نئی روح
عشرت جہاں
موبائل کی گھنٹی بج رہی تھی۔ ساجدہ بیگم نے فریزر سے نکالا گوشت کا پیکٹ بیسن میں رکھا اور متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگیں۔ وہ ہمیشہ موبائل رکھ کر بھول جایا کرتی تھیں۔ مسلسل بجنے والی گھنٹی نے کمرے کی طرف سے ان کی راہ نمائی کی۔ موبائل اُٹھا کر نمبر دیکھے بنا انھوں نے بٹن دبا دیا۔ السلام علیکم کہتے ہوئے انھوں نے رخ موڑا۔
’امی… امی… یہاں آگ لگ گئی ہے۔‘ دوسری طرف اسامہ تھا۔
’’ک… کک… کیا کہاں؟‘‘ وہ حواس باختہ ہو کر بولیں۔
’ہمارے دفتر کی عمارت میں آگ لگ گئی ہے امی۔ اسامہ بات کرتے ہوئے ہانپ رہا تھا۔
’تم… تم کہاں ہو بیٹا؟ وہ چلّائیں۔
’میں دفتر میں ہوں امی۔
’دفتر سے باہر نکلو بیٹا۔ اسامہ دفتر سے فوراً باہر نکل جاؤ۔‘
’امی ہر طرف دھواں بھرا ہوا ہے سانس لینا دوبھر ہو رہا ہے۔‘ اسامہ جیسے رو دینے کو تھا۔ یوں بھی وہ چھوٹے سے دل کا مالک تھا۔ بچپن میں ذرا بھی چوٹ لگی فوراً ماں کے پاس دوڑا آتا۔ جیسے ماں ہی اس کی مسیحا ہو۔ کھیلتے ہوئے انگلی سے معمولی خون بہنے لگتا یا گرنے سے گھٹنا چھل جاتا یا دانت سے خون نکلنے لگتا وہ بھاگ کر ماں کی پناہ میں آ جاتا اور وہ دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی تکلیف کا مداوا کرنے لگتیں۔ یہ احساس بھی کچھ کم خوش کن نہ تھا کہ وہ ننھا سا بچّہ ماں پر انحصار کرتا ہے۔ اس ناگہانی وقت میں بھی اس نے ماں کو پکارا تھا۔
’’اُسامہ غسل خانے میں جا کر پانی کا نلکا کھول دو۔ ہم ابھی آ رہے ہیں۔ تمہارے پاپا آ رہے ہیں بیٹا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انھوں نے لائن کاٹ دی۔ ان کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ دل کی دھڑکن انتہائی بے ربط تھی۔ بے بسی کے احساس نے حواس مختل کر دیے تھے۔ پھُولی سانسوں میں انھوں نے مسعود صاحب کو فون ملایا اَور روتے ہوئے صورتحال کی اطلاع دی۔
’میں جا رہا ہوں تم بس دعا کرو۔‘ کہتے ہوئے وہ دوڑ پڑے۔ اگرچہ یہ اندوہناک خبر سُن کر ٹانگوں کی جان نکل چکی تھی۔ لیکن جان سے پیاری اولاد شعلوں میں گھری تھی، وہ کیسے رک سکتے تھے۔ ’کسے بُلاؤں کسے پکاروں؟‘ ساجدہ بیگم گھر میں چکراتی پھر رہی تھیں۔ گوشت کا پیکٹ جوں کا توں رکھا تھا۔ وہ اسامہ کے لیے ہفتے میں دو بار بریانی پکایا کرتی تھیں۔ ماں کے ہاتھ کی بنی بریانی اسے بہت پسند تھی۔
’بس اب تھوڑے ہی دن رہ گئے ہیں۔ دو ماہ بعد اپنی دلہن کے ہاتھ کی بنی بریانی کھایا کرنا۔‘ انھوں نے صبح ہی صبح اسے چھیڑا تھا۔ وقت بے وقت اس کی شادی کا تذکرہ آج کل ان کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا تھا۔ ہر ملنے جلنے والی سے مشورے ہو رہے تھے۔ کہتے ہیں جس طرح عورت کو پہلی پہلی بار ماں بننے کا چاؤ ہوتا ہے اسی طرح اسے بیٹے کی دلہن لانے کا بھی بہت اَرمان ہوتا ہے۔ جیسے ہی اسامہ کو ایک اچھے ادارے میں جاب ملی تھی، ویسے ہی ان کی بہو لانے کی آرزو بھی بے لگام ہو گئی تھی۔ ان کا بس نہ چلتا تھا کہ کہیں سے کسی پیاری سی لڑکی کو پکڑ کر اس کی دلہن بنا دیں۔ سرخ جوڑا پہنا کر اس کے پہلو میں بٹھا دیں اور دونوں کی خوب خوب بلائیں لیں۔
لیکن یہ آج کیسی بلا نازل ہوئی تھی۔ یہ آج کیسا دن نکلا تھا۔ وہ گھٹ گھٹ کر رو رہی تھیں۔
’کسے بلاؤں، کسے پکاروں؟‘
’اپنے رب کو۔ پکار اپنے رب کو‘ ایک خیال کوندا۔ انھوں نے وضو کر کے مصلّا بچھا لیا۔ ہاتھ پھیلائے وہ بھکاریوں کی طرح بیٹھ گئیں۔ ’یا اللہ تو تو بہت شان والا ہے۔ دینے والا ہے عطا کرنے والا ہے۔‘
وہ اپنے رب سے ہم کلام تھیں۔ ’کتنی مرادوں کے بعد اولاد کی انمول نعمت تو نے مجھے عطا کی تھی۔ اسے واپس لینا تیری شان کے خلاف ہے۔ پروردگار، رحم کر اللہ رحم۔‘ کبھی وہ بولنے لگتیں اور کبھی پتھر کے بت کی طرح بے حس ہو جاتیں، کبھی ہچکیاں بندھ جاتیں اور کبھی آنسو تھم جاتے۔ کبھی سجدے میں گر کر زمین سے لپٹ کر بیٹے کی زندگی کی بھیک مانگنے لگتیں۔
یہ سجدے اپنی لاچارگی کا اظہار تھے۔ یا اللہ میں کچھ نہیں۔ میرا کچھ نہیں۔ نہ جانے کتنی دیر گزری کہ گھنٹی کی آواز پر وہ تڑپ کر اٹھیں۔ قریب جا کر موبائل اُٹھانے کی جرأت نہ ہو رہی تھی۔ انھوں نے یس کا بٹن دبا کر فون کو کانوں سے دور کر لیا۔
’اسپتال آ جاؤ، اسامہ وہیں ہے۔‘ مسعود صاحب کی آواز آئی اور فون بند ہو گیا۔ انھیں بس عبایا پہننے کا ہوش تھا، گھر کے دروازے کھلے چھوڑے وہ اسپتال کی طرف رواں دواں تھیں۔ ایمرجنسی وارڈ میں سینکڑوں کا ازدحام تھا۔ مسعود صاحب پر نظر پڑی اور وہ لڑکھڑاتی ہوئی ان تک پہنچیں۔
’دعا کریں۔‘ ایک جونیئر ڈاکٹر انھیں تسلی دے رہا تھا۔
’وہ ٹھیک ہے، اسے کچھ نہیں ہو گا۔‘ مسعود صاحب بیگم کو ایک طرف لے گئے۔ انھوں نے خالی نگاہوں سے شوہر کو دیکھا پھر وارڈ پر نظر دوڑائی۔ وہاں وہ اکیلی تو نہ تھیں بہت سی تڑپتی مائیں بہنیں بھی تھیں اور اپنوں کے لیے پریشان باپ بھائی اور احباب بھی۔ وہ اٹھیں اور ایک کونے میں مصلّا بچھا کر پھر سے اپنے رب کو منانے لگیں۔
آوازیں غیر مانوس ہو گئی تھیں۔ وہاں تو صرف ایک ہی پکار تھی، اپنے رب کی پکار۔ پہلے سجدے ایسے تو نہ تھے ان میں ایسی تڑپ تو نہ تھی۔
’اسامہ تمہیں بلا رہا ہے ساجدہ۔ اٹھو ہمارا بیٹا بالکل ٹھیک ہے۔ اب وہ خطرے سے باہر ہے۔‘ مسعود نے لمحہ دو لمحہ یا شاید صدیوں بعد ان کا ہاتھ پکڑ کر اتھانا چاہا۔ لہجے کی خوشی اور اطمینان نے ان میں ایک نئی روح پھونک دی۔ وہ ایک بار پھر سجدے میں گر گئیں۔
’یا اللہ تو کتنا کریم ہے بار بار کرم کرنے والا ہے۔ یا اللہ تو کتنا رحیم ہے بار بار رحم کرنے والا ہے۔‘ روتے ہوئے وہ کہہ رہی تھیں۔