ایک ہولناک سفر
مقبول جہانگیر
۲۰ جون ۱۸۲۲ء کا ذکر ہے۔ تین برطانوی جہاز بحرِ اوقیانوس کے جنوب مغربی حصّے میں سفر کر رہے تھے۔
’’فیم‘‘ نامی جہاز کا کیپٹن فیدر سٹون عرشے پر کھڑا آنکھوں سے دوربین لگائے اُفق تک پھیلے ہوئے نیلے پانی کو دیکھ رہا تھا۔ یکایک اُس کا نائب بول اٹھا:
’’وہ ….. وہ مغرب کی طرف ….. ایک تباہ شدہ کشتی؟‘‘
کیپٹن نے اثبات میں سر ہلایا،
’’ہاں، ہاں! ہچکولے کھاتی ہوئی تباہ شدہ کشتی کا عرشہ صاف نظر آ رہا ہے۔
‘‘ چند لمحے دوربین سے دیکھنے کے بعد اُس نے کہا۔
’’زندہ لاشوں کی طرح دو آدمی کشتی میں دکھائی دے رہے ہیں۔
ایک چھجے کے پاس کھڑا ہاتھ سے اشارہ کر رہا ہے۔
دُوسرا قریب ہی عرشے پر بیٹھا ہماری طرف دیکھ رہا ہے۔‘‘
کیپٹن فیدر سٹون نے نائب کو دوربین دیتے ہوئے جیب سے سیٹی نکال کر زور سے بجائی پھر چلّا کر کہنے لگا
’’….. او ….. اِدھر دیکھو ….. مَیں ’فیم‘ جہاز کا کپتان فیدر سٹون ہوں ….. تم کون ہو؟‘‘
اتنا سنتے ہی اُس شخص نے ہاتھ ہلانا بند کر دیا اور چند لمحے بعد لڑکھراتا ہوا عرشے پر گر پڑا۔ دوسرے آدمی نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا اور رَونے لگا۔
کیپٹن فیدر سٹون چیخ چیخ کر اُنھیں آواز دے رہا تھا،
لیکن اُس کے بعد تباہ شدہ کشتی سے کوئی جواب نہ ملا۔
اُس زمانے میں یوں تو سینکڑوں جہاز چین اور دُوسرے ممالک سے بوسٹن کی بندرگاہ تک ریشم، چائے اور مختلف تجارتی اشیا لاتے تھے،
لیکن نزدیکی بندرگاہوں سے مال برداری کے لیے سینکڑوں چھوٹی چھوٹی کشتیاں دن رات مصروف رہتی تھیں۔
۸۰۰ فٹ لمبی اور ۱۳۰ ٹن وزنی بےڈول سی کشتی ’پولی‘ بھی اُن ہی میں سے ایک تھی اور کیپٹن سزینو کو اُس پر فخر تھا۔
۱۵ دسمبر ۱۸۱۱ء کو ’پولی‘ چار دِن تک بوسٹن کی بندرگاہ سے باہر رہی۔
کیپٹن سزینو عرشے پر کھڑا نیلگوں پانی کو غور سے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ وہ اَب تک اُن مشکلات پر قابو پا چکا ہے جو دوسرے سینکڑوں جہازوں اور کشتیوں کے لیے تکلیف دہ بنی ہوئی تھیں۔
وہ خلیج کوڈ کی تہہ میں جمی ہوئی ریت اور کوڑاکرکٹ صاف کر چکا تھا جس کی وجہ سے خلیج کے موڑ پر بہت سے جہاز حادثات سے دوچار ہو چکے تھے ۔
اُس راستے کو جہازرانی کے قابل بنا کر برطانوی بحری حملہ آوروں سے بچاؤ کی صورت بھی پیدا ہو گئی تھی جو آئے دن تجارتی جہازوں اور کشتیوں کے عملے کو پکڑ لیتے اور مال اسباب لُوٹ لیتے تھے۔
اُس وقت ’پولی‘ خلیج سٹریم میں رواں تھی جہاں جہازرانی بہت آسان تھی۔
’پولی‘ میں کیپٹن سزینو کے علاوہ نتھینیل پیڈکاک، ہندوستانی خانساماں ماہُو، سیمول بیڈگر، ڈینیل ہُو، جانسن اور سویڈن کا رہنے والا ایک ملّاح سوار تھے۔
اُن کے علاوہ مسافروں میں مسٹر جے ایس سینٹ اور ایک گیارہ برس کی حبشی لڑکی بھی شامل تھی۔ اِس مرتبہ دور کی چند بندرگاہوں سے سامان لانے میں چار دِن لگ گئے تھے۔
۲۰ دسمبر ۱۸۱۱ء کو آدھی رات کا وقت تھا۔ آسمان پر سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔
ہوا شدت اختیار کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہی بارش ہونے لگی۔
دیکھتے ہی دیکھتے اونچی اونچی موجیں ’پولی‘ سے ٹکرانے لگیں۔
پولی ہچکولے کھاتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی۔ اُس کا عرشہ لرز رہا تھا۔
جنوب مغرب کی طرف سے سمندر میں طوفان بڑھا چلا آ رہا تھا۔
کیپٹن سزینو بادبان کا رسّا تھامے یہ منظر خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔
اُس کے چہرے پر تشویش کی علامات ابھر رہی تھیں۔
ایک لمحے کے لیے اُس نے جنوب مغرب کی طرف بپھری ہوئی موجوں پر نظر ڈالی اور عرشے پر اِدھر اُدھر بھاگتے ہوئے ملاحوں کا حوصلہ بڑھانے لگا۔ اُس نے عرشے کا ایک چکر لگایا۔
عملے کے تمام افراد کسی نامعلوم خوف کے زیرِاثر بدحواس ہو گئے تھے۔
کشتی طوفان کا مقابلہ کرتی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی،
لیکن طوفانی ہوائیں لحظہ بہ لحظہ بڑھتی جا رہی تھیں۔ پہلا بادبان پھٹ چکا تھا اور کشتی ایک کھلونے کی طرح پانی میں ہچکولے کھا رہی تھی۔
تمام عملہ کشتی کو طوفان سے بچانے کے لیے اپنی کوششوں میں مصروف تھا۔
تیز بارش اور موجوں کی بوچھاڑ کے باعث آنکھیں بند ہوئی جاتی تھیں۔
طوفانی ہواؤں کے زور سے مستول نرم بانس کی طرح جھکے جا رہے تھے۔
کیپٹن سزینو اپنے عملے کی مدد سے ’پولی‘ کی رفتار کم کرنے کے لیے مسلسل کوشش کر رہا تھا، لیکن بےرحم ہواؤں کے تھپیڑوں سے دوسرا بادبان بھی پھٹ گیا۔
مسلسل جھٹکوں اور تھپیڑوں کی وجہ سے پولی کی نچلی منزل میں کئی درزیں پیدا ہو گئیں۔
پانی آہستہ آہستہ نچلی منزل میں بھرنے لگا۔
دو گھنٹے تک ’پولی‘ پُرشور موجوں میں ہچکولے کھاتی رہی۔
کوئی ڈیڑھ بجے کا عمل تھا کہ وہ اَچانک تنکے کی طرح کانپی اور چشمِ زدن میں الٹ گئی۔
دوسرے ہی لمحے وہ مردہ وَھیل مچھلی کی طرح پہلو کے بل پانی پر تیر رہی تھی۔
کیپٹن سزینو اور عملے کے دوسرے آدمی بادبانوں کے رسّوں سے چمٹے ہوئے دل میں سوچ رہے تھے کہ سمندر کی بےرحم موجیں ہمارے حوصلوں کو پست نہیں کر سکتیں۔
جب تک ہم زندہ رہیں گے ’پولی‘ ڈوب نہیں سکتی۔ کیپٹن سزینو اگرچہ گردن تک پانی میں ڈوبا ہوا تھا، لیکن اُس نے دونوں ہاتھوں سے مستول تھام رکھا تھا۔
موجوں کے زبردست ریلے اُس کے اوپر سے گزر رَہے تھے۔
کیپٹن نے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بوچھار میں دیکھا کہ عملے کے آدمی پھٹے ہوئے بادبانوں اور مستول پر چڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ دیکھ کر کیپٹن لمحے بھر کے لیے حیران ہوا کہ سیمول بیڈگر کے ہاتھ میں ایک کلہاڑی ہے جس کے ذریعے وہ رَسیّاں کاٹ کاٹ کر مستول تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
’’رسّے اور مستول کاٹ دو۔‘‘ کیپٹن سزینو کی آواز تیز ہوا میں اُبھری۔
’’اگر مستول اور رَسّے کاٹ دیے جائیں، تو ’پولی‘ سیدھی ہو جائے گی۔‘‘
دوسرے ہی لمحے بیڈگر جوش سے ’پولی‘ کا اگلا مستول کاٹ رہا تھا، حتیٰ کہ وہ تھک گیا۔
اُس کے بعد کیپٹن سزینو نے بیڈگر کے ہاتھ سے کلہاڑی چھینی اور مستول کاٹنے لگا۔
دونوں کی کوشش کے نتیجے میں تقریباً پون گھنٹے بعد ’پولی‘ کا اگلا مستول کٹ کر موجوں میں بہہ گیا۔
ہوائیں اب بھی چیخ رہی تھیں اور آسمان سے پانی مسلسل برس رہا تھا۔
دیوپیکر موجیں بار بار آتیں اور ’پولی‘ سے ٹکرا جاتیں۔
اب تمام لوگ باری باری بڑے مستول کو کاٹنے میں لگے ہوئے تھے جو ڈیڑھ گھنٹے کی کوشش کے بعد ’پولی‘ سے الگ ہو گیا۔
بڑے مستول کا الگ ہونا تھا کہ ’پولی‘ نے پلٹا کھایا اور سیدھی ہو گئی۔
’پولی‘ کے سیدھی ہوتے ہی عملے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
سب نے اپنے اپنے چاقو نکالے اور بادبانوں کے تمام چھوٹے بڑے رسّے کاٹ کر عرشے کے ایک طرف پھینک دیے۔
تمام لوگ پانچ گھنٹے کی محنت کے بعد اِس قدر تھک گئے تھے کہ کام ختم کرتے ہی عرشے پر لیٹ گئے۔
اونچی اونچی لہریں اُن پر پانی پھینک رہی تھیں، لیکن وہ اِس سے بےنیاز صرف یہ سوچ کر خوش تھے کہ ابھی زندہ ہیں۔
مشرق سے جب شفق کی سرخی نمودار ہوئی، تو کیپٹن سزینو نے دیکھا کہ اُس کے ساتھیوں میں سے کئی ایسے ہیں جن کے کپڑے پھٹ چکے ہیں۔
طوفان کی شدت میں کمی واقع ہو چکی تھی۔ جنوب مغرب کی طرف سمندر پُرسکون تھا۔
کیپٹن نے عرشے کا ایک چکر لگایا۔
چھجے میں پھنسے ہوئے رسّوں کو الگ کیا۔ عملے کے تمام لوگ بچ گئے تھے، لیکن ایک شخص جے ایس سینٹ طوفان کی نذر ہو چکا تھا۔
گیارہ سالہ حبشی لڑکی مستول کے رسّوں میں الجھی ہوئی مل گئی۔
موجوں کے زبردست تھپیڑوں کی وجہ سے اُس کی حالت اتنی غیر تھی کہ چند گھنٹے بعد ہی اُس نے دم دے دیا۔
کیپٹن سزینو، سیمول پیڈکاک، چار ملّاح اور ہندوستانی خانساماں ماہو بچ گئے تھے، لیکن اب وہ ایک ایسی کشتی پر سوار تھے جو موجوں کے رحم و کرم پر بھٹک رہی تھی اور جس کی کوئی منزل اور کوئی کنارہ نہ تھا۔
’پولی‘ کا اچھی طرح جائزہ لیا گیا۔ نچلی منزل میں پانی بھر چکا تھا۔
بڑی کوشش کے بعد نمکین گوشت کے تین ڈرم عرشے پر لائے گئے۔
تیس گیلن کے سوا پینے کا پانی ضائع ہو چکا تھا۔ کیپٹن سزینو نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’ہمارے پاس خوراک کافی ہے، لیکن پانی کا ذخیرہ بہت کم ہے۔
جب تک کوئی صورت پیدا نہیں ہوتی، ہمیں چاہیے کہ چند گھونٹ روزانہ پانی پی کر گزارہ کریں۔
ہمارے پاس آگ جلانے کا کوئی انتظام نہیں، اِس لیے ہمیں کچا نمکین گوشت ہی کھانا پڑے گا۔
بہرحال خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس خوراک موجود ہے۔‘‘
اگلی صبح طوفان بالکل تھم چکا تھا۔ دور تک پھیلا ہوا سمندر قالین کی طرح نظر آ رہا تھا۔
دھوپ میں البتہ بڑی حدت تھی۔ بادبانوں اور مستولوں کے بغیر ’پولی‘ جنوب مغرب کی طرف بڑی سست رفتاری سے کسی اَن جانی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔
بارہ دِن گزر گئے۔ دسمبر کا مہینہ ختم ہو چکا تھا ۔
پولی ابھی تک سمندر کے بیکراں سینے پر بھٹک رہی تھی۔ تمام لوگوں کے چہرے ڈاڑھیوں اور مونچھوں میں چھپ گئے تھے۔
وُہ کسی پُراسرار خوف کے باعث بدحواس نظر آتے تھے۔
کشتی میں عجیب سراسیمگی پھیلی ہوئی تھی۔ کچا اور نمکین گوشت کھانے کی وجہ سے سب کی پیاس غیرمعمولی طور پر بڑھ گئی تھی، مگر وہ پانی کی قلّت کی وجہ سے چند گھونٹ پینے پر مجبور تھے۔
دھوپ سے بچاؤ کا اُن کے پاس کوئی سامان نہ تھا۔
رات کو حد سے زیادہ ٹھنڈ ہو جاتی، وہ ٹھٹھرتے رہتے اور صبح جب سورج نکلتا، تو اُن کے جسموں میں کچھ جان سی پڑتی، لیکن دوپہرکے وقت سورج کی حِدّت ناقابلِ برداشت ہو جاتی۔
اُن کے جسم دھوپ میں تپ تپ کر سیاہ پڑ چکے تھے۔
وہ ایک دوسرے سے بہت کم بات کرتے اور سارا دِن باری باری عرشے پر گھوم کر کسی آتے جاتے جہاز کی تلاش میں افق پر نظریں جمائے رکھتے۔
بارہویں دن سیمول بیڈگر نے عرشے پر گوشت کا ایک ٹکڑا پھینکتے ہوئے کہا:
’’یہ کھانے کے قابل نہیں، اگر ہم اِسی طرح کچّا اور نمکین گوشت کھاتے رہے، تو جلد ہی بیمار پڑ جائیں گے۔
ہمیں کسی طرح پکانے یا بھوننے کے لیے آگ جلانے کی تدبیر کرنی چاہیے۔‘‘
ہندوستانی خانساماں ماہو غور سے بیڈگر کی بات سن رہا تھا۔
اچانک اُسے آگ جلانے کی ایک عجیب ترکیب سوجھی جو اُس کے آبا و اجداد کے وقت سے چلی آ رہی تھی۔
اُس نے اپنی پیٹی سے چاقو نکالتے ہوئے پُراعتماد لہجے میں کہا:
’’مَیں آگ جلاؤں گا۔‘‘
کیپٹن سزینو اور عملے کے دوسرے آدمی ماہو کے اردگرد جمع ہو گئے۔
ماہو نے اُن پر کوئی توجہ نہ دی۔ اُس نے سب سے پہلے مستول کے بچے ہوئے حصّے سے چھوٹی چھوٹی لکڑیاں بڑی احتیاط سے کاٹیں۔
پھر چھجے سے ایک صاف اور پتلی سی تختی کاٹی۔
اُس کے بعد چھجے کے موٹے فریم سے بلوط کی لکڑی کی دو سُوکھی تختیاں کاٹیں۔
اُن تمام لکڑیوں کو لے کر ماہو عرشے کے کونے میں بیٹھ گیا اور چھیل کر اُن تختیوں کی سطح ہموار کی۔
اِس کے بعد اُس نے ایک تختی کو دوسری تختی پر رگڑنا شروع کیا۔
اِسی اثنا میں دوسرے ملّاحوں نے عرشے کے کونے میں پڑے ہوئے رسّے اور پٹ سن کی باریک باریک رسّیاں جمع کر دیں۔
اب عملے کے تمام آدمیوں کو آگ روشن ہونے کا شدت سے انتظار تھا۔
لکڑیاں آپس میں رگڑتے رگڑتے ماہو کے جسم سے پسینہ بہنے لگا۔
تقریباً آدھا گھنٹہ گزر گیا، لیکن آگ جلنے کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔
سب لوگ بددل سے ہو گئے تھے۔ ایک ملّاح نے طنزیہ انداز میں کہا:
’’مَیں نے سنا ہے پرانے زمانے میں یہ ہندوستانی لوگ اِسی طرح آگ جلایا کرتے تھے۔‘‘
’’لیکن مجھے اِس طریقے پر یقین نہیں۔’’ دوسرے نے جواب دیا۔
کیپٹن سزینو، ماہو کو لکڑیاں رگڑتے ہوئے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا اور پُراعتماد نظر آتا تھا۔
ماہو پسینے میں شرابور ہو چکا تھا۔
آدھا گھنٹہ اور گزر گیا۔ بلوط کی لکڑی سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھنے لگا اور پھر اچانک لکڑی ایک طرف سے جلنے لگی۔ کیپٹن سزینو اِس کامیابی پر دیوانوں کی طرح چیخا۔
دوسرے ملّاح بھی خوشی سے ناچنے لگے اور جوش میں آ کر اُنھوں نے ماہو کو کندھوں پر اٹھا لیا۔
ماہو کے اِس کارنامے پر سب خوش تھے۔ جلتی ہوئی لکڑی کو عرشے کے کونے میں جمع کی گئی لکڑیوں اور رَسّیوں کے ڈھیر میں رکھ کر آگ کے قریب ہی رکھ دیا گیا تاکہ آگ نہ بجھ سکے۔
تھوڑا سا کچّا اور نمکین گوشت بھونا گیا اور باقی گوشت کنستروں میں ڈال کر اُبالا گیا۔
اُس رات اُنھوں نے اتنا پیٹ بھر کر خوشی خوشی لذیز گوشت کھایا کہ حادثہ پیش آنے سے اب تک اتنا لذیز گوشت کھانا نصیب نہیں ہوا تھا،
لیکن اُنھیں ابھی تک معلوم نہیں تھا کہ کشتی کے نچلے حصّے کے تختے ٹوٹ جانے کی وجہ سے کچے اور نمکین گوشت کے تمام ڈرم سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
’پولی‘ کو سمندر میں بھٹکتے ہوئے چالیس دن گزر گئے، اگرچہ اب تک اُنھیں خوراک کی کوئی کمی نہ رہی تھی، لیکن اِس کے باوجود وُہ سب ہڈیوں کا ڈھانچا بن گئے تھے۔
آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں اور کپڑوں سے بُو اٹھنے لگی تھی۔ سمندر کے نمکین پانی کی بوچھاڑ اور سورج کی حدّت کے باعث اُن کے جسموں پر آبلے پڑ چکے تھے۔
اَیسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کوڑھ کے مریض ہیں۔
پانی کا ذخیرہ اَٹھارہ دِن میں ختم ہو گیا تھا، کبھی بارش ہوتی، تو وہ کنستروں میں پانی جمع کر لیتے،
جو چند دن تک کام آتا،
لیکن پانی اتنی مقدار میں جمع ہوتا کہ روزانہ ہر ایک کے حصّے میں بمشکل ایک گلاس پانی آتا۔
اُن کے گلے پک چکے تھے اور زبانیں سُوج گئی تھیں۔
حلیے بگڑ جانے کے باعث وہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے سے قاصر تھے۔
دِن رات کشتی کے اندر بےحس و حرکت پڑے موت کا انتظار کرتے رہتے۔
سورج طلوع ہوتا اور غروب ہو جاتا، طوفان آتے اور گزر جاتے اور ’پولی‘ آہستہ آہستہ انجانی منزل کی طرف بڑھتی رہتی۔
کچے اور نمکین گوشت کے تینوں ڈرم ختم ہو چکے تھے۔
کیپٹن سزینو نے جانسن اور سیمول بیڈگر کو کشتی کی نچلی منزل میں گوشت کے مزید ڈرم لانے کے لیے بھیجا۔
اُس نے دل میں کہا ہمارے پاس گوشت کے کافی ڈرم ہیں، ہم بھوکے نہیں مر سکتے۔
’پولی‘ کی نچلی منزل میں تقریباً آٹھ فٹ تک پانی بھرا ہوا تھا۔
سیمول بیڈگر اور جانسن نے دو تین بار غوطے لگا کر گوشت کے ڈرم تلاش کیے، لیکن جب وہ پانی سے ابھرے، تو دہشت سے اُن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
’’گوشت کے ڈرم سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔‘‘ بیڈگر نے مری ہوئی آواز میں کہا۔ ’’تمام تختے ٹوٹے ہوئے ہیں اور کاٹ کباڑ اور چند فالتو چیزوں کے سوا کچھ باقی نہیں بچا۔‘‘
یہ سنتے ہی فرطِ غم سے کیپٹن کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔ ’’
ہم لُٹ گئے ساتھیو! ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’گلا سڑا گوشت تک نہیں۔‘‘ بیڈگر نے لمبا سانس لیتے ہوئے کہا۔
یہ صدمہ شدید تھا۔ اگرچہ پانی کی کمی تھی، لیکن بغیر خوراک کے کیسے جیا جا سکتا تھا؟
زندہ رَہنے کی تمام موہوم امیدیں ختم ہو گئی تھیں۔
اداس و مغموم تمام لوگ عرشے کے ایک کونے میں بیٹھے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے نہ جانے کیا کہہ رہے تھے۔
اپنے ساتھیوں کو ناامید دیکھ کر کیپٹن سزینو کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
وہ جانتا تھا کہ مصائب کو برداشت کرنے کے لیے ساتھیوں کا حوصلہ بلند رکھنا ضروری ہے، مگر وہ اَب کیا کر سکتا ہے۔
وہ کس طرح اِن کی زندگی کی حفاظت کر سکتا ہے۔ کوئی کوشش اِن حالات کو بدل نہیں سکتی۔
کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ تمام مصائب کو چھوڑ کر ہم سب بھوکے پیاسے سکون سے مر جائیں اور نت نئی مصیبتوں سے چھٹکارا مل جائے۔
اِسی طرح کے بیسیوں سوال کیپٹن کے ذہن کو پریشان کیے ہوئے تھے، لیکن وہ مجبور تھا۔ وہ کیا کرے ….. دھوپ کی بڑھتی ہوئی حدت ….. پانی کا معمولی سا ذخیرہ ….. خوراک …..؟
’’کیا ہم اِسی طرح بھوکے پیاسے مر جائیں گے۔‘‘
بار بار یہی سوال اُس کے سامنے آتا، وہ سر جھٹک کر کچھ سوچنے لگا۔
’پولی‘ افریقا کے ساحلی علاقے خلیج سٹریم کے قریب حادثے سے دوچار ہوئی تھی اور اَب خلیج گنیا میں سفر کر رہی تھی۔
یہ بہاؤ اُسے تجارتی جہازوں کے راستے سے آہستہ آہستہ دور لے جا رہا تھا۔
کیپٹن سزینو عرشے کے کونے میں ایک ٹوٹے ہوئے تختے پر بیٹھا بڑی مایوسی سے اپنے ساتھیوں کو دیکھ رہا تھا۔
کتنے اچھے ہیں یہ ساتھی ….. دلیر ….. بہادر ….. سمندروں کی موجوں سے لڑنے والے ….. جنہوں نے موجوں اور طوفانوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی زندگیاں گزار دِیں۔
اِنتہائی نامساعد حالات میں بھی سینہ سپر رہے ہیں، لیکن آخر انسان کی قوتِ برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے۔
حیرت ہے کہ اِن حالات میں یہ لوگ اب تک زندہ ہیں ….. اب تک ….. نہیں، یہ نہیں مر سکتے …..
یہ نہیں مر سکتے ….. زندہ رَہیں گے ….. زندہ رَہیں گے۔
کیپٹن نے قریب بیٹھے سیمول بیڈگر کو گلے سے لگا لیا۔ تم سب زندہ رہو گے۔
کیپٹن سزینو کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
دس دن اور گزر گئے۔ تمام لوگ بےحس و حرکت عرشے پر پڑے رہتے۔
اُن کے پھیپھڑے اِس قدر کمزور ہو چکے تھے کہ وہ اَب آپس میں گفتگو بھی بہت کم کرتے۔
بھاری بھر کم جانسن ہڈیوں کا ڈھانچا بن گیا تھا۔ اُن کی خوراک پانی کے صرف چند گھونٹ تھی۔
کیپٹن سزینو کو کئی بار محسوس ہوتا جیسے اُس کا دم گھٹ رہا ہے۔
عرشے پر خاموشی چھائی رہتی۔ ایک گہری خاموشی ….. جسے کبھی کبھی سمندر کی پُرشور لہریں توڑ دیتیں۔
اِن دس دنوں میں بارش کی امید میں سب کی نظریں آسمان پر لگی رہیں، لیکن بارش نہیں ہوئی۔
ایک دن سمندر میں زبردست طوفان آیا۔
مہیب لہریں ’پولی‘ سے ٹکراتیں اور چھاجوں پانی عرشے پر پھینک دیتیں، مگر سب لوگ اُس سے بےنیاز مُردوں کی طرح عرشے پر پڑے رہتے۔
طوفان تھمنے کے بعد دھوپ کی حدت غیرمعمولی طور پر بڑھ گئی اور ہر ایک کو جسم کی کھال چٹختی ہوئی محسوس ہوئی۔ سوجی ہوئی زبانیں اور گلے زیادہ تکلیف دینے لگے۔
بھوک اور پیاس کے ہاتھوں نڈھال ہو کر سب نے مچھلیاں پکڑنے کے متعلق سوچا۔ کشتی میں لگے ہوئے مختلف بانسوں اور لوہے کی چھوٹی چھوٹی کنڈیوں اور سلاخوں کو موڑ توڑ کر مچھلیاں پکڑنے کی کنڈیاں بنائیں۔
پٹ سن کی باریک رسّیوں سے باندھ کر اُنھیں سمندر میں اِس امید پر لٹکائے رکھا کہ کوئی نہ کوئی مچھلی ضرور پھنس جائے گی، لیکن یہ بھی محض خوش فہمی ثابت ہوئی۔
کیپٹن سزینو اور بیڈگر نے مل کر کشتی کی نچلی منزل سے کچھ لکڑی کی تختیاں نکالیں اور پھٹے ہوئے بادبان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو ملا کر دھوپ کی حدّت سے بچنے کے لیے ایک چھوٹا سا سائبان مکمل کیا۔
معمولی سا کام بھی اب اُن کے لیے پہاڑ بن جاتا۔ وہ اِس مصروفیت سے جلد ہی نڈھال ہو کر عرشے پر لیٹ گئے۔
سب کی حالت اتنی غیر ہو چکی تھی کہ اُن کے لیے چند قدم چلنا یا کچھ دیر کھڑے رہنا بھی ناممکن تھا۔
وہ عرشے پر کھڑے حسرت بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے اور سوچتے نہ جانے پہلے کون داغِ مفارقت دے جائے۔
اُن کی کھال ہڈیوں سے چپک گئی تھی، پیٹ کمر سے جا لگے تھے اور زندگی ایک بوجھ محسوس ہونے لگی تھی۔
یہ سفر کا پچاسواں دن تھا۔ آدھی رات کے قریب اچانک پیڈکاک کی حرکتِ قلب بند ہو گئی۔ حادثے کے بعد یہ پہلی موت تھی جس سے سب کانپ گئے۔
اُن کے چہرے زرد ہو گئے اور ہر شخص پر دہشت طاری ہو گئی۔ پیڈکاک سب لوگوں میں غیرمعمولی طور پر مضبوط تھا۔
اُس کی ساری زندگی سمندروں میں مچھلیوں کا شکار کرتے اور طوفانوں سے لڑتے گزری تھی۔
پیڈکاک جیسے قوی ہیکل شخص کی موت نے اُن کے دلوں سے زندہ رہنے کی امید چھین لی۔
سب نے مل کر پھٹے ہوئے بادبان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں پیڈکاک کی لاش لپیٹی اور سمندر کی لہروں کے حوالے کر دی۔
اتنے پرانے دوست کے آخری سفر پر سب ملاحوں کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔
سمندر میں اونچی اونچی موجیں بھی آپس میں گلے مل مل کر رو رَہی تھیں۔
یہ مرحلہ طے ہو جانے کے بعد کیپٹن سزینو باقی ساتھیوں سے مخاطب ہوا:
’’ساتھیو! پیڈکاک کی طرح ایک دن ہم سب کو بھی مرنا ہے، اگر ہم کسی نہ کسی کام میں مصروف رہیں، تو تکلیف کا احساس کسی نہ کسی حد تک ختم ہو جائے گا۔
ہمیں مچھلیاں پکڑنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ سایہ بان کو ذرا بڑا بنایا جائے۔ پانی صاف کرنے کے متعلق کوئی طریقہ سوچنا چاہیے۔
مَیں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر ہم مصروف رہیں گے، تو موت کی اذیت کم ہو جائے گی ….. مصروف رہو، خدا پر بھروسہ رکھو اَور مردانہ وار اَپنی زندگی خدا کے سپرد کر دو۔‘‘
کیپٹن کی باتوں سے ملاحوں کا حوصلہ بلند ہوا اَور وُہ سایہ بان بنانے اور مچھلیاں پکڑنے کے لیے جدوجہد کرنے لگے، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مچھلیاں پکڑنے کی کوئی کوشش کارگر ثابت نہ ہوئی، البتہ سایہ بان کافی بڑا بن گیا تھا۔
یہ سفر کا ۵۶واں دن تھا کہ ڈینیل ہوف بھی اپنے ساتھیوں سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا۔ ڈینیل ہوف کی موت پیڈکاک سے بھی زیادہ دہشت ناک تھی۔ مرنے سے تقریباً آدھا گھنٹہ پہلے ڈینیل ہوف پر بےہوشی طاری ہو گئی اور وُہ عجیب ناقابلِ فہم الفاظ بُڑبڑاتا رہا۔
کبھی وہ زور سے چیختا اور اُٹھ کر بیٹھ جاتا اور پھر عرشے پر گر پڑتا۔
مرنے سے چند لمحے پہلے وہ پھر بُڑبڑانے لگا۔ اچانک اُس نے ایک زور کی ہچکی لی اور اَپنے ساتھیوں کی آنکھوں میں آنسو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا۔
ڈینیل ہوف کی لاش بھی پانی میں بہا دی گئی۔ ملاح ایک دوسرے کو خاموش نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
سبھی اِن نظروں کی زبان سمجھتے تھے۔ کیپٹن سزینو ایک طرف کھڑا حسرت بھری نظروں سے آسمان کو دیکھ رہا تھا۔
وہ زِندگی سے تقریباً مایوس ہو چکا تھا، لیکن اپنے فرائضِ منصبی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ خوراک اور پانی جان بچانے کے لیے ضروری ہیں۔
خوراک تو ہے ہی نہیں اور اُفق تک پھیلے ہوئے نمکین پانی کے سوا پینے کا پانی ایک قطرہ بھی نہیں مل سکتا۔
آسمان پر سورج پوری تمازت سے چمک رہا تھا اور دُور دُور تک بارش کے کوئی آثار نہ تھے۔
یہ جانتے ہوئے کہ کشتی کی نچلی منزل میں کچھ بھی نہیں، کیپٹن سزینو نیچے اتر گیا اور پانی میں غوطہ لگا کر اِدھر اُدھر ہاتھ مارتا رہا۔ ایک کونے میں اُس کے پاؤں سے کوئی سخت چیز ٹکرائی۔
پے در پے دو تین غوطے لگا کر جب وہ اُبھرا، تو کباڑ سے ایک کیتلی اور ایک پستول حاصل کر چکا تھا۔
وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا عرشے کے ایک کونے میں گیا اور دونوں چیزوں کو سامنے رکھ کر بہت دیر تک سوچتا رہا کہ کس طرح اِنھیں کام میں لایا جا سکتا ہے۔
آخر اُسے ایک تدبیر سُوجھی۔ اُس نے قریب ہی پڑی ہوئی لوہے کی بالٹی اٹھائی اور کیتلی کو اُس میں الٹا رکھ دیا، لیکن کیتلی کا منہ بالٹی کے پیندے میں اچھی طرح پیوست نہیں ہو رہا تھا۔
کیپٹن نے چاقو نکال کر کیتلی کے منہ کا موٹا حصّہ کاٹنا شروع کیا اور کئی گھنٹے کی کوشش کے بعد وہ کیتلی کا منہ حسبِ خواہش کاٹنے میں کامیاب ہو گیا۔
اُس نے کپڑے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بالٹی کے پیندے اور کیتلی کے منہ سے پیدا ہونے والے جوڑ پر اچھی طرح لپیٹ دیے تاکہ تھوڑا تھوڑا پانی اُس میں سے جذب ہو کر کیتلی کے اندرونی حصّے میں جا سکے۔
اِس کے بعد کیپٹن سزینو نے پستول کا پرزہ پرزہ اَلگ کر دیا ۔
پستول کی نالی کو کیتلی کے پیندے میں فِٹ کر کے نالی کا اوپری سِرا کپڑے سے اچھی طرح بند کر دیا۔
اِس طرح وہ سمندر کے نمکین پانی کو کشید کرنے کے لیے چھوٹا سا آلہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔
دوسرے ملاحوں کو جب اِس ایجاد کا علم ہوا، تو خوشی سے اُن کی آنکھیں ایک لمحے کے لیے چمک اٹھیں۔ بیڈگر نے خوشی اور حیرانی کے ملے جلے جذبات کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا:
’’کیپٹن، واقعی یہ ایک معجزہ ہے ….. کیا تمہیں یقین ہے کہ آلہ ٹھیک کام کرے گا؟‘‘
’’بےشک!‘‘ سزینو نے جواب دیا۔
اُس نے بڑی احتیاط سے آلے کو آگ پر رکھا اور چند خشک لکڑیاں بالٹی کے پیندے کے نیچے جلا دیں۔ چند لمحوں بعد کیتلی کی نالی سے بھاپ نکلنے لگی۔
کیپٹن نے کیتلی کے الٹے حصّے پر ٹھنڈا پانی ڈالنا شروع کیا۔ جب کیتلی کی نالی سے قطرہ قطرہ پانی نیچے رکھے ہوئے برتن میں ٹپکنے لگا، تو سب ملاحوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اُن کی خوشی ناقابلِ برداشت تھی۔
نالی سے قطرہ قطرہ پانی ٹپکتا رہا۔ سب ملاح دن رات کشتی کے چھجے کو توڑ کر لکڑیوں سے آگ جلاتے رہے اور اِس ’’قیمتی پانی‘‘ کو جمع کرتے رہے
پھر اُنھوں نے اتنا پانی اکٹھا کر لیا کہ ہر آدمی دن بھر میں کم از کم ایک گلاس پانی پی سکتا تھا۔
صاف پانی کشید کرنے کے آلے کی ایجاد سے سب کے دلوں میں ایک بار پھر زندہ رہنے کی موہوم امید پیدا ہوئی۔ قدرت اُن پر مہربان ہو رہی تھی۔
دوسرے دن بیڈگر نے عرشے کے کونے میں پڑی ہوئی رسّی کے گچھے کو کھولا اور بہت دیر تک بیٹھا اُس کا جال بُنتا رہا۔ تین گھنٹے میں دو گز مربع جال تیار ہو چکا تھا۔
بیڈگر نے ایک لمبی اور مضبوط رسّی کو جال کے کونوں سے باندھ کر سمندر میں لٹکا دیا۔ قدرت جب مدد کرنا چاہے، تو ایسے واقعات ظہورپذیر ہوتے ہیں جن کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔
سمندر میں جال پھینکے ابھی آدھا گھنٹہ نہ گزرا تھا کہ اُس میں ایک بڑی سی شارک مچھلی پھنس گئی جس کا گوشت بھون کر سب لوگ کئی دن تک اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے رہے۔
اگرچہ معمولی مقدار میں مچھلی کا گوشت اور پانی میسرّ تھا، لیکن پھر بھی وہ روز بروز کمزور ہوتے جا رہے تھے۔ دھوپ کی حِدّت، ناکافی غذا، رات کی ٹھنڈ، سمندری طوفان اور ہوائیں اُن کی صحت پر بری طرح اثرانداز ہو رہی تھیں۔
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کئی دن تک کوئی مچھلی جال میں نہ پھنستی اور اُنھیں بھوکا رہنا پڑتا۔
۱۵ مارچ کے دن ’پولی‘ کو بحرِ اوقیانوس میں بھٹکتے ہوئے پورے تین مہینے گزر چکے تھے، اور اِسی دوپہر ہندوستانی خانساماں ماہو بھی اپنے ساتھیوں کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا۔ کیپٹن سزینو نے خاص طور پر اپنی ڈائری میں ماہو کا ذکر اِن الفاظ میں کیا:
’’۱۵ مارچ ۱۸۱۲ء۔ آج ہندوستان کا رہنے والا ماہو بھی ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گیا ہے۔ ماہو نے اپنے ساتھیوں کے لیے نہایت نامساعد حالات میں آگ جلا کر جو کام کیا، ہم سب اُس کی قدر کرتے ہیں۔ ہمیں آج بحرِ اوقیانوس کے پانی پر بھٹکتے ہوئے پورے تین مہینے بِیت گئے ہیں۔ ہمارے تین ساتھی ہم سے جدا ہو چکے ہیں جن کا مجھے افسوس ہے۔ ہم نہیں جانتے ہماری منزل کون سی ہے اور خدا کے سوا کون جانتا ہے کہ ہم زندہ بھی رہیں گے یا اِس تباہ شدہ کشتی کے عرشے پر ہماری لاشیں گلتی سڑتی رہیں گی۔‘‘
’’ہم بھوکے مر رہے ہیں۔‘‘ بیڈگر نے ماہو کی لاش دیکھتے ہوئے طویل خاموشی توڑی۔
’’کیپٹن ….. شاید ….. شاید تم میرا مطلب سمجھ گئے ہو گے ….. یعنی ….. میرا مطلب ہے ….. ہم ماہو کی لاش کو …..‘‘ الفاظ بیڈگر کے حلق میں اٹک گئے۔
’’بیڈگر!‘‘ کیپٹن دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے چیخا۔ ’’یہ نہیں ہو سکتا ….. یہ نہیں ہو سکتا ….. کبھی نہیں ….. ہم مر جائیں گے، لیکن مردم خوری نہیں کریں گے۔‘‘
کافی بحث کے بعد آخر وہ اِس بات پر متفق ہو گئے کہ ماہو کی لاش کو لہروں کے سپرد کرنے سے پہلے اُس کی بائیں ٹانگ کاٹ لی جائے۔
اُنھوں نے اُس گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے اور مچھلیاں پکڑنے کے کانٹوں میں پھنسا دیے۔
انسانی گوشت کی بُو پر کچھ دیر بعد ہی ایک شارک مچھلی جال میں پھنس گئی جس کا گوشت وہ تقریباً ایک ہفتے تک پیٹ بھر کر کھاتے رہے۔
اِس دوران میں ایک بار پھر دوبارہ کشتی کی نچلی منزل کا کونا کونا چھانا گیا۔ پھر ایک پستول اُن کے ہاتھ لگا۔ کیپٹن نے پستول کی نالی الگ کی اور اُسے کیتلی کے پیندے میں فِٹ کر دیا۔
اِس طرح پانی کی سپلائی دگنی ہو گئی۔ اِس کے علاوہ اُنھوں نے احتیاطاً ٹین کے خالی ڈبوں اور کنستروں کو بھی عرشے پر رکھ دیا تاکہ بارش ہونے پر زیادہ سے زیادہ پانی محفوظ ہو سکے۔
اپریل کا مہینہ دنیا کے لیے بہار کا پیغام لے کر آیا، لیکن ’پولی‘ کشتی کے عرشے پر پڑے ہوئے اُن چاروں انسانی ڈھانچوں کے لیے وہی بدقسمتی تھی جو شاید اُن کا مقدر بن چکی تھی۔
وہ اَب بھی ایک نامعلوم منزل کی طرف رواں تھے۔ چند دنوں بعد ایک شام جانسن پر بےہوشی طاری ہوئی اور چند ہی لمحے میں وہ اَپنے ساتھیوں سے بہت دور پہنچ گیا۔
’پولی‘ میں صرف تین زندہ لاشیں عرشے پر پڑی ہوئی آنکھوں میں ایک حسرت لیے آسمان کی طرف تَک رہی تھیں۔ کیپٹن سزینو، بیڈگر اور سویڈن کا رہنے والا ایک ملاح۔
اپریل کے آخری ہفتے کا ذکر ہے، ایک دن صبح جب اُن کی آنکھیں کھلیں، تو یہ دیکھ کر اُن کی حیرانی کی حد نہ رہی کہ کشی اپنی جگہ کھڑی ہے اور معمولی حرکت بھی نہیں کر رہی۔
سمندر میں چاروں طرف سمندری گھاس اور کائی پھیلی ہوئی تھی۔
’’خِطۂ سارگاسو!‘‘ کیپٹن کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
’’شاید ’پولی‘ اب کبھی نہ تیر سکے۔ ہماری موت کھینچ کر اِسے خِطۂ سارگاسو میں لے آئی ہے۔ سمندری خودرو گھاس اور کائی کی اتنی موٹی تہ سمندر پر جمی ہے کہ کشتی ایک گز بھی نہیں تیر سکتی ….. اے خدا!‘‘ کیپٹن سزینو نے آسمان کی طرف دیکھا۔
’پولی‘ خِطۂ سازگار میں کھڑی تھی۔ اِس خطے کا نام سنتے ہی بڑے بڑے تجربہ کار ملاح اور بہادر جہاز ران کانپ اٹھتے تھے۔
یہاں سال کے بارہ مہینے خودرو گھاس اور کائی کی موٹی موٹی تہی جمی رہتی ہے۔
کئی کئی میل تک پانی کے گرداب نظر آتے ہیں جن کی وجہ سے کائی اور خودرو گھاس کی تہیں پھٹنے کے بعد دوبارہ آپس میں مل جاتی ہیں۔ جتنے بھی بدقسمت جہاز یہاں آن پھنسے، وہ کبھی واپس نہیں جا سکے۔
میلوں پھیلے ہوئے بھنور کے چکروں میں پھنس کر سمندر کی تہ میں بیٹھ گئے۔
’پولی‘ کشتی کے مستول تھے نہ بادبان۔ ایسی صورت میں کشتی کو یہاں سے نکالنے کی کوئی بھی تدبیر کارگر نہ ہو سکتی تھی۔
بیڈگر نے مایوسی سے کہا ’’ہم چار مہینے تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہ چکے، لیکن میرا خیال ہے کہ اب ہمارا آخری وقت قریب ہے۔‘‘
’’بےشک زندہ بچ نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔‘‘ سویڈن کے ملاح نے تصدیق کی۔
کیپٹن سزینو کا چہرہ غصّے سے سرخ ہو گیا۔ ’’تم حوصلہ ہار رَہے ہو۔ ہم اتنا پُر از مصائب اور طویل سفر طے کرنے کے بعد بھی زندہ ہیں۔
ہمارے پاس پینے کا صاف پانی ہے اور خوراک بھی مل ہی جاتی ہے۔
خدا پر بھروسا رکھو۔ کیا تمہیں امید نہیں کہ خِطۂ سارگاسو ہمیں تباہ کرنے کے بجائے ہمارے لیے مددگار بھی ثابت ہو سکتا ہے؟‘‘
دونوں ملاح کیپٹن سزینو کے چہرے کو غور سے دیکھ رہے تھے۔
اُنھیں یوں محسوس ہوا جیسے کیپٹن چند لمحوں کا مہمان ہے۔ اُس کے چہرے کا رنگ بدلتا جا رہا ہے۔
ہونٹوں پر پپڑی جم گئی ہے اور چند لمحے بعد اُن کی آنکھوں کے سامنے وہی منظر ہو گا جسے اُن کی آنکھیں چار مرتبہ دیکھ چکی ہیں ….. بےہوشی ….. چیخیں ….. ہچکیاں ….. موت۔
وہ دونوں کیپٹن کو عجیب سی نظروں سے دیکھتے رہے۔ کیپٹن سمندر میں بالٹی لٹکا رہا تھا۔
پانی بھرنے کے بعد اُس نے بالٹی اوپر کھینچی اور عرشے پر بالٹی رکھتے ہوئے وہ چیخا، دیکھو، ساتھیو دیکھو، کائی میں لپٹے ہوئے جنگلی سیب، جنگلی سیب اُدھر دیکھو۔
کیپٹن نے سمندر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
’’سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں جنگلی سیب ….. ہم نہیں مر سکتے ….. ہم نہیں مر سکتے ….. بیڈگر! ہم زندہ رَہیں گے ….. ہم زندہ رَہیں گے۔‘‘
بیڈگر اور دُوسرے ملاح نے سمندر کی سطح کو غور سے دیکھا۔ ہزاروں جنگلی سیب کائی میں پھنسے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
خِطۂ سارگاسو کے پُرسکون پانی پر قدرت نے اُنھیں اتنی خوراک مہیا کر دی تھی جو ایک فوج کے لیے بھی کافی تھی۔
کیپٹن سزینو اور دُوسرے ملاح تمام دن بالٹیوں میں جنگلی سیب جمع کرتے اور عرشے پر ڈھیر لگاتے رہے۔
اِس کے علاوہ اُنھوں نے سمندر میں جال پھینک کر کئی رنگ برنگی مچھلیاں بھی پکڑیں۔
اُن کے ٹکڑے کیے اور نمک لگا کر دھوپ میں خشک کرنے لگے۔
وقت آہستہ آہستہ گزرتا رہا۔ صبح ہوتی، سورج چمکتا، پھر شام کے سائے گہرے ہو جاتے اور تاریک رات چھا جاتی۔ ’پولی‘ اپنی جگہ ساکت کھڑی تھی۔
پانی کشید کرنا، جنگلی سیب جمع کرنا اور مچھلیاں پکڑ کر سُکھانا اُن کا معمول بن گیا۔
وہ اَپنے ماحول سے بےنیاز کام میں لگے رہتے۔
یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اِسی کشتی میں پیدا ہوئے ہیں اور یہیں زندگی گزر جائے گی۔ بعض اوقات تو اُنھیں خشکی تک پہنچنے کا خیال بھی نہ آتا۔
اب تو خِطۂ سارگاسو ہی اُن کی دنیا بن چکا تھا جہاں حدِنظر تک کائی، خودرو گھاس اور پانی پھیلا ہوا تھا اور اُوپر نیلے آسمان کی وسعتیں …..
اب خوراک اور پانی کی کوئی کمی نہ تھی، لیکن اُن کا تیسرا ساتھی، سویڈن کا رہنے والا ملاح، روز بروز کمزور ہوتا جا رہا تھا۔
اُسے سانس لیتے ہوئے سینے میں شدید درد محسوس ہوتا اور آخر ایک شام جب اندھیرا گہرا ہو رہا تھا، اُس نے آخری ہچکی لی اور ’پولی‘ کشتی پر اپنے دونوں ساتھیوں کو مصائب کا مقابلہ کرنے کے لیے چھوڑ کر اگلے جہان روانہ ہو گیا۔
مرنے کے بعد اُس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور یوں نظر آتا تھا جیسے اُس کی آنکھوں کو اب بھی خشکی پر پہنچ جانے کا انتظار ہے۔
اب صرف کیپٹن سزینو اور ملاح بیڈگر باقی رہ گئے تھے۔
وہ دونوں تمام دن کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے۔ مچھلیاں پکڑ کر دھوپ میں خشک کرتے، پانی کشید کرتے اور سایہ بان کو بڑا بناتے رہتے۔
حالانکہ سایہ بان کے نیچے بیٹھنے والے ساتھی اُن سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ چکے تھے، لیکن اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے وہ کام کرتے اور آخر تھک کر سو جاتے۔
ایک دن صبح وہ دونوں یوں ہی عرشے پر کھڑے دور تک پھیلے ہوئے سمندر کو دیکھ رہے تھے۔ چھوٹی چھوٹی لہریں اٹھ رہی تھیں جن سے کہیں خودرو گھاس اور کائی کہ تہ پھٹ رہی تھی۔
اُنھوں نے خوشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اُنھیں امید بندھ گئی کہ اب جلد ہی ’پولی‘ خِطۂ سارگاسو کی قید سے رہا ہو کر کھلے سمندر میں پہنچ جائے گی۔
’پولی‘ آہستہ آہستہ تیرنے لگی۔ کائی کے بڑے بڑے ٹکڑے دور دُور تک بہہ رہے تھے۔
’’ہم سارگاسو کی قید سے آزاد ہو گئے ہیں۔‘‘ بیڈگر نے خوشی سے کہا۔
’’لیکن ہم جنگلی سیبوں جیسی شیریں خوراک سے بھی تو محروم ہو گئے ہیں۔‘‘
کیپٹن سزینو کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔
اُس نے پانی پر بہتے ہوئے ہزاروں جنگلی سیبوں پر نظر ڈالی اور کہا:
’’یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لیے سارگاسو کی قید بہتر تھی یا کھلے سمندر میں کشتی کا تیرنا بہتر ہے جہاں خوراک ملنے کا امکان کم ہی ہے۔‘‘
’’ہمارے پاس کافی جنگلی سیب اور سُوکھی مچھلیاں ہیں۔‘‘ بیڈگر نے پُراعتماد لہجے میں جواب دیا۔
کیپٹن سزینو نے مایوسی سے سر ہلایا۔ ’’بیڈگر! آخر یہ جنگلی سیب اور سُوکھی مچھلیاں کب تک ساتھ دیں گی؟
اِن کے سہارے ہم اِس سمندر میں کب تک زندہ رَہیں گے۔
میرا اندازہ ہے کہ ہم تجارتی جہازوں کے راستے پر ہیں۔
شاید ہم راس اُمید اور اَنگریزی بندرگاہوں کے درمیان کسی جگہ سفر کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کوئی گزرتا ہوا جہاز ہمیں دیکھ لے۔
جون کا پہلا ہفتہ تھا۔ وہ دونوں تمام دن عرشے پر کھڑے افق پر نظریں گاڑے کسی جہاز کو تلاش کرتے۔
ایک دن اُنھوں نے بہت دور چند جہاز دیکھے، لیکن ’پولی‘ کا کوئی بادبان تھا اور نہ مستول جسے دیکھ کر جہاز مدد کو پہنچتا۔
یہ جہاز بھی گزر گئے۔ زندگی کا دامن ایک بار پھر ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
۱۹ جون تک ’پولی‘ اپنی جائے حادثہ سے تقریباً دو ہزار میل دور جزیرہ کنیرے کے قریب سرگرمِ سفر تھی۔
اِس حساب سے ’پولی‘ نے ایک مہینے میں تین سو میل طے کیے۔
ایک دن میں صرف دس میل۔ چھ مہینے گزر چکے تھے۔
عملے کے سات آدمیوں میں سے صرف دو ایڑیاں رگڑنے کے لیے باقی تھے۔
۲۰ جون کی صبح حسبِ معمول طلوع ہوئی۔ کیپٹن سزینو کی نظریں کسی جہاز کی تلاش میں افق پر لگی ہوئی تھیں اور پھر جیسے اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
اُس نے غور سے دیکھا، تقریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تین جہاز رواں تھے جن کے مستول پر سرخ اور نیلے برطانوی جھنڈے ہوا میں لہرا رَہے تھے۔
’’جہاز ….. تین برطانوی جہاز …..‘‘ کیپٹن سزینو خوشی سے چیخا۔
جہازوں کو دیکھتے ہی بیڈگر کی حالت ایک دم تبدیل ہو گئی۔
وہ کیپٹن کے قریب کھڑا اَپنے دونوں بازو اُوپر اٹھا کر پوری قوت سے چیخنے لگا۔ کیپٹن سزینو بھی چیخ چیخ کر تھک گیا تھا۔
کمزوری کی وجہ سے اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا اور وُہ عرشے کے ٹوٹے ہوئے چھجے کا سہارا لیتے ہوئے بیٹھ گیا۔
اُس کے کانوں میں سائیں سائیں کی آوازیں گونج رہی تھیں اور ٹانگیں بری طرح کانپ رہی تھیں۔
اُن کی منزل قریب آ رہی تھی، فرطِ جذبات سے اُنھیں کچھ سُجھائی نہ دے رہا تھا۔
تینوں جہاز نزدیک پہنچ گئے۔ اُن کے اوپر بلاشبہ برطانوی جھنڈے لہرا رَہے تھے۔ کیپٹن سزینو اور بیڈگر کے دل دھڑک اُٹھے اور وُہ دِیوانوں کی طرح جہازوں کو دیکھنے لگے۔
برطانوی جہاز ’فیم‘ کے عرشے پر کھڑے ہوئے کیپٹن فیدر سٹون نے اشارہ کیا، لیکن کیپٹن سزینو پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا تھا۔
وہ چند لمحے غور سے کیپٹن فیدر سٹون کو دیکھتا رہا اور پھر دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے ہچکیاں لے لے کر رونے لگا۔
کیپٹن سزینو کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ خوشی کے آنسو، تشکر کے آنسو!
ایک چھوٹی سی کشتی ’فیم‘ جہاز سے اتاری گئی اور جلد ہی کیپٹن سزینو اور بیڈگر ’فیم‘ جہاز پر پہنچ گئے۔
’پولی‘ کو چھوڑتے ہوئے سزینو نے چند لمحے غور سے عرشے کو دیکھا اور پھر چھوٹی کشتی پر سوار ہو گیا اور ’فیم‘ جہاز کی طرف دیکھنے لگا۔
اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دو قطرے نکلے اور اُس کی ڈاڑھی میں جذب ہو گئے۔
کیپٹن سزینو کو یوں محسوس ہوا جیسے اُس کے بچھڑے ہوئے ساتھی اصل میں آج ہی اُس سے جدا ہوئے ہیں۔
فیدر سٹون نے فوراً گرم پانی کا انتظام کروایا۔
نہانے، دھونے اور کپڑے بدلنے کے بعد آج سزینو نے چھے مہینے بعد بیڈگر کے ساتھ مل کر لذیذ اور تازہ کھانا کھایا۔
اُسے رہ رہ کر اپنے بچھڑے ہوئے ساتھی یاد آنے لگے۔
کیپٹن فیدر سٹون نے رات کے وقت تینوں کپتانوں کے اعزاز میں دعوت دی۔ بہت دیر تک برطانوی جہازوں کے کپتان، سزینو اور بیڈگر سے دل ہلا دینے والے واقعات سنتے رہے۔
اپنے ساتھیوں کی موت کا ذکر کرتے ہوئے کئی دفعہ سزینو کی آنکھوں میں آنسو تیر گئے۔
چند دنوں بعد کیپٹن سزینو اور بیڈگر کو ’ڈرومو‘ نامی کشتی کے ذریعے بوسٹن بھیج دیا گیا۔ گھر پہنچنے پر اُن کا شاندار اِستقبال ہوا۔
بوسٹن پہنچنے پر اُنھیں معلوم ہوا کہ ’پولی‘ کے متعلق یہ خبر عام مشہور ہو چکی تھی کہ وہ گم ہے اور خیال ہے کہ ڈوب چکی ہے۔
’پولی‘ کے دو ہزار میل طویل سفر اور کیپٹن سزینو اور بیڈگر کا بچ جانا اُن دنوں بوسٹن کی کئی بندرگاہوں پر گفتگو کا عام موضوع بنا رہا۔
اُنہی دنوں کیپٹن سزینو اور بیڈگر دوبارہ ایک نجی جہاز میں ملازم ہو گئے۔
جس وقت کیپٹن سزینو اور سیمول بیڈگر کو بچایا گیا، اُس وقت ’پولی‘ افریقا کے مغربی ساحل سے تھوڑے فاصلے پر ۲۸ درجہ عرض بلد اور ۱۳۰؍درجہ طول بلد پر سفر کر رہی تھی، لیکن اُسے دوبارہ تجارتی جہازوں نے کبھی نہیں دیکھا۔
بےشک ’پولی‘ کی آخری منزل سمندر کی اتھاہ گہرائی ہی ہو سکتی ہے، لیکن یہ بھی ممکن ہے چھے ماہ تک طوفانوں سے لڑنے والی ’پولی‘ کبھی نہ ڈوبے اور سمندر کی زبردست موجوں کے تھپیڑے کھاتی ہوئی برِاعظم افریقا کے ساحل پر آ لگے۔