بچی کا اغوا
تحریر ؛جاوید راہی
گھنے جنگل میں بلند و بالا بوڑھے درخت نے اپنے پہلو میں پروان چڑھنے والے نوعمر درخت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، جو اپنے تازہ زخموں سے رسنے والے سفید خون کو اپنے پتوں سے ہوا دیتے درد سے کراہ رہا تھا ۔
کچھ دیر قبل جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کرنے والے ایک ضرورت مند نے اپنی کلہاڑی سے اس نو عمر درخت کی کئی شاخیں اس کے جسم سے کاٹ کر الگ کر ڈالیں تھیں، اگر کسی تمہارے جیسے درخت کی موٹی شاخ کی لکڑی کا دستہ اس لوہے کی کلہاڑی کے پھل میں نہ ہوتا تو تمہارے جسم سے تمہاری شاخیں کبھی الگ نہ ہوتیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر جناب بابر بخت قریشی نے پانچ سالہ لائبہ کے اغوا کیس میں ذاتی طور پر دلچسپی لیتے ہوئے اس کی خصوصی نگرانی اور پیروی کرتے ہوئے اپنے انسپکٹرز حضرات کو فوری طور پر مقدمہ درج کرنے کے احکامات جاری کئے اور پھر تھانہ بی ڈویژن اوکاڑہ کے انسپکٹر انچارج مہر محمد یوسف نے مقدمہ نمبر9/13مورخہ 13-09-2013جرم365-A ت پ A-7ATA کے تحت پانچ سالہ لائبہ کے اغوا برائے تاوان کے نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا ۔
بعد ازاں ان کی گرفتاری بارے پیش آنے والے حالات سے مجھے آگاہ کیا۔ پانچ سالہ لائبہ کے ساتھ ہونے والے واقعات کی داستان نے مجھے دہلا کر رکھ دیا۔ تینوں ملزمان کے نام نقاش ولد امجد قوم راجپوت سکنہ چکنمبر53/2 عاصم ولد ارشاد علی قوم راجپوت سکنہ چک نمبر54/2 ،عاطف ولد ارشاد علی قوم راجپوت سکنہ چک نمبر54/2 نے معصوم لائبہ کو بیس لاکھ روپے تاوان کے بدلے اغوا کیا۔ بعد میں ایک لاکھ روپے کی وصولی کے بدلے میں اسے لاہور داتا دربار پر لا کر بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔
لاہور کے ایک دردمند نے روتی بلکتی معصوم لائبہ کو سنبھالا اور اپنے گھر لے گیا۔ مقامی کیبلز پر اور اخبارات میں بچی کی تصویر اور اشتہار دیا جس کو دیکھ کر پولیس اور ورثاء بچی تک پہنچے۔
یہ سب کچھ کیسے ہوا اور کیوں ہوا ؟ اس کی تفصیل کچھ اس طرح سامنے آئی ۔
تینوں ملزمان میں ایک بچی کا حقیقی رشتہ دار تھا جس کی پلاننگ سے یہ اغوا برائے تاوان کیا گیا ۔ننھی لائبہ اپنے معصوم حوالوں سے بس اتنا جانتی تھی کہ گھر پر کبھی کبھار آنے والا ان کا دور کا رشتہ دار اس سے گُھل مل گیا تھا ۔اسے کیا معلوم کہ اس بے غیرت کے دل میں کیا چل رہا تھا ۔
جب اغوا کار کو مکمل یقین ہو گیا کہ لائبہ اب اس کے اشارے پر گھر سے باہر نکل آتی ہے، تو وہ اسے چوری چھپے ٹافیاں اور کھانے پینے کی اشیاء تھما کر رفو چکر ہو جاتا۔ اور اسے پیار سے کہتا کہ لائبہ ادھر ہی کھا لیا کرو۔ اگر گھر لے کر جاؤ گی تو امی مارے گی ۔
وہ اس کے کہنے پر عمل کرتی اور کبھی اس کے ہمراہ گلی کی نکڑ تک پہنچ جاتی ۔ وہ اسے پیار اور چمکار سے کہتا
اپنے ابو کے پاس چلو گی؟
وہ سر ہلا دیتی ۔ لائبہ کا والد سرحدوں پر اپنے ملک کی حفاظت کر رہا تھا۔ لائبہ کا گھرانا آرمی ملازمین کا تھا ۔دادا ریٹائرڈ ہو کر اب اپنے گھر کی دیکھ بھال کرتا۔ پینشن اور بیٹے کی تنخواہ پر گھر کا نظام چل رہا تھا ۔
اِدھر زَر کے پجاری نے اپنے دو ساتھیوں سے ساز باز کر کے لائبہ کے اغوا برائے تاوان جیسے مکروہ جرم کا پلان تیار کر لیا تھا۔ اب اسے وقت اور موقع کی تلاش تھی ۔ پھر وہ منحوس گھڑی آ گئی۔ لائبہ اپنے گھر کے دروازے کے باہر اکیلی بیٹھی کھیل رہی تھی کہ اغوا کا ماسٹر مائنڈ گلی میں سے گزرا اور ہاتھ میں پکڑی ٹافیاں اس کو دکھا کر اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ۔
لائبہ حسبِ سابق گلی کے کونے تک آئی۔ وہ اسے گود میں اٹھا کر آگے کی جانب چل پڑا۔ کئی گلیوں کے چکر کاٹ کر وہ سڑک کے کنارے کھڑی موٹرسائیکل ، جس پر دو لڑکے پہلے سے موجود تھے، کے پاس آکر رکا ۔ لائبہ کو ان کے سپرد کرتے ہوئے یہ کہتا آگے کی جانب مڑ گیا کہ لائبہ کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر سیر کرا کر گھر پر چھوڑ دینا۔
کیوں لائبہ ٹھیک ہے ؟
بچی نے خوش ہو تے سر ہلا یا ۔ وہ دونوں موٹرسائیکل چلا کر آگے بڑھ گئے۔
ننھی لائبہ دونوں کے درمیان بیٹھی آنے والے حالات سے بے نیاز پہلی بار موٹرسائیکل کے سفر سے لطف اندوز ہو تی پھولے نہیں سما رہی تھی۔ پیچھے بیٹھا دونوں سے کم عمر لڑکا اسے مانوس کرنے
کے لئے کبھی چاکلیٹ ،کبھی ٹافیاں اور اس طرح کی دوسری چیزیں وقفہ وقفہ سے کھلا رہا تھا۔
لائبہ دن بھر ان کے ساتھ موٹر سائیکل پر سفر کرتی رہی۔ شام ڈھلتے پروگرام کے مطابق اغوا کا ماسٹر مائند لائبہ کا قریبی رشتہ دار پتوکی کے ایک چھپر ہوٹل پر کھڑا دونوں کا انتظار کر رہا تھا ۔ جس کا وقفے وقفے بعد موبائل پر دونوں سے رابطہ تھا۔ دونوں لائبہ کو لے کر اس کے پاس آ رکے۔ لائبہ نقاش کی گود میں پڑی بے خبر سو رہی تھی۔
راستے میں کوئی دشواری تو نہیں ہوئی؟ عاطف نے ان سے سوال کیا۔
نہیں دشواری کیا ہونی تھی۔ ہماری پولیس صرف مطلب اور فائدے پر ہی حرکت میں آتی ہے۔ چاہے ان کے قریب سے بم لے کر گزر جاؤ۔ عاصم نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
اچھا چھوڑو ،کتنے پیسے ہیں تمہارے پاس؟
چھ سات ہزار ۔
چلو ٹھیک ہے تم دونوں لائبہ کو لے کر بس کے ذریعے راولپنڈی اور پھر مری جاؤ اور میرا رابطہ تم سے رہے گا۔ یہ لو نئی سِم جو بھی لائبہ کے گھر فون کرو، اس سے کرنا اور پھر اسے موبائل میں سے نکال لینا ۔ میرا رابطہ تم سے مسلسل ہو گا۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں بس میں لائبہ سمیت سوار ہو گئے۔ لائبہ کا رشتہ دار موٹرسائیکل سنبھالتا ہوا واپس پہنچ گیا۔
اُدھر وہ دونوں مری کے تھرڈ کلاس ہوٹل میں لائبہ کے باپ اور انکل کی حیثیت سے کمرا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ دو روز بعد لائبہ کے دادا محمد ایوب کو اپنے موبائل پر کال موصول ہوئی۔
دوسری طرف سے بولنے والے نے لائبہ کی آواز سنائی اورپندرہ لاکھ روپے تاوان کے بدلے بچی واپس کرنے یا پھر اسے قتل کرنے کی دھمکی دی اور پولیس کو بھی خبر نہ کرنے کا حکم دیا۔
لائبہ کے دادا نے تھانہ بی ڈویژن کے ایس ایچ او مہر محمد یوسف کو آنے والی گمنام کال کے بارے آگاہ کیا ۔ لائبہ کی گمشدگی کی رپٹ تو پہلے ہی ریکارڈ تھی۔
اب پولیس کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس طرح سے اغواکاروں کے گرد اپنا حلقہ تنگ کرے کہ اس ننھی لائبہ کی زندگی نہ داؤ پر لگ جائے۔ مہر محمد یوسف نے لائبہ کے دادا کو تاکید کر دی تھی کہ وہ ملزمان سے جو بات بھی کرے، بڑے طریقہ اور عقل سے کرے مگر اسے یہ خبر نہیں تھی کہ پل پل کی خبر رکھنے والا اغوا کا ماسٹر مائنڈ ان کے ارد گرد منڈلا رہا تھا ۔
اسے لائبہ کے گھر والوں کی ہر بات کا علم تھا بلکہ وہ ساتھ مل کر سب کچھ کر رہا تھا۔ لائبہ کے ورثاء کی نگرانی کر رہا تھا ۔ اس نے کہنا تھا اور نقاش اور عاصم نے فون کرنا تھا ،مگر ان کا پولیس سے رابطہ میں رہنے کے باعث عاطف نے ان کو فون کرنے سے منع کر دیا تھا۔ پھر موقع دیکھ کر عاطف نے نقاش وغیرہ کو دوبارہ فون کرنے کا کہا۔
یہ کال رات دو بجے کے بعد لائبہ کے دادا کو موصول ہوئی اور پھر وہی دھمکی ،جس کا ذکر پھر پولیس کو کیا گیا۔ اس بار ایس ایچ او مہر محمد یوسف نے انسپکٹر پولیس ملک طارق اعوان سے رابطہ کیا ۔ طارق اعوان کی تفتیش کا طریقہ کار غیر ملکی پولیس اور ایجنسیوں سے ملتا جلتا تھا۔
انہوں نے بہت سارے جرائم موبائل فون کال ٹریس کر کے بے نقاب کئے تھے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران نے لائبہ کی بازیابی کویقینی بنانے کے لئے اسے بھی مہر محمد یوسف کے ساتھ شامل کر دیا۔ یوں فون کالز کی وساطت سے اغوا کاروں تک رسائی کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ لائبہ کی واپسی کے تاوان کی رقم اب کم ہو کر تین لاکھ پھر ایک لاکھ رہ گئی، جو پولیس پارٹی نے سفید پارچات میں بچی کے لواحقین بن کر اغوا کاروں کے ساتھی کے سپرد کر دی اور انتظار کرنے لگے کہ بچی کب ان کے سپرد ہوتی ہے ؟ مگر پھر کال موصول ہوئی کہ بچی کو مری سے لاہور داتا دربار پہنچا دیا گیا ہے ۔ وہاں سے اسے لے لیں دربار شریف کے باہر ہو گی۔
پولیس اور لائبہ کے گھر والے مری سے لاہور کے لئے چل پڑے ۔ اُدھر اغوا کار تاوان کی رقم لے کر بچی داتا دربار پر بے یار و مددگار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ لائبہ اِدھر اُدھر پھرتی رہی ۔ جب اسے وہ دونوں نقاش اور عاصم کا فی دیر تک نظر نہ آئے تو اس نے رونا شروع کر دیا۔
دربار پر موجود لوگوں کی نظر اس معصوم بچی پر پڑی تو ایک دردِ دل رکھنے والے شخص نے اس بچی کو دربار کے اندر بنی چوکی کے انچارج کے پاس پہنچا دیا۔ جس نے اس کا پتہ وغیرہ اور فون نمبر لینے پر بچی اس کے سپرد کر دی کہ اگر کسی نے رابطہ کیا تو آپ کے پاس بھیج دیں گے۔ لائبہ کو لانے والے شہری نے گھر آتے ہی اس کی تصویر مقامی کیبل اور ایک دو چینل پر چلوا دی یوں لائبہ اپنے گھر پہنچ گئی۔
اُدھر پولیس نے کافی عرق ریزی سے اور فون کالز کے ریکارڈ کے مطابق خریدی گئی اس سم تک رسائی حاصل کر کے عاطف کو قابو کر لیا ۔اسی کی نشاندہی پر دونوں سگے بھائی نقاش اور عاصم بھی قابو آ گئے۔ تاوان میں وصول کی جانے والی رقم سے ستّر ہزار روپے ،موبائل فون اور سم ،موٹرسائیکل و دیگر اغوا کاروں میں استعمال ہونے والی اشیاء برآمد کر کے تینوں ملزمان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں
https://shanurdu.com/true-crime-story/