31 C
Lahore
Tuesday, April 30, 2024

Book Store

muaawza| معاوضہ|Maqbool Jahangir| tribesman

معاوضہ


Tribesman story

مقبول جہانگیر

کرسٹوفر الیگزینڈر پیلیٹ کی کُل کائنات چار چیزیں تھیں جن کا وہ بلاشرکتِ غیرے مالک تھا۔
نام جو اُس کے وجود سے چسپاں تھا۔
ایک سُوٹ جسے وہ پہن کر سوتا بھی تھا۔ رخساروں پر بھورے بھورے بال اور شراب کی کبھی نہ بجھنے والی تشنگی۔ اِن کے علاوہ کائنات کے اِس دائرے سے باہر ایک دوست بھی تھا۔
جزیرہ فوفوٹی میں دوستی کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی خصوصیت لازمی تھی۔
طاقت، چٹکلے بازی یا غنڈہ گردی کے بغیر دوست کا ملنا آسان نہ تھا۔
کرسٹوفر اِن تینوں صفات سے محروم تھا، اِس لیے اُس کی اور نیگرو کاراکی کی دوستی کو لوگ تعجب سے دیکھتے تھے۔

کرسٹوفر مرنجان مرنج آدمی تھا۔ وہ کبھی کسی سے لڑتا جھگڑتا نہ تھا۔ اُس نے کبھی گھونسا نہیں تانا تھا۔
دراصل اُس کے علم ہی میں نہ تھا کہ خدا نے سفید فام نسل کو پاؤں اِسی لیے عطا کیے ہیں کہ وہ کالوں کو ٹھوکریں لگائیں۔
وہ خود کے سوا کسی کو کوستا بھی نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ چینی شراب فروش مائے جیک کو دل ہی دل میں برا بھلا کہہ لیتا جو اُسے نہایت گھٹیا برانڈی مہیا کرتا۔

کرسٹوفر ذریعہ معاش کی پابندی سے آزاد تھا۔ دراصل اُس کی ضروریاتِ زندگی محدود تھیں۔
دن میں ایک آدھ بار کھانا اور شراب کی ایک بوتل۔ گھر بار کا جنجال نہ تھا۔
جہاں ٹھکانہ ملتا، سو رہتا۔ وہ عرصۂ دراز سے گداگروں کی سی زندگی گزار رَہا تھا۔
کبھی کبھار مائے جیک کو مٹھی بھر ننھے ننھے موتی لا دیتا جس کے عوض وہ اُسے ہر روز باسی ڈبل روٹی کے چند ٹکڑے، بچا کھچا شوربا اور گاہکوں کے گلاسوں سے بچی برانڈی دے دیا کرتا تھا۔
اِس سودے میں مائے جیک کے وارے نیارے تھے، لیکن وہ بھی ایک ہی کائیاں تھا۔
اُسے معلوم تھا کہ کرسٹوفر یہ موتی خود کہیں سے نہیں لاتا تھا بلکہ کاراکی اُس کی خاطر سمندر کی تہ میں غوطے لگا کر اُنھیں نکالتا تھا۔
اُسے کرسٹوفر کو مفت میں برانڈی دیتے کوفت ہوتی تھی۔
وہ تھوڑے سے تمباکو کے عوض کاراکی سے براہِ راست لین دین کرنا چاہتا تھا، لیکن کاراکی عجیب اُجڈ آدمی ثابت ہوا۔
مائے جیک کی تجویز کے جواب میں اُس نے اُسے بری طرح گھور کر دیکھا کہ ٹھگنا چینی تھرّا کر رہ گیا۔
اُس وقت سے وہ کاراکی سے خائف سا رہنے لگا تھا۔
تاہم وہ کھل کر اُس سے کچھ کہہ نہ سکتا تھا۔ اِس طرح موتیوں سے ہاتھ دھونے کا خدشہ تھا۔

کاراکی بوگین ولے کے مردم خور قبائل سے تعلق رکھتا تھا۔ اُسے کسی طاقت ور سردار نے ایک تجارتی کمپنی کے ہاتھ تین سال کے لیے تمباکو اور کچھ رقم کے عوض فروخت کر دیا تھا۔
اِس سودے بازی میں کاراکی کی خواہش اور منشا کو کوئی دخل نہ تھا۔
اُن قبائل میں یہی دستور تھا۔ تین سال بعد اُسے اپنے وطن لَوٹ جانے کی اجازت تھی۔
اُس جگہ بھی اُس کی حیثیت ایک سامان ڈھونے والے جانور سے زیادہ نہ تھی۔
سیاہ فام ہونے کی وجہ سے مقامی باشندے اُسے ناپسند نہیں کرتے تھے، تاہم وہ اُسے زیادہ اَہمیت دینے پر آمادہ نہ تھے۔
یہی وجہ تھی کہ وہ اُس کی اور کرسٹوفر کی دوستی کو اچنبھے کی نظروں سے دیکھتے تھے۔
کاراکی چھوٹے سے قد کا جفاکش اور پھرتیلا نوجوان تھا۔
وہ خاموش طبع تھا اور شاذ ہی کوئی بات کرتا۔ سر پر چھوٹے چھوٹے گھنگھریالے بالوں کا جُھنڈ تھا۔
آنکھیں چھوٹی چھوٹی اور دَھنسی ہوئی تھیں۔ وہ ہر وقت کمر کے گرد ایک سرخ کپڑا باندھے رہتا تھا۔

آفتاب نصف النہار پر تھا۔ کاراکی اپنے ناریل کے پتّوں سے بنے چھجے والی کُٹیا میں بیٹھا اونگھ رہا تھا۔
دفعتاً اُس کے کانوں میں آواز آئی:

’’کہاں مر گیا کالیا؟ اپنے یار کو سنبھال آ کر، خرمستی کر رہا ہے۔‘‘

اُس کی نظر مائے جیک کی دکان پر پڑی۔ کرسٹوفر نشے میں دھت، ڈگمگاتا ہوا نکل رہا تھا۔
مائے جیک نے اُسے سہارا دَینے کے بجائے دھکیل دیا اور وُہ لڑکھڑاتا ہوا زمین پر منہ کے بَل گر پڑا۔
کاراکی اٹھا اور اُس کے قریب خاموشی سے جا کھڑا ہوا۔
پھر اُس نے جھک کر کرسٹوفر کے بازو اَپنی پشت پر رکھے اور اُسے بچے کی طرح اٹھا لایا۔

وہ اُسے اپنی کُٹیا میں لے آیا اور نہایت آہستہ سے چارپائی پر لٹا دیا۔
پھر وہ بالٹی میں پانی لایا اور کرسٹوفر کے سر اور منہ کو دھونے لگا۔
کرسٹوفر اب بھی مدہوشی کے عالم میں تھا۔ کاراکی نے اُس کا سر اور چہرہ ایک مَیلے کپڑے سے خشک کیا۔
پھر صندل کی کنگھی اُس کے سر اَور ڈاڑھی میں پھیرنے لگا۔
ساتھ ہی وہ مکھیاں بھی اُڑاتا جاتا تھا جو کرسٹوفر کے منہ پر بھنبھنا رہی تھیں۔
آفتاب کی روپہلی کرنوں میں کرسٹوفر کے سر اور ڈاڑھی کے بال سونے کے تاروں کی طرح دمک رہے تھے۔
کاراکی کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں مسرّت اور اِضطراب کے ملے جلے جذبات سے چمک رہی تھیں۔
یوں لگتا تھا جیسے اُس کی نظروں کے سامنے بیش بہا خزانہ ہے۔
اُس کی حریصانہ نظریں کرسٹوفر کے بھورے بالوں پر گڑی تھیں۔

آفتاب دھیرے دھیرے سفر کی منزلیں طے کر رہا تھا۔ ساری فضا اونگھتی نظر آ رہی تھی۔ ہوا میں گرمی تھی۔
اُس وقت جزیرے بھر میں ہُو کا عالم طاری ہو جاتا تھا۔
ہر طرف سنّاٹا چھا جاتا تھا۔ تجارتی کمپنی کا عملہ لکڑی کی بارکوں میں آرام کرتا اور مزدور بھی گھڑی دو گھڑی کمر سیدھی کر لیتے تھے۔

جزیزہ سنسان تھا۔ دور دُور تک کوئی متنفس نظر نہ آتا تھا۔ مائے جیک کی دکان پر بھی اُلّو بول رہا تھا۔
وہ بھی اپنی بوتلوں کے پیچھے، سٹول پر بیٹھا اونگھ رہا تھا۔
کاراکی کا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔ ہوائیں جنوب مشرق کی سمت چل رہی تھیں جس سے سمندر کی لہروں کا رُخ بدل گیا تھا۔
وہ مدت سے اِس سنہری موقعے کا منتظر تھا۔ اُسے اپنے خواب پورے ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔
اُس کی چھوٹی چھوٹی دھنسی ہوئی آنکھیں عزم سے چمک رہی تھیں۔

وہ اُٹھا اور کُٹیا سے باہر نکل آیا۔ اِدھر اُدھر نظر ڈالی اور کمپنی کے دفتر کی طرف بڑھا۔ دفتر خالی تھا۔
اُس نے دیوار پر لٹکے ایک فریم کو ہٹایا۔
اُس کے پیچھے ایک چھوٹا سا طاق تھا جس میں ایک بڑی سی کنجی رکھی تھی۔
کاراکی پہلے ہی ٹوہ لگا چکا تھا۔ وہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کام کر رہا تھا۔
کنجی لے کر وہ کمپنی کے گودام کی طرف بڑھا۔ دروازے پر لگا قفل کھل گیا، تو وہ دَبے پاؤں اندر دَاخل ہوا۔
گودام مختلف اشیاء سے بھرا پڑا تھا۔
اُس کی متجسّس نظروں نے چشمِ زدن میں اُن کا جائزہ لیا اور اُس کے ہاتھ تیزی سے کام کرنے لگے۔
پہلے تو اُس نے تین قیمتی پردے، تمباکو کے دو ڈبّے، چند چاقو اور ایک تیز دھار وَالی کہلاڑی منتخب کی۔
اُنھیں ایک طرف رکھا۔
پھر اُس نے تین عمدہ رائفلیں اور کارتوسوں کی ایک پیٹی اٹھائی، اُنھیں بھی دوسرے مالِ غنیمت کے ساتھ رکھا اور کلہاڑی لیے دبے پاؤں گودام سے نکلا۔
چند ثانیے وہ حالات کا جائزہ لیتا رہا، پھر چپکے سے دفتر کی پشت پر پہنچا۔۔
اُس جگہ کئی کشتیاں بندھی تھیں۔ کاراکی نے کلہاڑی کی مدد سے اُن کی تہ میں شگاف کرنے شروع کیے۔
چند منٹوں میں ساری کشتیاں ناکارہ ہو چکی تھیں۔
اب اُس کے چہرے پر اطمینان جھلک رہا تھا۔ وہ تقریباً دوڑتا ہوا سمندر کی طرف گیا۔
کنارے پر ایک بڑی سی کشتی لنگرانداز تھی۔
اُس نے اُس کا اچھی طرح جائزہ لیا، پھر دوڑتا ہوا دفتر میں پہنچا۔
تین پھیروں میں اُس نے سارا سامان کشتی میں لاد دِیا۔ اِس سے فارغ ہو کر وہ کُٹیا میں پہنچا۔
کرسٹوفر ہنوز بےہوش تھا۔ کاراکی اُس کے پہلو میں بیٹھ گیا اور اُسے ہلانے جلانے لگا۔

’’مسٹر او مسٹر! اٹھو، جلدی کرو، جلدی۔‘‘

الفاظ اُس کے منہ سے ہمیشہ کی طرح ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے۔ کرسٹوفر ٹس سے مَس نہ ہوتا تھا۔
کاراکی نے اِدھر اُدھر دیکھا اور چلّو میں پانی لا کر اُس کے منہ پر چھینٹے مارنے لگا۔
اِس پر بھی کرسٹوفر نے جنبش نہ کی، تو اُس نے اُسے پھر بازوؤں پر اُٹھا لیا اور سمندر کی طرف لے چلا۔

کرسٹوفر کو کشتی میں لٹا کر وہ کُٹیا میں آیا۔ چاول کی ایک بوری اور آلوؤں کا تھیلا اٹھایا اور گردوپیش پر نظریں دوڑانے لگا۔
اُس کی نظر پانی کے ڈرم اور بسکٹوں کے ڈبے پر پڑی۔ اُس نے بوری سر پر اور تھیلا پشت پر رکھا۔
بسکٹوں کے ڈبے کے کونے کو دانتوں سے پکڑا اَور ڈرم ہاتھوں میں اٹھائے، کُٹیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گیا۔

کشتی میں اِن چیزوں کو رکھ کر اُس نے چپّو سنبھالے اور تیزی سے چلانے لگا۔
ہوا حسبِ توقع موافق تھی۔ کشتی سمندر کا سینہ چیرتی تیزی سے بہنے لگی۔
جزیرہ دُور ہوتا جا رہا تھا اور کشتی سمندر کی کھلی آغوش میں ہچکولے کھا رہی تھی۔
کاراکی نے صرف ایک مرتبہ پلٹ کر جزیرے کی طرف دیکھا اور ہمیشہ کے لیے منہ پھیر لیا۔
جزیرے میں کسی نے اُنھیں جاتے نہیں دیکھا۔

دن ڈھل رہا تھا۔ آفتاب سمندر کی گود میں منہ چھپانے کو تھا۔ شفق کی سرخی لہروں کے منہ پر غازہ مَل رہی تھی۔ ہوا میں خنکی آ گئی تھی۔ محیط پر سکوت کا تسلّط تھا۔
صرف چپّوؤں کی آواز اُس سکوت کو توڑتی ہوئی زندگی کے آثار کا پتا دے جاتی تھی۔
کشتی نامعلوم منزل کی طرف تیزی سے بڑھ رہی تھی۔
اچانک کرسٹوفر بڑبڑایا اور کاراکی نے اُس کی طرف دیکھا، لیکن خاموش رہا۔
کرسٹوفر انگڑائی لے کر اُٹھ بیٹھا۔ اُس نے آنکھیں مَلتے ہوئے چاروں طرف دیکھا اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے چلّایا:

’’کاراکی!‘‘

کاراکی نے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں اپنے دوست کی طرف گھمائیں اور منہ سے کچھ نہ بولا۔

’’یہ سب کیا ہے، ہم کہاں جا رہے ہیں؟ تم …..‘‘ کرسٹوفر گلا پھاڑ کر چلّایا۔

’’مسٹر! خاموش رہو۔‘‘ کاراکی نے غالباً زندگی میں پہلی مرتبہ تحکمانہ لہجے میں کہا۔
دوسرے ہی لمحے اُس کا لہجہ بدل گیا اور وُہ پیار سے بولا:

’’کچھ کھا لو، تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ہے۔‘‘

’’جہنم میں جاؤ۔‘‘ کرسٹوفر جھلّایا۔ ’’مجھے برانڈی چاہیے۔‘‘

’’برانڈی نہیں مل سکتی۔‘‘ کاراکی نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔

’’لیکن تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟‘‘ کرسٹوفر نے بےبسی سے کہا۔

’’مَیں تمہیں اپنے گھر لے جا رہا ہوں۔‘‘ کاراکی نے مختصراً جواب دیا اور تیزی سے چپّو چلانے لگا۔

’’لیکن آخر کیوں …..؟‘‘ کرسٹوفر نے حیرانی سے پوچھا۔

’’تم یہاں بہت ذلیل ہو چکے ہو۔‘‘ کاراکی نے ٹھہری ہوئی آواز میں کہا۔

کرسٹوفر غصّے سے ہونٹ چبانے لگا۔ کاراکی لاپروائی سے چپّو چلاتا رہا۔ تاریکی تیزی سے بڑھتی آ رہی تھی۔
کرسٹوفر کو بھوک محسوس ہونے لگی۔
اُس نے لپک کر بسکٹوں کا ڈبا اُٹھایا اور اُسے کھول کر بیک وقت تین بسکٹ کھانے ہی کو تھا کہ کاراکی بولا:

’’مسٹر! تھوڑا تھوڑا کھاؤ، نہ جانے کتنے دن کا سفر ہو۔‘‘

کرسٹوفر کا ہاتھ رک گیا اور وُہ اُسے گھورنے لگا۔ نیم تاریکی میں کاراکی کا چہرہ صاف نظر آ رہا تھا۔
کرسٹوفر نے تین بسکٹ کھائے اور پانی پیے بغیر لیٹ گیا۔ کشتی چلتی رہی۔

معاوضہ|muaawza| Maqbool Jahangir|www.shanurdu.com
معاوضہ|muaawza| Maqbool Jahangir|www.shanurdu.com

کشتی رات بھر چلتی رہی۔ کرسٹوفر مزے سے سوتا رہا۔ کاراکی چپّو چلاتا رہا۔ رات بِیت گئی۔
آفتاب نے سمندر کی گود سے منہ نکالا اور دو بےیار وَ مددگار مسافروں کو دیکھنے لگا۔
ایک سو رہا تھا، دوسرا جاگ رہا تھا۔
ایک کی آنکھیں بند تھیں، دوسرے کی کسی اَنجانی مسرّت سے چمک رہی تھیں۔
اُس نے جب اپنی گرم گرم کرنیں بند آنکھوں پر پھینکیں، تو وہ کھل گئیں۔

کرسٹوفر پہلے تو آنکھیں کھولے حالات کا جائزہ لیتا رہا۔ جو کچھ ہو رہا تھا، وہ اُس کی سمجھ سے بالاتر بھی تھا اور دَسترس سے باہر بھی۔ پھر وہ اُٹھ بیٹھا اور اِستفہامیہ نظروں سے کاراکی کو دیکھنے لگا۔

’’آلو میٹھے ہیں، کھا لو۔‘‘ کاراکی نے جذبات سے عاری لہجے میں کہا۔

’’مجھے برانڈی چاہیے۔‘‘ کرسٹوفر نے پھر مطالبہ دہرایا۔

کاراکی نے چپّو ہاتھ سے رکھ دیے۔ چاقو اٹھایا اور ایک ناریل چھیلنے لگا۔
پھر اُس نے اُس میں سوراخ کیا اور کرسٹوفر کی طرف بڑھا دیا۔
کرسٹوفر نے ناریل منہ سے لگا لیا۔ اُس کا پانی پی کر اُسے تسکین محسوس ہوئی، گویا نشہ آ گیا۔
اُس نے مسکرا کر کاراکی کو دیکھا اور وُہ بھی مسکرانے لگا۔

’’ہم کب تک تمہارے گھر پہنچ جائیں گے؟‘‘ اُس نے دوستانہ رویّہ اختیار کر لیا۔

’’معلوم نہیں!‘‘ کاراکی نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ کرسٹوفر مایوسی سے سمندر کی طرف دیکھنے لگا۔ دن چڑھ گیا تھا، پھر دوپہر ہو گئی اور اُس کے بعد شام۔ اِس تمام عرصے میں کاراکی بلاتکلف چپّو چلاتا رہا۔
کرسٹوفر کتنے ہی آلو کھا گیا اور کئی خالی ناریل پانی میں پھینک دیے۔ اُسے خیال تک نہ آیا کہ کاراکی نے بھی کچھ کھایا ہے یا نہیں۔ پیاس اُسے بھی لگ سکتی ہے، وہ چپّو چلا چلا کر تھک بھی سکتا ہے۔

https://shanurdu.com/wo-kya-bechta-tha/

رات ہو گئی اور کرسٹوفر سو گیا۔ کشتی رات بھر چلتی رہی۔ صبح کرسٹوفر کی آنکھ کھلی، تو کشتی ایک چٹان سے بندھی کھڑی تھی۔
کاراکی غائب تھا۔ اُس نے گھبرا کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ کشتی ایک ویران جزیرے کے کنارے تھی۔ وہ اُتر کر زمین پر آیا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔
ایک جگہ دھواں اُٹھتا نظر آیا۔ وہ اُس طرف بڑھا۔ قریب پہنچا، تو کیا دیکھتا ہے کہ کاراکی مچھلی آگ پر بھون رہا ہے۔
خوشبو سے کرسٹوفر کی اشتہا چمک اٹھی۔ وہ چشمِ زدن میں مچھلی چٹ کر گئے۔

’’کاراکی! تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تمہارا گھر کس طرف ہے؟‘‘ کرسٹوفر نے شفقت سے پوچھا۔

جواب میں کاراکی نے انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا اور منہ سے کچھ نہ بولا۔
دونوں چپ چاپ کشتی میں آ بیٹھے اور کاراکی نے چپّو سنبھال لیے۔

دوسرا دِن بھی گزر گیا۔ تیسرا اور چوتھا بھی۔ بسکٹوں کا ڈبا تو پہلے ہی دن خالی ہو چکا تھا۔ آلوؤں کا تھیلا بھی خالی ہو گیا۔
کرسٹوفر نے کچے چاول چبانے شروع کیے، لیکن پیٹ میں اِس شدّت کا درد محسوس ہوا کہ اُس نے کچے چاول کھانے سے توبہ کر لی۔
لے دے کر ناریل رہ گئے تھے۔ وہ بھی دو چار۔ کرسٹوفر اُن ہی پر گزارہ کر رہا تھا، لیکن کاراکی اُنھیں چُھوتا بھی نہ تھا۔
بسکٹ اور آلو بھی کرسٹوفر تنہا کھا گیا تھا۔ اُس نے کاراکی سے جب بھی کھانے کو کہا، وہ اِنکار کرتا رہا۔
کرسٹوفر کو حیرت تھی کہ کچھ کھائے پیے بغیر، وہ اِتنی مشقت کس طرح کرتا ہے۔
اُس کا تو یہ حال تھا کہ مکمل فاقہ نہ ہونے کے باوجود نقاہت کے مارے ٹھیک سے بیٹھ بھی نہ سکتا تھا۔

سب سے زیادہ حیرت اُسے شراب چُھٹ جانے سے ہوتی تھی۔ اُسے یقین تھا کہ وہ مرتے دم تک شراب چھوڑ نہیں سکتا تھا۔
کسی دن اگر اُسے ایک آدھ گھونٹ نہ ملتا،تو اُس کا دل خودکشی کر لینے کو چاہتا۔ لیکن اب کئی دن ہو چکے تھے، وہ شراب کی قطعاً حاجت محسوس نہیں کر رہا تھا۔
یہ کیسا انقلاب آ گیا تھا؟ اُسے شراب کی جگہ ناریل کے پانی میں وہ لطف آ رہا تھا کہ وہ بیان نہیں کر سکتا تھا۔
وہ خدا کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اِس لعنت سے نجات مل گئی جس کی وجہ سے محض ذلّت اور رُسوائی تھی۔
وہ اِسے کاراکی کا اِحسان سمجھ رہا تھا کہ اُس نے اُسے خدا کی اِس نعمت سے بہرہ ور کرایا۔
اُس کے دل میں کاراکی کا درجہ کئی گنا بلند ہو گیا۔

https://shanurdu.com/bhatakti-rooh/

اب ناریل بھی ختم ہو گئے تھے۔ دور دُور تک کوئی زمین نظر نہ آتی تھی۔
کاراکی نے سمندر کے نمکین پانی میں چاول اُبالے اور کرسٹوفر کو کھلا دیے۔ خود اُس نے ایک دانہ بھی نہ چھوا۔
ایک ہفتہ گزر چکا تھا، لیکن کاراکی کے عزم و اِستقلال میں بال برابر بھی فرق نہ آیا تھا۔
کرسٹوفر اُس کی بلندحوصلگی پر اش اش کر رہا تھا۔ وہ اُسے اِس وقت دنیا کا بلند ترین انسان سمجھ رہا تھا جو خود بھوکا رہ کر اُسے زندہ رَکھ رہا تھا۔
کاش! وہ اِس احسانِ عظیم کا بدلہ چکا سکتا، لیکن وہ تو زندگی سے نااُمید ہو چلا تھا۔
منزل کا نام و نشان نظر نہ آتا تھا۔ اُسے یقین ہو چلا تھا کہ کاراکی خود بھوکا رہ کر اُسے چاول کھلا سکتا ہے، لیکن اُسے موت کے منہ سے بچا نہیں سکتا۔
پھر اُسے خیال آیا کہ یہ دوستی کا کون سا مقام ہے؟ وہ کاراکی کے اِس جذبے کو کیا نام دے؟
کیا یہ جذبہ کسی اور اِنسان میں بھی ہو سکتا ہے؟ وہ سوچ میں غلطاں تھا کہ کاراکی چلّا اٹھا:

’’مسٹر! وہ دیکھو۔‘‘

اور کرسٹوفر نے اُس کی انگلی کی سیدھ میں بہت سے پرندوں کو منڈلاتے دیکھا۔

’’وہ زمین ہے۔‘‘

کاراکی خوشی سے بولا اور کرسٹوفر کی جان میں جان آئی۔ کاراکی تیزی سے چپّو چلانے لگا۔
زمین دیکھتے ہی اُس کے بازوؤں میں بَلا کی طاقت آ گئی تھی۔ کرسٹوفر نے سوچا کہ اگر وہ اُس کی جگہ ہوتا، تو متواتر فاقوں سے کب کا راہیٔ ملکِ عدم ہو چکا ہوتا۔
وہ بےچینی سے پرندوں کو دیکھنے لگا۔ کچھ دیر بعد اُسے بھی زمین نظر آ ہی گئی۔ وہ مارے خوشی کے لہک لہک کر گانے لگا۔
اُس کی بےسُری آواز پانی کی لہروں کو بھی شاق گزر رَہی ہو گی، کیونکہ وہ سست رفتاری سے بہنے لگی تھیں۔ تاہم اِس سست رفتاری سے کاراکی بےحد خوش تھا۔
اُسے معلوم تھا کہ جُوں جوں ساحل قریب آتا ہے، لہریں سست پڑتی جاتی ہیں۔

اچانک وہ چلّایا:
’’میرا گھر، میرا گھر!‘‘ اُس نے چپّو پھینک دیے اور کھڑا ہو گیا۔
کشتی ہچکولے کھانے لگی۔ کرسٹوفر نے لپک کر چپّو سنبھال لیے اور اُلٹے سیدھے ہاتھ مارنے لگا۔ وہ جانتا تھا کہ کاراکی کی مسرّت عین فطری ہے۔
اُسے غلامی سے نجات پانے اور منزل ملنے کی دوہری خوشی ہو رہی ہے۔
وہ پُراشتیاق نظروں سے ساحل کی طرف دیکھنے لگا۔
دفعتاً کاراکی نے اُس کے ہاتھ سے چپّو لے لیے اور کشتی کا رُخ موڑنے لگا۔
کشتی ساحل کی سمت بڑھنے کے بجائے اُس کے متوازی چلنے لگی۔

’’یہ کیا کر رہے ہو؟‘‘ کرسٹوفر نے جھلّا کر کہا۔

’’خاموش رہو مسٹر!‘‘ کاراکی نے درشتی سے کہا اور کرسٹوفر دبک گیا۔

کشتی کچھ دیر اِسی طرح چلتی رہی۔ جزیرے کی جھونپڑیاں صاف نظر آ رہی تھیں۔
کہیں کہیں دھواں اُٹھ رہا تھا۔ کاراکی نے کشتی کا رُخ اُس سمت کیا جہاں درختوں کے جُھنڈ تھے۔ کچھ دیر بعد کشتی ساحل سے لگ چکی تھی۔
دونوں اتر کر زمین پر کھڑے ہو گئے۔
کاراکی نے کشتی کو ایک بڑے سے پتھر سے باندھ دیا۔ کرسٹوفر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

جزیرہ سرسبز و شاداب تھا۔ پرندے چہچہا رہے تھے اور فضا رومانی ہو رہی تھی۔ کرسٹوفر کے دل میں اُمنگیں کروٹیں لے رہی تھیں۔
وہ خوشی سے ناچنے لگا اور بےڈھنگے پن سے ناچتا رہا۔ اچانک اُسے کاراکی کا خیال آیا۔
وہ جاننا چاہتا تھا کہ اُس پر اپنے وطن پہنچنے کا کیا ردِّعمل ہوا ہے؟
اُس نے سر گھما کر دیکھا، تو وہ ہاتھ میں کلہاڑی لیے کھڑا اُسے گھور رَہا تھا۔ اُسے اپنی طرف گھورتا دیکھ کر کرسٹوفر کو بےساختہ ہنسی آ گئی۔

’’کیا دیکھ رہے ہو جانِ من؟‘‘ اُس نے شگفتگی سے کہا۔ کاراکی کی آنکھیں چمکنے لگیں۔

’’مسٹر! مجھے تمہارا سر چاہیے۔‘‘ اُس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔

’’میرا سر، خوب! یہ رہا۔ جناب کی خدمت میں حاضر ہے۔‘‘ کرسٹوفر نے اداکارانہ انداز میں سر جھکا کر کہا۔
وہ بدستور ہنس رہا تھا۔

کاراکی کلہاڑی لیے آگے بڑھا اور چشمِ زدن میں کرسٹوفر کا سر خاک و خون میں لَوٹ رہا تھا۔
اُس کا جسم زمین پر تڑپ رہا تھا اور مٹی خون سے سرخ ہو گئی تھی۔
کرسٹوفر کو علم نہ تھا کہ کاراکی نے اُس سے دوستی محض اُس کے سر کے لیے کی تھی۔

وہ اَپنی جان پر کھیل کر اُسے فوفوٹی سے نکال لایا تھا۔
خود بھوکا پیاسا رہ کر اُس کی جان کی حفاظت کرتا رہا تھا۔

اُس کے قبیلے میں ایک سفید فام آدمی کے سر سے زیادہ قیمتی دولت اور کچھ نہ سمجھی جاتی تھی۔
جس شخص کے پاس یہ ہوتا، اُسے قبیلے کا سردار منتخب کر لیا جاتا۔
عورتیں اُس پر پروانہ وار نثار ہوتیں اور بھورے بالوں والے سر کی تو کوئی قیمت ہی متعّین نہ کی جا سکتی تھی۔ کاراکی کو معلوم تھا کہ تین برس کی غلامی کے بعد بھی وطن لَوٹنے پر اُس کی حیثیت ایک غلام سے زیادہ نہ ہو گی۔
اُسے پھر تمباکو اور چند سکّوں کے عوض کسی اور جگہ فروخت کر دیا جائے گا، اِسی لیے اُس نے کرسٹوفر سے دوستی کی۔
اُس کی خاطر سمندر میں غوطے لگا کر موتی لاتا رہا تھا تاکہ وہ زِندہ رَہے۔
وہ دِل ہی دل میں منصوبہ بنا رہا تھا اور آج اُس منصوبے کی تکمیل ہو گئی تھی۔

https://www.oxfordlearnersdictionaries.com/definition/english/tribesman

Related Articles

Stay Connected

2,000FansLike
2,000FollowersFollow
2,000SubscribersSubscribe
گوشۂ خاصspot_img

Latest Articles