خوش و خرم لوگوں کا ملک
ڈنمارک
دوسرا حصہ
چار ملکوں میں بٹا شخص
حماد انٹرنیشنل دوحہ جدید بین الاقوامی ایئر پورٹ ہے۔ اس کی عمارت زگ زیگ (Zig Zag)شکل اور نشیب و فرا ز کی وجہ سے منفرد ہے۔ جہاز تھما تو ہم نے دیکھا کہ رن وے پر قطر ائیر لائن اور دوسری فضائی کمپنیوں کے درجنوں جہاز کھڑے تھے۔ جس سے ایئرپورٹ کی مصروفیت کا اندازہ ہوتا تھا۔
دوحہ ایئرپورٹ کی اس مصروفیت اور بین الاقوامی مسافروں کی قطر میں آمد کی سب سے بڑ ی وجہ قطر ائیر لائن ہے۔ یہ ایئر لائن اتنی معیاری ہے کہ مسافر اسے ترجیح دیتے ہیں۔ چونکہ مختلف بین الا قوامی روٹ پر سفر کرتے ہو ئے قطر ائیر لائن کے مسافر طیا رے قطر میں قیام کر تے ہیں، اس لیے دنیا بھر کے مسا فر دوحہ میں رُکتے اور سیر وسیاحت کر تے ہیں۔ جس سے ملک کو مزید فائدہ ہوتا ہے۔
جب پی آئی اے عروج پر تھی تو سالانہ ہزاروں مسافر کراچی میں قیام کر تے تھے۔ اس دور میں کرا چی کے ہوٹل ، ریستوران اور دیگر سیاحتی ادارے خوب کما تے تھے۔ وہ بھی کیا شاندار وقت تھا۔ جب کراچی صدر میں درجنوں یورپین سیاح گھو متے پھرتے نظر آتے تھے ۔
ایمپیرس مارکیٹ، جہانگیر پارک، مزار ِ قائد، کلفٹن، ہاکس بے، کیماڑی، منوڑہ اور کراچی ایئرپورٹ پر غیر ملکی سیا ح کیمرے اٹھا ئے فوٹوگرافی کر تے دکھائی دیتے تھے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے ایک خواب تھا جو گزر گیا۔
واپس قطر چلتے ہیں جس کے ان دنوں اپنے پڑوسی ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات کشیدہ ہیں۔
جب یہ تعلقات معمول پر تھے تو دوحہ ایئرپورٹ، شہر کے ہوٹل اور اس کے تجارتی مراکز بے انتہا مصروف ہوتے تھے۔ یہ رونق اب قدرے ماند پڑ گئی ہے۔
سعودی عرب اور یو اے ای سے خرابیِِِِ تعلقات کے قطر کی معیشت پر فوری اور منفی اثرات مرتب ہو ئے کیونکہ پڑوسی ملک ہو نے کی وجہ سے قطر کا ان پر انحصار بہت زیادہ تھا۔ جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔
قطر پر ان ملکوں نے پابندیاں نافذ کر دیں تو یہ قطر کے لیے ایک ناگہانی اُفتاد بن کر سا منے آئی۔ تاہم تیل اور گیس کی معدنی دولت سے مالا مال اس چھوٹے سے ملک نے اپنے پاؤں پر کھڑا ہو نے اور خود انحصاری کی زریں منزل کی جانب نہایت سُرعت کے ساتھ پیش قدمی کی۔ اس میں دولت کا بےتحاشا استعمال اور حکومت کی عُمدہ کارکردگی دونوں کا عمل دخل ہے۔ قطر اور یو ای اے کے کشیدہ تعلقات کا اثر ہم جیسے بین الا قوامی مسافروں پر بھی پڑا۔
متحدہ عرب امارات کی فضائی حدود سے ہٹ کر بین الاقوامی سمندر پر لمبا چکر لگا کر دوحہ پہنچنے کی وجہ سے کم از کم ایک اضافی گھنٹہ سفر کرنا پڑا۔ ملکوں کے درمیان کشیدگی یا جنگ کے منفی اثرات پوری دُنیا پر پڑ تے ہیں۔ بعینہٖ اگر خطّے میں امن اور خوشحالی ہو تو اس کے مثبت اثرات اور ثمرات سے نہ صرف اس خطّے بلکہ دُنیا بھر کے انسان مستفید ہو تے ہیں۔
خصوصاً عصر حاضر میں جب دنیا سمٹ کر گلوبل ولیج کی شکل اختیار کر رہی ہے تو جنگ کے مہیب بادل ہوں یا امن کی سنہری دھوپ اس کے اثرات دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل جا تے ہیں۔
یہ سب جاننے اور سمجھنے کے باوجود حضرتِ انسان نے کو ئی سبق نہیں سیکھا۔ فزوں تر روابط اور فاصلوں کے سمٹنے کے باوجود دنیا جنگوں کی لعنت سے چھٹکارا پانے میں ایسے ہی ناکام ہے جیسے جنگل کے دور میں تھی۔ اس معاملے میں انسان نے کوئی ترقی نہیں کی بلکہ مزید تباہی کا سامان پیدا کیا۔ یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے اور امن کی فاختہ کہیں سہمی بیٹھی ہے۔
ہم رات کے ساڑھے گیارہ بجے دوحہ پہنچے تھے۔ جبکہ سڈنی سے ہماری روانگی آغاز شب ہوئی تھی۔ پندرہ گھنٹے سفر کر نے کے بعد قطر پہنچے تو ابھی رات آدھی سے زائد باقی تھی۔ یہ آدھی رات بھی طویل تر تھی کیونکہ ہم سورج کے آ گے آ گے چلے جا ر ہے تھے۔
رات ایک بجے ہم قطر ائیر لا ئن کے اگلے جہاز میں سوار تھے۔ دونوں پروازوں میں فرق یہ تھا کہ پہلا جہاز بہت بڑا تھا اور اس میں مختلف رنگ و نسل کے لوگ سوار تھے۔ جبکہ ڈنمارک جانے والی یہ فلائٹ گوروں سے بھری تھی۔
چند گندمی اور سیاہ فام چہرے بھی تھے۔ ان میں سے ایک ایشیائی نوجوا ن میرے ساتھ براجمان تھا ۔شکل و شباہت سے پٹھان لگتا تھا۔ آغاز میں تو ملیسا کی طرح وہ بھی ہیڈفون سے اُلجھتا رہا۔ جب اُکتایا تو اس کا روئے سخن میری طرف ہو گیا۔
آپ ڈنمارک میں رہتے ہیں کیا ؟ اس نے انگریزی میں پوچھا۔
اُس کی انگریزی اتنی ہی اچھی تھی جتنی میری پشتو۔ اُس کی انگریزی کے جواب میں ، میں نے اُردو میں کہا
نہیں میں سیر کی غرض سے جا رہا ہوں۔
وہ افغانی تھا اور اس کا نام ظاہر خان تھا۔ اُردو سن کر وہ کِھل اُٹھا۔ حالانکہ اُس کی اردو محض گزارے لا ئق تھی جو اُس نے پاکستان میں قیا م کے دوران سیکھی تھی۔ زبانیں اس کی کمزوری تھیں۔ کیونکہ سویڈن‘ جہاں وہ رہتا تھا اور انگریزی جو رابطے کی زبان تھی دونوں اس کی مکمل دسترس میں نہیں تھیں۔
ظاہر خان اُردو سمجھ سکتا تھا مگر اٹک اٹک کر بات کرتا تھا۔ حالانکہ اس وقت جو گا نے وہ سُن رہا تھا وہ بھی اُردو میں تھے۔ باہمی گفتگو سے ظاہر خان کی کہانی معلوم ہو ئی۔
ظاہر خان کا خاندان چار ملکوں ایران، پاکستان، افغانستان اور سویڈن میں بٹا ہوا تھا۔ اس کے والدین ایران ، چچا پاکستان ، ننھیال افغانستان اور بھائی سویڈن میں مقیم تھے۔ وہ چھٹیوں پر گیا تو ایران ، افغانستان اور پاکستان تینوں ملکوں میں عز یز و اقربا سے ملنے گیا۔
ظاہر خان کے دو بھائی اس سے پہلے سویڈن میں پنا ہ لے چکے تھے۔ اب ظاہر خان کی درخواست زیر عمل تھی۔ ظاہر خان اور اس کے بھائی اپنے والدین کو بھی سویڈن میں لانا چاہتے ہیں جبکہ والدین سویڈن کے یخ بستہ موسم سے خوفزدہ تھے۔
ظاہر خان اپنے بھائیوں کے ساتھ ڈنمارک کی سرحد کے قریب سویڈن کے ایک ساحلی شہر کرسٹین سٹیڈ میں رہائش پذیر ہے۔ جہاں ان کی باربر شاپ ہے۔ کرسٹین سٹیڈ سویڈن میں واقع ہو نے کے باوجود کوپن ہیگن کے قر یب ہے۔ اسی لیے ظاہر خان سٹاک ہوم کے بجا ئے کوپن ہیگن جا رہا تھا ۔کوپن ہیگن سے کرسٹین سٹیڈ وہ بذریعہ ٹرین جا رہا تھا جو تقریبا ً دو گھنٹے کی مسافت تھی۔
ظاہر خان سویڈن منتقل ہو نے پر انتہائی مسرور تھا۔ اس کے ساتھ وہ اپنے آبائی ملک افغانستان پر فخر کرتا تھا جو اُس کے پُرکھوں کی سرزمین تھی۔ حالانکہ اُس کی پیدائش ایران میں ہوئی۔ مگر ہوش سنبھالتے ہی اُسے بتایا گیا کہ ایران میں ہم عارضی پناہ گزین ہیں۔
ہمارا اصلی وطن افغانستان ہے۔ ظاہر خان کے والدین ہمہ وقت اپنے وطن کو یاد کر تے تھے۔ اس وجہ سے ظاہر خان کو بھی افغانستان جانے کا اشتیا ق تھا۔ اس کا یہ شوق دس برس کی عُمر میں پورا ہوا جب وہ پہلی مرتبہ والدین کے ساتھ افغانستان گیا۔ اُ س نے بتایا۔
میں نے اپنے وطن کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا اور میرے ذہن میں اس کا خاکہ موجود تھا، مگر افغانستان جا کر مجھے بہت مایوسی ہوئی کیونکہ چند عزیز و اقارب کے علاوہ میری دلچسپی کی کوئی چیز وہاں نہیں تھی۔
اُ جڑے ہو ئے شہر اور بستیاں ، بنیادی سہولتوں سے محروم آبادیاں، مدرسوں اور سڑکوں سے محروم قصبے اور فضا میں خوف و دہشت تھی۔ یہ مناظر دیکھ کر میں اور میرے بہن بھائی تو سراسیمہ تھے ہی، ہمار ے والدین جنہوں نے اس خاک میں آنکھ کھولی تھی وہ بھی ششدر تھے۔
اکیسویں صدی میں جب دُنیا ترقی کے بلند ترین زینے تک رسائی حاصل کر چکی ہے اور اس کے ثمرات سے لوگ اس طرح استفادہ حاصل کر رہے ہیں کہ ان کی زندگیوں میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں، افغانستا ن کے عوام اب بھی پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جان و مال کا تحفظ نہیں کیونکہ وہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔
یہ حالات دیکھ کر ظاہر خان کے والدین بچوں کو لے کر واپس ایران چلے آ ئے جہاں پچھلے چالس برس سے وہ ایک مہاجر کیمپ میں مقیم ہیں۔ یہاں پناہ گزین ہو نے کے باجو د اُنہیں تحفظ اور سکون حاصل ہے جو افغانستان میں عُنقا ہے۔
ان کم بخت جنگوں نے سالہا سال سے دُنیا کے کتنے خطّوں میں بے امنی اور بےسکونی کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ ان کی وجہ سے عوام کا جینا محال ہو چکا ہے۔ افغانستان ، عراق ، شام اور یمن جیسے ملکوں میں ایک سے زیادہ نسلیں جنگوں اور خوف کی فضا میں پروان چڑھ رہی ہیں۔
آ خر کیا قصور ہے ان معصوم بچوں کا جو ان آفت زدہ علاقوں میں جنم لیتے ہیں؟ کیا جُرم ہے ان نوجوانوں کا جو گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور توپوں کی گھن گرج میں پرورش پاتے ہیں؟ کس جرم کی سزا ملتی ہے ان ماؤں کو جن کے لختِ جگر ان جنگوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں؟
سہاگنوں کے سہاگ اُجڑ جا تے ہیں۔ ضعیف والدین کے بڑھاپے کے سہارے، ان کے جوان بیٹے ان کی آنکھوں کے سامنے منوں خاک تلے دفن ہو جا تے ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں میں تو چرند، پرند اور اشجار بھی محفوظ نہیں رہتے۔ وہاں چڑیاں چہکنا بھول جاتی ہیں۔ کوئل کی کُوک اور پیپہا کی پُکار بھی کھو جاتی ہے۔ حتیٰ کی شجر بے برگ و بار اور سرسبز میدا ن بےآب و گیاہ ہو جاتے ہیں۔
مزید ستم یہ ہے کہ عصر حاضر کی جنگوں میں بے گناہ اور معصوم لوگ سب سے زیادہ شکار ہو تے ہیں۔ ان معصوموں کو یہ سزا محض اس لیے ملتی ہے کہ وہ ایک مخصوص خطّے میں جنم لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔
جنگ انسانوں کا انسانوں پر مسلّط وہ قہر ہے جو صدیوں سے نازل ہو رہا ہے اور مستقبل میں بھی اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آ تی۔ جب تک کہ مہذب کہلا نے والا انسان درحقیقت مہذب نہ ہو جائے۔
Click This link to read this article in english
https://shanurdu.com/divided-into-four-countries/