کالی بھیڑ (La pecora nera)
ایتالو کیلوینو (Italo Calvino)
اردو قالب: قیصر نذیر خاورؔ
ایک ملک ایسا تھا ، جس کا ہر باسی چور تھا۔
اس کا ہر باسی، رات میں تالا شکن اوزار اور اندھے شیشے والی لالٹین لیے گھر سے نکلتا اور اپنے کسی ہمسائے کے گھر میں نقب لگاتا۔
وہ، جب، پَو پھٹتے سمے ، لُوٹا ہوا مال ، لیے اپنے گھر لوٹتا تو اسے پتہ چلتا کہ اس کا اپنا گھر لُٹ چکا ہے۔
یوں سب ایک دوسرے سے جھگڑے بغیر سکون سے رہ رہے تھے۔ کسی کو بھی برا نہ لگتا کہ اس نے ایک بار دوسرے کو لوٹ لیا ہے۔ ایک سے دوسرا لُٹتا ، دوسرے سے تیسرا ، تیسرے سے چوتھا ۔ ۔ ۔ لوٹ کا یہ سلسلہ چلتا رہتا یہاں تک کہ آخری بندہ پھر سے پہلے بندے کو لوٹنا شروع کر دیتا۔
اِس ملک کا سارا کاروبار فریب پر مبنی تھا۔ چاہے بندہ خرید نے والا تھا یا پھر بیچنے والا ۔
اس ملک کی حکومت بھی مجرموں کا ایسا دَل تھا،
جو بنا ہی اس لیے تھا کہ لوگوں کا مال ہتھیا سکے ،
جبکہ لوگ تھے کہ سارا وقت کوشاں رہتے کہ حکومتی دَل کو دغا دے سکیں۔
اس ملک میں سب کی زندگی کسی مشکل کا سامنا کیے بغیر گزر رہی تھی۔
اس کے باسی نہ امیر تھے اور نہ ہی غریب ۔
پھر ایک دن ، نجانے کیسے کیوں اور کہاں سے ، ایک ایماندار شخص اس دیس میں آیا۔
وہ، بجائے اس کے، کہ بوری اور لالٹین لیے نقب زنی کے لیے نکلتا، گھر میں ہی رہتا، سگریٹ پھونکتا اور قصے کہانیاں پڑھتا رہتا۔
جب چور آتے، اس کے گھر میں روشنی دیکھتے تو لوٹ جاتے۔
یہ معاملہ دیر تک نہ چل سکا۔ ایماندار آدمی کو یہ بتا دیا گیا:
”یہ تو ٹھیک ہے، تم بیشک تن آسانی سے رہو لیکن تمہیں دوسروں کے کام میں حارج ہونے کا کوئی حق نہیں۔
تمہاری گھر میں گزاری ہر رات کا مطلب ہے کہ ایک گھر میں فاقہ رہے۔“
ایماندار اپنے دفاع میں کچھ نہ کہہ سکا ۔ ۔ ۔
اور اس نے بھی صبح تک اپنی راتیں، گھر سے باہر گزارنی شروع کر دیں۔
وہ ، لیکن ، خود کو چوری کرنے پر راضی نہ کر سکا۔
بات صرف اتنی تھی کہ وہ ایک ایماندار شخص تھا۔
وہ پُل پر جا کھڑا ہوتا اور نیچے بہتے پانی کو تَکتا رہتا۔
دن چڑھنے پر جب وہ گھر لوٹتا تو اسے پتا چلتا کہ اس کا گھر لُٹ چکا ہے۔
ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ ایماندار شخص کنگال ہو گیا۔
اس کے گھر سے سارا سامان جاتا رہا اور اس کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ بچا۔
وہ کسی دوسرے کو دوشی بھی نہ ٹھہرا سکا کیونکہ دوش تو خود اس کا اپنا تھا۔
اس کی ایمانداری ہی اصل وجہ تھی، جس نے اس ملک کے سارے نظام کی ترتیب توڑ اور توازن بگاڑ دیا تھا۔
وہ لُٹتا رہا لیکن اس نے خود کسی دوسرے کو نہ لُوٹا ۔
یہی کارن تھا کہ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا کہ جب وہ اپنے گھر لوٹتا تو اس کا مال و متاع محفوظ ہوتا ،
جبکہ اس کے گھر ایماندار بندے نے رات میں صفائی کرنی ہوتی تھی۔
جلد ہی اُن لوگوں نے خود کو دوسروں کے مقابلے میں امیر پایا، جن کے گھر لٹنے سے بچ گئے تھے۔ نتیجتاً اُن کا من نہ کیا کہ وہ چوری کریں ۔
وہ جو ایماندار شخص کے گھر چوری کرنے جاتے وہ خالی ہاتھ لوٹتے اور غریب ہوتے گئے کہ اس کے گھر کچھ بھی نہ بچا تھا۔
اس دوران یہ ہوا کہ جو امیر ہو گئے تھے،
انہوں نے بھی ایماندار شخص کی طرح پُل پر جانا اور نیچے بہتے پانی کو تکنا شروع کر دیا اور اِسے اپنی عادت بنا لیا۔
ان کی اس حرکت نے صورت حال میں مزید الجھاؤ پیدا کر دیا، کیونکہ مزید لوگ امیر ہو رہے تھے اور بہت سے دوسرے غریب سے غریب تر ۔
امیروں کو لگا کہ اگر وہ یونہی پُل پر کھڑے راتیں بِتاتے رہے، تو انہوں نے بھی غریب ہو جانا تھا۔ انہوں نے سوچا :
”کیوں نا ہم کچھ غریبوں کو پیسے دیں کہ وہ ہمارے لیے چوری کرنے جائیں؟ “
مُک مکا کیے گئے، معاوضے اور حصے طے کیے گئے۔ اس میں بھی ایک دوسرے کو داؤ لگائے گئے کیونکہ لوگ تو ابھی بھی چور تھے۔
نتیجہ بہرحال یہی نکلا کہ امیر مزید امیر ہوتے گئے اور غریب مزید غریب۔
امیروں میں سے کئی اتنے امیر ہو گئے کہ نہ تو انہیں چوری کرنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی چوری کرانے کے لیے دوسروں کو معاوضہ دینے، لیکن یہ خطرہ موجود تھا کہ اگر وہ چوری سے تائب ہو جائیں تو غربت ان کا مقدر ہوتی ، غریبوں کو بھی اس بات کا پتا تھا۔
انہوں نے، چنانچہ، غریب ترین لوگوں کو،دیگر غریبوں سے اپنے مال و متاع کی حفاظت کے واسطے، رکھوالی کے لیے رکھ لیا۔
پولیس کے جتھے کھڑے ہوئے اور بندی خانے بننے لگے۔
یہ سب ہوا اور پھر ایماندار شخص کی آمد کے چند سال بعد ہی کوئی بھی چوری کرنے یا لُٹ جانے پر بات نہ کرتا۔
بات ہوتی تو بس اتنی کہ وہ کتنے امیر یا غریب تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ اب بھی چور ہی تھے۔
وہاں بس ایک ہی ایماندار آدمی تھا جو جلد ہی فاقہ کشی سے مر گیا تھا۔
جس کا پیش لفظ اس کی بیوہ ایشتھر نے لکھا ۔
ایتالو کیلوینو (Italo Calvino) نے، لیکن ، اِسے 1943 ء تا 1958 کے درمیانی عرصے میں کسی وقت لکھا ہو گا
کیونکہ یہ اِس کتاب میں اُن اکیس حکایات و کہانیوں میں ساتویں نمبر پر ’La pecora nera‘ کے نام سے شامل ہے
جو اِس عنوان تلے موجود ہیں۔
کتاب میں موجود بقیہ تحاریر ’’ کہانیاں اور مکالمے 1968 – 1984‘‘ کے عنوان تلے ہیں۔
انگریزی میں اس مجموعے کا ترجمہ 1996 ء میں ”Numbers in the Dark and Other Stories “ کے نام سے سامنے آیا۔
اسے برطانوی ادیب اور ترجمہ نگار Tim Parks نے انگریزی قالب میں ڈھالا تھا۔
جن میں کچھ الفاظ کا چناؤ فرق ہے۔ جیسے تحریر کے شروع میں ہی ایتالو کیلوینو نے coi grimaldelli e la lanterna cieca کے الفاظ برتے ہیں:
ٹِم پارکس نے grimaldelli کے لئے skeleton key (ماسٹر چابی) برتا ہے، جبکہ ایک اور ترجمے میں اس کے لیے crowbar (کسنی) برتا گیا ہے۔
اسی طرح lanterna cieca کے لیے ٹِم نے shaded lantern برتا ہے، جبکہ دوسرے میں فقط lantern ۔
مجھے اسی لیے اصل اطالوی ٹیکسٹ سے مدد لینی پڑی تاکہ میرا ترجمہ اصل کے قریب تر ہو ۔
1947 ء میں جوزف کونارڈ (Joseph Conrad) پر تھیسس لکھتے ہوئے ’ ٹیورن یونیورسٹی‘ سے گریجویشن کی۔
اس سے قبل وہ مزاحمتی گروپوں میں شامل ہو کر جرمن نازیوں اور اطالوی فاشسٹوں سے لڑتا رہا تھا۔ بعد ازاں وہ مختلف اخباروں اور رسائل میں کام کرتا رہا۔
وہ اٹلی کی کمیونسٹ پارٹی کا سرگرم رکن بھی تھا،
لیکن جب سوویت یونین نے 1956 ء میں ہنگری پر چڑھائی کی تو وہ اس سے الگ ہو گیا۔
1964ء میں اس نے مترجم ایشتھر جوڈتھ سنگر سے ہوانا میں اس وقت شادی کی،
جب وہ اپنی جنم بھومی دیکھنے وہاں گیا تھا۔
تبھی وہ چی گویرا سے بھی ملا تھا۔
اس نے چی گویرا کی موت کے بعد اس پر ایک تعزیتی مضمون بھی لکھا ،
جو 1968 ء میں کیوبا میں تو شائع ہو گیا تھا،
لیکن اٹلی میں یہ 1998 میں ہی شائع ہو سکا۔
وہ اور اس کی بیوی روم میں جا بسے جہاں ان کی بیٹی جیووانا 1965 ء میں پیدا ہوئی۔
اس نے فرانس میں بھی کافی عرصہ گزارا۔
ستمبر 1985 ء میں اس کے دماغ کی نس پھٹی ۔ وہ 18 اور19 ستمبر کی درمیانی شب فوت ہو گیا۔
یہ اس کی بیوی ایشتھر کی مرہون منت تھا۔
ان میں اس کے لیکچر ’Six Memos for the Next Millennium‘ اہم ہیں جو اس نے اپنی موت سے قبل ہارورڈ یونیورسٹی کے لیے لکھے تھے، لیکن اپنی ناگہانی موت کے سبب دے نہ سکا تھا۔
یہ اطالوی میں 1988 ء جبکہ انگریزی میں 1993 ء میں شائع ہوئے۔
یوں اس نے ناول کی صنف کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔
وہ اپنے ناولوں میں بدلتے نقطہ نظر، ’اتفاق‘ یا ’حادثے‘ کی پڑتال، بقائے باہمی اور تبدیلی جیسے موضوعات کا گہرائی سے جائزہ لیتا ہے۔
یہاں میں اس کے ناول ’مخفی شہر‘ سے ایک اقتباس بھی پیش کرتا ہوں:
جب یہ روپ اپنا تنوع یا ہیت کھو بیٹھیں گے تو شہروں کی موت واقع ہونا شروع ہو جائے گی۔ ۔ ۔ ۔‘‘
’ کلوون وِسکائونٹ (The Cloven Viscount ) ، دی بیرن اِن دی ٹری ( The Baron in the Trees ) اور ’ The Nonexistent Knight ‘ اس کی عمدہ مثالیں ہیں ۔
200 مستند لوک کہانیوں کو 1956 ء میں شائع کیا۔
’ ادب کا استعمال‘ (Una pietra sopra: Discorsi di letteratura e società) بھی اس کے اہم مضامین کا مجموعہ ہے،
جو 1980 ء میں اطالوی اور 1986 ء میں انگریزی میں شائع ہوا تھا۔