صورتِ حال
الطاف حسن قریشی
عجب وسوسے، عجیب تر مخمصے
25/01/13
ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں جناب ڈاکٹر قادری کے لانگ مارچ کے بارے میں ابھی تک
طرح طرح کی نکتہ آفرینیاں کی جا رہی ہیں
حالانکہ وہ پچاس یا ساٹھ ہزار بچوں ٗ عورتوں ٗ بوڑھوں اور جوانوں کو اسلام آباد کی
شدید سردی کی آزمائش سے گزار کر اور آرام دہ کنٹینر میں یزیدی طاقتوں سے معاہدہ کر کے
منہاج القرآن کے قلعے میں کئی روز پہلے واپس آ چکے ہیں۔
اِس حیرت انگیز واقعے کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے کہ اچانک لانگ مارچ کیوں ہوا ٗ
اِس میں اتنے زیادہ لوگ کیسے آ گئے اور یہ کہ اِس قدر بہتات اور فراوانی سے پیسہ کہاں سے آیا ہے۔
جتنے منہ اتنی باتیں۔ وہ خوفناک رات جس میں ہمارے ’’ہوش مند‘‘ وزیرِ داخلہ نے
ٹیلی ویژن پر آ کر ٹارگٹڈ آپریشن کا عندیہ دیا تھا
تو میرے ایک دوست کا ساڑھے بارہ بجے فون آیا کہ اپنی اپنی بیرکوں میں جانے کا اشارہ دیا جا چکا ہے
اور آپ دیکھیں گے کہ کل تک کالے سیاسی بادل چھٹ جائیں گے۔
میں نے پوچھا اشارہ کس طرف سے آیا ہے۔جواب ملا کہ جہاں سے وکلاء کے لانگ مارچ میں آیا تھا۔
اگلے دن علی الصباح ایک اور صاحب کا ایس ایم ایس آیا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ سارا ڈرامہ نواز شریف کے ووٹ بینک پر چھاپہ مارنے کے لیے رچایا گیا ہے
اور اِس کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ ہے جس کے اپنے مقاصد اور اہداف ہیں۔
اِس کے بعد ٹیلی فون کالز کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا جنہوں نے مجھے اپنی فوج کے علانیہ اور خفیہ کردار کے بارے میں نہایت سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور کر دیا۔
دن کے گیارہ بجے جناب علامہ قادری کا آتش بداماں خطاب شروع ہوا جس میں گھن گرج کے باوجود پسپائی کے آثار نمایاں تھے۔
اِس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ جناب نواز شریف کی قیادت میں اپوزیشن کی
دس جماعتوں کا اجلاس ہوا جس میں محمود خاں اچکزئی ٗ مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن کے علاوہ مختلف جماعتوں کے قائدین شامل تھے۔ اُنہوں نے اعلان کیا کہ ہم ہر ماروائے آئین اقدام کی مزاحمت کریں گے
اور طاہر القادری کے چاروں مطالبات غیر آئینی اور غیر جمہوری ہیں۔
اِس بیان کے بعد جناب عمران خاں کی طرف سے بھی یہ اعلان کیا گیا کہ وہ تبدیلی انتخابات کے ذریعے چاہتے ہیں جن میں کسی قسم کی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔
مخالف اعلانات کے علاوہ دھرنے کے اندر سے دباؤ بڑھنے لگا کہ شدید سردی کی وجہ سے بچے اور عورتیں بیمار پڑنے لگے ہیں اور کوئی بڑا سانحہ پیش آ سکتا ہے
چنانچہ حسینی قافلے کے سپہ سالار نے حکومت کو مذاکرات کے لیے ڈیڑھ گھنٹے کا الٹی میٹم دے دیا۔
مخلوط حکومت اُنہیں محفوظ راستہ دینے کے لیے ’’مردانہ وار‘‘ پہنچ گئی۔
پانچ گھنٹوں کی طویل گفت و شنید کے بعد اعلامیے پر دونوں طرف سے دستخط ہوئے
جس میں یہ شرط شامل نہیں کی گئی تھی کہ نگران حکومت کی تشکیل میں فوج اور
عدلیہ کا بھی کردار ہو گا یا وہ معاہدے کے ضامن ہوں گے۔
ہمارے دوست کی پیشگی اطلاع کے مطابق رات گزرنے سے پہلے دھرنا ختم ہو گیا
جس نے پھیلائے جانے والے اِس تاثر کو کسی قدر تقویت پہنچائی کہ کوئی پردۂ زنگاری میں ہے۔
میں تنہائی میں گزرئے ہوئے واقعات پر جوں جوں غور کرتا رہا ٗ
میرے ذہن پر حیرت انگیز تصورات منکشف ہوتے گئے۔ مجھے احساس ہوا کہ لانگ مارچ کا واقعہ
ایک ایسے خلا میں رونما ہوا ہے جو بدترین حکمرانی سے پیدا ہوا جسے تبدیلی کی ہمہ گیر
خواہش نے مزید گہرا کر دیا تھا۔
ڈاکٹر قادری نے 23دسمبر کی سہ پہر جس بڑے جلسۂ عام سے خطاب کیا تھا
اِس میں عوام کو عظیم تبدیلی اور قسمت کے سنور جانے کا مژدہ سنایا اور سحرِ خطابت سے دلوں میں اُمید کے چراغ روشن کر دیے گئے تھے کہ لانگ مارچ کے ذریعے ظالم حکمرانوں سے فوری اقتدار چھین لیا جائے گا
اور کرپٹ حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت جو بیرونی ملکوں میں جمع ہے
اُسے واپس لے آنے سے مہنگائی اور بے روزگاری کا دور ختم اور خوشحالی کا دور دورہ شروع ہو جائے گا ٗ چنانچہ لوگ جوق درجوق لانگ مارچ میں آتے اور اُمیدوں کے سہارے موسم اور سفر کی سختیاں جھیلتے رہے۔
جناب قادری نے بطورِ خاص حسینی قافلے میں بچے اور عورتیں شامل کی تھیں کہ
اُن کے خلاف طاقت استعمال نہیں کی جا سکے گی
اور باہر کی دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ اُنہیں کثیر خواتین کی بھی حمایت حاصل ہے
جو دہشت گردوں کے خلاف اُٹھنے والی پُرامن تحریک میں اپنے شیر خوار بچے بھی لے آئی ہیں۔
جب میں نے اپنی پانچ سالہ تاریخ کے اوراق پلٹنا اور اپنی فوج کے کردار کا جائزہ لینا شروع کیا
تو مجھے ادراک ہوا کہ جنرل کیانی کے فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد اُس کی سمت میں تبدیل آ گئی ہے۔
مجھے یاد آیا کہ 2008ء کے انتخابات میں اُنہوں نے اپنے کمانڈروں کو واضح اور دوٹوک ہدایات دی تھیں
کہ انتخابات میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔بعد میں اِس امر کی تصدیق ہوئی
کہ بلوچستان کے سوا باقی تمام صوبوں میں فوج کی طرف سے کوئی مداخلت نہیں ہوئی۔
اسی سال جنرل پرویز مشرف ملک سے باہر بھیج دیے گئے جن کے خلاف جمہوری طاقتوں نے سنگین الزامات لگائے تھے۔
میری چشمِ تصور کے سامنے وہ مناظر آتے گئے جب ہماری ایثار پیشہ اور تربیت یافتہ فوج
عطا آباد جھیل کے انتہائی خطرناک علاقے میں سیلاب کی روک تھام اور اہلِ وطن کو
اِس کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے دن رات مشین کی طرح کام کر رہی تھی۔
اسی فوج نے 2011ء میں سندھ کے اندر لاکھوں ہم وطنوں کو موت کے منہ میں جانے اور اُنہیں بروقت ریلیف پہنچانے کا عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا تھا۔
گزشتہ سال بلوچستان کے علاقے نصیر آباد میں سیلاب نے بڑی تباہی مچائی تھی ٗ وہاں بھی ہمارے فوجی جوان مدد کو پہنچے
اور اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر مہینوں اپنے ستم زدہ بھائیوں کی دستگیری اور بحالی میں مصروف رہے۔
پانچ سال کے عرصے میں صرف ایک بار جنرل کیانی نے مداخلت کی
جب وکلاء تحریک نے عدلیہ کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کی شکل اختیار کر لی تھی۔
اِس بروقت مداخلت سے ملک ایک انتہائی خوفناک سیاسی حادثے سے بچ گیا اور عدلیہ بحال ہو گئی تھی۔
مجھے یاد آ رہا تھا کہ سیاسی حکومت نے کئی بار ایسے حالات پیدا کیے
جن میں فوجی مداخلت کا اندیشہ پیدا ہو چلا تھا۔
بعض سیاست دان ٹی وی پر آ کر کہنے لگے تھے کہ ملک معاشی اور انتظامی طور پر ڈوبنے والا ہے
جبکہ فوجی قیادت ستو اور دھنیا پیے ہوئے ہے۔
اِن طعنوں کے باوجود عسکری کمانڈروں نے خود پر قابو رکھا اور سیاست دانوں کو ملکی احوال سنوارنے کے سارے مواقع فراہم کیے۔
ایک وقت وہ بھی آیا جب وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں اعلان کر دیا
کہ ہم ریاست کے اندر ریاست قائم نہیں ہونے دیں گے۔
یہ افواہیں بھی پھیلائی گئیں کہ جنرل کیانی وقت سے پہلے ریٹائر کیے جا رہے ہیں ٗ
لیکن فوج نے اپنے کام سے کام رکھا ٗ سوات میں امن قائم کرنے کے بعد اب وہ سیاچن اور وزیرستان میں اپنا پیشہ ورانہ کردار ادا کر رہی ہے۔
آج تو اُسے لائن آف کنٹرول پر بھارتی جارحیت کا سامنا ہے۔
جناب ڈاکٹر قادری جب اپنی شعلہ بار تقریروں میں باربار اعلان کر رہے تھے کہ
جعلی انتخابات سے کچھ حاصل نہیں ہو گا
تو جنرل کیانی نے دوٹوک بیان دیا تھا کہ ہم وقت پر انتخابات کے حق میں ہیں اور
جمہوریت کا تسلسل چاہتے ہیں۔ اِس شفاف نامۂ اعمال کے باوجودخدا جانے ہمارے بعض دانش ور ٗ ٹی وی اینکر
اور سیاسی مبصرین فوج کے بارے میں عجب وسوسے اور عجیب تر مخمصے کیوں پھیلاتے رہتے ہیں
اور ماضی کو اپنے اوپر کیوں مسلط رکھتے ہیں۔
اب ہمیں اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنا اور فوج کی قربانیوں کا بھر پور احساس کرنا ہو گا۔