پر گری زور زور سے سانسیں لے رہی تھی۔ اس کی سانسوں کی آواز بھیانک محسوس ہو رہی تھی۔ ثمرہ کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی اور پھر کچھ دیر بعد اس کا جسم ساکت ہو گیا۔
عباس نے ایک لمبا سانس کھینچا اور دروازے کے ہینڈل کو گھمایا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ اس نے رضوان سے لی ہوئی ڈوپلیکیٹ چابی اپنی بیگ سے نکالی اور لاک کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے ثمرہ کی نبض ٹٹولی۔ وہ تھم چکی تھی۔ اس  نے اپنا بیگ بیڈ پر رکھا اور اس میں سے مختلف چیزیں نکالنے لگا۔ اور ہر چیز پر ثمرہ کے ہاتھ میں باری باری پکڑا کر فنگر پرنٹس لیتا جا رہا تھا۔
کچھ دن پہلے رضوان  نے ثمرہ اورعلی کی جو تصاویر دکھائی تھیں اس نے وہ سب رضوان سے  لے لی تھیں۔تصاویر پر ثمرہ کے فنگر پرنٹس لینے کے بعد تمام تصاویر بیڈ پر پھیلا دیں۔ اورایک خود کا لکھا ہوا ایک خط ٹیبل پر رکھ دیا۔
رضوان کو علی کے ساتھ میرے تعلق کا پتا چل گیا ہے۔ اس نے میری نگرانی کے لیے کسی کو معمور کیا تھا۔ آج ایبٹ آباد جانے سے پہلے رضوان نے مجھے یہ تصاویر دکھائیں۔ شرمندگی کے مارے اب میں اپنے شوہر کا سامنا کر سکتی ہو ں اور نہ ہی اپنے گھر والوں کا۔ اس لیے میں دودھ میں زہر ملا کر اپنی زندگی ختم کر رہی ہوں۔
ثمرہ کو اپنی ڈائری میں اچھی اچھی شاعری لکھنے کا شوق ہے۔
رضوان نے بتایا تھا۔ رضوان نے دو دن پہلے ثمرہ کی ڈائری کے ہر صفحے کی فوٹو کھینچ کر عباس کو بھجوا دی تھیں، اور پھر بازار سے ویسی ہی ڈائری خرید کر عباس نے اپنی لکھائی میں نئی ڈائری تیار کی۔ اب اعترافِ خود کشی کے نوٹ پر لکھی تحریر اور ثمرہ کی ڈائری کی تحریر ایک جیسی تھی۔ اس کے علاوہ عباس نے چند مزید صفحات دراز میں رکھ دیے۔ ان پر بھی چند غزلیں لکھی ہوئی تھیں۔
عباس نے یہ سب لکھنے کے لیے تین مختلف قلم استعمال کیے تا کہ پولیس کو تحریر دیکھ کر یہ اندازہ ہو کہ یہ سب مختلف اوقات میں مختلف قلموں سے لکھی گئیں ہیں۔ان میں سے دو قلم اس  نے دراز میں ہی چھوڑ دیئے۔ ٹیبل پر پڑا دودھ کا گلاس اس نے قالین پر پھینک دیا ۔ تاکہ پولیس سمجھے کہ زہر آلود دودھ پیتے ساتھ ہی زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا اور گلاس ثمرہ کے ہاتھ سے چھو ٹ کر قالین پر گر گیا۔
اپنے بیگ میں سے دودھ کی اسی برانڈ کی آدھی استعمال شدہ بوتل باہر نکالی اور ثمرہ کے دونوں ہاتھوں میں پکڑا دی تا کہ فنگر پرنٹس بوتل پر آ جائیں ۔ زہر کی شیشی بھی اس کے ثمرہ کے ہاتھ میں پکڑا کر میز پر رکھ دی۔ اب اگر پولیس دودھ کی بوتل اور زہر کی شیشی سے فنگر پرنٹس اٹھانے کی کوشش کرتی تو انھیں ثمرہ کی انگلیوں کے نشانات مل جاتے۔ پولیس یہی گمان کرتی کہ ثمرہ نے خود کشی کرنے کا فیصلہ کیا۔ خود کشی کا نوٹ لکھا۔ کہیں سے زہر حاصل کیا، دودھ کے گلاس میں ملایا اور پی لیا۔
اس کے بعد عباس نے کھڑکی سے پردہ تھوڑا سا سرکا دیا ۔تاکہ اگر باہر سے کوئی اندر جھانکنے کی کوشش کرے تو اسے ثمرہ کی لاش صاف صاف نظر آ سکے۔ ثمرہ کا موبائل بھی اس نے کھڑکی کے پاس رکھ دیا ۔کمرے کے لاک کا بٹن اندر سے دبا کر وہ باہر نکل گیا۔
اس کے بعد عباس کچن میں واپس آیا۔ زہر ملے دودھ کی بوتل اس نے اپنے بیگ میں ڈالی اور اپنے ساتھ لائی ہوئی بوتل جس پر وہ ثمرہ کے فنگر پرنٹس لے چکا تھا فریج میں رکھ دی۔
منصوبہ کامیاب ہو چکا تھا۔ اب کل صبح جب ملازمہ گھر آئے گی تو بیل بجانے پر ثمرہ کو نہ پا کر پریشان ہو گی اور ثمرہ کو کال ملائے گی۔ موبائل کھڑکی کے پاس موجود ہو گا تو بیل کی آواز سن کر وہ کھڑکی کے پاس آ کر اندر جھانکنے کی کوشش کرے گی۔ پھر اسے ثمرہ کی لاش نظر آئے گی۔ وہ گھبرا کر رضوان اور پولیس کو اطلاع کرے گی۔
اتوار کی صبح ایک مالی بھی گھر کے لان کی دیکھ بھال کے لئے آتا ہے وہ بھی اسی وقت آ جائے گا۔ سب یہی سمجھیں گے کہ بے وفائی کا راز افشاں ہونے پر شرمندگی کی وجہ سے ثمرہ نے خود کشی کر لی۔
وہ اپنا منصوبہ مکمل کر چکا تھا اور یہ واردات اس کے پلان کے عین مطابق ہوئی تھی۔ رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے تھے۔ باہر نکل کر اس نے دائیں اور بائیں دیکھا۔ اسی کوئی بھی ذی روح دکھائی نہیں دی۔ لمبے لمبے قدم لیتا ہوا وہ اندھیرے میں غائب ہو گیا۔
٭
اگلے دن تقریباً ساڑھے آٹھ بجے پولیس گھر میں داخل ہوئی۔ گھر کی ملازمہ دروازہ نہ کھلنے اور ثمرہ کا فون پک نہ کرنے کی وجہ سے پریشان ہو گئی۔ موبائل کی گھنٹی کی آواز کمرے کی کھڑکی کے قریب سے سنائی دے رہی تھی۔ بے اختیار اس کے قدم کھڑکی کی طرف بڑھے۔ مالی بھی تب تک آ چکا تھا۔ دونوں  نے جب کھڑکی سے اندر جھانکا تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ ثمرہ کا بے جان جسم قالین پر ساکت تھا۔ دونوں گھبرا گئے اور ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔
یہ۔۔۔۔۔ یہ کیا ہو گیا ؟  ملازمہ نے گھبرا کر پوچھا۔
لل۔۔۔۔ لگتا ہے بی بی جی کی موت ہو گئی ہے۔ مالی نے جواب دیا اور جیب سے موبائل نکال کر پہلے رضوان اور پھر پولیس کو واقعہ کی اطلاع دی۔
پولیس جلد ہی پہنچ گئی ، لاک توڑا گیا اور ثمرہ کی لاش برآمد کر لی گئی۔ پولیس اپنی کارروائی مکمل کرنے کے بعد لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا کر گھر سے چلی گئی۔ ثمرہ کے کمرے کو سیل کر دیا گیا۔
ابتدائی تفتیش کے مطابق بظاہر یہ خود کشی کا معاملہ لگ رہا تھا۔ کمرے سے ثمرہ کی کسی غیر مرد کے ساتھ تصاویر، اعترافِ خود کشی کا نوٹ ، زہر ملا دودھ اور ثمرہ کا گھر اکیلے ہونا اور لاک اندر سے بند ہونا۔ تمام شواہد خود کشی کی طرف ہی اشارہ کر رہے تھے۔ اگلے دن رضوان کو تھانے بلایا گیا اور انسپکٹر خان  نے بتایا۔
ڈاکٹر رضوان صاحب! ہماری تفتیش کے مطابق یہ ایک سیدھا سادھا خود کشی کا کیس ہے۔ اعترافِ خود کشی کے نوٹ کی تحریر ثمرہ کی ڈائری اور باقی چند تحریروں سے ملائی گئی ہے، جو میچ ہوتی ہے۔ گھر میں کسی اور کی موجودگی کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس لیے آپ لاش  لے جا سکتے ہیں اور کیس کو بند کیا جا رہا ہے۔
رضوان لاش لے کر چلا گیا اور ثمرہ کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں۔ وہ عباس کے شاطر دماغ اور منصوبے کی داد دیتا رہا۔ جس صفائی سے عباس نے قتل کرنے کے بعد خود کشی کا رنگ دیا وہ واقعی قابلِ تعریف تھا۔ اب اسے اپنی بیوی سے چھٹکارا بھی مل گیا اور ثمرہ کے نام کے شیئرز اور پراپرٹی بھی اس کی ہو گئی، جو کسی زمانے میں اس کی محبت میں رضوان  نے ثمرہ کے نام کی تھی۔
٭
احمر مکمل صحت یاب ہو کر گھر شفٹ ہو چکا تھا۔ عباس نے اب پک اپ چلانا چھوڑ دی تھی۔ کیونکہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہتا تھا۔ ویسے بھی اب اسے پک اپ چلانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ مریم  نے اس کے ساتھ شادی کرنے کی حامی بھر لی تھی اور جلد ہی دونوں کا نکاح متوقع تھا۔
دوسری طرف رضوان بھی خوش تھا۔ وہ جلد ہی ایمن سے شادی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس دن بھی رضوان رات گیارہ بجے ہسپتال سے فارغ ہو کر اپنے گھر پہنچ گیا۔ ابھی وہ گھر میں داخل ہی ہوا تھا کہ ڈور بیل سنائی دی۔اس نے دروازہ کھولا ، سامنے عباس کھڑا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرا دیا۔
تم اس وقت یہاں؟  عباس کو اپنے دروازے پر دیکھ کر اسے حیرانی ہوئی۔
ہاں۔۔۔۔۔ کچھ بات کرنی تھی۔ عباس  نے جواب دیا اور اندر آ گیا۔
بتاؤ کیا بات ہے؟ اب کہیں تم مجھے بلیک میل کرنے کا تو نہیں سوچ رہے ؟  رضوان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
ارے نہیں ڈاکٹر صاحب! شریکِ جرم کو بلیک میل کرنے کا کیا فائدہ؟ میں کسی اور کام سے آیا ہوں۔ سوچا سارے قصے کو ایک بار پھر سے یاد کر کے آج دفنا دیا جائے۔
یاد کرنے کا کیا فائدہ؟ یہ ہم دونوں کے درمیان ایک راز ہے۔ اس راز کو ہم دونوں کے سینوں میں دفن رہنے دو۔
رضوان صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔ عباس اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر عباس خاموش بیٹھا رہا اور پھر بولنے لگا
تو کہانی شروع ہوتی ہے، جب میں اپنے بیٹے کے آپریشن کے لیے آپ سے مدد مانگنے آپ کے کمرے میں آیا اور آپ کی بیگم بھی وہاں موجود تھیں۔ میری بیوی کے بارے میں پوچھنے پر میں  نے بتایا کہ اس نے مجھے چھوڑ کر کسی اور سے شادی کر لی اور میرا دل کرتا ہے کہ ہر بے وفا کو جان سے مار دوں۔
میری یہ بات سن کر آپ نے ایک پلان بنایا۔ مجھے اگلے دن اپنے پاس بلایا اور بتایا کہ آپ کی بیوی ثمرہ آپ کے ساتھ بے وفائی کر رہی ہے اور ثبوت کے طور پر مجھے اس کی تصاویر بھی دکھا دیں۔ مجھے آفر دی کہ اگر میں آپ کی بیوی کا قتل کر دوں تو آپ میری بیٹے کے آپریشن کے لیے دس لاکھ روپے دیں گے ۔ اور پھر آپ نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے مجھے اسی وقت دس لاکھ روپے دے دیے اور میں  نے بھی اپنا وعدہ نبھایا اور آپ کی بیوی کا اس انداز میں قتل کیا کہ پولیس کو وہ خود کشی لگا اور کیس بند کر دیا گیا۔ ایسا ہی ہوا تھا نا؟ عباس نے پوچھا۔
ہاں۔۔۔ بالکل ٹھیک۔
میری چاہت تھی ، میرا بیٹا ٹھیک ہو جائے اور آپ چاہت تھی کہ آپ کی بیوی کو اس کی بے وفائی کی سزا مل جائے اور اس کا قتل اس انداز میں ہو کہ آپ پر کبھی بھی شک نہ آئے۔
اور ہم دونوں کی یہ چاہت پوری ہو گئی۔  رضوان مسکرا دیا۔
لیکن کہانی ابھی باقی ہے میرے دوست۔ ہمارے درمیان ایک تیسرا فریق بھی تھا۔ اس  نے مجھ سے بھی اپنی ایک چاہت کا ذکر کیا تھا۔  اتنا کہہ کر عباس خاموش ہو گیا۔
کون سا فریق اور کیسی چاہت؟  رضوان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔ اسے ایک انجانے خطرے کا احساس ہونے لگا۔
تیسرا فریق تھا تمہاری بیوی ثمرہ اور اس کی چاہت تھی کہ میں تمہیں قتل کر دوں ۔ اپنی چاہت پوری کروانے کے لئے اس نے مجھے پندرہ لاکھ روپے دیے تھے۔
اتنا کہہ کر عباس نے جیکٹ کی جیب سے پستول نکالا اور فوراً رضوان کے سینے پر فائر کر دیا۔ پستول پر سائلنسر چڑھا رکھا تھا۔ اس لئے معمولی سی آواز پیدا ہوئی۔ رضوان سمجھ ہی نہ پایا کہ اس کے ساتھ کیا ہو ا ہے۔ وہ حیرانی سے اپنے سینے سے فوارے کی شکل میں نکلتا خون دیکھنے لگا۔
جس رات تم نے مجھے دس لاکھ روپے دیے تھے، اس سے اگلے دن تمہاری بیوی مجھ سے ملنے بینک آئی تھی۔ پہلے تو اسے دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا لیکن پھر اس نے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور اپنی چاہت کا اظہار کیا۔
اس کے بعدعباس ، رضوان کو ثمرہ کے ساتھ ہوئی ملاقات کے بارے میں بتانے لگا
عباس! میں جانتی ہوں کہ تم اپنے بیٹے کی بیماری کو  لے کر بہت پریشان ہو۔ اگر تم میرا ساتھ دو تو میں تمہیں پندرہ لاکھ روپے دوں گی۔ دس لاکھ سے تم اپنے بیٹے کا آپریشن کروا لینا اور باقی پانچ لاکھ سے کوئی کاروبار شروع کر لینا۔ آخر کب تک بینک کے باہر کھڑے گارڈ کی نوکری کرو گے؟
لیکن مجھے کرنا کیا ہو گا؟
یہ دیکھو کچھ فوٹوز، رضوان کسی ایمن نامی لڑکی کے ساتھ آج کل افیئر چلا رہا ہے۔ مجھے تو کبھی ٹھیک سے وقت دیا نہیں، لیکن باہر دوسری عورتوں کے پہلوؤں میں بیٹھا رہتا ہے۔ پرسوں تم نے کہا تھا نا کہ تمہاری بیوی نے تمہارے ساتھ بے وفائی کی اور تمہارا دل کرتا ہے کہ تم ہر بے وفا کو جان سے مار دو۔ تم میرا یہ کام کرو گے نا؟ یہ دیکھو میں ابھی ابھی صرف تمہارے لیے بینک سے پندرہ لاکھ روپے نکلوا کر لائی ہوں۔
ثمرہ  نے پانچ پانچ ہزار کی تین گڈیاں اس کے سامنے رکھ دیں۔ عباس سوچنے لگا کہ دونوں میاں بیوی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور اگر اسے دونوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کا موقع مل رہا ہے تو وہ کیوں یہ موقع گنوا دے۔ اس  نے مسکرا کر ثمرہ کی طرف دیکھا اور تینوں گڈیاں اپنی جیکٹ کی جیب میں رکھ لیں۔
ڈاکٹر بابو! تم  نے مجھے اپنی بیوی کو مارنے کے لئے دس لاکھ روپے دیے اور اگلے ہی دن تمہاری بیوی نے تمہیں مارنے کے لئے مجھے پندرہ لاکھ روپے دیے۔ میں تو ہوں ہی وفا نبھانے والا۔ دونوں کی چاہت پوری کر دی۔
اتنا کہہ کر عباس نے ایک اور فائر کر دیا۔ رضوان لڑکھڑاتا ہوا نیچے گر گیا ۔ اس کی بے بس آنکھیں چند ہی لمحوں میں بے جان ہو گئیں۔ عباس نے لمبا سانس بھرا، صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیااور آنکھیں بند کر کے پچھلے سال کا ایک واقعہ یاد کرنے لگا
اتوار کا دن تھا اسے مری کچھ سامان پہنچانے کا آرڈر ملا تھا۔ مری میں آج موسم سرما کی پہلی برف باری ہوئی تھی۔ وہ مری ایکسپریس روڈ پر اپنی دھن میں مگن پک اپ چلا رہا تھا۔ کہ اچانک اس کی نظر ایک سرخ سینٹرو پر پڑی۔ گاڑی میں اس کی سابقہ بیوی شمائلہ اپنے نئے شوہر کے ساتھ کھلکھلا کر ہنس رہی تھی۔ اسے دیکھ کر عباس کی آنکھیں غصے سے لال ہونے لگیں۔
میری زندگی برباد کر دی، اپنے بیمار بیٹے کا پلٹ کر نہیں پوچھا۔اور تم یہاں عیاشی کر رہی ہو۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ ایک نہ ایک دن تمہاری جان لے لوں گا۔ وہ دل میں سوچنے لگا۔
ایک نہ ایک دن کیوں؟ آج ہی کیوں نہیں؟  ان دونوں کو دیکھ کر غصے سے اس کا سر پھٹا جا رہا تھا۔ اس کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ وہ ان کی گاڑی سے تھوڑا پیچھے ہوا اور جیسے ہی سرخ گاڑی ایک موڑ کاٹنے لگی، عباس  نے اپنی پک اپ سے اگلی گاڑی کو زور دار ٹکر دے ماری۔ اگلی گاڑی لڑکھڑا گئی اور نیچے کھائی میں جا گری۔ اس  نے پیچھے مڑ کر دوبارہ نہیں دیکھا اور تیزی سے اپنی پک اپ آگے بڑھا دی۔
شمائلہ، ثمرہ اور آج رضوان تین بے وفاؤں کو مارنے کے بعد اسے اب چوتھے بے وفا کی تلاش تھی۔ اسے نرس مریم کے الفاظ یاد آنے لگے۔
میرے شوہر فیضان  نے مجھے چھوڑ کر ایک امیر عورت سے شادی کر لی۔ آج وہ کروڑوں میں کھیل رہا ہے اور میں ایک معمولی سی نرس کی نوکری کر رہی ہوں۔
مریم تم سے شادی کرنے سے پہلے میں تمہارے بے وفا شوہر کو اس کے انجام تک ضرور پہنچاؤں گا۔
صوفے سے اٹھ کر اس نے ایک نظر رضوان کے بے جان جسم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور گھر سے باہر نکل کر تاریکی میں گم ہو گیا۔
٭٭٭
ختم شد

Previous article
Next article
احمد نعمان شیخ
احمد نعمان شیخ
قلمی نام: احمد نعمان شیخ والد کا نام: مقبول احمد قمر تاریخ پیدائش: ۲ جون ۱۹۸۲ (فیصل آباد) تعلیم: ڈگری ان ہوٹل مینجمنٹ ، شعبہ: کسٹمر سروس (ہوٹل استقبالیہ) حالیہ مصروفیت : دمام ، سعودی عرب میں ملازمت شائع شدہ کتب: نیلی یو ایس بی، فیک آئی ڈی، قتل کہانی مضامین ، کہانیوں، کتب کی تعداد: پندرہ کے قریب جاسوسی شارٹ اسٹوریز مختلف ڈائجسٹ میں شائع ہو چکی ہیں۔ مشہور کرداروں کے نام جو وجہ شہرت بنے : رانیہ ، عمیر اور انسپکٹر شہروز (نیلی یو ایس بی)۔ پسندیدہ مشاغل: جاسوسی ناولز اور جاسوسی فلمیں دیکھنا۔

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles